• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم محمد فیضان اکبر بھائی! یہاں سوال کیجیے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
محترم محمد فیضان اکبر بھائی! یہاں سوال کیجیے۔
السلام علیکم!
میرا تو سوال ہے ہی نہیں۔
میرا ایمان ہے کہ قرآن و حدیث دونوں ہوں گے تو دین مکمل ہے۔
میرا تو سوال ہے کہ قرآن مجید کا معنی و مفہوم روایات کو سامنے رکھ کر کریں گے تو قرآن مجید حاکم کیسے؟ اور پھر قرآن مجید لاریب کیسے؟
میرا تو ایمان ہے یہ عربی زبان میں اس لئے عرب پر نازل ہوا کہ ان کی بول چال بھی اسی طرح کی تھی اور وہ باآسانی اس کو سمجھ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کیوں یہ احکمات نازل کئے اور کیا نازل فرمائے۔
اب سوال یہ آتا ہے کہ ہمارے پاس صحیح بخاری ہے یا اور بہت سے کتابیں ہیں جن میں قول تلاش کرکے لگائے گئے اور ان کو صحین میں شامل کیا گیا جس میں نبی کریم ﷺ کے قول درج ہیں۔
اب ایک کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے قول باتیں احکمات ہدایات شامل ہیں قیامت کے دن تک لوگوں کے لئے رہنمائ۔
اب قرآن کے علاوہ کوئی کتاب لاریب کا درجہ نہیں رکھتی یہ تو سب مانتے ہیں اور جانتے بھی ہیں اور اقرار کرتے ہیں زبان سے لیکن
لیکن
جب اس پر عمل کی باری آتی ہے کہ یہ حاکم اور لاریب ہے تو اسی وقت روایات کی کتابیں سامنے رکھتے ہیں جن کا کوئی یہ اقرار نہیں کرتا کہ صحیح بخاری لاریب ہے صرف یہ کہا جاتا ہے صحین ہے۔
اس کو سامنے رکھ کر ترجمے اور معنی اور مفہوم نکالئے جاتے ہیں کیا یہ منافقت نہیں؟کہاں گئی قرآن مجید کی حاکمیت اور کہاں گئی لاریبیت؟
میرا صرف ایک مقصد یہ کہ قرآن کی شان کو پہچاننے کے لئے قرآن مجید کی آیات کا ہی سہارا لیا جائے جہاں تک ممکن ہو اگرقرآن مجید واضح واضح جواب دے اورکوئی روایت اس کے متن معنی و مفہوم کے مخالف ہو اسے رد کیا جائے یہ ہے شان قرآن مجید کی۔
شکریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم!
میرا تو سوال ہے ہی نہیں۔
میرا ایمان ہے کہ قرآن و حدیث دونوں ہوں گے تو دین مکمل ہے۔
میرا تو سوال ہے کہ قرآن مجید کا معنی و مفہوم روایات کو سامنے رکھ کر کریں گے تو قرآن مجید حاکم کیسے؟ اور پھر قرآن مجید لاریب کیسے؟
میرا تو ایمان ہے یہ عربی زبان میں اس لئے عرب پر نازل ہوا کہ ان کی بول چال بھی اسی طرح کی تھی اور وہ باآسانی اس کو سمجھ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے کیوں یہ احکمات نازل کئے اور کیا نازل فرمائے۔
اب سوال یہ آتا ہے کہ ہمارے پاس صحیح بخاری ہے یا اور بہت سے کتابیں ہیں جن میں قول تلاش کرکے لگائے گئے اور ان کو صحین میں شامل کیا گیا جس میں نبی کریم ﷺ کے قول درج ہیں۔
اب ایک کتاب ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے قول باتیں احکمات ہدایات شامل ہیں قیامت کے دن تک لوگوں کے لئے رہنمائ۔
اب قرآن کے علاوہ کوئی کتاب لاریب کا درجہ نہیں رکھتی یہ تو سب مانتے ہیں اور جانتے بھی ہیں اور اقرار کرتے ہیں زبان سے لیکن
لیکن
جب اس پر عمل کی باری آتی ہے کہ یہ حاکم اور لاریب ہے تو اسی وقت روایات کی کتابیں سامنے رکھتے ہیں جن کا کوئی یہ اقرار نہیں کرتا کہ صحیح بخاری لاریب ہے صرف یہ کہا جاتا ہے صحین ہے۔
اس کو سامنے رکھ کر ترجمے اور معنی اور مفہوم نکالئے جاتے ہیں کیا یہ منافقت نہیں؟کہاں گئی قرآن مجید کی حاکمیت اور کہاں گئی لاریبیت؟
میرا صرف ایک مقصد یہ کہ قرآن کی شان کو پہچاننے کے لئے قرآن مجید کی آیات کا ہی سہارا لیا جائے جہاں تک ممکن ہو اگرقرآن مجید واضح واضح جواب دے اورکوئی روایت اس کے متن معنی و مفہوم کے مخالف ہو اسے رد کیا جائے یہ ہے شان قرآن مجید کی۔
شکریہ
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
میرا تو سوال ہے ہی نہیں۔
آپ کا سوال نہیں ہے تو آپ ہماری بات اور موقف کیسے سمجھیں گے؟

چلیں میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں۔ ہم بات آپس میں گفتگو کے انداز میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کریں گے۔
آپ کہتے ہیں کہ قرآن مجید لاریب ہے۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں اور اس کے علاوہ ہر کتاب میں کچھ نہ کچھ شک ہے۔ اتنی بات تو درست ہے۔ لیکن کیا اس کے "لاریب" ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کا معنی و مفہوم بھی صرف اسی سے سمجھا جائے گا؟
میں مثال سے اپنی بات کو واضح کرتا ہوں: "ذلک الکتاب لاریب فیہ"۔ یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ ان لوگوں کی بات چھوڑیے جن کے زمانے میں قرآن کریم اترا تھا، وہ گزر گئے۔ آج آپ کو اور مجھے اگر صرف اس ایک آیت کا معنی سمجھنا ہو اور ہمارے پاس نہ کوئی ترجمہ قرآن ہو اور نہ ہی کوئی لغت (یعنی ڈکشنری) اور عربی گرائمر کی کتاب، تو کیا ہم اس کا ترجمہ کر سکتے ہیں؟؟ ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ ہماری کیا آج کے عرب کی بھی زبان نہیں ہے۔
اب اگر ہم کسی کے کیے ہوئے ترجمے یا کسی ڈکشنری اور گرائمر کی کتاب کا سہارا لے کر اس سے اس کو سمجھتے ہیں تو لاریب کتاب تو صرف قرآن ہے۔ لوگوں کا کیا ہوا ترجمہ اور ڈکشنریاں تو شک سے بالکل بھی خالی نہیں۔ تو کیا ہم یہ ترجمہ دیکھنے والا کام غلط کریں گے؟
اور اگر ہم ترجمہ یا ڈکشنری اور گرائمر کو شک کی وجہ سے نہیں دیکھتے تو پھر ہمارے پلے تو صرف عربی کے الفاظ رہ جائیں گے۔ ان سے ہم کیا سمجھیں گے؟
اتنی بات کا جواب دیجیے گا۔

میرا صرف ایک مقصد یہ کہ قرآن کی شان کو پہچاننے کے لئے قرآن مجید کی آیات کا ہی سہارا لیا جائے جہاں تک ممکن ہو اگرقرآن مجید واضح واضح جواب دے اورکوئی روایت اس کے متن معنی و مفہوم کے مخالف ہو اسے رد کیا جائے یہ ہے شان قرآن مجید کی۔
نبی کریم ﷺ کے بارے میں اللہ تعالی نے جو صفات قرآن کریم میں بیان کی ہیں ان میں یہ ہیں "ربنا و ابعث فيهم رسولا منهم يتلو عليهم آياتك و يعلهم الكتاب و الحكمة و يزكيهم"۔ یہ سورہ بقرہ کی آیت 129 ہے اور اس میں حضرت ابراہیمؑ کی دعا مذکور ہے:
"اے ہمارے رب ان میں ایک ایسا رسول بھیجیے جو ان پر آپ کی آیات تلاوت کرے اور انہیں کتاب سکھائے اور حکمت اور ان کی صفائی (تزکیہ) کرے۔"
یہ دعا حضرت نبی کریم ﷺ کی صورت میں پوری ہوئی۔
دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ اس میں پہلے آیات کی تلاوت کا ذکر ہے تو یہ تو ہوگئیں قرآن کریم کی آیات۔ پھر اس کے بعد کتاب کو سکھانے کا ذکر ہے۔ یہ بھلا کیا ہے؟ جب قرآن عرب کی اسی زمانے کی زبان میں تھا تو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے نا کہ نبی کریم ﷺ انہیں الف باء تاء سے قرآن کریم سکھاتے تھے۔ وہ تو ان کو ویسے ہی سمجھ آ جاتا ہوگا۔ تو پھر کتاب کو سکھانا کیا چیز ہے؟
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب کو سکھانا اس کا اصل معنی اور مفہوم سمجھانا ہے۔ ورنہ متن والا معنی تو سب کو ویسے ہی سمجھ میں آ جاتا تھا۔ اس کو سکھانے کی کیا ضرورت تھی؟
تو ہمیں پتا یہ چلا کہ قرآن کریم کے سمجھنے میں دو چیزیں ہیں: ایک آیات قرآن اور دوسری اس کا معنی اور مفہوم جو نبی کریم ﷺ نے تعلیم فرمایا۔

اب یہاں ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تو معنی اور مفہوم سمجھا دیا تھا لیکن ہو سکتا ہے کہ بعد والوں سے غلط فہمی اور بھول چوک ہو گئی ہو اور اسی لیے روایات اور اقوال میں اختلافات ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ آیات قرآن ہم تک کیسے پہنچیں؟ ہم میں سے کتنوں نے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ کا تحریر کردہ قرآن کریم دیکھا ہے؟ ظاہر ہے کسی نے بھی نہیں۔ آپ تو کرواتے ہی املاء تھے یعنی آپ بتاتے اور دوسرے لکھتے تھے۔ وہ لکھوایا ہوا بھی کتنوں نے دیکھا ہے؟ وہ بھی کسی نے نہیں دیکھا۔
تو ہم تک قرآن پہنچا کیسے؟؟؟ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ نبی کریم ﷺ سے سیکھنے والوں اور ان سے ان کے بعد والوں کے ذریعے۔ تو مجھے بتائیے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ بعد والے جب قرآن کی آیات ہم تک پہنچائیں تو ان میں تو کوئی شک نہ ہو اور جب اس کی تعلیم پہنچائیں تو اس میں اتنا شک ہو کہ ہم اسے شک کی وجہ سے چھوڑ دیں؟؟
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تو بہت کم احکامات ہیں۔ اکثر واقعات ہیں۔ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رض کو آیات قرآنی بھی سکھاتے تھے اور وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق انہیں اس کا مفہوم بھی سمجھاتے تھے۔ چونکہ قرآن کریم کا تو معجزہ ہی یہ ہے کہ یہ انتہائی بلاغت والی کتاب ہے اور عرب کی بلاغت میں ایک خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ وہ کم بات کر کے زیادہ سے زیادہ مفہوم نکالا کرتے تھے۔ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی بھی ایک ایک آیت سے کئی مسائل حل ہوتے ہیں جو نبی کریم ﷺ موقع کی مناسبت سے صحابہ کرام رض کو سمجھاتے رہتے تھے۔ سارے صحابہ تو ہر وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتے تھے۔ وہ دنیا کے کام بھی کرتے تھے۔ جس صحابی رض کو آپ ﷺ جو سمجھاتے تھے وہ اسے محفوظ کر لیتے تھے۔
جب نبی کریم ﷺ دنیا سے رحلت فرما گئے تو ان صحابہ کرام رض نے اپنا اپنا سمجھا ہوا مفہوم آگے والوں کو صاف صاف سمجھا دیا اور یہ نہیں سوچا کہ فلاں بڑا آدمی تو اس مفہوم کو اس طرح بیان کر رہا ہے اور میں یہ کر رہا ہوں۔ انہوں نے امانت کا حق ادا کر دیا۔
اس لیے تفسیر کی روایات میں اختلاف ہو گیا۔ حقیقت اکثر یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی آیت کے تمام مفہوم صحیح ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر آیت قرآنی "ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکہ" کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ آپ نے خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے بارے میں یہ فرمایا، یا ایک جماعت جو خود کو جلا رہی تھی ان کے بارے میں یہ فرمایا یا مال کو ہلاک کرنے کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس آیت سے یہ کام منع ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ہر قسم کی ہلاکت کے بارے میں یہ آیت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تو اس وقت موجود حالت کے حساب سے صحابہ کرام رض کو یہ بتایا کہ اللہ پاک نے یہ فرمایا ہے اور اس میں یہ مخصوص ہلاکت بھی شامل ہے اس لیے یہ کام نہیں کرو۔ اب جس نے جس موقع پر آپ کی بات سنی اس نے اسی کو نقل کر دیا۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آپ کا سوال نہیں ہے تو آپ ہماری بات اور موقف کیسے سمجھیں گے؟

چلیں میں پھر بھی کوشش کرتا ہوں۔ ہم بات آپس میں گفتگو کے انداز میں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کریں گے۔
آپ کہتے ہیں کہ قرآن مجید لاریب ہے۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں اور اس کے علاوہ ہر کتاب میں کچھ نہ کچھ شک ہے۔ اتنی بات تو درست ہے۔ لیکن کیا اس کے "لاریب" ہونے کا یہ مطلب ہے کہ اس کا معنی و مفہوم بھی صرف اسی سے سمجھا جائے گا؟
میں مثال سے اپنی بات کو واضح کرتا ہوں: "ذلک الکتاب لاریب فیہ"۔
یہ قرآن کریم کی آیت ہے۔ ان لوگوں کی بات چھوڑیے جن کے زمانے میں قرآن کریم اترا تھا، وہ گزر گئے۔ آج آپ کو اور مجھے اگر صرف اس ایک آیت کا معنی سمجھنا ہو اور ہمارے پاس نہ کوئی ترجمہ قرآن ہو اور نہ ہی کوئی لغت (یعنی ڈکشنری) اور عربی گرائمر کی کتاب، تو کیا ہم اس کا ترجمہ کر سکتے ہیں؟؟ ظاہر ہے کہ نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ ہماری کیا آج کے عرب کی بھی زبان نہیں ہے۔
اب اگر ہم کسی کے کیے ہوئے ترجمے یا کسی ڈکشنری اور گرائمر کی کتاب کا سہارا لے کر اس سے اس کو سمجھتے ہیں تو لاریب کتاب تو صرف قرآن ہے۔
لوگوں کا کیا ہوا ترجمہ اور ڈکشنریاں تو شک سے بالکل بھی خالی نہیں۔ تو کیا ہم یہ ترجمہ دیکھنے والا کام غلط کریں گے؟
اور اگر ہم ترجمہ یا ڈکشنری اور گرائمر کو شک کی وجہ سے نہیں دیکھتے تو پھر ہمارے پلے تو صرف عربی کے الفاظ رہ جائیں گے۔ ان سے ہم کیا سمجھیں گے؟
اتنی بات کا جواب دیجیے گا۔


نبی کریم ﷺ کے بارے میں اللہ تعالی نے جو صفات قرآن کریم میں بیان کی ہیں ان میں یہ ہیں "ربنا و ابعث فيهم رسولا منهم يتلو عليهم آياتك و يعلهم الكتاب و الحكمة و يزكيهم"۔ یہ سورہ بقرہ کی آیت 129 ہے اور اس میں حضرت ابراہیمؑ کی دعا مذکور ہے:
"اے ہمارے رب ان میں ایک ایسا رسول بھیجیے جو ان پر آپ کی آیات تلاوت کرے اور انہیں کتاب سکھائے اور حکمت اور ان کی صفائی (تزکیہ) کرے۔"
یہ دعا حضرت نبی کریم ﷺ کی صورت میں پوری ہوئی۔
دیکھنے کی چیز یہ ہے کہ
اس میں پہلے آیات کی تلاوت کا ذکر ہے تو یہ تو ہوگئیں قرآن کریم کی آیات۔ پھر اس کے بعد کتاب کو سکھانے کا ذکر ہے۔ یہ بھلا کیا ہے؟ جب قرآن عرب کی اسی زمانے کی زبان میں تھا تو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے نا کہ نبی کریم ﷺ انہیں الف باء تاء سے قرآن کریم سکھاتے تھے۔ وہ تو ان کو ویسے ہی سمجھ آ جاتا ہوگا۔ تو پھر کتاب کو سکھانا کیا چیز ہے؟
ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کتاب کو سکھانا اس کا اصل معنی اور مفہوم سمجھانا ہے۔ ورنہ متن والا معنی تو سب کو ویسے ہی سمجھ میں آ جاتا تھا۔ اس کو سکھانے کی کیا ضرورت تھی؟

تو ہمیں پتا یہ چلا کہ قرآن کریم کے سمجھنے میں دو چیزیں ہیں: ایک آیات قرآن اور دوسری اس کا معنی اور مفہوم جو نبی کریم ﷺ نے تعلیم فرمایا۔

اب یہاں ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تو معنی اور مفہوم سمجھا دیا تھا لیکن ہو سکتا ہے کہ بعد والوں سے غلط فہمی اور بھول چوک ہو گئی ہو اور اسی لیے روایات اور اقوال میں اختلافات ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ آیات قرآن ہم تک کیسے پہنچیں؟
ہم میں سے کتنوں نے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ کا تحریر کردہ قرآن کریم دیکھا ہے؟ ظاہر ہے کسی نے بھی نہیں۔ آپ تو کرواتے ہی املاء تھے یعنی آپ بتاتے اور دوسرے لکھتے تھے۔ وہ لکھوایا ہوا بھی کتنوں نے دیکھا ہے؟ وہ بھی کسی نے نہیں دیکھا۔
تو ہم تک قرآن پہنچا کیسے؟؟؟ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے کہ نبی کریم ﷺ سے سیکھنے والوں اور ان سے ان کے بعد والوں کے ذریعے۔ تو مجھے بتائیے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ یہ بعد والے جب قرآن کی آیات ہم تک پہنچائیں تو ان میں تو کوئی شک نہ ہو اور جب اس کی تعلیم پہنچائیں تو اس میں اتنا شک ہو کہ ہم اسے شک کی وجہ سے چھوڑ دیں؟؟
اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں تو بہت کم احکامات ہیں۔ اکثر واقعات ہیں۔ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رض کو آیات قرآنی بھی سکھاتے تھے اور وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق انہیں اس کا مفہوم بھی سمجھاتے تھے۔ چونکہ قرآن کریم کا تو معجزہ ہی یہ ہے کہ یہ انتہائی بلاغت والی کتاب ہے اور عرب کی بلاغت میں ایک خصوصیت یہ ہوتی تھی کہ وہ کم بات کر کے زیادہ سے زیادہ مفہوم نکالا کرتے تھے۔ تو ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی بھی ایک ایک آیت سے کئی مسائل حل ہوتے ہیں جو نبی کریم ﷺ موقع کی مناسبت سے صحابہ کرام رض کو سمجھاتے رہتے تھے۔ سارے صحابہ تو ہر وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوتے تھے۔ وہ دنیا کے کام بھی کرتے تھے۔ جس صحابی رض کو آپ ﷺ جو سمجھاتے تھے وہ اسے محفوظ کر لیتے تھے۔
جب نبی کریم ﷺ دنیا سے رحلت فرما گئے تو ان صحابہ کرام رض نے اپنا اپنا سمجھا ہوا مفہوم آگے والوں کو صاف صاف سمجھا دیا اور یہ نہیں سوچا کہ فلاں بڑا آدمی تو اس مفہوم کو اس طرح بیان کر رہا ہے اور میں یہ کر رہا ہوں۔ انہوں نے امانت کا حق ادا کر دیا۔
اس لیے تفسیر کی روایات میں اختلاف ہو گیا۔
حقیقت اکثر یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی آیت کے تمام مفہوم صحیح ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر آیت قرآنی "ولا تلقوا بایدیکم الی التہلکہ" کے بارے میں مختلف روایات ہیں کہ آپ نے خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے بارے میں یہ فرمایا، یا ایک جماعت جو خود کو جلا رہی تھی ان کے بارے میں یہ فرمایا یا مال کو ہلاک کرنے کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس آیت سے یہ کام منع ہے۔ درست بات یہ ہے کہ ہر قسم کی ہلاکت کے بارے میں یہ آیت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے تو اس وقت موجود حالت کے حساب سے صحابہ کرام رض کو یہ بتایا کہ اللہ پاک نے یہ فرمایا ہے اور اس میں یہ مخصوص ہلاکت بھی شامل ہے اس لیے یہ کام نہیں کرو۔ اب جس نے جس موقع پر آپ کی بات سنی اس نے اسی کو نقل کر دیا۔
السلام علیکم!
میرے محترم بھائی۔آپ نے جو کچھ کہا بہت خوب کہا لیکن اس میں بے شمار اعتراض کرنے والی باتیں ہیں جو میں آپ سے تفصیل کے ساتھ بیان کروں گا ٹائم نکال کر ان شائ اللہ اگر اللہ نے موقع دیا ۔
شکریہ۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
آپ کے تمام جوابات
کتاب کا نام۔ جمعُ القرآن میں واضح ہیں۔
مصنف۔علامہ تمنا عمادی مجیبی پھلوروی ۔
الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ(رجسٹرڈ)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ہر شخص ہو ہدایت دے جو ہدایت حاصل کرنا چہتا ہو۔
اس کتاب میں دلیلوں سے واضح کیا گیا ہے اور تبصرہ کیا گیا ہے قرآن مجید کو جمع کرنے والی روایت کے بارے میں۔
شکریہ
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
السلام علیکم یہ اس کتاب کا ایک پیج ہے۔دیکھیں۔
 

اٹیچمنٹس

  • 610.1 KB مناظر: 748
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
یہ ایک دوسرا پیج ہے اس کو بھی دیکھیں اور اس کتاب میں پوری تحقیق ہے جناب
علامہ تمنا عمادی مجیبی پھلوروی کی۔
 

اٹیچمنٹس

  • 656.3 KB مناظر: 1,033

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
لیکن اس میں بے شمار اعتراض کرنے والی باتیں ہیں جو میں آپ سے تفصیل کے ساتھ بیان کروں گا ٹائم نکال کر ان شائ اللہ اگر اللہ نے موقع دیا ۔
آپ فورم کو دیا جانے والا ’ مکمل ٹائم ‘ اسی تھریڈ میں صرف کریں ۔ تاکہ آپ کی خلش دور ہو ، پورے فورم پر الجھتے پھرنے سے بہتر ایک جگہ ہی کھل کر بول لیں ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم!
آپ کے تمام جوابات
کتاب کا نام۔ جمعُ القرآن میں واضح ہیں۔
مصنف۔علامہ تمنا عمادی مجیبی پھلوروی ۔
الرحمن پبلشنگ ٹرسٹ(رجسٹرڈ)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ہر شخص ہو ہدایت دے جو ہدایت حاصل کرنا چہتا ہو۔
اس کتاب میں دلیلوں سے واضح کیا گیا ہے اور تبصرہ کیا گیا ہے قرآن مجید کو جمع کرنے والی روایت کے بارے میں۔
شکریہ
وعلیکم السلام
اگر آپ کی تحقیق یہیں تک پہنچتی ہے صرف تو پھر آپ راہ راست کیسے ڈھونڈیں گے؟ اگر آپ ہر چیز کا جواب صرف تمنا عمادی کی کتب میں ہی ڈھونڈیں گے اور نہ دوسری کتب کو دیکھیں گے اور نہ ہی اپنی عقل کا استعمال کریں گے تو پھر تو آپ ان ہی کے نظریے پر ہی چلیں گے۔ بہر حال آپ تمنا عمادی صاحب کو اگر محقق سمجھتے ہیں تو صرف اتنا عرض کر دوں کہ جناب تمنا عمادی دنیا کو اپنی نظر سے دیکھا کرتے تھے۔ جو ان کی عقل کے خلاف ہوتا اس کے خلاف دلائل تلاش کرتے۔ چنانچہ "سبعہ عشرہ اختلاف قراءات اور قراء حضرات" میں تمنا صاحب نے ابتدا میں پورا زور اس بات پر لگایا ہے کہ قرآن کریم میں نقطے ابتداء سے ہی تھے۔ ایک جگہ سے ان کی تحریر کاپی کر رہا ہوں، پڑھتے جائیے:

"مودودی صاحب نے "باقاعدہ علمی طریقے ” پر یہ "عالمانہ تحقیقی” جواب دیا ہے اور اس کے بعد ہی ان دو تاریخی حقیقتوں کو نگاہ میں رکھ کر دیکھنے کی فرمائش کی ہے مگر مودودی صاحب یا ان ہی قسم کے اگلے مصنفین کے صرف اپنی کتابوں میں لکھ دینے سے تو کوئی خلاف عقل بات "تاریخی حقیقت” نہیں بن سکتی جو بات سراسر بے حقیقت ہو وہ "تاریخی حقیقت” کس طرح بن سکتی ہے۔ جو چیز آنکھوں میں کھٹکنے لگے وہ نگاہوں میں کس طرح رکھ لی جائے ؟ مودودی صاحب اور ان "تاریخی حقیقتوں” کے اپنی کتابوں میں درج کرنے والوں کو کچھ تو سوچنا تھا کہ "یہ حقیقتیں” واقعی کچھ حقیقت بھی رکھتی ہیں یا نہیں ؟ کیا روایت پرستی عقل کو اس طرح اندھا کر دیتی ہے کہ بدیہی بات بھی روایت پرستوں کو نہیں سوجھتی ہے ؟ ہر صاحب عقل و ایمان سے میری التجا ہے کہ اللہ کی رضا کے لئے ذرا غور کیجئے۔ ب۔ ت۔ ث۔ ج۔ خ۔ د۔ ذ۔ ر۔ ز۔ س۔ ش۔ ص۔ ض۔ ط۔ ظ۔ ع۔ غ۔ ف۔ ق۔ ن۔ ی۔ عربی زبان کے 28 حروف تہجی میں سے یہ بائیس حروف تہجی ایسے ہیں جن میں امتیاز نقطوں ہی کے ہونے نہ ہونے یا اوپر نیچے ہونے یا کم و بیش ہونے کی وجہ سے ممکن ہے واضع حروف نے جس دن ان حرفوں کو وضع کیا تھا۔
اگر اسی دن اسی وقت نقطے بھی ایجاد نہیں کئے تھے اور نقطوں ہی ذریعے ان میں امتیاز نہیں رکھا تھا اس نے یہ بائیس ہمشکل حروف وضع ہی کیوں کئے تھے ؟ کیا وہ مختلف نقوش ایجاد نہیں کر سکتا تھا ؟ "با” کو دیکھئے کہ اس کو با، تا، ثا، نا اور یا صرف نقطوں ہی کے فرق سے پانچ طریقے سے پڑھ سکتے ہیں۔ "حا ” کو جا، حا، خا تین طریقے سے۔ باقی چودہ حروف کو دو دو طریقے سے۔اگر نقطوں کا فرق واضع نے وضع کے وقت ہی نہیں رکھا تھا تو یقیناً وہ واضع ہی دیوانہ تھا۔فقط واضع ہی نہیں ساری قوم دیوانی تھی کہ کبھی کسی نے زبان کی اس تحریری گمراہ کن خامی کی توجہ نہ کی۔ اور اپنی رسم خط کی اس بدترین خرابی کو دور کرنے کی ضرورت کسی شخص نے کبھی محسوس نہ کی۔ خدا جانے شعرائے جاہلیت جو اپنے قصائد سو سو اور ڈیڑھ ڈیڑھ سو شعروں کے لکھ لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا دیا کرتے تھے ان کے پڑھنے والے ان کو کس طرح پڑھتے تھے ؟ امراء القیس کا شہرہ آفاق قصیدہ جو سبعہ معلقہ کا پہلا معلقہ ہے اس کا یہ شعر
وقد اغتدی والمطیرنی وکناتھا
بمنجرد قید الا و ابد ھیکل
میں صبح کرتا ہوں ایسی ساعت میں کہ پرندے اپنے گھونسلوں میں ہوتے ہیں۔ اپنے اونچے گھوڑے کے ساتھ جو وحشی جانوروں کو گھیر کر قید میں رکھ لیتا ہے۔
کیا کسی نے اس کو وقد اغتذی بھی پڑھا تھا؟ یعنی میں اس وقت غذا کرتا ہوں جب پرندے اپنے گھونسلوں میں ہوتے ہیں اپنے گھوڑے کے ساتھ، الخ۔یعنی خود بھی اسی وقت کھاتا ہوں اور اپنے گھوڑے کو بھی اسی وقت کھلاتا ہوں۔
"
اس کے بعد اور بھی کئی عقلی دلائل دیے ہیں۔ لیکن کیا کسی بات کو مناطقہ کے سے انداز اور دلائل سے مزین کرنے سے وہ درست ہو جاتی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ چنانچہ آج ہمارے پاس نبی کریم ﷺ کے خطوط موجود ہیں جو آپ نے مختلف بادشاہوں کو تحریر کروائے تھے اور ان میں کوئی نقطہ نہیں ہے۔برمنگھم یونیورسٹی میں موجود قرآن کریم کے مبینہ طور پر سب سے قدیم نسخے (جو حضرت ابو بکر رض کے دور کا بتایا جاتا ہے) میں بھی نقطے مکمل نہیں ہیں بلکہ بہت کم ہیں اور یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ بہت کم نقطے جو موجود ہیں، بعد میں ڈالے گئے ہیں یا اسی وقت تھے۔ تمنا عمادی صاحب کے سارے دلائل اس حقیقت کے سامنے بے کار ہو جاتے ہیں۔
اور آپ ایسے محقق کی کتاب پڑھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تحقیق کے اعلی پیمانے پر ہوگی اور اس کی تمام باتیں درست ہوں گی تو آپ کی یہ سوچ غلط ہی ہو سکتی ہے۔

بہرحال آپ کے ممدوح تمنا عمادی صاحب اسی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:

تمنا عرض کرتا ہے کہ
یہ حقیر ناقد بھی منکر حدیث نبوی نہیں۔ جو محدثین کے متفقہ اصول کے مطابق صحیح ثابت ہو اس حدیث کو میں واجب الاتباع سمجھتا ہوں۔ البتہ جامعین احادیث رحمہ اللہ کی مجلدات میں جتنی حدیثیں مسطور ہیں سب کو قرآن مجید کے ساتھ مثلہ، معہ، نہیں مانتا نہ راویوں کو جبریل سمجھتا ہوں اور نہ روایات کو آیات منزل من اللہ۔ اور میرے دین میں تقیہ و کتمان جائز نہیں ہے اس لئے میں اپنا عقیدہ کبھی نہیں چھپاتا۔ اور (ان المنافقین فی الدرک الاسفل من النار:4:145) پر میرا ایمان ہے۔
کیا آپ بھی محدثین کے متفقہ اصول کے مطابق صحیح ثابت ہونے والی احادیث کو واجب الاتباع سمجھتے ہیں؟؟؟ ایسا ہے تو پھر کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ہے۔ احادیث کو قرآن مجید کے ساتھ مثلہ، معہ تو ہم بھی نہیں سمجھتے اور نہ ہی راویوں کو جبریل سمجھتے ہیں۔ اس بات کی میں پھر وضاحت کرتا ہوں۔
ہاں اگر آپ ان احادیث کو واجب الاتباع نہیں سمجھتے تو پھر الگ بات ہے۔
 
Top