• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم!
دوبارہ سوال کرتا ہوں اس کا جواب مطلوب ہے ۔ شکریہ۔
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔ سلامتی ہو ان پر جو حق آنے پر اسے تسلیم کرتے ہیں اور باطل کا واضح انکار کرتے ہیں اور اللہ سے اپنی لغزرشوں ،غلطیوں،گناہوں کی معافی بھی مانگتے ہیں۔۔۔۔۔

میرا دوبارہ سوال جس کا جواب ابھی تک نہیں دیا جا رہا ۔۔ادھر اودھر کی باتوں کے علاوہ ۔۔جواب بھی دینا چاہئے آپ سب کو متفق اور غیر متفق کا بٹن دبانے سے کچھ نہیں ہوتا یہاں سامنے بات کریں دلائل دیں شکریہ۔۔۔۔

حدیث کے تناظر میں جو میں کوڈ کر چکا کیا صرف نبی کریم ﷺ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کئے گئے؟
کیا پیغمبر بھی اپنی لغزرشوں کی وجہ سے قیامت کے دن رنج،دھک درد میں مبتلہ ہوں گے جبکہ اللہ نے تمام لغزرشیں معاف فرما دیں اور اللہ تعالیٰ راضی بھی ہوا اور ان پیغمبروں سے خوش بھی ہوا؟
سورۃ البقرہ 2۔جو لوگ اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر احسان نہیں جتاتے ، نہ دکھ دیتے ہیں ، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی رنج اور خوف کا موقع نہیں۔(262)
سورۃ البقرہ 2۔ہم نے کہا کہ ’’ تم سب یہاں سے اُتر جائو ۔ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے ، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا ۔‘‘ (38)
سورۃ المائدہ5۔مسلمان ہوں یا یہودی ، صابی ہوں یا عیسائی ، جو بھی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا بے شک اس کے لیے نہ کسی خوف کا مقام ہے نہ رنج کا ۔(69)
سورۃ یونس10۔سنو ! جو اللہ کے دوست ہیں ، جو ایمان لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ، (62)ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔(63)دنیا اورآخرت دونوں زندگیوں میں ان کے لیے بشارت ہی بشارت ہے۔ اللہ کی باتیں بدل نہیں سکتیں۔ یہی بڑی کامیابی ہے ۔(64)
سورۃ التوبہ 9۔کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجدِ حرام کی مجاوری کرنے کو اُس شخص کے کام کے برابر ٹھہرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخر پر اور جس نے جانفشانی کی اللہ کی راہ میں؟ اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ (19)اللہ کے ہاں تو اُنہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اُس کی راہ میں گھر بار چھوڑ ے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں ۔ (20)اُن کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں ۔(21)ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ یقینا اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے۔ (22)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو اُن کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔ (23)

صحیح بخاری
كتاب الرقاق​
کتاب دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
باب صفة الجنة والنار:
باب: جنت و جہنم کا بیان​
حدیث نمبر: 6565
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا۔ اس وقت لوگ کہیں گے کہ اگر ہم اپنے رب کے حضور میں کسی کی شفاعت لے جائیں تو نفع بخش ثابت ہو سکتی ہے۔ ممکن ہے ہم اپنی اس حالت سے نجات پا جائیں۔ چنانچہ لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے آپ ہی وہ بزرگ نبی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور آپ کے اندر اپنی چھپائی ہوئی روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ ہمارے رب کے حضور میں ہماری شفاعت کریں۔ وہ کہیں گے کہ میں تو اس لائق نہیں ہوں، پھر وہ اپنی لغزش یاد کریں گے اور کہیں گے کہ نوح کے پاس جاؤ، وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بھیجا۔ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں۔ وہ اپنی لغزش کا ذکر کریں گے اور کہیں کہ تم ابراہیم کے پاس جاؤ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا۔ لوگ ان کے پاس آئیں گے لیکن یہ بھی یہی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ جن سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا تھا۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے لیکن وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، اپنی خطا کا ذکر کریں گے اور کہیں گے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ۔ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جائیں گے، لیکن یہ بھی کہیں گے کہ میں اس لائق نہیں ہوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ کیونکہ ان کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ لوگ میرے پاس آئیں گے۔ اس وقت میں اپنے رب سے (شفاعت کی) اجازت چاہوں گا اور سجدہ میں گر جاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ جتنی دیر تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا۔ پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھا لو، مانگو دیا جائے گا، کہو سنا جائے گا، شفاعت کرو، شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں اپنے رب کی اس وقت ایسی حمد بیان کروں گا کہ جو اللہ تعالیٰ مجھے سکھائے گا۔ پھر شفاعت کروں گا اور میرے لیے حد مقرر کر دی جائے گی اور میں لوگوں کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کر دوں گا اور اسی طرح سجدہ میں گر جاؤں گا، تیسری یا چوتھی مرتبہ جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں قرآن نے روکا ہے (یعنی جن کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا ذکر قرآن میں صراحت کے ساتھ ہے) قتادہ رحمہ اللہ اس موقع پر کہا کرتے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن پر جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہو گیا ہے۔



کیا یہ حدیث نبی کریم ﷺ کی کہی ہوئی ہے؟ کیا یہ قرآن مجید کے مطابق ہے؟ اگر مطابق ہے تو دلیل سے واضح کریں۔ شکریہ مجھے تو یہ حدیث مردود معلوم ہوتی ہے اگر قرآن سے گواہی لیتا ہوں تو قرآن واضح فرما رہا ہے یہ تمام پیغمبروں پر تہمت لگارہی ہے ۔قرآن واضح کہتا ہے کہ حدیث قرآن کے خلاف ہے اب آپ اس کے قرآن کے مطابق کر کے دیکھائیں۔؟
یہاں ابتدا میری باتوں سے ہوئی تھی. یہ حدیث آپ نے بعد میں پیش کی اور میں اس کا جواب بھی دوں گا لیکن آپ کو باتیں مکس کر کے اپنا مقصد حاصل کرنے نہیں دوں گا.
اس لیے پہلے میری تمام باتوں کا جواب دیں وہ بھی ہر بات کا اقتباس لے کر.
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
محترم محمد فیضان اکبر صاحب سے پو سٹ نمبر 149 اور 150 کے مفصل اور مدلل جوابات مطلوب ہیں ۔ شفاعت والی روایت پر تبصرہ، فیضان صاحب سے مطلوب جوابات کے بعد ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جس طرح انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کے متعلق روایت پر نقد کیا ہے اور ہمارے جوابات پر غور کرنے اور اپنے مؤقف پر نظر ِ ثانی کو ترک کیا ہے ،پھر کسی روایت کو پیش کر دیں اور ہم سے جواب کے طالب بن جائیں۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام علیکم!
بحث ختم کریں اور دو ٹوک جواب ہاں یا نہیں۔
۔

سورۃ ھود۔وح ؑ نے فوراً عرض کیا ’’ اے میرے ربّ ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا اور رحم نہ فرمایا تو میں برباد ہو جائوں گا۔ ‘‘ (47)

٭٭٭اس آیت میں ۔۔۔۔۔وہ چیز تجھ سے مانگو ں جس کا مجھے علم نہیں۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟اس کی وضاحت کر دیں۔۔۔۔۔
مکرمی و محترمی !
حضرت نوح علیہ السلام کا
إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ فرمانے پر اللہ تعالٰی نے يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖکہہ کر جواب دیا یعنی نجات کے لیے ابنیت نہیں بلکہ حقیقی اہلیت ( ایمان و عمل ِ صالح)مطلوب ہوتی ہے جو آپ کے بیٹے میں مفقود تھی۔
جب نظر کے سامنے والی چیز نظر نہ آئے تو پھر ” آنکھ اوجھل ، پہاڑ اوجھل“



یعنی آپ کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ میں اصولی گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ بحث کی جزئیات پر بھی کلام کروں اور آپ کے ہر سوال کا جواب ” ہاں “ یا نہ “ میں دوں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟

السلام علیکم!​
سورۃ ھودآیت 47 میں ہے ۔ نوح علیہ السلام نے کہا "وہ چیز تجھ سے مانگوں جس کا مجھے علم نہیں؟؟؟؟ضرور وضاحت کر دیجئے گا۔۔۔شکریہ
اگر آپ کو مذکورہ مؤقف سے اتفاق نہیں ہے تو میں آپ کے لیے دوسری رائے بھی رکھ دیتا ہوں:-

جب دیکھتے ہی دیکھتے سیدنا نوح علیہ السلام کے سامنے ان کا بیٹا غرق ہوگیا تو ملول ہوگئے اور اللہ سے اس انداز میں التجا کی کہ ”یا اللہ تیرا وعدہ تھا کہ میں تیرے اہل کو بچا لوں گا اور وعدہ بھی سچا اور تیرا فیصلہ بھی سب حاکموں سے بہتر اور آخری جس کی کوئی اپیل بھی نہیں اور یہ غرق ہونے والا بیٹا بھی تو میرے اہل میں سے ہی تھا۔ پھر اسے غرق کرنے میں کیا حکمت تھی ؟ “اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ ” ایک بدکردار آدمی نبی کے اہل میں سے کیسے ہوسکتا ہے وہ ہرگز تمہارے اہل میں سے نہیں تھا خواہ وہ تمہارا صلبی بیٹا ہی تھا اور دیکھو آئندہ مجھ سے ایسا جاہلانہ سوال کبھی نہ کرنا “
تفسیر تیسیر القرآن از مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ تعالٰی
حضرت نوح علیہ السلام نے یہ کس وقت عرض کیا، کنعان کے غرق ہونے سے پہلے یا غرق ہونے کے بعد، دونوں احتمال ہیں۔ نیز کنعان کو اس کی منافقانہ اوضاع واطوار دیکھ کر غلط فہمی سے مومن سمجھ رہے تھے یا کافر سمجھتے ہوئے بارگاہ رب العزت میں یہ گزارش کی۔ دونوں باتوں کا امکان ہے۔ اگر مومن سمجھ کر غرقابی سے پہلے عرض کیا تھا تو مقصود اپنی اضطرابی کیفیت کا اظہار اور خدا سے کہہ کر اس کے بچاؤ کا انتظام کرنا تھا۔ اگر غرقابی کے بعد یہ گفتگو ہوئی تو محض معاملہ کی اصل حقیقت معلوم کرنے کی غرض سے اپنا خلجان یا اشکال پیش کیا۔ یعنی خداوندا ! تو نے میرے گھر والوں کو بچانے کا وعدہ کیا تھا۔ اور کنعان مومن ہونے کی وجہ سے ( اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ) 11 ۔ ہود :40) کے استثناء میں بظاہر داخل نہیں۔ پھر اس کی غرقابی کا راز کیا ہے ؟ بلاشبہ آپ کا وعدہ سچا ہے۔ کسی کو یہ خیال نہیں گزر سکتا کہ معاذ اللہ وعدہ خلافی کی ہو۔ آپ احکم الحاکمین اور شہنشاہ مطلق ہیں۔ سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ کسی کو حق نہیں کہ آپ کے فیصلہ کے سامنے دم مار سکے، یا آپ کو وعدہ خلافی پر مجبور کرسکے۔ فقط قلبی اطمینان کے لیے بطریق استعلام و استفسار اس واقعہ کا راز معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ جواب ملا یہ ان گھر والوں میں سے نہیں جن کے بچانے کا وعدہ تھا۔ بلکہ ( اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ) 11 ۔ ہود :40) میں شامل ہے۔ کیونکہ اس کے عمل خراب ہیں۔ تم کو اس کے کفر و شرک کی خبر نہیں۔ مقام تعجب ہے کہ پیغمبرانہ فراست کی روشنی میں صریح آثار کفر کے باوجود ایک کافر کا حال مشتبہ ہے۔ جس شخص کا واقعی حال تمہیں معلوم نہیں اس کے بارے میں ہم سے ایسی نامناسب رعایت یا اس طرح کی کیفیت مت طلب کرو۔ مقربین کو لائق نہیں کہ وہ بےسوچے سمجھے ادب ناشناس جاہلوں کی سی باتیں کرنے لگیں۔ آیت کی یہ تقریر اس صورت میں ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کنعان کو مومن سمجھتے ہوں اور اگر کافر سمجھتے تھے تو شاید اس درخواست یا سوال کا منشاء یہ ہو کہ " انجاء " کے ذکر میں " اہل " کو چونکہ عام مومنین سے الگ کر کے بیان فرمایا تھا، اس سے حضرت نوح علیہ السلام نے یہ خیال کیا کہ میرے اہل کو اس دنیاوی عذاب سے محفوظ رکھنے کے لیے ایمان شرط نہیں اور ( اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ) 11 ۔ ہود :40) مجمل تھا۔ اس لیے اس کے مصداق کی تعیین نہیں کرسکے۔ بناء علیہ شفقت پدری کے جوش میں عرض کیا کہ اللہ العالمین ! میرا بیٹا یقینا میرے اہل میں داخل ہے جس کے بچانے کا آپ وعدہ فرما چکے ہیں پھر یہ کیوں غرق کیا جا رہا ہے یا غرق کردیا گیا۔ جواب ملا کہ تمہارا پہلا ہی مقدمہ ( اِنَّ ابْنِيْ مِنْ اَهْلِيْ ) 11 ۔ ہود :45) غلط ہے۔ جس اہل کے بچانے کا وعدہ تھا اس میں یہ داخل نہیں۔ کیونکہ اس کے کرتوت بہت خراب ہیں نیز ( اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ ) 11 ۔ ہود :40) کے مصداق کا تم کو کچھ علم نہیں کہ وہ کون لوگ ہیں۔ پھر جس چیز کا علم تم نہیں رکھتے اس کی نسبت ایسے محاجہ کے رنگ میں سوال یا درخواست کرنا تمہارے لیے زیبا نہیں۔
تفسیرعثمانی از مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ تعالٰی
 
شمولیت
ستمبر 21، 2017
پیغامات
548
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
61
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
بھائی وہ منکر حدیث نہیں ہیں۔ وہ صرف ان احادیث کا انکار کرتے ہیں جو ان کے خیال میں قرآن کریم سے ٹکراتی ہیں۔ یہ اباضیہ کا مسلک ہے۔
بھائی صاحب یہ جو کچھ بھی لکھ رہا ہے اسے اس کے اپنے قول
میرا تو سوال ہے ہی نہیں۔
میرا ایمان ہے کہ قرآن و حدیث دونوں ہوں گے تو دین مکمل ہے۔
میرا تو سوال ہے کہ قرآن مجید کا معنی و مفہوم روایات کو سامنے رکھ کر کریں گے تو قرآن مجید حاکم کیسے؟ اور پھر قرآن مجید لاریب کیسے؟
میں نے ان کی بات جس کو ہائی لائٹ کیا ہے کے لئے پوچھا تھا؛
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (سورة التوبة آیت 36)
اس آیت کی تشریح ان کے اپنے دعویٰ کی مطابق کہ قرآن ’’حاکم‘‘ بھی رہے اور ان کی سمجھ والا ’’لاریب‘‘ بھی۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
بھاگتا میں نہیں ہوں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ آپ کے پاس کسی چیز کا کوئی لوجیکل جواب نہیں ہوتا۔ آپ کے پاس بس اپنا ایمان ہے اور وہی آپ کا جواب ہے۔ خیر پہلے آپ کے سوال کا جواب:
سوال یہ نہیں ہے کہ پیغمبرؑ نے کسی چیز کو غلطی اور لغزش تسلیم کیا اور معافی مانگی تو کیا دوبارہ لغزش کر سکتے ہیں یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ جب ایک بار وضاحت کے ساتھ اللہ پاک نے منع فرما دیا تو کیا لغزش ہو سکتی ہے؟
حضرت آدمؑ جو سب سے پہلے پیغمبر اور انسانوں کے جد امجد ہیں، کو اللہ پاک نے منع فرمایا:
وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلا تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ (الم)
"جہاں سے چاہو کھاؤ اور اس درخت کے قریب بھی نہ جانا کہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے۔"
خود دیکھ لیں کیسی سخت تنبیہ ہے۔
انہوں نے کیا کیا؟
فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا (طہ)
"ان دونوں نے اس سے کھا لیا۔۔۔"
کیا معلوم ہوا؟ یہ کہ نبی بشری تقاضوں سے مجبور ہو کر لغزش کر سکتا ہے۔

ایک اور مثال:
حضرت موسیٰؑ "عبدا من عبادنا" کے پاس گئے:
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا (65)
ان سے ساتھ رہ کر علم حاصل کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے فرمایا:
قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلَا تَسْأَلْنِي عَن شَيْءٍ حَتَّىٰ أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا (70)
"اس نے کہا: اگر میری اتباع کرنی ہے تو مجھ سے کسی چیز کا اس وقت تک نہ پوچھنا جب تک میں خود نہ بتا دوں۔"
موسیٰؑ نے پہلے ہی تسلیم کیا ہوا تھا:
قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا (69)
"کہا: آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والا پائیں گے اور میں آپ کی کسی معاملے میں ذرا نافرمانی نہ کروں گا۔"
لیکن ہوا کیا؟ موسیٰؑ نے ان سے تین چیزوں کے بارے میں تین بار پوچھا حتی کہ انہوں نے موسیؑ کو تفصیل بتا کر الگ کر دیا۔
معلوم ہوا نبی بشری تقاضوں کی وجہ سے لغزش کر سکتا ہے۔

ایک اور مثال:
اللہ پاک نے موسی اور ہارون علیہما السلام کو فرعون کی طرف بھیجا تو انہوں نے خطرہ ظاہر کیا:
قَالَا رَبَّنَا إِنَّنَا نَخَافُ أَن يَفْرُطَ عَلَيْنَا أَوْ أَن يَطْغَىٰ (45)
"انہوں نے کہا: اے ہمارے رب! ہمیں ڈر لگتا ہے کہ وہ ہم پر زیادتی یا سرکشی نہ کر بیٹھے۔"
اللہ پاک نے نہ ڈرنے کا حکم دیا:
قَالَ لَا تَخَافَا ۖ إِنَّنِي مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ (46)
"فرمایا: نہ ڈرو! میں تمہارے ساتھ ہوں، سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔"
لیکن جب فرعون کے جادوگروں نے لاٹھیوں اور رسیوں کو جادو کی مدد سے سانپ بنایا تو موسیؑ اس حکم کے باوجود ڈر گئے:
فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ (67)
"موسی نے اپنے نفس میں خوف محسوس کیا۔"
معلوم ہوا کہ نبی بشری تقاضوں کی وجہ حکم کے خلاف بھی جا سکتا ہے۔

اب بغیر حدیث یا تفسیر کے اس مسئلے کو حل کر کے دکھائیں!


جب آپ کوئی لوجیکل جواب نہیں دے سکے تو پھر یہی رٹ کیوں لگا رہے ہیں؟
یہ بات میں نے تب کی تھی جب آپ کوئی منطقی، عقلی، لوجیکل، سمجھ میں آنے والا جواب نہیں دے رہے تھے۔
پھر میں نے آپ کو ذرا سا آئینہ جب دکھایا تھا:

آپ نے یہ جواب دیا تھا:

اب ذرا بتائیں کہ یہ علماء کی بحث و تکرار ہے تو میرے بھائی یہ جو آپ کے سامنے لکھا ہوا قرآن پاک ہے یہ کیا آپ کے پاس ڈائریکٹ آسمان سے اتر کر آیا ہے؟ جبریلؑ آئے تھے یہ لے کر؟
یہ بھی تو مختلف کمپنیوں کا چھپا ہوا ہے جو انہوں نے حافظ صاحبان سے نظر ثانی کروا کر شائع کیا ہے۔ ذرا تاج کمپنی کے قرآن کریم کے آخری صفحات دیکھیے کس سے تصحیح کرواتے ہیں؟

آپ نے آگے کہہ دیا:

میرے بھائی میرا آپ کو چیلنج ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں کتابت کردہ نسخہ ڈھونڈ کر دکھا دیں۔ آپ کی ساری زندگی کے لیے چیلنج ہے۔
جو آپ کے پاس پہنچا وہ تو انہی لوگوں کا ہاتھ سے لکھا ہوا ہے نا جن پر آپ کا الزام ہے کہ انہوں نے بعد میں جھوٹ بولا ہے۔
چلیں پھر بھی لکھے ہونے پر ہی سوئی اگر اٹکی ہے تو یہ لیجیے:
https://drive.google.com/open?id=1DLym3UkX0TsnUhgVoRsdqdubua7cFhS3
یہ بھی لکھا ہوا اور چھپا ہوا قرآن کریم ہے۔ یہ پہلے پارے کا صفحہ ہے۔ اپنے گھر میں موجود قرآن کریم اٹھا کر اس سے اس کا موازنہ کریں ذرا۔ کم از کم پانچ جگہوں پر واضح فرق ہے۔ اور جگہوں پر جو فرق ہیں وہ آپ سمجھ نہیں سکتے لیکن میں جانتا ہوں۔ یہ کوئی تحریف شدہ قرآن پاک نہیں ہے۔
اب جائیے اپنے علماء کے پاس اور ان سے کہیے کہ نبی کریم ﷺ کی حیات والا زبر زیر والا نسخہ لائیں تاکہ آپ کو معلوم ہو سکے کہ کون سا قرآن کا صفحہ صحیح ہے اور کون سا غلط۔
اور اگر وہ نہ لا سکیں اور آپ بھی نہ لا سکیں تو برائے مہربانی اپنی اس بات سے رجوع کر لیجیے گا:

علم آپ کے پاس نہیں ہے۔ دلیل آپ کے پاس نہیں ہے۔ خالی خیالات ہیں کہ ایسا ہوگا اور ویسا ہوگا۔ اس کے پیچھے کوئی ٹھوس دلیل ہے ہی نہیں۔ قرآن کے الفاظ میں: ذلک مبلغہم من العلم۔
پتہ ہے ان خیالات کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (يونس)

"اور ان ميں سے اكثر تو صرف گمانوں کی ہی پیروی کرتے ہیں۔ بے شک گمان حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔"

جب آپ سے ٹھوس دلیل مانگی جاتی ہے، کوئی منطقی اور لوجیکل جواب مانگا جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ قرآن کو پڑھ کر دیکھ لو۔ آپ کا حال تو یہ ہے:
قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ (148)
"آپ کہہ دیجیے: کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے تو ہمارے سامنے لاؤ! تم صرف گمان کے پیچھے چل پڑے ہو اور تم صرف اندازے ہی لگا رہے ہو۔"
بھائی دلیل اور علم کا مطالبہ کرنے کا حکم ہمیں قرآن نے دیا ہے:
قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین
"آپ کہہ دیجیے: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ!"
جس طرح نبی کریم ﷺ کے مخاطبین کے پاس دلیل نہیں تھی اسی طرح آپ کا دامن بھی دلیل سے خالی ہے میرے بھائی۔ کاش کہ آپ اس کی طرف نظر کریں۔

میرے بھائی جس چیز کو آپ اپنا علم اور تحقیق سمجھ رہے ہیں وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ان سارے مراحل سے میں گزر کر آیا ہوں۔ میں حنفی ہوں اور ہم پر ایک بڑا اعتراض ہے ہی یہی کہ ہم حدیث کو پہلے قرآن اور سنت متواترہ پر پیش کرتے ہیں اور پھر قبول کرتے ہیں۔ میں اس مسئلے کو سمجھنے کی خاطر اس گہرائی میں اترا ہوں جہاں آپ کبھی نہیں اتر سکتے۔ ہر چیز کو اس کی بنیاد میں جا کر دیکھا ہے۔
آپ میری تقلید نہ کریں لیکن "ظن" کی پیروی بھی نہ کریں۔ تحقیق کریں تو خود آپ پر سب واضح ہو جائے گا ان شاء اللہ۔

امید ہے کہ اس کے بعد آپ کو میرے بھاگنے کا غم نہیں ستائے گا اور آپ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈیں گے جو میں نے آپ کو چپ کرانے کے لیے نہیں کیے تھے بلکہ آپ کے سامنے وہ چیزیں سوچنے کے لیے رکھی تھیں جن کو آپ نے پہلے تحقیق کی چھلنی سے نہیں گزارا تھا۔

والسلام
میں نے آپ کو بہت دلائل دئے لیکن آپ کہتے ہیں سب بقواس،قیاس،کوئی لوجکل نہیں،دلیل نہیں،لیکن شایدہ کہ آپ میرے جوابات پڑھتے ہی نہیں یا غور کرنے کو تیار نہیں چلیں پھر کوشش کر لیتے ہیں۔۔۔۔دیکھتے ہیں۔

السلام علیکم! سورۃ الانعام کی یہ آیات آپ کے لئے سب سے اچھی ہیں اس لئے کوڈ کی گئی ہے اس کو پڑھیں اور دیکھیں نبی کریم ﷺ سے کیا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
سورۃ الانعام 6۔خواہ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں ، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتیوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں ، انہوں نے صبر کیا ، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں۔ (34)تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ و یا آسمان میں سیڑھی لگائو اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو ۔ اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا ، لہذا نادان مت بنو (35)دعوتِ حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سننے والے ہیں۔ رہے مُردے ، تو انہیں تو اللہ بس قبروں ہی سے اُٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے) واپس لائے جائیں گے۔(36)

سورۃ الانعام 6۔یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی (یعنی معجزہ ) ہمارے سامنے آجائے تو ہم اُس پر ایمان لے آئیں گے ۔ اے نبی ﷺ ، ان سے کہو کہ نشانیاں تو اللہ کے اختیار میں ہیں۔‘‘ اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آبھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں۔ (109)ہم اُسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب) پر ایمان لائے تھے ۔ ہم انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے ۔ (110)اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مُردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے ، اِلاّ یہ کہ مشیتِ الٰہی یہی ہو (کہ یہ ایمان لائیں) مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں۔ (111)

سورۃ البقرہ 2۔اللہ نے ان کے دلوں اور اُن کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ (7)بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں ، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں (8)وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں ، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنہیں اس کا شعور نہیں ہے۔(9)ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں ، اُس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔(10)

سورۃ البقرہ 2۔اور جب اُن سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اُسی طرح تم بھی ایمان لائو ، تو اُنہوں نے یہی جواب دیا کہ کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں ؟ خبردار ! حقیقت میں تو یہ خود بے وقوف ہیں ، مگر یہ جانتے نہیں ہیں ۔ (13)

سورۃ البقرہ 2۔نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ایسی ہی باتیں اِن سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے ۔ان سب (اگلے پچھلے گمراہوں )کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں۔ یقین لانے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں۔ (118)

کہتے ہیں یہ کتاب اس نے خود گھڑ لی ہے ۔۔۔اس کے جواب میں کیا پیش کیا گیا؟ کیا دلیل دی گئی؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نبی کریم ﷺ کی طرف سے ۔دیکھیں اور ساری زندگی غور کرتے رہیں!!!!!!

سورۃ ھود11۔اے نبی ﷺ ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو’’ اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جرم کی ذمہ داری ہے، اور جو جرم تم کر رہے ہو اس کی ذمّہ داری سے میں بری ہوں۔‘‘ (35)
سورۃ النحل16۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے اللہ کبھی ان کو صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔(104)جھوٹی باتیں نبی نہیں گھڑتا بلکہ) جھوٹ وہ لوگ گھڑ رہے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے ، وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔(105)

سورۃ النحل 16آیت نمبر 104 میں اللہ کا فیصلہ بھی سن لیں پڑھ لیں اور اللہ سے معافی بھی مانگ لیں۔

سورۃ المومنون23۔یہ شخص اللہ کے نام پر محض جھوٹ گھڑ رہا ہے اور ہم کبھی اس کے ماننے والے نہیں ہیں۔‘‘ (38)رسول نے کہا : ’’پروردگار ، ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تو ہی میری نصر ت فرما۔‘‘ (39)جواب میں ارشاد ہوا ’’ قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پر پچھتائیں گے۔‘‘ (40)آخر کار ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ایک ہنگامئہ عظیم نے ان کو آ لیا اور ہم نے ان کو کچرا بنا کر پھینک دیا۔ دور ہو ظالم قوم ! (41)

سورۃ المومنون 23 آیت نمبر 38اور 39 پر غور کریں پیغمبر کو جھوٹا کہا گیا اور کفار اللہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں لیکن کہتے ہیں یہ اللہ پر جھوٹ بول رہا ہے دلیل میں کیا نازل ہوا قرآن کی آیت۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے ہر اس شخص کو جو ہدایت حاصل بھی کرنا چاہے ۔

سورۃ ال عمران 3
۔ میں کفار کہتے تھے ۔۔۔’’ اُمیوں (غیر یہودی لوگوں) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ‘‘
اب اس کے جواب میں کیا دلیل نازل ہوئی؟ کیا آیت نازل ہوئی ۔۔۔ٹھوس ثبوت کیا نازل ہوا ۔۔۔بجکہ کفار نبی کریم ﷺ کو ایک جھوٹا شخص کہتے تھے اور اس کلام کو بھی جھوٹ کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔جواب قرض آپ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلیل پر یہ آیت نازل فرمائی اللہ نے اور نبی کریم ﷺ نے یہی اسی طرح بیان فرمائی دیکھیں۔۔۔"اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، حالانکہ انہیں معلوم ہے (کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے)۔ (75)

سورۃ الانعام 6۔ میں کفار کہتے ہیں۔۔۔۔۔اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ، لیکن اگر وہ مُردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ۔
اب اس کے جواب میں کیا دلیل نازل ہوئی کیا بات نازل ہوئی جو نبی کریم ﷺ نے کفار کے سامنے پڑھی ہو گی۔۔۔۔۔
یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے۔(139) یہ ہے وہ جواب اب آپ خود بتائیں گمان اور قیاس اور دلیل میں کیا فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جواب قرض آپ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب غور کریں میں آپ کو کس چیز کی طرف بلا رہا۔۔۔۔۔یہ قرآن کی طرف بلا رہا اور کہہ رہا یہ ہدایت میں زیادہ محفوظ کتاب ہے پہلے اس کتاب پر ایمان رکھیں اور اس کتاب سے باقی کتابوں کی تصدیق حاصل کریں یہ طریقہ زیادہ محفوظ ہے یہی کہہ رہا ہوں نا اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ کی مجھ پر لعنت ہو ۔
سورۃ الاعراف 7۔اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور اُن کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے (36)آخر اس سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جھٹلائے؟ ایسے لوگ اپنے نوشتۂ تقدیر کے مطابق اپنا حصہ پاتے رہیں گے ، یہاں تک کہ وہ گھڑی آجائے گی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اُن کی روحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے۔ اُس وقت وہ اُن سے پوچھیں گے کہ ’’بتائو ، اب کہاں ہیں تمہارے معبود جن کو تم خدا کے بجائے پکارتے تھے؟ ‘‘ وہ کہیں گے کہ ’’ سب ہم سے گم ہوگئے۔‘‘ اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرِ حق تھے۔ (37)اللہ فرمائے گا جائو ، تم بھی اسی جہنم میں چلے جائو جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گردہِ جن وانس جا چکے ہیں۔ ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا د اخل ہوگا ، حتیٰ کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے ربّ ! یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔ جو اب میں ارشاد ہوگا ، ہر ایک کے لیے دوہرا عذاب ہی ہے مگر تم جانتے نہیں ہو ۔ (38)


اب مجھے یہ جواب دیں صحیح بخاری میں آیات کس کو کہا جاتا ہے ؟اللہ نے واضح میری آیات سے شرکشی برتینے والے کو دوزخی کہا اب آیات کہاں ہیں؟اب آپ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لئے قیاس سے کام لے رہے ہیں کیا یہ درست ہے؟کیا یہ حق بات ہے؟کیا یہ طریقہ آپ کے علم اور آخرت کے لئے درست ہے؟ اللہ اکبر۔۔۔اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

٭٭میرے پیارے بھائی کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ لائو کہ وہ قرآن جو نبی کریم ﷺ نے خود لکھوایا وہ لے آئو بلکہ چیلنج کرتے ہیں ۔ معاف فرمائیں میں آپ کا چیلنج پورا واقع نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔
مجھے یہ ویب سائٹ درست طریقہ سے استعمال کرنا نہیں آتی۔۔اس لیے معزرت کے ساتھ ۔

آپ کا سوال تھا کہ یہ کتاب اللہ کی ہے ثابت کرو؟آپ نے کہا اگر میں غیر مسلم ہوں تو مجھے یہ قرآن اور باقی کوئی بھی کتاب ایک جیسی ہی نظر آتی ہے کوئی فرق نہیں وہ بھی بس لکھی ہوئی اور قرآن بھی ؟اور لاریب ہے ثابت کرو؟وہ نسخہ لائو جو نبی کریمﷺ نے اپنے سامنے لکھوایا؟بلکہ سوال نہیں بلکہ آپ کا چیلنج تھا۔۔۔اور پھر کہا دلیل سے واضح کرو ۔کوئی ٹھوس دلیل ہو؟منقولی ہو،عقلی ہو ،کوئی لوجک بھی ہو۔۔۔۔
سورۃ البقرہ2۔اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے اُن کے پاس آئی ہے ،اس کے ساتھ ان کا کیا برتائو ہے ؟ باوجود یکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جوان کے پاس پہلے سے موجود تھی ، باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، مگر جب چیز آگئی ، جسے وہ پہچان بھی گئے ، تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا ۔ خدا کی لعنت ان منکرین پر ، (89)
اللہ اور اس کے تمام رسولوں نے پہلی دلیل اُس کو کہا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ابراھیم علیہ السلام کے صحیفے،زبور،انجیل ،تورات،اور آخری کتاب قرآن مجید ۔۔۔۔اب قرآن مجید کی شان اور عظمت یہ ہے کہ یہ کتاب قیامت تک کے لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے کیسے؟
اس کو پڑھ کر جب کوئی اس کو پڑھے گا ہی نہیں اس کی آیات پر غور و فکر کرے گا ہی نہیں تو ہدایت کیسی؟ ہمیں کیسے معلوم ہوگا یہی وہ کتاب ہے جو اللہ کی ہے اور ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ یہی لاریب ہے شک سے پاک ہے کیسے اس کو پڑھ کر اور مشاہدہ کر کے لیکن آپ پھر وہی بے تکی بات کریں گے کہ مشاہدہ کس کا سر پکڑ کر بیٹھ جائیں کہ یہ انسان کیسا پاگل ہے کہ پھر وہی رٹ لگا رہا ہے۔۔۔جی مشاہدہ۔۔۔۔اس کتاب میں اللہ ہر مثال سے آپ کو مجھے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے عقلی مثال،منقولی مثال ، اور لوجیکلی بھی ہمیں سمجھاتا ہے اور حق کی طرف بلاتا ہے اور ہم حق سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

سورۃ الا نعام 6۔کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اُتارا گیا؟ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اُتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی۔(8)اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے نسانی شکل ہی میں اُتارتے اور اس طرح انہیں اُسی شبہ میں مبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں۔ (9)اے نبی ﷺ ، تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اُڑایا جا چکا ہے ، مگر ان مذاق اُڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔ (10)اِن سے کہو ، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے ۔(11)
٭اب اگر سورۃ الا نعام پر غور فرمائیں تو دیکھیں تو ہمیں کیا ملا؟اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کا مذاق اُڑانے والوں کو کہا کہ۔۔ان سے کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔
اشماریہ صاحب دیکھیں کتنی بے تکی سی بات کر دی اللہ تعالیٰ نے اب آپ کو واقع کچھ سمجھ نہیں آرہی ہو گی کوئی بات ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی کوئی بات واضح ہوتی ہے آپ کو تو کچھ سمجھ ہی نہیں آئی ہو گی۔۔۔اللہ مجھے معاف فرمائے ۔۔۔آمین۔

سورۃ الانعام 6۔اور اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑے ، یا کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہو درآں حالے کہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو ، یا جو اللہ کی نازل کردہ چیز کے مقابلے میں کہے کہ میں بھی ایسی چیز نازل کر کے دکھا دوں گا ؟ کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ’’ لائو ، نکالو اپنی جان ، آج تمہیں اُن باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اُس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے ۔‘‘ (93)
٭اب اس آیت میں دیکھیں کہ اللہ نے جو نازل کی گئی کتاب جیسی کوئی کہے کہ ہمیں بھی اسی نازل کر سکتا ہوں یعنی اس قرآ ن جیسی کوئی کتاب ہو ہی نہیں سکتی یہ شان اللہ نے بیان فرمائی۔اب آپ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی ہو گی صاف بات ہے یہ کتاب ہی ہی اسی سمجھ میں نہ آنے والی بے تکی باتیں مفہوم بھی واضح نہیں الجھانے والی باتیں۔کوی کام کی بات معلوم نہیں ہوتی اس آیت سے بھی ۔۔۔اللہ مجھے معاف فرمائے آمین۔
سورۃ یونس10۔لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں ۔ ان سے کہو ’’ اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے ، اس کے فرشتے تمہاری سب مکاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں۔‘‘ (21)
٭شماریہ جی آپ کے لئے یہ سورۃ یونس کی آیت بھی بہت زبردست ہے دیکھیں ۔۔۔۔اللہ کی نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں۔۔۔! جیسے آپ کہتے ہیں مشاہدہ کیا مشاہدہ کروں۔۔۔۔۔۔اب دلیل میں کیا پیش کیا جا رہا ہے ایک آیت قرآن کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان سے کہو"اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے ،۔۔۔۔۔۔۔"
میرے پیارے بھائی افسوس ہے۔
جب جب نبی کریم ﷺ کے پاس کوئی کافر آیا اور نبی کریم ﷺ نے اسے قرآن کی آیات پڑھ کر سنائ تو اس نے بھی آپ والی بات ہی کی کہ دلیل دو کہ واقع اللہ کی طرف سے ہے ۔۔۔اگر اللہ کی طرف سے ہوتی تو کوئی فرشتہ آتا ،کوئی جِن آتا کوئی اور مخلوق آتی تم تو ہماری ہی طرح کے انسان ہو کھاتے ہو پیتے ہو کپڑے پہنتے ہو اور اگر اللہ نے کوئی کتاب نازل کرنا ہوتی یا ہمیں ہدایت پر لانا ہوتا تو اللہ خود ہی آجاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی بلکل ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں۔
کہ قرآن ثابت کرو کہ اللہ کی کتاب ہے اور ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات نہ ہوں!!!واہ خواہش نفس ہے آپ کی۔
قرآن لاریب کتاب ہے ثابت کرو کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کی ہی نازل کی ہوئی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ آیت کسی نے جھوٹ درج کر دی ہو ،یا ہو سکتا ہے کہ کوئی بھول گیا ہو ،یا ہو سکتا ہے کہ جھوٹ اور سچ دونوں موجود ہوں ۔۔۔۔۔! واہ کیا خواہش نفس ہے آپ کی اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لئے کفار کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔
آپ کے سوالا ت کے جواب میں۔۔۔۔
آپ کے سوالات ایسے ہیں جیسے۔۔۔۔
یہ جو پہاڑ سامنے نظر آ رہے ہیں ہو سکتا ہے یہ پہاڑ نہ ہوں درخت ہوں، یہ جو ایک واضح آدمی نظر آ رہا ہے یہ شایدہ عورت ہو مرد نہ ہو، یہ جو سامنے پرندہ فضائ میں پرواز کر رہ ہے یہ ہو سکتا ہے چل رہا ہو؟یہ جو سورج ہے ہو سکتا ہے یہ چاند ہو ہمیں غلط فہمی ہوئی ہے،ہو سکتا ہے جو بادل ہم دیکھتے ہیں وہ بادل نہ ہوں وہ ایک ہوا کا بگولا ہو، بادل جو پانی برسا رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ پانی نہیں آگ ہو، ؟ہو سکتا ہے جو آگ ہم اپنے گھروں میں جلاتے ہیں وہ آگ نہیں بلکہ برف ہو؟ہو سکتا ہے جو کیلا کا درخت ہے وہ کھجور پیدا کرتا ہو اور ہمیں معلوم نہ ہو، ہو سکتا ہے کہ جو ہم پانی پیتے ہیں وہ پانی نہ ہو آگ ہو۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔
۔ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ۔یہ اللہ کی کتاب ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ۔ ہدایت ہے اُن پرہیز گارلوگوں کے لیے (2)

حقیقت کو اس طرح کے سوالات سے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔معاف فرمائیں حقیقت حقیقت ہی رہتی ہے۔
یہ دیکھیں نبی کریم ﷺ سوالات پر جوابات میں کیا پیش کر رہے ہیں ۔۔۔۔دلیل کیا پیش کر رہے ہیں یعنی دلیل میں یہ آیات پیش کی جا رہی ہیں ان آیات کے مقابل مخالف کسی بھی چیز کو دلیل کہنا گناہ کبیرہ ہے۔

سورۃ البقرہ 2۔لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر ، رشتے داروں پر ، یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی بھی تم کرو گے ، اللہ اس سے باخبر ہو گا۔(215)
سورۃ البقرہ 2۔لوگ پوچھتے ہیں ماہِ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو : اس میں لڑنا بہت برا ہے ، مگر راہِ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بُرا ہے ، اور فتنہ خونریزی سے شدید ترہے۔ وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے حتی کہ اگر ان کا بس چلے ، تو تمہارے دین سے تم کو پھیر لے جائیں۔ (اور یہ خوب سمجھ لو کہ) تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔ (217)
سورۃ البقرہ 2۔پوچھتے ہیں :شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے ؟ کہو : ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں ، مگر ان کا گناہ ان کے فا ئدے سے بہت زیادہ ہے۔ پوچھتے ہیں : ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو : جو کچھ تمہاری ضروریات سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو۔(219)
سورۃ النسائ 4۔لوگ تم سے عورتوں کے معاملے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ کہو اللہ تمہیں اُن کے معاملے میں فتویٰ دیتا ہے ، اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سنائے جارہے ہیں ۔ یعنی وہ احکام جو اُن یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو ( یا لالچ کی بنا پر تم خود ان سے نکاح کر لینا چاہتے ہو) اور وہ احکام جو اُن بچوں کے متعلق ہیں جو بے چارے کوئی زور نہیں رکھتے۔ اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو ، اور جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہ جائے گی۔(127)
سورۃ المائدہ 5۔لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں ۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو ۔ جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو ۔ وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھا سکتے ہو ،البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو ، اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو ، اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔(4)
سورۃ الاعراف 7۔یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی؟ کہو ’’ اس کا علم میرے ربّ ہی کے پاس ہے۔ اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا ۔ آسمانوں اورزمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا۔ وہ تم پر اچانک آجائے گا ۔‘‘ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو’’ کہو اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں۔‘‘ (187)
سورۃ التوبہ 9۔جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے تو اُن میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے ) پوچھتے ہیں کہ ’’ کہو تم میں سے کسی کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا؟ ‘‘ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سورت نے ) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دل شاد ہیں ،(124)
سورۃ طٰہ20۔یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے ؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا (105)
سورۃ النزعت 79۔یہ لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں : آخر وہ گھڑ ی کب آ کر ٹھیرے گی(42)آپ ﷺ کا کام کہ اس کا وقت بتائیں۔ (43)اس کا علم تو اللہ پر ختم ہے۔ (44)آپؐ صرف خبردار کرنے والے ہیں ہر اس شخص کو جو اُس دن کی خَشیَت اختیار کرے۔ (اور اپنا رویہ درست کر لے۔ )(45)
جب جب میں نے جوابات دئے آپ نے کہا یہ صرف وہم ہے قیاس ہے دلیل نہیں،کوئی لوجک نہیں ۔ اور آپ نے ایک آیت کوڈ کی۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ (8)
"اور لوگوں میں بعض ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم، بغیر ہدایت اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑتے ہیں۔"
٭بغیر علم کیا ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت کریں علم سے آپ کی کیا مراد ہے ۔۔۔۔میرے لئے علم پہلے قرآن مجید ہے پھر صحیح حدیث ۔۔۔۔۔۔روشن کتاب کون سی ہے آپ کے پاس جو میرے پاس نہیں؟

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (يونس)
"اور ان ميں سے اكثر تو صرف گمانوں کی ہی پیروی کرتے ہیں۔ بے شک گمان حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔"

٭جی پیش کریں کہ میں گمان کی پیروی کیسے کر رہا؟ گمان اور حق میں فرق کون کر سکتا ہے؟کہاں کن کتابوںمیں ہے مجھے بھی بتا دیں ؟۔۔۔میرا ایمان ہے کہ قرآن مجیدمیں صرف حق ہے جبکہ باقی سب کتابوں میں حق اور گمان دونوں موجود ہیں اب آپ خود دیکھیں کہ آپ زیادہ ہدایت پر ہیں یا میں؟

جب آپ سے ٹھوس دلیل مانگی جاتی ہے، کوئی منطقی اور لوجیکل جواب مانگا جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ قرآن کو پڑھ کر دیکھ لو۔ آپ کا حال تو یہ ہے:
قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ (148)

"آپ کہہ دیجیے: کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے تو ہمارے سامنے لاؤ! تم صرف گمان کے پیچھے چل پڑے ہو اور تم صرف اندازے ہی لگا رہے ہو۔"

٭جی میرے پاس علم ہے یہ قرآن مجید یہ حق بات یہ لاریب بات یہ تصدیق کرنے والی کتاب جو اللہ کی پہلے نازل کئی گئی کتابوں کی بھی تصدیق کرتا ہے اور صحیح بخاری،مسلم،ترمزی،مشکاۃ کی بھی تصدیق یہی قرآن کرتا کیا حق اور کیا باطل ہے ۔۔۔۔۔جی سچے ہیں تو آپ دلیل پیش کریں شکریہ

بھائی دلیل اور علم کا مطالبہ کرنے کا حکم ہمیں قرآن نے دیا ہے:
قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین
"آپ کہہ دیجیے: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ!"
جس طرح نبی کریم ﷺ کے مخاطبین کے پاس دلیل نہیں تھی اسی طرح آپ کا دامن بھی دلیل سے خالی ہے میرے بھائی۔


٭اب یہاں پر آپ بھی جواب دیتے چلیں کہ اصل دلیل کیا ہے اللہ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کیا پیش کرتے تھے سوالات کے جوابات پر ۔۔۔؟ ؟؟
میرا دامن خالی ہے اگر آپ کو میرا دامن نظر نہیں آتا میرا کوئی قصور نہیں میرے پیارے بھائی۔۔۔۔۔۔

گمان ،قیاس،منطقی اور لوجیکل دلیل۔۔۔۔۔پھر آپ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے مخاطبین کے پاس دلیل نہیں تھی اسی طرح میرا دامن بھی خالی ہے۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔۔میرا اور آپ کا رب سب کچھ جاننے والا ہے سننے والا ہے ۔ ان شائ اللہ۔

سورۃ البقرہ 2۔یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو ، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی ۔ اُس نے کہا ’’یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے ، اِسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ‘‘ ؟ اِس پر اللہ نے اُس کی رُوح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مُردہ پڑا رہا ۔ پھر اللہ نے اُسے دوبارہ زندگی بخشی اور اُس سے پوچھا : بتائو ، کتنی مدت پڑے رہے ہو؟ ‘‘ اُس نے کہا ’’ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا ۔ ‘‘ فرمایا ’’ تم پر سو برس اِسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے ) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اِس پنجر کو ہم کس طرح اُٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔ ‘‘ اس طرح جب حقیقت اُس کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی ، تو اُس نے کہا : ’’ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔‘‘ (259)

٭حقیقت سامنے آنے کے بعد بھی کیا یہ پیغمبر اپنی جہالت میں رہ گئے ہوں گے؟ کیا حقیقت واضح ہونے کے بعد بھی یہی ایسے ہی رہے ۔۔۔جناب یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے سب کے لئے پیغمبر ہو ں یا عام انسان عدل و انصاف میں اللہ سب کے لئے ایک جیسا ہے ۔۔۔۔
بلکہ پیغمبروں پر زیادہ سخت بھی ہے ۔


سورۃ البقرہ 2۔اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے ، جب ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہ ’’ میرے مالک! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ‘‘ فرمایا: ’’ کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ ‘‘ اُس نے عرض کیا:’ ایمان تو رکھتا ہوں ، مگر دل کا اطمینان درکار ہے ‘‘ فرمایا: ’’ اچھا ، تو چار پرندے لے اور اُن کو اپنے سے مانوس کرلے ۔ پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے ۔ پھر اُن کو پکار ، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے ۔‘‘ (260)

٭ اس آیت پر غور کریں کیا ابراھیم علیہ السلام کو جب اس حقیقت واضح ہوئی تو کیا وہ اسی جہالت میں مبطلہ رہے ہوں گے؟ یا ان کا ایمان اور زیادہ پختہ ہوا۔۔۔
جیسے جیسے پیغمبروں کو ہدایت و نصیحت کی گی ویسے ویسے ان کا دین ایمان نکھرتا رہا یہ نہیں ہوا کہ وہ اپنے اپہلی جہالت پر رہے ۔۔۔۔۔
ابراھیم علیہ السلام بھی اپنی جہالت میں دعا کر گئے یہ ان کی لغزرش تھی اور کافر ،مشرک کے لئے دعا مغفرت منع فرما دی گئی نبی کریم ﷺ پر جو قوانین نازل ہوئے وہ پہلے پیغمبروں پر نازل قوانین کی واضح تفسیر و تشریح کرتے ہیں ۔جب اللہ نے فرمایا ہےکہ قیامت کے دن صرف اسے شفاعت کا کہا جائے گا جو صرف حق بات اپنی زبان سے نکالے گا کیا ابراھیم علیہ السلام کے یہ الفاظ جو ایک کافر ،مشرک کے لئے ہیں کیا یہ حق ہیں؟کیا یہ سچ بات ہے ؟ اس طرح تو اکثر پیغمبروں ،اصحاب کے والدیں ،گھر والے بھی جہنم میں جائیں گے کیا پھر وہ رسوائی نہیں؟ ان سب کی۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی عارنہیں رکھتا حق بتانے میں کیا آپ جانتے نہیں؟پھر چاہے کسی نبی کا بیٹا ہو ،بیوی ہو،باپ ہو،ماں ہو اللہ کو کسی کی کوئی پروا نہیں۔۔اللہ تعالیٰ ان سب سے بے پروا ہے۔۔۔۔ان شائ اللہ ۔۔۔۔۔۔

اشماریہ جی آپ کو قرآن پڑھ کر کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے ، لاریب ہے یا شک والی،واقع یہی وہ کتاب ہے جو نبی کریم پر نازل ہوئی تو یہ آیت بھی پڑھ لیں اور غور کریں اور میرا کوئی قصور نہیں اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لئے آپ کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں ۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔استغفراللہ۔۔۔اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے جو روز روز آپ سے بحث کرتا اور نتیجہ پھر صفر۔۔۔۔۔۔

سورۃ البقرہ 2۔ہاں ، اللہ اِس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اُس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے ۔ جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں ، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو اُن کے رَبّ ہی کی طرف سے آیا ہے ، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ اِنہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سرو کار ؟ اِس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے ۔ اور اُس سے گمراہی میں وہ اُنہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔ (26)

شرک کرنے والے کا انجام اور شرک سے بچنے نصیحت۔ایک بھائی نے سوال کیا تھا کہ پیغمبروں اور عام انسانوں کی لغزریشں ایک جیسی نہیں سمجھنی چاہئیں۔۔میں ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالی ٰ شرک کے معاملہ میں پیغمبروں پر عام لوگوں سے یادہ سخت ہے۔
سورۃ الانعام 6۔
نیز ان کے آبائو اجداد اور ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے بہتوں کو ہم نے نوازا، انہیں اپنی خدمت کے لیے چن لیا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی۔(87)یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے ۔ لیکن اگر کہیں ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہو جاتا۔(88)
سورۃ یوسف12۔
زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔(105)ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کوشریک ٹھیراتے ہیں۔(106)کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آ جائے گی۔‘‘ (107)تم ان سے صاف کہدو کہ ’’ میرا راستہ تو یہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی ، اور اللہ پاک ہے۔ اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ (108)


٭سورۃ الزمر 39آیت نمبر 64،65،66میں اللہ دلیل کے طور پر اور ہمارے آخری پیغمبر دلیل کے طور پر کیا پیش کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔کیا آپ اس کو دلیل مانتے ہیں بھی؟

سورۃ الزمر 39۔(اے نبی ﷺ) اِن سے کہو ’’ پھر کیا اے جاہلو ، تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کے لیے مجھ سے کہتے ہو‘‘؟ (64)(یہ بات تمہیں ان سے صاف کہہ دینی چاہیے کیونکہ) تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے ،گا اور تم خسارے میں رہو گے۔ (65)لہٰذا (اے نبی ﷺ) تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جائو۔ (66)اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے ۔ (اُس کی قدرت کا ملہ کا حال تو یہ ہے کہ ) قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دستِ راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے پاک اور بالاتر ہے وہ اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں،(67)
سورۃ البقرہ 2۔رسول ﷺ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘(285)
سورۃ البقرہ 2۔اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ اُن میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی ۔ (75)
سورۃ البقرہ 2۔کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب اُنہوں نے کوئی عہد کیا ، تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا ؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہیں ، جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے ۔(100)

٭جب آپ کو معلوم ہے کہ قرآن ہی واحد کتاب ہے جو نبی کریمﷺ کے سامنے لکھا جاتا رہا اور یاد بھی کروایا گیا مکمل کتاب کی شکل میں لیکن حدیث نبی کریم ﷺ کے 200سال بعد جمع ہونا شروع ہوئی اب اس میں اہمیت زیادہ کس کتاب کی ہے جبکہ حدیثیں مکس تھی حق سچ کو علمائ نے علیحدہ کیا اب آپ کو کون سمجھائے کہ پہلے حق بات کا درجہ یہ قرآن مجید ہے اس کے بعد باقی کتابیں کی باری آتی ہے ۔۔۔۔۔ہر ہر سوال پر آیت نازل ہو رہی جس کو دلیل کہا گیا کوئ معجزہ نہیں کوئی اور بات نہیں صرف ہر بات پر آیت ان کے سامنے پڑھو اور ڈر سناتے رہو ۔۔۔۔۔۔یعنی اس قرآن مجید پر پہلے ایمان لائو ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے تمام سوالات کا جواب صرف یہ ہے کہ یہ قرآن لاریب ہے شک سے پاک ہے ،حق اور باطل میں فرق کرنے والی کتاب ہے ،یہی اللہ کی کتاب ہے ،یہی نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی ، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ،اس کتاب میں جو جو کچھ لکھا گیا سب حق ہے سچ ہے میں اس کتاب پر ہر ہر لفظ پر ایمان لے آیا اس کے مخالفت جو جو کتاب کرے گی میں اس کا انکار کرتا ہوں اور واضح کہتا ہوں وہ بات جو قرآن سے ٹکرائے نبی کریم ﷺ کی کہی ہوئی بات نہیں اسے رد کرتا ہوں ۔۔ان شائ اللہ۔۔یہ اس وقت جو جو اسلامی کتابیں ہیں سب کتابوں کی تصدیق کرتا ہے یہ شان ہے اس کتاب کی اور یہ قرآن کسی تعارف کا محتاج نہیں سب کے لئے یکساں ہدایت اور رہنمائی ہے ان آیات میں جو اس میں درج کی گئی ہیں ۔ اس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس کس طرح سمجھایا ہے لیکن انسان ہے ہی بہت نا شکرہ جو ہدایت پر غور نہیں کرتا۔۔شکریہ۔ اور اس آیت کو بھی پڑھ لیں۔

سورۃ الرعد13۔اگر ایسا قرآن نازل کر دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے ، یا زمین شق ہو جاتی ، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔پھر کیا اہل ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر ) مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے اُن پر اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے ، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقینا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔(31)
شکریہ۔۔۔۔۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
مکرمی و محترمی !
حضرت نوح علیہ السلام کا
إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ فرمانے پر اللہ تعالٰی نے يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖکہہ کر جواب دیا یعنی نجات کے لیے ابنیت نہیں بلکہ حقیقی اہلیت ( ایمان و عمل ِ صالح)مطلوب ہوتی ہے جو آپ کے بیٹے میں مفقود تھی۔
جب نظر کے سامنے والی چیز نظر نہ آئے تو پھر ” آنکھ اوجھل ، پہاڑ اوجھل“



یعنی آپ کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ میں اصولی گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ بحث کی جزئیات پر بھی کلام کروں اور آپ کے ہر سوال کا جواب ” ہاں “ یا نہ “ میں دوں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟


اگر آپ کو مذکورہ مؤقف سے اتفاق نہیں ہے تو میں آپ کے لیے دوسری رائے بھی رکھ دیتا ہوں:-
السلام علیکم!
میرے پیارے بھائی۔۔۔۔
میرا ایمان ہے کہ یہ دنیا سب کے لئے امتحان ہے پیغمبر ہوں یا اصحاب ہوں یا عام انسان یہاں سب کو صبر،تحمل،برداست،اور حق کی تلاش کرتے رہنا ہے۔۔۔
تمام پیغمبر انسان تھے جیسے آپ ہیں فرق یہ ہے کہ وہ اللہ کے برگزیدہ بندے تھے اللہ کی خاص رحمت تھی مہربانی تھی۔لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے قانون سے باہر نہیں تھے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے ۔اگر یہ پیغمبر شرک کرتے تو اللہ بھی
بلکہ پیغمبروں پر اللہ تعالیٰ کی زیادہ سختیاں ہیں،ان کی مختلف آزمائشیں لی گئیں عام لوگوں کے مقابلہ میں ان کا صبروتحمل برداشت سب سے افصل اور بہترین تھا لیکن قانون سب کے لئے ایک اور وہ قانون ہے شرک پر مرنے والے پر جنت حرام ہے چاہے کوئی پیغمبر ہو یا چاہے کوئی عام انسان چاہے پیغمبر کی اولاد ہو چاہے ماں باپ ہوں چاہے عام انسان کی اولاد ہو یا ماں باپ ہوں سب کے لئے اللہ کا قانون ایک ہے ۔
دوسرا قانون اللہ کا یہ ہے کہ شرک پر مرنے والے کے لئے شفاعت نہیں ،شرک پر مرنے والے کے لئے کوئی مغفرت کی دعا نہیں ،شرک پر مرنے والے کے لئے کوئی نیک الفاظ کوئی پیغمبر یا ایمان دار اللہ کا بندہ اپنی زبان سے نہیں نکال سکتا۔جو نکالے گا وہ گناہ گار ہو گا اب آپ کہتے ہیں ابراھیم علیہ السلام گناہ گار ہو ں گے تو یہ آپ کا اپنا عقیدہ ہے میرا نہیں۔مشرک کے لئے نیک کلمات ،الفاظ اپنی زبان سے نکالنا اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا ہے ۔اور یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں درج فرما دیا ہے نبی کریم ﷺ کے فرامین میں یہ درج کر دیا گیا اس امت کے لئے درج کر دیا گیا ۔یہی فیصلہ ابراھیم علیہ السلام کے لئے بھی ہے ۔
نبی کریم ﷺ کوئی نیا قانون نہیں لائے ۔۔۔وہی قانون ہے جو واضاحت کے ساتھ ہمارے پاس پہنچا ہے جو ابراھیم علیہ السلام پر بھی نازل ہوا۔۔۔۔جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کا والد اللہ کا دشمن ہے تو انہوں نے اپنی دعا سے بیزائ بھی ہوئے اور معافی بھی مانگ لی ۔
اب جب نبی کریم ﷺ کو بھی منع فرمادیا گیا ہے کہ مشرک ،کافر،منافق کی قبر پر نہ کھڑے ہوں اور نہ ہی مغفرت کی دعا کریں تو پھر بھی اگر نبی کریم یہی کریں گے تو اس کا کیا مطلب ہے؟
یہ آیت نازل ہونے سے پہلے نبی کریم ﷺ نے کہا70 بار سے زیادہ میں مغفرت کروں گا شاید کہ اللہ معاف کردے لیکن جب یہ آیت نازل ہو گئی "آج کے بعد تم ان کی دعا مغفرت نہ پڑھنا "تو نبی کریم ﷺ کا ایمان ،دین ،عقید،اور زیادہ پختہ ہوا اب آپ یہ کہیں کہ اس کے باوجود گنجائش ہے تو یہ آپ کا عقیدہ ہے میرا نہیں ۔۔۔۔اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے کہ میں بے عقل لوگوں میں سے ہوں۔۔۔۔شکریہ۔۔۔۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
السلام علیکم ورحمۃ اللہ

بھائی صاحب یہ جو کچھ بھی لکھ رہا ہے اسے اس کے اپنے قول

میں نے ان کی بات جس کو ہائی لائٹ کیا ہے کے لئے پوچھا تھا؛

اس آیت کی تشریح ان کے اپنے دعویٰ کی مطابق کہ قرآن ’’حاکم‘‘ بھی رہے اور ان کی سمجھ والا ’’لاریب‘‘ بھی۔
السلام علیکم!
سورۃ الزمر 39۔جب اکیلے اللہ کا ذِکر کیا جاتا ہے تو آخرت پر ایمان نہ رکھنے والوں کے دل کُڑھنے لگتے ہیں ، اور جب اُس کے سوا دوسروں کا ذِکر ہوتا ہے تو یکا یک وہ خوشی سے کھل اُٹھتے ہیں۔(45)
جو بات آپ نے میری پکڑی ہے وہ ادھوری ہے پوری بات یہ ہے۔
جس عقیدہ ،ایمان،کی تفسیر و تشریح اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں خود فرما دی ہے تو روایات اور احادیث کو حاکم بنا کر ان کا مفہوم کیوں تبدیل کیا جاتا ہے ۔۔جبکہ اس کی واضح وضاحت قرآنی آیات خود کر رہی ہوں؟اصل دین مکمل ایمان قرآن و صحیح حدیث ہی ہے اگر سمجھیں تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کا جواب دیں شکریہ۔۔۔۔
اور مجھے معاف فرمائیں میں نے آپ سے تلخ بات کی لیکن ابھی جواب دینے سے پرہیز کریں گے تو بہت مہربانی ہو گی مجھے پہلے اشماریہ صاحب اور ٹی،کے ،ایچ صاحب سے بات کرنے دیں گے تو مجھ پر آپ کا بہت بڑا احسان ہو گا۔۔۔۔۔۔اگر سمجھیں تو۔اگر نہیں تو میں حاضر ہوں جناب کے لئے۔شکریہ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میں نے آپ کو بہت دلائل دئے لیکن آپ کہتے ہیں سب بقواس،قیاس،کوئی لوجکل نہیں،دلیل نہیں،لیکن شایدہ کہ آپ میرے جوابات پڑھتے ہی نہیں یا غور کرنے کو تیار نہیں چلیں پھر کوشش کر لیتے ہیں۔۔۔۔دیکھتے ہیں۔

السلام علیکم! سورۃ الانعام کی یہ آیات آپ کے لئے سب سے اچھی ہیں اس لئے کوڈ کی گئی ہے اس کو پڑھیں اور دیکھیں نبی کریم ﷺ سے کیا مطالبہ کیا جاتا رہا۔
سورۃ الانعام 6۔خواہ تم سے پہلے بھی بہت سے رسول جھٹلائے جا چکے ہیں ، مگر اس تکذیب پر اور اُن اذیتیوں پر جو انہیں پہنچائی گئیں ، انہوں نے صبر کیا ، یہاں تک کہ انہیں ہماری مدد پہنچ گئی۔ اللہ کی باتوں کو بدلنے کی طاقت کسی میں نہیں ہے اور پچھلے رسولوں کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس کی خبریں تمہیں پہنچ ہی چکی ہیں۔ (34)تاہم اگر ان لوگوں کی بے رخی تم سے برداشت نہیں ہوتی تو اگر تم میں کچھ زور ہے تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ و یا آسمان میں سیڑھی لگائو اور ان کے پاس کوئی نشانی لانے کی کوشش کرو ۔ اگر اللہ چاہتا تو ان سب کو ہدایت پر جمع کر سکتا تھا ، لہذا نادان مت بنو (35)دعوتِ حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سننے والے ہیں۔ رہے مُردے ، تو انہیں تو اللہ بس قبروں ہی سے اُٹھائے گا اور پھر وہ (اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے) واپس لائے جائیں گے۔(36)

سورۃ الانعام 6۔یہ لوگ کڑی کڑی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر کوئی نشانی (یعنی معجزہ ) ہمارے سامنے آجائے تو ہم اُس پر ایمان لے آئیں گے ۔ اے نبی ﷺ ، ان سے کہو کہ نشانیاں تو اللہ کے اختیار میں ہیں۔‘‘ اور تمہیں کیسے سمجھایا جائے کہ اگر نشانیاں آبھی جائیں تو یہ ایمان لانے والے نہیں۔ (109)ہم اُسی طرح ان کے دلوں اور نگاہوں کو پھیر رہے ہیں جس طرح یہ پہلی مرتبہ اس (کتاب) پر ایمان لائے تھے ۔ ہم انہیں ان کی سرکشی ہی میں بھٹکنے کے لیے چھوڑے دیتے ۔ (110)اگر ہم فرشتے بھی ان پر نازل کر دیتے اور مُردے ان سے باتیں کرتے اور دنیا بھر کی چیزوں کو ہم ان کی آنکھوں کے سامنے جمع کر دیتے تب بھی یہ ایمان لانے والے نہ تھے ، اِلاّ یہ کہ مشیتِ الٰہی یہی ہو (کہ یہ ایمان لائیں) مگر اکثر لوگ نادانی کی باتیں کرتے ہیں۔ (111)

سورۃ البقرہ 2۔اللہ نے ان کے دلوں اور اُن کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔ وہ سخت سزا کے مستحق ہیں۔ (7)بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ہیں ، حالانکہ درحقیقت وہ مومن نہیں ہیں (8)وہ اللہ اور ایمان لانے والوں کے ساتھ دھوکا بازی کر رہے ہیں ، مگر دراصل وہ خود اپنے آپ ہی کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اُنہیں اس کا شعور نہیں ہے۔(9)ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے جسے اللہ نے اور زیادہ بڑھا دیا ، اور جو جھوٹ وہ بولتے ہیں ، اُس کی پاداش میں ان کے لیے درد ناک سزا ہے۔(10)

سورۃ البقرہ 2۔اور جب اُن سے کہا گیا کہ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں اُسی طرح تم بھی ایمان لائو ، تو اُنہوں نے یہی جواب دیا کہ کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں ؟ خبردار ! حقیقت میں تو یہ خود بے وقوف ہیں ، مگر یہ جانتے نہیں ہیں ۔ (13)

سورۃ البقرہ 2۔نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پاس کیوں نہیں آتی؟ ایسی ہی باتیں اِن سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے ۔ان سب (اگلے پچھلے گمراہوں )کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں۔ یقین لانے والوں کے لیے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں۔ (118)

کہتے ہیں یہ کتاب اس نے خود گھڑ لی ہے ۔۔۔اس کے جواب میں کیا پیش کیا گیا؟ کیا دلیل دی گئی؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور نبی کریم ﷺ کی طرف سے ۔دیکھیں اور ساری زندگی غور کرتے رہیں!!!!!!

سورۃ ھود11۔اے نبی ﷺ ، کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ سب کچھ خود گھڑ لیا ہے؟ ان سے کہو’’ اگر میں نے یہ خود گھڑا ہے تو مجھ پر اپنے جرم کی ذمہ داری ہے، اور جو جرم تم کر رہے ہو اس کی ذمّہ داری سے میں بری ہوں۔‘‘ (35)
سورۃ النحل16۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کو نہیں مانتے اللہ کبھی ان کو صحیح بات تک پہنچنے کی توفیق نہیں دیتا اور ایسے لوگوں کے لیے درد ناک عذاب ہے۔(104)جھوٹی باتیں نبی نہیں گھڑتا بلکہ) جھوٹ وہ لوگ گھڑ رہے ہیں جو اللہ کی آیات کو نہیں مانتے ، وہی حقیقت میں جھوٹے ہیں۔(105)

سورۃ النحل 16آیت نمبر 104 میں اللہ کا فیصلہ بھی سن لیں پڑھ لیں اور اللہ سے معافی بھی مانگ لیں۔

سورۃ المومنون23۔یہ شخص اللہ کے نام پر محض جھوٹ گھڑ رہا ہے اور ہم کبھی اس کے ماننے والے نہیں ہیں۔‘‘ (38)رسول نے کہا : ’’پروردگار ، ان لوگوں نے جو میری تکذیب کی ہے اس پر اب تو ہی میری نصر ت فرما۔‘‘ (39)جواب میں ارشاد ہوا ’’ قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پر پچھتائیں گے۔‘‘ (40)آخر کار ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق ایک ہنگامئہ عظیم نے ان کو آ لیا اور ہم نے ان کو کچرا بنا کر پھینک دیا۔ دور ہو ظالم قوم ! (41)

سورۃ المومنون 23 آیت نمبر 38اور 39 پر غور کریں پیغمبر کو جھوٹا کہا گیا اور کفار اللہ پر بھی ایمان رکھتے ہیں لیکن کہتے ہیں یہ اللہ پر جھوٹ بول رہا ہے دلیل میں کیا نازل ہوا قرآن کی آیت۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت دے ہر اس شخص کو جو ہدایت حاصل بھی کرنا چاہے ۔

سورۃ ال عمران 3
۔ میں کفار کہتے تھے ۔۔۔’’ اُمیوں (غیر یہودی لوگوں) کے معاملہ میں ہم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ ‘‘
اب اس کے جواب میں کیا دلیل نازل ہوئی؟ کیا آیت نازل ہوئی ۔۔۔ٹھوس ثبوت کیا نازل ہوا ۔۔۔بجکہ کفار نبی کریم ﷺ کو ایک جھوٹا شخص کہتے تھے اور اس کلام کو بھی جھوٹ کہتے تھے ۔۔۔۔۔۔جواب قرض آپ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلیل پر یہ آیت نازل فرمائی اللہ نے اور نبی کریم ﷺ نے یہی اسی طرح بیان فرمائی دیکھیں۔۔۔"اور یہ بات وہ محض جھوٹ گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، حالانکہ انہیں معلوم ہے (کہ اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں فرمائی ہے)۔ (75)

سورۃ الانعام 6۔ میں کفار کہتے ہیں۔۔۔۔۔اور کہتے ہیں کہ جو کچھ ان جانوروں کے پیٹ میں ہے یہ ہمارے مردوں کے لیے مخصوص ہے اور ہماری عورتوں پر حرام ، لیکن اگر وہ مُردہ ہو تو دونوں اس کے کھانے میں شریک ہو سکتے ہیں ۔
اب اس کے جواب میں کیا دلیل نازل ہوئی کیا بات نازل ہوئی جو نبی کریم ﷺ نے کفار کے سامنے پڑھی ہو گی۔۔۔۔۔
یہ باتیں جو انہوں نے گھڑ لی ہیں ان کا بدلہ اللہ انہیں دے کر رہے گا یقینا وہ حکیم ہے اور سب باتوں کی اسے خبر ہے۔(139) یہ ہے وہ جواب اب آپ خود بتائیں گمان اور قیاس اور دلیل میں کیا فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔جواب قرض آپ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب غور کریں میں آپ کو کس چیز کی طرف بلا رہا۔۔۔۔۔یہ قرآن کی طرف بلا رہا اور کہہ رہا یہ ہدایت میں زیادہ محفوظ کتاب ہے پہلے اس کتاب پر ایمان رکھیں اور اس کتاب سے باقی کتابوں کی تصدیق حاصل کریں یہ طریقہ زیادہ محفوظ ہے یہی کہہ رہا ہوں نا اگر میں جھوٹ بولوں تو اللہ کی مجھ پر لعنت ہو ۔
سورۃ الاعراف 7۔اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور اُن کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہلِ دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے (36)آخر اس سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو بالکل جھوٹی باتیں گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کرے یا اللہ کی سچی آیات کو جھٹلائے؟ ایسے لوگ اپنے نوشتۂ تقدیر کے مطابق اپنا حصہ پاتے رہیں گے ، یہاں تک کہ وہ گھڑی آجائے گی جب ہمارے بھیجے ہوئے فرشتے اُن کی روحیں قبض کرنے کے لیے پہنچیں گے۔ اُس وقت وہ اُن سے پوچھیں گے کہ ’’بتائو ، اب کہاں ہیں تمہارے معبود جن کو تم خدا کے بجائے پکارتے تھے؟ ‘‘ وہ کہیں گے کہ ’’ سب ہم سے گم ہوگئے۔‘‘ اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ ہم واقعی منکرِ حق تھے۔ (37)اللہ فرمائے گا جائو ، تم بھی اسی جہنم میں چلے جائو جس میں تم سے پہلے گزرے ہوئے گردہِ جن وانس جا چکے ہیں۔ ہر گروہ جب جہنم میں داخل ہوگا تو اپنے پیش رو گروہ پر لعنت کرتا ہوا د اخل ہوگا ، حتیٰ کہ جب سب وہاں جمع ہو جائیں گے تو ہر بعد والا گروہ پہلے گروہ کے حق میں کہے گا کہ اے ربّ ! یہ لوگ تھے جنہوں نے ہم کو گمراہ کیا لہٰذا انہیں آگ کا دوہرا عذاب دے۔ جو اب میں ارشاد ہوگا ، ہر ایک کے لیے دوہرا عذاب ہی ہے مگر تم جانتے نہیں ہو ۔ (38)


اب مجھے یہ جواب دیں صحیح بخاری میں آیات کس کو کہا جاتا ہے ؟اللہ نے واضح میری آیات سے شرکشی برتینے والے کو دوزخی کہا اب آیات کہاں ہیں؟اب آپ اپنے موقف کو درست ثابت کرنے کے لئے قیاس سے کام لے رہے ہیں کیا یہ درست ہے؟کیا یہ حق بات ہے؟کیا یہ طریقہ آپ کے علم اور آخرت کے لئے درست ہے؟ اللہ اکبر۔۔۔اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔

٭٭میرے پیارے بھائی کہتے ہیں کہ کوئی معجزہ لائو کہ وہ قرآن جو نبی کریم ﷺ نے خود لکھوایا وہ لے آئو بلکہ چیلنج کرتے ہیں ۔ معاف فرمائیں میں آپ کا چیلنج پورا واقع نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔
مجھے یہ ویب سائٹ درست طریقہ سے استعمال کرنا نہیں آتی۔۔اس لیے معزرت کے ساتھ ۔

آپ کا سوال تھا کہ یہ کتاب اللہ کی ہے ثابت کرو؟آپ نے کہا اگر میں غیر مسلم ہوں تو مجھے یہ قرآن اور باقی کوئی بھی کتاب ایک جیسی ہی نظر آتی ہے کوئی فرق نہیں وہ بھی بس لکھی ہوئی اور قرآن بھی ؟اور لاریب ہے ثابت کرو؟وہ نسخہ لائو جو نبی کریمﷺ نے اپنے سامنے لکھوایا؟بلکہ سوال نہیں بلکہ آپ کا چیلنج تھا۔۔۔اور پھر کہا دلیل سے واضح کرو ۔کوئی ٹھوس دلیل ہو؟منقولی ہو،عقلی ہو ،کوئی لوجک بھی ہو۔۔۔۔
سورۃ البقرہ2۔اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے اُن کے پاس آئی ہے ،اس کے ساتھ ان کا کیا برتائو ہے ؟ باوجود یکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جوان کے پاس پہلے سے موجود تھی ، باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے ، مگر جب چیز آگئی ، جسے وہ پہچان بھی گئے ، تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا ۔ خدا کی لعنت ان منکرین پر ، (89)
اللہ اور اس کے تمام رسولوں نے پہلی دلیل اُس کو کہا جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ابراھیم علیہ السلام کے صحیفے،زبور،انجیل ،تورات،اور آخری کتاب قرآن مجید ۔۔۔۔اب قرآن مجید کی شان اور عظمت یہ ہے کہ یہ کتاب قیامت تک کے لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی کی کتاب ہے کیسے؟
اس کو پڑھ کر جب کوئی اس کو پڑھے گا ہی نہیں اس کی آیات پر غور و فکر کرے گا ہی نہیں تو ہدایت کیسی؟ ہمیں کیسے معلوم ہوگا یہی وہ کتاب ہے جو اللہ کی ہے اور ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ یہی لاریب ہے شک سے پاک ہے کیسے اس کو پڑھ کر اور مشاہدہ کر کے لیکن آپ پھر وہی بے تکی بات کریں گے کہ مشاہدہ کس کا سر پکڑ کر بیٹھ جائیں کہ یہ انسان کیسا پاگل ہے کہ پھر وہی رٹ لگا رہا ہے۔۔۔جی مشاہدہ۔۔۔۔اس کتاب میں اللہ ہر مثال سے آپ کو مجھے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے عقلی مثال،منقولی مثال ، اور لوجیکلی بھی ہمیں سمجھاتا ہے اور حق کی طرف بلاتا ہے اور ہم حق سے منہ موڑ لیتے ہیں ۔

سورۃ الا نعام 6۔کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اُتارا گیا؟ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اُتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ، پھر انہیں کوئی مہلت نہ دی جاتی۔(8)اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے نسانی شکل ہی میں اُتارتے اور اس طرح انہیں اُسی شبہ میں مبتلا کر دیتے جس میں اب یہ مبتلا ہیں۔ (9)اے نبی ﷺ ، تم سے پہلے بھی بہت سے رسولوں کا مذاق اُڑایا جا چکا ہے ، مگر ان مذاق اُڑانے والوں پر آخر کار وہی حقیقت مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔ (10)اِن سے کہو ، ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے ۔(11)
٭اب اگر سورۃ الا نعام پر غور فرمائیں تو دیکھیں تو ہمیں کیا ملا؟اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کا مذاق اُڑانے والوں کو کہا کہ۔۔ان سے کہو ذرا زمین میں چل پھر کر دیکھو جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا ہے۔
اشماریہ صاحب دیکھیں کتنی بے تکی سی بات کر دی اللہ تعالیٰ نے اب آپ کو واقع کچھ سمجھ نہیں آرہی ہو گی کوئی بات ہے اس سے اللہ تعالیٰ کی کوئی بات واضح ہوتی ہے آپ کو تو کچھ سمجھ ہی نہیں آئی ہو گی۔۔۔اللہ مجھے معاف فرمائے ۔۔۔آمین۔

سورۃ الانعام 6۔اور اُس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان گھڑے ، یا کہے کہ مجھ پر وحی آئی ہو درآں حالے کہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو ، یا جو اللہ کی نازل کردہ چیز کے مقابلے میں کہے کہ میں بھی ایسی چیز نازل کر کے دکھا دوں گا ؟ کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ’’ لائو ، نکالو اپنی جان ، آج تمہیں اُن باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اُس کی آیات کے مقابلہ میں سرکشی دکھاتے تھے ۔‘‘ (93)
٭اب اس آیت میں دیکھیں کہ اللہ نے جو نازل کی گئی کتاب جیسی کوئی کہے کہ ہمیں بھی اسی نازل کر سکتا ہوں یعنی اس قرآ ن جیسی کوئی کتاب ہو ہی نہیں سکتی یہ شان اللہ نے بیان فرمائی۔اب آپ کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی ہو گی صاف بات ہے یہ کتاب ہی ہی اسی سمجھ میں نہ آنے والی بے تکی باتیں مفہوم بھی واضح نہیں الجھانے والی باتیں۔کوی کام کی بات معلوم نہیں ہوتی اس آیت سے بھی ۔۔۔اللہ مجھے معاف فرمائے آمین۔
سورۃ یونس10۔لوگوں کا حال یہ ہے کہ مصیبت کے بعد جب ہم ان کو رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو فوراً ہی وہ ہماری نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں ۔ ان سے کہو ’’ اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے ، اس کے فرشتے تمہاری سب مکاریوں کو قلم بند کر رہے ہیں۔‘‘ (21)
٭شماریہ جی آپ کے لئے یہ سورۃ یونس کی آیت بھی بہت زبردست ہے دیکھیں ۔۔۔۔اللہ کی نشانیوں کے معاملہ میں چال بازیاں شروع کر دیتے ہیں۔۔۔! جیسے آپ کہتے ہیں مشاہدہ کیا مشاہدہ کروں۔۔۔۔۔۔اب دلیل میں کیا پیش کیا جا رہا ہے ایک آیت قرآن کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان سے کہو"اللہ اپنی چال میں تم سے زیادہ تیز ہے ،۔۔۔۔۔۔۔"
میرے پیارے بھائی افسوس ہے۔
جب جب نبی کریم ﷺ کے پاس کوئی کافر آیا اور نبی کریم ﷺ نے اسے قرآن کی آیات پڑھ کر سنائ تو اس نے بھی آپ والی بات ہی کی کہ دلیل دو کہ واقع اللہ کی طرف سے ہے ۔۔۔اگر اللہ کی طرف سے ہوتی تو کوئی فرشتہ آتا ،کوئی جِن آتا کوئی اور مخلوق آتی تم تو ہماری ہی طرح کے انسان ہو کھاتے ہو پیتے ہو کپڑے پہنتے ہو اور اگر اللہ نے کوئی کتاب نازل کرنا ہوتی یا ہمیں ہدایت پر لانا ہوتا تو اللہ خود ہی آجاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ بھی بلکل ایسی ہی باتیں کر رہے ہیں۔
کہ قرآن ثابت کرو کہ اللہ کی کتاب ہے اور ثابت کرنے کے لئے قرآن کی آیات نہ ہوں!!!واہ خواہش نفس ہے آپ کی۔
قرآن لاریب کتاب ہے ثابت کرو کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کی ہی نازل کی ہوئی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ آیت کسی نے جھوٹ درج کر دی ہو ،یا ہو سکتا ہے کہ کوئی بھول گیا ہو ،یا ہو سکتا ہے کہ جھوٹ اور سچ دونوں موجود ہوں ۔۔۔۔۔! واہ کیا خواہش نفس ہے آپ کی اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لئے کفار کے ساتھی بنے ہوئے ہیں۔
آپ کے سوالا ت کے جواب میں۔۔۔۔
آپ کے سوالات ایسے ہیں جیسے۔۔۔۔
یہ جو پہاڑ سامنے نظر آ رہے ہیں ہو سکتا ہے یہ پہاڑ نہ ہوں درخت ہوں، یہ جو ایک واضح آدمی نظر آ رہا ہے یہ شایدہ عورت ہو مرد نہ ہو، یہ جو سامنے پرندہ فضائ میں پرواز کر رہ ہے یہ ہو سکتا ہے چل رہا ہو؟یہ جو سورج ہے ہو سکتا ہے یہ چاند ہو ہمیں غلط فہمی ہوئی ہے،ہو سکتا ہے جو بادل ہم دیکھتے ہیں وہ بادل نہ ہوں وہ ایک ہوا کا بگولا ہو، بادل جو پانی برسا رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ پانی نہیں آگ ہو، ؟ہو سکتا ہے جو آگ ہم اپنے گھروں میں جلاتے ہیں وہ آگ نہیں بلکہ برف ہو؟ہو سکتا ہے جو کیلا کا درخت ہے وہ کھجور پیدا کرتا ہو اور ہمیں معلوم نہ ہو، ہو سکتا ہے کہ جو ہم پانی پیتے ہیں وہ پانی نہ ہو آگ ہو۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔
۔ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ ٻ فِيْهِ ڔ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ ۔یہ اللہ کی کتاب ہے ، اس میں کوئی شک نہیں ۔ ہدایت ہے اُن پرہیز گارلوگوں کے لیے (2)

حقیقت کو اس طرح کے سوالات سے جھٹلایا نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔معاف فرمائیں حقیقت حقیقت ہی رہتی ہے۔
یہ دیکھیں نبی کریم ﷺ سوالات پر جوابات میں کیا پیش کر رہے ہیں ۔۔۔۔دلیل کیا پیش کر رہے ہیں یعنی دلیل میں یہ آیات پیش کی جا رہی ہیں ان آیات کے مقابل مخالف کسی بھی چیز کو دلیل کہنا گناہ کبیرہ ہے۔

سورۃ البقرہ 2۔لوگ پوچھتے ہیں ہم کیا خرچ کریں؟ جواب دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر ، رشتے داروں پر ، یتیموں اور مسکینوں اورمسافروں پر خرچ کرو۔ اور جو بھلائی بھی تم کرو گے ، اللہ اس سے باخبر ہو گا۔(215)
سورۃ البقرہ 2۔لوگ پوچھتے ہیں ماہِ حرام میں لڑنا کیسا ہے؟ کہو : اس میں لڑنا بہت برا ہے ، مگر راہِ خدا سے لوگوں کو روکنا اور اللہ سے کفر کرنا اور مسجدِ حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور حرم کے رہنے والوں کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ بُرا ہے ، اور فتنہ خونریزی سے شدید ترہے۔ وہ تو تم سے لڑے ہی جائیں گے حتی کہ اگر ان کا بس چلے ، تو تمہارے دین سے تم کو پھیر لے جائیں۔ (اور یہ خوب سمجھ لو کہ) تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا ، اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔ (217)
سورۃ البقرہ 2۔پوچھتے ہیں :شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے ؟ کہو : ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں ، مگر ان کا گناہ ان کے فا ئدے سے بہت زیادہ ہے۔ پوچھتے ہیں : ہم راہِ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو : جو کچھ تمہاری ضروریات سے زیادہ ہو۔ اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو۔(219)
سورۃ النسائ 4۔لوگ تم سے عورتوں کے معاملے میں فتویٰ پوچھتے ہیں ۔ کہو اللہ تمہیں اُن کے معاملے میں فتویٰ دیتا ہے ، اور ساتھ ہی وہ احکام بھی یاد دلاتا ہے جو پہلے سے تم کو اس کتاب میں سنائے جارہے ہیں ۔ یعنی وہ احکام جو اُن یتیم لڑکیوں کے متعلق ہیں جن کے حق تم ادا نہیں کرتے اور جن کے نکاح کرنے سے تم باز رہتے ہو ( یا لالچ کی بنا پر تم خود ان سے نکاح کر لینا چاہتے ہو) اور وہ احکام جو اُن بچوں کے متعلق ہیں جو بے چارے کوئی زور نہیں رکھتے۔ اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ یتیموں کے ساتھ انصاف پر قائم رہو ، اور جو بھلائی تم کرو گے وہ اللہ کے علم سے چھپی نہ رہ جائے گی۔(127)
سورۃ المائدہ 5۔لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں ۔ اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو ۔ جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو ۔ وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھا سکتے ہو ،البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو ، اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو ، اللہ کو حساب لیتے دیر نہیں لگتی۔(4)
سورۃ الاعراف 7۔یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی؟ کہو ’’ اس کا علم میرے ربّ ہی کے پاس ہے۔ اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا ۔ آسمانوں اورزمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا۔ وہ تم پر اچانک آجائے گا ۔‘‘ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو’’ کہو اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے مگر اکثر لوگ اس حقیقت سے ناواقف ہیں۔‘‘ (187)
سورۃ التوبہ 9۔جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے تو اُن میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے ) پوچھتے ہیں کہ ’’ کہو تم میں سے کسی کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا؟ ‘‘ جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سورت نے ) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دل شاد ہیں ،(124)
سورۃ طٰہ20۔یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر اُس دن یہ پہاڑ کہاں چلے جائیں گے ؟ کہو کہ میرا رب ان کو دھول بنا کر اڑا دے گا (105)
سورۃ النزعت 79۔یہ لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں : آخر وہ گھڑ ی کب آ کر ٹھیرے گی(42)آپ ﷺ کا کام کہ اس کا وقت بتائیں۔ (43)اس کا علم تو اللہ پر ختم ہے۔ (44)آپؐ صرف خبردار کرنے والے ہیں ہر اس شخص کو جو اُس دن کی خَشیَت اختیار کرے۔ (اور اپنا رویہ درست کر لے۔ )(45)
جب جب میں نے جوابات دئے آپ نے کہا یہ صرف وہم ہے قیاس ہے دلیل نہیں،کوئی لوجک نہیں ۔ اور آپ نے ایک آیت کوڈ کی۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُنِيرٍ (8)
"اور لوگوں میں بعض ایسے ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم، بغیر ہدایت اور بغیر روشن کتاب کے جھگڑتے ہیں۔"
٭بغیر علم کیا ہوتا ہے؟ اس کی وضاحت کریں علم سے آپ کی کیا مراد ہے ۔۔۔۔میرے لئے علم پہلے قرآن مجید ہے پھر صحیح حدیث ۔۔۔۔۔۔روشن کتاب کون سی ہے آپ کے پاس جو میرے پاس نہیں؟

وَمَا يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا ۚ إِنَّ الظَّنَّ لَا يُغْنِي مِنَ الْحَقِّ شَيْئًا (يونس)
"اور ان ميں سے اكثر تو صرف گمانوں کی ہی پیروی کرتے ہیں۔ بے شک گمان حق کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دیتا۔"

٭جی پیش کریں کہ میں گمان کی پیروی کیسے کر رہا؟ گمان اور حق میں فرق کون کر سکتا ہے؟کہاں کن کتابوںمیں ہے مجھے بھی بتا دیں ؟۔۔۔میرا ایمان ہے کہ قرآن مجیدمیں صرف حق ہے جبکہ باقی سب کتابوں میں حق اور گمان دونوں موجود ہیں اب آپ خود دیکھیں کہ آپ زیادہ ہدایت پر ہیں یا میں؟

جب آپ سے ٹھوس دلیل مانگی جاتی ہے، کوئی منطقی اور لوجیکل جواب مانگا جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں کہ قرآن کو پڑھ کر دیکھ لو۔ آپ کا حال تو یہ ہے:

قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ (148)
"آپ کہہ دیجیے: کیا تمہارے پاس کوئی علم ہے تو ہمارے سامنے لاؤ! تم صرف گمان کے پیچھے چل پڑے ہو اور تم صرف اندازے ہی لگا رہے ہو۔"

٭جی میرے پاس علم ہے یہ قرآن مجید یہ حق بات یہ لاریب بات یہ تصدیق کرنے والی کتاب جو اللہ کی پہلے نازل کئی گئی کتابوں کی بھی تصدیق کرتا ہے اور صحیح بخاری،مسلم،ترمزی،مشکاۃ کی بھی تصدیق یہی قرآن کرتا کیا حق اور کیا باطل ہے ۔۔۔۔۔جی سچے ہیں تو آپ دلیل پیش کریں شکریہ


بھائی دلیل اور علم کا مطالبہ کرنے کا حکم ہمیں قرآن نے دیا ہے:
قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین
"آپ کہہ دیجیے: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ!"
جس طرح نبی کریم ﷺ کے مخاطبین کے پاس دلیل نہیں تھی اسی طرح آپ کا دامن بھی دلیل سے خالی ہے میرے بھائی۔


٭اب یہاں پر آپ بھی جواب دیتے چلیں کہ اصل دلیل کیا ہے اللہ کی طرف سے نبی کریم ﷺ کیا پیش کرتے تھے سوالات کے جوابات پر ۔۔۔؟ ؟؟
میرا دامن خالی ہے اگر آپ کو میرا دامن نظر نہیں آتا میرا کوئی قصور نہیں میرے پیارے بھائی۔۔۔۔۔۔

گمان ،قیاس،منطقی اور لوجیکل دلیل۔۔۔۔۔پھر آپ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے مخاطبین کے پاس دلیل نہیں تھی اسی طرح میرا دامن بھی خالی ہے۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔۔۔۔۔میرا اور آپ کا رب سب کچھ جاننے والا ہے سننے والا ہے ۔ ان شائ اللہ۔

سورۃ البقرہ 2۔یا پھر مثال کے طور پر اُس شخص کو دیکھو ، جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی ۔ اُس نے کہا ’’یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے ، اِسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ‘‘ ؟ اِس پر اللہ نے اُس کی رُوح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مُردہ پڑا رہا ۔ پھر اللہ نے اُسے دوبارہ زندگی بخشی اور اُس سے پوچھا : بتائو ، کتنی مدت پڑے رہے ہو؟ ‘‘ اُس نے کہا ’’ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا ۔ ‘‘ فرمایا ’’ تم پر سو برس اِسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا ہے۔ دوسری طرف ذرا اپنے گدھے کو بھی دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے ) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنا دینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اِس پنجر کو ہم کس طرح اُٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں۔ ‘‘ اس طرح جب حقیقت اُس کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی ، تو اُس نے کہا : ’’ میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے ۔‘‘ (259)

٭حقیقت سامنے آنے کے بعد بھی کیا یہ پیغمبر اپنی جہالت میں رہ گئے ہوں گے؟ کیا حقیقت واضح ہونے کے بعد بھی یہی ایسے ہی رہے ۔۔۔جناب یہ دنیا امتحان کی دنیا ہے سب کے لئے پیغمبر ہو ں یا عام انسان عدل و انصاف میں اللہ سب کے لئے ایک جیسا ہے ۔۔۔۔
بلکہ پیغمبروں پر زیادہ سخت بھی ہے ۔


سورۃ البقرہ 2۔اور وہ واقعہ بھی پیش نظر رہے ، جب ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہ ’’ میرے مالک! مجھے دکھا دے تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ‘‘ فرمایا: ’’ کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ ‘‘ اُس نے عرض کیا:’ ایمان تو رکھتا ہوں ، مگر دل کا اطمینان درکار ہے ‘‘ فرمایا: ’’ اچھا ، تو چار پرندے لے اور اُن کو اپنے سے مانوس کرلے ۔ پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے ۔ پھر اُن کو پکار ، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے ۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے ۔‘‘ (260)

٭ اس آیت پر غور کریں کیا ابراھیم علیہ السلام کو جب اس حقیقت واضح ہوئی تو کیا وہ اسی جہالت میں مبطلہ رہے ہوں گے؟ یا ان کا ایمان اور زیادہ پختہ ہوا۔۔۔
جیسے جیسے پیغمبروں کو ہدایت و نصیحت کی گی ویسے ویسے ان کا دین ایمان نکھرتا رہا یہ نہیں ہوا کہ وہ اپنے اپہلی جہالت پر رہے ۔۔۔۔۔
ابراھیم علیہ السلام بھی اپنی جہالت میں دعا کر گئے یہ ان کی لغزرش تھی اور کافر ،مشرک کے لئے دعا مغفرت منع فرما دی گئی نبی کریم ﷺ پر جو قوانین نازل ہوئے وہ پہلے پیغمبروں پر نازل قوانین کی واضح تفسیر و تشریح کرتے ہیں ۔جب اللہ نے فرمایا ہےکہ قیامت کے دن صرف اسے شفاعت کا کہا جائے گا جو صرف حق بات اپنی زبان سے نکالے گا کیا ابراھیم علیہ السلام کے یہ الفاظ جو ایک کافر ،مشرک کے لئے ہیں کیا یہ حق ہیں؟کیا یہ سچ بات ہے ؟ اس طرح تو اکثر پیغمبروں ،اصحاب کے والدیں ،گھر والے بھی جہنم میں جائیں گے کیا پھر وہ رسوائی نہیں؟ ان سب کی۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ کسی بھی قسم کی عارنہیں رکھتا حق بتانے میں کیا آپ جانتے نہیں؟پھر چاہے کسی نبی کا بیٹا ہو ،بیوی ہو،باپ ہو،ماں ہو اللہ کو کسی کی کوئی پروا نہیں۔۔اللہ تعالیٰ ان سب سے بے پروا ہے۔۔۔۔ان شائ اللہ ۔۔۔۔۔۔

اشماریہ جی آپ کو قرآن پڑھ کر کچھ سمجھ نہیں آتا کہ یہ اللہ کی کتاب ہے ، لاریب ہے یا شک والی،واقع یہی وہ کتاب ہے جو نبی کریم پر نازل ہوئی تو یہ آیت بھی پڑھ لیں اور غور کریں اور میرا کوئی قصور نہیں اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لئے آپ کسی بھی حد تک گر سکتے ہیں ۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔استغفراللہ۔۔۔اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے جو روز روز آپ سے بحث کرتا اور نتیجہ پھر صفر۔۔۔۔۔۔

سورۃ البقرہ 2۔ہاں ، اللہ اِس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اُس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے ۔ جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں ، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو اُن کے رَبّ ہی کی طرف سے آیا ہے ، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ اِنہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سرو کار ؟ اِس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہِ راست دکھا دیتا ہے ۔ اور اُس سے گمراہی میں وہ اُنہی کو مبتلا کرتا ہے جو فاسق ہیں۔ (26)

شرک کرنے والے کا انجام اور شرک سے بچنے نصیحت۔ایک بھائی نے سوال کیا تھا کہ پیغمبروں اور عام انسانوں کی لغزریشں ایک جیسی نہیں سمجھنی چاہئیں۔۔میں ان سے کہوں گا کہ اللہ تعالی ٰ شرک کے معاملہ میں پیغمبروں پر عام لوگوں سے یادہ سخت ہے۔
سورۃ الانعام 6۔
نیز ان کے آبائو اجداد اور ان کی اولاد اور ان کے بھائی بندوں میں سے بہتوں کو ہم نے نوازا، انہیں اپنی خدمت کے لیے چن لیا اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی کی۔(87)یہ اللہ کی ہدایت ہے جس کے ساتھ وہ اپنے بندوں میں سے جس کی چاہتا ہے رہنمائی کرتا ہے ۔ لیکن اگر کہیں ان لوگوں نے شرک کیا ہوتا تو ان کا سب کیا کرایا غارت ہو جاتا۔(88)
سورۃ یوسف12۔
زمین اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے رہتے ہیں اور ذرا توجہ نہیں کرتے۔(105)ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کوشریک ٹھیراتے ہیں۔(106)کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آ جائے گی۔‘‘ (107)تم ان سے صاف کہدو کہ ’’ میرا راستہ تو یہ ہے ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی ، اور اللہ پاک ہے۔ اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ (108)


٭سورۃ الزمر 39آیت نمبر 64،65،66میں اللہ دلیل کے طور پر اور ہمارے آخری پیغمبر دلیل کے طور پر کیا پیش کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔کیا آپ اس کو دلیل مانتے ہیں بھی؟

سورۃ الزمر 39۔(اے نبی ﷺ) اِن سے کہو ’’ پھر کیا اے جاہلو ، تم اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی کرنے کے لیے مجھ سے کہتے ہو‘‘؟ (64)(یہ بات تمہیں ان سے صاف کہہ دینی چاہیے کیونکہ) تمہاری طرف اور تم سے پہلے گزرے ہوئے تمام انبیاء کی طرف یہ وحی بھیجی جا چکی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہو جائے ،گا اور تم خسارے میں رہو گے۔ (65)لہٰذا (اے نبی ﷺ) تم بس اللہ ہی کی بندگی کرو اور شکر گزار بندوں میں سے ہو جائو۔ (66)اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق ہے ۔ (اُس کی قدرت کا ملہ کا حال تو یہ ہے کہ ) قیامت کے روز پوری زمین اُس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دستِ راست میں لپٹے ہوئے ہوں گے پاک اور بالاتر ہے وہ اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں،(67)
سورۃ البقرہ 2۔رسول ﷺ اس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اس رسول ﷺ کے ماننے والے ہیں انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے ۔ یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ ’’ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے ، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی۔ مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘(285)
سورۃ البقرہ 2۔اے مسلمانو! اب کیا اِن لوگوں سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ اُن میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی ۔ (75)
سورۃ البقرہ 2۔کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا ہے کہ جب اُنہوں نے کوئی عہد کیا ، تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا ؟ بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہی ہیں ، جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے ۔(100)

٭جب آپ کو معلوم ہے کہ قرآن ہی واحد کتاب ہے جو نبی کریمﷺ کے سامنے لکھا جاتا رہا اور یاد بھی کروایا گیا مکمل کتاب کی شکل میں لیکن حدیث نبی کریم ﷺ کے 200سال بعد جمع ہونا شروع ہوئی اب اس میں اہمیت زیادہ کس کتاب کی ہے جبکہ حدیثیں مکس تھی حق سچ کو علمائ نے علیحدہ کیا اب آپ کو کون سمجھائے کہ پہلے حق بات کا درجہ یہ قرآن مجید ہے اس کے بعد باقی کتابیں کی باری آتی ہے ۔۔۔۔۔ہر ہر سوال پر آیت نازل ہو رہی جس کو دلیل کہا گیا کوئ معجزہ نہیں کوئی اور بات نہیں صرف ہر بات پر آیت ان کے سامنے پڑھو اور ڈر سناتے رہو ۔۔۔۔۔۔یعنی اس قرآن مجید پر پہلے ایمان لائو ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے تمام سوالات کا جواب صرف یہ ہے کہ یہ قرآن لاریب ہے شک سے پاک ہے ،حق اور باطل میں فرق کرنے والی کتاب ہے ،یہی اللہ کی کتاب ہے ،یہی نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی ، اس میں کوئی کمی بیشی نہیں ،اس کتاب میں جو جو کچھ لکھا گیا سب حق ہے سچ ہے میں اس کتاب پر ہر ہر لفظ پر ایمان لے آیا اس کے مخالفت جو جو کتاب کرے گی میں اس کا انکار کرتا ہوں اور واضح کہتا ہوں وہ بات جو قرآن سے ٹکرائے نبی کریم ﷺ کی کہی ہوئی بات نہیں اسے رد کرتا ہوں ۔۔ان شائ اللہ۔۔یہ اس وقت جو جو اسلامی کتابیں ہیں سب کتابوں کی تصدیق کرتا ہے یہ شان ہے اس کتاب کی اور یہ قرآن کسی تعارف کا محتاج نہیں سب کے لئے یکساں ہدایت اور رہنمائی ہے ان آیات میں جو اس میں درج کی گئی ہیں ۔ اس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس کس طرح سمجھایا ہے لیکن انسان ہے ہی بہت نا شکرہ جو ہدایت پر غور نہیں کرتا۔۔شکریہ۔ اور اس آیت کو بھی پڑھ لیں۔

سورۃ الرعد13۔اگر ایسا قرآن نازل کر دیا جاتا جس کے زور سے پہاڑ چلنے لگتے ، یا زمین شق ہو جاتی ، یا مُردے قبروں سے نکل کر بولنے لگتے؟ (اس طرح کی نشانیاں دکھا دینا کچھ مشکل نہیں ہے) بلکہ سارا اختیار ہی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔پھر کیا اہل ایمان (ابھی تک کفار کی طلب کے جواب میں کسی نشانی کے ظہور کی آس لگائے بیٹھے ہیں اور وہ یہ جان کر ) مایوس نہیں ہو گئے کہ اگر اللہ چاہتا تو سارے انسانوں کو ہدایت دے دیتا؟جن لوگوں نے خدا کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کر رکھا ہے اُن پر اُن کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت آتی ہی رہتی ہے ، یا ان کے گھر کے قریب کہیں نازل ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ آن پورا ہو۔ یقینا اللہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔(31)
شکریہ۔۔۔۔۔
پھر بے ایمانی؟ پھر میری باتوں کا الگ الگ اقتباس نہیں لیا کہ کس بات کا کون سا جواب دے رہے ہیں؟
قرآن میں آپ کو یہود کی چالیں اور بے ایمانیاں نظر نہیں آتیں یا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کے اپنانے کی چیز ہیں؟
ایک بار پھر کہہ رہا ہوں۔ ہر بات کا الگ الگ اقتباس لے کر جواب دیں تاکہ صاف نظر آئے کہ آپ کہاں کہاں غیر متعلق باتیں کر کے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
چلیں شاباش! اس بار "لیا بالسنتہم" والی ٹیکنیکیں نہیں چلیں گی۔ اقتباس لے کر جواب دیں اور ٹو دی پوائنٹ جواب دیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اور مجھے معاف فرمائیں میں نے آپ سے تلخ بات کی لیکن ابھی جواب دینے سے پرہیز کریں گے تو بہت مہربانی ہو گی مجھے پہلے اشماریہ صاحب اور ٹی،کے ،ایچ صاحب سے بات کرنے دیں گے تو مجھ پر آپ کا بہت بڑا احسان ہو گا۔۔۔۔۔۔اگر سمجھیں تو۔اگر نہیں تو میں حاضر ہوں جناب کے لئے۔
اشماریہ صاحب نے آپ کو پچھلی بار چھوڑ دیا تھا تو شاید آپ یہ سمجھے تھے کہ اشماریہ صاحب کے پاس آپ کے بے دلیل دعووں کا کوئی جواب نہیں ہے۔
اب اشماریہ صاحب بات کر رہے ہیں لیکن آپ کو غالباً اب بات کرنے کا طریقہ نہیں آ رہا۔ ایک ہی مکس کھچڑی بنا رہے ہیں۔
ذرا قارئین کو بتائیں نا کہ ہر بات کا الگ الگ اقتباس لے کر ٹو دی پوائنٹ جواب کیوں نہیں دیتے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مجھے یہ ویب سائٹ درست طریقہ سے استعمال کرنا نہیں آتی۔۔اس لیے معزرت کے ساتھ ۔
آپ کو قرآن کریم اور احادیث میں تقابل کرنا آ جاتا ہے، حدیثوں کو رد کرنا آ جاتا ہے، علماء پر الزام لگانا آ جاتا ہے اور ویب سائٹ کے سادہ ترین فنکشن سمجھ نہیں آتے؟
باقی پوچھنا تو آپ کی شان کے خلاف ہے نا۔ نہ قرآن کریم کے حوالے سے کسی سے پوچھتے ہیں اور نہ ویب سائٹ کے حوالے سے۔ اپنی تحقیق زندہ باد!
 
Top