• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
جناب ! آپ کی کافی پوسٹس کو (جو کہ کافی طویل تھیں ) پڑھا جا چکا ہے اور اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ ذہن پرستی کا شکار ہیں !

آمین !

اس پوسٹ یا تھریڈ کا بنیادی "ٹائٹل " جو درج ہے وہ یہی ہے کہ "قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟"
لیکن آپ خود ہی واقف نہیں اور بحث برائے بحث جاری رکھے ہوۓ ہیں

لیجیے اپنی تحریر ملاحظہ کیجیے :


خط کشیدہ الفاظ آپ کے سامنے ہیں !
اگر آپ حدیث کو منزل من الله مانتے ہیں تو پھر اس کا انکار کیوں ؟؟؟
اگر آپ یہ کہیں کہ" تعلیمات قرآنی کے خلاف ہے بات ، لہذا درست نہیں " تو عرض یہ ہے کہ اگر اسی طرح اگر کوئی آیت دوسری آیت کے خلاف ہو تو کیا وہ بھی موضوع ہےیا نہیں ؟؟؟
اگر وہ آیت موضوع نہیں تو پھر وہ حدیث کیوں ؟؟؟
نوٹ : قرآن کی دو آیتوں میں بظاہر تضادنظر آتا ہے لیکن ہم دونوں کو تسلیم کرتے ہیں کسی ایک کو بھی مسترد نہیں کرتے ۔ کسی ایک کا بھی انکار نہیں کرتے ۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی وجہ سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ دونوں ثابت شدہ ہیں ۔ ثابت شدہ چیز کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہی چیز حدیث کے معاملہ میں بھی صحیح ہے اگر کسی آیت اور کسی حدیث میں تضاد نظر آئے تو اگر حدیث ثابت شدہ ہے تو اس کا انکار نہیں کیا جائے گا بلکہ دونوں میں تطبیق کی صورت پیدا کی جائے گی ۔
السلام علیکم!
مثال کے طور پر۔
صحیح بخاری۔كتاب الجهاد والسير۔کتاب جہاد کا بیان
باب ما يذكر من شؤم الفرس:
باب: اس بیان میں کہ بعض گھوڑے منحوس ہوتے ہیں


حدیث نمبر: 2858

حدثنا ابو اليمان اخبرنا شعيب عن الزهري قال:‏‏‏‏ اخبرني سالم بن عبد الله ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏"إنما الشؤم في ثلاثة في الفرس والمراة والدار".
حَدَّثَنَا
أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:‏‏‏‏"إِنَّمَا الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ فِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے۔ گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔“
سنن أبي داود۔كتاب الكهانة والتطير۔کہانت اور بدفالی سے متعلق احکام و مسائل
باب في الطيرة
باب: بدشگونی اور فال بد لینے کا بیان۔

حدیث نمبر: 3922


حدثنا
القعنبي حدثنا مالك عن ابن شهاب عن حمزة وسالم ابني عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏ " الشؤم في الدار والمراة والفرس " قال ابو داود:‏‏‏‏ قرئ على الحارث بن مسكين وانا شاهد اخبرك ابن القاسم قال:‏‏‏‏ سئل مالك عن الشؤم في الفرس والدار قال:‏‏‏‏ كم من دار سكنها ناس فهلكوا ثم سكنها آخرون فهلكوا؟ فهذا تفسيره فيما نرى والله اعلم قال ابو داود:‏‏‏‏ قال عمر رضي الله عنه:‏‏‏‏ حصير في البيت خير من امراة لا تلد.
حَدَّثَنَا
الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ حَمْزَةَ، وَسَالِمٍ ابْنَيْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:‏‏‏‏"الشُّؤْمُ فِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ قُرِئَ عَلَى الْحَارِثِ بْنِ مِسْكِينٍ وَأَنَا شَاهِدٌ، أَخْبَرَكَ ابْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ مَالِكٌ عَنِ الشُّؤْمِ فِي الْفَرَسِ وَالدَّارِ، قَالَ:‏‏‏‏ كَمْ مِنْ دَارٍ سَكَنَهَا نَاسٌ، فَهَلَكُوا ثُمَّ سَكَنَهَا آخَرُونَ، فَهَلَكُوا؟ فَهَذَا تَفْسِيرُهُ فِيمَا نَرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ، قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏‏‏‏ حَصِيرٌ فِي الْبَيْتِ خَيْرٌ مِنَ امْرَأَةٍ لَا تَلِدُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نحوست گھر، عورت اور گھوڑے میں ہے ۱؎“۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارث بن مسکین پر پڑھا گیا اور میں موجود تھا کہ ابن قاسم نے آپ کو خبر دی ہے کہ امام مالک سے گھوڑے اور گھر کی نحوست کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: بہت سے گھر ایسے ہیں جس میں لوگ رہے تو وہ مر گئے پھر دوسرے لوگ رہنے لگے تو وہ بھی مر گئے، جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہی اس کی تفسیر ہے، واللہ اعلم۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ گھر کی ایک چٹائی بانجھ عورت سے اچھی ہے۔
عائشہؓ نے کہا یہ صحیح نہیں ، ابو ہریرہؓ نے آدھی بات سنی اور آدھی نہیں سنی، آپؐ پہلا فقرہ کہہ چکے تھے کہ ابو ہریرہؓ پہونچے، آپ نے یہ فرمایا کہ’’ یہود کہتے ہیں کہ بد شگونی تین چیزوں میں ہے ، عورت میں ، گھوڑے میں ، گھر میں ۔‘‘
٭ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) نے دو بار خدائے عزوجل کو دیکھا ، مسروق تابعی نے عائشہؓ سے جا کر پوچھا ’’مادرِ من! کیا محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نےاللہ کو دیکھا تھا۔‘‘ عائشہؓ نے کہا تم ایسی بات بولے جس کو سن کر میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ، جو تم سے یہ کہے کہ محمدؐ نے اللہ کو دیکھا وہ جھوٹ کہتا ہے، پھر یہ آیت پڑھی:
سورۃ الانعام 6۔

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ ١٠٣؁
نگاہیں اس کو نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پالیتا ہے ، وہ نہایت باریک ہیں اور باخبر ہے۔(103)
دیکھو تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے بصیرت کی روشنیاں آگئی ہیں ، اب جو بینائی سے کام لے گا اپنا ہی بھلا کرے گا اور جو اندھا بنے گا خود نقصان اُٹھائے گا۔ میں تم پر کوئی پاسبان نہیں ہوں۔(104)

اس کے بعد یہ دوسری آیت پڑھی:
سورۃ الشوری42۔ کسی بشر کا یہ مقام نہیں ہے کہ اللہ اُس سے رُو برو بات کرے ۔اُس کی بات یا تو وحی (اشارے ) کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے ، یا پھر وہ کو ئی پیغام بر (فرشتہ ) بھیجتا ہے اور وہ اُس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے ، وہ برتر اور حکیم ہے۔(51)
یہ امر مسلّم ہے کہ محرم اسرار سے محرم اسرار دوست کی بنسبت بیوی بہت کچھ زیادہ جان سکتی ہے ، آنحضرت(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمہ تن مثال اور اسوہ تھے،


اب دلیل کس بات کو کہا جا رہا ہے۔۔۔بتائیں تو صحیح۔۔۔کہاں سے جواب لیا جا رہا ہے ۔۔اور کون جواب دے رہا ہے ان کی شان کیا ہے !بیان کر سکتے ہیں جن کا نام لیا جا رہا ہے ان کی شان کیا ہے ؟
مولانا کی شان زیادہ ہے میرا خیال ہے شایدآپ کے نزدیک!
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
السلام علیکم!
اپنے ایمان کی تصدیق پہلے لاریب کتاب سے پھر بعد میں احادیث مبارکہ۔اگر شک سے پاک ایمان چاہیے ۔
2:185
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْ أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلاَ يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
رمضان کا وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پالے تو اس کے روزے رکھے اور جو کوئی بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنو ں سے گنتی پوری کر ے اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا اور تاکہ تم گنتی پوری کر لو اور تاکہ تم الله کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو

3:4
مِن قَبْلُ هُدًى لِّلنَّاسِ
وَأَنزَلَ الْفُرْقَانَ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ بِآيَاتِ اللّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَاللّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ

(جیسے) اس سے قبل لوگوں کی رہنمائی کے لئے (کتابیں اتاری گئیں) اور (اب اسی طرح) اس نے حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا (قرآن) نازل فرمایا ہے، بیشک جو لوگ اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے سنگین عذاب ہے، اور اﷲ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے

25:1
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا
(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرّب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے ڈر سنانے والا ہو جائے

جس بات پر امت کے تمام فقہاء و علماء کا اتفاق ہوجائے، اسے اجماعِ امت کہتے ہیں اور اس سے انحراف کفر ہے

صحیح بخاری: جلد سوم: حدیث نمبر 1674

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ہمارے پاس کتاب اللہ کے سوا کوئی چیز نہیں ہے جسے ہم پڑھیں سوائے اِس صحیفہ کے اس کو انہوں نے نکالا تو اس میں زخموں اور اونٹوں کے متعلق چند باتیں لکھی تھیں۔

صحیح مسلم:جلد دوم:حدیث نمبر 834

حضرت علی رضی اللہ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ جو آدمی یہ خیال کرتا ہے کہ ہمارے پاس وہ چیز ہے جسے ہم پڑھتے ہیں سوائے اللہ کی کتاب اور اس صحیفے کے ۔ (جو آپ کی تلوار کی نیام کے ساتھ لٹکا ہوا تھا۔) اس طرح کا خیال کرنے والا آدمی جھوٹا ہے ۔اس صحیفے میں تو اونٹوں کی عمروں اور کچھ زخموں کی دیت کا ذکر ہے۔

٭٭٭

عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی لا تے ہیں ۔( تفسیر ابن کثیر ج٤ ص٩٤٥ ،سورہ فاطر)
  • مخالف فرقے کی کتب میں‌درج روایات اھادیث و اعمال رسول ناقابل قبول ہیں۔ لیکن ان کی احادیث سے انکار کرکے آپ منکر الحدیث نہیں ہوتے ۔واہ
  • جو روایات ہمارے موقف کی حمایت نہیں کرتی ہیں، خود کا نا پسند ہوں‌ یا موقف کے مخالف ہوں و نا پسندیدہ روایات اپنی کتب روایات سے ہونے کے باوجود ضعیف ہیں۔ واہ
  • آپ ہر روایت پر مکمل یقین رکھئے، اس کا ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ان رویات پر ایمان بالمثل القرآن ضروری ہے۔
  • کتب روایات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پرانی کتب ذرا دبلی ہیں، کھا پی کر بعد میں موٹی ہوگئی ہیں ۔ یعنی تبیدیلیاں آتی رہیں ؟ِ؟؟؟
  • صرف ہمارے فرقے کی کتب روایات میں تمام روایات درست ہیں ۔ دوسرے فرقے کی کتب روایات سے ہم انکار کرتے ہیں، لیکن اس انکار کے باوجود ہم منکر الحدیث تھوڑی ہیں۔واہ
  • جی ، کچھ روایات یقیناً دشنمنان اسلام نے شامل کردی ہونگی ۔ لیکن ہم سب روایات پر یقین رکھتے ہیں۔ دشمنان اسلام کی شامل شدہ روایات پر بھی ، ٹھیک ہے کہ اس میں اہانت رسول و انبیا اور اہانت اللہ اور قران سے مخالف واقعات شامل ہین - لیکن کیا ہے کہ ہم بتا نہیں سکتے کہ وہ حتمی طور پر وہ کون سے واقعات ہیں ، ہم ان سب واعات پر جو دشمنان اسلام نےشامل کی ہیں یقین رکھتے ہیں۔ پھر بھی منکر الحدیث تھوڑا ہی ہیں۔واہ
  • جب ان سب کی سب تمام فرقون کی روایات، واقعات و احادیث پر آپ ایمان بالمثل القرآن نہیں تو پھر کیا ہے؟ ایمان یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ تھوڑا سا ایمان ہوتا ہے یا آدھا ایمان ہوتا ہے۔ ایمان کا مطلب ہے - مان لینا۔ اور تکفیر کا مطلب ہے نا ماننا آدھے ادھر اور آدھے ادھر کو کیا کہتے ہیں ؟ سمجھا دیجئے گا۔عین نوازش ہو گی ۔
« رُوِيَ عَنْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «مَا أَتَاكُمْ عَنِّي فَاعْرِضُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ وَافَقَ كِتَابَ اللَّهِ فَأَنَا قُلْتُهُ وَإِنْ خَالَفَ كِتَابَ اللَّهِ فَلَمْ أَقُلْهُ أَنَا،
وَكَيْفَ أُخَالِفُ كِتَابَ اللَّهِ، وَبِهِ هَدَانِي اللَّهُ»

٭یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو بات تمہارے پاس میرے حوالے سے پیش ہو اسے کتاب اللہ پر پیش کرو، اگر موافق پاؤ تو میرا فرمان ہے ورنہ نہیں، کیونکہ میں صرف کتاب اللہ کی موافقت کرتا ہوں اور اسی سے اللہ مجھے راہ دکھاتے ہیں۔
«كَلَامِي لَا يَنْسَخُ كَلَامَ اللَّهِ وَكَلَامُ اللَّهِ , يَنْسَخُ كَلَامِي وَكَلَامُ اللَّهِ , يَنْسَخُ بَعْضُهُ بَعْضًا»

٭ "میرا کلام اللہ کے کلام کو منسوخ نہیں کرتا جبکہ اللہ کا کلام میرے کلام کو منسوخ کرتا ہے اور اللہ کے کلام کا بعض اس کے بعض کو منسوخ کرتا ہے۔"


ان احادیث کو ضعیف اور راوی کو منکر کہ کر ان احادیث کو دین اسلام سے نکال دیا گیا جبکہ یہ احادیث واضح اور سچ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی شان اور قرآن مجید کی شان بیان فرما رہی ہیں۔

یہ دونوں حدیثیں جعلی اور بناوٹی ہیں۔ (مولانا عبدالسلام کیلانی)​
مولانا نے کہہ دیا تو جعلی اور بناوٹی مولانا نے کہہ دیا کہ یہ فلاں حدیث حق ہے تو حق ہے جو مرضی کرو یہ دین تمہارے مولانا کا ہے اللہ تعالیٰ کا نہیں یہ دین تمہارے مولانا لائے ہیں اللہ تعالیٰ نہیں جو مولانا کہیں گے اگر کوئی ان سے روگردانی کرے گا تو وہ مولانا صاحب کی بنائی ہی دوذخ کی آگ میں جلے گا۔۔۔۔
اگر قرآن واضح کہے کہ فلاں حدیث جعلی اور بناوٹی ہیں تو تم منکر حدیث ہو۔ کیا یہ انصاف ہے۔؟
وعلیکم السلام !
محترمی !
میں آپ کو منکر ِ حدیث ہرگز نہیں سمجھتا یا کہتاغالباً آپ کو حدیث کے متعلق چند شبہات ہیں اس لیے میں نے آپ کو اس کتاب کے مطالعہ کا مشورہ دیا ہے ۔ آپ کی گفتگو سےیہی لگتا ہے کہ آپ نے اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا ورنہ آپ ایسی باتیں نہ کہتے۔ ایک بار اسکو پڑھ کر تو دیکھیں کہ اس میں کیا کہا گیا ہے ۔اس کے بعد آپ کو کوئی بھی مؤقف اپنانے کا پورا حق ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہات رحم کرنے والا ہے۔شروع میں یہ چار سورۃ کی آیات ہیں ان کو ضرور پڑھیں اس کے بعد باقی عبارت اور ساری زندگی سوچتے رہیں۔

سورۃ لاعراف7۔اے نبی ﷺ ، جب تم اِن لوگوں کے سامنے کوئی نشانی (یعنی معجزہ) پیش نہیں کرتے تو یہ کہتے ہیں کہ تم اپنے لے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی؟ اِن سے کہو ’’میں تو صرف اُس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میرے ربّ نے میری طرف بھیجی ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں تمہارے ربّ کی طرف سے اورہدایت اور رحمت ہے اُن لوگوں کے لیے جو اسے قبول کریں۔ (203)
سورۃ ھود11۔کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو ، ’’ اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لائو اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں ان کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں معبود سمجھنے میں ) سچے ہو۔(13)
سورۃ سبائ 34۔اِن لوگوں کو جب ہماری صاف صاف آیات سُنائی جاتی ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ’’ یہ شخص تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم کو اُن معبودوں سے برگشتہ کر دے جن کی عبادت تمہارے باپ دادا کرتے آئے ہیں ‘‘ ۔ اور کہتے ہیں کہ ’’ یہ (قرآن) محض ایک جھوٹ ہے گھڑا ہوا ۔ ‘‘ اِن کافروں کے سامنے جب حق آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ ’’ یہ تو صریح جادو ہے۔ ‘‘ (43)
سورۃ الطور52۔کیا یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ قرآن خود گھڑ لیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ایمان نہیں لانا چاہتے ۔(33)
کیسی بات ہے نبی بھی ضد بازی کر رہے ہیں اور بضد بھی ہیں کہ اس قرآن کو مانواور دلیل میں کیا پیش کرتے رہے ساری زندگی یہی آیات واہ کہتے رہے یہ اللہ کی کتاب ہے اور میں اللہ کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہوں اللہ کا پیغمبر بن کر اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ واقع اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔اس کتاب پر ایمان لائو یہ کتاب تمہیں گمراہی سے نکالے گی اس میں ہدایت ہے ان لوگوں کے لئے تو غورو فکر کرتے ہیں ان آیات سے انکار مت کرو۔لوگ کہتے دلیل دو جو کچھ تم کہتے ہو ۔اور نبی کریم ﷺ کا حال دیکھو تو ساری زندگی دلیل میں یہ آیات بیان کرتے رہے اور آج ہمارے علما ئ کہتے ہیں یہ قرآن ہدایت سے خالی ہے ،کوئی عقلی،منقولی،لوجکلی بات اس قرآن میں ہے ہی نہیں ،سمجھانا ہے تو قرآن سے باہر کسی طرح سمجھائو بھائی جو اللہ کی کتاب سے نہیں سمجھ سکتا وہ کسی بھی طرح نہیں سمجھ سکتا جو کچھ مرضی کر لو گمراہی اس کا مقدر ہے یہ میرا ایمان ہے ۔اللہ مجھے معاف فرمائے۔ آمین۔

اب وضاحت کر دیتا جناب کی آئینہ دیکھ لیجئے آج آپ ۔

میں نے آپ کو موقع دیا کہ پہلے آپ سوال کریں اس کی وجہ یہی تھی مجھے بلکل آپ سے اسی طرح کے سوالات کی امید تھی۔جیسے آپ پہلے بھی کر چکے ہیں(ثابت کر کہ یہ قرآن اللہ کی ہی کتاب ہے،ثابت کر کہ اس میں درج آیات واقع اللہ کی نازل کی ہوئی ہیں ،ثابت کر یہ نبی کریم ﷺ پر نازل ہوئی ،ثابت کر یہ قرآن ہ وغیرہ وغیرہ)۔نہایت ادب کے ساتھ خواہش آپ کی یہ ہے صرف قرآن مجید سے جواب دیں وہ بھی واضح آیت۔۔۔۔!!!!! شیطان کہتا ہے جو کچھ تم کر رہے کیا خوب کر رہے لگے رہو ۔۔۔۔۔۔!!! جس پر میں پہلے بھی جوابات دے چکا لیکن آپ نے نہایت چلاکی سے کہہ دیا اقتباس لے کر جواب دیں ۔
اللہ کا فرمان ہے کہ خواہش کے پیچھے نہ لگو۔اللہ کا فرمان ہےباطل پر حق کا رنگ نہ چڑہائو۔شیطان کی پیروی نہ کرو۔۔۔۔
٭آپ کے سوالات بلکل اسی طرح کے ہیں جیسے ۔
نبی کریم ﷺ حیات تھے اور وہ کفار،مشرک کے سامنے یہ کہیں کہ میں نبی ہوں!اللہ نے مجھے چن لیا ہے!مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے!ایک فرشتہ ہے جس کا نام جبرائل ہے وہ لے کر آتا ہے جو کچھ میں پڑھتا ہوں!اب اللہ نے یہ فرمایا ہے !اب اللہ نے یہ حکم دیا ہے! اب اللہ یہ فرما رہا ہے ! اب کفار ان سے ٹھوس دلیل مانگتے ہیں کہ اگر آپ اپنے دعوے کے مطابق کہ آپ نبی ہیں اللہ کے بندے ہیں اور پیغام پہنچا رہے ہیں تو ثابت کریں لائیں کوئی ٹھوس دلیل،لوجک،منقولی دلیل،عقل جس کو تسلیم کرئے۔ اب ان کی خواہشات کیا تھیں !
٭ثابت کرنے کے لئے کہ فرشتوں کو بلائیں۔
٭یا اللہ کو کہیں وہ خود یہاں ہمارے سامنے حاضر ہو جائے۔
٭ان قبروں کے مردوں کو کہیں کہ وہ گواہی دیں۔اگر اللہ ہر چیز پر قادر ہے تو ثابت کریں دیں منقولی،عقلی،لوجک دلیل۔۔۔واہ کیا خواہش نفس ہے ان کی اور میرے پیارے بھائی اشماریہ جی کی۔۔۔اللہ مجھے آپ جیسے علمائ سے دور ہی رکھے آمین۔
٭اس قرآن میں کچھ ایسی کرامات لاکر دیکھائیں کہ ہم کہیں واقع یہ قرآن اللہ ہی کی کتاب ہے اور اے محمد تم اللہ کے نبی پیغام پہچانے والے ہو۔
٭کوئی معجزہ دیکھائو اب معجزہ کیسا ہو۔ایسا ہو جو عام انسانوں جیسا نہ ہو۔تم کھاتے ہو،پیتے ہو،کپڑے پہنتے ہو،دنیا کے مال کے لئے محنت کرتے ہو،تمہیں گھر کی ضرورت بھی ہے ،تمہیں بھی بھوک لگتی ہے ،بیوی ہے ،بچے ہیں ،تم تو ہم جیسے ہی عام سے انسان ہو،یعنی کچھ ایسا دیکھادو جو اس دنیا کے کاموں،سورج،چاند،ہمارے پاس لے آئو،وغیرہ وغیرہ۔
٭جبکہ جواب میں نازل کیا ہوا !اے نبی اگر یہ آیات کو جھٹلاتے ہیں تو ان کو کہو،ان سے پوچھو،فلاں قصہ سنائو،مثال دو مکھی کی،مچھر،مکڑی،پانی ،ہوا،آگ کی مثال دو،دن ،رات،مردہ زندہ،یعنی اللہ نے ہر طریقے سے صرف اپنی آیات نازل کیں ۔یعنی اللہ اور نبی کریم ﷺ کے سامنے ٹھوس دلیل ،لوجک بات،منقولی،عقلی،مثال کیا تھی اللہ اور اس کا رسول کس بات کو دلیل کہتا تھا حیرت ہے ،میں تو حیران ہوں ،پریشان ہوں ان علمائ کا یہ روپ دیکھ کر جو کہتے ہیں اگر صحیح بخاری پر انگلی کرو گے کہ اس میں سچ اور باطل مکس ہے تو یہ جواب میں اپنی شرم حیاہ کو بھولا کر کہہ دیں گے کہ تو قرآن میں کون کہتا ہے حق اور باطل نہیں،کون کہتا ہے قرآن میں اختلاف نہیں یہ کیسے ظالم عالم ہیں جو یہ نہیں کہتے کہ ہم قرآن کو سمجھنے سے قاصر ہیں فلاں آیت ہمیں سمجھ نہیں آئی ،۔اللہ تعالیٰ نبی کریم سے اور ان لوگوں سے باتیں کر رہا ہے آیات نازل کر کے ان کے سوالا ت کا جواب دے رہا ہے اور ان کی خواہش پوری نہ کی گئی جبکہ اللہ قادر تھا کیوں۔؟۔تاکہ قیامت کے دن ان کو اور ان جیسوں کو پورا پورا بدلہ دیا جا سکے اور دنیا کی زندگی میں وہ اپنی اس بواس میں جو اپنی زبانوں سے نکالتے ہیں اسی میں کھیلتے رہیں ۔اور اس لئے کہ اے نبی تمہیں کیسے سمجھایا جائے یہ اتنے جاہل،کافر،مشرک ہیں کہ جو جو انکی خواہشات ہیں ان کو پورا بھی کر دیا جائے یہ ایمان لانے والے نہیں ۔تو تم ان کو چھوڑ دو ان کی بواس میں یہاں تک کہ ان پر موت آجائے اور جس چیز کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے وہ اس کو دیکھ لیں آپ اور آپ جیسے تمام علمائ کے لئے بھی یہی الفاظ بڑے زبردست ہیں جو حق اور باطل مکس کرتے ہیں جو باطل کو حق کا لباس پہنانے کی کوشش کرتے ہیں۔۔سورۃ الملک آپ جیسوں پر بڑی زبردست لگائی جا سکتی ہے ایک بار غور کی نظر اور کاموں سے آنکھوں سے دیکھ لینا،پڑھ لینا،سمجھنے کی کوشش کرنا ۔جو مکاریاں ،ہوشیاریاں ،چلاکیاں کرتے ہوئے اپنے موقف کو تول دیتے ہیں ان شائ اللہ قیامت کے دن ہمارے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا۔

1۔نبی کریم ﷺ کی زندگی میں کتابت ہوئی۔۔
اگر میں آپ کو جواب دیتا اور جواب میں روایات یا احادیث کوڈ کرتا ہوں جو حق ہے تو آپ کی نگاہ میں ان کی کوئی اوکات نہیں ہو گی کیوں!۔وجہ میرا موقف ہے کہ قرآن حاکم کتاب ہے اس لئے اب کیونکہ یہ انسان یہ کہتا ہے قرآ ن حاکم ہے تو اس حاکم کتاب سے ثابت کر کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں قرآن لکھا جاتا رہا مکمل ہو گیا۔وغیرہ وغیرہ۔

٭سورۃ البینہ98آیت نمبر 2تا3۔
رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةًفِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ
(یعنی ) اللہ کی طرف سے ایک رسول (محمد ؐ) ، جو پاک صحیفے (اوراق)پڑھ کر سنائے، (2) جن میں ، بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہیں۔(جس میں ، صاف احکام لکھے ہوئے ہوں)(3)

٭سورۃ الطور
میں ہے ۔ 52 آیت نمبر 3۔
ترجمہ نمبر 1۔جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے،(3)
ترجمہ نمبر 2۔اورلکھی ہوئی کتاب کی۔کشادہ ورق میں۔
ترجمہ نمبر 3۔اور اس کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔کشادہ ورق میں۔

٭سورۃ الفرقان آیت نمبر 5
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا۔
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)


٭سورۃ القلم68۔نٓ ۔ قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں، (1)تم اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہو ۔(2)اور یقینا تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں (3)اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں ۔(4)عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے (5)کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے۔ (کہ فتنہ میں پڑا ہوا تم میں سے کس گروہ کے ساتھ ہے) (6)تمہارا ربّ اُن لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، اور وہی ان کو بھی اچھی طرح جانتا ہے جو راہِ راست پر ہیں۔(7)لہٰذا تم اِن جھٹلانے والوں کے دبائو میں ہرگز نہ آئے ۔ (8)یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کریں تو یہ بھی مداہنت کریں۔ (ذرا تم نرم پڑو تو یہ بھی نرم پڑ جائیں) (9)ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے، (اور آپ ﷺ بات نہ سنیں ہر جھوٹی قسمیں کھانے والے ذلیل کی) (10)طعنے دیتا ہے ، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے ، (اشارہ ، باز لترے ) (11)بھلائی سے روکتا ہے ، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے ، سخت بداعمال ہے، (12)جفا کار ہے ، اور اِن سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے، (سنگدل مزید برآں بے نسب کی) (13)اس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے۔(14)جب ہماری آیات اُس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔ (15)عنقریب ہم اِس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے ۔(16)

نبی کریم ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو اپنے پاس لکھ لیا کرتے تھے ساتھ ساتھ اس کو یاد بھی کر لیا کرتے تھے ۔ اگر صرف یاد کر لیا جاتا اور لکھا نہ جاتا تو یہ زیادہ محکم نہیں تھا زیادہ پائیدار نہیں تھا اس یعنی قرآن مجید جیسے احکمات کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنا لازم تھا کیونکہ بہت احکم احکامات تھے اس کی وضاحت سورۃ البقرہ کی آیت نمبر282
میں اللہ کا فرمان ہے ۔


اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جس کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور اِملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے ( یعنی قرض لینے والا) ، اور اسے اللہ ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املاء نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املاء کرائے۔ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(282)

اب قیاس ،کہانی ،جھوٹ ،تہمت،باطل ،گھٹی ہوئی بات کی جاتی ہے کہ قرآن کو لکھا نہیں جاتا تھا ٹائم نہیں ہوتا تھا یا کاغذ نہیں ہوتا تھا فلاں فلاں بھائی یہ سب قیاس ہے آپ کا کیونکہ آپ آنکھ بند کر کے صرف تقلید کرنا پسند کرتے ہیں آپ کے علمائ جو کچھ کہہ گئے اگر آج کوئی دلیل سے واضح کر دے تو بھی اس کا انکار کر دیتے ہیں کیونکہ آپ کے بڑے غلط ثابت ہو جاتے ہیں اگر آپ حق تسلیم کر لیں تو۔
یہ عام لین دین کا کام تو لکھا جاتا رہا اور اللہ کا فرمان ہے کہ لین دین کے کام میں لکھ لیا کرو اس سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے ۔لیکن قرآن کے معاملہ میں یہ بے برواہی کیسی اور کیوں؟
اور اتنا اہم کام قرآن مجید کا معاملہ نبی کریم ﷺ اس طرح چھوڑ گئے کہ اصحاب اکرام اس کی آیات کو تلاش کر رہے ہیں ۔ وہ قرآن مجید جو نبی کریم ﷺ پر 23 سال میں نازل ہوا اور ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو لکھتے بھی رہے وہ آخر گیا کہاں پھر کاتب وحی جو قرآن مجید لکھتے تھے کیا وہ کوئی مٹھائی تھی،کوئی چیچی تھی ،جو وہ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے مانگنے والے کو دے دیتے تھے!!!!!نہیں ایسا نہیں ہوا کاتب وحی کے پاس جو کوئی سورۃ آیت لینے آتا تھا اس کی نقل کی جاتی تھی جو ان کے پاس محفوظ ہوتی لکھی ہوئی ہوتی تھی اس سے نقل کر کے دی جاتی تھی۔
اب کہا جاتا ہے کہ قرآن مکمل تو تھا لیکن ایک جگہ نہیں تھا یہ بھی قرآن کی حاکمیت کی کم کرنے کی سازش ہے جو شیعہ نے کی اور ہمارے یہ پیارے کلمہ پڑھنے والے بھی اس میں مبتلہ ہو چکے ۔۔۔۔

٭صرف قرآن مجید سے جواب دیں ۔۔۔کیا خواہش باطلہ ہے جناب محترم کی۔
۔۔۔کیونکہ آپ کا فرمان ہے جواب صرف قرآن سے دیں ! جبکہ میرا موقف آپ سب کے سامنے واضح ہے پھر بھی یہ خواہش یعنی اگر دیکھا جائے تو آپ لوگ اپنی گمراہی کو درست ثابت کرنے کے لئے کسی بھ حد تک گر جائیں گے اس کی مثال آپ کے سوالات ہیں جو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم دین اسلام ہمارے ۔۔۔۔ کا ہے کسی اللہ تعالیٰ کی ذات کا نہیں۔
2۔جبرائیل کے سامنے اس کو ہر طرح سے دیکھا گیا کہیں کوئی غلطی تو موجود نہیں۔اور جواب صرف قرآن کی کسی آیت سے دیں اور اس آیت میں واضح جبرائیل اور نبی کریم ﷺ کی یہ گفتگو ہو کہہ وہ باتیں جو اس وقت ہو رہی تھیں۔۔۔واہ کیا خواہش نفس ہے میرے پیارے بھائی کی۔
کیا خواہش باطل ہے ۔میرا ایمان ہے پہلے قرآن مجید جیسے نبی کریم ﷺ سے سوال ہوتا رہا اور جواب میں یہ آیات نازل ہوتی رہیں اسی طرح میرا بھی یہی ایمان ہے پھر جہاں قرآن خاموش ہو جائے پھر احادیث مبارکہ پھرجہاں قرآن و احادیث دونوں سے جواب نہ ملے تب علمائ کے بتائے ہوئے علوم۔۔۔۔۔

سورۃ المائدہ 5۔
یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں
۔ باندھے گئے اِن کے ہاتھ ، اور لعنت پڑی ان پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں ۔ اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں ، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں الٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے ، اور (اس کی پاداش میں) ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ (64)

اب جب یہ یہودیوں نے کہا کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔(استغفراللہ) تو ٹھوس دلیل میں جاہل لوگوں کے لیے کیانازل ہوا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! آیت ۔۔آیت ۔۔۔آیت جب جب دلیل مانگی گئی،نبی کریم ﷺ پر تہمت لگائی گئی کیا نازل ہوا آیت۔

سورۃ المومنون 23۔اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے ، اپنی چوپالوں میں اُس پر باتیں چھانٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے۔ (67)

سورۃ النسائ 4۔لوگو ! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔(174)

اب اس پر بھی لوگ دلیل مانگتے مانگتے مر دئے ،دفن ہو گئے ۔اور بدلہ میں ملا کیا جہنم کی آگ۔
قرآن مجید اللہ کی کتاب ،لاریب ،شک سے پاک،تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والی ،اگر قرآن خاموش ہو جائے تفسیر و تشریح میں تب باقی تمام کتابوں کا درجہ۔۔۔۔۔۔۔۔ان شائ اللہ۔
آپ کی پوسٹ پڑھی اور مکمل پڑھی۔ یہ تو شاید آپ کی گھٹی میں پڑا ہے کہ آپ غیر متعلق باتیں ضرور کریں گے۔ بہر حال ان غیر متعلق باتوں کے درمیان میں جوآپ نے جوابات دیے ہیں میں ان کا اقتباس لے رہا ہوں:
1۔نبی کریم ﷺ کی زندگی میں کتابت ہوئی۔۔
اگر میں آپ کو جواب دیتا اور جواب میں روایات یا احادیث کوڈ کرتا ہوں جو حق ہے تو آپ کی نگاہ میں ان کی کوئی اوکات نہیں ہو گی کیوں!۔وجہ میرا موقف ہے کہ قرآن حاکم کتاب ہے اس لئے اب کیونکہ یہ انسان یہ کہتا ہے قرآ ن حاکم ہے تو اس حاکم کتاب سے ثابت کر کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں قرآن لکھا جاتا رہا مکمل ہو گیا۔وغیرہ وغیرہ۔

٭سورۃ البینہ98آیت نمبر 2تا3۔
رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةًفِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ
(یعنی ) اللہ کی طرف سے ایک رسول (محمد ؐ) ، جو پاک صحیفے (اوراق)پڑھ کر سنائے، (2) جن میں ، بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہیں۔(جس میں ، صاف احکام لکھے ہوئے ہوں)(3)

٭سورۃ الطور
میں ہے ۔ 52 آیت نمبر 3۔
ترجمہ نمبر 1۔جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے،(3)
ترجمہ نمبر 2۔اورلکھی ہوئی کتاب کی۔کشادہ ورق میں۔
ترجمہ نمبر 3۔اور اس کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔کشادہ ورق میں۔

٭سورۃ الفرقان آیت نمبر 5
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا۔
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)


٭سورۃ القلم68۔نٓ ۔ قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں، (1)تم اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہو ۔(2)اور یقینا تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں (3)اور بیشک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہیں ۔(4)عنقریب تم بھی دیکھ لو گے اور وہ بھی دیکھ لیں گے (5)کہ تم میں سے کون جنون میں مبتلا ہے۔ (کہ فتنہ میں پڑا ہوا تم میں سے کس گروہ کے ساتھ ہے) (6)تمہارا ربّ اُن لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، اور وہی ان کو بھی اچھی طرح جانتا ہے جو راہِ راست پر ہیں۔(7)لہٰذا تم اِن جھٹلانے والوں کے دبائو میں ہرگز نہ آئے ۔ (8)یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کریں تو یہ بھی مداہنت کریں۔ (ذرا تم نرم پڑو تو یہ بھی نرم پڑ جائیں) (9)ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بے وقعت آدمی ہے، (اور آپ ﷺ بات نہ سنیں ہر جھوٹی قسمیں کھانے والے ذلیل کی) (10)طعنے دیتا ہے ، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے ، (اشارہ ، باز لترے ) (11)بھلائی سے روکتا ہے ، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے ، سخت بداعمال ہے، (12)جفا کار ہے ، اور اِن سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے، (سنگدل مزید برآں بے نسب کی) (13)اس بنا پر کہ وہ بہت مال و اولاد رکھتا ہے۔(14)جب ہماری آیات اُس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔ (15)عنقریب ہم اِس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے ۔(16)

نبی کریم ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو اپنے پاس لکھ لیا کرتے تھے ساتھ ساتھ اس کو یاد بھی کر لیا کرتے تھے ۔ اگر صرف یاد کر لیا جاتا اور لکھا نہ جاتا تو یہ زیادہ محکم نہیں تھا زیادہ پائیدار نہیں تھا اس یعنی قرآن مجید جیسے احکمات کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنا لازم تھا کیونکہ بہت احکم احکامات تھے اس کی وضاحت سورۃ البقرہ کی آیت نمبر282
میں اللہ کا فرمان ہے ۔


اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جس کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور اِملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے ( یعنی قرض لینے والا) ، اور اسے اللہ ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املاء نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املاء کرائے۔ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(282)

اب قیاس ،کہانی ،جھوٹ ،تہمت،باطل ،گھٹی ہوئی بات کی جاتی ہے کہ قرآن کو لکھا نہیں جاتا تھا ٹائم نہیں ہوتا تھا یا کاغذ نہیں ہوتا تھا فلاں فلاں بھائی یہ سب قیاس ہے آپ کا کیونکہ آپ آنکھ بند کر کے صرف تقلید کرنا پسند کرتے ہیں آپ کے علمائ جو کچھ کہہ گئے اگر آج کوئی دلیل سے واضح کر دے تو بھی اس کا انکار کر دیتے ہیں کیونکہ آپ کے بڑے غلط ثابت ہو جاتے ہیں اگر آپ حق تسلیم کر لیں تو۔
یہ عام لین دین کا کام تو لکھا جاتا رہا اور اللہ کا فرمان ہے کہ لین دین کے کام میں لکھ لیا کرو اس سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے ۔لیکن قرآن کے معاملہ میں یہ بے برواہی کیسی اور کیوں؟
اور اتنا اہم کام قرآن مجید کا معاملہ نبی کریم ﷺ اس طرح چھوڑ گئے کہ اصحاب اکرام اس کی آیات کو تلاش کر رہے ہیں ۔ وہ قرآن مجید جو نبی کریم ﷺ پر 23 سال میں نازل ہوا اور ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو لکھتے بھی رہے وہ آخر گیا کہاں پھر کاتب وحی جو قرآن مجید لکھتے تھے کیا وہ کوئی مٹھائی تھی،کوئی چیچی تھی ،جو وہ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے مانگنے والے کو دے دیتے تھے!!!!!نہیں ایسا نہیں ہوا کاتب وحی کے پاس جو کوئی سورۃ آیت لینے آتا تھا اس کی نقل کی جاتی تھی جو ان کے پاس محفوظ ہوتی لکھی ہوئی ہوتی تھی اس سے نقل کر کے دی جاتی تھی۔
اب کہا جاتا ہے کہ قرآن مکمل تو تھا لیکن ایک جگہ نہیں تھا یہ بھی قرآن کی حاکمیت کی کم کرنے کی سازش ہے جو شیعہ نے کی اور ہمارے یہ پیارے کلمہ پڑھنے والے بھی اس میں مبتلہ ہو چکے ۔۔۔۔

٭صرف قرآن مجید سے جواب دیں ۔۔۔کیا خواہش باطلہ ہے جناب محترم کی۔
۔۔۔کیونکہ آپ کا فرمان ہے جواب صرف قرآن سے دیں ! جبکہ میرا موقف آپ سب کے سامنے واضح ہے پھر بھی یہ خواہش یعنی اگر دیکھا جائے تو آپ لوگ اپنی گمراہی کو درست ثابت کرنے کے لئے کسی بھ حد تک گر جائیں گے اس کی مثال آپ کے سوالات ہیں جو چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم دین اسلام ہمارے ۔۔۔۔ کا ہے کسی اللہ تعالیٰ کی ذات کا نہیں۔
سوال یہ تھا کہ دلیل دیجیے قرآن کریم سے کہ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں قرآن کریم کی کتابت ہوئی:
1۔ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں کتابت ہوئی۔
آپ نے آیات سے دلیل پیش کی۔ اگرچہ اس میں آپ نے یہ فرمایا ہے کہ یہ بہانے کیے جاتے ہیں کہ کتابت نہیں ہوتی تھی اور ٹائم نہیں ہوتا تھا لیکن یہ ہمارا موقف نہیں ہے۔ میں ان باتوں میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں قرآن کریم کی کتابت کی گئی ہے۔ ہمارا موقف بھی یہی ہے جو کہ اگر زیادہ دور نہ جائیں تو "التبیان فی علوم القرآن" یا "علوم قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب" میں دیکھا جا سکتا ہے۔

جہاں آپ کا اور ہمارا موقف ایک تھا وہاں تو آپ کو دلیل مل گئی قرآن کریم سے لیکن جہاں اختلاف ہے۔۔۔۔ وہاں آپ کیا فرماتے ہیں؟ آئیے! دیکھتے ہیں:
سوال تھا:

2۔ جرائیلؑ کے سامنے اس کو ہر طرح سے دیکھا گیا کہ کہیں کوی غلطی تو موجود نہیں۔
آپ نے جواب قرآن کریم کی کسی آیت سے دینا تھا۔ لیکن آپ نے جواب یہ دیا:
2۔جبرائیل کے سامنے اس کو ہر طرح سے دیکھا گیا کہیں کوئی غلطی تو موجود نہیں۔اور جواب صرف قرآن کی کسی آیت سے دیں اور اس آیت میں واضح جبرائیل اور نبی کریم ﷺ کی یہ گفتگو ہو کہہ وہ باتیں جو اس وقت ہو رہی تھیں۔۔۔واہ کیا خواہش نفس ہے میرے پیارے بھائی کی۔
کیا خواہش باطل ہے ۔میرا ایمان ہے پہلے قرآن مجید جیسے نبی کریم ﷺ سے سوال ہوتا رہا اور جواب میں یہ آیات نازل ہوتی رہیں اسی طرح میرا بھی یہی ایمان ہے پھر جہاں قرآن خاموش ہو جائے پھر احادیث مبارکہ پھرجہاں قرآن و احادیث دونوں سے جواب نہ ملے تب علمائ کے بتائے ہوئے علوم۔۔۔۔۔

سورۃ المائدہ 5۔
یہودی کہتے ہیں اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں
۔ باندھے گئے اِن کے ہاتھ ، اور لعنت پڑی ان پر اُس بکواس کی بدولت جو یہ کرتے ہیں ۔ اللہ کے ہاتھ تو کشادہ ہیں ، جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جو کلام تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے وہ ان میں سے اکثر لوگوں کی سرکشی و باطل پرستی میں الٹے اضافہ کا موجب بن گیا ہے ، اور (اس کی پاداش میں) ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے۔ جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔ یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ (64)

اب جب یہ یہودیوں نے کہا کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔(استغفراللہ) تو ٹھوس دلیل میں جاہل لوگوں کے لیے کیانازل ہوا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! آیت ۔۔آیت ۔۔۔آیت جب جب دلیل مانگی گئی،نبی کریم ﷺ پر تہمت لگائی گئی کیا نازل ہوا آیت۔

سورۃ المومنون 23۔اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے ، اپنی چوپالوں میں اُس پر باتیں چھانٹتے اور بکواس کیا کرتے تھے۔ (67)

سورۃ النسائ 4۔لوگو ! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمہیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔(174)

اب اس پر بھی لوگ دلیل مانگتے مانگتے مر دئے ،دفن ہو گئے ۔اور بدلہ میں ملا کیا جہنم کی آگ۔
قرآن مجید اللہ کی کتاب ،لاریب ،شک سے پاک،تمام کتابوں کی تصدیق کرنے والی ،اگر قرآن خاموش ہو جائے تفسیر و تشریح میں تب باقی تمام کتابوں کا درجہ۔۔۔۔۔۔۔۔ان شائ اللہ۔
اس میں آپ نے کوئی آیت ایسی پیش نہیں فرمائی جس میں یہ تحریر ہو کہ قرآن کریم پوری کتاب کی شکل میں جبرئیلؑ کے سامنے دیکھا جاتا تھا کہ اس میں کوئی غلطی ہے یا نہیں۔
آپ کی لاف و گزاف کو چھوڑ کر اصل موضوع پر قائم رہتے ہوئے۔۔۔ میں یہ تصور کر لیتا ہوں کہ اس بارے میں آپ کے پاس کوئی صریح آیت موجود
نہیں ہے۔ اگر ہاں تو اپنے اس موقف پر کوئی حدیث پیش فرمائیے!

3۔ نبی کریم ﷺ اس کو ایک کتاب کی شکل میں مرتب کر کے گئے اپنے ہاتھ مبارک سے۔
اس سوال کو آپ ہضم کر گئے۔ یہ بھی آپ کا دعوی ہے کہ "قرآن کریم کتاب کی شکل میں مرتب تھا"۔ اس پر کوئی آیت؟ اور اگر آیت نہ ہو تو کوئی حدیث پیش فرمائیے!

ان دو سولات کے جوابات میں فی الحال
آیت اور احادیث کی حدود سے باہر نہ نکلیں تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا۔ جن کے پاس صحیح جوابات ہوتے ہیں وہ ادھر ادھر نہیں گھومتے رہتے۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
قیاس۔
میرے پیارے بھائی ۔۔۔آپکی غلط فہمی ہے کہ آیات میں تضاد ہے آپ یہ کہیں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔
ہم بھی یہی کہیں گےاور آپ ہی کے الفاظ میں کہ :۔
"آپکی غلط فہمی ہے کہ آیات اور احادیث میں تضاد ہے آپ یہ کہیں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔"
دوسری بات ۔۔۔شفاعت والی روایت کا کسی نے نہ جواب دیا نہ کوئی بات کی بس ایک رٹ لگائی ہوئی کہ کوئی بھی حدیث قرآن کے خلاف نہیں ۔۔۔۔۔۔
آپ کی سب غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے گا لیکن وقت کی قلت کے با عث ابھی ایسا ممکن نہیں ہو پارہا !
غلط فہمی :
حدیث کی کتابوں اور قرآن مجید میں زمین آسمان کا فرق ہے جو آپ سمجھنے سے قاصر ہیں۔

ازالہ :۔

ہم تو احادیث کو منزل من الله مانتے ہیں اور قرآن کو بھی لیکن آپ محض ذہن پرستی کے سبب احادیث کو جھٹلا رہے ہیں !
الله تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا
(النساء -١٤)
غلط فہمی :
مثال کے طور پر۔
صحیح بخاری۔كتاب الجهاد والسير۔کتاب جہاد کا بیان
باب ما يذكر من شؤم الفرس:
باب: اس بیان میں کہ بعض گھوڑے منحوس ہوتے ہیں


حدیث نمبر: 2858
حدثنا
ابو اليمان اخبرنا شعيب عن الزهري قال:‏‏‏‏ اخبرني سالم بن عبد الله ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول:‏‏‏‏"إنما الشؤم في ثلاثة في الفرس والمراة والدار".
حَدَّثَنَا
أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:‏‏‏‏"إِنَّمَا الشُّؤْمُ فِي ثَلَاثَةٍ فِي الْفَرَسِ وَالْمَرْأَةِ وَالدَّارِ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ”نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے۔ گھوڑے میں، عورت میں اور گھر میں۔“
ازالہ :
ایک حدیث کی تشریح دوسری جگہ موجود ہوتی ہے اگر کہیں مجمل حدیث ہو تی غلط فہمی کا امکان ضرور ہے لیکن اس کا ازالہ دوسری حدیث سے ہو سکتا ہے ۔جو آگے پیچھے موجود ہوتی ہیں مگر اس کے لئے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے ، محمد فیضان صاحب نے حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کی حدیث نقل کی ہے ۔ ان ہی حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے دوسری جگہ اس حدیث کی تشریح موجود ہے ۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں :۔
إن كان الشؤم في شيء، ‏‏‏‏‏‏ففي الدار والمراة والفرس
نحوست اگر کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتی ، گھر ، عورت ، گھوڑا ۔
(صحیح بخاری )
حضرت سہیل کی روایت کا بھی یہی مضمون ہے ، الفاظ یہ ہیں :۔
إن كان في شيء ففي المراة، ‏‏‏‏‏‏والفرس، ‏‏‏‏‏‏والمسكن
اگر نحوست کا کوئی وجود ہوتا تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتا ، گھوڑا ، عورت ،گھر ۔
(صحیح بخاری )
اب اس حدیث کا پس منظر ملاحظہ فرمائیے ۔ ایام جاہلیّت میں لوگوں کا خیال تھا کہ فلاں فلاں چیزوں میں نحوست ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس باطل عقیدہ کی تردید ان الفاظ میں کر دی کہ نحوست کا کوئی وجود نہیں اگر ہوتی تو ان محبوب ترین چیزوں میں بھی ہوتی جن سے کنارہ کشی ناممکن ہے ، کیا نحوست کی وجہ سے ان چیزوں کو چھوڑا جا سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ، جب یہ نہیں ہو سکتا تو پھر محض نحوست کے وہم سے دوسری چیزوں کو چھوڑنا لایعنی ہے ، یہ تو ہے حدیث کا منشاء ہاں قرآن مجید میں ضرور نحوست کا ذکر ملتا ہے ، قوم عاد پر جو عذاب بھیجا گیا تھا وہ منحوس دنوں میں بھیجا گیا تھا ،
ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔
اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْ يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ
ہم نے ان پر دائمی منحوس دن میں سخت آندھی کا عذاب بھیجا تھا ۔
(القمر -١٩)
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
السلام علیکم!بہت خوب میرے جوابات شاید آپ کو نظر نہیں آئے میں پھر سے دے رہا ۔۔شکریہ

اس میں آپ نے کوئی آیت ایسی پیش نہیں فرمائی جس میں یہ تحریر ہو کہ قرآن کریم پوری کتاب کی شکل میں جبرئیلؑ کے سامنے دیکھا جاتا تھا کہ اس میں کوئی غلطی ہے یا نہیں۔
آپ کی لاف و گزاف کو چھوڑ کر اصل موضوع پر قائم رہتے ہوئے۔۔۔ میں یہ تصور کر لیتا ہوں کہ اس بارے میں آپ کے پاس کوئی صریح آیت موجود نہیں ہے۔ اگر ہاں تو اپنے اس موقف پر کوئی حدیث پیش فرمائیے!

٭٭نبی کریم ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو اپنے پاس لکھ لیا کرتے تھے ساتھ ساتھ اس کو یاد بھی کر لیا کرتے تھے ۔ اگر صرف یاد کر لیا جاتا اور لکھا نہ جاتا تو یہ زیادہ محکم نہیں تھا زیادہ پائیدار نہیں تھا اس یعنی قرآن مجید جیسے احکمات کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنا لازم تھا کیونکہ بہت احکم احکامات تھے اس کی وضاحت سورۃ البقرہ کی آیت نمبر282
میں اللہ کا فرمان ہے ۔


"اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جس کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور اِملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے ( یعنی قرض لینے والا) ، اور اسے اللہ ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املاء نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املاء کرائے۔ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(282)"

یہ عام لین دین کا کام تو لکھا جاتا رہا اور اللہ کا فرمان ہے کہ لین دین کے کام میں لکھ لیا کرو اس سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے ۔لیکن قرآن کے معاملہ میں یہ بے برواہی کیسی اور کیوں؟
اور اتنا اہم کام قرآن مجید کا معاملہ نبی کریم ﷺ اس طرح چھوڑ گئے کہ اصحاب اکرام اس کی آیات کو تلاش کر رہے ہیں ۔ وہ قرآن مجید جو نبی کریم ﷺ پر 23 سال میں نازل ہوا اور ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو لکھتے بھی رہے وہ آخر گیا کہاں پھر کاتب وحی جو قرآن مجید لکھتے تھے کیا وہ کوئی مٹھائی تھی،کوئی چیچی تھی ،جو وہ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے مانگنے والے کو دے دیتے تھے!!!!!نہیں ایسا نہیں ہوا کاتب وحی کے پاس جو کوئی سورۃ آیت لینے آتا تھا اس کی نقل کی جاتی تھی جو ان کے پاس محفوظ ہوتی لکھی ہوئی ہوتی تھی اس سے نقل کر کے دی جاتی تھی۔
اب کہا جاتا ہے کہ قرآن مکمل تو تھا لیکن ایک جگہ نہیں تھا یہ بھی قرآن کی حاکمیت کی کم کرنے کی سازش ہے جو شیعہ نے کی اور ہمارے یہ پیارے کلمہ پڑھنے والے بھی اس میں مبتلہ ہو چکے ۔


٭نبی کریم ﷺ اس کو ایک کتاب کی شکل میں مرتب کر کے گئے اپنے ہاتھ مبارک سے۔
اس سوال کو آپ ہضم کر گئے۔ یہ بھی آپ کا دعوی ہے کہ "قرآن کریم کتاب کی شکل میں مرتب تھا"۔ اس پر کوئی آیت؟ اور اگر آیت نہ ہو تو کوئی حدیث پیش فرمائیے!
٭سورۃ البینہ98آیت نمبر 2تا3۔
رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةًفِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ
(یعنی ) اللہ کی طرف سے ایک رسول (محمد ؐ) ، جو پاک صحیفے (اوراق)پڑھ کر سنائے، (2) جن میں ، بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہیں۔(جس میں ، صاف احکام لکھے ہوئے ہوں)(3)

٭اس آیت میں صاف لکھا گیا ہے ایک رسول جو تمہیں پاک صحیفے،اوراق جو لکھے ہوئے ہیں پڑھ کر سناتا ہے ۔


٭سورۃ الطور
میں ہے ۔ 52 آیت نمبر 3۔
ترجمہ نمبر 1۔جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے،(3)
ترجمہ نمبر 2۔اورلکھی ہوئی کتاب کی۔کشادہ ورق میں۔
ترجمہ نمبر 3۔اور اس کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔کشادہ ورق میں۔


٭سورۃ الفرقان آیت نمبر 5
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا۔
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)

٭صاف واضح ہے کہ لکھوائے ہوئے اوراق ہیں جن کو یہ نقل کروا کر لکھواتا ہے۔
٭سورۃ القلم68۔نٓ ۔ قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں، (1)تم اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہو ۔(2)

ان دو سولات کے جوابات میں فی الحال
آیت اور احادیث کی حدود سے باہر نہ نکلیں تو میں آپ کا شکرگزار ہوں گا۔ جن کے پاس صحیح جوابات ہوتے ہیں وہ ادھر ادھر نہیں گھومتے رہتے۔
آپ نے جواب قرآن کریم کی کسی آیت سے دینا تھا۔ لیکن آپ نے جواب یہ دیا:
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2096 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ فَبَلَغَ ذَلِکَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ فَجَائَتْ فَقَالَتْ إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْکَ أَنَّکَ لَعَنْتَ کَيْتَ وَکَيْتَ فَقَالَ وَمَا لِي أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِي کِتَابِ اللَّهِ فَقَالَتْ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ قَالَ لَئِنْ کُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا قَالَتْ بَلَی قَالَ فَإِنَّهُ قَدْ نَهَی عَنْهُ قَالَتْ فَإِنِّي أَرَی أَهْلَکَ يَفْعَلُونَهُ قَالَ فَاذْهَبِي فَانْظُرِي فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا فَقَالَ لَوْ کَانَتْ کَذَلِکَ مَا جَامَعْتُهَا
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2096 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11
(آیت) اور رسول جو تمہیں دیں تو وہ لے لو۔ محمد بن یوسف، سفیان، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت کی جو بدن کو گودتی ہیں اور گودواتی ہیں اور چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں حسن کے لئے دانتوں کو کشادہ کراتی ہیں اللہ تعالیٰ

کی بنائی ہوئی صورت کو بدلنے والی ہیں بنی اسد کی ایک عورت کو جس کا نام ام یعقوب تھا یہ خبر ملی تو وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو نے اس طرح لعنت کی ہے تو انہوں نے کہا میں کیوں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ

میں بھی ہے اس عورت نے کہا کہ میں نے اس کو پڑھ لیا ہے جو دو لوحوں کے درمیان ہے -لیکن جو تم کہتے ہو وہ میں نے اس میں نہیں پایا تو انہوں نے کہا کہ اگر تو پڑھتی تو ضرور اس میں پاتی کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ رسول جو کچھ تمہیں دے اس کو لے لو اور جس

سے روکے باز آ جاؤ،
اس نے کہا ہاں! عبداللہ نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے اس عورت نے کہا کہ تمہاری بیوی ایسا کرتی ہے انہوں نے کہا جا کر دیکھ آ، چنانچہ وہ گئی اور دیکھا تو کچھ نہ پایا عبداللہ نے کہا کہ اگر وہ ایسا کرتی تو میرے ساتھ نہ رہتی۔


دو لوحوں یا گتوں کے درمیان کیا تھا؟
واضح کہا گیا کہ اس کو پڑھو جو کتاب اللہ کے نام سے ہے ۔
اب آپ بتائیں کتاب اللہ کے نام سے کیا تھا؟ اب اس میں جس آیت کا ذکر ہے وہ کس میں درج ہے کیا قرآن مجید میں درج نہیں؟
اب کہا جاتا ہے کہ یہ مکمل نہیں تھا کچھ حصہ تھایہ سب آپ کا قیاس ہے اور کچھ نہیں
اللہ اکبر۔

تم وہ باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم نہیں ۔
جب نبی کریم ﷺ کے دور میں قرآن مجید مکمل ہو گیا تھا ۔ جب کاتب وحی لکھا بھی کرتے تھے ، تو یہ کیوں نہیں تسلیم کرتے کہ اس جلد میں دو لوحوں یا گتوں کے درمیان مکمل قرآن ہی تھا کیونکہ آپ کے بڑے یہ فرما گئے کہ قرآن ایک جلد میں نہیں تھا بعد میں اس کو مکمل ایک جلد میں کیا گیا۔ تمہت ہے ،جھوٹ ہے ، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔صرف اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لئے کہ جیسے صحیح بخاری جمع ہوئی ویسے ہی یہ قرآن صحیح بخاری کو تو کہتے ہو کہ اس میں ضعیف اور جھوٹی احادیث درج ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کو علمائ نے ایک جگہ مرتب کیا تو بھائی قرآن کو بھی تو انہی علمائ نے جمع کیا یک جگہ۔تہمت ہے

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 777 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11
محمد بن عیسی، عثمان بن ابی شیبہ ، جریر، منصور، ابراہیم، علقمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے جسم گودنے والی اور گدوانے والی عورتوں پر۔ محمد بن عیسیٰ نے اپنی روایت میں "سر کے بالوں میں دوسرے بال جوڑنے والی پر بھی لعنت کرے" کا اضافہ کیا ہے۔ اوعثمان بن ابراہیم نے اپنی روایت میں بال اکھیڑنے والی بھی بیان کی ہیں پھر آگے دونوں متفق ہیں کہ فرمایا کہ اللہ لعنت فرمائے ان عورتوں پر جو اپنے دانتوں کو کشیدہ کرتی ہیں خوبصورتی کیلئے۔ جو اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرتی ہیں راوی کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) کے اس فرمان کی اطلاع بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچ گئی جسے ام یعقوب کہا جاتا تھا عثمان بن ابراہیم نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا کہ وہ قرآن کریم پڑھا کرتی تھی پھر آگے دونوں متفق ہیں تو وہ ابن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے آپ کے حوالے سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ جسم گودنے والی، گدوانے والی، سر کے بالوں میں دوسرے کے بال کو جوڑنے والی اور بالوں کو اکھیڑ نے والی اور دانتوں کو خوبصورتی کے لئے کشیدہ کرنے والی عورتیں اور جو اللہ کی تخلیق میں تبدیل وترمیم کرتی ہیں لعنت کی ہے ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ مجھے کیا مانع ہے کہ میں اسے لعنت نہ کروں جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی اور وہ اللہ کی کتاب میں بھی ہے وہ عورت کہنے لگی کہ بیشک میں نے قرآن کے دونوں گتوں کے درمیان (یعنی پورا قرآن) پڑھا ہے لیکن مجھے تو یہ کہیں بھی نہ ملی۔ ابن مسعود (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم اگر تو صحیح معنوں میں اسے پڑھتی تو ضرور پالیتی پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (سورۃ الحشر59آیت نمبر7۔)
(اور جو تمہیں رسول دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس سے روک دیں اس سے رک جایا کرو) وہ کہنے لگی کہ میں نے ان میں بعض باتیں آپ کی اہلیہ کی بھی دیکھی ہیں آپ نے فرمایا کہ اچھا جاؤ اور دیکھو پس وہ گھر میں داخل ہوئی پھر باہر نکلی تو کہا کہ میں نے نہیں دیکھا ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ نہ ہوتی۔

سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 269 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا کَتَبْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْقُرْآنَ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرَ إِلَی ثَوْرٍ فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَی مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَی بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ وَمَنْ وَالَی قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ

سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 269 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13
محمد بن کثیر، سفیان، اعمش، ابراہیم، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن اور اس صحیفہ کے علاوہ کچھ نہیں لکھا صحیفہ سے مراد دیت کے وہ احکام ہیں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو لکھوائے تھے اور وہ ان کی تلوار کے نیام میں رہتے تھے حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مدینہ عائر سے لے کر ثور تک حرم ہے جو کوئی دین میں نئی بات نکالے یا ایسے شخص کو پناہ دے اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا اور نہ نفل اور تمام مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جب ان میں سے کسی ادنیٰ شخص نے کسی کافر کو پناہ دی اور کسی مسلمان نے اس کی پناہ کو توڑا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل اور جو شخص ولا (دوستی کرے) کسی قوم سے بغیر اپنے دوستوں کی اجازت کے اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا اور نہ نفل۔


چنانچہ حضرت علی (رض) خود وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قرآن کریم اور صحیفہ مذکورہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لکھی ہے۔ آخر میں ایک بات یہ بھی جان لیجئے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ علم کی باتوں کو لکھنا اور مرتب کرنا

مستحب ہے، جو ایک عظیم الشان خدمت بھی ہے اور اجر و ثواب کا باعث بھی۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
السلام علیکم!سلامتی ہو ان پر جو قرآن کی آیات پر غور و فکر کرتے ہوں آیات کے مقابل ہر قسم کے قول کو رد کرتے ہوں اور اپنے ایمان کی تصدیق پہلے قرآن سے لیتے ہوں پھر احادیث مبارکہ سے پھر محدیث کے بتائے ہوئے حصولوں سے ۔۔۔۔حق بات کو مانتے بھی ہوں۔شکریہ

ہم بھی یہی کہیں گےاور آپ ہی کے الفاظ میں کہ :۔
"آپکی غلط فہمی ہے کہ آیات اور احادیث میں تضاد ہے آپ یہ کہیں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔"
سورۃ الانبیائ 21۔مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ (18)
سمجھنے سے قاصر!!!؟ بہت سی ایسی روایات اور احادیث دیکھائوں گا جن کی تشریح احادیث ہی کر رہی ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں واضح واضح علمائ نے قیاس ڈال کر ،اپنے الفاظ اس میں ڈال کر کوشش کی کہ قرآن کے مطابق تاویل بنائیں جبکہ ان کو کوئی حق نہیں تھا کہ ایسا کریں لیکن حق تو حق ہی رہتا ہے کہیں نہ کہیں پڑے جاتے ہیں۔

آپ کی سب غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے گا لیکن وقت کی قلت کے با عث ابھی ایسا ممکن نہیں ہو پارہا !
جی ضرور ان شائ اللہ میں انتظار کرتا ہوں۔ شفاعت والی حدیث اور ابراھیم علیہ السلام والی حدیث میں کوڈ کر چکا آپ ان دونوں پر مجھ سے بحث کر سکتے ہیں۔ جوابات میں پہلے دے چکا آپ پڑھ بھی چکے ہوں گے ۔

ازالہ :۔
ہم تو احادیث کو منزل من الله مانتے ہیں اور قرآن کو بھی لیکن آپ محض ذہن پرستی کے سبب احادیث کو جھٹلا رہے ہیں !
سورۃ الحاقہ 69۔
اور اگر اس (نبی ﷺ) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی(44)
تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے(45) اور اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔(46)


اب آپ کو کون سمجھائے نبی کریم اللہ کا نام لے کر جھوٹ نہیں گھڑ سکتے لیکن کیا اسلام کے دشمن یہ کام قرآن میں تو نہیں کر سکے لیکن نبی کریم ﷺ کی سنت،اقول،عمل میں ان ظالموں نے بے شک جھوٹ گھڑ کر نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کیا اور آپ خود بھی اسکے گواہ ہیں۔میں بھی اللہ کا شکر ہے کہ وہ احادیث جو قرآن میں درج نہیں کی گئیں کو منزل من اللہ مانتا ہوں لیکن اگر نبی کریم ﷺ حیات ہوتے اور میرے سامنے ہوتے کیونکہ اب وہ موجود نہیں نبی کریم ﷺ اپنی خواہش سے اللہ کے احکمات لوگوں کو نہیں سناتے تھے وہ وحی کا انتظار کرتے تھے جب وحی نازل ہوتی تب اللہ تعالیٰ کے احکمات ،ہدایات سناتے تھے۔لیکن حیات ہوتے تب میرے لئے ان کا ہر ہر قول لاریب کی حیثیت رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا لیکن آپ بضد ہیں کہ نہیں قرآن اور حدیث دونوں کا یہ آپ کا باطل ایمان ہے مشاہدہ کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ حفاظت اللہ نے صرف اپنی کتاب قرآن مجید کا ذمہ لیا ۔لیکن اب مجھے یہ بتائیں ایک مولانا کہتا فلاں حدیث ضعیف ہے ،جھوٹی، ہے ،اور یہی مولانا دوسری حدیث کو کہتا یہ حق ہے لیکن دونوں میں نبی کریم ﷺ کا نام ہی لیا گیا اب کیا اس کے پاس کوئی علم غیب ہے؟کیا یہ اللہ کے پاس سے ہو کر آگیا ہے؟کیا اس کے پاس کوئی سیڑھی ہے جو اللہ نے اس کو لاریب بات بتائی ؟شاید کہ جس کو یہ باطل کہہ رہا ہو وہ حق ہو؟یا جس کو یہ حق کہہ رہا ہو وہ باطل ہو ؟کیا یہ نہیں ہو سکتا؟مشاہدہ کر کے دیکھیں تمام فرقے کے علمائ کو دیکھیں ایک عالم،محدیث جس حدیث کو حق کہتا دوسرے فرقے کا عالم،محدیث اسی کو باطل بھی کہہ دیتا ہے یعنی شک میں ہےصرف ایک عالم،محدیث کے کہنے کے مطابق یہ صحیح بخاری ہے جس میں ہم نے صرف نبی کریم ﷺ کے ثابت شدہ قول ہی درج کئے ہیں تو کیا یہ اب واقع سچ اور حق ہو گی؟ اب ایک محدیث نے یہ کہہ دیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے 200 سال بعد دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کے قول ،اوردشمن اسلام نے جھوٹ،باطل نبی کریم ﷺ کا نام لے کر اس دین میں داخل کر دیا ہے اب میں اس کو علیحدہ علیحدہ کروں گا بے شک یہ ایک نیک کام تھا! بے شک انہوں نے بہت محنت کی ان کی نیت میں نہیں جانتا اللہ جانتا ہے اس کا صلاح بھی اللہ کے پاس وہ پائیں گے ۔ ہمارے لئے کیا!؟

امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔ تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ (اعلام المو قعین ۲۸۹۱) نوٹ: نبی علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا : خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم سب سے بہتر ین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر اُس کے بعد والوں کا پھر اُس کے بعد والوں کا (صحیح بخاری حدیث نمبر:۲۵۶۲) جبکہ اوپر پیش کردہ حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن تین زمانوں کو نبی علیہ الصلاة والسلام نے بہترین زمانے کہا تھا اُن تین زمانوں میں تقلید کا نام و نشان بھی نہیں تھا، نہ کوئی حنفی تھا اور نہ کوئی شافعی بلکہ سب لوگ کتاب و سنت پر ہی عمل کرتے تھے ،پھر جب نبی علیہ الصلاة والسلام کے بتائے ہوئے یہ تین بہترین زمانے گزر گئے تو چوتھی صدی میں تقلید کے فتنے نے جنم لیا جس کی وجہ سے اُمت تفرقے کا شکار ہو گئی اور چار مذاہب وجود میں آ گئے جو آج بھی حنفیہ، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کی شکل میں موجود ہیں جبکہ ان باطل مذاہب کے مقابلے میں ہر دور میں علماء حق کی ایک جماعت موجود رہی ہے جس نے تقلید کے فتنے کا علی اعلان رد کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے (امین)۔

(سورۃ الاسرائیل 36)
پیچھے مت پڑو اس چیز کے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
(سورہ التوبہ ایت31)
ترجمہ:- انھوں نے اپنے احبار (مولویوں) اور رحبار(پیروں) کواللہ کے سوا رب بنا لیا۔
(سورۃ القمان 21)
سنئیے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔

اصل دین اسلام پہلے قرآن مجید کی طرف بلائو اگر جواب نہ ملے تو احادیث مبارکہ کی طرف آجائو پھر بھی جواب نہ ملے تو علما ئ جو حق پر چلیں ان کے بتائے ہوئے اصول دین حق اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو جائو۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا
(النساء -١٤)
جی یہ بھی حق ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے اس کی آیات کا انکار کرے اپنے عقیدہ کی پہلے قرآن سے تصدیق نہ لے اس کے بعد نبی کریم کی سنت پر نہ چلے وہ لوگ گمراہ ہیں۔

ہم بھی یہی کہیں گےاور آپ ہی کے الفاظ میں کہ :۔
"آپکی غلط فہمی ہے کہ آیات اور احادیث میں تضاد ہے آپ یہ کہیں ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔"

آپ کی سب غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے گا لیکن وقت کی قلت کے با عث ابھی ایسا ممکن نہیں ہو پارہا !
غلط فہمی :

چلیں میں کوڈ کرتا رہوں گا احادیث مجھے ان کی تاویل قرآن کے مطابق کر کے دیکھائیں۔

سورۃ الانبیائ 21۔مگر ہم تو باطل پر حق کی چوٹ لگاتے ہیں جو اس کا سر توڑ دیتی ہے اور وہ دیکھتے دیکھتے مٹ جاتا ہے اور تمہارے لیے تباہی ہے اُن باتوں کی وجہ سے جو تم بناتے ہو۔ (18)

ازالہ :۔

ہم تو احادیث کو منزل من الله مانتے ہیں اور قرآن کو بھی لیکن آپ محض ذہن پرستی کے سبب احادیث کو جھٹلا رہے ہیں !
الله تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا
(النساء -١٤)
غلط فہمی :
یہ آپ کی غلط فہمی ہے اگر غور نہیں کریں گے تو میں نے آپ کو حق کی طرف دعوت دے دی ہے شکریہ۔
ازالہ :
ایک حدیث کی تشریح دوسری جگہ موجود ہوتی ہے اگر کہیں مجمل حدیث ہو تی غلط فہمی کا امکان ضرور ہے لیکن اس کا ازالہ دوسری حدیث سے ہو سکتا ہے ۔جو آگے پیچھے موجود ہوتی ہیں مگر اس کے لئے تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے ، محمد فیضان صاحب نے حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ کی حدیث نقل کی ہے ۔ ان ہی حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے دوسری جگہ اس حدیث کی تشریح موجود ہے ۔ حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں :۔
إن كان الشؤم في شيء، ‏‏‏‏‏‏ففي الدار والمراة والفرس
نحوست اگر کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتی ، گھر ، عورت ، گھوڑا ۔
(صحیح بخاری )
حضرت سہیل کی روایت کا بھی یہی مضمون ہے ، الفاظ یہ ہیں :۔
إن كان في شيء ففي المراة، ‏‏‏‏‏‏والفرس، ‏‏‏‏‏‏والمسكن
اگر نحوست کا کوئی وجود ہوتا تو ان تین چیزوں میں بھی ہوتا ، گھوڑا ، عورت ،گھر ۔
(صحیح بخاری )
اب اس حدیث کا پس منظر ملاحظہ فرمائیے ۔ ایام جاہلیّت میں لوگوں کا خیال تھا کہ فلاں فلاں چیزوں میں نحوست ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس باطل عقیدہ کی تردید ان الفاظ میں کر دی کہ نحوست کا کوئی وجود نہیں اگر ہوتی تو ان محبوب ترین چیزوں میں بھی ہوتی جن سے کنارہ کشی ناممکن ہے ، کیا نحوست کی وجہ سے ان چیزوں کو چھوڑا جا سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ، جب یہ نہیں ہو سکتا تو پھر محض نحوست کے وہم سے دوسری چیزوں کو چھوڑنا لایعنی ہے ، یہ تو ہے حدیث کا منشاء ہاں قرآن مجید میں ضرور نحوست کا ذکر ملتا ہے ، قوم عاد پر جو عذاب بھیجا گیا تھا وہ منحوس دنوں میں بھیجا گیا تھا ،
ارشاد باری تعالیٰ ہے :۔
اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا صَرْصَرًا فِيْ يَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ
ہم نے ان پر دائمی منحوس دن میں سخت آندھی کا عذاب بھیجا تھا ۔
(القمر -١٩)
بہت سی ایسی روایات اور احادیث ہیں جن کی تشریح آپ کو ایک جیسی ہی ملے گی علمائ ،محدیثین نے اپنے قیاس کو اس میں داخل کرکے ان کو قرآن کے مطابق کرنے کی ناکام کوشش کی میں ان شائ اللہ آپ کو بتائوں گا دلیل اور قیاس کیا ہوتا ہے ۔
جی شفاعت والی حدیث پر جواب دیں،قرآن کے مطابق تاویل بنا کر دیکھائیں جو صرف قیاس کے الفاظوں پر بنائی جائے گی پھر میری دلیل بھی دیکھ لیجئے گا۔جیسے میں ابراھیم علیہ السلام کی حدیث کے بارے میں تبصرہ کر چکا ہوں اللہ مجھے اور ہدایت دے آمین۔
خود آپ اقرار کرتے ہیں قرآن جیسی کوئی کتاب نہیں،آپ خود اقرار بھی کرتے ہیں صحیح بخاری شک سے پاک نہیں!!!!؟پھر بھی آپ ایسی باتیں کرتے ہیں واہ۔۔۔۔۔شکریہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم!بہت خوب میرے جوابات شاید آپ کو نظر نہیں آئے میں پھر سے دے رہا ۔۔شکریہ
وعلیکم السلام۔ جو کچھ نظر آیا وہ وہ نہیں ہے جس کا پوچھا گیا تھا۔ تفصیل دیکھ لیجیے:
سوال تھا:
اس میں آپ نے کوئی آیت ایسی پیش نہیں فرمائی جس میں یہ تحریر ہو کہ قرآن کریم پوری کتاب کی شکل میں جبرئیلؑ کے سامنے دیکھا جاتا تھا کہ اس میں کوئی غلطی ہے یا نہیں۔
آپ نے جواب آیت یا حدیث کے تحت یہ دیا ہے:
٭٭نبی کریم ﷺ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو اپنے پاس لکھ لیا کرتے تھے ساتھ ساتھ اس کو یاد بھی کر لیا کرتے تھے ۔ اگر صرف یاد کر لیا جاتا اور لکھا نہ جاتا تو یہ زیادہ محکم نہیں تھا زیادہ پائیدار نہیں تھا اس یعنی قرآن مجید جیسے احکمات کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ لکھنا لازم تھا کیونکہ بہت احکم احکامات تھے اس کی وضاحت سورۃ البقرہ کی آیت نمبر282
میں اللہ کا فرمان ہے ۔

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، جس کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔ جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور اِملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے ( یعنی قرض لینے والا) ، اور اسے اللہ ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو، اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املاء نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املاء کرائے۔ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔ معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(282)"

یہ عام لین دین کا کام تو لکھا جاتا رہا اور اللہ کا فرمان ہے کہ لین دین کے کام میں لکھ لیا کرو اس سے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم ہوتا ہے ۔لیکن قرآن کے معاملہ میں یہ بے برواہی کیسی اور کیوں؟
اور اتنا اہم کام قرآن مجید کا معاملہ نبی کریم ﷺ اس طرح چھوڑ گئے کہ اصحاب اکرام اس کی آیات کو تلاش کر رہے ہیں ۔ وہ قرآن مجید جو نبی کریم ﷺ پر 23 سال میں نازل ہوا اور ساتھ ساتھ کاتب وحی اس کو لکھتے بھی رہے وہ آخر گیا کہاں پھر کاتب وحی جو قرآن مجید لکھتے تھے کیا وہ کوئی مٹھائی تھی،کوئی چیچی تھی ،جو وہ اپنے پاس نہیں رکھتے تھے مانگنے والے کو دے دیتے تھے!!!!!نہیں ایسا نہیں ہوا کاتب وحی کے پاس جو کوئی سورۃ آیت لینے آتا تھا اس کی نقل کی جاتی تھی جو ان کے پاس محفوظ ہوتی لکھی ہوئی ہوتی تھی اس سے نقل کر کے دی جاتی تھی۔
اب کہا جاتا ہے کہ قرآن مکمل تو تھا لیکن ایک جگہ نہیں تھا یہ بھی قرآن کی حاکمیت کی کم کرنے کی سازش ہے جو شیعہ نے کی اور ہمارے یہ پیارے کلمہ پڑھنے والے بھی اس میں مبتلہ ہو چکے ۔

جو چیز آیت میں موجود نہ ہو اور اسے کسی اور موجود چیز پر قیاس کیا جائے تو اسے کہتے بھی "
قیاس" ہی ہیں آیت یا حدیث نہیں۔ اگر آپ کے پاس حضرت جبریلؑ کے قرآن کریم کی تصحیح کرنے کے حوالے سے کوئی آیت یا حدیث موجود نہیں ہے تو اسے مان لیجیے۔
باقی آپ کا یہ قیاس اس لیے غلط ہے کہ اس کی بنیاد اس پر ہے اگر قرآن کریم صرف یاد کر لیا جاتا اور لکھا نہ جاتا یا تصحیح نہ کروائی جاتی تو یہ زیادہ محفوظ نہیں ہوتا۔ یہ بنیاد ہی درست نہیں ہے اس لیے کہ قرآن کریم نے نبی کریم ﷺ کو یہ سند دے دی ہے کہ آپ ﷺ قرآن میں سے صرف وہی بھول سکتے ہیں جسے اللہ پاک بھلانا چاہیں ورنہ کچھ نہیں بھول سکتے۔
سنقرئک فلا تنسی، الا ماشاء اللہ
"ہم آپ کو پڑھائیں گے پھر آپ نہیں بھولیں گے سوائے اس کے جو اللہ چاہے۔"
لہذا یہ قیاس کیا ہی نہیں جا سکتا اور ہمیں صرف آیات اور روایات تک محدود رہنا پڑے گا جن میں صرف یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے قرآن کریم کی کتابت کروائی تھی لیکن کتاب کی شکل میں نہیں۔ اور جبریلؑ کو سنانے کا ذکر تو روایات میں ہے لیکن تصحیح کا نہیں۔
اگر آپ کے پاس کوئی
آیت یا حدیث ہے تو پیش فرمائیے ورنہ اگلی بات کی طرف چلتے ہیں۔

اگلا سوال یہ تھا:
اس سوال کو آپ ہضم کر گئے۔ یہ بھی آپ کا دعوی ہے کہ "قرآن کریم کتاب کی شکل میں مرتب تھا"۔ اس پر کوئی آیت؟ اور اگر آیت نہ ہو تو کوئی حدیث پیش فرمائیے!
آپ نے جواب میں دو چیزیں ارشاد فرمائیں:
1:
٭سورۃ البینہ98آیت نمبر 2تا3۔
رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةًفِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ
(یعنی ) اللہ کی طرف سے ایک رسول (محمد ؐ) ، جو پاک صحیفے (اوراق)پڑھ کر سنائے، (2) جن میں ، بالکل راست اور درست تحریریں لکھی ہوئی ہیں۔(جس میں ، صاف احکام لکھے ہوئے ہوں)(3)

٭اس آیت میں صاف لکھا گیا ہے ایک رسول جو تمہیں پاک صحیفے،اوراق جو لکھے ہوئے ہیں پڑھ کر سناتا ہے ۔


٭سورۃ الطور میں ہے ۔ 52 آیت نمبر 3۔
ترجمہ نمبر 1۔جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے،(3)
ترجمہ نمبر 2۔اورلکھی ہوئی کتاب کی۔کشادہ ورق میں۔
ترجمہ نمبر 3۔اور اس کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے۔کشادہ ورق میں۔


٭سورۃ الفرقان آیت نمبر 5
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا۔
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)
٭صاف واضح ہے کہ لکھوائے ہوئے اوراق ہیں جن کو یہ نقل کروا کر لکھواتا ہے۔
٭سورۃ القلم68۔نٓ ۔ قسم ہے قلم کی اور اُس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں، (1)تم اپنے ربّ کے فضل سے مجنون نہیں ہو ۔(2)
یہ تینوں سورتیں مکہ میں ہجرت نبوی ﷺ سے پہلے نازل ہوئی ہیں اور اس پر دلیل ان کی آیات ہیں کہ ان میں کفار کے جو اعتراضات بیان کیے گئے ہیں یہ مشرکین کے اعتراضات ہیں جو مکہ میں تھے۔ قرآن کریم میں یہود اور نصاری کے اعتراضات پڑھ کر دیکھیے تو ان کا طرز بھی الگ ہے اور بات بھی۔
اب سوال یہ ہے کہ جب اس وقت تک قرآن کریم آدھا بھی نازل نہیں ہوا تھا تو ایک کتاب میں کیسے تحریر کر دیا گیا تھا جس کا سورۃ الطور میں ذکر ہے؟
اس کا صاف سا مطلب ہے کہ یہاں "کوئی اور" کتاب مراد ہے۔ اور یہاں کتنی کتابوں کے مراد ہونے کے احتمالات ہیں، میں ذکر کر دیتا ہوں:

  1. لوح محفوظ (آگے قسمیں بھی غیب کی ہی چیزوں کی ہیں)۔
  2. تورات (پچھلی قسم طور پہاڑ کی ہے جس پر الواح تورات نازل ہوئیں)۔
  3. اعمال نامہ
  4. تمام کتب سماویہ
ان میں سب سے مضبوط احتمال "لوح محفوظ" اور "اعمال ناموں" کا ہے کیوں کہ ان کے سوا ہر کتاب کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ایک کشادہ ورق میں نہیں لکھی گئیں بلکہ مختلف اوراق کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ "لوح محفوظ" کے لیے "لوح" کا واحد لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب "تختی" ہوتا ہے اور یہاں بھی واحد "ورق" کا ذکر ہے۔
دوسری آیات میں تو کسی "ایک" کتاب کا ذکر ہی نہیں ہے اور ہم ایک مرتب کتاب کی بات کر رہے ہیں۔

2:
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2096 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَعَنَ اللَّهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوتَشِمَاتِ وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ فَبَلَغَ ذَلِکَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوبَ فَجَائَتْ فَقَالَتْ إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْکَ أَنَّکَ لَعَنْتَ کَيْتَ وَکَيْتَ فَقَالَ وَمَا لِي أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِي کِتَابِ اللَّهِ فَقَالَتْ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ مَا تَقُولُ قَالَ لَئِنْ کُنْتِ قَرَأْتِيهِ لَقَدْ وَجَدْتِيهِ أَمَا قَرَأْتِ وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا قَالَتْ بَلَی قَالَ فَإِنَّهُ قَدْ نَهَی عَنْهُ قَالَتْ فَإِنِّي أَرَی أَهْلَکَ يَفْعَلُونَهُ قَالَ فَاذْهَبِي فَانْظُرِي فَذَهَبَتْ فَنَظَرَتْ فَلَمْ تَرَ مِنْ حَاجَتِهَا شَيْئًا فَقَالَ لَوْ کَانَتْ کَذَلِکَ مَا جَامَعْتُهَا
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2096 حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11
(آیت) اور رسول جو تمہیں دیں تو وہ لے لو۔ محمد بن یوسف، سفیان، منصور، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبداللہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت کی جو بدن کو گودتی ہیں اور گودواتی ہیں اور چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں حسن کے لئے دانتوں کو کشادہ کراتی ہیں اللہ تعالیٰ

کی بنائی ہوئی صورت کو بدلنے والی ہیں بنی اسد کی ایک عورت کو جس کا نام ام یعقوب تھا یہ خبر ملی تو وہ آئی اور کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو نے اس طرح لعنت کی ہے تو انہوں نے کہا میں کیوں اس پر لعنت نہ کروں جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ

میں بھی ہے اس عورت نے کہا کہ میں نے اس کو پڑھ لیا ہے جو دو لوحوں کے درمیان ہے -لیکن جو تم کہتے ہو وہ میں نے اس میں نہیں پایا تو انہوں نے کہا کہ اگر تو پڑھتی تو ضرور اس میں پاتی کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ رسول جو کچھ تمہیں دے اس کو لے لو اور جس

سے روکے باز آ جاؤ، اس نے کہا ہاں! عبداللہ نے کہا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے منع فرمایا ہے اس عورت نے کہا کہ تمہاری بیوی ایسا کرتی ہے انہوں نے کہا جا کر دیکھ آ، چنانچہ وہ گئی اور دیکھا تو کچھ نہ پایا عبداللہ نے کہا کہ اگر وہ ایسا کرتی تو میرے ساتھ نہ رہتی۔


دو لوحوں یا گتوں کے درمیان کیا تھا؟
واضح کہا گیا کہ اس کو پڑھو جو کتاب اللہ کے نام سے ہے ۔
اب آپ بتائیں کتاب اللہ کے نام سے کیا تھا؟ اب اس میں جس آیت کا ذکر ہے وہ کس میں درج ہے کیا قرآن مجید میں درج نہیں؟
اب کہا جاتا ہے کہ یہ مکمل نہیں تھا کچھ حصہ تھایہ سب آپ کا قیاس ہے اور کچھ نہیں
اللہ اکبر۔
تم وہ باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم نہیں ۔
جب نبی کریم ﷺ کے دور میں قرآن مجید مکمل ہو گیا تھا ۔ جب کاتب وحی لکھا بھی کرتے تھے ، تو یہ کیوں نہیں تسلیم کرتے کہ اس جلد میں دو لوحوں یا گتوں کے درمیان مکمل قرآن ہی تھا کیونکہ آپ کے بڑے یہ فرما گئے کہ قرآن ایک جلد میں نہیں تھا بعد میں اس کو مکمل ایک جلد میں کیا گیا۔ تمہت ہے ،جھوٹ ہے ، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔صرف اپنا موقف درست ثابت کرنے کے لئے کہ جیسے صحیح بخاری جمع ہوئی ویسے ہی یہ قرآن صحیح بخاری کو تو کہتے ہو کہ اس میں ضعیف اور جھوٹی احادیث درج ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کو علمائ نے ایک جگہ مرتب کیا تو بھائی قرآن کو بھی تو انہی علمائ نے جمع کیا یک جگہ۔تہمت ہے

سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر 777 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 48 متفق علیہ 11
محمد بن عیسی، عثمان بن ابی شیبہ ، جریر، منصور، ابراہیم، علقمہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ لعنت فرمائے جسم گودنے والی اور گدوانے والی عورتوں پر۔ محمد بن عیسیٰ نے اپنی روایت میں "سر کے بالوں میں دوسرے بال جوڑنے والی پر بھی لعنت کرے" کا اضافہ کیا ہے۔ اوعثمان بن ابراہیم نے اپنی روایت میں بال اکھیڑنے والی بھی بیان کی ہیں پھر آگے دونوں متفق ہیں کہ فرمایا کہ اللہ لعنت فرمائے ان عورتوں پر جو اپنے دانتوں کو کشیدہ کرتی ہیں خوبصورتی کیلئے۔ جو اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرتی ہیں راوی کہتے ہیں کہ ابن مسعود (رض) کے اس فرمان کی اطلاع بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچ گئی جسے ام یعقوب کہا جاتا تھا عثمان بن ابراہیم نے اپنی روایت میں یہ بھی کہا کہ وہ قرآن کریم پڑھا کرتی تھی پھر آگے دونوں متفق ہیں تو وہ ابن مسعود (رض) کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ مجھے آپ کے حوالے سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ جسم گودنے والی، گدوانے والی، سر کے بالوں میں دوسرے کے بال کو جوڑنے والی اور بالوں کو اکھیڑ نے والی اور دانتوں کو خوبصورتی کے لئے کشیدہ کرنے والی عورتیں اور جو اللہ کی تخلیق میں تبدیل وترمیم کرتی ہیں لعنت کی ہے ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ مجھے کیا مانع ہے کہ میں اسے لعنت نہ کروں جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی اور وہ اللہ کی کتاب میں بھی ہے وہ عورت کہنے لگی کہ بیشک میں نے قرآن کے دونوں گتوں کے درمیان (یعنی پورا قرآن) پڑھا ہے لیکن مجھے تو یہ کہیں بھی نہ ملی۔ ابن مسعود (رض) نے فرمایا اللہ کی قسم اگر تو صحیح معنوں میں اسے پڑھتی تو ضرور پالیتی پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (سورۃ الحشر59آیت نمبر7۔)
(اور جو تمہیں رسول دیا کریں وہ لے لیا کرو اور جس سے روک دیں اس سے رک جایا کرو) وہ کہنے لگی کہ میں نے ان میں بعض باتیں آپ کی اہلیہ کی بھی دیکھی ہیں آپ نے فرمایا کہ اچھا جاؤ اور دیکھو پس وہ گھر میں داخل ہوئی پھر باہر نکلی تو کہا کہ میں نے نہیں دیکھا ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ اگر ایسا ہوتا تو وہ ہمارے ساتھ نہ ہوتی۔

سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 269 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ کَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ مَا کَتَبْنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا الْقُرْآنَ وَمَا فِي هَذِهِ الصَّحِيفَةِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةُ حَرَامٌ مَا بَيْنَ عَائِرَ إِلَی ثَوْرٍ فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَی مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَی بِهَا أَدْنَاهُمْ فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ وَمَنْ وَالَی قَوْمًا بِغَيْرِ إِذْنِ مَوَالِيهِ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِکَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ عَدْلٌ وَلَا صَرْفٌ

سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 269 حدیث مرفوع مکررات 41 متفق علیہ 13
محمد بن کثیر، سفیان، اعمش، ابراہیم، حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ہم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرآن اور اس صحیفہ کے علاوہ کچھ نہیں لکھا صحیفہ سے مراد دیت کے وہ احکام ہیں جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو لکھوائے تھے اور وہ ان کی تلوار کے نیام میں رہتے تھے حضرت علی (رض) کہتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مدینہ عائر سے لے کر ثور تک حرم ہے جو کوئی دین میں نئی بات نکالے یا ایسے شخص کو پناہ دے اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا اور نہ نفل اور تمام مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے جب ان میں سے کسی ادنیٰ شخص نے کسی کافر کو پناہ دی اور کسی مسلمان نے اس کی پناہ کو توڑا تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا نہ نفل اور جو شخص ولا (دوستی کرے) کسی قوم سے بغیر اپنے دوستوں کی اجازت کے اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی طرف سے لعنت ہے ایسے شخص کا نہ فرض قبول ہوگا اور نہ نفل۔


چنانچہ حضرت علی (رض) خود وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ میں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے قرآن کریم اور صحیفہ مذکورہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لکھی ہے۔ آخر میں ایک بات یہ بھی جان لیجئے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ علم کی باتوں کو لکھنا اور مرتب کرنا

مستحب ہے، جو ایک عظیم الشان خدمت بھی ہے اور اجر و ثواب کا باعث بھی۔

ہم نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ میں ایک مرتب کتاب کی بات کر رہے ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی وفات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہے اور ظاہراً یہ نبی کریم ﷺ کی حیات کے بعد کا واقعہ ہے اس لیے وہ عورت نبی ﷺ کے پاس نہیں گئی۔ یہ تو ہم بھی کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کر لیا گیا تھا۔

آپ نے دلیل اس پر دینی ہے کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں یہ ایک جگہ اور مرتب تھا۔
آپ نے جو یہ بات کی ہے:
جب نبی کریم ﷺ کے دور میں قرآن مجید مکمل ہو گیا تھا ۔ جب کاتب وحی لکھا بھی کرتے تھے ، تو یہ کیوں نہیں تسلیم کرتے کہ اس جلد میں دو لوحوں یا گتوں کے درمیان مکمل قرآن ہی تھا
یہ اس لیے نہیں تسلیم کرتے کہ ہم بلا دلیل کچھ بھی تسلیم نہیں کرتے۔ اور دلیل میں آپ ابھی تک کوئی آیت یا حدیث نہیں پیش کر سکے ہیں جس میں یہ ذکر ہو کہ قرآن کریم نبی کریم ﷺ کے دور میں اسی طرح ایک کتاب کی شکل میں تھا۔
نبی کریم ﷺ کے دور میں یہ ایک کتاب کی شکل میں کیوں نہیں تھا، اس کی بھی ایک وجہ ہے لیکن اس کی بات بعد میں کریں گے۔ پہلے آپ کے پاس اگر کوئی
صریح آیت یا حدیث ہے تو وہ پیش کیجیے۔
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
سمجھنے سے قاصر!!!؟ بہت سی ایسی روایات اور احادیث دیکھائوں گا جن کی تشریح احادیث ہی کر رہی ہیں جو قرآن کے مخالف ہیں واضح واضح علمائ نے قیاس ڈال کر ،اپنے الفاظ اس میں ڈال کر کوشش کی کہ قرآن کے مطابق تاویل بنائیں جبکہ ان کو کوئی حق نہیں تھا کہ ایسا کریں لیکن حق تو حق ہی رہتا ہے کہیں نہ کہیں پڑے جاتے ہیں۔
جی ضرور دکھائیے گا اور ہم آپ کو دکھائیں گے کہ وہ قرآن کے خلاف نہیں بلکہ آپ کے خود ساختہ مطلب کے خلاف ہوں گی ! اور یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کریں جو لوگوں کو قرآن اور احادیث کے متعلق لاحق ہوتی ہیں !
شفاعت والی حدیث اور ابراھیم علیہ السلام والی حدیث میں کوڈ کر چکا آپ ان دونوں پر مجھ سے بحث کر سکتے ہیں۔
ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ بحث برائے بحث کریں ، البتہ اگر آپ کی نیّت حق بات کو قبول کرنے کی ہو تو بات کرنے کا فائدہ بھی ہے !
سلامتی ہو ان پر جو قرآن کی آیات پر غور و فکر کرتے ہوں آیات کے مقابل ہر قسم کے قول کو رد کرتے ہوں اور اپنے ایمان کی تصدیق پہلے قرآن سے لیتے ہوں پھر احادیث مبارکہ سے پھر محدیث کے بتائے ہوئے حصولوں سے ۔۔۔۔حق بات کو مانتے بھی ہوں۔شکریہ
سوال : احادیث کو ہم کیوں حجت مانتے ہیں ؟؟؟
جواب : الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
(الاعراف – ٣ )
انبیاء کی اطاعت الله تعالیٰ کے حکم سے ہی کی جاتی ہے ۔ ملاحظہ کیجیے :
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ
ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے
(النساء -64 )
یعنی انبیاء کی اطاعت حقیقت میں الله کی اطاعت ہے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا
جس نے اطاعت کی رسول کی اس نے اطاعت کی اللہ کی اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بناکر نہیں بھیجا ہے
(النساء - ٨٠ )
خلاصہ : پیروی صرف الله تعالیٰ کی کرنی ہے اور احادیث نبوی کی پیروی کرنا الله تعالیٰ کی پیروی کرنا ہی ہے جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا چکا ہے ۔
اب اگر کوئی احادیث کا انکار کرے تو وہ احادیث کا نہیں کرتا بلکہ قرآن کا انکار کرتا ہے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جی ضرور دکھائیے گا اور ہم آپ کو دکھائیں گے کہ وہ قرآن کے خلاف نہیں بلکہ آپ کے خود ساختہ مطلب کے خلاف ہوں گی ! اور یہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسی تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کریں جو لوگوں کو قرآن اور احادیث کے متعلق لاحق ہوتی ہیں !

ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ بحث برائے بحث کریں ، البتہ اگر آپ کی نیّت حق بات کو قبول کرنے کی ہو تو بات کرنے کا فائدہ بھی ہے !

سوال : احادیث کو ہم کیوں حجت مانتے ہیں ؟؟؟
جواب : الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ
تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔
(الاعراف – ٣ )
انبیاء کی اطاعت الله تعالیٰ کے حکم سے ہی کی جاتی ہے ۔ ملاحظہ کیجیے :
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ
ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے
(النساء -64 )
یعنی انبیاء کی اطاعت حقیقت میں الله کی اطاعت ہے ۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ ۚ وَمَنْ تَوَلّٰى فَمَآ اَرْسَلْنٰكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا
جس نے اطاعت کی رسول کی اس نے اطاعت کی اللہ کی اور جس نے روگردانی کی تو ہم نے آپ کو ان پر نگران بناکر نہیں بھیجا ہے
(النساء - ٨٠ )
خلاصہ : پیروی صرف الله تعالیٰ کی کرنی ہے اور احادیث نبوی کی پیروی کرنا الله تعالیٰ کی پیروی کرنا ہی ہے جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا چکا ہے ۔
اب اگر کوئی احادیث کا انکار کرے تو وہ احادیث کا نہیں کرتا بلکہ قرآن کا انکار کرتا ہے ۔
درخواست یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو پہلے بندے کو بات کرنے دی جائے۔ یہ احادیث بعد میں دیکھنی تو ہیں ہی اگر یہ اس وقت تک پہنچ سکے۔
 
Top