• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
خلاصہ : پیروی صرف الله تعالیٰ کی کرنی ہے اور احادیث نبوی کی پیروی کرنا الله تعالیٰ کی پیروی کرنا ہی ہے جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا چکا ہے ۔
اب اگر کوئی احادیث کا انکار کرے تو وہ احادیث کا نہیں کرتا بلکہ قرآن کا انکار کرتا ہے ۔
سورۃ الحاقہ 69۔
اور اگر اس (نبی ﷺ) نے خود گھڑ کر کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی(44)
تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے(45) اور اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔(46)


اب آپ کو کون سمجھائے نبی کریم اللہ کا نام لے کر جھوٹ نہیں گھڑ سکتے لیکن کیا اسلام کے دشمن یہ کام قرآن میں تو نہیں کر سکے لیکن نبی کریم ﷺ کی سنت،اقول،عمل میں ان ظالموں نے بے شک جھوٹ گھڑ کر نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب کیا اور آپ خود بھی اسکے گواہ ہیں۔میں بھی اللہ کا شکر ہے کہ وہ احادیث جو قرآن میں درج نہیں کی گئیں کو منزل من اللہ مانتا ہوں لیکن اگر نبی کریم ﷺ حیات ہوتے اور میرے سامنے ہوتے کیونکہ اب وہ موجود نہیں نبی کریم ﷺ اپنی خواہش سے اللہ کے احکمات لوگوں کو نہیں سناتے تھے وہ وحی کا انتظار کرتے تھے جب وحی نازل ہوتی تب اللہ تعالیٰ کے احکمات ،ہدایات سناتے تھے۔لیکن حیات ہوتے تب میرے لئے ان کا ہر ہر قول لاریب کی حیثیت رکھتا تھا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا لیکن آپ بضد ہیں کہ نہیں قرآن اور حدیث دونوں کا یہ آپ کا باطل ایمان ہے مشاہدہ کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ حفاظت اللہ نے صرف اپنی کتاب قرآن مجید کا ذمہ لیا ۔لیکن اب مجھے یہ بتائیں ایک مولانا کہتا فلاں حدیث ضعیف ہے ،جھوٹی، ہے ،اور یہی مولانا دوسری حدیث کو کہتا یہ حق ہے لیکن دونوں میں نبی کریم ﷺ کا نام ہی لیا گیا اب کیا اس کے پاس کوئی علم غیب ہے؟کیا یہ اللہ کے پاس سے ہو کر آگیا ہے؟کیا اس کے پاس کوئی سیڑھی ہے جو اللہ نے اس کو لاریب بات بتائی ؟شاید کہ جس کو یہ باطل کہہ رہا ہو وہ حق ہو؟یا جس کو یہ حق کہہ رہا ہو وہ باطل ہو ؟کیا یہ نہیں ہو سکتا؟مشاہدہ کر کے دیکھیں تمام فرقے کے علمائ کو دیکھیں ایک عالم،محدیث جس حدیث کو حق کہتا دوسرے فرقے کا عالم،محدیث اسی کو باطل بھی کہہ دیتا ہے یعنی شک میں ہےصرف ایک عالم،محدیث کے کہنے کے مطابق یہ صحیح بخاری ہے جس میں ہم نے صرف نبی کریم ﷺ کے ثابت شدہ قول ہی درج کئے ہیں تو کیا یہ اب واقع سچ اور حق ہو گی؟ اب ایک محدیث نے یہ کہہ دیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے 200 سال بعد دیکھا کہ نبی کریم ﷺ کے قول ،اوردشمن اسلام نے جھوٹ،باطل نبی کریم ﷺ کا نام لے کر اس دین میں داخل کر دیا ہے اب میں اس کو علیحدہ علیحدہ کروں گا بے شک یہ ایک نیک کام تھا! بے شک انہوں نے بہت محنت کی ان کی نیت میں نہیں جانتا اللہ جانتا ہے اس کا صلاح بھی اللہ کے پاس وہ پائیں گے ۔ ہمارے لئے کیا!؟

امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: انما حد ثت ھذہ البدعة فی القرن الرابع المذمومة علیٰ لسانہ علیہ الصلاة والسلام۔ تقلید کی بدعت چوتھی صدی ہجری میں پیدا ہوئی جسے نبی علیہ الصلاة والسلام نے مذموم قرار دیا تھا۔ (اعلام المو قعین ۲۸۹۱) نوٹ: نبی علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا : خیر القرون قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم سب سے بہتر ین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر اُس کے بعد والوں کا پھر اُس کے بعد والوں کا (صحیح بخاری حدیث نمبر:۲۵۶۲) جبکہ اوپر پیش کردہ حوالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جن تین زمانوں کو نبی علیہ الصلاة والسلام نے بہترین زمانے کہا تھا اُن تین زمانوں میں تقلید کا نام و نشان بھی نہیں تھا، نہ کوئی حنفی تھا اور نہ کوئی شافعی بلکہ سب لوگ کتاب و سنت پر ہی عمل کرتے تھے ،پھر جب نبی علیہ الصلاة والسلام کے بتائے ہوئے یہ تین بہترین زمانے گزر گئے تو چوتھی صدی میں تقلید کے فتنے نے جنم لیا جس کی وجہ سے اُمت تفرقے کا شکار ہو گئی اور چار مذاہب وجود میں آ گئے جو آج بھی حنفیہ، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ کی شکل میں موجود ہیں جبکہ ان باطل مذاہب کے مقابلے میں ہر دور میں علماء حق کی ایک جماعت موجود رہی ہے جس نے تقلید کے فتنے کا علی اعلان رد کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں حق پر ثابت قدم رکھے (امین)۔

(سورۃ الاسرائیل 36)
پیچھے مت پڑو اس چیز کے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔
(سورہ التوبہ ایت31)
ترجمہ:- انھوں نے اپنے احبار (مولویوں) اور رحبار(پیروں) کواللہ کے سوا رب بنا لیا۔
(سورۃ القمان 21)
سنئیے اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا۔

اصل دین اسلام پہلے قرآن مجید کی طرف بلائو اگر جواب نہ ملے تو احادیث مبارکہ کی طرف آجائو پھر بھی جواب نہ ملے تو علما ئ جو حق پر چلیں ان کے بتائے ہوئے اصول دین حق اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہو جائو۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے
وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْھَا ۠ وَلَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اللہ کی حدود سے آگے نکل جائے اللہ اسے دوزخ میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اسے رسوا کرنے والا عذاب ہوگا
(النساء -١٤)
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
جو چیز آیت میں موجود نہ ہو اور اسے کسی اور موجود چیز پر قیاس کیا جائے تو اسے کہتے بھی "قیاس" ہی ہیں آیت یا حدیث نہیں۔ اگر آپ کے پاس حضرت جبریلؑ کے قرآن کریم کی تصحیح کرنے کے حوالے سے کوئی آیت یا حدیث موجود نہیں ہے تو اسے مان لیجیے۔
سورۃ البقرہ 2 کی آیت 282 میں نے اپنے موقف کو یادہ پختہ بنانے کے لئے پیش کی تھی۔کیونکہ اس آیت میں عام لین دین کا کام لکھنے پر اللہ نے زیادہ اہمیت دی ہے ۔یہ آیت میں نے آپ کے لئے اس لئے پیش کی شاید کہ آپ غور کریں لیکن آپ نے اس کو کہہ دیا یہ صرف قیاس ہے۔کیونکہ اس میں واضح قرآن کا ذکر نہیں کیا گیا کہ آیات کو لکھا کرو۔۔۔۔۔واہ میرے بھائی۔۔۔آپ کا حال یہ ہے کہ جیسے ہم لوگ منکریں حدیث کو کہتے ہیں نماز کا ذکر ہے ،رکوع ،سجدہ ،وضو کا ذکر توقرآن میں ہے لیکن واضح طریقہ نہیں تو قرآن سے ثابت کرو کرو کہ نماز کس طرح پڑھی جائے؟۔۔۔۔۔!
سورۃ البقرہ 2آیت 282 دلیل کے طور پر میں دے رہا اور آپ اسے قیاس کہہ رہے کیونکہ اس میں قرآن کا لفظ نہیں ،جبرائیل علیہ السلام کا ذکر نہیں۔ تو بھائی ہر اس آیت کا آپ انکار کریں نا پھر جس میں جبرائیل علیہ السلام کا واضح نام نہیں بلکہ جبرائیل علیہ السلام کا تو نام ہے ہی نہیں پورے قرآن میں تو میرے بھائی اب آپ انکار کریں کہ یہ قرآن جبرائیل علیہ السلا م نہیں لائے بس ایک فرشتہ تھا۔۔۔۔۔کہاں جاہلوں والے سوال کرتے ہو آپ کا تعلق موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ تو نہیں؟
یہاں میں نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ قرآن نازل ہونے کے ساتھ ساتھ یاد اور لکھوایا جاتا رہا سورۃ البقرہ 2آیت 282میں عام لین دین کا مسئلہ اللہ تعالیٰ نے کیسے سمجھایا اور قرآن کی کوئی بات نہیں واہ۔اوراق علیحدہ علیحدہ تھے لیکن ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ جمع کیا جاتا رہا ۔
کہتے ہیں قیاس ہے یہ آیت جو آپ کر رہے ۔ آپ کا کدو ،کدو میرا کدو بینگن واہ

آنکھیں پھاٹ کر دیکھو یہاں کیا لکھا ہوا ہے۔۔۔
سورۃ البقرہ 2آیت نمبر 282۔
معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔


ایک مثال دیتا چلو آپ بہت بڑے علم والے کو ۔۔۔۔
آج 2017 میں ایک کتاب لکھی جا رہی ہو ۔وہ روز ایک ورق یا تین اوراق لکھے جاتے رہے ہوں تو کیا ان کو ایک جگہ ترتیب کے ساتھ نہیں رکھا جاتا؟ !!!چاہے ابھی مکمل نہ ہو؟۔اب کوئی پوچھے کہ کتاب مکمل ہوگئی جبکہ وہ ابھی جلد کی شکل میں نہیں پھر بھی وہ یہی کہے گا کہ کتاب ابھی مکمل نہیں ہوئی (پوچھنے والا بھی یہی کہتا ہے اور جواب دینے والا بھی اس کو کتاب ہی کہتا ہے کیوں؟!!!)یہ جواب نہیں دے گا کہ تم نے اس کو کتاب کیوں کہا، اوراگر یہی سوال آپ سے پوچھا جائے کہ جو کتاب لکھنا شروع کی تھی وہ مکمل ہوئی ۔ آپ یہ نہیں کہیں گے کہ آپ نے اسے کتاب کیوں کہا آپ کہیں گے نہیں جناب ابھی وہ کتاب مکمل نہیں ہوئی اب آپ اسے کتاب اس لئے کہہ رہے ہوں گے کہ اس میں لکھی جانے والی عبارت اور اس کے اوراق ترتیب دئے جاتے ہیں ساتھ ساتھ جیسے جیسے وہ مکمل یا تکمیل کے مراحل ابور کرتی جائے گی کتاب کہا گیا جبکہ ابھی جلد کی شکل میں اسے نہیں لایا گیا ۔یعنی ایک نہ ایک دن جلد کی شکل اختیار کرے گی اللہ تعالیٰ نے بھی اسے کتاب ہی کہا اور آپ کہتے ہیں نہیں ۔میں نہ مانوں۔تو نہ مانو بھائی ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭​
اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے شروع میں کہہ دیا تھا کہ ذٰلِکَ الْکِتٰب (2:2 )یہ ایک ’’کتاب ‘‘ہے۔ عربوں کے ہاں کتاب کا لفظ اس وقت بولتے تھے جب ’’منتشر اجزاء کی شیرازہ بندی کر کے‘ ان میں لوہے کا کڑا پرو دیا جاتا تھا یا سلائی کر دی جاتی تھی‘‘۔ قرآن کو الکتاب کہنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ صحیفۂ مقدسہ حضورِ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ایک مرتبہ اور مدوّن کتاب کی شکل میں موجود تھا‘ جس کی شیرازہ بندی بھی ہو چکی تھی۔ سورۃ الطور52 میں ہے کہ وَالطُّوْرِ o وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ o فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ (1تا3) قرآن سطروں میں لکھی ہوئی کتاب تھی۔ پہلے اسے منتشر اوراق پر لکھا جاتا تھا اور بعد میں اس کی شیرازہ بندی کی جاتی تھی۔عربوں کے ہاں ہرن،بکری کی کھال، چھیل کر اسے (چرمی کاغذ) کی شکل میں‘ قرطاس بنا لیتے۔ اسے رَقَّ کہا جاتا تھا۔ جن تحریروں کو محفوظ رکھنا مقصود ہوتا‘ انہیں اس پر قلم بند کر لیتے تھے۔ جہاں تک کاتبین وحی کا تعلق ہے‘ سورۃ عبس 80میں ہے کہ قرآن کی کتابت بڑے با عزت اور قابلِ اعتماد کاتبوں نے کی تھی(15تا16)قرآن نبی کریم ﷺکے زمانے میں ‘نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی ‘اسی شکل میں مرتب‘ مدوّن ‘قرطاس پر موجود تھا ‘جس شکل میں آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔ اس میں ایک لفظ بھر کی کمی بیشی کہیں نہیں ہوئی۔ اسی مرتب اور مدوّن کتاب کے متعلق کہہ دیا گیا کہ یہ کتاب مکمل ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا سورۃ الانعام6۔تمہارے ربّ کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے ، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(115) ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اللہ نے اسے نازل کیا ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کا ذمے دار ہےسورۃ الحجر 15۔رہا یہ ذکر ، تو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔ (9)اللہ نے اس کی تصریح فرما دی کہ قرآنِ کریم ایک مرتب کتاب کی شکل میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود تھا۔ یہ ہر طرح سے مکمل بھی ہے اور غیر متبدل بھی اور یہ بھی کہ یہ قیامت تک کے لیے محفوظ رہے گا۔عام لین دین کی تصدیق دلیل میں دے چکا اور یہ کام عام لین دین سے 100٪ زیادہ اہمیت کا حامل ہے اب عام لین دین لکھا جاتا تاکہ لوگ شک میں مبتلا نہ ہوں لیکن قرآن جو قیامت تک کے لئے لوگوں کے لئے رہنمائ ہے وہ مکمل نہیں تھی لکھی بھی نہیں گئی تھی ۔اسے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اصحاب تلاش میں لگ گئے آخر 23 سال میں جو قرآن کی آیات نازل ہوئیں وہ گئیں کہاں واہ ۔کیا کہنے ہیں جناب کے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ بات ضروری نہیں ہوتی کہ احکمات مکمل نہیں اور وہ صفحہ جات ایک جگہ ترتیب سے رکھے جاتے ہوں اسے مرتب ہی کہا جائے گا اور انہیں کتاب ہی کہا جائے گا چاہے وہ مکمل ہوں یا نہیں مختلف صفحاجات ایک جگہ ترتیب کے ساتھ رکھے جاتے رہے ہوں اور ساتھ ساتھ اس میں وہ صفحے لگائے جاتے ہوں اسے کتاب ہی کہا جائے گا۔آپ مانیں یا نہ مانیں۔



اب سوال یہ ہے کہ جب اس وقت تک قرآن کریم آدھا بھی نازل نہیں ہوا تھا تو ایک کتاب میں کیسے تحریر کر دیا گیا تھا جس کا سورۃ الطور میں ذکر ہے؟
اس کا صاف سا مطلب ہے کہ یہاں "کوئی اور" کتاب مراد ہے۔ اور یہاں کتنی کتابوں کے مراد ہونے کے احتمالات ہیں، میں ذکر کر دیتا ہوں:
  1. لوح محفوظ (آگے قسمیں بھی غیب کی ہی چیزوں کی ہیں)۔
  2. تورات (پچھلی قسم طور پہاڑ کی ہے جس پر الواح تورات نازل ہوئیں)۔
  3. اعمال نامہ
  4. تمام کتب سماویہ
ان میں سب سے مضبوط احتمال "لوح محفوظ" اور "اعمال ناموں" کا ہے کیوں کہ ان کے سوا ہر کتاب کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ وہ ایک کشادہ ورق میں نہیں لکھی گئیں
ان میں سب سے مضبوط احتمال "لوح محفوظ اور اعمال ناموں " کا ہے ۔۔۔۔واہ کیا دلیل دی میرے پیارے بھائی نے ۔۔خود قیاس کریں تو وہ دلیل ۔میرے پیارے بھائی کچھ تو خیال کریں آپ علم والے ایک عالم ہیں اور قیاس والے جواب آپ دیتے ہیں اگر میں قیاس کروں تو غلط۔جبکہ ایک واضح دلیل دے چکا۔
٭٭٭٭٭
سورۃ طور 52کا ترجمہ دیکھیں اور ساری زندگی سوچتے رہیں۔
قسم ہے طور کی ،(1)اور ایک ایسی کھلی کتاب کی،(2)جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے،(3)اور آباد گھر کی،(4)اور اُونچی چھت کی،(5)اور موجزن سمندر کی ،(6)کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے ۔(7)

یعنی آپ کہہ رہے ہیں ایک کشادہ ورق میں یہ کتاب نہیں لکھی آپ کا مفہوم ہے کہ بڑے بڑے 50،50 فٹ کے اوراق کو کشادہ کہتے ہیں واہ ۔۔۔۔۔کیا بات ہے ۔۔۔۔۔
٭٭٭
کشادہ ورق سے مراد ہے جو آپ کو ہمیں کشادہ کے ساتھ رہنمائی ،روشنائی والا علم دیتا ہے ۔زیادہ روشنائی ،دانائی،علم،رہنمائی والے اوراق۔۔۔کھلی کتاب بھی اسی جیسا لفظ ہے ۔واضح صاف دلائل کھول کھول کے صاف صاف بیان کرنے والے اوراق علم سے بھرپور،علم کا بڑا ذخیرہ،دانائی کی بڑی بڑی باتیں کرنےو الے اوراق ۔۔
٭٭٭٭
سورۃ عبس80۔کاترجمہ۔
ہر گز نہیں ! یہ (قرآن) تو ایک نصیحت ہے،(11)جس کا جی چاہے اسے قبو ل کرے۔ (اس سے یاد دہانی حاصل کرے ) (12)یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مُکَرَّم (لائقِ تعظیم ) ہیں،(13)جو بلند مرتبہ ہیں ، پاکیزہ (صحیفے) ہیں،(14)مُعَزَّز اور نیک (با وفا)کاتبوں کے (15)ہاتھوں میں رہتے ہیں۔(16)لعنت ہو انسان پر ! کیسا سخت منکرِ حق ہے۔ (کتنا ناشکرا ہے؟)(17)
٭٭مثال آپ کے سمجھانے کے لئے۔
میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔۔۔۔
ہیں کتاب۔۔۔ابھی تو پہلا صفحہ لکھا ہے اور میں اس کو کتاب کہہ رہا۔۔۔۔۔کیوں
کیونکہ میں روز ایک صفحہ لکھتا ہوں اور ان صفحہ جات کو ایک جگہ ترتیب سے رکھ دیتا ہوں جب یہ مکمل ہو جائے گی تو اس کی جلد کر دی جائے گی یہ پہلے بھی کتاب کے نام سے تھی اور مکمل ہونے کے بعد بھی ۔۔۔۔۔جو آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ۔
٭٭٭
آپ خود قیاس کریں تو وہ درست ہے ۔دلیل بھی ہے واہ کیا بات میرے پیارے بھائی کی ۔اپنا کدو کدو میرا کدو توری واہ۔۔۔۔کیا کہنے ہیں جناب کے ۔٭٭٭

 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سورۃ البقرہ 2 کی آیت 282 میں نے اپنے موقف کو یادہ پختہ بنانے کے لئے پیش کی تھی۔کیونکہ اس آیت میں عام لین دین کا کام لکھنے پر اللہ نے زیادہ اہمیت دی ہے ۔یہ آیت میں نے آپ کے لئے اس لئے پیش کی شاید کہ آپ غور کریں لیکن آپ نے اس کو کہہ دیا یہ صرف قیاس ہے۔کیونکہ اس میں واضح قرآن کا ذکر نہیں کیا گیا کہ آیات کو لکھا کرو۔۔۔۔۔واہ میرے بھائی۔۔۔آپ کا حال یہ ہے کہ جیسے ہم لوگ منکریں حدیث کو کہتے ہیں نماز کا ذکر ہے ،رکوع ،سجدہ ،وضو کا ذکر توقرآن میں ہے لیکن واضح طریقہ نہیں تو قرآن سے ثابت کرو کرو کہ نماز کس طرح پڑھی جائے؟۔۔۔۔۔!
سورۃ البقرہ 2آیت 282 دلیل کے طور پر میں دے رہا اور آپ اسے قیاس کہہ رہے کیونکہ اس میں قرآن کا لفظ نہیں ،جبرائیل علیہ السلام کا ذکر نہیں۔ تو بھائی ہر اس آیت کا آپ انکار کریں نا پھر جس میں جبرائیل علیہ السلام کا واضح نام نہیں بلکہ جبرائیل علیہ السلام کا تو نام ہے ہی نہیں پورے قرآن میں تو میرے بھائی اب آپ انکار کریں کہ یہ قرآن جبرائیل علیہ السلا م نہیں لائے بس ایک فرشتہ تھا۔۔۔۔۔کہاں جاہلوں والے سوال کرتے ہو آپ کا تعلق موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ تو نہیں؟
یہاں میں نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ قرآن نازل ہونے کے ساتھ ساتھ یاد اور لکھوایا جاتا رہا سورۃ البقرہ 2آیت 282میں عام لین دین کا مسئلہ اللہ تعالیٰ نے کیسے سمجھایا اور قرآن کی کوئی بات نہیں واہ۔اوراق علیحدہ علیحدہ تھے لیکن ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ جمع کیا جاتا رہا ۔
کہتے ہیں قیاس ہے یہ آیت جو آپ کر رہے ۔ آپ کا کدو ،کدو میرا کدو بینگن واہ
آنکھیں پھاٹ کر دیکھو یہاں کیا لکھا ہوا ہے۔۔۔
سورۃ البقرہ 2آیت نمبر 282۔
معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔

ایک مثال دیتا چلو آپ بہت بڑے علم والے کو ۔۔۔۔
آج 2017 میں ایک کتاب لکھی جا رہی ہو ۔وہ روز ایک ورق یا تین اوراق لکھے جاتے رہے ہوں تو کیا ان کو ایک جگہ ترتیب کے ساتھ نہیں رکھا جاتا؟ !!!چاہے ابھی مکمل نہ ہو؟۔اب کوئی پوچھے کہ کتاب مکمل ہوگئی جبکہ وہ ابھی جلد کی شکل میں نہیں پھر بھی وہ یہی کہے گا کہ کتاب ابھی مکمل نہیں ہوئی (پوچھنے والا بھی یہی کہتا ہے اور جواب دینے والا بھی اس کو کتاب ہی کہتا ہے کیوں؟!!!)یہ جواب نہیں دے گا کہ تم نے اس کو کتاب کیوں کہا، اوراگر یہی سوال آپ سے پوچھا جائے کہ جو کتاب لکھنا شروع کی تھی وہ مکمل ہوئی ۔ آپ یہ نہیں کہیں گے کہ آپ نے اسے کتاب کیوں کہا آپ کہیں گے نہیں جناب ابھی وہ کتاب مکمل نہیں ہوئی اب آپ اسے کتاب اس لئے کہہ رہے ہوں گے کہ اس میں لکھی جانے والی عبارت اور اس کے اوراق ترتیب دئے جاتے ہیں ساتھ ساتھ جیسے جیسے وہ مکمل یا تکمیل کے مراحل ابور کرتی جائے گی کتاب کہا گیا جبکہ ابھی جلد کی شکل میں اسے نہیں لایا گیا ۔یعنی ایک نہ ایک دن جلد کی شکل اختیار کرے گی اللہ تعالیٰ نے بھی اسے کتاب ہی کہا اور آپ کہتے ہیں نہیں ۔میں نہ مانوں۔تو نہ مانو بھائی ۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ کے شروع میں کہہ دیا تھا کہ ذٰلِکَ الْکِتٰب (2:2 )یہ ایک ’’کتاب ‘‘ہے۔ عربوں کے ہاں کتاب کا لفظ اس وقت بولتے تھے جب ’’منتشر اجزاء کی شیرازہ بندی کر کے‘ ان میں لوہے کا کڑا پرو دیا جاتا تھا یا سلائی کر دی جاتی تھی‘‘۔ قرآن کو الکتاب کہنے سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ یہ صحیفۂ مقدسہ حضورِ نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں ایک مرتبہ اور مدوّن کتاب کی شکل میں موجود تھا‘ جس کی شیرازہ بندی بھی ہو چکی تھی۔ سورۃ الطور52 میں ہے کہ وَالطُّوْرِ o وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ o فِیْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ (1تا3) قرآن سطروں میں لکھی ہوئی کتاب تھی۔ پہلے اسے منتشر اوراق پر لکھا جاتا تھا اور بعد میں اس کی شیرازہ بندی کی جاتی تھی۔عربوں کے ہاں ہرن،بکری کی کھال، چھیل کر اسے (چرمی کاغذ) کی شکل میں‘ قرطاس بنا لیتے۔ اسے رَقَّ کہا جاتا تھا۔ جن تحریروں کو محفوظ رکھنا مقصود ہوتا‘ انہیں اس پر قلم بند کر لیتے تھے۔ جہاں تک کاتبین وحی کا تعلق ہے‘ سورۃ عبس 80میں ہے کہ قرآن کی کتابت بڑے با عزت اور قابلِ اعتماد کاتبوں نے کی تھی(15تا16)قرآن نبی کریم ﷺکے زمانے میں ‘نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہی ‘اسی شکل میں مرتب‘ مدوّن ‘قرطاس پر موجود تھا ‘جس شکل میں آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے۔ اس میں ایک لفظ بھر کی کمی بیشی کہیں نہیں ہوئی۔ اسی مرتب اور مدوّن کتاب کے متعلق کہہ دیا گیا کہ یہ کتاب مکمل ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا سورۃ الانعام6۔تمہارے ربّ کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے ، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔(115) ۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ اللہ نے اسے نازل کیا ہے اور وہ خود اس کی حفاظت کا ذمے دار ہےسورۃ الحجر 15۔رہا یہ ذکر ، تو اس کو ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں ۔ (9)اللہ نے اس کی تصریح فرما دی کہ قرآنِ کریم ایک مرتب کتاب کی شکل میں رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں موجود تھا۔ یہ ہر طرح سے مکمل بھی ہے اور غیر متبدل بھی اور یہ بھی کہ یہ قیامت تک کے لیے محفوظ رہے گا۔عام لین دین کی تصدیق دلیل میں دے چکا اور یہ کام عام لین دین سے 100٪ زیادہ اہمیت کا حامل ہے اب عام لین دین لکھا جاتا تاکہ لوگ شک میں مبتلا نہ ہوں لیکن قرآن جو قیامت تک کے لئے لوگوں کے لئے رہنمائ ہے وہ مکمل نہیں تھی لکھی بھی نہیں گئی تھی ۔اسے نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد اصحاب تلاش میں لگ گئے آخر 23 سال میں جو قرآن کی آیات نازل ہوئیں وہ گئیں کہاں واہ ۔کیا کہنے ہیں جناب کے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
یہ بات ضروری نہیں ہوتی کہ احکمات مکمل نہیں اور وہ صفحہ جات ایک جگہ ترتیب سے رکھے جاتے ہوں اسے مرتب ہی کہا جائے گا اور انہیں کتاب ہی کہا جائے گا چاہے وہ مکمل ہوں یا نہیں مختلف صفحاجات ایک جگہ ترتیب کے ساتھ رکھے جاتے رہے ہوں اور ساتھ ساتھ اس میں وہ صفحے لگائے جاتے ہوں اسے کتاب ہی کہا جائے گا۔آپ مانیں یا نہ مانیں۔

میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ اس آیت میں عام لین دین کا ذکر ہے اور آپ اس پر قرآن کریم کو قیاس کر رہے ہیں۔ آپ سے جب یہ کہا گیا ہے کہ
آیت یا حدیث پیش فرمائیں تو وہ پیش فرمائیں، قیاس نہیں۔
ہم آپ کے قیاس پر بعد میں بات کر لیں گے (اگرچہ میں نے آپ کے قیاس کا بطلان بھی ذکر کر دیا تھا)۔ فی الحال اگر صریح اور واضح آیت موجود ہے یا حدیث موجود ہے تو ٹھیک ہے ورنہ قیاس نہیں پیش فرمائیں۔

اپنی باتوں پر
آیت یا حدیث میں سے کچھ لائیے اگر ہے۔ اور اگر صریح کچھ موجود نہیں ہے تو اسے تسلیم کر لیجیے تاکہ پھر ہم آپ کے قیاس پر بات کریں۔

ان میں سب سے مضبوط احتمال "لوح محفوظ اور اعمال ناموں " کا ہے ۔۔۔۔واہ کیا دلیل دی میرے پیارے بھائی نے ۔۔خود قیاس کریں تو وہ دلیل ۔میرے پیارے بھائی کچھ تو خیال کریں آپ علم والے ایک عالم ہیں اور قیاس والے جواب آپ دیتے ہیں اگر میں قیاس کروں تو غلط۔جبکہ ایک واضح دلیل دے چکا۔
٭٭٭٭٭
سورۃ طور 52کا ترجمہ دیکھیں اور ساری زندگی سوچتے رہیں۔
قسم ہے طور کی ،(1)اور ایک ایسی کھلی کتاب کی،(2)جو رقیق جلد میں لکھی ہوئی ہے،(3)اور آباد گھر کی،(4)اور اُونچی چھت کی،(5)اور موجزن سمندر کی ،(6)کہ تیرے رب کا عذاب ضرور واقع ہونے والا ہے ۔(7)
یعنی آپ کہہ رہے ہیں ایک کشادہ ورق میں یہ کتاب نہیں لکھی آپ کا مفہوم ہے کہ بڑے بڑے 50،50 فٹ کے اوراق کو کشادہ کہتے ہیں واہ ۔۔۔۔۔کیا بات ہے ۔۔۔۔۔
٭٭٭
کشادہ ورق سے مراد ہے جو آپ کو ہمیں کشادہ کے ساتھ رہنمائی ،روشنائی والا علم دیتا ہے ۔زیادہ روشنائی ،دانائی،علم،رہنمائی والے اوراق۔۔۔کھلی کتاب بھی اسی جیسا لفظ ہے ۔واضح صاف دلائل کھول کھول کے صاف صاف بیان کرنے والے اوراق علم سے بھرپور،علم کا بڑا ذخیرہ،دانائی کی بڑی بڑی باتیں کرنےو الے اوراق ۔۔
٭٭٭٭
سورۃ عبس80۔کاترجمہ۔

ہر گز نہیں ! یہ (قرآن) تو ایک نصیحت ہے،(11)جس کا جی چاہے اسے قبو ل کرے۔ (اس سے یاد دہانی حاصل کرے ) (12)یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مُکَرَّم (لائقِ تعظیم ) ہیں،(13)جو بلند مرتبہ ہیں ، پاکیزہ (صحیفے) ہیں،(14)مُعَزَّز اور نیک (با وفا)کاتبوں کے (15)ہاتھوں میں رہتے ہیں۔(16)لعنت ہو انسان پر ! کیسا سخت منکرِ حق ہے۔ (کتنا ناشکرا ہے؟)(17)
٭٭مثال آپ کے سمجھانے کے لئے۔
میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔۔۔۔
ہیں کتاب۔۔۔ابھی تو پہلا صفحہ لکھا ہے اور میں اس کو کتاب کہہ رہا۔۔۔۔۔کیوں
کیونکہ میں روز ایک صفحہ لکھتا ہوں اور ان صفحہ جات کو ایک جگہ ترتیب سے رکھ دیتا ہوں جب یہ مکمل ہو جائے گی تو اس کی جلد کر دی جائے گی یہ پہلے بھی کتاب کے نام سے تھی اور مکمل ہونے کے بعد بھی ۔۔۔۔۔جو آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ۔
٭٭٭
آپ خود قیاس کریں تو وہ درست ہے ۔دلیل بھی ہے واہ کیا بات میرے پیارے بھائی کی ۔اپنا کدو کدو میرا کدو توری واہ۔۔۔۔کیا کہنے ہیں جناب کے ۔٭٭٭

نہ میں نے دلیل دی ہے اور نہ قیاس کیا ہے بلکہ یہ بتایا ہے کہ آپ کی پیش کردہ آیت میں
جس کتاب کی قسم کھائی گئی ہے اس کا قرآن کریم ہونا متعین نہیں ہے بلکہ دوسرے احتمالات بھی موجود ہیں جن میں سے بعض بہت قوی ہیں۔
اگر آپ بضد ہیں کہ یہاں مراد قرآن کریم ہی ہے تو پھر معذرت کے ساتھ میں آپ سے عرض کروں گا کہ اس
مراد پر کوئی آیت یا حدیث لائیے۔

باقی جو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ:
یعنی آپ کہہ رہے ہیں ایک کشادہ ورق میں یہ کتاب نہیں لکھی آپ کا مفہوم ہے کہ بڑے بڑے 50،50 فٹ کے اوراق کو کشادہ کہتے ہیں واہ ۔۔۔۔۔کیا بات ہے ۔۔۔۔۔
یہ آپ کے اپنے فہم کا نقص ہے۔ میرا مطلب یہ تھا کہ یہاں ذکر ہے
"ایک" کشادہ ورق کا جب کہ قرآن کریم "ایک" ورق میں تو صرف ایک بار ایک انگریز نے ہی لکھا تھا، اس کے علاوہ کبھی نہیں لکھا گیا۔ اس کے برعکس "لوح محفوظ" کے لیے "لوح" کا لفظ واحد استعمال ہوا ہے۔ تو یہ آپ کے اپنے فہم کا قصور ہے جو آپ میرے واضح جملوں کو بھی سمجھ نہیں سکے۔

آپ نے مثال عنایت فرمائی:
مثال آپ کے سمجھانے کے لئے۔
میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔۔۔۔
ہیں کتاب۔۔۔ابھی تو پہلا صفحہ لکھا ہے اور میں اس کو کتاب کہہ رہا۔۔۔۔۔کیوں
کیونکہ میں روز ایک صفحہ لکھتا ہوں اور ان صفحہ جات کو ایک جگہ ترتیب سے رکھ دیتا ہوں جب یہ مکمل ہو جائے گی تو اس کی جلد کر دی جائے گی یہ پہلے بھی کتاب کے نام سے تھی اور مکمل ہونے کے بعد بھی ۔۔۔۔۔جو آپ کو سمجھ نہیں آ رہی ۔
یہاں بھی ذرا سا فہم کا نقص ہے۔ آپ
ایک صفحہ لکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ میری کتاب ایک کشادہ صفحے میں یا ایک جلد میں یا دو گتوں کے درمیان ہے وغیرہ وغیرہ۔ اگر ایسا کہیں گے تو ہر کوئی پوچھے گا کہ جناب کتاب مکمل ہو گئی جو ایک کشادہ ورق میں یا ایک جلد میں دو گتوں کے درمیان آ گئی ہے؟ ابھی تو ایک ہی صفحہ ہوا ہے!
یہاں اللہ پاک نے آگے فرما دیا ہے "کشادہ ورق میں"۔ بہرحال تمام احتمالات کی طرح یہ بھی ایک احتمال ہے۔ اور ویسے بھی آپ نے یہ مثال اپنے خلاف ہی دلیل کے طور پر دی ہے لیکن اس کی فی الحال بحث نہیں کرتے۔
اگر آپ اپنے احتمال کو مضبوط سمجھتے ہیں تو کسی
آیت یا حدیث سے ثابت فرمائیے کہ یہاں "کتاب مسطور" سے مراد قرآن كريم ہے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
میں بھی یہی کہہ رہا ہوں کہ اس آیت میں عام لین دین کا ذکر ہے اور آپ اس پر قرآن کریم کو قیاس کر رہے ہیں۔ آپ سے جب یہ کہا گیا ہے کہ آیت یا حدیث پیش فرمائیں تو وہ پیش فرمائیں، قیاس نہیں۔
سورۃ التوبہ 9۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں ۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(32)وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(33)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، ان اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں درد ناک سزا کی خوشخبری دو اُن کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ (34)
٭اللہ اپنی روشنی کو مکمل کئے بغیر ماننے والا نہیں۔یہاں روشنی سے مراد قرآن مجید ہے اپنے احکمات کو اللہ تعالیٰ نے روشنی کہا ہے ۔
سورۃ المائدہ 5۔تم پر حرام کیا گیا مردار ، خون ، سور کا گوشت ، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ،وہ جو گلا گھٹ کر ،یا چوٹ کھا کر ، یا بلندی سے گر کر ، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ۔سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو ۔ نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۔آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو ) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھا لے ، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(3)
٭٭٭٭
حج اکبر( حجۃ الوداع ) والے دن جبکہ یہ آیت اتری سورۃ المائدہ 3۔تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے حضرت فاروق اعظم سے کہا تم جو اس آیت ( ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5۔ المائدہ:3) کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے ''حضرت عمر نے فرمایا واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی ، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے ، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے ، تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا ،
٭٭٭٭
خطبہ یومِ عرفہ کی روایات درج ذیل ہیں:
٭ امام بیہقی مسور بن مخرمہ سے روایت لائے ہیں کہ رسول اللہا نے عرفات میں حمدوثنا کے بعد خطاب فرمایا۔ (بیہقی ۵؍۱۲۵)
٭ حضرت جابر نبی کریمﷺ کا حج بیان کرتے ہوئے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق بیان کرتے ہیں:

فأتى بطن الوادي، فخطب الناس وقال: إن دماءکم وأموالکم حرام علیکم، کحرمة یومکم هذا في شهرکم هذا في بلدکم هذا، ألا کل شیئ من أمر الجاهلیة تحت قدمي موضوع، ودماء الجاهلیة موضوعة وإن أول دم أضع من دمائنا دم ابن ربیعة بن الحارث، کان مسترضعا في بنی سعد فقتله هزیل، وربا الجاهلیة موضوع، و أوّل ربا أضع ربانا، ربا عباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع کله فاتقوا الله في النساء فإنکم أخذتموهن بأمان الله، واستحللتم فروجهن بکلمة الله، ولکم علیهن أن لا یوطئن فروشکم أحداً تکرهونه، فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربًا غیر مبرح، ولهن علیکم رزقهن وکسوتهن بالمعروف، وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعده إن اعتصتم به: کتاب الله، وأنتم تُسألون عني، فما أنتم قائلون؟ قالوا: نشهد أنك قد بلغت وأدّیت ونصحت،فقال بإصبعه السبابة، یرفعها إلى السماء وینکتها إلى الناس: اللهم! اشهد، اللهم! اشهد ثلاث مرات (صحیح مسلم :۲۹۴۱، صحیح سنن ابی داود للالبانی :۱۹۰۵، ابن ماجہ :۱۸۵۰، الفتح الربانی :۲۱؍۵۸۸)
’’نبیﷺ کریم بطن الوادی میں آئے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا: تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیئے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہزیل نے اسے قتل کردیا اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔
ہاں! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں گوارا نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔
یہ سن کر آپﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔‘‘ (الرحیق المختوم: ص ۷۳۳)
٭٭٭٭
سنن ابن ماجہ۔كتاب المناسك۔حج و عمرہ کے احکام و مسائل​
باب : الخطبة يوم النحر
باب: یوم النحر کے خطبہ کا بیان۔

حدیث نمبر: 3058
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال حج کیا دسویں ذی الحجہ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”آج کون سا دن ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ یوم النحر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا شہر ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ اللہ کا حرمت والا شہر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا مہینہ ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ اللہ کا حرمت والا مہینہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حج اکبر کا دن ہے، اور تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت و آبرو اسی طرح تم پر حرام ہیں جیسے اس شہر کی حرمت اس مہینے اور اس دن میں ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے (اللہ کے احکام تم کو) پہنچا دئیے ہیں“؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں، (آپ نے پہنچا دئیے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے: ”اے اللہ! تو گواہ رہ“، اس کے بعد لوگوں کو رخصت کیا، تو لوگوں نے کہا: یہ حجۃ الوداع یعنی الوداعی حج ہے ۱؎۔
٭٭٭٭
جب جب نبی کریم ﷺ سے سوال کیا جاتا جواب میں ایک آیت ہی نازل ہوتی نبی کا تعارف اس قرآن نے کروایا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نبی ہوں ،میں پیغمبر ہوں کس بات نے تصدیق کی کہ یہ نبی ہیں اور اللہ کے نیک انسان ،بندے ہیں۔اس قرآن نے اور اس قرآن کو سب نے جھٹلایا جیسے آپ بحث پربحث کرتے چلے جا رہے ہیں کہ واضح صاف صاف نام کے ساتھ کہیں دیکھائیں اور پھر یہ بھی کہ اللہ کے کلمات ہوں کہ قرآن آج مکمل ہو گیا ہے جیسے کہ ہمارے پا س ایک حدیث ہے جو نبی کریم ﷺ نے آخری جمعہ میں ختاب کیا تھا۔ آج تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا گیا ہے۔

٭صرف اہلِ کتاب نہیں یہاں تو اکثر علمائ اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے بھی ہیں۔

سورۃ الانعام 6۔ان سے پوچھو ، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ ۔کہو ، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ، اور یہ قرآن میری طرف بذریعۂ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ، سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں؟ کہو ، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا کہو ، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اُس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔(19)

یعنی اس آیت پر غور کریں تو اللہ کفار سے مخاطب ہے لیکن نازل کیا کر رہا ۔۔۔قرآن کی آیت جیسے آپ کہتے کہ ثابت کر کہ یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے٭پھر آپ کہتے ہیں کہ اس کو پڑھ کر اور باقی کتابوں کو پڑھ کر مجھے سب ایک جیسی لگتی ہیں٭پھر کہتے ہیں نبی کریم ﷺ کا نام واضح اس میں درج کیا ہوا دیکھائو کہ کس نبی پر یہ نازل ہوا٭پھرکہتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے آخری ایام میں آکر جو قرآن سنا گیا دو بار اس کی وجہ میں نے قیاس کی تھا کہ غلطی اور قرآن کی آیات کو اور زیادہ پختہ کرنے کے لئے آئے تھے ۔ اب آپ کہتے ہیں ان الفاظ کو یہاں اس قرآن مجید میں دیکھائو۔۔واہ


اپنی باتوں پر آیت یا حدیث میں سے کچھ لائیے اگر ہے۔ اور اگر صریح کچھ موجود نہیں ہے تو اسے تسلیم کر لیجیے تاکہ پھر ہم آپ کے قیاس پر بات کریں۔
وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَـهُـمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ وَلَا تَتَّبِــعْ اَهْوَآءَهُـمْ وَاحْذَرْهُـمْ اَنْ يَّفْتِنُـوْكَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ اِلَيْكَ۔ (المائدہ ۵ ۔ آیت ۴۹)
’’اور یہ کہ تو ان لوگوں میں اس کے موافق حکم کر جو اللہ نے اتارا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر اور ان سے بچتا رہ کہ تجھے کسی ایسے حکم سے بہکا نہ دیں جو اللہ نے تجھ پر اتارا ہے‘‘۔​
نبی کریمؐ کو قرآن کریم نے حکم دیا کہ لوگوں کے معاملات کو وحی کے مطابق طے کیجیے اور وحی کے مقابلے میں ان کی خواہشات کی طرف مت دیکھیے۔ مطلق خواہشات کی نفی نہیں ہے بلکہ ایسی خواہشات کی نفی ہے جو وحی یعنی اللہ کے نازل کردہ احکامات و ہدایات کے مقابلے پر آئیں۔ آج 2017 میں وحی لاریب پہلے درجہ پر آتی ہے یعنی قرآن مجید اور اس کے بعد وہ وحی جو قرآن مجید میں درج نہیں ہوئی لیکن اس کے بغیر ہمارا دین مکمل نہیں اب یہ والی وحی حق اور باطل اس میں مکس تھی اس کو نکالا گیا اب یہاں آپ بتائیں کہ ایک محدیث یا ایک مولانا صاحب نے کہہ دیا کہ فلاں حدیث درست ہے اور گواہی بھی دی اسی حدیث کو دوسری فرقہ گواہی کے ساتھ رد بھی کر دیتا ہے ۔۔۔۔اب ہم کیا کریں؟

میرے علم کے مطابق جس علم میں بات میں شک پڑھ جائے اسے چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے ۔
شکریہ۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
یہاں بھی ذرا سا فہم کا نقص ہے۔ آپ ایک صفحہ لکھ کر یہ نہیں کہہ سکتے کہ میری کتاب ایک کشادہ صفحے میں
السلام علیکم!
میں نے کب کہا میرے بھائی کہ میری لکھی ہوئی کتاب ایک کشادہ صفحے ہیں۔۔۔۔۔۔۔میرے بھائی اللہ کی کتاب کا ایک صفحہ بلکہ ایک لائن بلکہ ایک ایک لفظ کشادگی کے ساتھ علم سے بھرپور ہے آپ مانیں یا نہ مانیں۔
یہ اللہ کی کتاب ہے جو کشادہ اوراق پر مشتمل ہے صرف یہی کتاب نہیں بلکہ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی کریم ﷺ جو ہمارے آخری اللہ کے پیغمبر ہیں ان تک جو جو کتاب ناز ل ہوئی تمام کی تمام کشادہ اوراق پر ہی تھی یعنی کشادہ علم ،اندھیرے سے نکالنے والی اندھیرے سے مراد یہ رات والا اندھیرا نہیں بلکہ کم عقلی،کم فہم،بے دینی،غلط کاموں،اپنے آباواجداد کے گھڑے ہوئے عقیدے ،یعنی دین اسلام کے مخالف ایمان،رکھنے کو اندھیرا کہا گیا ۔اسی طرح ان تمام کتابوں کے اوراق بھی کشادہ علم والے ہی تھے ۔

میں نے مثال دی تھی۔ایک کتاب عام سی کتاب اگر آپ کو سمجھ نہیں آئی تو مجھے معاف فرمائیں عین نوازش ہو گی۔

٭میرا موقف یہ ہے دوبارہ سنیں ۔
قرآن نبی کریم ﷺ کی زندگی میں مکمل ہوا دین ہمارا کامل ہوا پختہ ہوا نبی کریم ﷺ کی زندگی میں قرآن کے سوا کچھ اور نہیں لکھا جاتا رہا۔جو کہ قرآن کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔
ایک اور وحی تھی جو قرآن میں درج نہیں کی گئی وہ ہے حدیث اب وہ بھی اللہ کی طرف سے ہی ہے لیکن یہاں قرآن اور اس وحی کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آگیا کہ قرآن مکمل تھا لکھا جا چکا ایک جلد میں بھی مرتب کر دیا گیا لیکن وحی جو قرآن کے علاوہ تھی وہ نبی کریم ﷺ کے کئی سال گزر جانے کے بعد تلاش کی گئی قرآن مجید کو تلاش نہیں کیا گیا ۔ وحی جو قرآن میں درج نہیں کی گئی تھی اس میں اسلام کے دشمنوں نے باطل بھی ملا ئ دیا لیکن قرآن مجید مکمل کتاب کی شکل میں مرتب تھی اس لئے قرآن کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ۔ پھر قرآن کی حفاظت اللہ نے لئ اب۔۔۔۔۔
٭٭میرا موقف ۔
قرآن سے پہلا فیصلہ لیا جائے کیونکہ یہ دین کا اہم ستون ہے جس پر نبی کریم بھی پہلے ایمان لائے۔
٭٭٭٭٭
ابو موسیٰ مالک بن عبادۃ الغافقی رضی اللہ عنہ: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قام خطیبا فی حجۃ الوداع فقال علیکم بالقرآن وسترجعون الی اقوام یشتہون الحدیث عنی فمن عقل عنی شیئا فلیحدث بہ ومن قال علی ما لم اقل فلیتبوا مقعدہ جہنم۔
(الآحاد والمثانی، ۲۶۲۶۔ مسند احمد، ۱۸۱۸۲۔ المحدث الفاصل، ۱/۱۷۲)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ تم قرآن کو لازم پکڑے رکھنا، اور تم لوٹ کر ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو میری باتیں سننے کے خواہش مند ہوں گے، پس جس نے میری کوئی بات اچھی طرح سمجھ کر یاد کی ہو، وہ اس کو بیان کر دے، اور جس نے میری طرف ایسی بات کی نسبت کی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
نوٹ۔
واضح صاف ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اندیشاہ تھا اور لوگوں کی خواہش باطل یہ بھی تھی کہ قرآن مجید میں کسی طرح ہم اپنی طرف سے کوئی بات درج کروا دیں یا کر دیں جو بوری طرح نکام رہی لیکن احادیث کے مقابل وہ اپنے باطل عقائد ان احادیث کے ساتھ درج کوگئے آپ خود مختلف فرقوں کا مشاہدہ کر کے دیکھ لیں میں نے یہ حق بات کی ہے آپ کو منقولی مثال خود مل جائے گی یہ سبز پگڑیوں والے دجال کیسے نبی کریم ﷺ کا نام لے کر روایات پڑھتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں مشاہدہ کر کے دیکھ لیں ۔

٭٭٭٭٭
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ۔
(مسلم، ۲۱۳۷)
’’میں تم میں وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کو تھامے رکھنے کی صورت میں تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے، یعنی اللہ کی کتاب۔‘‘
(عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶))

بے شک قرآن مجید میں مختلف الفاظ ہیں کون سا کہاں آئے ہمارے علمائ نے بہت کوشش کو بہت محنت کی لیکن میرے بھائی ان تراجم میں ابھی بھی کمی ہے ۔آپ مانیں یا نہ مانیں۔اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمیں دوبارہ قرآن مجیدکی طرف رجوع کرنا ہو گا ۔آپ مانیں یا نہ مانیں یہ حقیقت ہے ۔اس قرآن سے مفہوم اور متن کو دیکھنا ہوگا اور واقع ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کے تاجم میں کمی ہے کسی ایک بہت بڑے عالم نے ترجمہ کر دیا اس کے پیچھے سب نے مکھی پر مکھی ماری۔۔۔۔۔جبکہ یہ قرآن مجید کے ساتھ بھی اور انسان اپنے ساتھ بھی ظلم کر رہا ہے۔
٭٭٭میرا موقف۔
میں آپ کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چہتا ہوں اجازت ہو تو کچھ نکات صرف تحقیق کے لئے کہ آپ خود غور وفکر کریں یہ دین کا معاملہ ہے ہم اپنے آباوجداد کو بچانے کے لئے حق تسلیم نہیں کرتے ۔حق جانتے ہوئے بھی حق کے اوپر تنقید کر دیتے ہیں یہ علمائ کا ایک وتیرا ہےجو یہ آپ اپنے اوپر ظلم کر لیتے ہیں۔
٭٭٭٭میرا موقف۔
جس جس بات کا واضح ،وضاحت کے ساتھ ،تشریح کے ساتھ قرآن جواب دے تو ہم احادیث کی کتابوں کو قرآن پر حاکم تسلیم کر کے ان کا معنی و مفہوم کیوں بدل ڈالتے ہیں جبکہ ہم قرآن کی مختلف آیات سے استدال کرتے ہوئے مراد اصلی لے سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ مراد اصلی کوئی نہیں جانتا اب یہ قرآن لاریب تبدیلی سے پاک ہے اس لئے مراد اصلی اسی میں ہے۔
٭٭٭٭٭میرا موقف۔
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ وسنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(مستدرک حاکم، ۳۱۸)
’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘
(ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۰)
جو بات قرآن میں وضاحت کے ساتھ ،تشریح کے ساتھ نہیں ہمیں ضرور چاہئے کہ احادیث مبارکہ کی طرف رجوع کریں اور ان کی تحقیق ساتھ رکھیں تاکہ گمراہی سے بچ سکیں۔
٭٭٭٭٭میرا موقف۔
میرے پیارے اشماریہ صاحب ۔۔۔
آپ نے مجھ سے بات کرنے کے لئے جو اپنے اعتراضات قرآن پر کئے تھے میرے بھائی یہ آپ کی کم علمی ہے۔پھر آپ نے کہہ دیا کہ قرآن کو پڑھ کر اور عام کتاب پڑھ کر مجھے تو ایک جیسی لگتی ہے اگر آپ دین دار نہ ہوں تو میرے بھائی یہ بھی آپ کی بات غلط ہے جو اس کتاب کو واقع ہدایت کے لئے پڑھتا ہے وہ کبھی ایسی بات نہیں کرسکتا اگر آپ اس کتاب قرآن کی شان سے واقف نہیں تو میرا کوئی قصور نہیں مجھے معاف فرمائیں اللہ تعالیٰ سے خالص ہو کر مدد طلب کریں۔
قرآن مجید خود سب کو مشاہدہ کرنے کا فرماتا ہے ۔غور و فکر تو کریں اس قرآن مجید پر۔۔پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
سورۃ التوبہ 9۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں ۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(32)وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔(33)اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، ان اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں درد ناک سزا کی خوشخبری دو اُن کو جو سونے اور چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور انہیں خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے۔ (34)
٭اللہ اپنی روشنی کو مکمل کئے بغیر ماننے والا نہیں۔یہاں روشنی سے مراد قرآن مجید ہے اپنے احکمات کو اللہ تعالیٰ نے روشنی کہا ہے ۔
سورۃ المائدہ 5۔تم پر حرام کیا گیا مردار ، خون ، سور کا گوشت ، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو ،وہ جو گلا گھٹ کر ،یا چوٹ کھا کر ، یا بلندی سے گر کر ، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو ۔سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پا کر ذبح کرلیا اور وہ جو کسی آستانے پر ذبح کیا گیا ہو ۔ نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو۔ یہ سب افعال فسق ہیں۔ آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو ۔آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں ان کی پابندی کرو ) البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر ان میں سے کوئی چیز کھا لے ، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بے شک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(3)
٭٭٭٭
حج اکبر( حجۃ الوداع ) والے دن جبکہ یہ آیت اتری سورۃ المائدہ 3۔تو حضرت عمر رونے لگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سبب دریافت فرمایا تو جواب دیا کہ ہم دین کی تعمیل میں کچھ زیادہ ہی تھے ، اب وہ کامل ہو گیا اور دستور یہ ہے کہ کمال کے بعد نقصان شروع ہو جاتا ہے ، آپ نے فرمایا سچ ہے ، اسی معنی کی شہادت اس ثابت شدہ حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ اسلام غربت اور انجان پن سے شروع ہوا اور عنقریب پھر غریب انجان ہو جائیگا ، پس غرباء کیلئے خوشخبری ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک یہودی نے حضرت فاروق اعظم سے کہا تم جو اس آیت ( ۭ اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا) 5۔ المائدہ:3) کو پڑھتے ہو اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منا لیتے ''حضرت عمر نے فرمایا واللہ مجھے علم ہے کہ آیت کس وقت اور کس دن نازل ہوئی ، عرفے کے دن جمعہ کی شام کو نازل ہوئی ہے ، ہم سب اس وقت میدان عرفہ میں تھے ، تمام سیرت والے اس بات پر متفق ہیں کہ حجتہ الوادع والے سال عرفے کا دن جمعہ کو تھا ،
٭٭٭٭
خطبہ یومِ عرفہ کی روایات درج ذیل ہیں:
٭ امام بیہقی مسور بن مخرمہ سے روایت لائے ہیں کہ رسول اللہا نے عرفات میں حمدوثنا کے بعد خطاب فرمایا۔ (بیہقی ۵؍۱۲۵)
٭ حضرت جابر نبی کریمﷺ کا حج بیان کرتے ہوئے خطبہ حجۃ الوداع کے متعلق بیان کرتے ہیں:

فأتى بطن الوادي، فخطب الناس وقال: إن دماءکم وأموالکم حرام علیکم، کحرمة یومکم هذا في شهرکم هذا في بلدکم هذا، ألا کل شیئ من أمر الجاهلیة تحت قدمي موضوع، ودماء الجاهلیة موضوعة وإن أول دم أضع من دمائنا دم ابن ربیعة بن الحارث، کان مسترضعا في بنی سعد فقتله هزیل، وربا الجاهلیة موضوع، و أوّل ربا أضع ربانا، ربا عباس بن عبد المطلب، فإنه موضوع کله فاتقوا الله في النساء فإنکم أخذتموهن بأمان الله، واستحللتم فروجهن بکلمة الله، ولکم علیهن أن لا یوطئن فروشکم أحداً تکرهونه، فإن فعلن ذلك فاضربوهن ضربًا غیر مبرح، ولهن علیکم رزقهن وکسوتهن بالمعروف، وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعده إن اعتصتم به: کتاب الله، وأنتم تُسألون عني، فما أنتم قائلون؟ قالوا: نشهد أنك قد بلغت وأدّیت ونصحت،فقال بإصبعه السبابة، یرفعها إلى السماء وینکتها إلى الناس: اللهم! اشهد، اللهم! اشهد ثلاث مرات (صحیح مسلم :۲۹۴۱، صحیح سنن ابی داود للالبانی :۱۹۰۵، ابن ماجہ :۱۸۵۰، الفتح الربانی :۲۱؍۵۸۸)
’’نبیﷺ کریم بطن الوادی میں آئے اور لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا: تمہارا خون اور تمہارا مال ایک دوسرے پر اسی طرح ہے جس طرح تمہارے آج کے دن کی، رواں مہینے کی اور موجودہ شہر کی حرمت ہے۔ سن لو! جاہلیت کی ہر چیز میرے پاؤں تلے روند دی گئی۔ جاہلیت کے خون بھی ختم کردیئے گئے اور ہمارے خون میں سب سے پہلا خون جسے میں ختم کررہا ہوں وہ ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ یہ بچہ بنو سعد میں دودھ پی رہا تھا کہ انہی ایام میں قبیلہ ہزیل نے اسے قتل کردیا اور جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔
ہاں! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امانت کے ساتھ لیا ہے اور اللہ کے کلمے کے ذریعے حلال کیا ہے۔ ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جو تمہیں گوارا نہیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں مار سکتے ہو لیکن سخت مار نہ مارنا، اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم انہیں معروف کے ساتھ کھلاؤ اور پہناؤ اور میں تم میں ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا تو اس کے بعد ہرگز گمراہ نہ ہوگے اور وہ ہے اللہ کی کتاب اور تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے تو تم لوگ کیا کہو گے؟ صحابہ نے کہا: ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ نے تبلیغ کردی، پیغام پہنچا دیا اور خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔
یہ سن کر آپﷺ نے انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا: اے اللہ گواہ رہ۔‘‘
(الرحیق المختوم: ص ۷۳۳)
٭٭٭٭
سنن ابن ماجہ۔كتاب المناسك۔حج و عمرہ کے احکام و مسائل​
باب : الخطبة يوم النحر
باب: یوم النحر کے خطبہ کا بیان۔

حدیث نمبر: 3058
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال حج کیا دسویں ذی الحجہ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”آج کون سا دن ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ یوم النحر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا شہر ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ اللہ کا حرمت والا شہر ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون سا مہینہ ہے“؟ لوگوں نے عرض کیا: یہ اللہ کا حرمت والا مہینہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حج اکبر کا دن ہے، اور تمہارے خون، تمہارے مال، تمہاری عزت و آبرو اسی طرح تم پر حرام ہیں جیسے اس شہر کی حرمت اس مہینے اور اس دن میں ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں نے (اللہ کے احکام تم کو) پہنچا دئیے ہیں“؟ لوگوں نے عرض کیا: جی ہاں، (آپ نے پہنچا دئیے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے: ”اے اللہ! تو گواہ رہ“، اس کے بعد لوگوں کو رخصت کیا، تو لوگوں نے کہا: یہ حجۃ الوداع یعنی الوداعی حج ہے ۱؎۔
٭٭٭٭
جب جب نبی کریم ﷺ سے سوال کیا جاتا جواب میں ایک آیت ہی نازل ہوتی نبی کا تعارف اس قرآن نے کروایا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نبی ہوں ،میں پیغمبر ہوں کس بات نے تصدیق کی کہ یہ نبی ہیں اور اللہ کے نیک انسان ،بندے ہیں۔اس قرآن نے اور اس قرآن کو سب نے جھٹلایا جیسے آپ بحث پربحث کرتے چلے جا رہے ہیں کہ واضح صاف صاف نام کے ساتھ کہیں دیکھائیں اور پھر یہ بھی کہ اللہ کے کلمات ہوں کہ قرآن آج مکمل ہو گیا ہے جیسے کہ ہمارے پا س ایک حدیث ہے جو نبی کریم ﷺ نے آخری جمعہ میں ختاب کیا تھا۔ آج تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا گیا ہے۔

٭صرف اہلِ کتاب نہیں یہاں تو اکثر علمائ اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کا مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے بھی ہیں۔

سورۃ الانعام 6۔ان سے پوچھو ، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟ ۔کہو ، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے ، اور یہ قرآن میری طرف بذریعۂ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے ، سب کو متنبہ کر دوں ۔ کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں؟ کہو ، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا کہو ، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اُس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔(19)

یعنی اس آیت پر غور کریں تو اللہ کفار سے مخاطب ہے لیکن نازل کیا کر رہا ۔۔۔قرآن کی آیت جیسے آپ کہتے کہ ثابت کر کہ یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے٭پھر آپ کہتے ہیں کہ اس کو پڑھ کر اور باقی کتابوں کو پڑھ کر مجھے سب ایک جیسی لگتی ہیں٭پھر کہتے ہیں نبی کریم ﷺ کا نام واضح اس میں درج کیا ہوا دیکھائو کہ کس نبی پر یہ نازل ہوا٭پھرکہتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم ﷺ کے آخری ایام میں آکر جو قرآن سنا گیا دو بار اس کی وجہ میں نے قیاس کی تھا کہ غلطی اور قرآن کی آیات کو اور زیادہ پختہ کرنے کے لئے آئے تھے ۔ اب آپ کہتے ہیں ان الفاظ کو یہاں اس قرآن مجید میں دیکھائو۔۔واہ
جب بھی آپ پوائنٹ سے ہٹ کر بات کریں گے تو جواب میں یہی کہوں گا کہ آپ سے صریح اور واضح آیت یا حدیث مانگی ہے۔ اگر ہے تو پیش کریں ورنہ واضح الفاظ میں کہیں کہ یہ بات صریح طور پر موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد آپ کے قیاس پر بات کریں گے۔
فیضان بھائی! آپ کو خلط مبحث یعنی مکس کھچڑی پکانے نہیں دوں گا۔


وَاَنِ احْكُمْ بَيْنَـهُـمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ وَلَا تَتَّبِــعْ اَهْوَآءَهُـمْ وَاحْذَرْهُـمْ اَنْ يَّفْتِنُـوْكَ عَنْ بَعْضِ مَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ اِلَيْكَ۔ (المائدہ ۵ ۔ آیت ۴۹)
’’اور یہ کہ تو ان لوگوں میں اس کے موافق حکم کر جو اللہ نے اتارا ہے اور ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کر اور ان سے بچتا رہ کہ تجھے کسی ایسے حکم سے بہکا نہ دیں جو اللہ نے تجھ پر اتارا ہے‘‘۔ نبی کریمؐ کو قرآن کریم نے حکم دیا کہ لوگوں کے معاملات کو وحی کے مطابق طے کیجیے اور وحی کے مقابلے میں ان کی خواہشات کی طرف مت دیکھیے۔ مطلق خواہشات کی نفی نہیں ہے بلکہ ایسی خواہشات کی نفی ہے جو وحی یعنی اللہ کے نازل کردہ احکامات و ہدایات کے مقابلے پر آئیں۔ آج 2017 میں وحی لاریب پہلے درجہ پر آتی ہے یعنی قرآن مجید اور اس کے بعد وہ وحی جو قرآن مجید میں درج نہیں ہوئی لیکن اس کے بغیر ہمارا دین مکمل نہیں اب یہ والی وحی حق اور باطل اس میں مکس تھی اس کو نکالا گیا اب یہاں آپ بتائیں کہ ایک محدیث یا ایک مولانا صاحب نے کہہ دیا کہ فلاں حدیث درست ہے اور گواہی بھی دی اسی حدیث کو دوسری فرقہ گواہی کے ساتھ رد بھی کر دیتا ہے ۔۔۔۔اب ہم کیا کریں؟

میرے علم کے مطابق جس علم میں بات میں شک پڑھ جائے اسے چھوڑ دینا ہی بہتر ہوتا ہے ۔
شکریہ۔
پہلے بھی آپ کو بتایا تھا کہ قرآن کریم کی بھی ایسی آیات موجود ہیں جنہیں قرآن کریم میں شامل نہیں کیا گیا۔ لیکن آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نبی کریم ﷺ کے دور سے ایک کتاب کی شکل میں مرتب تھا اور اس کی تصحیح جبریلؑ کے سامنے کی گئی تھی تو ہم بھی پہلے اس پر بحث کر رہے ہیں اور آپ سے آیت یا حدیث مانگ رہے ہیں۔
آپ کو اپنا قیاس پیش کرنے کا بھی موقع دیں گے تاکہ آپ کا یہ شوق بھی پورا ہو جائے لیکن اس وقت جب آپ تسلیم کر لیں گے کہ آپ کے پاس واضح اور صریح آیت یا حدیث موجود نہیں ہے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
فیضان بھائی! آپ کو خلط مبحث یعنی مکس کھچڑی پکانے نہیں دوں گا۔
یعنی میں نے جو کچھ دلیل میں دیا سب بکواس ہے!یعنی میں نے جو کچھ دلیل میں پیش کیا جناب عالم صاحب کے سامنے وہ سب بے تکی صرف باتیں ہیں! اور میں مکس کھچڑی پکا رہا۔ ۔ ۔ واہ

پہلے بھی آپ کو بتایا تھا کہ قرآن کریم کی بھی ایسی آیات موجود ہیں جنہیں قرآن کریم میں شامل نہیں کیا گیا۔
اس کی دلیل ہے آپ کے پاس جو کچھ آپ کہہ رہے جناب۔!
لیکن آپ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نبی کریم ﷺ کے دور سے ایک کتاب کی شکل میں مرتب تھا اور اس کی تصحیح جبریلؑ کے سامنے کی گئی تھی تو ہم بھی پہلے اس پر بحث کر رہے ہیں اور آپ سے آیت یا حدیث مانگ رہے ہیں۔
میں جناب کو تمام دلائل دے چکا ہوں قرآن مجید سے بھی اور احادیث مبارکہ سے بھی شکریہ۔

وفات سے پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مکمل قران مجید کا لکھا ہوا ہونا۔
امام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔

٭لیکن مکمل ایک جگہ پر موجود تھا۔

امام ابوبکر بن ابی عاصم نے کہا : یہ حدیث ان احادیث میں سے ہے جن سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ قرآن مجید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں مصاحف میں جمع ہو چکا تھا ۔
(الاحاد والمشانی ج 3 ص 191۔ رقم الحدیث : 1528، المعجم الکبیرج 9 ص 53۔ رقم الحدیث : 8393۔ ج 9 ص 40۔ رقم الحدیث : 8356، حافظ الہیشمی نے کہا : اس حدیث کے تمام رجال صحیح کے رجال ہیں ماسوا عباد کے اس کی بھی توثیق کی گئی ہے ، مجمع الزوائد ج 9 ص 371)
امام ابو عاصم نے کہا : درج ذیل حدیث سے بھی اس پر استدلال کیا جاتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں قرآن مجید مصاحف میں جمع ہو چکا تھا ۔
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مصاحفکو لے کر دشمن کی زمین کی طرف سفر نہ کرو ۔
یہ حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ قرآن مجید مصاحف میں لکھ کر جمع کیا جا چکا تھا ۔ (الاحادوالمثانی ج 3 ص 191، صحیح البخاری رقم الحدیث : 2990، صحیح مسلم رقم الحدیث : 1829، سنن ابودائود رقم الحدیث : 2610، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 2879)


سورۃ الفرقان 25۔کبھی تم نے اُس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟ کیا تم ایسے شخص کو راہ راست پر لانے کا ذمہ لے سکتے ہو؟ (43)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم!
میں نے کب کہا میرے بھائی کہ میری لکھی ہوئی کتاب ایک کشادہ صفحے ہیں۔۔۔۔۔۔۔میرے بھائی اللہ کی کتاب کا ایک صفحہ بلکہ ایک لائن بلکہ ایک ایک لفظ کشادگی کے ساتھ علم سے بھرپور ہے آپ مانیں یا نہ مانیں۔
یہ اللہ کی کتاب ہے جو کشادہ اوراق پر مشتمل ہے صرف یہی کتاب نہیں بلکہ آدم علیہ السلام سے لے کر نبی کریم ﷺ جو ہمارے آخری اللہ کے پیغمبر ہیں ان تک جو جو کتاب ناز ل ہوئی تمام کی تمام کشادہ اوراق پر ہی تھی یعنی کشادہ علم ،اندھیرے سے نکالنے والی اندھیرے سے مراد یہ رات والا اندھیرا نہیں بلکہ کم عقلی،کم فہم،بے دینی،غلط کاموں،اپنے آباواجداد کے گھڑے ہوئے عقیدے ،یعنی دین اسلام کے مخالف ایمان،رکھنے کو اندھیرا کہا گیا ۔اسی طرح ان تمام کتابوں کے اوراق بھی کشادہ علم والے ہی تھے ۔
یعنی کشادہ ورق سے مراد کشادہ علم ہے؟ اب میں اس پر پھر دلیل کے طور پر آیت یا حدیث مانگوں گا تو آپ کو اچھا نہیں لگے گا۔ لیکن کیا کریں مجبوری ہے۔

٭میرا موقف یہ ہے دوبارہ سنیں ۔
قرآن نبی کریم ﷺ کی زندگی میں مکمل ہوا دین ہمارا کامل ہوا پختہ ہوا نبی کریم ﷺ کی زندگی میں قرآن کے سوا کچھ اور نہیں لکھا جاتا رہا۔جو کہ قرآن کی شکل میں ہمارے سامنے آیا۔
ایک اور وحی تھی جو قرآن میں درج نہیں کی گئی وہ ہے حدیث اب وہ بھی اللہ کی طرف سے ہی ہے لیکن یہاں قرآن اور اس وحی کے ساتھ یہ مسئلہ پیش آگیا کہ قرآن مکمل تھا لکھا جا چکا ایک جلد میں بھی مرتب کر دیا گیا لیکن وحی جو قرآن کے علاوہ تھی وہ نبی کریم ﷺ کے کئی سال گزر جانے کے بعد تلاش کی گئی قرآن مجید کو تلاش نہیں کیا گیا ۔ وحی جو قرآن میں درج نہیں کی گئی تھی اس میں اسلام کے دشمنوں نے باطل بھی ملا ئ دیا لیکن قرآن مجید مکمل کتاب کی شکل میں مرتب تھی اس لئے قرآن کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ۔ پھر قرآن کی حفاظت اللہ نے لئ اب۔۔۔۔۔
٭٭میرا موقف ۔
قرآن سے پہلا فیصلہ لیا جائے کیونکہ یہ دین کا اہم ستون ہے جس پر نبی کریم بھی پہلے ایمان لائے۔
٭٭٭٭٭
ابو موسیٰ مالک بن عبادۃ الغافقی رضی اللہ عنہ: ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قام خطیبا فی حجۃ الوداع فقال علیکم بالقرآن وسترجعون الی اقوام یشتہون الحدیث عنی فمن عقل عنی شیئا فلیحدث بہ ومن قال علی ما لم اقل فلیتبوا مقعدہ جہنم۔
(الآحاد والمثانی، ۲۶۲۶۔ مسند احمد، ۱۸۱۸۲۔ المحدث الفاصل، ۱/۱۷۲)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ تم قرآن کو لازم پکڑے رکھنا، اور تم لوٹ کر ایسے لوگوں کے پاس جاؤ گے جو میری باتیں سننے کے خواہش مند ہوں گے، پس جس نے میری کوئی بات اچھی طرح سمجھ کر یاد کی ہو، وہ اس کو بیان کر دے، اور جس نے میری طرف ایسی بات کی نسبت کی جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔‘‘
نوٹ۔
واضح صاف ہے کہ نبی کریم ﷺ کو اندیشاہ تھا اور لوگوں کی خواہش باطل یہ بھی تھی کہ قرآن مجید میں کسی طرح ہم اپنی طرف سے کوئی بات درج کروا دیں یا کر دیں جو بوری طرح نکام رہی لیکن احادیث کے مقابل وہ اپنے باطل عقائد ان احادیث کے ساتھ درج کوگئے آپ خود مختلف فرقوں کا مشاہدہ کر کے دیکھ لیں میں نے یہ حق بات کی ہے آپ کو منقولی مثال خود مل جائے گی یہ سبز پگڑیوں والے دجال کیسے نبی کریم ﷺ کا نام لے کر روایات پڑھتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں مشاہدہ کر کے دیکھ لیں ۔
٭٭٭٭٭
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ: وقد ترکت فیکم ما لن تضلوا بعدہ ان اعتصمتم بہ کتاب اللہ۔
(مسلم، ۲۱۳۷)
’’میں تم میں وہ چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں جس کو تھامے رکھنے کی صورت میں تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے، یعنی اللہ کی کتاب۔‘‘
(عبد اللہ ابن عمر (مسند الرویانی، ۱۴۱۶))
بے شک قرآن مجید میں مختلف الفاظ ہیں کون سا کہاں آئے ہمارے علمائ نے بہت کوشش کو بہت محنت کی لیکن میرے بھائی ان تراجم میں ابھی بھی کمی ہے ۔آپ مانیں یا نہ مانیں۔اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہمیں دوبارہ قرآن مجیدکی طرف رجوع کرنا ہو گا ۔آپ مانیں یا نہ مانیں یہ حقیقت ہے ۔اس قرآن سے مفہوم اور متن کو دیکھنا ہوگا اور واقع ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کے تاجم میں کمی ہے کسی ایک بہت بڑے عالم نے ترجمہ کر دیا اس کے پیچھے سب نے مکھی پر مکھی ماری۔۔۔۔۔جبکہ یہ قرآن مجید کے ساتھ بھی اور انسان اپنے ساتھ بھی ظلم کر رہا ہے۔
٭٭٭میرا موقف۔
میں آپ کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چہتا ہوں اجازت ہو تو کچھ نکات صرف تحقیق کے لئے کہ آپ خود غور وفکر کریں یہ دین کا معاملہ ہے ہم اپنے آباوجداد کو بچانے کے لئے حق تسلیم نہیں کرتے ۔حق جانتے ہوئے بھی حق کے اوپر تنقید کر دیتے ہیں یہ علمائ کا ایک وتیرا ہےجو یہ آپ اپنے اوپر ظلم کر لیتے ہیں۔
٭٭٭٭میرا موقف۔
جس جس بات کا واضح ،وضاحت کے ساتھ ،تشریح کے ساتھ قرآن جواب دے تو ہم احادیث کی کتابوں کو قرآن پر حاکم تسلیم کر کے ان کا معنی و مفہوم کیوں بدل ڈالتے ہیں جبکہ ہم قرآن کی مختلف آیات سے استدال کرتے ہوئے مراد اصلی لے سکتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ مراد اصلی کوئی نہیں جانتا اب یہ قرآن لاریب تبدیلی سے پاک ہے اس لئے مراد اصلی اسی میں ہے۔
٭٭٭٭٭میرا موقف۔
عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ: یا ایہا الناس انی قد ترکت فیکم ما ان اعتصمتم بہ فلن تضلوا ابدا کتاب اللہ وسنۃ نبیہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(مستدرک حاکم، ۳۱۸)
’’اے لوگو! میں تم میں وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ جب تک تم ان کا دامن تھامے رکھو گے، کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘
(ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۶/۱۰)
جو بات قرآن میں وضاحت کے ساتھ ،تشریح کے ساتھ نہیں ہمیں ضرور چاہئے کہ احادیث مبارکہ کی طرف رجوع کریں اور ان کی تحقیق ساتھ رکھیں تاکہ گمراہی سے بچ سکیں۔
٭٭٭٭٭میرا موقف۔
میرے پیارے اشماریہ صاحب ۔۔۔
آپ نے مجھ سے بات کرنے کے لئے جو اپنے اعتراضات قرآن پر کئے تھے میرے بھائی یہ آپ کی کم علمی ہے۔پھر آپ نے کہہ دیا کہ قرآن کو پڑھ کر اور عام کتاب پڑھ کر مجھے تو ایک جیسی لگتی ہے اگر آپ دین دار نہ ہوں تو میرے بھائی یہ بھی آپ کی بات غلط ہے جو اس کتاب کو واقع ہدایت کے لئے پڑھتا ہے وہ کبھی ایسی بات نہیں کرسکتا اگر آپ اس کتاب قرآن کی شان سے واقف نہیں تو میرا کوئی قصور نہیں مجھے معاف فرمائیں اللہ تعالیٰ سے خالص ہو کر مدد طلب کریں۔
قرآن مجید خود سب کو مشاہدہ کرنے کا فرماتا ہے ۔غور و فکر تو کریں اس قرآن مجید پر۔۔پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
آپ کا موقف مجھے معلوم ہو گیا۔ میں نے آپ کو یہ موقف رکھنے سے منع تو نہیں کیا میرے پیارے فیضان صاحب۔ ہمارا تو روز واسطہ ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جو کسی نہ کسی معاملے میں ساری دنیا کے اور چودہ سو سالوں کے سب مسلمانوں کو جاہل کہہ کر اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک آپ بھی سہی۔ اس کا تو حل صرف اسلامی حکومت کا ڈنڈا ہے۔ بہر حال۔ ہم بات یہ کر رہے ہیں کہ آپ کا موقف صحیح "نہیں" ہے۔ فی الحال اس کے ایک جزو پر بات ہو رہی ہے اور باقی اجزاء آگے آئیں گے۔
آپ کے موقف کے صحیح "نہیں" ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنے موقف کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے اور ہمارے پاس آپ کے خلاف دلائل موجود ہیں جو فی الحال آپ کی دلیل کے انتظار میں پیش نہیں کر رہے۔

میں جناب کو تمام دلائل دے چکا ہوں قرآن مجید سے بھی اور احادیث مبارکہ سے بھی شکریہ۔
سب میں آپ کی سوچ اور آپ کے قیاس کا "مبارک پیوند" لگا ہوا ہے۔ کوئی ایک بھی واضح اور صریح نہیں ہے۔
مجھے اس سے بھی انکار نہیں ہے کہ آپ قیاس کریں۔ ضرور کریں اور اللہ نے چاہا تو میں اس کا بطلان بھی واضح کروں گا۔ لیکن پہلے یہ تو مانیں کہ صریح آیت یا حدیث موجود نہیں ہے اس لیے عقلی توجیہات اور قیاسات کر رہا ہوں۔
اور اگر نہیں مانتے تو صریح آیت اور حدیث پیش فرمائیں۔

فات سے پہلے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مکمل قران مجید کا لکھا ہوا ہونا۔
امام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔
اب تک کی ساری گفتگو میں شاید آپ نے موضوع سے متعلق پہلی یا دوسری بات کی ہے۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دیں۔
میرے بھائی یہی تو ہم بھی کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں قرآن کریم کو
لکھا جاتا تھا، جمع کیا جاتا تھا اور جب لوگ مانگتے تھے تو انہیں دے دیا جاتا تھا۔ یہ ایک کتاب کی شکل میں نہ تو مرتب ہوتا تھا اور نہ ہو سکتا تھا کیوں کہ اس میں مستقل اضافہ اور کمی اللہ پاک کے حکم سے ہو رہی تھی۔
اس روایت میں بھی یہی بات وضاحت کے ساتھ موجود ہے جسے آپ مانتے نہیں ہیں۔
ویسے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ثقیف کے وفد میں نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے تھے اور آپ ﷺ نے انہیں اس قبیلے پر امیر بنایا تھا۔ یہ واقعہ غزوہ تبوک کے بعد یعنی آٹھ یا نو ہجری کا ہے۔ تفصیل کے لیے سیرۃ ابن ہشام اور نور الیقین دیکھیے۔
دس ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر تکمیل دین والی آیت نازل ہوئی یعنی جب مصحف حضرت عثمان کو دیا گیا تب قرآن کریم کا نزول جاری تھا۔ اس وقت تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ تمام قرآن کریم ایک جگہ ایک کتاب کی شکل میں مرتب حالت میں جمع ہو جاتا۔ اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوا تھا۔

نہ ہمیں آپ سے قرآن کریم کے جمع ہونے میں اختلاف ہے اور نہ ہی ایک جگہ رکھے جانے میں۔ اور نہ ہم اس بات میں آپ سے اختلاف کرتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کی ترتیب نبی کریم ﷺ کے دور میں ہی ہو چکی تھی۔
ہمیں آپ سے صرف اس بات میں اختلاف ہے کہ جب نبی کریم ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے تو قرآن کریم اس وقت ایک جگہ پر ایک کتاب کی شکل میں جمع شدہ رکھا تھا۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد ان مختلف صحیفوں کو منگوایا گیا جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس تھے (جیسا کہ اس روایت کے مطابق ایک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ لے گئے تھے اور دوسری روایات کے مطابق ایک حضرت عائشہ رض اور ایک حضرت ابن مسعود رض کے پاس موجود تھا وغیرہ)۔ انہیں یکجا کیا گیا جس سے منسوخ آیات نکل گئیں۔ پھر ہر ہر آیت پر دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے گواہی لی گئی (جس کی بنیاد اس آیت پر تھی جس سے آپ استدلال کرنے کی کوشش کر رہے تھے)۔ یہ گواہی ظاہر ہے جھوٹ کے شبہ کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ناسخ و منسوخ معلوم کرنے کے لیے تھی۔
اس کے بعد اسے ایک کتاب کی شکل میں تحریر کر دیا گیا۔
جن آیات کو نکالا گیا ہے وہ اسی وجہ سے نکالا گیا ہے اور ان پر باقاعدہ روایات موجود ہیں۔

ویسے تو آپ پتا نہیں میری مکمل پوسٹ غور سے پڑھتے ہیں یا نہیں لیکن مہربانی فرما کر ہمارے موقف کو غور سے پڑھ لیجیے۔
آپ کے تمام موقف جو آپ نے اوپر درج کیے ہیں وہ اس کے بعد کے مرحلے سے متعلق ہیں۔ اگر آپ یہاں ہمارے اس موقف سے متفق یا غیر متفق ہیں تو اس سے آگے کی باتوں پر بہت بڑا فرق پڑتا ہے۔
اس لیے پہلے اس مرحلے کی وضاحت کر لیجیے۔
میں اپنے موقف پر دلائل دینے کا پابند ہوں اور آپ اپنے موقف پر لیکن پہلے فرق تو معلوم ہو جائے۔
 
Last edited:
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
میرے بھائی یہی تو ہم بھی کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے دور میں قرآن کریم کو لکھا جاتا تھا، جمع کیا جاتا تھا اور جب لوگ مانگتے تھے تو انہیں دے دیا جاتا تھا۔ یہ ایک کتاب کی شکل میں نہ تو مرتب ہوتا تھا اور نہ ہو سکتا تھا کیوں کہ اس میں مستقل اضافہ اور کمی اللہ پاک کے حکم سے ہو رہی تھی۔
اس روایت میں بھی یہی بات وضاحت کے ساتھ موجود ہے جسے آپ مانتے نہیں ہیں۔
السلام علیکم!
میرے پیارے بھائی! اشماریہ صاحب۔
آپ کہتے ہیں جو آیت نازل ہوتی آیت کا نسخہ جب لوگ مانگتے تھے تو انہیں دے دیا جاتا تھا۔
٭میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا جو کاتب وحی آیت لکھتے تھے وہی نسخہ دے دیا جاتا تھا یا ۔۔۔۔۔۔اس کی نکل؟۔۔۔۔۔۔٭میرا یمان ہے کہ اس کی نکل دی جاتی تھی اور کاتب وحی جو نسخہ لکھتے وہ اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے۔

٭پھر آپ کہتے ہیں کہ یہ ایک کتاب میں مرتب نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس میں مستقل اضافہ اور کمی ہوتی رہی۔۔۔۔۔۔یہ اضافہ اور کمی دین کامل ہونے سے پہلے تھی یا بعد میں بھی ہوتی رہی یعنی آخری خطبے میں اللہ کا فرمان نازل ہوا جو نبی کریم ﷺ کی زبان مبارک سے کہلوایا تھا۔۔۔
آج تمہارے لئے تمہارا دین کامل ہوگیا مکمل ہوگا۔۔۔۔کیا اس وقت تک قرآن سے منسوخ آیات نہیں نکال لی گئیں تھیں؟اگر نہیں تو اس کی دلیل؟

٭ میرا ایمان ہے کہ آیات کے منسوخ ہوتے ہی وہ آیت نکال لی جاتی رہی دین کامل ،پختہ،مکمل ،کس کا نام ہے ؟ صاف سی بات ہے کہ قرآن مجید مکمل ہر لحاظ سے آخری جمعہ مبارک پر خطبہ اس بات کی دلیل ہے ۔ اور یہ جو روایات میں نے کوڈ کی یہ بھی یہی بتا رہی ہے بے شک قرآن الگ الگ تھا جبکہ یہ واقع دین کامل ہونے سے پہلے کا ہے نہ کہ آخری جمعہ مبارک کا لیکن تھا تو ایک ہی جگہ پر نا۔۔۔
ویسے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ ثقیف کے وفد میں نبی کریم ﷺ کے پاس تشریف لائے تھے اور آپ ﷺ نے انہیں اس قبیلے پر امیر بنایا تھا۔ یہ واقعہ غزوہ تبوک کے بعد یعنی آٹھ یا نو ہجری کا ہے۔ تفصیل کے لیے سیرۃ ابن ہشام اور نور الیقین دیکھیے۔
دس ہجری میں حجۃ الوداع کے موقع پر تکمیل دین والی آیت نازل ہوئی یعنی جب مصحف حضرت عثمان کو دیا گیا تب قرآن کریم کا نزول جاری تھا۔ اس وقت تو یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ تمام قرآن کریم ایک جگہ ایک کتاب کی شکل میں مرتب حالت میں جمع ہو جاتا۔ اس وقت تک مکمل ہی نہیں ہوا تھا۔


٭نوٹ۔ لیکن تھے تو ایک ہی جگہ۔
٭پھر کیا یہ واقع جو روایت میں ہے یہ آخری جمعہ مبارک کا ہے؟ آپ بھی گواہ ہیں کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی تفصیل بھی دے دی مہربانی آپ کی شکریہ اب آپ خود بتائیں کہ جب تکمیل ہو گئی تو کیا تکمیل اس کو کہتے ہیں منسوخ آیات بھی قرآن میں درج ہوں۔۔۔بلکہ ان کو نکالا گیا نبی کریم ﷺ کی ہی نگرانی میں ساتھ ساتھ ۔
آخری جمعہ مبارک تک دین مکمل ہو گیا،تکمیل کے مراحل مکمل،ہر آیت پختہ اب قیامت کے دن تک کوئی اس میں تبدیلی نہیں۔پھر بھی قرآن کی جلد بندی نہیں دی گئی حیرت ہے میرے بھائی۔۔۔۔


امام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرا یمان ہے کہ اس کی نکل دی جاتی تھی اور کاتب وحی جو نسخہ لکھتے وہ اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے۔
یہ آپ کا ایمان ہے دلیل نہیں۔ اس پر کوئی دلیل دیجیے۔

کیا اس وقت تک قرآن سے منسوخ آیات نہیں نکال لی گئیں تھیں؟اگر نہیں تو اس کی دلیل؟
جو نسخے نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے تھے وہ آپ ﷺ دے دیا کرتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔ اگلے نسخے میں منسوخ آیات یقیناً نکال دی جاتی ہوں گی لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور دلیل کسی نئی چیز کو ثابت کرنے کے لیے دی جاتی ہے نہ کہ اس کی نفی کرنے کے لیے۔ آپ مجھ سے، معذرت کے ساتھ، نفی پر دلیل مانگ رہے ہیں۔
بہرحال جب نبی کریم ﷺ کی رحلت ہوئی تو اس وقت ایک ایسے نسخے کی موجودگی، جو کہ تمام منسوخ آیات سے خالی ہو اور ایک مکمل کتاب کی شکل میں مرتب ہو، پرکوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی پر آپ سے آیت یا حدیث کا مطالبہ کیا تھا جو آپ نے اب تک نہیں دی۔
نیز آپ سے عرض کیا تھا کہ ہمارے موقف میں جتنی بات سے آپ کو اتفاق ہو وہ بتا دیجیے۔
 
Top