• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن لاریب ہے!! حدیث کی طرف پھر رجوع کیوں؟

شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
السلام علیکم!
بڑی بات ہے کبھی تو جواب دینا سیکھیں جب جب سوال کرتا ہوں صرف آپ سے سوال ہی ملتا ہے میں بھی ہوں جواب پر جواب دیتا رہتا ہوں جناب عالی کو۔جناب آپ نے کہا تھا کہ۔

میرے پیارے بھائی! اشماریہ صاحب۔
اشماریہ صاحب کہتے ہیں۔ جو آیت نازل ہوتی آیت کا نسخہ جب لوگ مانگتے تھے تو انہیں دے دیا جاتا تھا۔
٭میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا جو کاتب وحی آیت لکھتے تھے وہی نسخہ دے دیا جاتا تھا یا ۔۔۔۔۔۔اس کی نکل؟

آپ اس بات کا جواب دیں دلیل کے ساتھ کہ جو کاتب وحی آیت نازل ہونے پر لکھتے تھے وہ میٹھائی کی طرح( آیت کا نسخہ دے دیا جاتا تھا!) بانٹ(لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے؟!!) یعنی وہ الو بالو چیز ونڈی دی لئی جائو۔۔۔۔کرتے تھے۔۔۔ اچمبہ کی بات ہے



یہ آپ کا ایمان ہے دلیل نہیں۔ اس پر کوئی دلیل دیجیے۔
یہ لیں میری دلیل۔
سورۃ الفرقان 25آیت نمبر
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا

کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)

بہرحال جب نبی کریم ﷺ کی رحلت ہوئی تو اس وقت ایک ایسے نسخے کی موجودگی، جو کہ تمام منسوخ آیات سے خالی ہو اور ایک مکمل کتاب کی شکل میں مرتب ہو، پرکوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی پر آپ سے آیت یا حدیث کا مطالبہ کیا تھا جو آپ نے اب تک نہیں دی۔
نیز آپ سے عرض کیا تھا کہ ہمارے موقف میں جتنی بات سے آپ کو اتفاق ہو وہ بتا دیجیے۔
٭ابھی تک آپ کو یہی نہیں معلوم کہ میں آپ کے کس بات سے اتفاق کرتا ہوں اور کس سے نہیں۔

آپ کی غلط فہمی کہ میں نے آپ کو ابھی تک جواب نہیں دیا اور آپ کی خوش فہمی بھی جبکہ میں جواب بہت واضح دے چکا ہوں۔مختلف آیات سے آپ کو سمجھایا اور ساتھ احادیث سے بھی لیکن آپ کے سامنے سب کچھ چھان بورا ہے ۔لیکن میرے لئے پختہ دلیل ہے ۔

جو نسخے نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے تھے وہ آپ ﷺ دے دیا کرتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔ اگلے نسخے میں منسوخ آیات یقیناً نکال دی جاتی ہوں گی لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور دلیل کسی نئی چیز کو ثابت کرنے کے لیے دی جاتی ہے نہ کہ اس کی نفی کرنے کے لیے۔ آپ مجھ سے، معذرت کے ساتھ، نفی پر دلیل مانگ رہے ہیں۔
میرے بھائی میں کسی بھی معاملے میں دلیل مانگوں چاہے مثبت ہو،منفی ہو،تقسیم ہو ،ضرب ہو،لیکن آپ کو دلیل دینی پڑے گی ۔۔۔۔یہ آپ کا قیاس ہے جو آپ نے اتنی آسانی سے فرما دیا ہے ۔

آپ جناب اشماریہ صاحب کا فرمان ہے کہ۔
جو نسخے نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے تھے وہ آپ ﷺ دے دیا کرتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے

استغفراللہ ۔۔۔۔۔تہمت بھی ایسی لگا رہے ہیں چلیں آپ کو ایک بار پھر یہ روایت دیکھا دیتا ہوں اس میں ہے کیا۔۔۔۔۔یہ وہ وحی قرآن ہے جو کاتب وحی لکھتے تھے(نبی کریم ﷺ کے پاس محفوظ حالت میں لکھا ہوا تھا ) اور ان کو ایک جگہ محفوظ رکھا گیا یہ بانٹنے کے لئے نہیں تھا بلکہ ضرورت کے وقت نبی کریم ﷺ سے مانگ لیا کرتے تھے (جیسے آج 2017 میں مسجدوں میں قرآن یا مختلف کتابیں ہوتی ہیں اور وہ قابلے واپسی ہوتی ہیں یہ مسجد کی ملکیت ہوتی ہیں )یعنی قابلے واپسی تھا ، کسی نے کچھ پڑھنا ہو اپنی درستگی کرنی ہو تلاوت کلام کے لئے کسی مہمان کی تبلیغ کے لئے اس کو قابلے واپسی دیا جاتا تھا۔۔۔الو بالو چیز ونڈی دی لئی جائو ۔۔۔۔کے لئے نہیں دیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔

امام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔

٭ضرورت کے وقت کے حساب سے مانگا گیا ۔
٭ایک جلد میں نہیں تھا مکمل لیکن ایک جگہ تھا نہ کہ لوگوں کے پاس ۔۔۔۔۔۔ایسا نہیں ہوا کہ نبی کریم ﷺ سے قرآن کا مطالبہ کیا ہو اب تلاش کرو کہاں گیا !وہ تو فلاں لے گیا !وہ فلاں آیات فلاں لے گیا !اس کے پیچھے بھاگو! اور دوسری فلاں شخص لے گیا وہ مل نہیں رہا! اب وہ آیت کہاں گئی مصحف! چلو پھر سے سارا قرآن لکھتے ہیں۔۔۔سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 282آپ کے لئے کسی وجہ سے لگائی گئی تھی جس کو آپ نے نظر انداز کردیا کہ یہ تو عام لین دین ہے بھائی یہی بتارہا یہ عام لین دین کے لکھنےکی اتنی اہمیت ہے اور قرآن کی کوئی اہمیت ہی نہیں خود مانتے ہو۔ قرآن 23 سال میں نازل ہوتا رہا،یاد بھی کروایا گیا،لکھوایا بھی گیا۔لیکن مکمل مانتے ہوئے کیوں شرم آتی ہے جناب کو ایک جگہ مرتب تھا ترتیب سے دیا گیا یہ مانتے ہوئے کیوں شرم آتی ہے۔۔جناب کو۔

سورۃ جاثیہ 45۔اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی جاتی ہیں تو اِن کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لائوہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو ۔(25)


واہ کیا بات ہے میرے بھائی کی۔۔۔۔کیا بات کرتے ہو یار کچھ تو خیال کرو۔۔۔
بنیا د ہی غلط ہو تو اس پر بلند عمارت آپ کیسے تعمیر کر سکتے ہیں۔
آپ کی بنیاد ہی جھوٹ ،تہمت،قیاس،فہم،وہم پر ہو اس کا دین کیسا ہو گا۔؟!!!!!!!؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
یہ آپ کا ایمان ہے دلیل نہیں۔ اس پر کوئی دلیل دیجیے۔


جو نسخے نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے تھے وہ آپ ﷺ دے دیا کرتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔ اگلے نسخے میں منسوخ آیات یقیناً نکال دی جاتی ہوں گی لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور دلیل کسی نئی چیز کو ثابت کرنے کے لیے دی جاتی ہے نہ کہ اس کی نفی کرنے کے لیے۔ آپ مجھ سے، معذرت کے ساتھ، نفی پر دلیل مانگ رہے ہیں۔
بہرحال جب نبی کریم ﷺ کی رحلت ہوئی تو اس وقت ایک ایسے نسخے کی موجودگی، جو کہ تمام منسوخ آیات سے خالی ہو اور ایک مکمل کتاب کی شکل میں مرتب ہو، پرکوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی پر آپ سے آیت یا حدیث کا مطالبہ کیا تھا جو آپ نے اب تک نہیں دی۔
نیز آپ سے عرض کیا تھا کہ ہمارے موقف میں جتنی بات سے آپ کو اتفاق ہو وہ بتا دیجیے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2228 حدیث مرفوع مکررات 2 متفق علیہ 2
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ وَأَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَکٍ قَالَ إِنِّي عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِذْ جَائَهَا عِرَاقِيٌّ فَقَالَ أَيُّ الْکَفَنِ خَيْرٌ قَالَتْ وَيْحَکَ وَمَا يَضُرُّکَ قَالَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَرِينِي مُصْحَفَکِ قَالَتْ لِمَ قَالَ لَعَلِّي أُوَلِّفُ الْقُرْآنَ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ يُقْرَأُ غَيْرَ مُؤَلَّفٍ قَالَتْ وَمَا يَضُرُّکَ أَيَّهُ قَرَأْتَ قَبْلُ إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْهُ سُورَةٌ مِنْ الْمُفَصَّلِ فِيهَا ذِکْرُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ حَتَّی إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَی الْإِسْلَامِ نَزَلَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَيْئٍ لَا تَشْرَبُوا الْخَمْرَ لَقَالُوا لَا نَدَعُ الْخَمْرَ أَبَدًا وَلَوْ نَزَلَ لَا تَزْنُوا لَقَالُوا لَا نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا لَقَدْ نَزَلَ بِمَکَّةَ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَجَارِيَةٌ أَلْعَبُ بَلْ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَی وَأَمَرُّ وَمَا نَزَلَتْ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَالنِّسَائِ إِلَّا وَأَنَا عِنْدَهُ قَالَ فَأَخْرَجَتْ لَهُ الْمُصْحَفَ فَأَمْلَتْ عَلَيْهِ آيَ السُّوَرِ

ابراہیم بن موسی، ہشام بن یوسف، ابن جریج، یوسف بن مالک سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے پاس تھا کہ ایک عراقی آیا اور پوچھا کون سا کفن بہتر ہے؟ انہوں نے کہا افسوس ہے تجھ پر تجھے کیا چیز تکلیف دیتی ہے اس نے کہا مجھے اپنا مصحف دکھائیے انہوں نے پوچھا کیوں؟ اس نے کہا اس لئے کہ میں قرآن کو اس کی ترتیب کے موافق کرلوں کیونکہ لوگ ترتیب کے خلاف پڑھتے ہیں انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں جو آیت بھی چاہو پہلے پڑھ لو سورت مفصل میں سب سے پہلے وہ سورت نازل ہوئی ہے جس میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے تو حلال و حرام کی آیت نازل ہوئی اگر پہلے ہی یہ آیت نازل ہو جاتی کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر یہ آیت نازل ہوتی کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے کہ ہم ہرگز زنا نہیں چھوڑیں گے اور جب میں کم سن بچی تھی اور کھیلتی تھی تو اسی زمانہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی (بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ ) 54۔ القمر : 46) اور سورت بقرہ اور سورت نساء اس وقت نازل ہوئیں جب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھی راوی کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ (رض) ان کے لئے وہ مصحف نکال لائیں اور انہوں نے ان کو سورت کی آیتیں لکھا دیں۔

٭نقل کروانے کا رواج آج 2017 میں نہیں ہے اس سے پہلے بھی تھا اس روایت کو بھی دیکھیں ۔۔۔
اور ام المومنین عائشہ (رض) زندہ ہیں اور ان کے پاس مصحف قرآن مجید بھی ہے جس سے وہ ایک شخص کو نقل کروا رہی ہیں۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
یہ آپ کا ایمان ہے دلیل نہیں۔ اس پر کوئی دلیل دیجیے۔


جو نسخے نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے تھے وہ آپ ﷺ دے دیا کرتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔ اگلے نسخے میں منسوخ آیات یقیناً نکال دی جاتی ہوں گی لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور دلیل کسی نئی چیز کو ثابت کرنے کے لیے دی جاتی ہے نہ کہ اس کی نفی کرنے کے لیے۔ آپ مجھ سے، معذرت کے ساتھ، نفی پر دلیل مانگ رہے ہیں۔
بہرحال جب نبی کریم ﷺ کی رحلت ہوئی تو اس وقت ایک ایسے نسخے کی موجودگی، جو کہ تمام منسوخ آیات سے خالی ہو اور ایک مکمل کتاب کی شکل میں مرتب ہو، پرکوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی پر آپ سے آیت یا حدیث کا مطالبہ کیا تھا جو آپ نے اب تک نہیں دی۔
نیز آپ سے عرض کیا تھا کہ ہمارے موقف میں جتنی بات سے آپ کو اتفاق ہو وہ بتا دیجیے۔
یہ آپ کا ایمان ہے دلیل نہیں۔ اس پر کوئی دلیل دیجیے۔


جو نسخے نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے تھے وہ آپ ﷺ دے دیا کرتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے۔ اگلے نسخے میں منسوخ آیات یقیناً نکال دی جاتی ہوں گی لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور دلیل کسی نئی چیز کو ثابت کرنے کے لیے دی جاتی ہے نہ کہ اس کی نفی کرنے کے لیے۔ آپ مجھ سے، معذرت کے ساتھ، نفی پر دلیل مانگ رہے ہیں۔
بہرحال جب نبی کریم ﷺ کی رحلت ہوئی تو اس وقت ایک ایسے نسخے کی موجودگی، جو کہ تمام منسوخ آیات سے خالی ہو اور ایک مکمل کتاب کی شکل میں مرتب ہو، پرکوئی دلیل نہیں ہے۔ اسی پر آپ سے آیت یا حدیث کا مطالبہ کیا تھا جو آپ نے اب تک نہیں دی۔
نیز آپ سے عرض کیا تھا کہ ہمارے موقف میں جتنی بات سے آپ کو اتفاق ہو وہ بتا دیجیے۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 105 حدیث مرفوع مکررات 22 متفق علیہ 8
عبد العزیز بن عبداللہ ، ابراہیم بن سعد زہری، صالح بن کیسان ابن شہاب، سہل بن سعد ساعدی فرماتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکیم کو مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں سامنے سے آکر اس کے پہلو میں بیٹھ گیا، اس نے مجھے سے کہا، زید بن ثابت نے اسے اطلاع دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انہیں آیت (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ) 4۔ النسآء : 95) لکھوائی تو ابن ام مکتوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مجھ سے یہی آیت لکھوا رہے تھے، ابن ام مکتوم نے کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر میں قدرت رکھتا، تو ضرور جہاد کرتا، وہ نابینا آدمی تھے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر یہ آیت نازل فرمائی، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زانو میرے زانو پر تھا اور اتنا بوجھ پڑ رہا تھا، کہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا ندیشہ ہوگیا، جب (غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ) نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ بھاری کیفیت جاتی رہی۔


صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 23 حدیث مرفوع مکررات 75 متفق علیہ 75
داؤد بن عمرو ضبی ، نافع بن عمر ، ابن ابی ملیکہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس کو لکھا کہ میرے پاس کچھ احادیث لکھوا کر پوشیدہ طور پر بھجوادو ابن عباس نے فرمایا لڑکا خیر خواہ دین ہے میں اس کے لئے احادیث کے لکھے ہوئے ذخیرہ میں سے صحیح احادیث کو منتخب کروں گا اور چھپانے کی باتیں چھپالوں گا
پھر ابن عباس نے سیدنا علی کے فیصلے منگوائے اور ان میں بعض باتیں لکھنے لگے اور بعضی باتوں کو دیکھ کر فرماتے اللہ کی قسم علی نے یہ فیصلہ نہیں کیا


اگر کیا ہے تو وہ بھٹک گئے ہیں یعنی لوگوں نے فیصلہ جات علی میں خلط ملط کردیا ہے۔



سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 1013 حدیث مرفوع مکررات 22 متفق علیہ 8
محمد بن یحیی، عبداللہ ، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، اپنے والد سے، صالح، ابن شہاب، سہل بن سعد، مروان، حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ
رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت آیت کریمہ لکھوا رہے تھے
تو حضرت ابن ام مکتوم تشریف لائے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر میں جہاد کے قابل ہوتا تو میں ضرور جہاد کرتا اس لئے کہ وہ نابینا تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے (غیر اولی الضرر) کے الفاظ نازل فرمائے اس وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ران مبارک میری ران پر تھی یہاں تک کہ ممکن تھا کہ میری ران کچل جائے اس کے بعد وحی نازل ہونا بند ہوگئی۔

٭اب آپ کہیں لکھواتے تھے لیکن محفوظ نہیں کیا جاتا تھا ۔ یاد تو کرتے تھے لکھواتے تھے لیکن میٹھائی کی طرح تقسیم کر دیتے تھے لوگوں میں۔۔۔۔واہ جناب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بڑی بات ہے کبھی تو جواب دینا سیکھیں جب جب سوال کرتا ہوں صرف آپ سے سوال ہی ملتا ہے میں بھی ہوں جواب پر جواب دیتا رہتا ہوں جناب عالی کو۔
جناب والا بات یہ ہے کہ ابھی سوال کرنے کی باری میری چل رہی ہے اس لیے سوال ہی ملتا ہے۔ آپ جب تک اپنی بات کو مدلل نہیں کریں گے صریح اور واضح دلائل کے ساتھ تب تک سوال ہی ملتا رہے گا۔ کیوں کہ مجھے علم ہے کہ اگر میں جناب والا کی باتوں کا ابھی جواب دینے لگ گیا تو آپ بات کو خلط ملط کرکے قارئین پر معاملہ مشتبہ بنا دیں گے۔ آپ یہ ظاہر کریں گے گویا کہ آپ نے ہر بات کا جواب واضح دے دیا ہے اور اب سوال کر رہے ہیں۔
میں آپ کے چکر میں آنے والا نہیں ہوں۔ پہلے میرے سوالات کا واضح اور صریح جواب دیں اس کے بعد سوال کیجیے گا۔

آپ اس بات کا جواب دیں دلیل کے ساتھ کہ جو کاتب وحی آیت نازل ہونے پر لکھتے تھے وہ میٹھائی کی طرح( آیت کا نسخہ دے دیا جاتا تھا!) بانٹ(لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے؟!!) یعنی وہ الو بالو چیز ونڈی دی لئی جائو۔۔۔۔کرتے تھے۔۔۔ اچمبہ کی بات ہے
اردو میں اسے "اچمبہ" نہیں "اچھنبا" کہتے ہیں۔ اسی طرح "میٹھائی" نہیں "مٹھائی" ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو قرآن اور حدیث کا تقابل کر رہا ہو اسے اپنی زبان تو اتنی آنی چاہیے۔ بہرحال یہ آپ کا اپنا مسئلہ ہے۔

آپ اس بات پر دلیل دیں کہ کاتب وحی ایک سے زائد نسخے لکھتے تھے تاکہ ایک دے دیا جائے تو دوسرا باقی ہو۔ جب آپ اس پر دلیل دے دیں گے تو میں بھی دے دوں گا کہ اب دیا جانے والا نسخہ وہی تھا جو کاتب وحی لکھتے تھے۔
ایک سے زیادہ نسخے ثابت ہی نہیں ہیں اور جناب والا انہیں دینے کی بات کر رہے ہیں۔ غیر موجود چیز بھی دی جاتی ہے آپ کے ہاں؟ اور اگر موجود تھی تو دلیل دیں جناب! آئیں بائیں شائیں سے گزارا نہیں ہوگا۔

یہ لیں میری دلیل۔
سورۃ الفرقان 25آیت نمبر
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)
لگتا ہے کہ جناب والا اپنے "ایمان" بھول جاتے ہیں یا پھر چینج کرتے رہتے ہیں شاید۔
جناب والا کا ایمان یہ تھا:
میرا یمان ہے کہ اس کی نکل دی جاتی تھی اور کاتب وحی جو نسخہ لکھتے وہ اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے۔
دلیل یہ آیت دی ہے:
یہ لیں میری دلیل۔
سورۃ الفرقان 25آیت نمبر
وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلٰى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا
کہتے ہیں ’’ یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنہیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اِسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘ (5)
اس میں یہ کہاں لکھا ہے کہ یہ نقل دوسروں کو دے دی جاتی ہے؟
ویسے ذرا سا عقل کو ہاتھ ماریے (اگر ہو تو)! یہ تو ہے ہی کفار کا قول جس کا اللہ پاک نے آگے رد کیا ہے:
قُلْ أَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا
آپ بھی کہیں انہی میں سے تو نہیں ہیں جو صرف ان کی بات کو دلیل بنا رہے ہیں؟

ابھی تک آپ کو یہی نہیں معلوم کہ میں آپ کے کس بات سے اتفاق کرتا ہوں اور کس سے نہیں۔
جی واقعی معلوم نہیں ہوا کیوں کہ آپ نے میری پوسٹ کا اقتباس لے کر ایسی کوئی بات نہیں بتائی ہے۔ شاید آپ اپنے ذہن میں موجود چیز کو ہمارے ذہن میں سمجھ رہے ہوتے ہیں۔

آپ کی غلط فہمی کہ میں نے آپ کو ابھی تک جواب نہیں دیا اور آپ کی خوش فہمی بھی جبکہ میں جواب بہت واضح دے چکا ہوں۔مختلف آیات سے آپ کو سمجھایا اور ساتھ احادیث سے بھی لیکن آپ کے سامنے سب کچھ چھان بورا ہے ۔لیکن میرے لئے پختہ دلیل ہے ۔
جی جی مکہ والے بھی ایسی ہی باتیں کر کے سمجھتے تھے کہ ان کے دلائل بہت مضبوط ہیں لیکن قرآن ان سے حقیقی مضبوط دلیل مانگتا تھا۔ میں بھی آپ سے حقیقی دلیل مانگ رہا ہوں۔ جب آپ صریح آیت یا حدیث پیش کریں گے تو سب کو نظر آئے گی صرف آپ کو نہیں۔


میرے بھائی میں کسی بھی معاملے میں دلیل مانگوں چاہے مثبت ہو،منفی ہو،تقسیم ہو ،ضرب ہو،لیکن آپ کو دلیل دینی پڑے گی ۔۔۔۔یہ آپ کا قیاس ہے جو آپ نے اتنی آسانی سے فرما دیا ہے ۔

آپ جناب اشماریہ صاحب کا فرمان ہے کہ۔
جو نسخے نبی کریم ﷺ کے پاس ہوتے تھے وہ آپ ﷺ دے دیا کرتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے
جناب والا! میں آپ کی روایت میں اس جگہ کو ہائیلائٹ کر رہا ہوں۔ آنکھیں کھول کر ذرا پڑھیے گا:
مام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔
یہی لکھا ہوا ہے نا میری بات میں اور آپ کی روایت میں؟؟؟

لیکن۔۔۔
یہ وہ وحی قرآن ہے جو کاتب وحی لکھتے تھے(نبی کریم ﷺ کے پاس محفوظ حالت میں لکھا ہوا تھا ) اور ان کو ایک جگہ محفوظ رکھا گیا یہ بانٹنے کے لئے نہیں تھا بلکہ ضرورت کے وقت نبی کریم ﷺ سے مانگ لیا کرتے تھے (جیسے آج 2017 میں مسجدوں میں قرآن یا مختلف کتابیں ہوتی ہیں اور وہ قابلے واپسی ہوتی ہیں یہ مسجد کی ملکیت ہوتی ہیں )یعنی قابلے واپسی تھا ، کسی نے کچھ پڑھنا ہو اپنی درستگی کرنی ہو تلاوت کلام کے لئے کسی مہمان کی تبلیغ کے لئے اس کو قابلے واپسی دیا جاتا تھا۔۔۔الو بالو چیز ونڈی دی لئی جائو ۔۔۔۔کے لئے نہیں دیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔
یہ کون سی آیت یا روایت میں لکھا ہوا ہے کہ یہ نسخے قابل واپسی ہوتے تھے؟ (وہ نہیں پیروی کرتے مگر صرف گمان کی۔ القرآن)

اور پہلے تو جناب والا کا "ایمان" تھا:
میرا یمان ہے کہ اس کی نکل دی جاتی تھی اور کاتب وحی جو نسخہ لکھتے وہ اپنے پاس محفوظ رکھتے تھے۔
اور اب:
کسی نے کچھ پڑھنا ہو اپنی درستگی کرنی ہو تلاوت کلام کے لئے کسی مہمان کی تبلیغ کے لئے اس کو قابلے واپسی دیا جاتا تھا
یہ "ایمان" میں کوئی "اپ ڈیٹنگ" ہوئی ہے یا آپ کا "ایمان" شیعوں کی طرح "تقیہ" پر بھی ہے اور اب وہی والا "ایمان" کام کرنے لگ گیا ہے؟


سورۃ جاثیہ 45۔اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی جاتی ہیں تو اِن کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لائوہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو ۔(25)
ماشاء اللہ اپنی مثال آپ نے بہت عمدہ پیش کی ہے۔ پلے کچھ ہے نہیں اور دعوے اور ایمان دیکھو! توبہ!
میں نے آپ سے "حجت" مانگی ہے۔ صریح قرآن اور حدیث! اور کہا ہے کہ آپ کے الم غلم قیاسات کا بھی آپریشن کروں گا اس کے بعد۔ جناب کا واقعی یہی حال ہے کہ بس جو میں کہہ رہا ہوں وہ مان لو ورنہ۔۔۔۔۔ ورنہ میں دوبارہ کہہ دوں گا کیوں کہ دلیل اور حجت تو ہے ہی نہیں۔

واہ کیا بات ہے میرے بھائی کی۔۔۔۔کیا بات کرتے ہو یار کچھ تو خیال کرو۔۔۔
بنیا د ہی غلط ہو تو اس پر بلند عمارت آپ کیسے تعمیر کر سکتے ہیں۔
آپ کی بنیاد ہی جھوٹ ،تہمت،قیاس،فہم،وہم پر ہو اس کا دین کیسا ہو گا۔؟!!!!!!!؟
میری بنیاد ہے قرآن اور حدیث کی واضح نصوص پر اور پھر ان کی روشنی میں کیے جانے والے قیاس پر۔
لیکن ابھی بات آپ کی بنیاد کی ہو رہی ہے جو اس قدر کمزور ہے شاید کہ اس پر بنی ہوئی "ایمان" کی عمارت بھی بدل رہی ہے۔ لاحول و لا قوۃ الا باللہ۔

حیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 2228 حدیث مرفوع مکررات 2 متفق علیہ 2
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَی أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَنَّ ابْنَ جُرَيْجٍ أَخْبَرَهُمْ قَالَ وَأَخْبَرَنِي يُوسُفُ بْنُ مَاهَکٍ قَالَ إِنِّي عِنْدَ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا إِذْ جَائَهَا عِرَاقِيٌّ فَقَالَ أَيُّ الْکَفَنِ خَيْرٌ قَالَتْ وَيْحَکَ وَمَا يَضُرُّکَ قَالَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ أَرِينِي مُصْحَفَکِ قَالَتْ لِمَ قَالَ لَعَلِّي أُوَلِّفُ الْقُرْآنَ عَلَيْهِ فَإِنَّهُ يُقْرَأُ غَيْرَ مُؤَلَّفٍ قَالَتْ وَمَا يَضُرُّکَ أَيَّهُ قَرَأْتَ قَبْلُ إِنَّمَا نَزَلَ أَوَّلَ مَا نَزَلَ مِنْهُ سُورَةٌ مِنْ الْمُفَصَّلِ فِيهَا ذِکْرُ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ حَتَّی إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَی الْإِسْلَامِ نَزَلَ الْحَلَالُ وَالْحَرَامُ وَلَوْ نَزَلَ أَوَّلَ شَيْئٍ لَا تَشْرَبُوا الْخَمْرَ لَقَالُوا لَا نَدَعُ الْخَمْرَ أَبَدًا وَلَوْ نَزَلَ لَا تَزْنُوا لَقَالُوا لَا نَدَعُ الزِّنَا أَبَدًا لَقَدْ نَزَلَ بِمَکَّةَ عَلَی مُحَمَّدٍ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنِّي لَجَارِيَةٌ أَلْعَبُ بَلْ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ أَدْهَی وَأَمَرُّ وَمَا نَزَلَتْ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَالنِّسَائِ إِلَّا وَأَنَا عِنْدَهُ قَالَ فَأَخْرَجَتْ لَهُ الْمُصْحَفَ فَأَمْلَتْ عَلَيْهِ آيَ السُّوَرِ

ابراہیم بن موسی، ہشام بن یوسف، ابن جریج، یوسف بن مالک سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں ام المومنین حضرت عائشہ (رض) کے پاس تھا کہ ایک عراقی آیا اور پوچھا کون سا کفن بہتر ہے؟ انہوں نے کہا افسوس ہے تجھ پر تجھے کیا چیز تکلیف دیتی ہے اس نے کہا مجھے اپنا مصحف دکھائیے انہوں نے پوچھا کیوں؟ اس نے کہا اس لئے کہ میں قرآن کو اس کی ترتیب کے موافق کرلوں کیونکہ لوگ ترتیب کے خلاف پڑھتے ہیں انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں جو آیت بھی چاہو پہلے پڑھ لو سورت مفصل میں سب سے پہلے وہ سورت نازل ہوئی ہے جس میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہوئے تو حلال و حرام کی آیت نازل ہوئی اگر پہلے ہی یہ آیت نازل ہو جاتی کہ شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے اور اگر یہ آیت نازل ہوتی کہ زنا نہ کرو تو لوگ کہتے کہ ہم ہرگز زنا نہیں چھوڑیں گے اور جب میں کم سن بچی تھی اور کھیلتی تھی تو اسی زمانہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل ہوئی (بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اَدْهٰى وَاَمَرُّ ) 54۔ القمر : 46) اور سورت بقرہ اور سورت نساء اس وقت نازل ہوئیں جب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھی راوی کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ (رض) ان کے لئے وہ مصحف نکال لائیں اور انہوں نے ان کو سورت کی آیتیں لکھا دیں۔

٭نقل کروانے کا رواج آج 2017 میں نہیں ہے اس سے پہلے بھی تھا اس روایت کو بھی دیکھیں ۔۔۔
اور ام المومنین عائشہ (رض) زندہ ہیں اور ان کے پاس مصحف قرآن مجید بھی ہے جس سے وہ ایک شخص کو نقل کروا رہی ہیں۔
صرف ایک لفظ اس میں یہ دکھا دیں جہاں لکھا ہو کہ یہ جمع قرآن سے پہلے کی بات ہے۔ قرآن کے جمع کا واقعہ تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہو گیا تھا اور ان کا کل دور ہی دو سال کا تھا۔

آپ مجھے اس میں ذرا یہ دکھائیے!

حیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 105 حدیث مرفوع مکررات 22 متفق علیہ 8
عبد العزیز بن عبداللہ ، ابراہیم بن سعد زہری، صالح بن کیسان ابن شہاب، سہل بن سعد ساعدی فرماتے ہیں کہ میں نے مروان بن حکیم کو مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو میں سامنے سے آکر اس کے پہلو میں بیٹھ گیا، اس نے مجھے سے کہا، زید بن ثابت نے اسے اطلاع دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب انہیں آیت (لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ) 4۔ النسآء : 95) لکھوائی تو ابن ام مکتوم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مجھ سے یہی آیت لکھوا رہے تھے، ابن ام مکتوم نے کہا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر میں قدرت رکھتا، تو ضرور جہاد کرتا، وہ نابینا آدمی تھے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر یہ آیت نازل فرمائی، اس وقت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زانو میرے زانو پر تھا اور اتنا بوجھ پڑ رہا تھا، کہ مجھے اپنی ران کے پھٹ جانے کا ندیشہ ہوگیا، جب (غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ) نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وہ بھاری کیفیت جاتی رہی۔


صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 23 حدیث مرفوع مکررات 75 متفق علیہ 75
داؤد بن عمرو ضبی ، نافع بن عمر ، ابن ابی ملیکہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس کو لکھا کہ میرے پاس کچھ احادیث لکھوا کر پوشیدہ طور پر بھجوادو ابن عباس نے فرمایا لڑکا خیر خواہ دین ہے میں اس کے لئے احادیث کے لکھے ہوئے ذخیرہ میں سے صحیح احادیث کو منتخب کروں گا اور چھپانے کی باتیں چھپالوں گا
پھر ابن عباس نے سیدنا علی کے فیصلے منگوائے اور ان میں بعض باتیں لکھنے لگے اور بعضی باتوں کو دیکھ کر فرماتے اللہ کی قسم علی نے یہ فیصلہ نہیں کیا

اگر کیا ہے تو وہ بھٹک گئے ہیں یعنی لوگوں نے فیصلہ جات علی میں خلط ملط کردیا ہے۔


سنن نسائی:جلد دوم:حدیث نمبر 1013 حدیث مرفوع مکررات 22 متفق علیہ 8
محمد بن یحیی، عبداللہ ، یعقوب بن ابراہیم بن سعد، اپنے والد سے، صالح، ابن شہاب، سہل بن سعد، مروان، حضرت زید بن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس وقت آیت کریمہ لکھوا رہے تھے تو حضرت ابن ام مکتوم تشریف لائے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اگر میں جہاد کے قابل ہوتا تو میں ضرور جہاد کرتا اس لئے کہ وہ نابینا تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے (غیر اولی الضرر) کے الفاظ نازل فرمائے اس وقت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ران مبارک میری ران پر تھی یہاں تک کہ ممکن تھا کہ میری ران کچل جائے اس کے بعد وحی نازل ہونا بند ہوگئی۔

٭اب آپ کہیں لکھواتے تھے لیکن محفوظ نہیں کیا جاتا تھا ۔ یاد تو کرتے تھے لکھواتے تھے لیکن میٹھائی کی طرح تقسیم کر دیتے تھے لوگوں میں۔۔۔۔واہ جناب
ان روایات میں کہیں لکھا ہوا ہے کہ دو لکھواتے تھے، ایک تقسیم کرنے کے لیے اور ایک سنبھال کر رکھنے کے لیے؟
یا یہ لکھا ہوا ہو کہ یہ منسوخ آیات نکال کر مرتب حالت میں نبی کریم ﷺ کی رحلت کے وقت موجود تھا؟

اگر نہیں لکھا ہوا تو پھر اسے آپ کی جہالت کہا جائے یا قیاس فاسد؟

 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
ان روایات میں کہیں لکھا ہوا ہے کہ دو لکھواتے تھے، ایک تقسیم کرنے کے لیے اور ایک سنبھال کر رکھنے کے لیے؟
یا یہ لکھا ہوا ہو کہ یہ منسوخ آیات نکال کر مرتب حالت میں نبی کریم ﷺ کی رحلت کے وقت موجود تھا؟

اگر نہیں لکھا ہوا تو پھر اسے آپ کی جہالت کہا جائے یا قیاس فاسد؟
شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہر بان نہایت رحم کرنے والا ہے ۔
السلام علیکم!
سلامتی ہو ان پر جو دماغ بھی رکھتے ہوں ۔قرآن کی شان ،قدر منزلت کو پہچانتے ہوں ۔ آیت سے سمجھایا جائے تو غور و فکر بھی کریں اپنے اردگرد کے ماحول کا مشاہدہ کریں اور اپنے ایمان کی تصدیق پہلے قرآن سے پھر احادیث مبارکہ سے لیتے ہوں۔۔۔۔
اس کو دیکھیں ۔۔۔۔
مام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔


واہ میرے پیارے بھائی۔۔۔کیا علم رکھتے ہیں آپ۔
قرآن مانگنے پر نبی کریم ﷺ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ میرے پاس تو لکھا ہوا نہیں میں نے تو وہ سب تقسیم کر دیا ہے خود تلاش کر لو۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


نبی کریم ﷺ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ فلاں آیت فلاں شخص کے پاس ہے اور وہ فلاں والی آیت جب نازل ہوئی تھی تو فلاں کو دے دی وہاں جائو اس کو میرا کہنا وہ آپ کو وہ فلاں آیت مل جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟


جتنا بھی نازل ہو چکا تھا ۔۔۔تھا تو نبی کریم ﷺ کے پاس ہی تھا یہ روایت واضح دلیل دے رہی ہے ۔۔! جناب تھا تو ایک ہی جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔یا الگ الگ لوگوں کے پاس تھا؟؟؟؟مانگنے پر کیا دیا گیا تھا آپ کا ایمان ہے نبی کریم الو بالو چیز ونڈی دی لئی جائو کر دیتے تھے تو یہ کیا دیا جا رہا ہے یہ تلاش کیوں نہیں کیا نبی نے کیوں نہیں کہا کہ میرے پاس تو نہیں جائو خود تلاش کر لو۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟لعنت ہو بے انصاف لوگوں پر اللہ کی فرشتوں کی نیک لوگوں کی ان شائ اللہ۔


لعنت ہو آپ پر اور آپ کو سپورٹ کرنے والوں پر اگر آپ بے انصافی کریں اور لعنت ہو مجھ پر اگر میں بے انصافی کروں۔ ان شائ اللہ۔

 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
مشاہدہ، مشاہدہ، مشاہدہ۔۔۔ آخر کس چیز کا مشاہدہ کروں میں؟
میں ایک جانب یہ رکھتا ہوں اور دوسری جانب جے کے رولنگ کا مشہور ناول "ہیری پوٹر" رکھتا ہوں۔ مجھے تو کچھ نہیں نظر آیا۔ یہ بھی ایک کتاب ہے اور وہ بھی ایک کتاب ہے۔
یار میرے بھائی! کوئی ایسی دلیل دیں جو آپ کسی غیر مسلم کو دیں قرآن کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے۔
جب کوئی شخص قرآن کو اللہ کی کتاب مانے گا، حضور محمد مصطفی ﷺ پر نازل شدہ مانے گا تو ہی تو وہ اسے لا ریب مانے گا نا۔
یہ کون سا اصول ہے کہ "چونکہ مجھے مشاہدے سے یہ حق لگتا ہے تو تم بھی اسے حق مانو۔" اس اصول پر کون سا غیر مسلم ایمان لائے گا؟
مجھے وہ دلیل دیں جو آپ کسی غیر مسلم کو ایسے موقع پر دیں گے۔
اور اگر ایسی کوئی دلیل پتا نہ ہو تو اپنے علماء سے پوچھ کر آئیں۔
جس انسان کو قرآن پڑھ کر اور جے کے رولنگ کا مشہور ناول ہیری پوٹر رکھتا ہے اور ان دونوں کتابوں کو پڑھ کر بھی معلوم نہیں ہوتا کہ کون سی اللہ کی کتاب ہے ۔۔ ۔۔۔وہ چلا ہے ۔۔۔۔۔۔میرے علم کا آپریشن کرنے ۔۔۔واہ۔۔۔۔۔میرے پیارے بھائی۔۔۔۔
میں ساری دلیلیں دے چکا ہوں ۔۔۔۔تقلید سے باہر نکلیں اور آنکھیں کھول کر دیکھیں تو کچھ نظر آئے نا ۔۔۔۔۔۔۔روایات پیش کی نبی کریم ﷺ کے پاس جتنا کی قرآن نازل ہوا ایک ہی جگہ تھا وہ انہوں نے دیا۔۔۔۔یہ نہیں کہا کہ میں ساتھ ساتھ مانٹتا رہا میرے ہاتھ تو خالی ہیں فلاں فلاں کے پاس جائو جو قرآن میرے پر نازل ہوتا وہ اس پوری وادی میں تقسیم کر دیا ہے ۔۔۔سب کے پاس باری باری جائو شاید تمہیں مل جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اکبر۔۔۔۔اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا ۔۔ظالم کون جو آیات سے کفر کرے اور واضح ہدایت کو جھٹلا دے ۔۔۔قرآن و حدیث سے ثابت کر چکا ہوں ۔۔۔
اگر پھر کہیں میں نہ مانوں تو نہ مانو۔۔۔۔۔۔میرا کچھ نہیں بگاڑا آپ نے اپنے آپ کو ہی تباہ کیا ۔۔۔اپنی آخرت ہی تباہ کی۔۔۔۔اور آپنے حواریوں سے بھی کہہ دو جلد حساب ہونے والا ہے سب کا۔۔۔میرا بھی اور تمہارا بھی۔ ۔ ۔

ماشاء اللہ اپنی مثال آپ نے بہت عمدہ پیش کی ہے۔ پلے کچھ ہے نہیں اور دعوے اور ایمان دیکھو! توبہ!
میں نے آپ سے "حجت" مانگی ہے۔ صریح قرآن اور حدیث! اور کہا ہے کہ آپ کے الم غلم قیاسات کا بھی آپریشن کروں گا اس کے بعد۔ جناب کا واقعی یہی حال ہے کہ بس جو میں کہہ رہا ہوں وہ مان لو ورنہ۔۔۔۔۔ ورنہ میں دوبارہ کہہ دوں گا کیوں کہ دلیل اور حجت تو ہے ہی نہیں۔
پلے کچھ ہے نہیں ۔۔۔۔۔اللہ کا شکر ہے جتنا پلے ہے اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے ۔۔۔۔۔۔کریں آپریشن ۔۔۔۔آپ پہلے اس قابل تو ہوجائیں ۔۔۔۔۔میں نے کب کہا جو میں نے کہا۔۔۔۔اپنی بغض کی عینک ،تقلید کی عینک ، سے دیکھو گے تو ایسا ہی لگے گا آپ کو کہہ میں نے کہا۔۔۔میں کون ہوتا یہ دین میرے باپ کا نہیں۔
یہ دین میرے اور آپ کے سب کے اللہ تعالیٰ کا دین ۔۔ہے اس لئے اس کو اس کے لئے خالص کر لو۔۔۔۔۔۔
قرآن کی شان ،قدرمنزلت سمجھ آتی نہیں اور بھائی چلے ہیں آپریشن کرنے۔۔۔شکریہ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
قرآن مانگنے پر نبی کریم ﷺ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ میرے پاس تو لکھا ہوا نہیں میں نے تو وہ سب تقسیم کر دیا ہے خود تلاش کر لو۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

نبی کریم ﷺ نے یہ کیوں نہیں کہا کہ وہ فلاں آیت فلاں شخص کے پاس ہے اور وہ فلاں والی آیت جب نازل ہوئی تھی تو فلاں کو دے دی وہاں جائو اس کو میرا کہنا وہ آپ کو وہ فلاں آیت مل جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
یہ روایت ہے یا آپ کے خیالات ہیں؟ آپ کے خیالات کی علمی لحاظ سے کوئی حیثیت ہے؟ یا قرآن و حدیث کے بعد یہ بھی حجت بن گئے ہیں؟

روایت میں صرف یہ ہے کہ آپ ص نے انہیں وہ مصحف دے دیا جو "آپ ص کے پاس تھا". ممکن ہے آپ دوبارہ لکھوا لیتے ہوں لیکن یہ اس روایت میں نہیں لکھا کہ آپ نے نقل دی یا دوبارہ لکھوا لیا. آپ سے آپ کے "ایمان" پر دلیل مانگی تھی آپ کے اٹکل پچو نہیں. دلیل لائیں اپنی باتیں اور خیالات نہیں.

لعنت ہو آپ پر اور آپ کو سپورٹ کرنے والوں پر اگر آپ بے انصافی کریں اور لعنت ہو مجھ پر اگر میں بے انصافی کروں۔ ان شائ اللہ
بے فکر رہیں وہ ان شاء اللہ ہو جائے گی آپ پر اگر آپ نا انصافی کر رہے ہوں گے. باقی میں تو نہیں کر رہا.

پلے کچھ ہے نہیں ۔۔۔۔۔اللہ کا شکر ہے جتنا پلے ہے اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے ۔۔۔۔۔۔کریں آپریشن ۔۔۔۔آپ پہلے اس قابل تو ہوجائیں ۔۔۔۔۔میں نے کب کہا جو میں نے کہا۔۔۔۔اپنی بغض کی عینک ،تقلید کی عینک ، سے دیکھو گے تو ایسا ہی لگے گا آپ کو کہہ میں نے کہا۔۔۔میں کون ہوتا یہ دین میرے باپ کا نہیں۔
یہ دین میرے اور آپ کے سب کے اللہ تعالیٰ کا دین ۔۔ہے اس لئے اس کو اس کے لئے خالص کر لو۔۔۔۔۔۔
قرآن کی شان ،قدرمنزلت سمجھ آتی نہیں اور بھائی چلے ہیں آپریشن کرنے۔۔۔شکریہ۔
جو کچھ آپ کے پلے ہے یہ شیطان کی مہربانی زیادہ معلوم ہوتی ہے. بس اتنی سی شرط ہے کہ ذرا سا غور کریں.
آپریشن کے لیے میں نے ایک لفظ اور بھی کہا ہے اور وہ ہے "اس کے بعد". یعنی جب آپ مان جائیں گے کہ آپ کے پاس صریح آیت یا حدیث نہیں ہے تو اس کے بعد آپ کے قیاسات کا آپریشن کریں گے.
فی الحال اگر شروع کیا تو مکس کھچڑی بن جائے گی اور آپ کو شور مچانے کا موقع مل جائے گا کہ میں نے صریح دلیل دی تھی.
اس لیے پہلے قرآن یا حدیث کی بات کرتے ہیں.
ہے کوئی واضح آیت یا حدیث؟
ارے ہاں! آپ کو پتا ہے نا واضح اور صریح کہتے کس کو ہیں؟ جس میں آپ کے مطلب کی بات "صاف صاف" ہو اور آپ کو ادھر ادھر کی باتیں نہ کرنی پڑیں.
تو ہے کچھ ایسا آپ کی پٹاری میں؟
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

انتہائی معذرت وہ بھی پیشگی ، مداخلت نہیں بلکہ محض استفسار ۔
گفتگو نہیں کہا جاسکتا ، بحث بھی نہیں کہہ سکتے بلکہ بات لعنتوں تک پہونچا ہی دی گئی۔ انتظامیہ مداخلت نہیں کریگی یہ تو اول سے طئے ہے لیکن اگر سوالات کے جوابات ہی نا ملیں تو کوئی تو ہو جو جواب دہی کی ذمہ داری لے! اس طرح کی گفتگو ، بحث یا جو بھی نام دے دیں خوبصورت سا ان مراسلات کو ، انکا حاصل کیا؟ میرا خیال ہے کہ سارے سوالات جو اشماریہ بھائی نے کئیے ہیں ان تمام کا جواب مل جانا چاہیے تھا اب تک ، خیر اب سے تو کوئی پابند کرے جوابات کے لیئے ۔
اشماریہ بھائی کے سوالات کو ترتیب دے لیا جائے اور پھر اپنی علمی صلاحیتوں ، لیاقتوں کو برؤے کار لا کر ترتیب وار جوابات تحریر کیئے جائیں ، قارئین کا بھی کچھ خیال کیا جائے ، ذرا سا۔
امید کے جناب فیضان صاحب کو ناگوار نہیں گذرے گا اور وہ ھر قاری کی تشنگی کو محسوس بھی کرینگے ، میرے اس مراسلہ کو بھی مداخلت نہیں سمجھیں گے ۔
والسلام
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
یہ روایت ہے یا آپ کے خیالات ہیں؟ آپ کے خیالات کی علمی لحاظ سے کوئی حیثیت ہے؟ یا قرآن و حدیث کے بعد یہ بھی حجت بن گئے ہیں؟
روایت میں صرف یہ ہے کہ آپ ص نے انہیں وہ مصحف دے دیا جو "آپ ص کے پاس تھا".
السلام علیکم!
کمال ہے میرے پیارے بھائی۔!
سورۃ البقرہ 282میں آپ کے لئے بہت کچھ ہے لیکن میرے بھائی کو صرف لفظوں سے مطلب ہے ۔
ان سارے نقاط کا باغور جائزہ لو اگر اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہو تو۔۔۔
نبی کریم ﷺ کو اور ساری امت کو یہ کیا فرمایا جا رہا ہے ۔۔۔۔۔

٭قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔ فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے۔
٭جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو ، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے۔ وہ لکھے اور اِملا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے
٭۔ لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو ، یا املاء نہ کرا سکتا ہو ، تو اس کا ولی انصاف کے ساتھ املاء کرائے۔
٭ پھر اپنے مردوں میں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرالو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلا دے۔ یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہیں ، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو۔ گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے ، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے ۔
٭معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو۔
٭ اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے ، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے ، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے۔
٭ ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو ، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں ، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو۔
٭ کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے۔ ایسا کرو گے ، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے۔ اللہ کے غضب سے بچو۔ وہ تم کو صحیح طریقِ عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔(282)


پھر کہتا ہوں آنکھیں پوری طرح کھول کر دیکھو اس آیت 282کو اس میں نشانی ہے عقلمندوں کے لئے۔۔۔۔۔جو غور و فکر کرتے ہوں۔

مجھے معلوم ہے جناب کو اس میں صرف عام لین دین کا معاملہ ہی نظر آئے گا۔۔۔یہ ظاہری الفاظ ہی نظر آنے ان میں چھپی ہوئ بات ہے جو آپ کو نظر نہیں آتی۔

لفظ دیکھائو فلاں لفظ لکھا ہوا دیکھا اگر یہ دین صرف لفظوں میں ہے تو میرے پاس بھی بہت کچھ پوچھنے کے لئے جو آپ اور آپ کے یہ بزرگار ساری زندگی جواب دینے میں لگا دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔میں یہ ظلم اپنے اوپر نہیں کر سکتا۔۔۔

سورۃ المائدہ 5۔اے پیغمبر ﷺ ، تمہارے لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیز گامی دکھا رہے ہیں۔ خواہ وہ اُن میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل اُن کے ایمان نہیں لائے یا اُن میں سے ہوں جو یہودی ہیں ، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں ،اور دوسرے لوگوں کی خاطر ،جو تمہارے پاس کبھی نہیں آئے سن گن لیتے پھرتے ہیں ، کتاب اللہ کے الفاظ کو اُن کا صحیح محل متعین ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں ، اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو، نہیں تو نہ مانو ۔ جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کرلیا ہو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کر سکتے یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہ چاہا ، اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں سخت سزا ۔(41)
سورۃ حٰم السجدہ 41۔جو لوگ ہماری آیات کو اُلٹے معنی پہناتے ہیں وہ ہم سے کچھ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ خود ہی سوچ لو کہ آیا وہ شخص بہتر ہے جو آگ میں جھونکا جانے والا ہے یا وہ جو قیامت کے روز امن کی حالت میں حاضر ہوگا ؟ کرتے رہو جو کچھ تم چاہو، تمہاری ساری حرکتوں کو اللہ دیکھ رہا ہے۔ (40)


مام ابن ابی عاصم متوفی 287 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ثقیف کے کچھ لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضرہوا ، انہں نے مجھ سے کہا : تم ہمارے سامان اور سواریوں کی حفاظت کرو ، میں نے کہا : اس شرط پر کہ تم فارغ ہونے کے بعد میرا انتظار کرنا ، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے اپنی ضروریات کے متعلق سوال کیا ، پھر وہ باہر آگئے تو میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ، میں نے آپ سے مصحف (قرآن مجید کا مترتب لکھا ہوا نسخہ یا کتاب) کا سوال کیا جو آپ کے پاس موجود تھا تو آپ نے مجھے وہ عطا فرما دیا ، تاہم یہ مصحف ایک جلد میں نہیں تھا ، اس کے متعدد اجزاء تھے ۔


اس کے متعدد اجزائ تھے۔یعنی ان کے پاس متعدد آیات اکھٹی ایک جگہ پر تھیں !!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اجزائ میں کیوں تھا جبکہ آپ کا یہ باطل عقیدہ ہے کہ وہ ۔۔۔آلو بالو کر دیا جاتا تھا۔۔!!!؟؟؟؟؟



آج 2017 میں کتنے لوگ ہیں جو بغیر دیکھ کر قرآن پڑھتے ہیں؟یہ ترقی کا دور ہے پھر بھی کیا حال ہے۔۔۔۔؟
کیا نبی کریم ﷺ کے دور میں تمام لوگ صرف زبانی یاد کرتے تھے؟کیا صرف لوگ ایک ایک آیت ساری زندگی پڑھتے رہے یعنی اگر وہ نقل نہیں کی جاتی تھی تو کیا جتنا جتنا قرآن کے اوراق ہوتے صرف اتنا ہی پڑھتے تھے ۔۔۔۔واہ کیا دین ہے میرے پیارے بھائی کی کیا مضبوط بنیاد ہے۔۔۔۔بنیاد کا یہ حال ہے تو باقی ایمان ،عقیدہ کا کیا حال ہوگا۔۔۔۔واہ


٭٭٭یہ بھی ایک حدیث ہی ہے جس میں نبی کریم ﷺ کا ہی نام لے کر بات کی گئی ہے ۔اب یہاں کیا کہیں گے جناب۔۔۔۔میرا ایمان ہے کہ جتنا جتنا قرآن نازل ہوتا لوگ نقل کرتے اور لے جاتے ۔کاتب وحی والی آیات محفوظ کی جاتی نہ کہ۔۔۔ونڈی جاتی۔۔۔۔

مشکوۃ شریف:جلد دوم:حدیث نمبر 677 مکررات 0 متفق علیہ 0
وعن عثمان بن عبد الله بن أوس الثقفي عن جده قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " قراءة الرجل القرآن في غير المصحف ألف درجة وقراءته في المصحف تضعف عل ذلك إلى ألفي درجة " . رواه البيهقي في شعب الإيمان

حضرت عثمان بن عبداللہ بن اوس ثقفی (رض) اپنے دادا (حضرت اوس) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آدمی کا بغیر مصحف (یعنی زبانی) قرآن پڑھنا ہزار درجہ ثواب رکھتا ہے اور مصحف میں (دیکھ کر) پڑھنے کا ثواب بغیر مصحف (یعنی زبانی) پڑھنے کے ثواب سے دو ہزار درجہ تک زیادہ کیا جاتا ہے۔ تشریح مطلب یہ ہے کہ مصحف (قرآن مجید) میں دیکھ کر تلاوت کا ثواب زبانی تلاوت کے ثواب سے زیادہ ہوتا ہے اور اس میں ثواب کی زیادتی کی وجہ یہ ہے کہ مصحف میں دیکھ کر کی جانے والی تلاوت میں غور و فکر اور خشوع و خضوع زیادہ حاصل ہوتا ہے مصحف شریف کی زیارت نصیب ہوتی ہے اور مصحف کو ہاتھ لگایا جاتا ہے اسے اوپر اٹھایا جاتا ہے اس طرح نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کی عظمت و احترام کا اظہار ہوتا ہے بلکہ جیسا کہ منقول ہے کہ قرآن کریم کی زیارت بھی عبادت ہے چنانچہ اکثر صحابہ و تابعین مصحف میں دیکھ کر ہی تلاوت کیا کرتے تھے حضرت عثمان (رض) کے بارہ میں منقول ہے کہ ناظرہ تلاوت کی کثرت کی وجہ سے ان کے پاس دو قرآن خستگی کی حالت کو پہنچ گئے تھے۔

صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 3 حدیث مرفوع مکررات 24 متفق علیہ 22
خدیجہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لے کر ورقہ بن نوفل بن اسید بن عبدالعزی کے پاس گئیں جو
حضرت خدیجہ (رض) کے چچا زاد بھائی تھے، زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور عبرانی کتاب لکھا کرتے تھے۔ چنانچہ انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے، جس قدر اللہ چاہتا، نابینا اور بوڑھے ہوگئے تھے،
ان سے حضرت خدیجہ (رض) نے کہا اے میرے چچا زاد بھائی اپنے بھتیجے کی بات سنو آپ سے ورقہ نے کہا اے میرے بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟ تو جو کچھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیکھا تھا، بیان کر دیا، ورقہ نے آپ سے کہا کہ یہی وہ ناموس ہے، جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل فرمایا تھا، کاش میں نوجوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا، جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا! کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا، ہاں! جو چیز تو لے کر آیا ہے اس طرح کی چیز جو بھی لے کر آیا اس سے دشمنی کی گئی، اگر میں تیرا زمانہ پاؤں تو میں تیری پوری مدد کروں گا، پھر زیادہ زمانہ نہیں گذرا کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا اور وحی کا آنا کچھ دنوں کے لئے بند ہوگیا۔


٭ورقہ بن نوفل جاہلیت میں نصرانی ہوگئے ۔اور وہ انجیل کو عبرانی زبان میں خود لکھتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ قرآن ایک جگہ مرتب ہی نہ کروا سکے واہ۔۔۔۔ورقہ بن نوفل بزرگی کی حالت میں لکھتے تھے انہیں کاغذ بھی مل جاتا تھا ،لکھنے کے لئے جو کچھ چاہئے مل جاتا تھا اور وہ ایک جگہ کتاب کو مرتب کرتے تھے لیکن نبی کریم ﷺ کو نہ تو ٹائم ملا،نہ ہی اللہ نے موقع فراہم کیا واہ۔۔۔سورۃ البقرہ 282 کو پھر سے غور سے پڑھو۔علمائ اکرام



(1)…قرآن مجیددیکھ کر پڑھنا، زبانی پڑھنے سے افضل ہے۔۔! کیا یہ بات آپ کو آج معلوم ہوئی ہے؟

یہ لو ان احادیث کو ضعیف کہہ کر کوڑے کی طرح باہر پھینک دیا۔۔۔


قرآن کریم کو دیکھ کر پڑھنے کی فضیلت میں کچھ احادیث وارد ہیں ان کے ضعیف ہونے کی بنا پر ہم صرف تنبیہ کے لئے یہاں ذکر کر رہے ہیں :یعنی ایک مولانا کہے گا دو وہ روایت اور حدیث اشماریہ صاحب سجدہ کر کے تسلیم کریں گے اور ایک بڑا مولانا یہ کہے کہ یہ ضعیف ہے تو میرا یہ پیارا بھائی اشماریہ جی سجدہ کرتے ہوئے اسے کہیں گے کہ ہاں یہ ضعیف ہے ۔۔۔۔۔۔مجھے آپ پر ایک آیت یاد آ رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔سنیں ،دیکھیں،پڑھیں،غور فرمائیں۔
سورۃ التوبہ 9آیت نمبر 31۔انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے۔
سورۃ التوبہ 9 آیت نمبر 34۔اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، ان اہلِ کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔
( مصحف میں دیکھنا عبادت ہے ، اور بیٹے کا والدین کو دیکھنا عبادت ہے ، اور علی بن ابی طالب( رضی اللہ تعالی عنہ ) کو دیکھنا عبادت ہے ) ۔
جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے کہا کہ یہ حدیث موضوع ہے دیکھیں سلسلۃ احا دیث الضعیفۃ ( 1 / 531 ) ۔
اور یہ حدیث بھی : ( اپنی آنکھوں کو عبادت کا حصہ دو : قرآن میں دیکھنا ، اوراس میں غوروفکر کرنا ،اور اس میں عجائبات سے عبرت حاصل کرنا ) یہ حدیث بھی موضوع ہے سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ ( 4 / 88 ) ۔
اور یہ بھی کہ ( پانچ چیزیں عبادت میں سے ہیں ، کم کھانا ، مساجد میں بیٹھنا ، اور کعبہ کو دیکھنا ، اور قرآن کریم میں دیکھنا ، اور عالم دین کے چہرہ کو دیکھنا ) اور یہ حدیث بہت ہی زیادہ ضعیف ہے ۔ دیکھیں ضعیف الجامع الصغیر حدیث نمبر ( 2855 )

یہ ان روایات میں کس قرآن کی بات ہو رہی ہے !!!کون سا قرآن نبی کہہ رہے پڑھو دیکھ کر جبکہ آپ کا باطل عقیدہ تو ہے کہ نبی کریم ﷺ کی زندگی میں وہ ہر ورق الو بالو کرتے تھے ۔۔۔۔پھر یہ کیا کہہ دیا اور اس کو ضعیف اس لئے کہہ دیا کہ ہمارے بڑےعالم یہ فرما گئے کہ یہ ضعیف ہے ۔۔۔یعنی ضعیف کی تلوار چلانے والے ہوتے کوں ہو۔۔۔کیا آپ کو معلوم نہیں نبی کریم ﷺ جھوٹ نہیں بولتے ،ان کی زبان سے صرف حق بات نکلتی ہے ۔۔۔۔۔؟ کیا کہیں گے جناب۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
عبداللہ ابن مسعود نے کہا کہ جب ہم تم سے کوئی حدیث بیان کرتے ہیں تو کتاب اللہ سے اس کی تصدیق بھی لا تے ہیں ۔( تفسیر ابن کثیر ج٤ ص٩٤٥ ،سورہ فاطر)
  • مخالف فرقے کی کتب میں‌درج روایات اھادیث و اعمال رسول ناقابل قبول ہیں۔ لیکن ان کی احادیث سے انکار کرکے آپ منکر الحدیث نہیں ہوتے ۔واہ
  • جو روایات ہمارے موقف کی حمایت نہیں کرتی ہیں، خود کا نا پسند ہوں‌ یا موقف کے مخالف ہوں و نا پسندیدہ روایات اپنی کتب روایات سے ہونے کے باوجود ضعیف ہیں۔ واہ
  • آپ ہر روایت پر مکمل یقین رکھئے، اس کا ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے۔ ان رویات پر ایمان بالمثل القرآن ضروری ہے۔
  • کتب روایات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یہ پرانی کتب ذرا دبلی ہیں، کھا پی کر بعد میں موٹی ہوگئی ہیں ۔ یعنی تبیدیلیاں آتی رہیں ؟ِ؟؟؟
  • صرف ہمارے فرقے کی کتب روایات میں تمام روایات درست ہیں ۔ دوسرے فرقے کی کتب روایات سے ہم انکار کرتے ہیں، لیکن اس انکار کے باوجود ہم منکر الحدیث تھوڑی ہیں۔واہ
  • جی ، کچھ روایات یقیناً دشنمنان اسلام نے شامل کردی ہونگی ۔ لیکن ہم سب روایات پر یقین رکھتے ہیں۔ دشمنان اسلام کی شامل شدہ روایات پر بھی ، ٹھیک ہے کہ اس میں اہانت رسول و انبیا اور اہانت اللہ اور قران سے مخالف واقعات شامل ہین - لیکن کیا ہے کہ ہم بتا نہیں سکتے کہ وہ حتمی طور پر وہ کون سے واقعات ہیں ، ہم ان سب واعات پر جو دشمنان اسلام نےشامل کی ہیں یقین رکھتے ہیں۔ پھر بھی منکر الحدیث تھوڑا ہی ہیں۔واہ
  • جب ان سب کی سب تمام فرقون کی روایات، واقعات و احادیث پر آپ ایمان بالمثل القرآن نہیں تو پھر کیا ہے؟ ایمان یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ تھوڑا سا ایمان ہوتا ہے یا آدھا ایمان ہوتا ہے۔ ایمان کا مطلب ہے - مان لینا۔ اور تکفیر کا مطلب ہے نا ماننا آدھے ادھر اور آدھے ادھر کو کیا کہتے ہیں ؟ سمجھا دیجئے گا۔عین نوازش ہو گی ۔
یہ تو حال ہے آپ جناب کا۔۔۔۔پھر کہتے ہیں ہم ہیں دین والے ،ایمان والے ۔۔۔۔۔کیسے ثابت کریں گے اپنے آپ کو ۔۔۔۔۔؟
 
Top