• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانا

شمولیت
فروری 05، 2019
پیغامات
23
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
30
السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته

میرے ایک دینی بھائی نے یہ سوال کیا ہے :

قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانے کا کفارہ کیا ہے؟

احادیث مبارکہ سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے.

براہ مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما دیں.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم و رحمة الله تعالٰى و بركاته۔۔میرے ایک دینی بھائی نے یہ سوال کیا ہے : قرآن مجید پر ہاتھ رکھ کر جھوٹی قسم کھانے کا کفارہ کیا ہے؟
احادیث مبارکہ سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ غیر اللہ کی قسم کھانا حرام ہے.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھانا
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدالمرسلین
قسم اور حلف کے متعلق پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ :
اگر قسم اٹھانا ضروری ہوجائے تو قسم صرف اللہ تعالیٰ ہی کے نام کی اٹھانا چاہیئے ؛
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ :
(مَنْ کَانَ حَالِفًا فَلْیَحْلِفْ بِاللَّہِ أَوْ لِیَصْمُتْ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الأیمان والنذور، باب: لا تحلفوا بآبائکم، (رقم: 6647)
ترجمہ :جس نے قسم اٹھانی ہو تو وہ اللہ کی اٹھائے وگرنہ خاموش رہے۔ ''
سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو کعبہ کی قسم کھاتے سنا تو فرمایا: اللہ کے علاوہ کسی کی قسم نہیں اٹھانی چاہیے کیونکہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ: ((سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ فَقَدْ كَفَرَ أَوْ أَشْرَكَ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ ۔ ))صحیح سنن الترمذي، رقم: 1535)
" جس نے اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھائی تو اس نے کفر یا شرک کیا۔ "
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسروں کی یعنی مخلوق میں سے کسی مثلا نبی یا ولی یا باپ دادایاکسی انسان کی یا کسی مخلوق کی قسم کھانی جائز نہیں ہے جیساکہ جناب نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے :
لا تحلِفوا بآبائِكم ولا بأمَّهاتِكم ولا بالأندادِ ولا تَحلِفوا إلَّا باللهِ ولا تحلفوا باللهِ إلَّا وأنتُم صادقونَ(صحيح أبي داود:3248)
ترجمہ: اپنے باپوں یا ماؤں کے نام کی قسمیں نہ کھایا کرو اور نہ بتوں کے نام کی ۔ صرف اللہ کے نام کی قسم کھایا کرو اور اللہ کی قسم بھی اسی صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو ۔
لیکن قرآن کریم کی قسم اٹھانا اس شرکیہ قسم میں سے نہیں ،کیونکہ
ــــــــ
قرآن کریم اللہ تعالی کا کلام ہے ،یعنی اس کی صفت ہے ،اس لئے مخلوق نہیں ،
یہی اہل سنت کا مذہب ہے ،
امام احمدبن حنبلؒ نے مسئلہ خلقِ قرآن کا جواب لکھتے ہوئے متوکل کو اپنے مراسلے میں کہا تھا کہ:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ )
ترجمہ: اگر کوئی مشرک آپ سے پناہ مانگے تو اسے اللہ کا کلام سننے تک پناہ دو، پھر اس کی پر امن جگہ تک پہنچاؤ؛ یہ اس لیے کہ وہ ایسی قوم سے ہیں جو نہیں جانتے[التوبہ: 6]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ)
ترجمہ: وہی پیدا کرتا ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے ۔[الاعراف: 54]
تو اللہ تعالی نے پہلے "خلق" یعنی تخلیق کا تذکرہ فرمایا، اور پھر "امر" یعنی حکم کا الگ سے ذکر فرمایا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم دینا اور تخلیق دونوں الگ الگ چیزیں ہیں" انتہی
اسے امام احمدؒ کے جناب صالحؒ نے بیان کیا ہے اور ان کی یہ روایت " المحنہ " صفحہ : ( 120 – 121) میں موجود ہے۔
امام احمدبن حنبلؒ سے پہلے ان کے استاد امام ، الحجہ، ثقہ الحافظ سفیان بن عیینہ ہلالی رحمہ اللہ نے ان آیات کو اسی مسئلے کی دلیل بنایا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں :
ابن عيينة يقول: ما يقول هذه الدويبة؟ يعني بشرا المريسي قالوا: يا أبا محمد يزعم أن القرآن مخلوق فقال: كذب قال الله تعالى: {ألا له الخلق والأمر} [الأعراف: 54] فالخلق: خلق الله، والأمر: القرآن }
امام سفیانؒ نے پوچھا : یہ جانوربشر مریسی کیا کہتا ہے ؟ انہیں بتایا گیا کہ وہ کہتا ہے کہ قرآن مخلوق ہے ، فرمایا جھوٹ بکتا ہے ،
خود اللہ تعالی فرماتا ہے کہ : (أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ) [الاعراف: 54] اس آیت میں "خلق" سے مراد اللہ تعالی کی مخلوقات ہیں، اور "امر "سے مراد قرآن کریم ہے"
اس اثر کو امام أبو بكر محمد بن الحسين الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ)

آجری نے " الشريعة " (جلد 1ص: 222) میں جید سند کے ساتھ سفیان بن عیینہ سے بیان کیا ہے۔
https://archive.org/stream/ksagksag/01#page/n226/mode/2up

اور امام سفیانؒ کا دوسرا قول امام عبداللہ بن امام احمدؒ نے "السنۃ " میں نقل فرمایا ہے :
عن ابن المبارك، عن سفيان، قال: «من قال إن قل هو الله أحد الله الصمد مخلوق فهو كافر»
أخرجه عبد الله في " السنة " رقم : (13) وسنده جيد .

یعنی امام سفیان بن عیینہؒ فرماتے ہیں : جو "قل ہو اللہ احد ،اللہ الصمد " کو مخلوق کہے وہ کافر ہے ،

اور امام شافعیؒ کا قول بھی یہاں بیان کرنا ضروری ہے ؛
"
من حلف باسم من أسماء الله فحنث فعليه الكفارة ؛ لأن اسم الله غير مخلوق ، ومن حلف بالكعبة ، أو بالصفا والمروة ، فليس عليه الكفارة ؛ لأنه مخلوق ، وذاك غير مخلوق "
أخرجه ابن أبي حاتم في " آداب الشافعي " (ص: 193) بإسناد صحيح

ترجمہ : امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص اللہ تعالی کے ناموں میں سے کسی کی قسم اٹھائے اور پھر قسم پوری نہ کرے تو اسے کفارہ دینا ہو گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کے اسمائے گرامی مخلوق نہیں ہیں، تاہم کعبہ اور صفا و مروہ کی قسم اٹھانے والے پر کفارہ نہیں ہے؛ کیونکہ یہ مخلوق ہیں جبکہ اللہ تعالی کے اسمائے حسنی مخلوق نہیں ہیں"
اس اثر کو ابن ابی حاتم نے " آداب الشافعی " (ص: 193) میں صحیح سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب سوال کا دوسرا پہلو
قَسم تین قِسم کی ہوتی ہیں : ۱- لغو قسم ، ۲- بنیت کھائی گئی قسم [معقدہ ] ، ۳- اور گناہ کی قسم [یمین غموس ]

۱- لغو وہ قسم ہے جو انسان کی زبان سے عادۃ بغیر ارادہ ونیت کے نکلتی ہے ، اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے ، اللہ تعالی فرماتا ہے : لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ" اللہ تعالیٰ تمہاری لغو (بلا ارادہ یا عادتاً) قسم کی قسموں پر گرفت نہیں کرے گا لیکن جو تم سچے دل سے قسم کھاتے ہو اس پر ضرور گرفت کرے گا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بردبار ہے ۔(البقرۃ 225)

۲- نیت و ارادہ سے کھائی گئی قسم وہ جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لئے نیت و ارادہ سے کھاتا ہے ، یہ آئندہ کیلئے کھائی جاتی ہے مثلاً مستقبل کے کسی امر پر قسم کھائی کہ میں یہ کام نہیں کرونگا،پھر کسی ضرورت کے تحت وہ کام کر لے تو اس صورت میں قسم توڑنے والے پر کفارہ لازم آتا ہے، ایسی قسم توڑے تو اس پر کفارہ ہے ۔
۳- جھوٹی یعنی گناہ کی قسم : یہ وہ قسم ہے جو جھوٹی ہو اور انسان دھوکہ اور فریب دینے کےلئے کھائے ، یہ کبیرہ گناہ بلکہ بہت بڑا گناہ ہے ۔
مثلاً قسم ہے کہ میں نے آپ کی رقم ادا کردی جبکہ حقیقت میں ادا نہ کی ہو تو یہ جھوٹی قسم ہے جو کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے ،۔ ایسی جھوٹی قسم کے بارے ارشاد باری تعالی ہے:
﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾.... سورة آل عمران 77
بیشک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ تعالیٰ نہ ان سے بات چیت کرے گا، اور نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔
نبی کریمﷺ نے کبائر (یعنی بڑے اور مہلک گناہوں کا ) بیان کرتے ہوئے فرمایا:
« عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الكَبَائِرُ: الإِشْرَاكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَاليَمِينُ الغَمُوسُ "
» رواه البخاري 6675
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کبیرہ گناہ یہ ہیں :اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کی ناحق جان لینا اور «یمین الغموس‏"‏‏.‏» قصداً جھوٹی قسم کھانا۔
کیونکہ اس میں انسان جان بوجھ کر جھوٹ بول رہا ہوتا ہے،اور کسی کا ناحق مال ہتھیا رہا ہوتا ہے، یا کسی کا کوئی حق تلف کر رہا ہوتا ہے ،یا کسی کو دھوکہ دے رہا ہوتا ہے ،ایسی جھوٹی قسم کھانے پر کوئی کفارہ نہیں ہے، بلکہ توبہ کرنا،کثرت سے استغفار کرنا ،اور اگر کسی کا حق مارا ہے تو اسے واپس کرنا لازم اور ضروری ہے، شاید اللہ اس کے اس گناہ کہ معاف فرما دے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top