• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن و حدیث میں تحریف

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حبیب اللہ ڈیروی کی کتاب '' تنبیہ الغافلین''
حافظ حبیب اللہ ڈیروی دیوبندی حیاتی نے ''تنبیہ الغافلین علیٰ تحریف الغالین'' نامی کتاب لکھی ہے جس میں انھوں نے بقلم خود ''غیر مقلدین کے تحریفی کارنامے '' جمع کئے ہیں ۔ اس کتاب میں انھوں نے اپنے خیال میں اہلِ حدیث کی '' تحریفات '' پیش کی ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے کتابت یا کمپوزنگ کی غلطیوں کو بھی '' تحریف '' بنا کر پیش کر دیا ہے۔
مثال نمبر (۱): جزء رفع الیدین للبخاری کے بعض مطبوعہ نسخوں میں '' حدثنا عبید بن یعیش: ثنا یونس بن بکیر: أنا أبو إسحاق '' لکھا ہوا ہے لیکن مخطوطۂ ظاہریہ میں صاف طور پر '' حدثنا عبیدبن یعیش: ثنا یونس بن بکیر : أنا ابن إسحاق '' لکھا ہوا ہے۔ دیکھئے ص۳، اورجزء رفع الیدین بتحقیقی : ۶
اس کے بارے میں ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
'' بلکہ الشیخ فیض الرحمن الثوری غیر مقلد نے متن کو تبدیل کر دیا ہے مطبوعہ نسخہ میں ابن اسحاق کے بجائے ابو اسحاق تھا تو ابو اسحاق کو تبدیل کر کے ابن اسحاق بنا دیا۔ '' [ تنبیہ الغافلین علیٰ تحریف الغالین ص ۷۱ تحریف نمبر: ۱۰]
مثال نمبر(۲): جزء رفع الیدین کے قلمی نسخے ( مخطوطۂ ظاہریہ ) میں ایک راوی کا نام ''عمرو بن المہاجر '' لکھا ہو اہے۔ دیکھئے ص ۴، اور جزء رفع الیدین بتحقیقی : ۱۷
ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
'' جزء رفع الیدین ص ۵۷ میں عمر بن المہاجر تھا اس کو فیض الرحمن الثوری غیر مقلد نے تحریف و خیانت کرتے ہوئے عمرو بن المہاجر بنادیا اور تعلیق میں لکھا ۔۔''
[تنبیہ الغافلین ص ۷۱، تحریف نمبر: ۱۱ ] سبحان اللہ!
مثال نمبر(۳): جزء رفع الیدین کے مخطوطے میں ایک راوی کا نا م '' ابو شہاب عبدربہ'' لکھا ہوا ہے۔ دیکھئے ص ۴، و جزء رفع الیدین بتحقیقی : ۱۹
اس کے بارے میں ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
'' جزء رفع الیدین کے ص ۶۲ میں ابو شھاب بن عبدربہٖ تھا اس کو ارشاد الحق غیر مقلد نے ابو شہاب عبدربہٖ بنا کر متن کو بدل ڈالا۔ ''
[تنبیہ الغافلین ص ۷۲، تحریف نمبر: ۱۲] سبحان اللہ!
مثال نمبر(۴): جزء رفع الیدین کے بعض نسخوں میں ایک راوی کا نام '' قیس بن سعید '' اور قلمی نسخے میں واضح طور پر '' قیس بن سعد '' لکھا ہوا ہے۔ دیکھئے مخطوطہ ص ۵، اور جزء رفع الیدین بتحقیقی : ۲۲
اس کے بارے میں ڈیروی صاحب لکھتے ہیں :
'' جزء رفع الیدین ص ۶۳ میں قیس بن سعید تھا مگر مولانا سید بدیع الدین شاہ صاحب راشدی غیر مقلد نے تحریف کر تے ہوئے متن تبدیل کر کے قیس بن سعد بنا دیا۔۔۔۔'' [تنبیہ الغافلین ص ۷۲، تحریف نمبر: ۱۳]
اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ڈیروی صاحب کی اس کتاب میں موجود ہیں۔ ڈیروی صاحب نے کتابت کی غلطیوں اور ان کی اصلاح کو بھی تحریفات بنا ڈالا ہے۔!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ڈیروی صاحب کاکتابت اور کمپوزنگ کی غلطیوں کو'' تحریفات ''میں شامل کر نے کی چند اورمثالیں درج ذیل ہیں:
مثال اول(۱): یمن کے مشہور عالم قاضی محمد بن علی الشوکانی صاحب نیل الاوطار کی کتاب '' القول المفید في أدلۃ الإجتھاد والتقلید'' میں لکھا ہوا ہے:
'' واطیعوا اللہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم '' [ص ۱۱]
یہاں '' اطیعوااللہ'' سے پہلے '' و'' کتابت یا کمپوزنگ کی غلطی ہے جس کے بارے میں ڈیروی صاحب لکھتے ہیں :
'' حضرت قاضی صاحب نے یہ اس آیت میں تحریف کر دی ہے وائو کا اضافہ کردیا ہے کیونکہ اصل آیت یوں تھی یاایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ مگر قاضی صاحب محرف قرآن مجید ہیں ہم غیرمقلدین کے حفاظ کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ کوئی ایسی آیت ڈھونڈیں جس میں اس آیت کے اندر واطیعو اللہ ہو۔ تحریف کرنا یہودیوں کا کام ہے۔ '' [تنبیہ الغافلین ص ۹۷ تحریف نمبر: ۵۹]
کتابت کی غلطی پر اتنا بڑا فتویٰ لگانے والا حبیب اللہ ڈیروی اپنے پسندیدہ '' مولوی '' محمود الحسن دیوبندی کی ایضاح الادلہ میں ایک جعلی '' آیت '' کے بارے میں لکھتا ہے:
'' اب غیر مقلدین حضرات نے ایک آیت جو کاتب کی غلطی سے لکھی گئی تھی اس کو اچھالا۔۔۔۔'' [تنبیہ الغافلین ص۵۵]
اپنے پسندیدہ مولوی کا غلط حوالہ تو '' کاتب کی غلطی '' ہے جبکہ غیر دیوبندی عالم کی کتاب میں کاتب کی غلطی بھی ڈیروی کے نزدیک '' تحریف'' اور '' یہودیوں کا کام '' ہے ، حالانکہ قاضی شوکانی کی اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے :
'' یاایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ واطیعواالرسول واولی الامرمنکم۔۔۔''
[القول المفید فی ادلۃ الاجتہاد والتقلید ص۳۶]
معلوم ہوا کہ خود قاضی صاحب کے نزدیک اس آیت میں واو موجود نہیں ہے۔
مثال دوم(۲): حنفیوں و دیوبندیوں وبریلویوں کے نزدیک انتہائی معتبر کتاب الہدایہ میں ملا مرغینانی صاحب نے رکوع و سجود کی فرضیت پر '' ارشادِ '' باری تعالیٰ '' وارکعوا واسجدوا '' سے استدلال کیا ہے۔ دیکھئے الہدایہ ج۱ص ۹۸ باب صفۃ الصلوٰۃ
حالانکہ قرآنِ مجید میں وائو یہاں موجود نہیں ہے۔
صاحبِ ہدایہ کے اس استدلال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے { فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ } کے بارے میں لکھا ہے:
'' اس آیت سے علمائے احناف نماز میں مطلق قراء ت کی فرضیت پر بالکل اسی طرح استدلال کرتے ہیں جیسے '' وَارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا '' الآیۃ سے رکوع اور سجدہ۔۔۔''
[توضیح الکلام ج۱ص ۱۰۴ طبع اول مارچ ۱۹۸۷ء]
اس کے بارے میں ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
'' اس میں ارشاد الحق صاحب نے وارکعو میں وائو زائد کر دی ہے اور یوں قرآنِ مجید کی اصلاح کی ہے ۔ ( لا حول ولا قوۃ الاباللہ)
خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں کس درجہ ہوئے فقیہان حرم بے توفیق ''
[تنبیہ الغافلین ص ۱۰۹ تحریف نمبر: ۱۰۸]
عرض ہے کہ وائو کی یہ غلطی آپ کی کتاب '' ہدایہ شریف'' میں موجود ہے جسے اثری صاحب نے '' علمائے احناف ''کہہ کر بطورِ اشارہ ذکر کر دیا ہے ۔ اس قسم کی کتابت یا کمپوزنگ والی غلطیوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ فلاں نے '' قرآن مجید کی اصلاح کی ہے'' انتہائی غلط ہے۔
تنبیہ: اثری صاحب نے توضیح الکلام کے طبعۂ جدیدہ میں { ارْکَعُوْا وَاسْجُدُوْا} لکھ کر صاحب ِہدایہ کی غلطی کی اصلاح کر دی ہے ۔[ دیکھئے ج۱ ص ۱۱۶]
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لطیفہ: حبیب اللہ ڈیروی صاحب نے '' وارکعو میں وائو زائد کر دی ہے'' لکھ کر ارکعوا کا الف اُڑا دیا ہے یا اُن کے کمپوزر سے یہ الف رہ گیا ہے۔ یہ اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ بشری سہووخطا اور کتابت یا کمپوزنگ کی غلطیوں کو تحریف یا جھوٹ کہنا غلط حرکت ہے جس کا جواب ڈیروی صاحب اور اُن جیسوں کو اللہ تعالیٰ کی عدالت میں دینا پڑے گا۔ ان شاء اللہ
اس طرح کی بہت سی مثالیں حبیب اللہ ڈیروی ،ماسٹر امین اوکاڑوی اور آلِ تقلید کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ کتابت یا کمپوزنگ کی غلطیوں کی بنیاد پر اہلِ حق کے خلاف پروپیگنڈا کر تے رہے ہیں۔
عبدالحئی لکھنوی حنفی نے التعلیق الممجد ( ص ۲۸۷) میں ایک روایت نقل کی ہے جس کے بارے میں ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
'' مگر مولانا عبدالحئی لکھنوی نے آخر میں جرح کے الفاظ کاٹ دیئے ہیں اور تحریف کا ارتکاب کیا ہے۔ اور مولانا لکھنوی نے وہ جرم کیا ہے جو شوافع وغیر مقلدین بھی نہیں کرسکے۔ '' [ تنبیہ الغافلین ص ۹۴ تحریف نمبر : ۵۴]
اس تحریر میں ڈیروی صاحب نے اپنے مولوی عبدالحئی لکھنوی حنفی کی غلطی کو اہلِ حدیث کی ''تحریفات '' میں شامل کر دیا ہے۔ سبحان اللہ
قاری محمد طیب دیوبندی کا غلط حوالہ
قاری محمد طیب دیوبندی کہتے ہیں:
'' اسی کے بارے میں وہ روایت ہے جو صحیح بخاری میں ہے کہ ایک آواز بھی غیب سے ظاہر ہو گی کہ : ھذا خلیفۃ اﷲ المھدی' فاسمعو لہ واطیعوہ۔
'' یہ خلفیۃ اللہ مہدی ؓ ہیں ان کی سمع و طاعت کرو۔۔۔'' [خطبات حکیم الاسلام ج۷ ص ۲۳۲]
یہ روایت صحیح بخاری میں قطعاً موجود نہیں ہے بلکہ اسے ابن ماجہ ( ۴۰۸۴) اور حاکم (۴؍۴۶۳، ۴۶۴، ۵۰۲) وغیرہما نے ضعیف سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے یہی روایت (صحیح) بخاری سے منسوب کی ہے ۔
( دیکھئے شہادت القرآن ص۲۹ ، روحانی خزائن ج۶ ص ۳۳۷)
مرزاقادیانی کے اس حوالے کے بارے میں اوکاڑوی صاحب کا بیان سن لیں :
''یہ بخاری شریف پر ایسا ہی جھوٹ ہے جیسا مرزا قادیانی نے اپنی کتاب شہادۃ القرآن میں یہ جھوٹ لکھا ہے کہ بخاری میں حدیث ہے کہ آسمان سے آواز آئے گی ھذا خلیفۃ اللہ المھدی '' [تجلیات صفدر جلد۵ ص۳۵ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان]
برادرم ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ نے اس کتاب '' قرآن و حدیث میں تحریف '' میں اہلِ تقلید کے وہ جھوٹ اور افتراء ات جمع کرکے قارئین کی عدالت میں پیش کر دیئے ہیں جو تقلیدی حضرات نے اپنے مذموم مقاصد کے لئے جان بوجھ کر گھڑے ہیں بلکہ کافی محنت کر کے اصل کتابوں سے فوٹوکاپی پیش کر دی ہیں تاکہ ان لوگوں پر اتمامِ حجت ہو جائے ۔ آخر میں مختصراً عرض ہے کہ ''قرآن و حدیث میں تحریف'' میں آلِ تقلید کی دانستہ تحریفات ہی کو درج کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو متلاشیانِ حق کی ہدایت کا ذریعہ بنائے اور ڈاکٹر صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ (آمین)
وماعلینا إلاالبلاغ (۲۱ رجب ۱۴۲۷ھ)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تقریظ فضیلۃ الشیخ علامہ ابوانس محمد یحییٰ گوندلوی حفظہ اللہ

اُمت مسلمہ جب سے تقلیدی جمود کا شکار ہوئی ہے اسی وقت سے کتاب و سنت کی جو شریعت مطہرہ میں حیثیت ہے وہ مقلدین کے ہاں بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ یوں تو ہر تقلیدی گروہ کتاب و سنت پر عمل کا دعویٰ کرتا ہے مگر اختلافی مسائل میں عملاً یہ دعویٰ قابل نظر ہے اس لئے کہ ہر گروہ نے اپنے امام اور مقتداء کے قول کو حرف آخر سمجھا ہے اور اپنے امام کے قیاسی و آرائی اقوال جو کتاب و سنت سے صریحاً متصادم ہیں ان میں کتاب و سنت کو پس پشت ڈالتا ہے اور اپنے امام کے قول کو ہرصورت راجح قرار دیتا ہے اور یہ عذر لنگ پیش کیا جاتا ہے کہ ہم کتاب و سنت کے نصوص کو سمجھنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ہماری بصیرت امام کی رائے اور بصیرت کے مقابلہ میں ہیچ ہے۔ اور پھر ہمارا اپنے امام کے بارہ میں حسن ظن ہے کہ وہ نصوص کی مخالفت نہیں کر سکتا لہٰذا حق وہی ہے جو ہمارے امام نے سمجھا ہے۔
تقلیدی جمود اور تسلط کے بعد جو گروہ معرض وجود میں آئے تو ان میں سے ہر ایک نے خود کو حق پر سمجھا {کل حزب بما لدیھم فرحون} جس سے محاذ آرائی کا راستہ کھل گیا۔ پس پھر کیا تھا ہر ایک نے اپنے امام کو امام اعظم ثابت کرنے کے لئے اس کے اقوال کی صحت کی تائید کے لئے دلائل تلاش کرنے پر دوڑ لگا دی چونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ مسائل اختلافیہ میں دو متضاد قول ہوں اور دونوں ہی صحیح دلائل رکھتے ہوں یقینا ان میں سے ایک قول راجح اور دوسرا مرجوح ہوتا ہے۔ بسا اوقات مرجوح قول کی صحت ثابت کرنے کے لئے کتاب و سنت میں لفظی یا معنوی تحریف کی گئی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
حنفی مستدل روایات

مسائل اختلافیہ میں حنفی اقول عموماً کتاب و سنت سے متعارض ہیں۔ اہل الرائے ہونے کے ناطہ سے حدیثی رنگ کم ہی نظر آتا ہے چونکہ دعوی سنت پر عمل کا ہے اس لئے ان مسائل میں حدیثی دلائل کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چونکہ قلت روایات کی بنا پر اکثر صحیح احادیث گوشہ اخفا میں تھیں جس کی وجہ سے مخالفت کا عنصر بالکل عیاں ہے تو انہوں نے اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے ضعیف، منقطع، معضل اور مرسل روایات کا سہارا لیا۔ بسا اوقات جب دلائل کی کمی ایسی ناقابل روایات سے بھی پوری نہ ہوئی تو اپنی طرف سے روایات گھڑ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیں جیسا کہ ''من رفع یدیہ فلا صلوٰۃ لہ، و من قرء خلف الامام فلا صلوٰۃ لہ'' جیسی روایات ہیں جن کو ارباب تقلید نے نہایت دیدہ دہنی کے ساتھ گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا۔
دین میں تحریف نہایت ناپسندیدہ اور غیر مستحسن فعل ہے اس تحریف کا ارتکاب جب یہود و نصاری نے کیا دین خالص اپنی اصلیت کھو بیٹھا یہودیت اور نصرانیت کی شکل میں آج جو کچھ بھی موجود ہے وہ آمیزش سے خالی نہیں بلکہ مبدل اور محرف ہے، جس کی قرآن کریم نے متعدد مواقع پر وضاحت کی ہے۔
اسلام آخری دین ہے جس نے اپنی اصلی حالت میں تاقیامت قائم رہنا ہے لہٰذا اس دین میں جس نے بھی تحریف کا ارتکاب کیا وہ کامیاب نہیں ہو سکا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس اُمت مرحومہ میں ہر دور میں ایسے رجال پیدا کرتا رہتا ہے جو اس کے دین کو تحریف، تبدل اور تغیر سے پاک کرتے رہتے ہیں۔ دین میں تحریف کی ضرورت تب پڑتی ہے جب دین میں اھواء اور آراء کو شامل کیا جائے۔ چونکہ اصل دین تو اہل اھواء کی اھواء اور آراء کی تائید اور تعمیل نہیں کرتا جس کے لئے ان کو دیگر وجوہ اپنانے کے ساتھ تحریف کا بھی ارتکاب کرنا پڑتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تحریف کی صورتیں

تحریف کی متعدد صورتیں ہیں جن کا احاطہ یہاں مقصود نہیں البتہ یہ بات بلاریب ہے کہ ان میں اکثر صورتیں کتب احناف میں پائی جاتی ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں:
(۱) حدیث سے عدم معرفت: کتب احناف میں تحریف کی یہ صورت بڑی واضح ہے کہ اکثر فقہاء حضرات علم حدیث سے ناواقف ہیں بلکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بقول جسے مبسوط آتی ہے وہ فقیہ ہے خواہ وہ حدیث سے اصلاً واقف نہ ہو۔
ہدایہ میں تحریف کی اس نوع کی متعدد مثالیں موجود ہیں جن میں ایک یہ ہے صاحب ہدایہ ناقل ہیں :
ان اﷲ تعالیٰ یحب التیامن فی کل شئ حتی التنعل و الترجل (ھدایہ ص۸ ج۱)
حالانکہ یہ حدیث متفق علیہ ہے جو بڑی معروف ہے جو صحیحین میں ان الفاظ سے مروی ہے:
کان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم یحب التیمن ما استطاع فی شأنہ کلہ فی طھورہ و ترجلہ و تنعلہ (بخاری حدیث:۴۲۶، مسلم حدیث:۶۱۷)
کتنی خوفناک تحریف کی کہ کان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جملے کو ان اﷲ تعالیٰ سے اور ما استطاع فی شأنہ کے جملے کو فی کل شئ سے اور فی طھورہ و ترجلہ و تنعلہ کو حتی التنعل و الترجل سے بدل دیا۔
(۲) حدیث کے وہ الفاظ جو ان کے اقول کے خلاف آتے ہیں ان کو حذف کر دیا۔ دارقطنی صفحہ ۳۲۰ ج۱ میں معروف حدیث ہے:
لا یقران احد منکم شیئا من القرآن اذا جھرت الا بام القرآن
میں مولانا احمد علی سہارنپوری نے یوں تحریف کی :
لا یقران احد منکم شیئا من القرآن اذا جھرت بالقرآن قال الدارقطنی رجالہ ثقات (الدلیل القوی)
اس میں الا بام القرآن کا جملہ ہی حذف کر دیا۔ حدیث کا مطلب تو واضح ہے کہ جب قراء ت جہری کروں تو تم صرف سورۃ فاتحہ پڑھو۔ سہارنپوری کی تحریف کے بعد یہ معنی ہوا کہ جب میں جہری قراء ت کروں تو تم کچھ بھی نہ پڑھو۔
امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنی حنفی اقوال کے خلاف ہے اس لئے انہوں نے وہ جملہ ہی حذف کر دیا جس سے امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنی لازم آتی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۳) مطلب براری کے لئے حدیث میں اضافہ کرنا:
ابوداو'د وغیرہ میں حدیث ہے:
ثلاث جدھن جد و ھزلھن جد النکاح والطلاق والرجعۃ
حنفی اقوال میں ہے کہ قسم اٹھانے والا ارادہ سے یا مجبورًا یا بھول کر قسم اٹھائے تو حکما تمام سورتیں برابر ہیں انکا یہ موقف کتاب و سنت کے خلاف ہے، انہوں نے اپنے اس موقف کو ثابت کرنے کے لئے مذکورہ بالا حدیث میں تحریف کر ڈالی۔ صاحب ھدایہ اس حدیث کو ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
ثلاث جدھن جد و ھزلھن جد النکاح والطلاق والیمین (ھدایہ ص۴۵۹ ج۱)
حدیث کے اصلی لفظ ''والرجعہ'' کو بدل کر ''والیمین'' بنا دیا جس سے بزعم خویش اپنے مذھب کی دلیل مہیا کر دی۔
(۴) دھوکہ اور فریب کی خاطر کسی کے قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دینا۔
بسا اوقات حنفی اقوال کے کسی قول میں کوئی صریح دلیل موجود نہیں ہوتی تو کسی تابعی یا متأخر شخص کے قول کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابی کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے تاکہ قاری سمجھے کہ میرے سامنے تو اس مسئلہ کی دلیل حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور دھوکہ کھا کر اس بے دلیل مسئلہ کو حق سمجھ لے۔ صفدر اوکاڑوی لکھتا ہے :
عن عبداﷲ بن مسعود ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کان اذا کبر سکت ھنیھۃ واذا قال غیر المغضوب علیھم ولا الضالین سکت ھنیھۃ واذا قام فی الرکعۃ الثانیۃ لم یسکت و قال الحمد ﷲ رب العالمین (ابوبکر بن ابی شیبہ) (مجموعہ رسائل ج۱ صفحہ ۱۲۷)
حالانکہ ابن ابی شیبہ میں یہ روایت ابراہیم نخعی کا قول ہے مرفوع حدیث نہیں ہے۔ (ابن ابی شیبہ حدیث:۲۸۴۱)
ابراہیم نخعی روایت کے لحاظ سے تبع تابعی ہیں جسے اوکاڑوی نے آمین بالسر کی دلیل بنانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا جس سے تاثر یہ دینا مقصود تھا کہ یہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ فانا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
(۵) صحیح حدیث کے مقابلہ میں حدیث گھڑنا۔
بسا اوقات حنفی اقوال کے خلاف کسی مسئلہ میں صریح احادیث آتی ہیں جن کا ان کے پاس جواب نہیں ہوتا تو یہ اس کے متوازی اسی طرز کی روایت گھڑ کر پیش کر دیتے ہیں جس سے تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس بھی اس طرح کی حدیث ہے۔ ابن جریج کی معروف حدیث ہے کہ انہوں نے نماز عطاء سے سیکھی۔ عطاء نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
صلیت خلف ابی بکر فکان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوۃ و اذا رکع واذا رفع رأسہ من الرکوع و قال ابو بکر صلیت خلف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فکان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلوۃ و اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع (بیہقی ص۷۳، ج۲۔ مسند احمد ص۱۲ ج۱ و متعدد کتب حدیث)
اس حدیث سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیات مبارکہ میں اور آپ کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز میں رکوع کو جاتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرتے تھے جو رفع الیدین کے عدم نسخ پر قوی دلیل ہے اور احناف کے پاس اس کا جواب بھی ممکن نہیں تو انہوں نے اس صحیح حدیث کے متوازی یہ روایت تراش لی، قریبی دور کے قاضی نور محمد آف قلعہ دیدار سنگھ جو مستند حنفی عالم تھے، انہوں نے رفع الیدین کی تردید میں ایک رسالہ تحریر کیا تو اس میں ابن جریج کی روایت بدل کر اپنی طرف سے اس طرح گھڑ لی، لکھتے ہیں:
اخذ اھل الکوفۃ الصلوۃ عن ابراھیم النخعی و اخذ ابراھیم النخعی عن اسود بن یزید و اخذ اسود عن ابی بکر الصدیق و اخذ ابوبکر عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو اخذ عن جبریل وھو اخذ عن اﷲ تعالیٰ و ابراھیم النخعی لم یکن یرفع یدیہ الا فی اول تکبیرۃ من الصلوۃ ثم لا یعود (ازالۃ الرین ص۶۱)
اپنی طرف سے گھڑی ہوئی اس روایت کو صحیح حدیث کی تردید میں پیش کر دیا۔ اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو حنفی اقوال کی کتب میں اس سے بھی زیادہ خوفناک تحریفی انکشافات واضح ہو جائیں گے۔ ہم نے تو بطور نمونہ کے یہ چند چیزیں قارئین کرام کے سامنے رکھی ہیں تفصیل اصل کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن و حدیث میں تحریف
جب سے حنفی اقوال کی تائید کا حدیث سے رجحان پیدا ہوا ہے تب سے کسی نہ کسی صورت میں اختلافی مسائل میں حاشیہ آرائی کرنے والوں نے تحریف کا حربہ آزمایا ہے۔ ھدایہ سے لے کر آج تک حنفی اقوال کی تائید میں جتنی کتب لکھی گئی ہیں ان میں اکثر میں یا تو ناقابل احتجاج روایات کی بھرمار ہے یا پھر تحریف پائی جاتی ہے۔
علماء اہل حدیث زادھم اﷲ شرفاً نے ہر دور میں تحریفات سے پردہ اٹھایا ہے اور اصل حقیقت کو واضح کیا۔ لیکن یہ تردیدی عمل عموماً انفرادی روایات تک محدود رہا ہے جس عالم کی نظر سے کوئی محرف روایت گزری اس نے اس کی تردیدکر دی۔ اللہ کریم جزائے خیر سے نوازے ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ کو جنہوں نے اس موضوع پر حقیقت پسندانہ قلم اٹھایا ہے اور ان کی بہت سی تحریفات کو بحوالہ جمع کر کے ان پر کتاب و سنت کی روشنی میں ناقدانہ تبصرہ فرمایا ہے۔
کتاب ''قرآن و حدیث میں تحریف'' دراصل حفاظت دین کا ایک فریضہ ہے اور ان حضرات کے لئے ایک چیلنج ہے جو اپنے بے دلیل مسائل کی آبیاری تحریف سے کرتے ہیں کہ جس نے تحریف کے عیوب سے پردہ ہٹایا ہے اور تحریفی عمل اور اس کے مفاسد سے متنبہ اور آگاہ کیا ہے۔
کتاب ''قرآن و حدیث میں تحریف'' کے مطالعہ سے یہ امر عیاں ہو جائے گا کہ تقلید نے علماء میں کتنا تعصب کا بیج بویا ہے کہ کتاب و سنت میں تحریف کرنے کی جرأت پیدا کر دی ہے اور اسلام کی خالص تعلیم کو اپنی فاسد آراء سے کتنا گدلا اور مکدر کرنے کی جسارت کی ہے اور کتاب و سنت پر آراء و قیاس کو ترجیح دینے کے لئے کس قدر نازیبا حرکت کی ہے۔
یہ کتاب دفاع سنت میں ایک سنگ میل ہے۔ مقلدین کا جو کتاب و سنت سے عملاً رویہ ہے اس سے آگاہ کرتی ہے اور خطرے کا آلارم بجاتی ہے کہ کتاب و سنت میں تحریف اہل حق کا شیوہ نہیں۔
دعا ہے کہ اللہ رحیم و کریم ڈاکٹر صاحب کی اس کاوش کو شرف قبولیت سے نوازے اور صراط مستقیم پر چلنے والوں کے لئے اسے چراغ راہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔
کتبہ ابو انس محمد یحییٰ گوندلوی​
مدیر جامعہ تعلیم القرآن والحدیث ساہووالہ ضلع سیالکوٹ​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تقریظ فضیلۃ الشیخ علامہ ابو الحسن مبشر احمد ربانی حفظہ اللہ تعالیٰ

دین اسلام ایک اکمل دین ہے اور اس میں عقائد و اعمال کی مکمل طور پر راہنمائی کی گئی ہے۔ قرآن و حدیث کے علاوہ کوئی بھی چیز دین نہیں ہو سکتی کیونکہ دین اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا ہے اور آپ پر ہی مکمل کیا ہے۔ لیکن عصر حاضر میں بعض لوگ عوام الناس میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں اور انہیں اپنی تلبیسات و تشکیکات کے ذریعے یہ باور کرانے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں کہ بہت سارے مسائل قرآن و حدیث سے حل نہیں ہوتے ان کا حل حنفی فقہاء کی آراء اور قیاسات میں ہے۔ اور فقہ حنفی ہی اصل دین ہے اور بعض منچلے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے تو وہ بھی فقہ حنفی کے مطابق حکم کریں گے جیسا کہ الدرالمختار ص ۱۳ طبع دارالکتب العلمیہ بیروت، ذب ذبابات الدراسات ج۱ صفحہ ۲۳۹، ۳۸۲، ۷۵۵ طبع مکتبہ لجنۃ احیاء الادب السندھی کراچی، مکتوبات شیخ احمد سرہندی مکتوب نمبر ۲۸۲ صفحہ۶۲۷ ج۱ طبع ایران۔ شیخ انور شاہ کشمیری نے کیا خوب لکھا ہے:
فمن زعم ان الدین کلہ فی الفقہ بحیث لا یبقی وراء ہ شئ فقد حاد عن الصواب (فیض الباری ص۱۰ ج۲ طبع مکتبہ حقانیہ پشاور)
جس شخص نے کہا بلاشبہ دین سارا فقہ میں ہے کہ اس کے علاوہ کوئی چیز باقی نہیں وہ جادہ مستقیم سے دُور ہو گیا۔
لہٰذا جو لوگ قرآن و حدیث کی بجائے بعض مخصوص افراد کی آراء و اھواء کو دین منوانے پر تلے ہوئے ہیں انہیں اپنی طرز فکر پر غور کرنا چاہیئے لیکن صد افسوس اصل صراط مستقیم یعنی قرآن و حدیث کی طرف آنے کی بجائے اپنے نظریات کی خاطر نصوص شرعیہ کی تأویلات باطلہ اور آرائے کا سدہ کے درپے ہو گئے۔اور کتاب و سنت کا رخ اپنے مزعومہ امام کی طرف موڑنے لگ گئے۔ اور ان کے درس و تدریس کا انداز یہ بن گیا کہ احادیث مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھنے اور ان سے مسائل کا استنباط کرنے کے بجائے اپنے امام کا مستدل تلاش کرنے کے لئے انہیں پڑھنے لگے اور ان کے تلامذہ بھی سمجھنے لگے کہ حدیث تو ان کے دارالعلوم میں آ کر حنفی ہو جاتی ہے جیسا کہ محمد مظہر نانوتوی، رشید احمد گنگوہی صاحب کو کہا کرتے تھے کہ: ''حدیث تو آپ کے سامنے آکر حنفی ہو جاتی ہے''۔ (قصص الاکابر ص۱۴۲ طبع المکتبۃ الاشرفیہ لاہور)۔
اہل الرائے کا حدیث سے واسطہ بہت کم رہا۔ سید انظر شاہ نے اپنے والد کے حالات زندگی ''نقش دوام'' میں لکھا ہے ''یہ عجیب تاریخ کا راز ہے جس کی وجوہ و علل کا دریافت تاریخ کا سب سے بڑا انکشاف ہو گا کہ حدیث کے بیشتر وہ مجموعے جو آج ہمارے کتب خانوں کی زینت ہیں غیر حنفی قلم سے ان کی جمع و ترتیب ہوئی خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس مہم میں حنفی مکتب فکر بھر پور شرکت کیوں نہیں کر سکا عجب نہیں کہ یہ پامال اعتراض کہ ابوحنیفہ الامام حدیث سے نابلد و ناواقف تھے ان شبہات وشکوک میں اس سے بھی مدد لی جا رہی ہو کہ احناف تدوین حدیث کے کاروبار میں پس ماندہ ہیں اگرچہ متأخرین کی کاوشیں اس خلجان کے لئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑتیں تاہم اسباب کچھ بھی ہوں پھر بھی اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حدیثی مجموعوں میں احناف کی تالیفی دستاویزات نہ ہونے کے برابر ہیں ان کی تمام تر توجہ اور زورِ قلم فقہ کی تعمیر، استخراج مسائل، نت نئی جزئیات، حوادث و فتاوی کی ترتیب و تدوین پر ہی رہی۔ (نقش دوام صفحہ ۱۷۵،۱۷۶)۔
مزید لکھتے ہیں:
''عجیب بات یہ ہے کہ چار فقہی مکاتیب نظر وجود پذیر ہوئے تو حضرات شوافع کی علمی ہمتیں احادیث کی جمع و ترتیب میں مصروف رہیں چنانچہ آج عالم اسلام کی کوئی بھی درسگاہ ایسی نہیںجس میں یہی حدیثی مجموعے زیر درس نہ ہوں۔ مالک علیہ الرحمۃ کے قلم مبارک سے ان کی مشہور مؤطا مالکی فقہ کے لئے آج اساسی کتاب ہے۔ احمد بن حنبل علیہ الرحمۃ کی مسند حنابلہ کے لئے کافی و شافی ہے احناف ہی ایک ایسا فقہی سکول ہے جس کے پاس خود کسی حنفی امام کی تیار تالیف نہیں۔ امام محمد علیہ الرحمہ کا مؤطا اور امام طحاوی کی معانی الآثار ثانوی درجہ میں داخل کی گئیں اور خود احناف ان سے وہ استفادہ نہ کر سکے جس کی یہ دونوںکتابیں مستحق تھیں (نقش دوام صفحہ ۳۰۸)
مذکورہ حوالہ سے معلوم ہوا کہ احناف کے ہاں حدیث کا ذوق برائے نام ہے اور وہ کتب احادیث اپنے امام کے دلائل تلاش کرنے کے لئے پڑھتے ہیں کیونکہ ان کے امام سے دلائل منقول نہیں ہیں۔ مولوی حسین احمد مدنی نے لگی لپٹی لگائے بغیر صاف کہہ دیا ہے ''امام صاحب سے متون تو منقول ہیں دلائل منقول نہیں ہیں لہٰذا دلائل کا تسلیم کرنا ہم پر ضروری نہیں ہے اس سے مذہب حنفی پر کوئی زد نہیں آسکتی اور جو دلائل مذھب حنفیہ کے مطابق ہوں گے ہم ان کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں''۔ (تقریر ترمذی اردو صفحہ ۷۲ طبع کتب خانہ مجیدیہ ملتان)۔
اور احناف کا مدارس میں حدیث کے حوالے سے طریقہ تدریس ملاحظہ ہو۔ مولوی زکریا کی آپ بیتی میں لکھا ہے: ''قانون تعلیم یہ تھا کہ ہر حدیث کے بعد یہ بتانا ضروری تھا کہ یہ حدیث حنفیہ کے موافق ہے یا مخالف۔ اگر خلاف ہے تو حنفیہ کی دلیل اور حدیث پاک کا جواب، یہ تمام گویا حدیث کا جزؤ لازم تھا''۔ (آپ بیتی نمبر۱ صفحہ ۳۰ طبع مکتبہ رحمانیہ لاہور)
معلوم ہوتا ہے کہ فقہی متون جو احناف کے ہاں پائے جاتے ہیں ان کے دلائل امام ابوحنیفہ سے مروی نہیں ہیں، ان مسائل کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل بعد میں وضع کئے گئے اور احادیث کو فقہ حنفی کی طرف ڈھالنے کا کام مدارس میں ہوتا تھا اور جاری و ساری ہے تاکہ فقہ حنفی کی برتری ثابت کی جائے اور پھر جب دلائل کو وضعی اور مصنوعی بھٹیوں میں ڈالا جانے لگا تو انہوں نے بددیانتی کی حد کر دی اور مجموعہ احادیث میں جہاں جہاں نقب لگانا ممکن ہوا اس سے دریغ نہیں کیا۔
زیر تبصرہ کتاب میں محترم ڈاکٹر ابوجابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ تعالیٰ نے اس داستان کی قلعی کھولی ہے اور باحوالہ ثابت کیا ہے کہ قرآن و حدیث میں تحریف کر کے اہل الرائے نے یہودیانہ کردار ادا کیا ہے۔ اور اپنے ردّی مذہب پر سونے کی پان چڑھانے کی سعی نامشکور کی ہے۔ لیکن ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین حنیف کی حفاظت اور احیاء کے لئے مختلف قسم کے آئمہ دین اور حفاظ حدیث پیدا کئے۔ اسی سلسلہ ذھبیہ کی ایک کٹری محترم ڈاکٹر ابوجابر صاحب ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے باطل ادیان کی سرکوبی کیلئے بڑا کام لیا ہے۔ مسعودیت و عثمانیت کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ حنفیت کے رگ و پے کا علاج بھی کر رہے ہیں۔ ماشاء اللہ زیر تبصرہ کتاب دلائل و براہین کے دفاتر سے بھری پڑی ہے اور باقاعدہ کتب احادیث اور ان کے محرف نسخوں کی نقل ساتھ لگائی گئی ہے تاکہ قاری کو کتاب پڑھ کر مکمل طور پر اطمینان و سکون ہو اور محرفین کے اس مذموم عمل سے اجتناب کر سکے۔
ہر طالب علم کو ایسی کتب پڑھنی اور اپنے مکتبات میں رکھنی چاہیئے تاکہ باطل پرستوں کا بوقت ضرورت قلع قمع کر سکیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کے علم، عمل، عمر، رزق مال اولاد اور گھر بار میں برکات و انوارات کی بارش برسائے اور ان کے مکتبہ کو بقعہ نور بنائے جہاں سے اغیار کے ڈسے ہوئے شفایاب ہوتے رہیں اور کفر و شرک، بدعات و رسومات، گمراہی و ضلالت کے عمیق گڑھوں میں گرے ہوئے لوگ توحید و سنت کے نور سے منور ہوتے رہیں اور ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ برکت والی لمبی زندگی عطاء فرمائے تاکہ وہ اُمت مسلمہ کی راہنمائی اور رہبری کرتے رہیں آمین اور اللہ تعالیٰ ہم جیسے ناکارہ لوگوں سے بھی اپنے دین حنیف کا کام لے لے۔ اور اس کتاب کو مؤلف، ناشر اور ہر قاری کے لئے ذریعہ نجات بنائے آمین۔
ابوالحسن مبشر احمد ربانی عفا اللہ عنہ​
رئیس مرکز اُم القری سبزہ زار لاہور​
۳ستمبر۲۰۰۶ء​
 
Top