- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
قرآن کریم سے سائنسی نظریات ثابت کرنے کا حکم
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین
ترجمہ: طارق علی بروہی
جو لوگ قرآن کی تفسیر "اعجاز علمی" (سائنسی معجزات) کے ذریعہ کرتے ہیں کبھی کبھار وہ قرآن کریم کی ایسی تفسیر تک کرجاتےہیں کہ جس کا کوئی احتمال نہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ان کے بہت اچھے استنباط بھی ہوتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ قرآن حق ہے اور وہ اللہ عزوجل کی جانب سے ہے اور یہ بات ان غیرمسلموں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں فائدہ دیتی ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کی تصحیح کے لیے صرف حسی دلائل پر اعتماد کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار قرآن کی ایسی تفسیر کرنے والے ایسی تفسیر کرجاتے ہیں جس کا وہ محتمل نہیں۔مثلا ًان کا اس آیت کے تعلق سے کہنا:ترجمہ: طارق علی بروہی
اس سے مرادآج لوگوں کا چاند وستاروں وغیرہ تک پہنچناہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ (تم سلطان کے بغیر نکل سکتے ہی نہیں) اور ان کے نزدیک سلطان سے مراد علم (سائنس) ہے۔﴿ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ (الرحمن: 33)
(اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو! بغیر سلطان (غلبہ وطاقت) کے تو تم نہیں ہی نکل سکتے)
اور بلاشبہ یہ تحریف ہے۔ اور کلام اللہ کی اس طرح کی تفسیر کرنا حرام ہے۔ کیونکہ جو کوئی اس آیت پر تدبر کرے گا تو وہ پائے گا یہ یوم قیامت کی بارے میں بیان کررہی ہےاور مکمل سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، فرمایا:
اور یہ لوگ آسمانوں کے کناروں سے نہیں نکلے بلکہ آسمان تک بھی نہیں پہنچے ۔ اور ساتھ ہی آگے یہ بھی فرمایا:﴿اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا﴾ (الرحمن: 33)
(اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو)
اور ان لوگوں پر یہ شعلے اور دھواں نہیں چھوڑا گیا (یعنی وہ اس سے مراد یہ نہیں)۔﴿يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ڏ وَّنُحَاسٌ﴾ (الرحمن: 35)
(تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا)
الغرض
الغرض لوگوں میں سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے تجاوز کیا اور قرآن کریم میں سائنسی حقائق کو ثابت کرنے میں غلو سے کام لیا اور دوسری طرف بعض نے تفریط کی اور ایسی چیزوں تک کا انکار کردیا کہ جو ثابت ہیں یہ کہتے ہوئے کہ سابقہ علماء کرام میں سے کسی نے ایسا نہیں کہا لہذا ہم کسی صورت میں یہ قبول نہیں کرسکتے۔ اور یہ بھی غلطی ہے۔
چناچہ قرآن کریم اگر مخلوقات سے متعلق دقیق معلومات وسائنسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے تو اسے قبول کرلینے میں کوئی مانع نہیں بشرطیکہ الفاظ میں ان کا احتمال ہو بھی، لیکن اگر الفاظ میں اس کا کوئی احتمال تک نہ ہو تو ایسی تفسیر نہیں کی جاسکتی۔(منقول من شبکۃ سحاب السلفیۃ)