• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کریم سے سائنسی نظریات ثابت کرنے کا حکم

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قرآن کریم سے سائنسی نظریات ثابت کرنے کا حکم

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین
ترجمہ: طارق علی بروہی​
جو لوگ قرآن کی تفسیر "اعجاز علمی" (سائنسی معجزات) کے ذریعہ کرتے ہیں کبھی کبھار وہ قرآن کریم کی ایسی تفسیر تک کرجاتےہیں کہ جس کا کوئی احتمال نہیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ان کے بہت اچھے استنباط بھی ہوتے ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ قرآن حق ہے اور وہ اللہ عزوجل کی جانب سے ہے اور یہ بات ان غیرمسلموں کو اسلام کی طرف دعوت دینے میں فائدہ دیتی ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کی تصحیح کے لیے صرف حسی دلائل پر اعتماد کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھار قرآن کی ایسی تفسیر کرنے والے ایسی تفسیر کرجاتے ہیں جس کا وہ محتمل نہیں۔مثلا ًان کا اس آیت کے تعلق سے کہنا:
﴿ يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ (الرحمن: 33)
(اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو! بغیر سلطان (غلبہ وطاقت) کے تو تم نہیں ہی نکل سکتے)
اس سے مرادآج لوگوں کا چاند وستاروں وغیرہ تک پہنچناہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ﴿لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ (تم سلطان کے بغیر نکل سکتے ہی نہیں) اور ان کے نزدیک سلطان سے مراد علم (سائنس) ہے۔
اور بلاشبہ یہ تحریف ہے۔ اور کلام اللہ کی اس طرح کی تفسیر کرنا حرام ہے۔ کیونکہ جو کوئی اس آیت پر تدبر کرے گا تو وہ پائے گا یہ یوم قیامت کی بارے میں بیان کررہی ہےاور مکمل سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے، فرمایا:
﴿اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا﴾ (الرحمن: 33)
(اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو)
اور یہ لوگ آسمانوں کے کناروں سے نہیں نکلے بلکہ آسمان تک بھی نہیں پہنچے ۔ اور ساتھ ہی آگے یہ بھی فرمایا:
﴿يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ڏ وَّنُحَاسٌ﴾ (الرحمن: 35)
(تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا)
اور ان لوگوں پر یہ شعلے اور دھواں نہیں چھوڑا گیا (یعنی وہ اس سے مراد یہ نہیں)۔
الغرض
الغرض لوگوں میں‎ سے بعض ایسے ہیں جنہوں نے تجاوز کیا اور قرآن کریم میں سائنسی حقائق کو ثابت کرنے میں غلو سے کام لیا اور دوسری طرف بعض نے تفریط کی اور ایسی چیزوں تک کا انکار کردیا کہ جو ثابت ہیں یہ کہتے ہوئے کہ سابقہ علماء کرام میں سے کسی نے ایسا نہیں کہا لہذا ہم کسی صورت میں یہ قبول نہیں کرسکتے۔ اور یہ بھی غلطی ہے۔
چناچہ قرآن کریم اگر مخلوقات سے متعلق دقیق معلومات وسائنسی حقیقت پر دلالت کرتا ہے تو اسے قبول کرلینے میں کوئی مانع نہیں بشرطیکہ الفاظ میں ان کا احتمال ہو بھی، لیکن اگر الفاظ میں اس کا کوئی احتمال تک نہ ہو تو ایسی تفسیر نہیں کی جاسکتی۔(منقول من شبکۃ سحاب السلفیۃ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسرے مقام پر آپ سے سوال ہوا:
﴿اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا﴾ (العنکبوت: 28) (اللہ تعالی سے اس کے بندوں میں سے علماء ہی ڈرتے ہیں) اس آیت سےکون لوگ مقصود ہیں؟
جواب: اس سے وہ علماء مراد وہ لوگ ہیں کہ جن کا علم انہیں خشیتِ الہی تک پہنچادے۔ اس سے وہ علماء (سائنسدان) مراد نہیں کہ جو کائنات کے کچھ اسرار جانتے ہوں جیسے وہ نظام فلکی وغیرہ سے متعلق کچھ اسرار جانتے ہوں یا جسے سائنسی معجزات وحقائق کہا جاتا ہے۔ ہم اس کے منکر نہیں ہیں کہ قرآن مجید میں بعض ایسی باتیں ہیں کہ جن کی حقیقت آئندہ زمانوں میں مزید ظاہر ہوئی۔ لیکن بعض لوگ ان سائنسی حقائق یا نظریات میں غلو سے کام لیتے ہیں یہاں تک کہ لگتا ہے گویا انہوں نے قرآن کو کوئی سائنس یا ریاضی کا کتاب بنادیا ہے، اور یہ غلطی ہے۔
لہذا ہم کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں کہ سائنسی حقائق کے اثبات میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جائے کیونکہ ممکن ہے فلاں بات جس کو حقیقت کہہ رہے ہیں وہ محض نظریہ ہو اور نظریات تو بدلتے رہتے ہیں۔ اب اگر ہم قرآن مجید کی دلالت سے اس فلاں نظریہ کوثابت کرتے ہیں اور آگے مزید تحقیق کے نتیجے میں وہ غلط ثابت ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہوا قرآن کریم کی دلالت غلط تھی۔ پس یہ مسئلہ انتہائی خطرناک ہے۔
اسی لیے کتاب وسنت میں ان تمام باتوں کا خوب اہتمام کیا گیا ہے جو لوگوں کو ان کی عبادات اور معاملات میں نفع پہنچائے اور اس کی باریک ترین باتیں بھی واضح کردیں یہاں تک کہ کھانے پینے ، بیٹھنے اور داخل ہونے وغیرہ تک کے آداب بھی بتادیئے۔ لیکن کائنات کا یا سائنس کا علم اس تفصیل سے نہیں آیا۔
اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کا اس سائنسی حقائق کی کھود کرید میں بہت زیادہ انہماک انہیں اس چیز سے غافل کردے گا جو اس سے زیادہ اہم تر ہے یعنی کہ عبادت الہی جس کے لیے قرآن کریم نازل ہوا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات: 56)
(میں نے جنوں اور انسانوں کو محض اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے)
البتہ کائنات کا علم رکھنے والے سائنسدان ان سائنسی حقائق کو جاننے میں جہاں تک پہنچے ہیں اس بارے میں دیکھا جائے گا کہ اگر اس سائنسی علم تک پہنچنے سے وہ ہدایت یاب ہوگئے اور اللہ تعالی کا تقوی اختیار کیااور اسلام قبول کرکے مسلمان عالم بن گئے کہ جو اللہ تعالی سے کماحقہ ڈرتے ہیں تو اچھی بات ہے۔ لیکن اگر وہ اپنے کفر پر ہی باقی رہتےہیں اور محض یہاں تک کہتے ہیں کہ اس کائنات کا کوئی پیدا کرنے والا ہے ۔ تو ایسا کہہ اور مان لینے سے وہ اپنے پہلے کفریہ کلام سے باہر نہیں نکلے ۔ صرف اتنا کہہ لینا انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔ کیونکہ سب ہی جانتے ہیں کہ اس عالم کا کوئی بنانے والا ہے۔
کیونکہ یہ کائنات یا تو خود بنی ہے، یا پھر اچانک دھماکے (بگ بینگ) سے بن گئی ہے، یا پھر اسے اس کے خالق یعنی اللہ تعالی نے بنایا ہے۔
اب پہلی صورت میں کہ خود اپنی تخلیق کی ہو تو یہ محال ہے کہ کوئی بھی چیز اپنے آپ کو خود بنائے۔ کیونکہ وہ اپنے وجود سے پہلے معدوم تھی تو خالق کیسے ہوسکتی ہے؟!
اور دوسری صورت یہ اچانک حادثاتی طور پر وجود میں آگئی ہو تو یہ بھی ناممکن ہے کیونکہ ہر حادث کا کوئی محدث ہونا ضروری ہے۔اور یہ سارا نظام عالم بناکسی سابقہ نمونے کے، اتنا عظیم ، سبب ومسببات اور کائنات کے بعض امور کا بعض کے سے مربوط ہونے کے ساتھ چل رہا ہے۔ یہ سب اس بات کو قطعاً مانع ہے کہ یہ سب حادثاتی طور پر وجود میں آگیا ہو۔کیونکہ جو چیز حادثاتی طور پر ہو اول تو وجود کے اعتبار سے کسی نطام کے تحت نہیں ہوتی پھر کیسے اس سے بھی بڑھ کر یہ منتظم اور باقاعدہ ترقی پذیر بھی ہو۔
پس جب یہ مخلوقات خود اپنی خالق نہیں اور نہ ہی حادثاتی طور پر وجود میں آئی ہیں تو پھر متعین ہوگیا کہ اس کا کوئی نہ کوئی موجد (وجود میں لانے والا) ہے اور وہی اللہ رب العالمین ہے۔(مجموع فتاوى ورسائل ابن عثيمين - 26/28) .
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال:
کیا قرآن کی تفسیر جدید سائنسی نظریات سے کی جاسکتی ہے؟
جواب:
سائنسی نظریات کے ساتھ قرآن کی تفسیر کرنے کے اپنے خطرات ہیں جیسے اگر ہم قرآن کریم کی تفسیر ان نظریات سے کرتے ہیں پھر کوئی دوسرا نظریہ اس کے بعد آتا ہے جوکہ سابقہ نظریے کی نفی کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمنان اسلام کی نظر میں قرآن غیر صحیح بن جائے گا، اگرچہ مسلمانوں کی نظر میں تو آسان ہے کہ وہ کہہ دیں گے اصل غلطی اس شخص کی ہے جس نے اس سائنسی نظریہ سے قرآن کی تفسیر کی تھی، لیکن جو دشمنان اسلام ہے وہ تو ہمارے بارے میں گردش ایام کی تاک میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اسی لیے میں غایت درجے اس سے خبردار کرنا چاہوں گا کہ اس قسم کی سائنسی تفسیر کرنے میں جلدبازی سے ہرگز کام نہ لیا جائے بلکہ اسے فی الواقع امور پر چھوڑ دیا جائے کہ اگر واقعی کوئی چیز ثابت ہورہی ہے، رونما ہورہی ہے، تو سب دیکھ لیں گے ہمیں کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ قرآن مجید نے تو اسے پہلے ہی ثابت کردیا تھا۔ کیونکہ قرآن کریم عبادت، اخلاق اور تدبر کی غرض سے نازل ہوا ہے، فرمان الہی ہے:
﴿كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ (ص: 29)
(یہ مبارک کتاب ہم نے آپ پر نازل کی ہے تاکہ اس کی آیات پر تدبر (غوروفکر) کیا جائے اور تاکہ عقل مند لوگ اس سے نصیحت پکڑیں)
ناکہ اس قسم کی باتوں کے لیے نازل ہوا ہے کہ جو تجارب سے ثابت ہوتی ہیں یا لوگ اپنے علم وہنر سے حاصل کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ قرآن مجید کی مراد ان باتوں کو لینے میں بہت ہی عظیم وشدید خطرہ ہےمیں آپ کو ایک مثال بیان کرتا ہوں، فرمان الہی ہے:
﴿يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ (الرحمن: 33)
(اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو! بغیر سلطان (غلبہ وطاقت) کے تو تم نہیں ہی نکل سکتے)
جب لوگ چاند پر پہنچ گئے تو بعض لوگوں نے اس کی تفسیر اس چاند پر پہنچ جانے سے کی اور اس کا مقصود یہ واقعہ قرار دیا اور کہا کہ اس آیت میں سلطان سے مراد علم (سائنس) ہے۔ اور وہ اپنے علم سے کشش ثقل اورزمین کے کناروں سے نکل گئے۔ اور یہ غلطی ہے ، جائز نہیں کہ قرآن کی تفسیر اس سے کی جائے۔ کیونکہ اگر آپ اس معنی سے قرآن کی تفسیر کرتے ہیں تو گویا کہ آپ گواہی دے رہے ہیں کہ یقیناً اللہ تعالی کی یہی مراد تھی اور یہ ایک بہت ہی عظیم گواہی وشہادت ہے کہ جس کے بارے میں تم سے عنقریب پوچھا جائے گا۔
حالانکہ جو کوئی بھی اس آیت پر غوروفکر وتدبر کرے گا تو وہ پائے گا کہ یہ تفسیر باطل ہے کیونکہ اس آیت میں تو بروز قیامت لوگوں کے احوال کا بیان ہے۔ آپ سورۂ رحمن پڑھ دیکھیں تو آپ پائیں گے کہ یہ آیت اللہ تعالی کے اس فرمان کے بعد واقع ہوئی ہے:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ،وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلالِ والإكرامِ،فَبِأَيِّ آلاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ﴾ (الرحمن: 26-28)
(جو کوئی اس پر ہے وہ فنا ہوجائے گا، مگر صرف تیرے رب کی ذات بابرکت ہی باقی رہ جائے گی۔ پس اے گروہ جن وانس تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے)
پھر ہم ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ لوگ آسمانوں کے کناروں تک سے باہر نکل چکے ہیں؟ جواب ہے نہیں، حالانکہ اللہ تعالی تو فرماتے ہیں:
﴿اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ (الرحمن: 33)
(اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے)
دوسری بات یہ کہ فرمایا:
﴿يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ڏ وَّنُحَاسٌ﴾ (الرحمن: 35)
(تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا)
کیا ان لوگوں پر یہ شعلے اور دھواں چھوڑا گیا؟ جواب ہے نہیں۔لہذا اس آیت کی یہ تفسیر صحیح نہیں جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔ بس ہم یہ کہیں گے کہ یہ لوگ جہاں تک بھی پہنچے ہیں وہ تجرباتی علوم کے ذریعہ ہے جو کہ انہوں نے تجربوں سے حاصل کیا ہے۔ جبکہ ہمارا قرآن کریم کی تحریف کرنا تاکہ اسے زبردستی اس کی دلالت کے لیے موڑا جائے صحیح نہیں ہے اور جائز بھی نہیں۔(کتاب العلم للشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ)
اسی طرح سے القول المفید شرح کتاب التوحید باب "ماشاء اللہ وشئت" کے تحت فرماتے ہیں:
اسی طرح سے بعض معاصرین لوگ نصوص کتاب اللہ کی ایسی تفسیر کرتے ہیں جس کے وہ محتمل نہیں ہوتے صرف اس لیے تاکہ وہ جدید سائنس، طب یا فلکیات وغیرہ کے مطابق ہوجائے۔
یہ وہ تمام باتیں ہیں کہ جو کسی بھی انسان کے لیے ناقابال ستائش ہے۔ کیونکہ ہرانسان پر واجب ہے کہ وہ نصوص کو اسی طرح سے سمجھے جس طرح سے وہ ہیں، پھر اس کا فہم ان نصوص کے تابع ہو، ناکہ اپنے فہم یا جو وہ اعتقاد رکھتا ہے نصوص کو ان کے تابع کرنے کی کوشش کرے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ:
"استدل ثم اعتقد" (پہلے استدلال کرو پھر اس کے مطابق اعتقاد بناؤ)
ناکہ پہلے کوئی اعتقاد بنالو اور پھر اس کے مطابق استدلال تلاش کرنا شروع کردو۔ کیونکہ اگر تم پہلے کوئی اعتقاد بنالو گےپھر استدلال تلاش کرو گے تو ہوسکتا ہے کہ تمہارا اعتقاد تمہیں اس بات پر ابھارے کہ تم نصوص کی اپنے اعتقاد کے مطابق تحریف کرنے لگو جیسا کہ یہ بات ان مختلف ملل ومذاہب کے طرز عمل سے ظاہر ہے جو اس شریعت کی مخالفت کرتے ہیں جو کہ رسول اللہﷺ لے کر آئے۔ آپ ان کو پائیں گے کہ وہ نصوص کی تحریف اپنے عقیدے کے مطابق کرنا چاہیں گے۔ الغرض جب انسان کے پاس ہوائے نفس ہو تو وہ اسے اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ محض اسے اپنی ہوا (خواہش نفس) کہ موافق بنانے کے لیےنصوص کی ایسی تعبیر کرے جس کے وہ محتمل ہی نہیں ۔ (القول المفید شرح کتاب التوحید)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال:
الاعجاز العلمی (سائنسی معجزات ) کے ذریعہ قرآن مجید کی تفسیر کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
آجکل بعض معاصرین کوشش کرتے ہیں کہ موجودہ سائنسی انکشافات کوقرآن کریم کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ لیکن بعض اس میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور افراط کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ موجودہ کسی چیز کے مطابق قرآن کی تفسیر فٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ اس سے بہت بعید ہوتی ہے۔ البتہ اگر معنی قریب کا بنتا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ مثلاً میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ جب پہلےپہل کہاگیاکہ لوگ چاندپر پہنچ گئےہیں تو اس فرمان الہی کی تفسیر اسی سےکرنےلگے:
﴿يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْـطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ (الرحمن: 33)
(اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو! بغیر سلطان (غلبہ وطاقت) کے تم نہیں نکل سکتے)
کہتےہیں کہ یہ لوگ آسمانوں کےکناروں سےنکل گئے اور یہاں سلطان سےمرادعلم (سائنس) ہے۔ یہ حرام ہے جائز نہیں۔
اس معنی کے ساتھ اس آیت کی تفسیر کرنے کی حرمت میں کوئی اشکال نہیں۔ کیونکہ یہ آیت بالکل واضح ہے کہ یہ دہمکی کے باب میں سے ہے کہ تم نکل کر تو دکھاؤ یعنی نکل ہی نہیں سکتے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ (الرحمن: 33) (آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے)
کیا کوئی آسمانوں کے کناروں سے باہر نکلا ہے؟
یعنی اگر ہم کہیں کہ وہ زمین کے کناروں سے نکل گئے اورکشش ثقل سے چھٹکارا حاصل کرلیا لیکن وہ آسمان کے کناروں سے تو نہیں نکلے، اور آیت واضح ہے کہ اس میں یوم قیامت کا ذکر ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ *وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ﴾ (الرحمن: 26-27)
(اس پر جو کچھ ہیں وہ سب فنا ہونے والے ہیں، سوائے تیرے رب کی جلال وعظمت والی ذات کے)
﴿يَسْلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَاْنٍ﴾ (الرحمن: 29)
(سب آسمان و زمین والے اسی سے مانگتے ہیں ، ہر روز وہ ایک شان میں ہے)
﴿سَنَفْرُغُ لَكُمْ اَيُّهَا الثَّقَلٰنِ﴾ (الرحمن: 31)
(اے دونوں جماعتو(جن وانس)! ہم عنقریب تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں)
﴿يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ (الرحمن: 33)
(اے گروہ جنات و انسان! اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو! بغیر سلطان (غلبہ وطاقت) کے تو تم نہیں ہی نکل سکتے)
﴿يُرْسَلُ عَلَيْكُمَا شُوَاظٌ مِّنْ نَّارٍ ڏ وَّنُحَاسٌ فَلَا تَنْتَصِرٰنِ﴾ (الرحمن: 35)
(تم پر آگ کے شعلے اور دھواں چھوڑا جائے گا ، پھر تم مقابلہ نہ کر سکو گے)
اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ بروز قیامت ہوگا ، پھر جو کہتے ہیں کہ اس آیت میں سلطان بمراد علم ہے، تو ہم جواب دیتے ہیں کہ صحیح ہے کہ لفظ سلطان بمعنی علم کے بھی آتا ہے جیسا کہ فرمایا:
﴿ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۢ بِهٰذَا﴾ (یونس: 68)
(تمہارے پاس اس پر کوئی دلیل یا علم نہیں)
لیکن اس آیت میں سلطان سے مراد قدرت ہے، کیونکہ فرمایا:
﴿ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوْا ۭ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍ﴾ (الرحمن: 33)
(اگر تم میں آسمانوں اور زمین میں کے کناروں سے باہر نکل جانے کی طاقت ہے تو نکل بھاگو!بغیر سلطان (غلبہ وطاقت) کے تم نہیں نکل سکتے)
تمہیں اس کی سلطان یعنی قدرت ہی نہیں۔ پس ہر موقع محل کے حساب سے سلطان کے مختلف معانی ہوتے ہیں ۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں رونما ہونے والے حادثات وایجادات ونظریات سے قرآن مجید کی تفسیر کرتے ہیں وہ اس بارے میں افراط کا شکار ہوکر حد سے تجاوز کرجاتے ہیں۔ اور نہیں جانتے کہ جس نظریہ کو وہ قرآن سے ثابت کررہے ہیں آنے والے دنوں میں وہ مزید تحقیق کے نتیجے میں غلط ثابت ہوجاتا ہے تو اسکا مطلب قرآن کریم کے مدلول کا غلط ہونا ہے۔(من شريط تفسير سورة المائدة رقم 14)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اسی طرح سے شیخ اپنے ایک خطبہ میں فرماتے ہیں:
اللہ تعالی نے ان آسمانوں اور زمینوں کو پیدا فرمایا اور ان میں اپنی مخلوقات کے عجائب اور اختراعات کے اسرار مقدر فرمائے۔ اور ان میں سے جس کی تفصیل چاہی سورۂ فصلت میں تفسیر فرمائی:
﴿قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَهٗٓ اَنْدَادًا ۭذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ . وَجَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبٰرَكَ فِيْهَا وَقَدَّرَ فِيْهَآ اَقْوَاتَهَا فِيْٓ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ ۭ سَوَاۗءً لِّلسَّاۗىِٕلِيْنَ ثُمَّ اسْتَوٰٓى اِلَى السَّمَاۗءِ وَهِىَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًااَوْ كَرْهًا ۭ قَالَتَآ اَتَيْنَا طَاۗىِٕعِيْنَ . فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوَاتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰى فِيْ كُلِّ سَمَاۗءٍ اَمْرَهَا ۭ وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ﴾ (فصلت: 9-12)
(آپ کہہ دیجئے! کہ تم اس اللہ کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کر دی ، سارے جہانوں کا رب وہی ہے۔ اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں (رہنے والوں) کی غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی ، (صرف) چار دن میں ، ضرورت مندوں کے لئے یکساں طور پر۔ پھر آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں (سا) تھا پس اسے اور زمین سے فرمایا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا ناخوشی سے ، دونوں نے عرض کیاہم بخوشی حاضر ہیں۔ پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی ، یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے)
اوران میں سے بہت سے باتیں اپنے بندوں سے مخفی رکھی۔ کسی کے لیے حلال نہیں کہ وہ کائنات کے اسرار میں سے کسی چیز کو ثابت کرے سوائے منقول یا محسوس دلیل کے ۔البتہ محض نظریات کے ذریعہ ایسی کسی بات کو ثابت کرنا کہ جو متغیر ہوتے اور بدلتے رہتے ہیں، تو ان پر اعتماد کرنا ممکن نہیں۔ اور اس سے بھی شدید تر اور بدتر یہ بات ہے کہ ان کی وجہ سے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ میں تحریف کی جائے اور انہیں زبردستی توڑ مروڑ کر ان نظریات کے مطابق ڈھالا جائے جن میں نقض اور افساد کا احتمال ہوتا ہے۔ جس کسی نے قرآن کریم میں اپنے رائے سے کوئی بات کی تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں پکڑ لے۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کے فہم اور اس پر عمل کی توفیق دے اور ہمیں اپنے قول وعمل میں ٹیڑھ پن اور گمراہی سے محفوظ رکھے۔

کتاب "الضياء اللامع من الخطب الجوامع" لابن عثیمین​
 
Top