• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کریم مؤثر ربانی منہج

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآن کریم مؤثر ربانی منہج

ان پڑھ عرب اس کے اولین مخاطب تھے مگر پھر بھی قرآن مجیدنے ان پر اپنا گہرا اثر چھوڑا۔انہیں مہذب اور مؤدب انسان بنادیا۔وہ سرزمین عرب سے نکل کر جب عراق ، شام ، مصر اور سنٹرل ایشیا گئے تو نہ صرف اس کتاب کے ذریعے انہیں حلقہ اسلام میں داخل کیا بلکہ عربی زبان کی محبت نے ان سے اپنی زبان وتہذیب بھی چھڑوادی۔حیرت کی بات تو ہے کہ یہ کیسی کتاب ہے جس کی زبان عربی ہے مگر غیر عربوں کی کثیر تعداد اسے آسان جان کر عرب بن بیٹھی اور بڑی عقیدت ومحبت سے اس کی بھرپور خدمت کرڈالی۔آج بھی دنیا کا ہر شخص اس کتاب کو بآسانی سمجھ سکتا ہے۔یہ نسل انسانی کی تعلیم وتربیت کا تیار کردہ الٰہی کورس ہے جو انسانوں کو پستی سے نکال کر دنیا کی انتہائی مہذب اور شائستہ قوم بناسکتا ہے ۔ورنہ پستی کا سبب بھی سوائے اس کتاب کو ترک کرنے کے اور کچھ نہیں۔ خوش قسمت ہے وہ قوم جسے یہ مقدس کتاب نصیب ہوئی ۔اس کی تدریس وتعلیم کا منہج بھی بہت آسان ہے۔
{وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ } (القمر: ۱۷)
بے شک ہم نے قرآن کریم کو آسان بنایا ہے تو کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟

آسان کتاب ، آسان منہج:
قرآن کریم کی خوبی یہ ہے کہ اس کی ابتداء کریں تو مشکل لگتی ہے مگر جوں جوں اسے پڑھتے جائیں تو یہ آسان ترہوتی جاتی ہے۔ اور اگر پڑھانے والا واقعی استاذ ہو تو بہت ہی آسان کتاب لگتی ہے۔جب کہ دنیاوی کتب کا حال یہ ہے کہ ان کی ابتداء کریں تو بھی مشکل اور ایم اے ، وپی ایچ ڈی کرتے جائیں تو مشکل سے مشکل تر۔اس سے مبتدی بے نیاز ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی علامہ دہر۔بلکہ ہر درجے کا آدمی اس سے ہدایت حاصل کر سکتا ہے۔ اس میں جتنا غور کریں نئے نئے اسرار کھلتے ہیں۔ اس لئے جو اسے سیکھنے یا جاننے کا شوق رکھتا ہے وہ بتدریج اپنی پیاس بجھا سکتا ہے۔اس کے بیان کردہ مسائل واحکام اورعقائد میں کوئی گنجلک نہیں، نہ ہی عقل سے ماوراء اس کی باتیں ہیں۔
{ قَدْ بَیَّنَّالَکُمُ الْآَیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُونَ} (آل عمران : ۱۱۸)
ہم نے کھول کھول کر تمہارے لئے آیات میں عقائد واحکام بیان کردئے ہیں تاکہ تم عقل سے کام لو۔جی ہاں!اس میں انسانی مسائل کا ہی تذکرہ ہے نہ کہ جانوروں یا حشرات الارض کے مسائل کا یا میڈیکل وسائنس کا۔اسی میں ہی ہمارے عروج وزوال کی تاریخ ثبت ہے اور ثواب وعقاب کی بھی۔إن فی ذلک لآیت لقوم یسمعون،۔۔۔ لقوم یعقلون،۔۔۔ لقوم یتذکرون ،۔۔۔ للعالمین، میں مخاطب ابن آدم ہی ہے جو صاحب عقل ہے اور خود مختار وآزاد ہے۔اس لئے اسے مشکل نہیں کہا جاسکتا البتہ اسے آسان بنا کر پیش کرنا علماء کرام کا فرض ضرور بنتا ہے۔اس لئے یہ کتاب:
اتنی مشکل بھی نہیں کہ اسے صرف علماء ہی سمجھ سکیں اور عام مسلمان اس سے محروم رہے ۔یا اسے صرف مسلمان سمجھ سکتا ہے اور غیر مسلم نہیں۔ بلکہ کئی غیر مسلم محض اسے سن کر یا خود پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ نہ ہی یہ پر اسرار کتاب ہے کہ اس کا ایک مفہوم ظاہری ہو اور دوسرا باطنی۔یا ظاہری مفہوم ، عام اور باطنی ، خاص لوگ ہی جان سکتے ہیں۔ یہ سوچ اگر دنیاوی علوم کے بارے میں ہو تو کیا نتائج نکل سکتے ہیں؟ کیااللہ کی کتاب ایسا کہنے کا حق کسی کو دیتی ہے۔بلکہ ایسا کہنے سے انسان میں عملی اور اخلاقی تبدیلی آسکتی ہے نہ اللہ کی عظمت دلوں میں سماتی ہے اور نہ الہامی ہدایات کی قدر باقی رہتی ہے۔یہ سب غلط اصول مسلمان کو کتاب سے دور کرنے اور ذاتی سوچ میں ڈھالنے کے ہیں۔ہاں اس کی گہرائی میں جانے کے لئے بلاشبہ چند بنیادی علوم کی ضرورت ہے تا کہ عصری اشکالات اور مسائل کا حل اس سے تلاش کیا جاسکے۔
٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اچھی تربیت کا قرآنی نصاب:
۱۔ تلاوت آیات میں تلاوت سیکھنا، خود تلاوت کرنا اور تلاوت سننا شامل ہیں۔ تلاوت قرآن ہر ذکر سے بلند تر ذکر ہے۔عربی زبان میں تلاوت دو معنوں میں مستعمل ہے۔ تلا یتلوا تلواً سے مراد: پیچھے پیچھے چلنا۔ جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے نقش قدم پر پاؤں رکھ کر اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہے اسی طرح قرآن کی تلاوت کرنے والا بھی۔ ادھر قرآن نے کوئی حکم دیا یا معاملہ بتایا ادھر قاری قرآن اسے پڑھتے ہی ہر اعتبار سے مطیع اور فرمان بردار بن گیا۔یہی حق تلاوت ہے۔ یہی صحیح معنوں میں حق تلاوت کا مفہوم ہے۔جس کا صحیح لطف عمل کے بعدہی نصیب ہوتا ہے۔

٭…۔عربی زبان میں تلاوت کے معنی قراءت کے ہیں۔ تلا یتلوا تلاوۃ سے مراد پڑھنا ہے۔ یعنی الفاظ وحروف کو ان کے اصل مخارج دینا۔دوسرے معنی قدموں کے نشانات پر اپنا قدم رکھتے چلے جانا بھی ہیں۔ ہمیں اس قول سے ڈرنا چاہئے:
رُبَّ قَارِئٍ یَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَالْقُرآنُ یَلْعَنُہُ
بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں اور قرآن ان پر لعنت بھیج رہا ہوتا ہے۔

اس لئے کہ قران کی ایک آیت قاری قرآن پڑھ رہا ہے جس میں مثلا سود ، دھوکہ، شرک وبدعت، جھوٹ وحرام سے اجتناب وغیرہ کی تعلیم ہے مگر یہ صاحب ہیں کہ اسے پڑھتے ہیں نہ رک کر سوچتے ہیں اور نہ ہی ان ممنوعات سے توبہ کرتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں قرآن یہی کچھ تو کرے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
فضیلت تلاوت:
تلاوت قرآن کا بھی ثواب ہے خواہ پڑھنے والاقرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو۔مگر چونکہ قاری قرآن کا یہ ایمان ہے کہ یہ مقدس کتاب اللہ تعالی کا کلام ہے اس لئے اس کے عمل کی قدر دین کرتا ہے۔ آپ ۔ کا ارشاد ہے:
٭… تلاوت قرآن کے سلسلے میں یہ بات بہت اہم ہے کہ نماز جیسی عبادت بھی قرآنی آیات کی قراءت کے بغیر صحیح نہیں ہوتی۔جس میں سورۃ فاتحہ کی تلاوت اور زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
(لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ) ( صحاح ستہ)۔
اس کی نماز نہیں جو سورہ فاتحہ کو نہیں پڑھتا۔

اپنی دینی محفلوں میں قرآن پاک کی قراءت کوبھی زندہ کیجئے۔صحیح مسلم میں ابوامامۃسے مروی ہے کہ رسالت مآب ﷺ نے فرمایا:
إِقْرَؤُوا الْقُرآنَ فَإِنَّہُ یَأْتِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ شَفِیْعًا ِلأَصْحَابِہِ
قرآن پڑھا کرو اس لئے کہ روز قیامت یہ اپنے پڑھنے والوں کے لئے سفارشی بن کے آئے گا۔

رسول کریم ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے:
یُقَالُ لِصَاحِبِ الْقرآنِ اِقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَا فَإنَّ مَنْزِلَتِکَ عِنْدَ آخِرِ آیَۃٍ تَقْرَأُ۔
صاحب قرآن کو کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور چڑھتا جا۔ اور اسے ترتیل سے پڑہنا جس طرح تم اسے دنیا میں پڑھا کرتے تھے کیونکہ تیرا مقام اس آیت کے آخر پر ہوگا جو تو پڑھے گا۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْمَاہِرُ بِالْقُرآنِ مَعَ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ، وَالَّذِیْ یَقْرَأُ الْقرآنَ وَیَتَعْتَعُ فِیْہِ وَہُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہُ أَجْرَانِ (متفق علیہ)
قرآن کا ماہر کل محترم وپاکباز لوگوں میں ہوگا۔ اور وہ بھی جو قرآن پڑھتے وقت ہکلاتا ہے، پڑھنا اس کے لئے دشوار ہے اس کے لئے دوہرا اجر ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تلاوت کے آداب وحقوق:
اس عظیم کلام کی تلاوت کے چندآداب ہیں جنہیں ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے:

۱۔ سب سے پہلا ذریعہ اس کا حق تلاوت ہے۔ اسے سیکھنا یا سکھانا ہوگا تاکہ قرآن کریم کی تلاوت صحیح نطق کے ساتھ ہو اور تصحیف و لحن سے پاک ہو۔ تجوید صوتی جمال کو کہتے ہیں جسے کان محسوس کرتے ہیں یہ ابھارتی ہے کہ ہوشیار باش، اور ہر انسان میں قرآن کریم کی طرف مائل ہونے کا داعیہ پیدا کرتی ہے۔۔تجویدو ترتیل کے ساتھ قرآن کا سیکھنا بھی ضروری ہے۔قرآن میں ہے:
{وَرَتِّلُ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً} (المزمل : ۴)۔
ترتیل دانتوں کی ترتیب کو کہتے ہیں ۔ یعنی جس طرح ہر دانت الگ الگ ہے اور ساتھ جڑا ہوا بھی، اسی طرح پڑھنے میں بھی قرآن کا ہر حرف و لفظ الگ الگ محسوس ہو اور ساتھ ملا ہوا بھی ہو۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
زَیِّنُوا الْقُرآنَ بِأَصْوَاتِکُمْ:(ابوداؤد: ۱۴۶۸، النسائی: ۲؍۱۷۹)
اپنی آوازوں سے قرآن کو مزین کیا کرو۔

۲۔ تلاوت سے قبل اپنی نیت للہیت کی بنیاد پر، قرآن سے دل کو منور کرنے ، اپنے باطن کو اس سے آراستہ کرنے اور روز قیامت رب کا تقرب حاصل کرنے کی کرنی چاہئے۔ خواہشات، مرغوبات نفس اورچمٹی ہوئی دنیوی اغراض سے بے غرض ہوکر تلاوت کی جائے توتلاوت اپنا شوق ورغبت دکھاتی ہے۔ورنہ قاری اور اللہ کے کلام کے درمیان ان میں سے کوئی شے بھی ایک گاڑھا حجاب ڈال سکتی ہے۔ نیت خالص رہے تو اس کی برکت پھلے اور پھولے گی اور اگر ناخالص رہے تو سب محنت اکارت جانے کے علاوہ نقصان وثواب سے محرومی کا سبب بھی ہوگی۔امام سفیان ثوریؒ فرمایا کرتے:
مَا عَالَجْتُ شَیْئاً أَشَدُّ عَلَیَّ مِنْ نِیَّتِی۔
مجھ پر میری نیت سے بڑھ کر کوئی معاملہ سخت ترین نہیں رہا۔

۳۔ تلاوت سے قبل مسواک کیجئے۔ خوشبو میسر ہوتو اسے بھی ضرور لگائیے، قبلہ رو ہوکر بیٹھئے اور غیر ضروری کاموں کو وقتی طور پر ترک کر دیجئے۔

۴۔ قلب کو حاضر کرلیجئے اس یقین و کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرلیجئے گویا اللہ تعالی سے یہ قرآن سنا جارہا ہے۔

۵۔ قرآن مجید کا استماع۔۔غور سے سننا۔۔فرض ہے۔ آپ ﷺ پر جب وحی قرآنی ہوتی تو آپ کی تمام تر حرکات اور توجہات کو وحی وصول کرنے کی طرف پھیر دیا جاتا تھا۔یہی وہ مشقت تھی جسے آپ برداشت کرتے ورنہ یہ عدم توجہی کی بنا پر نہ دل پر اترتا ، نہ اس میں قرار پکڑتا ، نہ یاد ہوتا اور نہ ہی آپ اسے برداشت کرپاتے۔ سامع پر بھی یہ واجب ہے کہ وہ قرآن کو توجہ سے سنے اور اس کی آیات پر غور کرے خواہ وہ اسے کسی قاری سے سن رہا ہو یا ٹی وی آڈیو اورریڈیو سے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{ وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْن} (الأعراف: ۲۰۳)
جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

۶۔ ابتداء قراءت أعوذ باللہ پڑھ کر کیجئے۔ یہ اللہ کا حکم ہے۔ پھر بسم اللہ ہر سورۃ سے پہلے بھی پڑھئے سوائے سورہ برائۃ کے۔ کسی بھی مقام سے تلاوت کے لئے أعوذ باللہ پڑھنا ہی کافی ہے۔

٭… قرآن مجید سیکھنے سکھانے کی کئی آن لائن ویب سائٹس بھی ہیں، ان سائٹس سے بھرپور مستفید اٹھایا جاسکتاہے۔


۷۔اجتماعی قراء ت بھی بہت مؤثر ہوسکتی ہے۔ اجتماعی سیشن برائے تلاوت منعقد کرکے اس مجلس کواورزیادہ وسیع اور منظم کییا جاسکتا ہے تاکہ قراء ت کرنے والا مکمل یکسوئی اور آرام وسکون کے ساتھ پڑھ اور سیکھ سکے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِی بَیْتٍ مِّنْ بُیُوْتِ اللہِ ، یَتْلُونَ کِتَابَ اللہِ وَیَتَدَارَسُونَہُ بَیْنَہُمْ، إِلاَّ نَزَلَتْ عَلَیْہِمُ السَّکِیْنَۃُ، وَغَشِیَتْہُمُ الرَّحْمَۃُ، وَحَفَّتْہُمُ الْمَلَائِکَۃُ، وَذَکَرَہُمُ اللہُ فِیْمَنْ عِنْدَہُمْ۔
اللہ تعالی کے کسی گھر( مسجد) میں جب بھی لوگ اکٹھا ہوکر کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ضرور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے فرشتے گھیرا ڈال دیتے ہیں اور اللہ تعالی اپنے پاس والوں کے ہاں ایسے لوگوں کو یاد کرتا ہے۔( صحیح مسلم: ۲۶۹۹)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
٭… حلقات بھی قرآنی تعلیم کے لئے بے حد مفید ثابت ہوئے ہیں۔ علماء تفسیرحالات وواقعات کو سامنے رکھ کرپوری ہمدردی اور ذمہ داری کے ساتھ اگر اسے واضح کریں تو لوگوں میں قرآن سیکھنے کا جذبہ و ذوق دوبالا ہوجائے۔

٭… خواتین اپنے محلے کے بچوں بچیوں کو قرآن سے آشنا کرنے کے لئے گھر گھر میں یہ خیر لا سکتی ہیں۔ حفاظ کرام مسجدوں میں یا سکولوں میں اپنا وقت دے کر کئی پیاسوں کو سیراب کرسکتے ہیں۔

٭… قرآن فنڈ قائم کرکے بے روزگار حفاظ کو خادم قرآن بنایا جاسکتا ہے اور دیہاتوں وقصبوں میں پھیلی ہوئی بے راہ روی کو اس قرآن کے ذریعے دور کیا جاسکتا ہے۔

۸۔ قرآن کریم کے اخلاق عالیہ اور آداب فاضلہ کیا ہیں؟ دوران تلاوت، انہیں اپنائے بغیر قرآن کریم کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ مثلاًتدبر وتفکرہی اخلاق وآداب سے آگاہی دیتا ہے۔خشیت الٰہی اسی سے ہی پیدا ہوتی ہے اور قرآن کی عظمت دل میں براجمان ہوکراس کا ادب و احترام سکھاتی ہے۔ زوالی کیفیت سے دوچار یہ امت غور ورتدبر سے ہی اپنی عظمت رفتہ بحال کرسکتی ہے۔ اس کی قائدانہ باتیں ہی امت میںنئی قیادت ابھار سکتی ہے۔ہمیں رب العالمین کے اس ارشاد پر ہی صرف غور کرلینا چاہئے۔
{ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَقَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖط وَیُرِیْدُ الشَّیْطٰن اَنْ یُّضِلَّہُمْ ضَلٰلاًم بَعِیْدًا} (النساء :۶۰)
وہ چاہتے ہیں کہ اپنے معاملات طاغوت کے پاس لے جائیں حالانکہ انہیں اس کے انکار کا حکم دیا گیا ہے شیطان بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ انہیں بڑی دور کی گمراہی میں لے جائے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قرآنی نسل کی تیاری کے لئے یہ سبھی کام اولاد کے بچپنے سے ہی شروع کرنے کے ہیں۔اس کے لئے سازگارماحول مہیا کرنا والدین کا فرض ہے۔دنیا میں مختلف مقامات پر اس کے مواقع الحمد للہ آج بھی موجود ہیں۔ اولاد کی درست اور صحیح فکری وعملی روش کا یہی وقت ہی بہت مناسب ہوتا ہے بڑے ہو کراس بارے میں سوچنا تو شادی آسان ہو مگر اولاد کو اس طرف راغب کرنا آسان نہیں ہوتا۔ مگرہمارامیلان ورغبت ایسی تقریروں یا پروپیگنڈے کی طرف ہوگیا ہے جو بظاہر حیران کن مگر نتیجۃً تباہ کن ہیں۔اس بگاڑ اور اخلاقی انحطاط نے ہمیں اپنوں کی نظر میں بھی اشاروں اور غمزوں کا شکار بنادیا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔یہ بے نیازی کیا محبت کی علامت ہے یا نعوذ باللہ نفرت وحقارت کا اظہار ہے۔ امام شافعیؒ نے اسے شاید یوں واضح فرمایا تھا:

فَہَــــذَا زَاہِــدٌ فـِــیْ قُـــــرْبِ ہَـــــذَا وَہَــــذَا فِیْــــہِ أَزْہَــــدُ مـِنـْــــہُ فِـیْـــــہِ

یہ اس کے قرب میں زاہد بنا ہوا ہے اور دوسرا اس زہد میں اس سے بھی زیادہ ڈوبا ہوا ہے۔​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تزکیہ:
اس سے مراد طہارت نفس ہے۔ دل بھی لوہے کی طرح زنگ آلود ہوجاتے ہیں۔ دلوں میں جمی جہالت، رسم ورواج، آباء پرستی، اکابرپرستی، زیغ، سوء فہمی، کج فہمی، لاعلمی، فرسودہ نظریات وعقائد، دل کو ناپاک رکھتے اور نجس بنادیتے ہیں۔جنہیں ہم اعمال وگفتگو کی صورت میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ دل ہی ہر شر اور خیر کا مرکز ہے۔اس لئے یہی اگران نجاستوں سے پاک اور صاف ہوجائے تو پورا جسم ، سوچ اور عمل سمیت صاف ستھرا ہوجاتا ہے۔ اور اگر یہی بدبودار اور متعفن ہو تو اعمال واقوال بھی متعفن ہوجاتے ہیں۔دلوں کی طہارت اللہ کے کلام کو یاد کرنے، سیکھنے اور سمجھنے سے ہوتی ہے نہ محض خالی مراقبوں سے۔شیطانی خیالات اور ہر قسم کے شک وشبہ کا ازالہ اسی سے ہوتاہے اور دلوں میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت کو یہی جگاتا اوربساتا ہے۔آپ ﷺ نے تزکیہ نفس فرما کر ایسی پاکیزہ ہستیاں معاشرہ کو پیش کیں کہ فرشتے بھی گردوں سے اتر کر قطار اندر قطار انہیں سلام کرتے اور مدد کرتے ۔ یہ وہ مقدس ہستیاں تھیں جو ان دنیوی اغراض سے بھی باز رہیں جن میں جاہ ومال یا شہرت ومخدوم ہونے کا شائبہ ہوتا۔اور نہ ہی انہیں اپنے معاصرین پر سبقت لے جانے کی حرص تھی۔امام سفیانؒ بن عیینہ فرماتے ہیں: مجھے قرآن کا فہم حاصل تھا لیکن جب میں نے خلیفہ ابوجعفر سے تھیلی قبول کرلی تو اس علم سے میں محروم ہو گیا ۔آپ ﷺ نے اپنے ان لائق شاگردوں میں اطاعت شعاری کا ایساسچا جذبہ بیدار کیا کہ وہ تقوی کی انتہاؤں تک پہنچ گئے۔اور رضائے رب کے مستحق بن گئے۔یہی وہ سچی تعلیمات ہیں جو ہمیں سیرت رسول سے ہی مل سکتی ہیں جن سے تزکیہ نفس حاصل ہوجاتا ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول یاد رکھنے کا ہے:
لَیْسَ الْعِلْمُ مَا حُفِظَ، اَلْعِلْمُ مَا نَفَعَ۔
علم وہ نہیں جو یاد کیا ہوا ہو بلکہ علم وہ ہے جس کا فائدہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تعلیم کتاب:
لفظ تعلیم میں کتاب کی بتدریج تعلیم وتربیت کا مفہوم ملتا ہے ۔ جس میں ماحول ومواقع اور مکمل کتاب کی تعلیم حاصل کرنا اورکرانا ہے نہ کہ اس کے بعض حصوں یا سورتوں کی تعلیم ۔ اورنہ ہی ایک ہی ہلے میں سارے قرآن مجید کی تعلیم اس سے مراد ہے۔مکمل کتاب کا بتدریج سیکھنا ایمان ، یقین، اخلاص، عمل، علم جیسی چیزوں میں پختگی پیدا کرتا ہے ۔اس کے لئے مذاکرے منعقد ہوں، گروپ سٹڈی ہو، حلقے ہوں، دروس ہوں، بچوں، بڑوں اور عورتوں تک کی تعلیم ہو۔ اور مختلف قرآنک سنٹرز کا احیاء واجراء ہو۔اسی کو آپ ﷺ نے رواج دیا اور اس کی شمع گھرگھر جلائی گئی۔آپ ﷺ خود معلم تھے اس لئے تعلیم قرآن وحکمت ہی کے فوائد آپ ﷺ بہت بہترجانتے تھے۔آپ ﷺ معلمین کا انتخاب فرماتے اور انہیں متعین کرتے۔یہ وہ شرف ہے جو آپ ﷺنے معلمین کو بخشا۔

تعلیم حکمت سے مراد وہ دانائی وحکمت کی باتیں یا اعمال ہیں جو آپ ﷺ قرآن کریم کی روشنی میں کرتے یابجالاتے۔ حکمت کسی چیز کو اس کے مقام پر انتہائی اتقان (Accuracy)کے ساتھ رکھنے کو کہتے ہیں۔آپ ﷺ نے نہ صرف الفاظ وآیات قرآنیہ میں پوشیدہ معانی اور حکمتوں کو سکھایا بلکہ عملاً بھی انہیں کرکے دکھایا۔ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرآنُ۔ آپ ﷺکے اخلاق ، قرآن پاک کی صحیح تصویر تھے۔آپ ﷺ ہی اس کے اولین معلم ٹھہرے جس سے قرآن کی عملی اور اخلاقی تعلیم مزید واضح ہوگئی۔یہی وہ حکمت تھی جس کے سیکھنے کا حکم ازواج مطہرات کو بھی دیا گیا۔ اس لئے قرآن کریم کا صحیح فہم اخلاق رسول اور اعمال رسول سے ہی حاصل ہوتا ہے نہ کہ کسی کی حکیمانہ یا فلسفیانہ باتوں سے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تبصرہ:
یہی وہ اصلاحی ، اسلامی ،تربیتی اور وائمی نصاب ہے جسے رسول اللہ ﷺ نے بطور معلم اپنے اصحاب کو پڑھایا، اس کی تعلیم عام کی اور انتہائی مختصر عرصے میں ایسا اخلاقی، روحانی اور علمی انقلاب برپا کیا جس کا تصور آج کے ترقی یافتہ وسائل کی موجودگی میں بھی نہیں کیا جاسکتا۔ صاف ستھرے اور ہنستے بستے معاشرے کی طرح آپ ﷺنے ڈالی۔ ایسے صاحب علم افراد تیار کئے جنہیں دنیا کی کوئی طاقت، کوئی تخریبی فلسفہ، کوئی غلط دعوت وتحریک کسی دام نہ خرید سکی۔ایسے نوجوان نکالے جنہوں نے اپنی زندگیاں حق وصداقت اور علم وہدایت کے لئے قربان کردیں۔ جنہیں کسی کے لئے بھوکا رہنے میں ایسی لذت آئی جو کسی کو پیٹ بھر کر کھانے اور نان ونوش میں آتی ہے۔ جنہیں کھونے میں وہ مسرت حاصل ہوتی جو بعض اوقات کسی کو پانے میں نہیں ہوتی۔جنہوں نے اپنی بہترین توانائیاں ، ذہن کی بہترین صلاحتیں انسانیت کو تباہی سے بچانے کے لئے وقف کردیں۔یہی وہ دستار فضیلت ہے اور یہی درس نظامی ہے جس کی آج ہرفرد کو ضرورت ہے۔

٭…اس میں کوئی شک نہیں کہ امت آج اپنی افادیت کے سب سے اہم پہلوکو نظر انداز کرکے گونا گوں مسائل کا شکار ہے اور اس منہج سے ہٹ کر ترقی کے نام سے بہکا دی گئی ہے۔ہمارا دنیا کی بھول بھلیوں میں کھو جانا، فکر کے سوتوں کا استعمال نہ کرنا،غیروں کی سوچ اور فکر کا دست نگر بن جانا، تعلیم وتدریس میں اپنی آمدنی وبجٹ کا ایک خاطر خواہ حصہ نہ رکھنا، بحیثیت ایک مسلمان کے قرآن مجید کی تعلیم کو ثانوی حیثیت دینا، اس کی تعلیم کے لئے معلمین کا ۔۔معدودے چند کے۔۔غیر عالم اور پیشہ ور ہونا، حکومتی سطح پر جدید تعلیم کی سرپرستی کرکے قرآنی تعلیم کو غیر اہم بنانا، ذہین وفطین نوجوانوں میں اس کے جاننے اور سمجھنے کا ذوق و شوق نہ ہونا،نیز غورو فکر کرکے دور حاضر کے سوالات کا جواب اس کتاب میں تلاش نہ کرنا وغیرہ یہ امت کی بدقسمتی ہے کہ اتنی اعلی کتاب جسے اچھی توقعات وابستہ کرکے دی گئی آج وہی اس سے روگرداں ہے۔ٍخاص وعام مسلمان نے اس کتاب کو جتنا (ignore) کیا ہے شاید ہی کوئی اورمذہبی یا دنیاوی ناول وکہانی کی کتاب ہو جس سے یہ سلوک روا رکھا گیا ہو۔انجینئرنگ، میڈیکل، کمپیوٹر سائنس، اکنامکس، ریاضی وغیرہ کی کسی کتاب کا کوئی صفحہ سمجھے بغیر طالب علم آگے نہیں بڑھتا مگر یہ کتاب بغیر سمجھے پڑھ بھی لی جاتی ہے۔

٭٭٭٭٭​
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
سوالات

۱۔ قرآن کریم کا تعارف کراتے ہوئے اس پر ایک جامع نوٹ لکھئے۔
۲۔ لفظ قرآن کا صحیح تلفظ کیا ہے؟ اس کے مصدری معانی علماء کی آراء سمیت لکھئے۔ کیا یہ رائے درست ہے کہ قرآن بمعنی قرا ء ت ہے؟
۳۔ درج ذیل نے قرآن کریم کا تعارف کس کس طرح پیش کیا ہے؟
اللہ تعالی نے ، رسول اللہ ﷺ نے ، علماء سلف نے
۴۔ قرآن کریم کی اصطلاحی تعریف کی روشنی میں بعض خصوصیات کا ذکر کیجئے۔
۵۔ کیا قرآن مجید کے وصفی نام بھی ہیں۔ چند ایک کا تفصیلی تذکرہ کیجئے اور اگر کوئی فرق ہے تو اسے واضح کیجئے۔
۶۔ اس الٰہی کورس کے خدوخال کیا ہیں بتائیے جو اس امت کی اعلی تعلیم وتربیت کے لئے اللہ تعالی نے خود ڈیزائن کیا ہے اور جسے ہمارے رسول اللہ ﷺ نے اپنے ادارے میں پڑھایا۔
۷۔ عالم یا عالمہ بننے کے لئے اولین کورس کون سا کرنا چاہئے۔ لائبریری میں موجود مختلف درس نظامی کے سلیبس کو پڑھ کر رائے دیجئے۔

ہوم ورک
۱۔ جو آیات اللہ تعالی نے قرآن مجید کی تعریف میں بیان کی ہیں انہیں جمع کرکے لکھئے اور زبانی یاد کیجئے۔
۳۔ اصطلاحی تعریف کو زبانی یاد کرنے کے بعد اسے از خود لکھئے۔
۴۔ اسماء قرآن کو کتاب اللہ سے آیات سمیت نکالئے اور انہیں لکھئے۔
۵۔ وصفی ناموں کا معنی ومفہوم آیات سمیت یاد کیجئے اور ان کے معانی کو کتاب مترادفات القرآن از عبد الرحمن کیلانی سے تلاش کیجئے۔
۶۔ کیا قرآن کریم پڑھنے یا پڑھانے میں مشکل کتاب ہے یا آسان؟ کیا اس کا سیکھنا اور سکھانا مباح ہے یا فرض؟

مشق
۲۔ آپ اپنے محلے میں سروے کیجئے اور اس کی رپورٹ دیجئے کہ کتنے گھرانوں میں قرآن پڑھا یا پڑھایا جاتا ہے۔

قرآن کریم اور اس کے چند مباحث
 
Last edited:
Top