• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کی تفسیر کہاں سے ملے گی ؟

شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !​
الله تعالیٰ کی طرف سے پوری شریعت نازل ہوئی ہے – الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں جو حکم دیا ہے اس کی تشریح بھی خود فرمائی ہے –
الله تعالیٰ فرماتا ہے : -

ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗ

پھر ہمارے ہی ذمے ہے بیان کر دینا اس (کے معانی و مطالب) کو
(ألقيامة – ١٩ )
قرآن مجید کی تفسیر سے متعلق یہ بہت اہم وضاحت ہے ۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے اصل پیغام کی تبیین و تفہیم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ عملی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن حسب ضرورت خود ہی اپنے احکام کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ جیسے سورۃ النساء میں دو احکام کے بارے میں آیا ہے- الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
{ یَسْتَفْتُوْنَکَ… (آیت ١٢٧ اور آیت ١٧٦) کہ اے نبی ( (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) یہ لوگ تم سے فلاں مسئلے کی وضاحت چاہتے ہیں....}
اس کے علاوہ ایک اورواضح مثال دیکھیے-
الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ۝ اَيَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ

اے وہ لوگو جوایمان لائے ہو فرض کیے گئے ہیں تم پر روزے جیسا کہ فرض کیے گئے ان لوگوں پر جوتم سے پہلے (تھے)تاکہ تم بچ جاؤ ( گناہوں سے)۔ (یہ روزے) چند دن ہیں گنتی کے-(البقرہ -183،184)
دوسری آیت میں الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ ھُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۭ وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ ۭ يُرِيْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ۡ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا ھَدٰىكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ

رمضان کا مہینہ وہ ہے جو نازل کیا گیا ہے اس میں قرآن(جو) ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور روشن دلائل ہیں ہدایت کے اور (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کے پس جو موجود ہو (گھر میں)تم میں سے کوئی (اس ) مہینے میں تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے اس(مہینے)کے اورجوبیمار ہویاسفر پر ہو توگنتی پوری کرے دوسرے دنوں سے چاہتاہے اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا اور وہ نہیں چاہتا تمہارے ساتھ سختی کرنا اورتاکہ تم پوراکرلو گنتی (تعداد) کو اورتاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی اس (احسان) پرجو اس نے ہدایت دی تم کو اور اس لیے بھی تاکہ تم شکر اداکرو۔(البقرہ – 185)
مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میں الله تعالٰی نے روزوں کے ایام کی وضاحت نہیں فرمائی کہ کتنے ہیں اور کس مہینہ میں ہیں –دوسری آیت میں الله تعالٰی نے اس کی وضاحت فرما دی کہ روزوں کہ ایام ایک مہینہ کے ہیں اور وہ مہینہ رمضان کا ہے –
یہ دونوں آیات اس بات کی واضح مثال ہیں کہ قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید میں موجود ہے –

چنانچہ قرآنی احکام کی تبیین و تشریح خود قرآن نے بھی کی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام زبانِ رسالت سے بھی کرایا ہے ۔ اس کی ضرورت اور اہمیت قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے
الله تعالیٰ فرماتا ہے : -


وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ

اور ہم نے نازل کیا آپ کی طرف الذکر تاکہ آپ واضح کردیں لوگوں کے لیے جو کچھ نازل کیا گیا ہے ان کی جانب اور تاکہ وہ غور و فکر کریں(النحل – 44 )
منددرجه بالا آیت سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی تشریح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کرتے ہیں لیکن وہ اپنی طرف سے نہیں کرتے بلکہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے –
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جو تشریح فرمائی وہ احادیث میں محفوظ ہے –

الله تعالیٰ فرماتا ہے : -

اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا

بے شک نماز مومنوں پر مقررہ اوقات میں(پڑھنا) فرض ہے(النساء – ١٠٣ )
اس آیت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ "صلاة " كيا ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ "صلاة " کے مقررہ اوقات کون سے ہیں - "صلاة " کی تشریح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمائی اور اور اس کے اوقات بھی بتائے-
ابو مسعود فرماتے ہیں :-
أَنَّ جِبْرِيلَ نَزَلَ فَصَلَّی فَصَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّی فَصَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّی فَصَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّی فَصَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَلَّی فَصَلَّی رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ بِهَذَا أُمِرْتُ فَقَالَ عُمَرُ لِعُرْوَةَ انْظُرْ مَا تُحَدِّثُ يَا عُرْوَةُ أَوَ إِنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام هُوَ أَقَامَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقْتَ الصَّلَاةِ فَقَالَ عُرْوَةُ کَذَلِکَ کَانَ بَشِيرُ بْنُ أَبِي مَسْعُودٍ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ

جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور انہوں نے نماز پڑھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ نماز پڑھی(١) پھر انہوں نے نماز پڑھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ نماز پڑھی(٢) پھر انہوں نے نماز پڑھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ نماز پڑھی(٣) پھر انہوں نے نماز پڑھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ نماز پڑھی(٤)پھر انہوں نے نماز پڑھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے ساتھ نماز پڑھی (٥)پھر حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح حکم دیا گیا ہے حضرت عمر بن عبدالعزیز (رض) نے حضرت عروہ سے فرمایا اے عروہ دیکھو تم کیا بیان کر رہے ہو کہ جبرائیل نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نمازوں کے اوقات بتائے حضرت عروہ نے کہا کہ بشیر بن ابن مسعود نے اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 1375 )
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ "صلاة " کی تشریح اور اس کے اوقات الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوۓ-
پھر یہی تشریح اور صلاة کے اوقات کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو بتا دی –

الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ

پھرجب امن میں ہوجاؤ تو یاد کرو اللہ کو (ایسے) جیسے اس نے سکھایا ہے تم کو جو تم نہیں جانتے تھے۔ (البقرہ – ٢٣٩ )
الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "صلاة " کا طریقہ الله تعالیٰ نے سکھایا ہے لیکن یہ طریقہ قرآن مجید میں نہیں ، احادیث نبوی میں ہے – گویا احادیث نبوی میں جو طریقہ سکھایا گیا ہے وہ الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے –
کس "صلاة " میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں ، ہر رکعت میں کتنے رکوع اور سجدے کیے جائیں ، قیام و قعود اور رکوع و سجود میں کیا پڑھا جاۓ ، یہ سب کچھ احادیث نبوی میں موجود ہے-اور یہ سب کچھ الله تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھایا گیا –
مثلا سجدہ کی کفیت بیان کرتے ہوۓ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : -
حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَی سَبْعَةِ أَعْظُمٍ عَلَی الْجَبْهَةِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَی أَنْفِهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّکْبَتَيْنِ وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ وَلَا نَکْفِتَ الثِّيَابَ وَالشَّعَرَ

معلی بن اسد، وہیب، عبداللہ بن طاؤس، طاؤس، ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں کے بل سجدہ کروں، پیشانی کے بل اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنی ناک اور دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں اور پیروں کی طرف اشارہ کیا اور یہ بھی فرمایا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کپڑوں کو اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔
(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 785)


یعنی قرآنی احکام کی تشریح خود قرآن نے بھی کی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام زبانِ رسالت سے بھی کرایا ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے جہاں سے قرآن کی تفسیر دیکھی جا سکے – لیکن افسوس کہ آج کے اس دور میں بہت سی تفاسیر لکھی گئیں لیکن ان میں تفسیر قرآن یا حدیث نبوی سے لکھنے کی بجائے مختلف اقوال الرجال لکھے گئے – قال فلاں ، قال فلاں . لوگوں کو اسی بات میں الجھا دیا گیا او ر اس طرح لوگ فرقہ بندی کا شکار ہو گئے –
لوگوں نے انہیں مختلف اقوال کو حجت سمجھا اورمختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور اس طرح امت کا کثیر گروں شرک کرنے لگا – اور جب انہیں حقیقت سے آگاہ کیا گیا تب وہ کہنے لگے کہ میں نے تو فلاں کی تفسیر پڑھی ہے اس نے تو ایسا کچھ نہیں لکھا –
بہرحال ابھی بھی وقت ہے لوگو ! سمجھ جائیے اور حق بات کو قبول کر لیجیے – صرف الله تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ کی پیروی کیجیے ، اگرواقعی آپ اس دنیا میں بھی فلاح چاہتے ہیں اور آخرت میں بھی –


الله تعالیٰ فرماتا ہے
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖٓ اَوْلِيَاۗءَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ

تم پیروی کرو اس کی جو نازل کیا گیا ہے تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اور نہ پیروی کرو اس کے علاوہ اولیاء کی ،
بہت ہی کم تم نصیحت حاصل کرتے ہو۔(الاعراف – ٣ )
موجودہ فرقہ بندی کو اگر ختم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے تو وہ یہی ہے کہ اس آیت پر سختی سے عمل کیا جاۓ – اور صرف الله تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ شریعت پر عمل کیا جائے-

اتنی واضح وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی انکار کر دے اور اپنی ضد پر قائم رہے تو وہ انجام سن لے : -
الله تعالٰی فرماتاہے : -
وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَكَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَآ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَــحِيْمِ

اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اور جھٹلایا ہماری آیات کو وہ لوگ اہل دوزخ ہیں۔
(المائدہ -٨٦ )

الله تعالٰی سےدعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے کلام پاک کو سمجھنے اور اور اس پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق دے (آمین )
والحمدللہ رب العلمین
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قرآن مجید کی تفسیر سے متعلق یہ بہت اہم وضاحت ہے ۔ اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کے اصل پیغام کی تبیین و تفہیم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ عملی طور پر اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ قرآن حسب ضرورت خود ہی اپنے احکام کی وضاحت بھی کرتا ہے۔ جیسے سورۃ النساء میں دو احکام کے بارے میں آیا ہے- الله تعالیٰ فرماتا ہے : -
اس کے علاوہ ایک اورواضح مثال دیکھیے-
مندرجہ بالا آیات میں سے پہلی آیت میں الله تعالٰی نے روزوں کے ایام کی وضاحت نہیں فرمائی کہ کتنے ہیں اور کس مہینہ میں ہیں –دوسری آیت میں الله تعالٰی نے اس کی وضاحت فرما دی کہ روزوں کہ ایام ایک مہینہ کے ہیں اور وہ مہینہ رمضان کا ہے –
یہ دونوں آیات اس بات کی واضح مثال ہیں کہ قرآن مجید کی تفسیر قرآن مجید میں موجود ہے –
چنانچہ قرآنی احکام کی تبیین و تشریح خود قرآن نے بھی کی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام زبانِ رسالت سے بھی کرایا ہے ۔ اس کی ضرورت اور اہمیت قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے
منددرجه بالا آیت سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی تشریح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کرتے ہیں لیکن وہ اپنی طرف سے نہیں کرتے بلکہ وہ الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے –
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جو تشریح فرمائی وہ احادیث میں محفوظ ہے –
بے شک نماز مومنوں پر مقررہ اوقات میں(پڑھنا) فرض ہے(النساء – ١٠٣ )
اس آیت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ "صلاة " كيا ہے اور نہ یہ معلوم ہے کہ "صلاة " کے مقررہ اوقات کون سے ہیں - "صلاة " کی تشریح رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمائی اور اور اس کے اوقات بھی بتائے-
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ "صلاة " کی تشریح اور اس کے اوقات الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوۓ-
پھر یہی تشریح اور صلاة کے اوقات کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو بتا دی –
الله تعالیٰ فرماتا ہے کہ "صلاة " کا طریقہ الله تعالیٰ نے سکھایا ہے لیکن یہ طریقہ قرآن مجید میں نہیں ، احادیث نبوی میں ہے – گویا احادیث نبوی میں جو طریقہ سکھایا گیا ہے وہ الله تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے –
کس "صلاة " میں کتنی رکعتیں پڑھی جائیں ، ہر رکعت میں کتنے رکوع اور سجدے کیے جائیں ، قیام و قعود اور رکوع و سجود میں کیا پڑھا جاۓ ، یہ سب کچھ احادیث نبوی میں موجود ہے-اور یہ سب کچھ الله تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سکھایا گیا –
یعنی قرآنی احکام کی تشریح خود قرآن نے بھی کی ہے اور اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اس کا اہتمام زبانِ رسالت سے بھی کرایا ہے ۔ اس کے علاوہ کوئی چیز نہیں ہے جہاں سے قرآن کی تفسیر دیکھی جا سکے – لیکن افسوس کہ آج کے اس دور میں بہت سی تفاسیر لکھی گئیں لیکن ان میں تفسیر قرآن یا حدیث نبوی سے لکھنے کی بجائے مختلف اقوال الرجال لکھے گئے – قال فلاں ، قال فلاں . لوگوں کو اسی بات میں الجھا دیا گیا او ر اس طرح لوگ فرقہ بندی کا شکار ہو گئے –
لوگوں نے انہیں مختلف اقوال کو حجت سمجھا اورمختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئے اور اس طرح امت کا کثیر گروں شرک کرنے لگا – اور جب انہیں حقیقت سے آگاہ کیا گیا تب وہ کہنے لگے کہ میں نے تو فلاں کی تفسیر پڑھی ہے اس نے تو ایسا کچھ نہیں لکھا –
بہرحال ابھی بھی وقت ہے لوگو ! سمجھ جائیے اور حق بات کو قبول کر لیجیے – صرف الله تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ کی پیروی کیجیے ، اگرواقعی آپ اس دنیا میں بھی فلاح چاہتے ہیں اور آخرت میں بھی –
موجودہ فرقہ بندی کو اگر ختم کرنے کا کوئی ذریعہ ہے تو وہ یہی ہے کہ اس آیت پر سختی سے عمل کیا جاۓ – اور صرف الله تعالٰی کی طرف سے نازل کردہ شریعت پر عمل کیا جائے-
اتنی واضح وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی انکار کر دے اور اپنی ضد پر قائم رہے تو وہ انجام سن لے : -
الله تعالٰی سےدعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے کلام پاک کو سمجھنے اور اور اس پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق دے (آمین )
۔
@راشد محمود صاحب! یہ جو اوپر آپ کی تحریر سے اقتباسات پیش کئے گئے ہیں، یہ آپ کے پچھلے مراسلہ کے ہی ہیں!
اور یہ تمام نہ قرآن ہیں نہ حدیث!
اور اقوال الرجال کے تو آپ قائل ہی نہیں! تو آپ کے اقوال تو کسی "رجل" کے نہیں ہونے چاہئیں!
تو آپ کے ان اقوال کو کیا ہم کسی فرشتہ کے اقوال سمجھیں، یا کسی جھوٹے نبی کی جھوٹی وحی!
یا کسی شیطان کے چیلے پر نازل ہونے والی شیطان کی وحی!

آپ کا ارادہ کہیں مرزا غلام قادیانی مردود علیہ لعنۃ کی طرح اپنے مردود اقوال کو وحی باور کروانے کا تو نہیں!
اسی لئے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ اپنا علاج کروائیں!
 
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
اور یہ تمام نہ قرآن ہیں نہ حدیث!
آنکھوں سے انکار کی پٹی کو ہٹا کر دیکھیں تو ان شاء الله آپ کو قرآن بھی نظر آ جائے گا اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی حدیث بھی ! ان شاء الله
غلط فہمی : -

اور اقوال الرجال کے تو آپ قائل ہی نہیں! تو آپ کے اقوال تو کسی "رجل" کے نہیں ہونے چاہئیں!
ازالہ : - اقوال الرجال کا رد آپ سے برداشت نہیں ہوا !؟ شاید اسی لئے ایسا جملہ آپ نے لکھا --- بہرحال پھر سے لکھ دیتے ہیں کہ اقوال الرجال کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،،،، اہمیت ہے تو صرف قرآن اور احادیث نبوی کی،،،،، اور ہم نے تحریر میں قرآن اور احادیث نبوی کو قبول کرنے کی ہی نصیحت کی ہے -


تو آپ کے ان اقوال کو کیا ہم کسی فرشتہ کے اقوال سمجھیں، یا کسی جھوٹے نبی کی جھوٹی وحی!
یا کسی شیطان کے چیلے پر نازل ہونے والی شیطان کی وحی!
قلم چلانا آسان کام ہے لیکن اس کو چلا کر لکھنا کیا ہے !؟ یہ بہت اہم بات ہے --- اس لئے سوچ سمجھ کر لکھا کیجیے ---
اپنے دل کا میل دل میں ہی رکھیں ،،، اسے یوں عیاں نہ کیجیے ---

آپ کا ارادہ کہیں مرزا غلام قادیانی مردود علیہ لعنۃ کی طرح اپنے مردود اقوال کو وحی باور کروانے کا تو نہیں!
اپنی باتوں کو آپ دوسروں پر صادر کیوں کرتے ہیں ؟؟؟ نعوذباللہ
آپ کا تو مسلکی تعصب کی وجہ سے کوئی حال ہی نہیں ہے !؟ (نوٹ : - جو نبی ہونے کا دعوی کرے گا تو وہ کافر ہے اور اس متعلق تحریر جلد یہاں (فارم پر ) آپ کے سامنے ہو گی ،،، ان شاء الله ،،،)
اب آپ کا یہ کہنا کہ
اپنے مردود اقوال کو وحی باور کروانے کا تو نہیں!
تو جناب ہماری تحریر کو ایک دفعہ پھر سے پڑھیے --- اس میں جو قرآن اور احادیث لکھی گئیں ہیں تو ان کے وحی ہونے میں شک و شبہ نہیں ہے ---
اور جو ساتھ وضاحت ہے وہ ہمارے الفاظ ہیں جو کہ قرآن اور حدیث سے ہی لکھے گئے ہیں ! اب آپ نے ان کو
مردود
کہا ہے تو جناب
ہمّت کیجیے اور ان کو غلط ثابت کرکے دکھائیے!
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
اور جو ساتھ وضاحت ہے وہ ہمارے الفاظ ہیں جو کہ قرآن اور حدیث سے ہی لکھے گئے ہیں ! اب آپ نے ان کو
ابتسامہ
بات صرف اتنی ہے کہ آپکے نزدیک صرف آپ ہی حجت ہیں.
دوسرے لوگ قرآن و سنت کی روشنی میں کچھ کہیں وہ حجت نہیں. لیکن آپ کے اقوال حجت ہیں. واہ کیا خوب اصول اپنایا ہے
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
بہرحال پھر سے لکھ دیتے ہیں کہ اقوال الرجال کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،،،، اہمیت ہے تو صرف قرآن اور احادیث نبوی کی،،،،، اور ہم نے تحریر میں قرآن اور احادیث نبوی کو قبول کرنے کی ہی نصیحت کی ہے -
مثلا سجدہ کی کفیت بیان کرتے ہوۓ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: -

حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَی سَبْعَةِ أَعْظُمٍ عَلَی الْجَبْهَةِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَی أَنْفِهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّکْبَتَيْنِ وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ وَلَا نَکْفِتَ الثِّيَابَ وَالشَّعَرَ



قرآن و حدیث رجال کے ذریعے سے ہی ہم تک پہنچا ہے آپ کی عبارتوں میں ہی تضاد ہے صحیح مشورہ دیا ہے محترم ابن داود نے
 
Last edited:
شمولیت
اکتوبر 24، 2016
پیغامات
216
ری ایکشن اسکور
22
پوائنٹ
35
بسم الله الرحمن الرحیم
امابعد !​
غلط فہمی : -
مثلا سجدہ کی کفیت بیان کرتے ہوۓ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: -

حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَی سَبْعَةِ أَعْظُمٍ عَلَی الْجَبْهَةِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَی أَنْفِهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّکْبَتَيْنِ وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ وَلَا نَکْفِتَ الثِّيَابَ وَالشَّعَرَ



قرآن و حدیث رجال کے ذریعے سے ہی ہم تک پہنچا ہے آپ کی عبارتوں میں ہی تضاد ہے صحیح مشورہ دیا ہے محترم ابن داود نے
ازالہ : -
گواہی کس کو کہتے ہیں ؟؟؟ آپ نے راویوں کی نشاندہی کر دی لیکن جو انہوں نے گواہی دی یعنی
" قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اس بات کو آپ نے نظرانداز کر دیا !؟ راوی نے تو رسول الله کا عمل بیان کیا نہ کہ اپنی رائے ! لیکن محض اس لئے کہ آپ کو ہم سے چڑ ہے کہ ان کے دلائل کا رد ضرور کرنا ہے ! وہ بھی محض اس لئے کہ آپ نے اپنے مذہب کو ثابت کرنے کی کوشش کرنی ہے !؟
اب چاہے آپ کو جیسی بھی الٹی سیدھی باتیں کرنا پڑیں آپ کو کوئی پرواہ نہیں ہے !؟ انا للہ و انا الیہ راجعون
بہرحال ہمارا کام بس نصیحت کر دینا ہے ،،، وہ مذکور بالا مضمون میں کر دی گئی ہے --- الحمدللہ
اب آپ قبول کر لیں تو آپ ہی کا بھلا ہے اور اگر آپ انکار کر دیں تو نقصان آپ ہی کا ہے !
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اس میں جو قرآن اور احادیث لکھی گئیں ہیں تو ان کے وحی ہونے میں شک و شبہ نہیں ہے ---
اور جو ساتھ وضاحت ہے وہ ہمارے الفاظ ہیں جو کہ قرآن اور حدیث سے ہی لکھے گئے ہیں !
زبردست !
یعنی آپ فرما رہے ہیں :
قرآن و حدیث کے وحی ہونے میں شبہ نہیں ، اور امام الائمہ راشد محمود کی ’’ وضاحت ‘‘ کے ’’ حق ‘‘ ہونے میں بھی شبہ نہیں ،
اسی لئے محترم بھائی ابن داود صاحب نے بالکل بجا فرمایا کہ :
اور اقوال الرجال کے تو آپ قائل ہی نہیں! تو آپ کے اقوال تو کسی "رجل" کے نہیں ہونے چاہئیں!
تو آپ کے ان اقوال کو کیا ہم کسی فرشتہ کے اقوال سمجھیں، یا کسی جھوٹے نبی کی جھوٹی وحی!
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
426
پوائنٹ
197
مثلا سجدہ کی کفیت بیان کرتے ہوۓ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : -
حَدَّثَنَا مُعَلَّی بْنُ أَسَدٍ قَالَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَی سَبْعَةِ أَعْظُمٍ عَلَی الْجَبْهَةِ وَأَشَارَ بِيَدِهِ عَلَی أَنْفِهِ وَالْيَدَيْنِ وَالرُّکْبَتَيْنِ وَأَطْرَافِ الْقَدَمَيْنِ وَلَا نَکْفِتَ الثِّيَابَ وَالشَّعَرَ

معلی بن اسد، وہیب، عبداللہ بن طاؤس، طاؤس، ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں کے بل سجدہ کروں، پیشانی کے بل اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اپنی ناک اور دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں اور پیروں کی طرف اشارہ کیا اور یہ بھی فرمایا کہ ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ نماز میں کپڑوں کو اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔
(صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 785)
بہرحال پھر سے لکھ دیتے ہیں کہ اقوال الرجال کی کوئی اہمیت نہیں ہے ،،،، اہمیت ہے تو صرف قرآن اور احادیث نبوی کی،،،،، اور ہم نے تحریر میں قرآن اور احادیث نبوی کو قبول کرنے کی ہی نصیحت کی ہے -
جناب یہ فارمولا کونسی لیبارٹری سے لیا ہے؟

ذرا اپنی ہی ہائی لائیٹ عبارتوں پر غور کریں
 
Top