• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کی متعدد قراء ات کو ثابت کرنے والی جملہ اَحادیث کی تخریج اور جائزہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کی متعدد قراء ات کو ثابت کرنے والی
جملہ اَحادیث کی تخریج اور جائزہ

ڈاکٹر اَبومجاہد عبدالعزیز القاری
مترجم:ڈاکٹر حافظ حسن مدنی​
زیرنظر مقالہ مدینہ یونیورسٹی کے شعبہ کلِّیۃ القرآن کے سابق سربراہ الشیخ ابو مجاہد عبدالعزیز القاری حفظہ اللہ کی محنت شاقہ کا ثمر ہے، جس میں قرآن مجید کے سات حروف کے بارے میں وارد احادیث کی تحقیق، سات حروف سے مراد، سات حروف کا مروّجہ قراء ات سے تعلق وغیرہ مباحث کو ائمہ و محدثین کی تائید سے پیش کیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالعزیز القاری حفظہ اللہ مدینہ منورہ یونیورسٹی کے شعبہ کلِّیۃ القرآن الکریم کے کئی سال پرنسپل رہے ہیں۔ موصوف حفظہ اللہ کا قراء ات قرآنیہ سے تعلق کے ساتھ ساتھ اصل تخصص فقہ و اُصول فقہ ہے۔ ان کا زیر نظر مضمون سہ ماہی مجلہ، مجلَّۃ کلِّیۃ القرآن الکریم،جامعہ اسلامیہ سے ماخوذ ہے۔ مقالہ کا اصل عنوان تو حدیث ’سبعہ اَحرف‘ اور اس کے متعلقات ہیں، لیکن ادارہ نے اس کے موضوعات کے پیش نظر اسے چار مستقل حصوں میں تقسیم کردیا ہے، جن کے ترجمہ کی سعادت مختلف اَرکان مجلس التحقیق الاسلامی کے حصہ میں آئی ہے۔مضمون ہذا اسی مقالہ کے پہلے حصہ پرمشتمل ہے۔ (ادارہ)
حدیث ’سبعہ احرف‘ کا شمار چند اہم اور عظیم احادیث میں ہوتا ہے۔جملہ حفاظ حدیث اس کے متواتر ہونے پر متفق ہیں۔ آئمہ دین نے اس حدیث کو اپنی کتب میں مسلسل ذکر کیاہے اور حدیث کی کوئی کتاب بھی اس کے ذکر سے خالی نہیں۔

حدیث ’’سبعۃ أحرف‘‘ کی تخریج کرنے والے محدثین عظام

اس حدیث کی تخریج امام المحدثین امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی اورامام نسائی رحمہم اللہ نے اپنی سنن نیز عمل الیوم واللیلہ میں، امام ابوداؤدرحمہ اللہ نے اپنی سنن میں ، امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی موطأ میں اور ابن حبان رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں کی ہے۔ علاوہ ازیں ابوعبیدالقاسم بن سلام رحمہ اللہ ’فضائل القرآن‘ میں ابوداؤد الطیالسی رحمہ اللہ، امام احمدرحمہ اللہ اور ابویعلی رحمہ اللہ اپنی اپنی مسانید میں اور عبدالرزاق اپنی ’مصنف‘ میں اس کو روایت کرتے ہیں۔ امام طبرانی ’الاوسط‘ اور ’الکبیر‘ میں جبکہ امام طحاوی رحمہ اللہ متعدد طرق سے ’مشکل الاثار‘ میں، ابن جریررحمہ اللہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں، بیہقی رحمہ اللہ اپنی ’سنن‘ میں اور حاکم رحمہ اللہ اپنی ’مستدرک‘ میں اس کونقل کرتے ہیں۔
اسی طرح حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے ’فضائل القرآن‘ میں اس کے طرق کی تحقیق اور اس بارے میں وارد ہونے والی جملہ احادیث کو شمار کیا ہے۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ’فتح الباری‘ میں اور ابن قتیبہ الدنیوری نے ’مشکل القرآن‘ میں حدیث سبعہ احرف کی مفصل تشریح و توضیح کی ہے۔
شیخ ابوالفضل عبدالرحمن بن احمد بن حسن بن بندار بن ابراہیم الرازی العجلی المقری رحمہ اللہ(متوفی:۴۵۴ھ) (ترجمۃ فی غایۃ النھایۃ:۱؍۳۶۱) نے ایک مستقل کتاب میں صرف اسی حدیث کی جملہ روایات جمع کرنے کے ساتھ ساتھ تفصیل سے ان کی شرح کی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں (ترجمۃ فی غایۃ النھایۃ:۱؍۳۶۵)کہ ابومحمد عبدالرحمن بن اسماعیل رحمہ اللہ (مجموع الفتاوی لابن قاسم :۱۳؍۳۸۹) المعروف ’بابن شامہ‘ رحمہ اللہ(متوفی:۶۶۵ھ) نے بھی اسی حدیث پر ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے۔ ابومجاہد (صاحب ِ مضمون)کا کہنا ہے کہ مجھے بھی ۴۰۰ صفحات کے لگ بھگ ، دو جلدوں میں حافظ یوسف بن عبدالہادی رحمہ اللہ کی ایک کتاب ’ہدایۃ الانسان إلی الاستغناء بالقرآن‘ ملاحظہ کرنے کا اتفاق ہوا، جس میں ابن شامہ رحمہ اللہ سے بکثرت اَقوال اور تحقیقات مذکور ہیں اور اس کتاب کے مصنف کے بقول ’ابن شامہ کی‘ ’حدیث ِ سبعہ احرف ‘ پرایک مستقل تصنیف ہے جو ’المرشد‘ کے نام سے ہے۔
ابن شامہ رحمہ اللہ کی اسی تصنیف کی طرف امام محمد بن جزری مقری رحمہ اللہ (صاحب ’النشر‘) نے بھی اشارہ کیاہے، جیسا کہ اپنی کتاب میں حدیث الاحرف السبع روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ’’علامہ ابن شامہ رحمہ اللہ نے بھی اس کے بارے میں ایک جامع کتاب تالیف کی ہے۔‘‘ (۱)
حدیث الاحرف السبع پر مستقل تصنیف کرنے والوں میں خود ابن جزری رحمہ اللہ کا نام نامی بھی شامل ہے۔ قراء ات کی مشہور ترین کتاب ’النشر‘ میں آپ نے ذکر کیا ہے کہ مجھے بھی اس حدیث کے طرق کے تتبع کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور ان طرق کو میں نے ایک مستقل جز میں جمع کردیا ہے۔(النشر فی القراء ات العشر:۱؍۱۹)

حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

حدیث’الاحرف السبع‘ کو صحابہ کرامؓ میں سے امیرالمومنین عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب، ابی بن کعب، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، ہشام بن حکیم بن حزام، عبداللہ بن عباس، عمرو بن عاص، حذیفہ بن یمان، عبادہ بن صامت، سلیمان بن صرد الخزاعی، ابوبکر انصاری، ابوطلحہ انصاری، انس بن مالک، (بواسطہ ابی بن کعب)، سمرہ بن جندب، ابوجہیم انصاری، عبدالرحمن بن عوف اور اُم ایوب انصاریہ رضوان اللہ اجمعین نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح عبدالرحمن بن عبدالقاری اور مسور بن مخرمہ نے بھی بالواسطہ اس حدیث کو روایت کیا ہے، اس حدیث کو روایت کرنے والے صحابہ کی مجموعی تعداد ۲۲ سے زائد ہے۔
زیرنظر حدیث کو صحابہ کرام سے بے شمار تابعین اور ائمہ حدیث کی ان گنت تعداد نے متعدد اسانید طرق سے روایت کیاہے۔ ذیل میں ہر ایک صحابی سے روایت کرنے والے محدثین اور رواۃ کے اجمالی بیان کے ساتھ اس سے نقل ہونے والی روایت کے متن و سند میں اختلاف اور اس کے متعدد طرق کا ایک مختصر جائزہ پیش کیا جاتاہے تاکہ جملہ وارد شدہ اَحادیث، متن اور سند کے اختلافات اور متعدد طرق کو ایک خاص ترتیب سے ذکر کردیا جائے جس سے قاری کے لیے آئندہ بھی ان سے استفادہ ممکن ہوسکے۔

حدیث عمر بن خطاب و ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہما

تین طرق سے کتب احادیث میں مذکور ہے:
١ امام محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ کے طریق سے جنہوں نے عروہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اور عروہ رحمہ اللہ نے عبدالرحمن بن عبدالقاری رحمہ اللہ اور مسور بن مخرمہ سے اس حدیث کا سماع کیا۔جب کہ امام زہری رحمہ اللہ سے مالک بن انس رحمہ اللہ(امام دارالہجرۃ)(۲)، عقیل بن خالدرحمہ اللہ(اخرج روایۃ البخاری و ابوعبیدوالطحاوی)،معمر بن راشد الازدیرحمہ اللہ(۳)، یونس بن یزیدرحمہ اللہ مولیٰ معاویہ بن سفیان(اخرج روایۃ مسلم والنسائی و ابن جریر و ابو عبید والطحاوی)، عبدالرحمن بن عبدالعزیز الانصاری رحمہ اللہ (اخرج روایۃ الطحاوی)،فلیح بن سلیمان الخزاعی رحمہ اللہ(اخرج روایۃ الطیالسی فی مسندہ)اور شعیب بن حمزہ رحمہ اللہ(اخرج روایۃ ابوعبید) نے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
٢ اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ رحمہ اللہ کے طریق سے: جوکہ اس طرح اسحق بن عبداللہ عن ابیہ عن جدہ عن عمر ؓ (أخرج الحدیث من طریقہ ابن جریر فی تفسیرہ:۱؍۲۵)
٣ عبیداللہ بن عمررضی اللہ عنہ کے طریق سے: بروایت عبیداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر عن عمر بن الخطاب (۴)

’ابن شہاب زہری رحمہ اللہ‘ کے طریق سے متن ِحدیث

اس حدیث کا متن صحیح بخاری میں مسور بن مخرمہ اورعبدالرحمن بن عبدالقاری کی سند سے یوں ہے:
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں ہشام بن حکیم کو سورۂ فرقان پڑھتے ہوئے سنا۔ (عبدالرزاق رحمہ اللہ سے بروایت معمریہ منقول ہے کہ میں ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے قریب سے گزرا جو کہ نبی کریمﷺ کی حیات میں سورۂ فرقان تلاوت کررہے تھے۔)
میں نے ہشام رضی اللہ عنہ کی قراء ت کو جب غور سے سنا تو معلوم ہواکہ وہ متعدد الفاظ اس طرح قراء ت کررہے ہیں جو نبی اکرمﷺ نے مجھے نہیں سکھائے تھے۔ (نسائی سے بروایت معمریہ الفاظ منقول ہیں کہ انہوں نے ایسے حروف پر پڑھا جو نبی اکرمﷺ نے مجھے نہیں سکھائے تھے۔)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں ہشام کو نماز میں ہی (جھپٹ کر) روک لینے پر تیار ہوگیا۔ (مالک کی روایت میں ہے: میں قریب ہوا کہ اس کی طرف جلدی کروں)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے بمشکل اپنے آپ کو اس فعل سے روکے رکھا حتی کہ جیسے ہی ہشام نے سلام پھیرا تو میں ان کے لباس سے کھینچتے ہوئے ان کو نبی اکرمﷺ کی طرف لے چلا۔ (مالک کی روایت میں ہے: میں نے ان کو سلام پھیرنے تک کی مہلت دی اور معمرکے الفاظ میں: میں ان کو دیکھتا رہا حتیٰ کہ انہوں نے سلام پھیر لیا… ابن عبید کی روایت میں ہے: میں نے انہیں ان کے کپڑوں سے پکڑا)
پھر میں نے ہشام رضی اللہ عنہ سے سوال کیاکہ آپ کو یہ سورہ مبارکہ اس طرز پر کس نے سکھائی ہے(جس طرح میں نے ابھی آپ سے سنی ہے) انہوں نے جواب دیا کہ نبی اکرمﷺ نے مجھے ایسے ہی سکھایا ہے تو میں نے کہا کہ تم غلط بیانی کرتے ہو، کیونکہ مجھے نبی اکرمﷺ نے یہی سورت اس طریقے پرنہیں پڑھائی جس پر میں نے تمہیں سنا ہے۔
(معمر اور یونس کی روایت میں ہے: ’تم نے غلط کہا ہے…‘اللہ کی قسم نبی اکرمﷺ نے مجھے بھی یہ سورت سکھائی ہے جو ابھی تم تلاوت کررہے تھے)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں انہیں رسول اللہﷺ کی طرف لے چلا۔ (وہاں جاکررسول اکرمﷺ سے) میں نے کہا: مجھے اس شخص سے ایسے طریقہ پرسورہ فرقان سننے کا اتفاق ہوا ہے جس پر آپﷺ نے مجھے یہ سورت نہیں پڑھائی۔
نبی اکرمﷺ نے مجھے فرمایا: ہشام کو چھوڑ دو اور ہشام تم پڑھو: تب ہشام نے اسی طرح تلاوت کی جس طرح میں نے ہشام سے سنا تھا۔ نبی اکرمﷺ نے کہا: ’’یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے۔‘‘(معمر اور یونس کی روایت میں اور مالک سے دو مقام پر یہ الفاظ ہیں: ہکذا أنزلت)
حضرت عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر نبی کریمﷺ نے مجھے پڑھنے کا حکم دیا۔ میں نے اس طرز پر قراء ت کی جس پر آپ نے مجھے سکھایا تھا تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’اسی طرح (بھی) نازل کی گئی ہے۔یہ قرآن مجید سات حروف پرنازل کیا گیاہے، لہٰذا جو حرف تمہیں آسان معلوم ہو، اس پر قرآن کی تلاوت کرو۔‘‘
(معمر کی روایت میں ہے: ’’تم ان سے پڑھو جو بھی تمہیں میسر ہو‘‘ اور یونس کی روایت میں ’’ان سات حروف میں سے اس پر پڑھو جو تمہیں میسر ہو۔‘‘ )
ابوعبید نے بروایت عقیل ان الفاظ کو مزید نقل کیا ہے کہ ابن شہاب نے سبعہ احرف کے بارے میں کہا کہ یہ سب قراء ات ایک ہی بات اور حکم ثابت کرتی ہیں جس میں ان قراءتوں کے اختلاف کی وجہ سے معنی یا مراد میں کوئی اختلاف واقع نہیں ہوتا۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ میں امام مسلم نے بھی ابن شہاب زہری سے یہ اضافہ نقل کیا ہے: ’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ یہ سات حروف ایک ہی حکم کو ثابت کرتے ہیں اورکسی شے کے حلال و حرام ہونے میں باہم مختلف نہیں ہوتے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ‘ کے طریق سے متن حدیث

ابن جریر کی روایت میں (جو کہ’عن اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ عن ابیہ عن جدہ‘کے طریق سے ہے) مذکور ہے۔ (تفسیر ابن جریر:۱؍۳۰) کہ ایک شخص نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس قراء ت کی تو آپ پر کچھ تغیرات کے ساتھ پڑھا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ میں نے جب نبی اکرمﷺ پر قراء ت کی تو آپﷺ نے تو مجھے یہ تغیرات نہ بتلائے۔ راوی کہتے ہیں کہ دونوں نبی اکرمﷺ کے پاس جھگڑا کرتے ہوئے پہنچ گئے۔ حضرت عمرﷺ نے کہا یارسول اللہﷺ کیا آپؐ نے مجھے فلاں فلاں آیت نہیں پڑھائی تھی؟ آپ ﷺ نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں۔ راوی کہتا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے دل میں کچھ کھٹکنے لگا جو نبی اکرمﷺنے آپ کے چہرہ سے پہچان لیا لہٰذا آپ کے سینے پر تین مرتبہ ہاتھ مار کر کہا:شیطان کواپنے سے دور کر۔پھر فرمایا: قرآن (میں)یہ سب عین صواب ہے، جب تک کہ تو رحمت کو عذاب اور عذاب کو رحمت سے نہ تبدیل کرے۔
اس روایت کی اسناد صحیح ہیں اور یہ بتاتی ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی وہی کچھ پیش آیا جو کہ ابی بن کعب کے ساتھ ہوا (جس کی تفصیل آگے ذکر ہوگی) اور اس زیادتی کو ماسوائے اسحق کے کسی نے ذکر نہیں کیا۔
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

ابومنہال سیار بن سلامہ روایت کرتے ہیں کہ ہمیں یہ بات پہنچی:ایک دن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منبر پر فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس آدمی کو یہ بات یاددلائے جس نے نبی اکرمﷺ سے سنا تھا کہ آپؐ نے فرمایا: بلاشبہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے اور سب کے سب حروف شفا دینے والے اورکفایت کرنے والے ہیں۔‘‘
سامعین میں سے سب حضرات کھڑے ہوگئے، حتیٰ کہ ان کی تعداد گنتی سے باہرہوگئی۔ ان سب نے گواہی دی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے یہی الفاظ اپنی زبان مبارک سے اَدا فرمائے تھے تب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ’’میں بھی ان کے ساتھ گواہی دیتاہوں۔‘‘ (مجمع الزوائد:۷؍۱۵۲)
اس روایت کو ابویعلی نے بھی اپنی مسند میں ابومنہال سے روایت کیاہے جب کہ ہیثمی کا کہنا ہے کہ اس کی سند میں ایک راوی نامعلوم ہے۔
ابومجاہد (صاحب مضمون) کہتے ہیں کہ یہ نامعلوم شخص ابومنہال اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے مابین ہے، کیونکہ ابومنہال کی آپﷺ سے ملاقات ثابت نہیں۔
ابومنہال سیار بن سلامہ نے ابوبرزہ اسلمی، براء سلیطی،اپنے والد سلامہ، ابوالعالیہ ریاحی اور ابومسلم الجری سے متعدد روایات نقل کی ہیں اور ثقہ ہونے کی وجہ سے اس کی روایات اور احادیث کتب ستہ میں بھی موجود ہیں۔

حدیث علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

آپ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو ابوالفضل رازی نے ’’عاصم بن ابی النجود، اس نے زر بن حبیش سے، اس نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیاہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے فرمایا: کہ اللہ کے رسول ﷺ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ ’’ویسے قراء ت کرو جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے‘‘ (کتاب الرازي فی الأحرف السبعۃ ’مخطوط‘ ص۳) ہر چند کہ یہ حدیث سبعہ حروف کے بارے میں صریح نہیں، لیکن آپ رضی اللہ عنہ کے قول’’ان تقرء وا‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ تم پڑھو (یعنی سات حروف سے) جس طرح تمہیں سکھایا گیا ہے کیونکہ وجہ اختلاف ان کے مابین سبعہ حروف کے سلسلے میں ہی تھی۔ یہ حدیث احمد اور ابن جریر نے بھی روایت کی ہے۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اَحادیث

آپ رضی اللہ عنہ سے تین اَحادیث درج ذیل پانچ طرق سے کتب حدیث میں مروی ہیں:
طریق عبدالرحمن بن ابی لیلی، سلیمان بن صرد الخزاعی، عبداللہ بن عباس، انس بن مالک اور زر بن حبیش الاسدی رضی اللہ عنہم۔

حدیث اوّل:

اس حدیث کی تخریج کرنے والے اَئمہ حدیث اَن گنت ہیں جن میں سے معروف ائمہ کی اسانید ترتیب سے درج ذیل ہیں:امام مسلم ؒ نے ’’اسماعیل(١) ابن ابی خالد عن عبداللہ بن عیسیٰ بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ عن جدہ‘‘ کی سند سے اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔(فی صلاۃ المسافرین باب فضائل القرآن:۱؍۵۶۱)جبکہ امام نسائیؒ نے ’’معقل(٢) بن عبیداللہ عن عکرمہ عن سعید بن جبیر عن ابن عباس عن ابی‘‘ اور ’’حمید الطویل(٣) عن انس عن ابی‘‘ کی اسناد سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (فی الافتاح باب جامع ماجاء فی القرآن:۱؍۱۵۳)
علاوہ ازیں اسی حدیث کو ابن جریر ’’عبیداللہ بن عمر (٤) عن سیار ابی الحکم عن عبدالرحمن ابن ابی لیلیٰ مرفوعاً‘‘، ’’عبیداللہ (٥) بن عمر عن ابن ابی لیلیٰ عن ابی‘‘ اور ’’وکیع(٦) عن اسماعیل بن ابی خالد عن عبداللہ بن عیسیٰ‘‘ کی تین مختلف سندوں سے روایت کرتے ہیں۔ اسی طرح ابن جریر نے اپنی روایت سے بھی (جو کہ محمدبن ابی لیلیٰ عن الحکم عن ابن ابی لیلیٰ(٧) کے طریق سے ہے) اس حدیث کو نقل کیا ہے۔(فی مقدمۃ التفسیر:۱؍۴۲)
مزیدبرآں محمد بن فضیل(٨)، ابن نمیر (٩) اور محمد بن یزید الواسطی (١٠) میں سے ہر ایک سے بطریق ’’اسماعیل بن ابی خالد عن عبداللہ بن عیسیٰ‘‘ اس حدیث کی اپنی کتاب میں تخریج کی ہے۔ اسی طرح ابن ابی عدی (١١) اور محمد الزعفرانی (١٢) سے بھی بطریق ’’حمید الطویل عن انس عن ابی‘‘ یہ حدیث ابن جریر نے روایت کی ہے۔ امام احمد (١٣) نے بھی حمید سے اس کو نقل کیا ہے۔(۵؍۱۲۲)ابوعبید (١٤) نے یحییٰ بن سعید (١٥) اور یزید بن ہارون عن حمید کی سندوں سے …ابوعبید اور ابن جریر، دونوں نے بروایت ’’ابی اسحق السیعی (١٦) عن صقیر عبدی عن سلیمان بن صرد عن ابی‘‘ (أبوعبید فی فضائل القرآن ’مخطوط‘ق۹۵، و ابن جریر فی مقدمۃ التفسیر:۱؍۳۲) اور ابن جریر، طیالسی(منحۃ المعبود:۲؍۷،۸) اور بیہقی (السنن الکبریٰ) نے بروایت قتادہ (١٧) عن یحییٰ بن یعمر عن سلیمان کی اسانید سے اس حدیث کی اپنی اپنی کتابوں میں تخریج کی ہے۔

پہلی سند سے حدیث اوّل کا متن

امام مسلمؒ اسکی سند ذکر کرنے کے بعد ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:’’میں مسجد میں موجود تھا۔‘‘
(بعض روایات میں ’’میں مسجد کی طرف گیا‘‘ کے الفاظ ہیں، جبکہ دوسرے مقام میں ہے ’’میں مسجد میں داخل ہوا‘‘) کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز شروع کردی۔ اس نے ایسے طریقے پر قرآن کی تلاوت کی جس کی میں نے تردید کی۔ کچھ وقفے کے بعد ایک دوسرا شخص بھی داخل ہوا اور اس نے پہلے سے بھی مختلف قراء ت کی۔جب ہم نے نماز ختم کرلی تو ہم سب رسول اکرمﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔ میں نے آپﷺ سے کہا کہ اس شخص نے ایسے طریقے پر قراء ت کی ہے جس کا میں نے اس پر انکار کیا ہے پھر بعد میں یہ دوسرا شخص بھی مسجد میں داخل ہوا ہے اور اس نے پہلے سے بھی مختلف قراء ت کی ہے۔
(ابن جریر اور بیہقی کی روایات میں اس شخص کا نام ’عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ ‘ ذکر ہے جبکہ تیسرے شخص کا کوئی ذکر نہیں۔ اسی طرح امام نسائی کی بروایت ابن عباس اور ابن جریر کی بروایت انس احادیث میں بھی یہی صورت ہے اور ممکن ہے کہ اختصار کے پیش نظر تیسرے شخص کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ جس سورت کے بارے میں اختلاف ہوا، روایات میں صراحت سے اس کانام سورہ نحل مذکور ہے اور یہ صراحت عبیداللہ بن عمر عن ابن ابی لیلیٰ، وکیع عن اسماعیل اور ابن جریر عن محمد بن ابی لیلیٰ کی روایات میں موجود ہے جیسا کہ ابن جریر میں ہے۔)
حضرت ابی کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے ان دونوں کو باری باری پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے آپﷺ کو سنایا اور آپ نے ان کی تحسین بھی کی۔ یہ صورت حال دیکھ کر میرے نفس میں شک اور تکذیب کاگمان گذرا جس کی شدت جاہلیت میں آپ کے بارے میں شک سے زیادہ تھی۔
(وکیع کی روایت میں ہے کہ میرے دل میں جاہلیت سے کہیں بڑھ کر شک اور تکذیب اثر انداز ہوگئی)
(عبیداللہ بن عمر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: میرے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا حتیٰ کہ اس کی شدت سے میرا چہرہ سرخ ہوگیا جبکہ ابن جریر والی ابواسحق کی روایت میں ہے کہ ان دونوں سے نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ تم نے قرآن خوبصورت تلاوت کیا ہے۔ حضرت ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے بھی یہ کہا کہ تم نے اچھا کیا، تم نے اچھا کیاہے۔)
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے جب میری کیفیت اور وسوسے کا خیال کیا تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس کی وجہ سے میرا پسینہ بہہ نکلا گویا میں خوف کی وجہ سے اللہ کی طرف دیکھ رہا ہوں۔
(ابن جریر کے الفاظ میں: کہ میرا پسینہ بہہ نکلا اور میرا دل خوف سے بھرگیا… )
(وکیع کی روایت میں ہے : کہ نبی اکرمﷺ نے تب میرے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ تجھ سے شیطان کو نامراد کرکے اس سے اپنی پناہ میں لے لے… )
(عبیداللہ بن عمر کی روایت میں ہے : یا اللہ ! اس سے شیطان کو نامراد فرما… )
(محمد بن فضیل کی روایت میں ہے کہ میں اللہ سے دعا کرتاہوں کہ وہ تجھے شیطان کے پیدا کردہ شک اور تکذیب سے اپنی پناہ میں داخل کرلے۔)
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے مجھے فرمایا: اللہ نے میری طرف (جبریل ؑ کو) بھیجاتاکہ میں ایک طریقے پر قرآن پڑھوں تو میں نے یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ میری اُمت کے لیے آسانی کی جائے پھر جبریل ؑ دوبارہ میرے پاس آئے اور مجھے دو طریقوں پر پڑھنے کی اجازت سنائی۔ میں نے انہیں وہی جواب دے کر پھر واپس کردیا تب وہ تیسری بار میرے پاس تشریف لائے اور مجھے سات حروف تک پڑھنے کی نویدسنائی اورکہا کہ ہر بار مجھے لوٹانے کے عوض آپ کو سوال کی اجازت ہے، جس کو قبول کیا جائے گا۔ نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ سے دو مرتبہ دعا مانگی کہ یا اللہ ! میری اُمت کی مغفرت فرما اور ان کو بخش دے۔ یا اللہ ! میری اُمت کو معاف فرما اور تیسرے سوال کو میں نے اس دن کے لیے محفوظ کرلیا جس دن تمام مخلوق حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام بھی میری طرف رجوع کریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دیگر سندوں سے متن حدیث میں اختلاف

مذکورہ بالا حدیث کے الفاظ صحیح مسلم کے ہیں۔ ابن جریر کے ہاں ’ابن بیان عن اسماعیل بن ابی خالد‘کی سند سے بھی یہی الفاظ منقول ہیں جب کہ نسائی کے ہاں ابن معقل سے یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اے ابی! یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے جو کہ سب شفا دینے والے اور کفایت کرنے والے ہیں۔
ابن جریر کے ہاں عبیداللہ بن عمر کی روایت سے یہ الفاظ ہیں:’’ میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک حرف پرقرآن پڑھنے کا حکم دیتے ہیں۔میں نے کہا کہ یا اللہ! میری اُمت پر تخفیف کیجئے۔پھر وہ دوبارہ آیا اور کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ایک حرف پر ہی قرآن کی تلاوت کاحکم دیتے ہیں۔ میں نے دعا کی یا اللہ! میری اُمت پر تخفیف فرمائیے اس کے بعد وہ تیسری مرتبہ آیا اور اس نے وہی بات دہرائی میں نے پھر وہی دعا کی۔بعد ازاں وہ چوتھی بار آیااور اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ سات حروف پر قرآن پڑھیں اور آپ کے لیے ہر بار لوٹانے پر ایک سوال کی اجازت ہے۔ میں نے کہا: یا رب ! میری اُمت کو بخش دے ، یا اللہ! میری امت کی مغفرت فرما اور تیسرے سوال کو میں نے قیامت کے دن اپنی اُمت کی شفاعت کے لیے محفوظ کرلیا ہے۔‘‘ (۵)
ابن جریر ہی کے ہاں ابن فضیل کی روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حرف پر قرآن کی تلاوت کا حکم دیا۔ میں نے رب سے دعا کی کہ میری اُمت کے لیے آسانی کی جائے تو رب تبارک و تعالیٰ نے فرمایاکہ تم دو حرفوں پر پڑھو۔ اس کے بعد مجھے جنت کے سات دروازوں کی طرح سات حروف پر پڑھنے کا حکم ہواجوکہ سب کافی اور شافی ہیں۔‘‘
دیگر روایات سے اس حدیث کی تفصیل

نسائی نے ’یحییٰ بن سعید عن حمید عن انس عن ابی‘ کی سند سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میرے پاس جبریل اور میکائیل آئے۔ جبرئیل میرے دائیں جانب اور میکایل بائیں طرف بیٹھ گئے۔ جبریل نے مجھے کہا کہ ایک حرف پر قرآن کی تلاوت کیجئے۔ میکائیل کہنے لگے کہ اس پر اضافہ کا مطالبہ کریں ۔ حتیٰ کہ جبریل سات حروف تک جا پہنچے جن میں سے ہر حرف شافی اور کافی ہے۔ابن جریر نے ’ابن ابی عدی والزعفرانی عن حمید‘ کے طریق سے اور طحاوی نے بھی عبداللہ بن بکر السمی کے طریق سے یہی الفاظ نقل کئے ہیں۔ مگر ’سیعی عن صقیر العبدی‘ کی روایت سے ابن جریر یہ الفاظ نقل کرتے ہیں: میرے پاس دو فرشتے آئے اور ایک نے کہا کہ ’’ایک حرف پر قرآن کی تلاوت کریں، دوسرے نے اضافے کا مطالبہ کیا۔ (یعنی یہ روایت فرشتوں کے ناموں کے بغیر منقول ہے)
وکیع رحمہ اللہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں:
’’ میرے پاس جبریل آئے اور انہوں نے مجھے ایک حرف پر قرآن پڑھنے کا حکم دیا میں نے جواب دیا کہ میری امت ایک حرف پرپڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی حتیٰ کہ آپﷺ نے سات مرتبہ ایسے ہی کہا تب جبرئیل نے مجھے سات حروف پر تلاوت کا حکم دیا اور مجھے ہربار لوٹانے پر ایک سوال کی اجازت دی۔ انہی سوالوں میں سے ایک سوال کی اجازت کی وجہ سے تمام مخلوق حتیٰ کہ ابراہیم علیہ السلام بھی میرے طرف رجوع کریں گے۔‘‘
ابوداؤد اور ابن جریر نے قتادہ کی سند سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: اے ابی! مجھے قرآن پڑھایا گیا، پھر پوچھا:کیا ایک طریقہ پر یادو طریقوں پر؟تو جو فرشہ میرے ساتھ تھا، اس نے کہا کہ ’دو حروف پر کہئے‘ پھر دوبارہ سوال ہوا کہ کیا دو پر یاتین پر؟ فرشتے نے مجھے کہاکہ کہئے’’تین حروف پر‘‘ حتیٰ کہ وہ سات تک جا پہنچا جن میں سب کے سب شافی کافی ہیں۔(اگر آپ ﷺ سمیعا کو عزیزا، حکیما کہیں تو جب تک آیت رحمت کو عذاب اور آیت عذاب کو رحمت سے نہ بدلیں گے، آپ کے لیے جائز ہے)
بیہقی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ غفور رحیم کو علیم حکیم،سمیع علیم یا عزیز حکیموغیرہ سے (تبدیل کرکے)کہہ سکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصۂ بحث

مندرجہ بالا جملہ اختلافات اجمال اور تفصیل کے قبیل سے ہونے کی وجہ سے حدیث کے لیے باعث ضرر نہیں۔ راویوں کے باہم حفظ میں متفاوت ہونے کی وجہ سے کچھ راوی اس بات کو تفصیل سے ذکر کردیتے ہیں جس کو دوسرے مجمل روایت کررہے ہوتے ہیں۔ جبکہ یہاں فی الواقع کوئی تناقض نہیں۔ درحقیقت نبی اکرمﷺ نے کتنی مرتبہ فرشتہ کی طرف رجوع کیا اور کیا سات قراء ات تیسری مرتبہ عطا ہوئیں یاچوتھی مرتبہ؟ بعض روایات میں اس کو چوتھی مرتبہ میں ذکر کیاگیاہے، جب کہ دوسری روایات میں اختصار کے مدنظر تیسری مرتبہ بیان ہوا ہے اور ان سب تغیرات پر یہ اصول حاکم ہے کہ ’’ثقہ شخص کی زیادتی قابل قبول ہونے کے ساتھ ساتھ یادرکھنے والے کی بات نہ یاد رکھنے والے پر مقدم ہے۔‘‘

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث

امام مسلم، ابوداؤد اور نسائی نے ’مجاہدعن ابی لیلیٰ‘ کی روایت سے اس حدیث کی تخریج کی ہے۔(۶) علاوہ ازیں ابن جریر(ابن جریر:۱؍۳۹،۴۰) اور احمدبن حنبل نے اپنی مسند میں متعدد طرق سے حضرت ابی رضی اللہ عنہ سے اس کو روایت کیا ہے۔ (المسند:۵؍۱۲۷)

صحیح مسلم سے متن حدیث

امام مسلم رحمہ اللہ اس کی سند ذکر کرنے کے بعد ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ بنی غفار کے تالاب (۷) کے قریب تھے کہ آپ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور کہا: اللہ تعالیٰ کاحکم یہ ہے کہ آپ کی اُمت ایک حرف پر قرآن تلاوت کرے۔( ابوداؤد، نسائی اور ابن جریر کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ اپنی امت کو ایک حرف پر قرآن سکھائیے)
حضرت ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے اللہ سے بخشش اور مغفرت کی دعا کرتے ہوئے فرمایا کہ میری اُمت اس کی استطاعت نہیں رکھتی۔ (ابن جریر کے الفاظ میں ہے: اللہ عزوجل سے میں مغفرت اور عافیت کا طالب ہوں ، بے شک وہ اس کی متحمل نہیں اور آپ اللہ سے تخفیف کا مطالبہ کریں)
آپ فرماتے ہیں:حضرت جبریل دوبارہ میرے پاس آئے اور کہا:’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ کی امت دو طریقوں پر قرآن تلاوت کرسکتی ہے۔‘‘
نبی کریمﷺ نے (دوبارہ) اللہ سے عافیت اور مغفرت طلب کرتے ہوئے اپنی اُمت کے طاقت نہ رکھنے کا ذکر کیا۔ پھر وہ تیسری بار تشریف لائے اور کہنے لگے : اللہ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ امت محمدیہ تین حروف پرقرآن تلاوت کرے۔ نبی اکرمﷺ نے پھر کہا: میں اللہ سے بخشش اورمعافی کا سوال کرتاہوں۔ میری اُمت اس کی بھی متحمل نہیں۔ تب جبریل آپ کے پاس چوتھی مرتبہ آئے اور کہا کہ اللہ کاحکم یہ ہے کہ آپ کی امت سات حروف تک قرآن پڑھ سکتی ہے جس حروف پر بھی وہ پڑھے گی، صحیح ہوگا۔
(ابن جریر کی ایک روایت میں ہے کہ جو بھی ان میں سے کسی طریقہ پر قراء ت کرے، درست ہے)

حضرت ابی رضی اللہ عنہ کی تیسری حدیث

امام ابوعیسیٰ الترمذی نے’عاصم بن مہدلہ المقری عن زر بن حبیش عن ابی بن کعب‘ کی سند سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (سنن الترمذي :۵؍۱۹۴)، جب کہ طیالسی (منحۃ المعبود:۲؍۸)،ابن جریر (مقدمۃ التفسیر:۱؍۳۵)، طحاوی (فی مشکل الاثار:۴؍۱۸۲) اور احمد (فی المسند:۵؍۱۳۲) بھی ’عاصم‘سے ہی اس کو روایت کرتے ہیں۔

سنن ترمذی سے متن حدیث

سند ذکر کرنے کے بعد ترمذی، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ کی جبریل سے ملاقات ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اے جبریل! مجھے ایسی اُمت کی طرف مبعوث کیا گیاہے، جو اَن پڑھ ہیں، ان میں بوڑھے، عمر رسیدہ، جوان مرد اور عورتیں اور مختلف لوگ ہیں اور ان کی حالت یہ ہے کہ انہوں نے کبھی بھی کوئی لکھی چیز نہیں پڑھی۔‘‘
(طیالسی کے الفاظ میں ہے کہ سخت مزاج لوگ بھی ان میں ہیں۔ طحاوی کے الفاظ ہیں: ان میں عمررسیدہ، پختہ عمر، نوجوان، خادم اور قریب المرگ لوگ بھی ہیں جنہیں کبھی کوئی لکھی چیز پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا)
چنانچہ جبریل نے جواب دیا! بلا شبہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔
(ابن جریر کی روایت میں ہے کہ انہیں چاہیے کہ یہ سات طریقوں میں کسی ایک پر تلاوت کریں۔طیالسی کی روایت میں اس مقام کا تذکرہ بھی ہے جہاں نبی اکرمﷺکی جبریل سے ملاقات ہوئی وہ مقام’مراء‘ کے پتھروں کے قریب تھا۔ ’المریٰ‘ کالفظ الف مقصورہ کے ساتھ ہے جبکہ ابن جریر کی روایت میں’احجاز المراء‘ یعنی الف ممدودہ کے ساتھ ہے، جو کہ قباء جگہ ہے یا قباء کے قرب و جوار میں کوئی مقام) (وذکرہ السمھودی فی دیار بنی عمرو بن عوف، انظر :النھایۃ لابن الأثیر :۱؍۳۴۳ ،(خلاصۃ الوفاء :۲؍۵)

اَحادیث عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے پانچ اَحادیث سات طرق سے مروی ہیں اور وہ سات طرق یہ ہیں:
١ نزال بن سبرہ ٢ أبو الاحوص
٣ فلفلہ جعفی ٤ عمر بن أبی سلمہ
٥ أبو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف ٦ ابووائل شقیق بن سلمہ
٧ زر بن حیش

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی پہلی حدیث

امام بخاریؒ نے نزال بن سبرہ کے طریق سے (فی فضائل القرآن من الجامع الصحیح، باب اقرأوا القرآن ما ائتلقت قلوبکم:۶؍۲۴۴) جب کہ امام احمد بھی اسی نزال سے ہی دو وجوہ سے روایت کرتے ہیں۔ (المسند :۱؍۳۹۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بخاری سے متن حدیث

امام بخاری رحمہ اللہ نزال کی سند سے اس حدیث کی روایت کے بعد لکھتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے عبداللہ کو یہ کہتے سنا کہ میں نے ایک شخص کی تلاوت سنی جس نے ایک آیت اس طریقہ کے علاوہ تلاوت کی جس کو میں نے نبی کریمﷺ سے سیکھا تھا۔ لہٰذا میں اس کے ہاتھ سے اس کو پکڑ کر نبی اکرمﷺ کی طرف لے چلا۔نبی اکرمﷺ سے استفسار پر آپﷺ نے فرمایا: ’’تم دونوں ہی خوب (تلاوت) کرنے والے ہو۔‘‘شعبہ کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ کہا تھا تم اختلاف مت کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ بھی آپس میں جھگڑنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔(امام احمد کے ہاں عفان عن شعبہ کے طریق سے بھی یہی الفاظ مروی ہیں جب کہ آپ سے ہی ’بروایت بہز‘ ان الفاظ میں معمولی سا فرق وارد ہے کہ تم دونوں نے اچھا (فعل) کیاہے اور اب اختلاف مت کرو۔)

دوسری حدیث

ابن جریر نے ’عاصم بن ابی النجود المقری عن زر بن حبیش ‘سے دو وجوہ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ (فی مقدمۃ تفسیرہ:۱؍۲۳)

وجہ اوّل

’’ابوبکر بن عیاش عن عاصم عن زر بن حبیش عن ابن مسعودرضی اللہ عنہ‘‘ کی سند سے مروی ہے کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے کہا: دو آدمیوں کاایک سورہ کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ ایک کا کہنا تھا کہ مجھے نبی اکرمﷺ نے ایسے ہی پڑھایا ہے اور دوسرا کہتا تھا کہ مجھے بھی ایسے ہی سکھایا گیاہے۔ جب نبی اکرمﷺ آئے تو آپ کو اس واقعہ کی خبر دی گئی۔ راوی کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کا چہرہ مبارک اس خبر سے متغیر ہوگیا۔ آپ کے قریب ایک شخص تھا، جسے آپﷺ نے فرمایا:’’تم ویسے ہی پڑھا کرو جیسے سکھائے گئے ہو، میں نہیں جانتا کہ کیا انہیں اس جھگڑے کا حکم ہوا تھا یا اس کو انہوں نے اپنے پاس سے گھڑ لیا تھا۔ بلا شبہ تم سے پہلے لوگ بھی اپنے انبیاء کے بارے میں اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔‘‘ ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر ہم میں ہر شخص کھڑا ہوگیا اور وہ دوسروں کے طریقے کے علاوہ اپنے ہی طریقے پر تلاوت کررہا تھا۔

وجہ ثانی

بروایت اعمش عن عاصم!اس میں پچھلی حدیث سے زیادہ تفصیل ہے۔ سورہ کا نام اور آدمی کا نام بھی مذکور ہے۔ ابن مسعود کہتے ہیں: ہمارا سورہ فرقان کے بارے میں اختلاف ہوگیا۔ ہم نے ۳۵۔آیات کہیں یا۳۶۔ لہٰذا ہم نے حضرت محمدﷺ کی طرف رجوع کیا، وہاں حضرت علی ؓ کو آپ سے مصروف گفتگو پایا۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرمﷺ کو اپنے اختلاف کی بابت بتایا۔ نبی اکرمﷺ کا یہ سن کر چہرہ سرخ ہوگیا اور آپﷺ نے کہا کہ اسی اختلاف میں پڑ کر تم سے پہلی اُمتیں ہلاک ہوگئیں۔ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں:پھرنبی اکرمﷺنے آہستہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ کہا۔ تب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمیں بتایا کہ ’’رسول اللہﷺ تمہیں حکم فرماتے ہیں کہ تم ویسے ہی پڑھو جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے۔‘‘
ابومجاہد(صاحب مضمون)کہتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے دو واقعات پیش آئے۔ایک واقعہ تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا، جس میں قراء ت میں اختلاف کا مسئلہ تھا اور وہ اختلاف سورہ ’النحل‘میں تھا۔ نزال بن سبرہ کی حدیث اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور یہ وہی واقعہ ہے جس کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اپنی مشہور حدیث میں ذکر کیا ہے۔
جہاں تک زیر نظر حدیث کا تعلق ہے، تو ایک اور شخص کے ساتھ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے پیش آنے والے واقعہ کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اور اس حدیث میں محل اختلاف آیات کی تعداد ہے نہ کہ انداز تلاوت اور جس سورت میں یہاں دونوں کااختلاف واقع ہوا وہ سورۂ فرقان ہے۔
علاوہ ازیں زر بن حبیش سے روایت کردہ عاصم کی حدیث میں ابوبکربن عیاش اور اعمش کی روایات کے مابین بھی کچھ اختلاف موجود ہے۔ اعمش کی روایت میں یہ ذکر ہے کہ ’’تم سے پہلے لوگ باہم اختلاف کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔‘‘ اس قول کے قائل رسول اکرم رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ بتانے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں کہ ’’رسول اکرمﷺ تمہیں حکم فرماتے ہیں کہ ویسے ہی پڑھو جیسے تمہیں سکھایا گیا ہے۔‘‘ جب کہ ابوبکر بن عیاش کی روایت میں ان دونوں اقوال کو حضرت علیؓ سے (ان کے نام کے ذکر کے بغیر) منسوب کیا گیاہے۔ ہماری رائے میں دونوں روایتوں میں اعمش کی روایت زیادہ صحیح ہے، کیونکہ ابوبکر اگرچہ ’صدوق‘ ہیں لیکن انہیں کبھی غلطی بھی لگ جاتی ہے۔(۸)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی احادیث میں جو کچھ آپ سے سبعہ احرف کے بارے میں مروی ہے، وہ دراصل اسی حدیث میں پیش آنے والا واقعہ اور اس میں نبی اکرمﷺ کے حکم کی ترجمانی کے سلسلے میں آپ رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ جیساکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ قول سبعہ احرف کے بارے میں صریح تو نہیں، لیکن بہرحال اس کو متضمن ضرور ہے، کیونکہ آپ کا قول’’نبی اکرمﷺ تمہیں حکم فرماتے ہیں کہ ویسے ہی پڑھو جیسے تم سکھائے گئے ہو۔‘‘ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ بات ان سے اختلاف (قراء ت) کی نسبت سے کہی گئی اور یہاں یہی اشارہ زیادہ واضح ہے۔
عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی تیسری حدیث

ابن حبان نے ابوالاحوص کے طریق سے اس کی تخریج کی ہے۔(موارد الظمآن:ص۴۴۰) اسی سند سے طبرانی (مجمع الزوائد:۷؍۱۵۲) اور بزار (مجمع الزوائد:۷؍۱۵۲، المطالب العالیۃ:۳؍۲۸۵) بھی روایت کرتے ہیں،جب کہ ابن جریر نے ابوالاحوص سے ہی ایسی دو وجوہ سے اس کی تخریج کی ہے جن دونوں میں ضعف پایا جاتا ہے۔(مقدمۃ التفسیر:۱؍۲۳)
طبرانی کی روایت میں ہے:’’بلا شبہ قرآن میں کوئی بھی ’حرف‘ نہیں مگر اس کے واسطے ’حد‘ ہے اور ہر حد کے لیے ابتداء ہے۔‘‘

حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی چوتھی حدیث:

آپ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل تین طرق سے مروی ہے:
١ طریق ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف
٢ طریق عمر بن ابی سلمہ اور
٣ فلفلہ جعفی کاطریق۔
١ طریق ابی سلمہ کی امام حاکم نے ’’عن سلمہ بن ابی سلمہ عن ابیہ عن ابن مسعودرضی اللہ عنہ‘‘ کی صحیح سند سے تخریج کی ہے۔ (المستدرک :۱؍۵۵۳) جب کہ امام طحاوی نے دو وجوہ یعنی
(i) بروایت’’عبداللہ بن صالح حدثنی اللیث بن سعد قال حدثنی عقیل بن خالد عن ابن شہاب عن سلمہ‘‘ اور
(ii)حیوہ ابن شریح اخبرنا خالد عن ابن شہاب سے تخریج کی ہے۔ (مشکل الآثار:۴؍۱۸۴)
٢ فلفلہ جعفی کی روایت امام احمدنے ذکر کی ہے۔(المسند:۱؍۴۴۵) ہیثمی کہتے ہیں کہ اس کی اسناد میں عثمان بن حسان العامری ایسا راوی ہے، جس کو ذکر کرنے کے بعد ابن ابی حاتم نے اس پر جرح کی ہے، نہ ہی توثیق جبکہ روایت کے باقی رجال ثقہ ہیں۔(مجمع الزوائد:۷؍۱۵۳)
٣ عمر بن ابی سلمہ کی روایت کو طبرانی نے نقل کیا ہے۔ ہیثمی کہتے ہیں کہ اس میں عمار بن مطر انتہائی ضعیف راوی ہے۔ بعض نے اس کی توثیق بھی کی ہے۔(الجرح والتعدیل:۶؍۱۴۸)

بروایت امام حاکم متن حدیث

ابن مسعود5 سے مروی ہے ،نبی اکرمﷺ نے فرمایا: پہلی کتاب ایک طریق پر اور ایک ہی ’حرف‘ پر نازل ہوئی تھی، جبکہ قرآن کریم سات طرق سے، سات حروف پراس طرح نازل ہوا ہے کہ اس میں امرو نہی اور حلال و حرام اور محکم و متشابہ اور امثال ہیں۔ لہٰذا تم اس کے حلال کئے ہوئے کو حلال جانواور اس کے حرام کئے ہوئے کوحرام سمجھو۔ قرآن جو تمہیں حکم دیتا ہے وہی بجالاؤ اور جس سے روکتا ہے اس سے اجتناب کرو اور اس کی دی ہوئی مثالوں سے عبرت پکڑو۔ قرآن کے محکم پرعمل کرو، متشابہ پر ایمان لاؤ اور اس امر کا اقرار کرو کہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور ہم اسی پر ایمان لائے۔ (یہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے)
فلفلہ جعفی کی روایت میں یہ ہے کہ مجھے مصاحف کے بارے میں پریشانی اور گھبراہٹ لاحق ہوئی تو میں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی طرف رجوع کیا، میں دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا، ہم میں سے ایک نے کہا: اے عبداللہ !ہم آپ کی ملاقات کے لیے آپ کے ہاں نہیں آئے،بلکہ ہمارے آنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ ہمیں اس خبر کی وضاحت فرمائیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ تمہارے نبی پر قرآن سات طرق سے سات حروف پر نازل ہوا ہے، جبکہ پہلی کتابیں ایک طرق سے ایک ہی حرف پر نازل ہوئی تھیں۔ (اخرجہ احمد:انظر: مجمع الزوائد:۷؍۱۵۲ ولعل مقصودھم بالخیر الذی راعھم: إحراق عثمان فی المصاحف)
عمر بن ابی سلمہ کے طریق اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے طریق میں باہم کوئی اختلاف نہیں، ماسوائے اس کے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے آخر حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ کیاہے کہ بلا شبہ ’’یہ سب طریقے اللہ کی طرف سے ہی ہیں اور عقلمند لوگ ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘

ابن مسعودرضی اللہ عنہ کی پانچویں حدیث

ابن جریررحمہ اللہ نے دو طرح، شعبہ سے اس کو روایت کیا ہے۔ایک سند میں تو شعبہ، ابی اسحق سے روایت کرتے ہیں اور وہ اس شخص سے روایت کرتے ہیں جس نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے سنا ہے۔ جبکہ دوسری سند میں شعبہ، عبدالرحمن بن عابس سے روایت کرتے ہیں اور اس نے ابن مسعود کے کسی شاگرد سے نقل کیا ہے کہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے کہا: تم میں سے جو بھی کسی ایک طریقہ پر قراء ت کرے تو پھر وہ کسی اور طریقہ پر قراء ت کرے۔ (تفسیر ابن جریر:۱؍۵۱)
اسی سلسلے میں ایک طویل روایت بھی منقول ہے، جس کو امام احمد نے عبدالرحمن بن عابس سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا: کہ مجھے ہمدان کے ایک شخص نے ایسے شخص سے حدیث بیان کی جو عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے شاگردوں سے ہے اور اس کا نام مجھے معلوم نہیں۔ (اسی حدیث کو ابن جریر نے ’زبید الیامی عن علقمہ النخعی عن ابن مسعود‘ کی سند سے بھی ذکر کیا ہے۔ (۹) اور اس حدیث میں ابن مسعود کہتے ہیں کہ:
’’یہ قرآن کریم متعدد قراء ات پر نازل ہوا ہے ۔ اللہ کی قسم دو شخصوں کے مابین ان قراء ات کے بارے میں سخت جھگڑا ہوتا رہا ہے۔ (پھر جھگڑے کے واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا) کہ جب قرآن پڑھنے والے نے کہا تھا: آپﷺ نے مجھے ایسے ہی سکھایا اور (نبی اکرمﷺ نے بھی) کہا تھا: تو نے اچھا کیا ہے۔ جب دوسرا پڑھتا ہے تو آپ اسے بھی کہتے ہیں کہ تم دونوں درست پڑھتے ہو۔ پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: ’’بلا شبہ یہ قرآن نہ تو (ان حروف سے) مختلف ہوتاہے اور نہ اس میں کوئی ضعیف ہے اور باربار لوٹانے سے متغیر بھی نہیں ہوتا۔ لہٰذا جو بھی کسی ایک حرف پر قرآن کی تلاوت کرے تو اس کو بے رغبتی سے ترک نہ کرے اورجو ان جملہ حروف پر تلاوت کرتاہو جنہیں نبی اکرمﷺنے سکھایا ہے تو وہ ان کو بھی بے رغبتی سے نہ چھوڑے،کیونکہ جس نے کسی ایک آیت کا انکار کیا تو گویا اس نے پورے قرآن کا انکار کیا اور ان قراء توں کا حال ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص ’اعجل‘ کی جگہ ’حیہل‘ کہہ دے، کیونکہ یہ دونوں لفظ قریب المعنی ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر مجھے کسی ایسے شخص کا علم ہوجائے جورسول اکرمﷺ پرنازل ہونے والے قرآن کا مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہو، تو میں اس سے تحصیل علم کروں، تاکہ اس کے علم سے میرے علم میں اضافہ ہوجائے۔‘‘
حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا :
’’نبی اکرمﷺ ہرسال رمضان المبارک میں قرآن کا دور فرماتے، جس سال آپ کی وفات ہوئی، اس سال میں نے دو مرتبہ آپﷺ پر قرآن تلاوت کیا اور آپ نے مجھے خوشخبری بھی دی تھی کہ تو ٹھیک پڑھتا ہے اور میں نے نبی اکرمﷺ کی زبان مبارک سے ۷۰ سورتیں پڑھیں۔‘‘(جیساکہ مسنداحمد میں ہے) (المسند:۱؍۴۰۵)
ابن جریر کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: تم اس قرآن کے بارے میں باہم جھگڑا مت کرو، کیونکہ قرآن کریم میں اختلاف نہیں اور نہ ہی معدوم ہوتا ہے، بار بار لوٹانے سے اور اس میں کوئی تبدیلی بھی لاحق نہیں ہوتی۔ قرآن میں شریعت اسلامی، حدود اور اس کے فرائض مذکور ہیں، لہٰذا نہ ہی شریعت اسلامیہ میں کوئی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔اس روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
’’مجھے اس بات کا علم تھاکہ نبی اکرمﷺ پر ہررمضان میں قرآن تلاوت کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ جس سال آپ کی وفات ہوئی تو آپ پر دو مرتبہ پڑھا گیا۔ نبی اکرمﷺ جب اس سے فارغ ہوتے تو میں آپ کو قرآن سناتا اور آپﷺ نے مجھے صحیح پڑھنے کی خوشخبری دی۔لہٰذا جس نے میرے طریقے پر تلاوت کی تو وہ اس کو بے رغبتی سے ہرگز نہ ترک کرے اور جو شخص ان حروف میں سے کسی حرف پر تلاوت کرتاہے تو وہ ان سے بے رغبتی برتتے ہوئے ہرگز نہ چھوڑیے کیونکہ جس نے ایک آیت کا انکار کیا تو گویا وہ سب آیات کامنکر ہوا۔‘‘ (تفسیر ابن جریر:۱؍۵۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَحادیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ :

آپ سے تین اَحادیث مروی ہیں:
حدیث اَوّل:
ابن حبان نے اپنی صحیح میں ’’انس بن عیاض عن ابی سلمہ بن عبدالرحمن بن عوف عن ابی ہریرہ‘‘ کے طریق سے اس حدیث کی تخریج کی ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: قرآن مجید سات حروف پر نازل ہوا ہے اور تین مرتبہ یہ بھی کہا کہ قرآن میں میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ قرآن میں سے جس حکم کو تم سمجھ لو، تو اس پر عمل کرو اور جس کو جاننے سے قاصر رہو، اسے اپنے صاحب علم حضرات کی طرف لوٹا دو۔‘‘ (صحیح ابن حبان:ص۷۳) ، ابن جریر (تفسیر ابن جریر:۱؍۱۱)نے اور احمد نے بھی اپنی مسند (المسند بتحقیق احمد شاکر:۱۵؍۱۴۶) میں اس حدیث کو روایت کیا ہے۔)

حدیث ثانی:

ابن جریر نے ’’محمد بن عمرو بن ابی سلمہ بن عبدالرحمن عن ابی ہریرہ‘‘ کے طریق سے اس کی تخریج کی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:’’قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے۔‘‘جیسے: عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ کی جگہ غَفُوْرٌ رَحِیْمٌ (تفسیر ابن جریر:۱؍۲۲)امام احمد نے اسی حدیث کو دو سندوں سے محمد بن عمرو سے بیان کیاہے، مگر ایک سند سے الفاظ ’’عَلِیْمًا، حَکِیْمًا… غَفُوْرًا، رَحِیْمًا‘‘ نصب کے ساتھ مروی ہیں۔ (المسند:۲؍۳۳۲ ، ۴۴۰) وذکرہ الہیثمی وزاد لفظا آخر عَلِیْمًا حَکِیْمًا غَفُوْرًا رَحِیْمًا)ثم قال: رواہ کلہ أحمد بإسنادین ورجال أحدھما رجال الصحیح و رواہ البزار بنحوہ (مجمع الزوائد:۷؍۱۵۱)

حدیث ثالث:

حافظ ابن جریر نے ’’محمد بن عجلان عن المقبری عن ابی ہریرہ 5‘‘کے طریق سے اس کو روایت کیا ہے کہ نبی اکرم1 نے فرمایا: ’’یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیاہے‘‘ اور تم ان میں (کسی پربھی )تلاوت کرلو تو کوئی حرج نہیں، لیکن قرآن میں رحمت کے ذکر کو عذاب سے اور عذاب کے ذکر کو رحمت سے نہ بدلو۔(تفسیر ابن جریر:۱؍۴۶) امام طحاوی نے محمد بن عجلان سے ایک دوسری وجہ سے بھی یہی حدیث روایت کی ہے۔ (مشکل الآثار:۴؍۱۸۱)

حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ

آپ رضی اللہ عنہ کی حدیث تمیمی نے روایت کی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں: ’’قرآن کریم سات حروف پر نازل کیا گیا ہے جن میں سب کافی اور تسلی بخش ہیں ۔اس کو طبرانی نے ثقہ راوۃ سے روایت کیا ہے۔ (مجمع الزوائد: ۷؍۱۵۴)

حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ

آپ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث ’’عبداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن ‘‘ کے طریق سے وارد ہے، جس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں عقیل اور یونس کی روایات سے نقل کیا ہے۔(صحیح البخاري: کتاب التفسیر: ۶؍۲۲۷، کتاب بداء الخلق: ۴؍۱۳۷ کتاب الخصومات:۳؍۱۶۰) یہ دونوں راوی ابن شہاب سے، جبکہ وہ عبیداللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث بیان کی کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’مجھے جبرئیل نے قرآن پاک ایک حرف پر سکھایا، لیکن میں جبریل سے قراء ت میں زیادتی کا ہمیشہ طالب رہا، اور آپ بھی (حکم الٰہی سے) اس میں اضافہ فرماتے رہے۔پھر میں نے مزید اضافے کی خواہش کی تو آپ نے پھر اِضافہ فرما دیا حتیٰ کہ بالآخر وہ اضافہ سات حروف تک پہنچ گیا۔‘‘ امام مسلمa نے اس حدیث کو یونس کی روایت سے نقل کیاہے۔(صحیح مسلم:۶؍۱۰۱)
ابن جریر اسی روایت کوعقیل سے خفیف لفظی اختلاف سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’مجھے جبریل نے ایک حرف پر قرآن سکھایا۔ میں ان سے اس میں اضافہ کاطالب رہا، حتیٰ کہ انہوں نے اس میں اضافہ کردیا۔ پھر میں نے مزید اضافے کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس میں اور زیادتی کردی۔ حتیٰ کہ وہ زیادتی سات حروف تک جاپہنچی۔‘‘ (تفسیر ابن جریر:۱:۳۱)
عبدالرزاق نے ’مصنف‘ میں بھی اس حدیث کی تخریج کی ہے۔(المصنف:۵؍۲۱۹) اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ان سے ’معمر عن ابن شہاب‘کی سند سے روایت کیاہے۔(صحیح مسلم:۶؍۱۰۱) کہ ابن شہاب کہتے ہیں: مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ یہ سات قراء ات ایسے معاملے کے بارہ میں ہوتی ہیں جو کہ باہم حلال و حرام میں مختلف نہیں ہوتے۔

حدیث عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ

عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ایک ہی حدیث ان کے غلام ’’ابوقیس عبدالرحمن بن ثابت‘‘(انظر ترجمۃ فی تہذیب التہذیب:۱۲؍۲۰۷) کے طریق سے مروی ہے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں سے دو سندوں کے ساتھ اس کی تخریج کی ہے۔پہلی روایت میں مخرمی کہتے ہیں۔(۱۰)
’’حدثنا یزید بن عبداللہ بن الھاد عن بسر بن سعید عن ابی قیس مولی عمرو بن العاص عن بن العاص‘‘ آگے ابن العاص رضی اللہ عنہ رسول کریمﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:
’’بلاشبہ قرآن کریم سات حروف پر نازل کیا گیاہے جس حرف پربھی تلاوت کرو گے تو صحت کو پاؤ گے۔ خبردار اس میںجھگڑا مت کرنا کیونکہ قرآن میں اختلاف کرنا کفر ہے۔‘‘ (المسند:۴؍۲۰۴)
دوسری روایت میں کچھ تفصیل ہے۔ابوقیس مولی عمرو بن العاص نے کہا کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو سنا جو قرآن کی ایک آیت تلاوت کررہاتھا، تو اس سے دریافت کیا کہ تمہیں ایسے کس نے سکھایا؟ اس شخص نے جواب دیا : ’’رسول اکرمﷺ نے‘‘ توابوعمرو کہنے لگے:’’مجھے تو اس کے علاوہ دوسرے حرف پر سکھایا گیاہے‘‘ تب وہ دونوں نبی اکرمﷺ کے پاس پہنچے۔ ایک نے سوال کیا: ’’یارسول اللہﷺ فلاں فلاں آیت کیا ایسے ہی ہے۔‘‘،پھر وہ آیت پڑھ کرسنائی۔ نبی اکرمﷺ نے جواب دیا: ’’ہاں ایسے ہی نازل ہوئی ہے۔‘‘ تب دوسرے نے آپ کو وہی آیت دوبارہ مختلف طریقہ پر سنائی اور پوچھا: ’’یارسول اللہﷺ کیاایسے نہیں؟‘‘ آپﷺ نے کہا: ’’ایسے بھی نازل ہوئی ہے۔ پھر نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’بلا شبہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے۔ تم جس حرف پر تلاوت کرو گے تو بہتر ہی کرو گے اور اس کے بارے میں جھگڑا نہ کرنا،کیونکہ قرآن کے بارے میں جھگڑا کفر ہے یاکفر کی علامت ہے۔‘‘ (۱۱)

حدیث حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ

آپ سے بھی ایک ہی حدیث مروی ہے، جس کو ابوعبید نے ’’عاصم بن ابی النجود عن زر بن حبیش عن حذیفہ‘‘ کی سند سے روایت کیا ہے۔ (۱۲) اس کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا:
’’میری جبریل سے ’مراء‘ پہاڑکے نزدیک ملاقات ہوئی تو میں نے کہا:’’اے جبریل! مجھے ایک اَن پڑھ اُمت کی طرف مبعوث کیاگیاہے، جس میں ایسے آدمی ، عورتیں، لڑکے، لڑکیاں اور ادھیڑ عمر شخص ہیں جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی‘‘ جبریل نے جواب دیا کہ ’’قرآن سات حروف پرنازل کیا گیا ہے۔‘‘
اسی حدیث کو امام احمد نے بھی ربعی بن خراش کے طریق سے روایت کیاہے کہ ربعی نے کہا مجھے اس شخص نے حدیث بیان کی جس نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولا (اس سے ان کی مراد ’حذیفہ‘ تھے) کہ اس شخص نے کہا’’نبی اکرمﷺ جبریل سے ملے اس حال میں آپ ﷺ ’مراء‘ کے قریب تھے۔‘‘ تو جبرئیل کہنے لگے: ’’آپﷺکی امت سات حروف پر قرآن تلاوت کرسکتی ہے، ان میں سے جس کسی نے کسی ایک حرف پرپڑھا تو اسے ویسے ہی پڑھنا چاہئے جیسے اس کوسکھایا گیا ہے اور اسے چھوڑے نہیں۔‘‘
جبکہ مسند میں ہے کہ ابن مہدی نے کہا: ’’تیری اُمت میں ضعیف بھی ہیں تو جو کسی ایک طریقہ پرقرآن پڑھے تو اس طریقہ سے بے رغبتی کرتے ہوئے دوسرے طریقہ کی طرف رجوع نہ کرے۔(المسند:۵؍۳۸۵) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس سے ملتے جلتے الفاظ کے ساتھ ذکر ہوچکی ہے۔

حدیث عباس بن الصامت رضی اللہ عنہ

یہ حدیث حماد بن سلمہ رضی اللہ عنہ نے ’’عن حمیدعن انس عن عبادہ‘‘ کے طریق سے روایت کی ہے۔ مگر ایک مرتبہ حماد اس حدیث کو عبادہ سے ’مرفوع‘ روایت کرتے ہیں جب کہ دوسری مرتبہ عبادہ کے بعد ابی بن کعب کا واسطہ بھی شامل کرتے ہیں۔
امام طحاوی نے اس حدیث کو ان دو صحیح سندوں سے روایت کیاہے۔(مشکل الآثار:۴؍۱۸۱)
’’عن عفان بن مسلم قال حدثنا حماد بن سلمہ اخبرنا حمید عن انس بن مالک عن عبادہ‘‘ اور ابن جریر نے بھی صحیح سند سے اس کو روایت کیاہے۔(تفسیر ابن جریر:۱:۳۴) جو کہ یہ ہے’’عن ابی الولید، الطیالسی قال حدثنا حماد بن مسلم عن حمید عن انس عن عبادہ عن ابی بن کعب‘‘ (جس میں آپ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا واسطہ زیادہ کردیاہے)
سند اوّل میں عفان بن مسلم اور دوسری سند میں ابوالولید طیالسی، دونوں حماد بن سلمہ کے شاگرد ہیں اور ثقات ہونے کے ساتھ ساتھ حفظ سے بھی متصف ہیں۔ لہٰذا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سند میں یہ اضطراب حماد بن سلمہ کی طرف سے ہے، کیونکہ حماد بھی اگرچہ ثقہ ہیں، لیکن وہم کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ آخر عمر میں ان کا حافظہ بھی متاثر ہوگیاتھا۔

حدیث سلمان بن صرد الخزاعی رضی اللہ عنہ

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو (جس کا ابھی ذکر گزرا ہے) انہوں نے بھی روایت کیاہے لیکن اس کی صورت بھی یہی ہے کہ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے روایت کرتے ہوئے ابی بن کعب کاواسطہ شامل کردیا اور دوسری مرتبہ یہ واسطہ ذکر نہیں کیا۔
وضاحت کچھ یوں ہے کہ:
(i) ہمیں بعض ایسی صحیح روایات معلوم ہوئی ہیں جن میں ’’عن ابی اسحق السبیعی عن سلیمان عن ابی بن کعب‘‘ کی سند بیان کرنے کے بعد ابی بن کعب5 کی حدیث نقل کی گئی ہے۔(۱۳)
(ii) کچھ دوسری اسانید سے بھی یہ سند ثابت ہے: ’’عن ہمام بن یحییٰ عن قتادۃ عن یحییٰ بن یعمر عن سلیمان عن ابی‘‘ (عند الطحاوی فی مشکل الآثار)
(iii) اس کے بعد ہم نے ۲ صحیح سندوں کے ساتھ یہ روایت پائی ہے کہ جس میں ’’عن شریک عن ابی اسحق عن سلیمان‘‘ (بغیر واسطہ ابی بن کعب کے ) مذکور ہے۔ (عند الطحاوی وابن جریر)
(iv) پھر ہمیں ایسی روایات کا علم ہوا ہے جس میں عوام بن خوشب (جو ابواسحق سبیعی سے روایت کرنے والوں میں سے ایک ہے) پر آکر سند مختلف ہوتی ہے۔ اس طرح کہ جب اس سے اسحق بن یوسف الازرق (اس کا شاگرد) روایت کرتا ہے تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا واسطہ نہیں شامل کرتا ہے۔ (اخرجہ النسائی فی عمل الیوم واللیلۃ و ذکرہ ابن کثیر فی فضائل،ص۶۱) اور جب یزید بن ہارون (عوام کا دوسرا شاگرد) عوام سے روایت کرتاہے تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا بھی واسطہ ذکر کرتاہے۔(اخرجہ ابوعبید فی فضائلہ) جب کہ ازرق بھی ثقہ ہے اور یزید بھی عابد، ثقہ اور مضبوط حافظہ کا مالک ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصۂ بحث

اس تمام بحث سے جو بات معلوم ہوتی ہے، وہ یہ ہے کہ سلیمان بن صرف رضی اللہ عنہ نے جب حدیث روایت کی تو ایک مرتبہ واسطہ ذکر کیا جب کہ دوسری بار بلا واسطہ حدیث روایت کی اور قاعدہ یہ ہے صحابی کا ارسال کرنا حدیث کے لیے نقصان دہ نہیں۔ لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں نے دونوں حالتوں میں آپ کی بیان کی ہوئی حدیث کو روایت کردیا۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ

آپ رضی اللہ عنہ نے بھی ابی بن کعبؓ کے واسطے سے حدیث بیان کی ہے۔ آپ کی اس حدیث کو نسائی، ابوعبید، ابن جریر اور احمد…’تمام‘ نے حمید طویل کے طریق سے تخریج کیا ہے۔ (سبق ذکرہ عندالکلام علی حدیث ابی بن کعب)

حضرت ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ

آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے توسط سے حدیث بیان کی ہے۔ اس بیان کردہ حدیث میں حروف سبعہ کے سلسلے میں صراحت تو نہیں، لیکن وہ حروف سبعہ کے معنی کو متضمن ہے۔ اس حدیث میں حضرت عمررضی اللہ عنہ اور ہشام رضی اللہ عنہ کے مابین پیش آنے والے واقعہ (جس کی تفصیل ابتدائی احادیث میں گذر چکی ہے) کی طرف اشارہ ہے۔(ابن جریر:۱؍۲۵،و سبق عندالکلام علی حدیث عمر مع ہشام)

حدیث ابوبکر انصاری رضی اللہ عنہ

اس حدیث کو ابن جریر(ابن جریر:۱؍۴۳)، احمد(المسند:۵؍۵۱)، طبرانی (مجمع الزوائد:۷؍۱۵۱) اور طحاوی (مشکل الآثار:۴؍۱۹۱) نے اس سند سے روایت کیا ہے۔ ’’عن علی بن زید بن جدعان عن عبدالرحمن بن ابی بکرہ عن ابیہ‘‘ قال قال رسول اللہﷺ: کہ جبریل نے کہا: ’’قرآن ایک حرف پر پڑھئے‘‘ ۔ تومیکائیل کہنے لگے:اے جبریل! اس پر اضافہ کیجئے، جبریل نے دو حرفوں پر تلاوت کی اجازت دے دی۔ حتیٰ کہ وہ چھ یا سات حروف تک جاپہنچے اور کہا کہ سب کافی و شافی ہیں، جب تک قاری عذاب کی آیت کو رحمت یا رحمت کی آیت کو عذاب سے تبدیل نہ کرے، جیسے کوئی ’علم‘ کی جگہ ’تعال‘ کہہ دے کہ دونوں یکساں معنی رکھتے ہیں یعنی ’ادھر آؤ‘ (ابن جریر نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے)
جبکہ اس سند میں علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے اور مسلم نے اس حدیث کو اپنی کتاب میں متابعت کے طور پر ذکر کیا ہے۔علامہ بیہقی، ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ احمد اور طبرانی نے بھی اس کو یوں ہی ذکر کیا ہے اور اس میں علی بن زید بن جدعان راوی ہے، جو کہ سيء الحفظ ہے (کمزور حافظے والا ہے) اور اس کی متابعت ثابت ہے اور مسنداحمد کے باقی رواۃ’صحیح‘ کے ہیں۔ (مجمع الزوائد:۷۰:۱۵۱)

حدیث ابوجھیم بن الحرث رضی اللہ عنہ

اس حدیث کی ابن جریر(تفسیر ابن جریر:۱؍۴۳)، ابوعبید(فضائل القرآن’مخطوط‘)، احمد(المسند:۴؍۱۶۰) اور طحاوی(مشکل الآثار:۴؍۱۸۱) نے اسی طرح تخریج کی ہے کہ سب ’’یزید بن خصفیہ عن بسر بن سعید‘‘ کے طریق سے روایت کرتے ہیں، سوائے ابوعبید کے کیونکہ ابوعبید نے ’’یزید بن خصیفہ عن مسلم بن سعید مولی ابن الحضرمی‘‘ کی سند سے روایت کیا ہے اور اس سند کے بعد کہا ہے کہ بعض دوسرے محدثین نے ’’یزید بن خصیفہ عن بشر بن سعید‘‘ کے طریق سے بھی روایت کی ہے۔ یعنی ’بسر‘ کی بجائے ’بشر‘ ذکر کیا ہے۔
مجھے اس سلسلے میں جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جس شخص نے ابوجہیم رضی اللہ عنہ سے سماع حدیث کیا، وہ تو بسر بن سعید العابد المدنی ہے۔ اس کا شمار عظیم تابعین میں ہوتا ہے اوراس نے متعدد صحابہ (جن میں ابوجہیم بھی ہیں) سے احادیث روایت کی ہیں۔
جہاں تک مسلم بن سعید کا تعلق ہے، تو میں اس کو نہیں جانتا۔ عین ممکن ہے کہ ابوعبید کے شیخ (جن کانام اسماعیل بن جعفر بن ابی کثیر الانصاری الزرقی ہے) نے اس راوی (یعنی مسلم بن سعید مولی ابن الحضرمی) کے نام میں غلطی کی ہو جب کہ صحیح نام ’’بسر بن سعید العابد المدنی مولی ابن الحضرمی‘‘ ہے۔
بروایت ابن جریر… حدیث ابی جہیم کے الفاظ یہ ہیں کہ
’’ دو آدمیوں کا قرآن کریم کی ایک آیت کے سلسلے میں اختلاف ہوگیا۔ ایک آدمی نے کہا: میں نے اس آیت کو نبی اکرمﷺ سے ایسے ہی سیکھا ہے (جس طرح کہ میں پڑھ رہا ہوں) جب کہ دوسرے کا بھی یہی کہنا تھا کہ میں نے نبی اکرمﷺ سے اس آیت کو ایسے سیکھا ہے۔لہٰذا ان دونوں نے نبی اکرمﷺ سے رجوع کیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے لہٰذا تم قرآن میں جھگڑا مت کرو کیونکہ اس میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔‘‘
حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ

آپ رضی اللہ عنہ سے دو مختلف روایات منقول ہیں، دونوں کے راوی حماد بن سلمہ ہیں۔
امام احمد نے اپنی مسند میں بایں سند آپ کی حدیث روایت کی ہے:
’’قال حدثنا بھذا حدثنا حماد بن سلمۃ أخبرنا قتادۃ عن الحسن عن سمرۃ‘‘
(اس سند کے بعد متن حدیث مذکور ہے) (المسند:۵؍۱۶)
ہیثمی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو احمد، بزار اور طبرانی نے’’اپنی تینوں معاجم میں روایت کیاہے۔ جب کہ احمد کے رجال اور طبرانی و بزار کی ایک ایک سند کے رجال صحیح کے رواۃ ہیں۔ پھر حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے کہا : بلا شبہ رسول اکرمﷺ ہمیں کہا کرتے تھے کہ ویسے تلاوت کیاکرو جس طرح تم پڑھائے گئے ہو۔پھر نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ’’قرآن کریم بے شک تین حروف پر نازل ہوا ہے۔ تم اس میں اختلاف مت کرو، کیونکہ یہ سب حروف برکت والے ہیں۔ ویسے ہی تلاوت کیاکرو جیسے سکھائے گئے ہو۔‘‘
ہیثمی نے کہا: اس حدیث کو طبرانی اوربزار نے بھی روایت کیا ہے اور ’ولا تحاجوا فیہ‘ کی بجائے ’ولاتجافوا‘ کے الفاظ ذکر ہیں جب کہ دونوں کی سندیں ضعیف ہیں۔ (مجمع الزوائد:۷؍۱۵۲)
علاوہ ازیں ابوعبید نے بھی حدیث سمرہ ’’عن عفان عن حماد‘‘ کے طریق سے روایت کی ہیں لیکن اس میں’تین حروف‘ (قراء ات) کے الفاظ ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ اس روایت میں اشکال پایا جاتا ہے اور وہ اس طرح کہ یہ روایت ’’بہز عن حماد‘‘ کی روایت سے مختلف ہے۔ جبکہ بہز بن اسد العمی ثقہ اور ثبت راوی ہے، بلکہ عجلی کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ’’حمادبن سلمہ سے روایت کرنے والوں میں یہ سب سے زیادہ قوت حافظہ سے متصف تھے۔‘‘ اسی طرح اس روایت کا راوی عفان بن مسلم بھی ثقہ ہے۔
لیکن اس کی یہ روایت شاذہے اور بہز کے اوثق ہونے کی بناء پر اس کی حدیث مقدم اور عفان کی یہ حدیث مرجوح قرار پائے گی۔نیز عفان کی یہ روایت متواتر اور محفوظ اَحادیث کے خلاف ہونے کی بناء پر بھی مرجوح گردانی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ ذہبی نے بھی اس روایت کو ’حماد‘ کی ’منکرات‘ میں شمار کیا ہے۔ (۱۴)

حدیث اُم ایوب الانصاریہ رضی اللہ عنہ

اُم ایوب کی حدیث ، سفیان بن عیینہ نے عبید اللہ بن ابی یزید کے واسطے سے روایت کی ہے۔ابن جریر نے سفیان سے دو صحیح وجوہ پر اس کی تخریج کی ہے۔ (تفسیر ابن جریر:۱؍۳۰) اور امام احمد نے بھی اپنی مسند میں انہی سے صحیح سند کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا ہے۔حافظ ابن کثیر ، احمد کی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ ’’یہ حدیث صحیح السند ہے‘‘ لیکن صحاح ستہ والوں نے اسے درج نہیں کیا۔ (فضائل القرآن:ص۶۱)
حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
’’قرآن سات حروف پر نازل کیا گیاہے، جس پر بھی تم تلاو ت کرو گے تو حق کو پہنچو گے۔‘‘ (تفسیر ابن جریر:۱؍۳۰)
مذکورہ بالا احادیث مقدسہ کے علاوہ نبی اکرم ﷺ کے دوسرے صحابہ سے بھی ’احادیث حروف سبعہ‘ مروی ہیں، لیکن ان میں اکثر ضعیف اورسند ردی سے متعلق ہیں۔ جیسا کہ ایسی ہی ایک حدیث طبرانی نے’’عن عمر بن ابی سلمہ بن عبدالاسد‘‘ کی سند سے روایت کی ہے۔ جس کے بارے میں ہیثمی کا کہنا یہ ہے کہ اس سند میں عمار بن مطر ایک راوی ہے، جو انتہائی ’’ضعیف‘‘ ہے ۔ جبکہ بعض نے اس کو ثقہ بھی گردانا ہے۔ (۹۷)
اسی طرح طبرانی نے ہی ابوسعید خدری5 سے بھی ایک روایت نقل کی ہے جس کے بارے میں ہیثمی کہتے ہیں کہ اس میں ’’میمون بن حمزہ‘‘ ہے جو کہ’متروک‘ ہے۔ (مجمع الزوائد:۷؍۱۵۳)
ابن جریر نے یزید بن ارقم سے ضعیف ترین سند سے ایک حدیث روایت کی ہے، لیکن اس سند میں عیسیٰ بن قرطاس ہے جو کہ’کذاب‘ ہے۔ (تفسیرابن جریر:۱؍۲۴)
ابومجاہد (صاحب مضمون) کہتے ہیں:یہ ہے وہ حدیث !!… جو اہل علم میں ’حدیث حروف سبعہ‘کے نام سے معروف ہے۔ تمام ائمہ اعلام (صحابہ، تابعین اور محدثین) کا اس حدیث کی روایت اور امت کے لیے نقل کرنے پر اتفاق و اجماع ہے۔ علاوہ ازیں اس حدیث کی مذکورہ اسانید اور روایت سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ یہ حدیث سنداً ’متواتر‘ہے جس کو ہر طبقہ سے جمہور محدثین اور ہر زمانہ سے ایک جم غفیر نے روایت کیاہے۔ لہٰذا اس حدیث کے تواتر میں نہ کوئی شک ہے اور نہ ہی کوئی اضطراب ہے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جملہ روایات (قطع نظر اس سے کہ صحیح ہوں یا ضعیف) ’سبعہ‘ کے لفظ پر متفق و مجتمع ہیں۔ اسی طرح تمام احادیث آپﷺ کے اس فرمان ’’علی سبعۃ أحرف‘‘ کو بالاتفاق نقل کرتی ہیں، ماسوائے سمرۃ بن جندب کی حدیث کے، جو عفان بن حماد کے طریق سے روایت ہونے والی حدیث ہے۔ جس کی تردید بھی اپنے مقام پر گذر چکی ہے۔
ان تمام حقائق کے باوجود ! جب اس سلسلے میں وارد ہونے والی جملہ اَحادیث کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ایسی کوئی عبارت ہمیں دستیاب نہیں ہوتی جو ’سبعہ احرف‘ کی ایسی کامل اور شافی تفسیر کردے جس سے نزاع ختم ہو اور اختلاف کے دروازے بند ہوجائیں۔لہٰذا مقصد کی تکمیل اور جواب کی تلاش و جستجو کے لیے اب ایسے علماء و محققین کی طرف ہم رجوع کرتے ہیں جو استنباط معانی میں تدبر و تفکر، دقت نظر اور غوروخوض کی اعلیٰ صلاحیتوں سے بہرہ ور ہیں۔
جب معاملہ اس قدر عظیم ہو کہ اس حدیث کو مشکلات اور متشابہات میں بھی شمار کیا گیاہے حتیٰ کہ ایک جماعت نے اس حدیث کے سمجھنے کو اور اس کے معانی و مفاہیم کے ادراک کے اہم کام کو اللہ تعالیٰ کی طرف تفویض کیا ہے تو مجھ جیسے کمترین کی طرف سے یہ عزم درست معلوم ہوتا ہے کہ اس عظیم حدیث کے معانی و مدلول پر اس قدر غور وفکر کیا جائے کہ عقل و فہم اس کے مشابہ ہونے کا انکار کردے اور قوم مسلم اس کی جامع مانع تفسیر کرکے سرفراز ہو۔ بایں وجہ کہ اس حدیث کاکتاب الٰہی سے گہرا تعلق ہے اور اپنے مدلول کے قابل قدر اور عالیٰ مقام ہونے سے گہرا واسطہ ہے۔
ان جملہ مقاصد کا حصول۔ محل نزاع، اختلاف اور اس کے اسباب کے بارے میں مستقیم رویہ روا رکھے بغیر ناممکن ہے، اس کے لیے محنت شاقہ اور مقصد سے لگن کے ساتھ ساتھ، دقت نظر اور اقوال کے مابین تقابل میں گہرائی تک جانا بھی لازمی اور حتمی ہے۔ کیونکہ ’حدیث حروف سبعہ‘ اور اس موضوع کے بارے میں فقط بعض پہلوؤں پر روشنی ڈال دینا اور کچھ چھپے ہوئے گوشے اجاگر کردینا کافی نہیں بلکہ تمام جوانب و اطراف کا احاطہ کرکے ہی اور تمام سوالات کے بارے میں صائب رائے دے کر ہی اس مقصد کو پایااور مفاہیم کو حل کیا جاسکتاہے۔لہٰذا میں اللہ تعالیٰ سے خصوصی ہدایت کا طالب ہوں کہ وہ مجھے اس بحث کو درج ذیل موضوعات اور نقاط پر مرکوز کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
١ پہلا نقطہ یہ ہے کہ حدیث سبعہ احرف سے متعلقہ جملہ روایات اور متن میں ثابت شدہ مختلف الفاظ کے درمیان موازنہ کیا جائے۔ (جس کی تفصیل ذکر ہوچکی ہے)
٢ اس حدیث کے بارے میں تحقیق کرنے والے علماء کرام اور ائمہ عظام کے جملہ اقوال، ان اقوال کا اس حدیث کی روایت اور متن پر انطباق اور ان کاباہمی تقابل اور موازنہ کرنا۔
٣ ان تمام اَقوال کو موجودہ قراء ات پر پیش کرنا جوکہ متواتر اور ہرلحاظ سے مکمل ہیں اور ان قراء ات اور روایات و اَقوال کے مابین مقارنہ و موازنہ کرنا۔
٤ اَئمہ کے تمام اختلافات اور استنباطات کی روشنی میں’سبعہ حروف‘ سے کیا مراد ہے؟اس پر تفصیلی بحث! علاوہ ازیں قراء ات پر وارد شدہ اعتراضات اور ان سے حاصل ہونے والے نتائج کی نشاندہی کی کوشش کرنا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حوالہ جات

١ ۱۳۹۵ھ میں یہ کتاب المرشد الوجیز إلی علوم تتعلق بالقرآن العزیزکے نام سے طبع ہوچکی ہے۔ نیز استاد طیار آلتی قولاج نے اس پر تحقیق فرمائی ہے جوکہ تاحال ’مخطوط‘ ہے۔
٢ موطا میں صفحہ(۱؍۲۰۱) پر ۔علاوہ ازیں مسلم، نسائی اور ابوعبید نے’فضائل القرآن‘ میں ، جب کہ طحاوی نے ’مشکل الاثار‘ میں اس کی تخریج کی ہے۔
٣ عبدالرزاق نے اپنی ’مصنف‘ میں اس کی تخریج کی ہے۔ مسلم، نسائی اور ترمذی نے بھی عبدالرزاق سے ہی اس حدیث کو روایت کیاہے۔
٤ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں، اس حدیث کو اپنے ہی طریق سے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند میں ضعف پایا جاتا ہے جوکہ راوی عبداللہ بن میمون القدام کے بارے میں ہے کہ وہ ’متروک‘ ہے۔
٥ اس روایت میں ابن جریر کے ہاں’ہشام بن سعد بن عبیداللہ‘ کی روایت سے یہ الفاظ غلط طورپر منقول ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے پہلی مرتبہ یہ فرمایاتھا:’’اے رب مجھ سے تخفیف فرما!‘‘ جب کہ صحیح الفاظ یہ ہیں:’’اے رب میری اُمت سے تخفیف فرما‘‘ جس طرح کہ معمر بن سلیمان بن عبیداللہ کی روایت اور اسی ہشام کی ایک اور روایت میں اس کی صراحت پائی جاتی ہے۔
٦ امام مسلم نے مسافروں کی نماز کے سلسلے میں ’’باب فضائل القرآن‘‘ (۱؍۵۶۲) کے تحت، نسائی نے اپنی سنن (۱؍۱۵۲) میں اور ابوداؤد نے بھی اپنی سنن (۲؍۷۶) میں اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
٧ مذکورہ حدیث میں’’إضاۃ بنی غفار‘‘ کے الفاظ ہیں، جس میں’’إضاۃ‘‘ بروزن ’’حصاۃ‘‘ ہے۔ ’’إضاۃ بنی غفار‘‘مدینہ میں ایک مقام تھا۔جب کہ بنی غفار کے مکانات بازارمدینہ کے مغربی طرف اور جہینہ کے پہاڑوں سے نازل سمت ’بطحان‘ کے طرف تھے۔ (نہایۃ لابن الاثیر: ۱؍۵۳، مشارق الانوار:۱؍۴۹، خلاصۃ الوفاء:۵۱۴)
٨ ابونعیم نے اس حد تک فرمایا ہے کہ ’’ہمارے اَساتذہ میں آپ سے زیادہ غلطی کھانے والا کوئی نہ تھا۔‘‘ (میزان الاعتدال:۴؍۵۰۰)
٩ اس سند میں دو علتیں ہیں: اولاً راوی علی بن ابی اللہبی ہے جس کے بارے میں نسائی اور ابوحاتم کا کہنا ہے کہ ’متروک‘ ہے اور دوسری علت اس کا انقطاع سند ہے، کیونکہ زبید الیامی کی علقمہ سے ملاقات نہیں۔ اس طرح اس سابقہ روایات بھی منقطع ہیں، کیونکہ ان کامدار عبداللہ کے اصحاب سے کسی ایک پر ہے جس کا نام نامعلوم ہے جب کہ بعض نے ’ہمدان‘ اس کا وصف بھی ذکر کیا ہے۔ باوجود ان سب کے معنی حدیث کے لیے شواہد موجود ہیں اور متعدد الفاظ کی اصل ’صحیح‘ میں ملتی ہے۔
١٠ ھوعبد اﷲ بن جعفر بن عبد الرحمن بن المسور بن مخرمۃ، انظر:(تقریب التہذیب:۱؍۴۰۶)
١١ المسند: (۴؍۲۰۴) وقد أخرج أبوعبید القاسم بن سلام الحدیث فی فضائل القرآن فقال: ثنا عبد اﷲ بن صالح عن المیث عن یزید بن الھاد عن محمد بن إبراہیم عن بسر ابن سعید فذکر محمد بن إبراہیم بین یزید وبسرہ،ولعلہ کذلک فیکون إسناد أحمد منقطعین مع أن رجالھما ثقات
١٢ فضائل القرآن (مخطوط) (بالمکتبۃ الظاھریۃ بدمشق(رقم: ۷۶۱۶) وأخرجہ الطحاوی فی مشکل الآثار من وجہ آخر عن عاصم (۴:۱۸۱)
١٣ عند أبی عبید فی فضائل القرآن،ومحمد بن منیع ذکرہ ابن کثیر فی فضائل القرآن
١٤ میزان الاعتدال(۱؍۵۹۴) حافظ ابن کثیر نے بہز اور عفان دونوں کی روایت سے ’سبعہ احرف‘ کے الفاظ بھی ذکر کئے ہیں اور ان الفاظ کو’مسند‘ کی طرف منسوب کیا ہے جبکہ مسند میں’ثلاثہ احرف‘ کے الفاظ ہیں۔ تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عین ممکن ہے ابن کثیر کو مسند کا کوئی اور نسخہ دستیاب ہوا ہو (جس طرح کہ حافظ ہیثمی کو دیکھنے کااتفاق ہوا تھا) لہٰذا انہوں نے وہاں سے سبعہ احرف کے الفاظ نقل کرکے ان کو’مسند‘کی طرف منسوب کردیا۔ بہر طور اس روایت کا روایاتِ متواترہ کی موجودگی میں کوئی مقام نہیں۔نیز اس میں دو علتیں بھی پائی جاتی ہیں:
(i) حمادبن سلمہ اگرچہ ثقہ راوی ہے، لیکن انہیں کبھی وہم بھی لاحق ہوجاتا ہے۔ممکن ہے کہ یہ حدیث آپ کے وہم کی نذر ہوگئی ہو۔
(ii) روایت میں ’قتادہ‘ عنعنہ سے روایت کرتے ہیں جب کہ وہ ’مدلس‘ راوی ہیں اور قاعدہ یہ ہے کہ مدلس راوی کا ’عنعنہ‘ قابل احتیاج نہیں۔
 
Top