• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کے سات حروف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کے سات حروف

مولانا مفتی محمد تقی عثمانی​
حدیث سبعہ اَحرف کے مفہوم سے متعلق زیر نظر تحریر کو ہم نے مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کی کتاب ’علوم القرآن‘ کے حصہ اول ، جو قرآن کریم کی نص کے بارے میں ہے، کے بابِ سوم سے اخذ کیا ہے اور مکمل تحریر کو بغیر کسی تبدیلی اور حک واضافہ کے مفتی صاحب حفظہ اللہ کی اجازت سے ہدیۂ قارئین کررہے ہیں۔ ’سبعۂ احرف‘ کی تعیین کے بارے میں عام اہل فن مثلا امام ابن جزری حفظہ اللہ وغیرہ کے موقف کے ضمن میں اردو زبان میں پیش کردہ تحریروں میں سے اس تحریر کو بہترین نمائندہ تحریر قرار دیا جاسکتا ہے، جس میں ’حروفِ سبعہ‘ سے متعلق کئی امور سے متعلق وضاحت اضافی طور پر آگئی ہے۔ ادارہ ’رشد‘ کو اگرچہ اس سلسلہ میں ’روایتی موقف‘ سے کلی اتفاق نہیں، لیکن جس متانت وسنجیدگی سے حضرت نے اس معرکۃ الاراء اور الجھے ہوئے موضوع کی نقاب کشائی فرمائی ہے، وہ انتہائی قابل ِقدر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مضمون پر حلقہ ’اشراق‘ سے وابستہ دانشور انور عباسی کی کتاب ’انسانیت، ہدایت کی تلاش میں‘ میں پیش کردہ تفصیلی تنقید کو ہم سراسر غلط سمجھتے ہیں، جس میں موصوف کے دلائل کا جائزہ ہم ان شاء اللہ رشد قراء ات نمبر (حصہ دوم) کے آئندہ شمارے میں ایک مستقل مضمون کی صورت میں تفصیلاً پیش کریں گے۔ (ادارہ)
صحیح حدیث میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:
(إِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ فَاقْرَئُ وا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ ) (صحیح البخاري: ۴۹۹۲)
’’یہ قرآن سات حروف پرنازل کیاگیا ہے، پس اُس میں سے جو تمہارے لیے آسان ہو اُس طریقے سے پڑھ لو۔‘‘
اس حدیث میں قرآن کریم کے سات حروف پرنازل ہونے سے کیا مراد ہے؟ یہ بڑی معرکۃ الآرا اور طویل بحث ہے اور بلا شبہ علومِ قرآن کے مشکل ترین مباحث میں سے ہے، یہاں یہ پوری بحث تو نقل کرنا مشکل ہے، لیکن اس کے متعلق ضروری ضروری چند باتیں پیش خدمت ہیں:
جو حدیث اوپر نقل کی گئی ہے وہ معنی کے اعتبار سے متواترہے، چنانچہ مشہور محدث امام ابو عبید بن سلام رحمہ اللہ نے اُس کے تواتر کی تصریح کی ہے اور حدیث و قراء ات کے معروف امام علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مستقل کتاب (جزء) میں اس حدیث کے تمام طرق جمع کئے ہیں اور اُن کے مطابق یہ حدیث حضرت عمر بن خطاب، ہشام بن حکیم بن حزام، عبدالرحمن بن عوف، اُبی بن کعب، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، عبداللہ ابن عباس، ابوسعید خدری، حذیفہ بن یمان، ابوبکرہ، عمرو بن عاص، زید بن ارقم، انس بن مالک، سمرہ بن جندب، عمر ابن ابی سلمہ، ابوجہم، ابوطلحہ اور اُم ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ۔(النشر في القراء ات العشر:۱؍۲۱) اس کے علاوہ متعدد محدثین نے یہ واقعہ نقل کیاہے کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منبرپر یہ اعلان فرمایاکہ وہ تمام حضرات کھڑے ہوجائیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ سے یہ حدیث سنی ہو کہ :
’’ قرآن کریم سات حروف پرنازل کیا گیا ہے جن میں سے ہرایک شافی اور کافی ہے۔‘‘
چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اتنی بڑی جماعت کھڑی ہوگئی، جسے شمار نہیں کیاجاسکا۔ (سنن النسائی:۹۴۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حروف ِ سبعہ کا مفہوم

اس حدیث میں سب سے پہلا مسئلہ یہ ہے کہ سات حروف پرقرآن کریم کے نازل ہونے سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلے میں آراء ونظریات کا شدید اختلاف ملتاہے، یہاں تک کہ علامہ ابن عربی رحمہ اللہ وغیرہ نے اس باب میں ۳۵؍اقوال شمار کئے ہیں۔ (البرہان في علوم القرآن:۱؍۲۱۲ ) یہاں اُن میں سے چند مشہور اقوال پیش خدمت ہیں:
١ بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد سات مشہور قاریوں کی قراء تیں ہیں، لیکن یہ خیال تو بالکل غلط اور باطل ہے، کیونکہ قرآن کریم کی متواتر قراء تیں ان سات قراء توں میں منحصر نہیں ہیں،بلکہ اور بھی متعدد قراء تیں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، یہ سات قراء تیں تو محض اس لیے مشہور ہوگئیں کہ علامہ ابن مجاہدؒ نے ایک کتاب میں اُن سات مشہور قراء کی قراء تیں جمع کردی تھیں، نہ اُن کا یہ مقصد تھا کہ قراء تیں سات میں منحصر ہیں، اور نہ وہ حروف سبعہ کی تشریح ان سات قراء توں سے کرناچاہتے تھے، جیسا کہ اس کی تفصیل اپنے مقام پرآئے گی۔
٢ اسی بناء پر بعض علماء نے یہ خیال ظاہرکیا ہے کہ حروف سے مراد تمام قراء تیں ہیں، لیکن ’سات‘ کے لفظ سے سات کا مخصوص عدد مرادنہیں ہے،بلکہ اس سے مراد کثرت ہے اور عربی زبان میں سات کالفظ محض کسی چیز کی کثرت بیان کرنے کے لیے اکثر استعمال ہوجاتا ہے، یہاں بھی حدیث کامقصد یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم جن حروف پر نازل ہوا وہ مخصوص طور پر سات ہی ہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ قرآن کریم ’بہت سے‘ طریقوں سے نازل ہوا ہے، علماء متقدمین میں سے قاضی عیاض رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے۔ (أوجز المسالک إلی مؤطا الإمام مالک: ۲؍۳۵۶ ) اور آخری دور میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی یہی قول اختیار فرمایا ہے۔ (مصفّی شرح مؤطا:۱؍۱۸۷ )
لیکن یہ قول اس لیے درست معلوم نہیں ہوتا کہ بخاری اورمسلم کی ایک حدیث میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آنحضرتﷺ کا یہ اِرشاد مروی ہے کہ:
(أَقْرَأَنِي جِبْرِیلُ عَلَیٰ حَرْفٍ فَرَاجَعْتُہٗ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیدُہٗ وَیَزِیدُنِي حَتَّیٰ انْتَھَیٰ إِلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ ) (بحوالہ مناہل العرفان:۱؍۱۳۳)
’’مجھے جبریل علیہ السلام نے قرآن کریم ایک حرف پر پڑھایا، تو میں نے ان سے مراجعت کی اور میں زیادتی طلب کرتارہااور وہ (قرآن کریم کے حروف میں) اضافہ کرتے رہے یہاں تک کہ وہ سات حروف تک پہنچ گئے۔‘‘
اس کی تفصیل صحیح مسلم کی ایک روایت میں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس طرح مروی ہے کہ آنحضرتﷺ بنو غفار کے تالاب کے پاس تھے:
(فأتاہ جبرئیل علیہ السلام فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ أمتک القراٰن علی حرف،فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وأن أمتی لا تطیق ذلک ثم أتاہ الثانیۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ اُمتک القراٰن علیٰ حرفین فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وأن أمتی لا تطیق ذلک،ثم جاء تہ الثالثۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ اُمتک القراٰن علیٰ ثلاثۃ أحرف فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وان اُمتی لاتطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعۃ فقال: إن اﷲ یأمرک أن تقرأ اُمتک القراٰن علی سبعۃ أحرف فأیما حرف قرء وا علیہ فقد أصابوا) (مناہل العرفان:۱؍۱۳۳ )
’’پس حضورﷺ کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور فرمایا کہ اللہ نے آپﷺ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ کی (ساری)اُمت قرآن کریم کوایک ہی حرف پر پڑھے،اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں، میری اُمت میں اس کی طاقت نہیں ہے، پھرجبرئیل علیہ السلام دوبارہ آپ کے پاس آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کی اُمت قرآن کریم کو دو حرفوں پر پڑھے، آپﷺ نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں، میری اُمت میں اس کی طاقت نہیں ہے، پھر وہ تیسری بار آئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ کی اُمت قرآن کریم کو تین حروف پر پڑھے، آپﷺ نے پھر فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ سے معافی اور مغفرت مانگتا ہوں،میری اُمت میں اس کی طاقت نہیں ہے، پھر وہ چوتھی بار آئے اورفرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ کی اُمت قرآن کو سات حروف پرپڑھے، پس وہ جس حرف پر پڑھیں گے اُن کی قراء ت درست ہوگی۔‘‘
ان روایات کا سیاق صاف بتا رہاہے کہ یہاں سات سے مراد محض کثرت نہیں، بلکہ سات کا مخصوص عدد ہے، اس لیے ان احادیث کی روشنی میں یہ قول قابل قبول معلوم نہیں ہوتا، چنانچہ جمہور نے اس کی تردید کی ہے۔
٣ بعض دوسرے علماء مثلاً حافظ ابن جریر طبری رحمہ اللہ وغیرہ نے فرمایا کہ مذکورہ حدیث میں سات حروف سے مراد قبائل عرب کی سات لغات ہیں،چونکہ اہل عرب مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور ہر قبیلہ کی زبان عربی ہونے کے باوجود دوسرے قبیلہ سے تھوڑی تھوڑی مختلف تھی اور یہ اختلاف ایسا ہی تھا جیسے ایک بڑی زبان میں علاقائی طورپر تھوڑے تھوڑے اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان مختلف قبائل کی آسانی کیلئے قرآن کریم سات لغات پرنازل فرمایا، تاکہ ہرقبیلہ اُسے اپنی لغت کے مطابق پڑھ سکے۔(تفسیر ابن جریر:۱؍۱۵ ) امام ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ نے ان قبائل کے نام بھی معین کرکے بتا دیئے ہیں:قریش ، ہذیل، تمیم، ازد، ربیعہ، ہوازن اور سعد بن بکر ۔ حافظ ابن عبدالبرؒ نے بعض حضرات سے نقل کرکے اُن کی جگہ یہ قبائل بتائے ہیں۔ ہذیل، کنانہ، قیس، ضبہ، تیم الرباب، اسد ابن خزیمہ اور قریش۔(فتح الباري:۹؍۲۲ ، روح المعاني:۱؍۲۱)
لیکن بہت سے محققین مثلاً حافظ ابن عبدالبر، علامہ سیوطی اور علامہ ابن الجزری رحمہم اللہ وغیرہ نے اس قول کی بھی تردیدکی ہے۔ اوّل تو اس لیے کہ عرب کے قبائل بہت سے تھے۔ ان میں صرف ان سات کے انتخاب کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟دوسرے یہ کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کے درمیان قرآن کریم کی تلاوت میں اختلاف ہوا، جس کا مفصل واقعہ صحیح بخاری وغیرہ میں مروی ہے، حالانکہ یہ دونوں حضرات قریشی تھے اور آنحضرتﷺ نے دونوں کی تصدیق فرمائی اور وجہ یہ بتائی کہ قرآن کریم سات حروف پرنازل ہوا ہے، اگر سات حروف سے مراد سات مختلف قبائل کی لغات ہوتیں تو حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ عنہ میں اختلاف کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے تھی، کیونکہ دونوں قریشی تھے۔ (النشر في القراء ات العشر:۱؍۲۵، فتح الباري :۹؍۲۳ )
اگرچہ علامہ آلوسی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ ’’ہوسکتا ہے کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو آنحضرتﷺ نے قریش کے علاوہ کسی اور لغت پر قرآن پڑھایاہو۔‘‘ (روح المعاني:۱؍۲۱) لیکن یہ جواب کمزور ہے، کیونکہ مختلف لغات میں قرآن کریم کے نازل ہونے کامنشاء یہی تو تھا کہ ہرقبیلہ والا اپنی لغت کے مطابق آسانی سے اُس کو پڑھ سکے، اس لیے یہ بات حکمت رسالت1 سے بعید معلوم ہوتی ہے کہ ایک قریشی کو دوسری لغت پر قرآن کریم پڑھایا گیاہو۔
اس کے علاوہ اس پر امام طحاوی رحمہ اللہ نے بھی یہ اعتراض کیا ہے کہ اگر یہ مان لیاجائے کہ سات حروف سے مراد سات قبائل کی لغات ہیں، تو یہ اس آیت کے خلاف ہوگا جس میں ارشاد ہے:
’’ وَمَااَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ ‘‘(ابراہیم:۴)
’’اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس کی قوم کی زبان میں۔‘‘
اور یہ بات طے شدہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی قوم قریش تھی، اس لیے ظاہر یہی ہے کہ قرآن صرف قریش کی لغت پرنازل ہوا ہے۔(مشکل الآثار:۴؍۱۸۵ ،۱۸۶) امام طحاوی رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ جس وقت حضرت عثمان 5 نے قرآن کریم کی جمع ثانی کا ارادہ فرمایا اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کومصحف تیار کرنے کا حکم دیا، اس وقت انہیں یہ ہدایت فرمائی تھی:
إذا اختلفتم أنتم في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فانما نزل بلسانھم (صحیح البخاري:۳۵۰۶)
’’جب قرآن (کی کتابت) میں تمہارے درمیان کوئی اختلاف ہو تو اُسے قریش کی لغت پر لکھنا، کیونکہ قرآن انہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔‘‘
اس میں حضرت عثمانؓ نے تصریح فرما دی ہے کہ قرآن صرف قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے، رہا یہ سوال کہ پھر اختلاف پیش آنے کا کیامطلب ہے؟سو اس کا مفصل جواب ان شاء اللہ آگے آئے گا۔
اس کے علاوہ اس قول کے قائلین اس بات پرمتفق ہیں کہ’احرفِ سبعہ‘ اور ’قراء ات‘ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں، قراء ات کااختلاف جو آج تک موجود ہے وہ صرف ایک حرف یعنی لغت قریش کے اندر ہے اورباقی حروف یامنسوخ ہوگئے یامصلحتاً انہیں ختم کردیاگیا۔ اس پر دوسرے اشکالات کے علاوہ ایک اشکال یہ بھی ہوتا ہے کہ پورے ذخیرۂ احادیث میں کہیں اس بات کاثبوت نہیں ملتا کہ قرآن کریم کی تلاوت میں دو قسم کے اختلافات تھے، ایک ’سبعہ احرف‘ کے اور ایک قراء ات کے ، بلکہ احادیث میں جہاں کہیں قرآن کریم کے کسی لفظی اختلاف کاذکر آیاہے وہاں صرف ’احرف‘ کااختلاف ذکر کیاگیا ہے، قراء ات کاکوئی جداگانہ اختلاف بیان نہیں کیاگیا، ان وجوہ کی بناء پریہ قول بھی نہایت کمزور معلوم ہوتاہے۔
٤ چوتھا مشہور قول امام طحاویؒ کا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم نازل تو صرف قریش کی لغت پر ہوا تھا، لیکن چونکہ اہل عرب مختلف علاقوں اور مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے اور ہرایک کے لیے اس ایک لغت پرقرآن کریم کی تلاوت بہت دشوار تھی، اس لیے ابتداء اسلام میں یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ اپنی علاقائی زبان کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت کرلیاکریں۔ چنانچہ جن لوگوں کے لیے قرآن کریم کے اصلی الفاظ سے تلاوت مشکل تھی، ان کے لیے خود آنحضرت ﷺ نے ایسے مرادفات متعین فرما دیئے تھے جن سے وہ تلاوت کرسکیں،یہ مرادفات قریش اور غیرقریش دونوں کی لغات سے منتخب کئے گئے تھے اور یہ بالکل ایسے تھے جیسے تعال کی جگہ ھلم یا اقبل یا ادن پڑھ دیا جائے۔ معنی سب کے ایک ہی رہتے ہیں، لیکن یہ اجازت صرف اسلام کے ابتدائی دور میں تھی، جبکہ تمام اہل عرب قرآنی زبان کے پوری طرح عادی نہیں ہوئے تھے، پھر رفتہ رفتہ اس قرآنی زبان کادائرہ اثر بڑھتا گیا۔ اہل عرب اس کے عادی ہوگئے اور ان کے لیے اسی اصلی لغت پر قرآن کی تلاوت آسان ہوگئی تو آنحضرتﷺ نے وفات سے پہلے رمضان میں حضرت جبریل علیہ السلام سے قرآن کریم کاآخری دور کیا۔ جسے عرضۂ اخیرہ کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر یہ مرادفات سے پڑھنے کی اجازت ختم کردی گئی اور صرف وہی طریقہ باقی رہ گیا جس پر قرآن نازل ہوا تھا۔ (مشکل الآثار:۴؍۱۸۶ تا۱۹۱)
اس قول کے مطابق ’سات حروف‘ والی حدیث کسی مخصوص زمانے سے متعلق ہے،جب تلاوت میں مرادفات استعمال کرنے کی اجازت تھی اور اس کامطلب یہ نہیں تھا کہ قرآن کریم سات حروف پرنازل ہوا ہے،بلکہ مطلب یہ تھا کہ وہ اس وسعت کے ساتھ نازل ہوا ہے کہ اُسے ایک مخصوص زمانے تک سات حروف پر پڑھاجاسکے گا اور سات حروف سے بھی مرادیہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کے ہر کلمہ میں سات مرادفات کی اِجازت ہے،بلکہ مقصد یہ تھاکہ زیادہ سے زیادہ جتنے مرادفات استعمال کئے جاسکتے ہیں اُن کی تعداد سات ہے اور اس اجازت کا مفہوم بھی یہ نہ تھا کہ ہرشخص اپنی مرضی سے جوالفاظ چاہے استعمال کرلے، بلکہ متبادل الفاظ کی تعیین بھی خود آنحضرتﷺ نے فرما دی تھی اور ہرشخص کو آپؐ نے اس طرح قرآن سکھلایا تھاجو اس کے لیے آسان ہو، لہٰذا صرف اُن مرادفات کی اجازت دی گئی تھی جو حضورﷺ سے ثابت تھے۔ (فتح الباري:۹؍۲۲،۲۳)
امام طحاویؒ کے علاوہ حضرت سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ، ابن وہبa اور حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ نے بھی یہی قول اختیار کیاہے بلکہ حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ نے تو اس قول کو اکثر علماء کی طرف منسوب کیاہے۔ ( شرح الموطأ للزرقانی:۲؍۱۱)
یہ قول پچھلے تمام اقوال کے مقابلہ میں زیادہ قرین قیاس ہے، اوراس کے قائلین اپنی دلیل میں مسنداحمدؒ کی وہ روایت پیش کرتے ہیں جو حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
أن جبریل قال یا محمد اقرأ القرآن علی حرف،قال میکائیکل استزدہ حتیٰ بلغ سبعۃ أحرف،قال کل شافٍ کافٍ ما لم تخلط آیۃ عذاب برحمۃ أو رحمۃ بعذاب، نحو قولک تعال وأقبل وھلم واذھب واسرع وعجّل (ہذا اللفظ روایۃ احمد وإسنادہ جید، أوجز المسالک:۲؍۳۵۷)
’’جبریل علیہ السلام نے (حضورﷺ سے)کہا کہ اے محمدؐ! قرآن کریم کو ایک حرف پرپڑھیے، میکائیل علیہ السلام نے (حضورﷺ سے) کہا اس میں اضافہ کروائیے۔یہاں تک کہ معاملہ سات حروف تک پہنچ گیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا، ان میں سے ہرایک شافی کافی ہے۔ تاوقتیکہ آپ عذاب کی آیت کو رحمت سے یا رحمت کو عذاب سے مخلوط نہ کریں، یہ ایساہی ہوتا جیسے آپ تعال (آؤ) کے معنی کو أقبل، ھلم، اذھب، أسرع اور عجل کے الفاظ سے ادا کریں۔‘‘
اس قول پر اور تو کوئی اشکال نہیں ہے، لیکن ایک الجھن اس میں بھی باقی رہتی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم کی جو مختلف قراء تیں آج تک متواتر چلی آرہی ہیں، اس قول کے مطابق ان کی حیثیت واضح نہیں ہوتی، اگر ان قراء توں کو ’سات حروف‘سے الگ کوئی چیز قرار دیا جائے تو اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے، احادیث کے وسیع ذخیرے میں ’احرف‘کے اختلاف کے علاوہ قرآن کریم کے کسی اور لفظی اختلاف میں ’احرف سبعہ‘ کے علاوہ ایک اور قسم کااختلاف بھی تھا، اس الجھن کا کوئی اطمینان بخش حل اس قول کے قائلین کے یہاں مجھے نہیں مل سکا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’سبعہ احرف‘کی راجح ترین تشریح

ہمارے نزدیک قرآن کریم کے’سات حروف‘ کی سب سے بہتر تشریح اور تعبیر یہ ہے کہ حدیث میں’حروف کے اختلاف‘ سے مراد ’قراء توں کا اختلاف‘ ہے اور سات حروف سے مراد ’اختلاف قراء ات‘ کی سات نوعیتیں ہیں، چنانچہ قراء تیں تو اگرچہ سات سے زائد ہیں، لیکن ان قراء توں میں جو اختلافات پائے جاتے ہیں ، وہ سات اقسام پر منحصر ہیں، (ان سات اقسام کی تشریح آگے آرہی ہے)
ہمارے علم کے مطابق یہ قول متقدمین میں سے سب سے پہلے امام مالک رحمہ اللہ کے یہاں ملتا ہے مشہور مفسر قرآن علامہ نظام الدین قمی نیشاپوری رحمہ اللہ اپنی تفسیر غرائب القرآن میں لکھتے ہیں کہ احرف سبعہ کے بارے میں امام مالک رحمہ اللہ کایہ مذہب منقول ہے کہ اس سے مراد قراء ات میں مندرجہ ذیل سات قسم کے اختلافات ہیں:
١ مفرد اور جمع کااختلاف، کہ ایک قراء ت میں لفظ مفرد آیا ہو اور دوسری میں صیغۂ جمع، مثلاً وتمت کلمۃ ربک، اور کلمات ربک،
٢ تذکیر و تانیث کااختلاف، کہ ایک میں لفظ مذکر استعمال ہوا اور دوسری میں مونث جیسے لایقبل اور لا تقبل۔
٣ وجوہ اعراب کااختلاف، کہ زیر زبر وغیرہ بدل جائیں، مثلاً ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اﷲِ اور غَیْرِ اﷲِ
٤ صرفی ہیئت کااختلاف،جیسے یَعْرِشُوْنَ اور یُعَرِّشُوْنَ
٥ ادوات (حروف نحویہ) کا اختلاف، جیسے لٰکِنَّ الشَّیَاطِیْنَ اور لٰکِنِ الشَّیَاطِیْنُ
٦ لفظ کا ایسا اختلاف جس سے حروف بدل جائیں، جیسے تعلمون اور یعلمون اور ننشزھا اور ننشرھا
٧ لہجوں کا اختلاف، جیسے تخفیف، تفخیم، امالہ، مد، قصر، اظہار اور ادغام وغیرہ۔ ( غرائب القرآن ورغائب الفرقان، ھامش ابن جریر:۱؍۲۱ )
پھریہی قول علامہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ،امام ابوالفضل رازی رحمہ اللہ، قاضی ابوبکر بن الطیب باقلانی رحمہ اللہ اور محقق ابن الجزری رحمہ اللہ نے اختیارفرمایا ہے۔ ابن قتیبہ رحمہ اللہ، ابوالفضل رازی رحمہ اللہ اور ابن الجزری رحمہ اللہ کے اقوال، (فتح الباري: ۹؍۲۵،۲۶)، اور (الاتقان:۱؍۴۷ )،میں موجود ہیں اور قاضی ابن الطیب رحمہ اللہ کاقول (تفسیر القرطبی:۱؍۴۵ ) میں دیکھا جاسکتا ہے۔
محقق ابن الجزری رحمہ اللہ جو قراء ات کے مشہور امام ہیں اپنا یہ قول بیان کرنے سے قبل تحریر فرماتے ہیں:
’’میں اس حدیث کے بارے میں اشکالات میں مبتلا رہا اور اس پر تیس سال سے زیادہ غور و فکر کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کی ایسی تشریح کھول دی جو ان شاء اللہ صحیح ہوگی۔‘‘ ( النشر فی القراء ات العشر:۱؍ ۲۶ )
یہ سب حضرات اس بات پر تو متفق ہیںکہ حدیث میں ’’سات حروف‘‘ سے مراد اختلاف قراء ت کی سات نوعیتیں ہیں، لیکن پھر ان نوعیتوں کی تعیین میں ان حضرات کے اقوال میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک نے قراء ات کا استقراء اپنے طور پر الگ الگ کیا ہے، ان میں جن صاحب کااستقراء سب سے زیادہ منضبط ،مستحکم اور جامع و مانع ہے ، وہ امام ابوالفضل رازی رحمہ اللہ ہیں، فرماتے ہیں:کہ قراء ات کااختلاف سات اقسام میں منحصر ہے۔
١ اسماء کا اختلاف،جس میں افراد، تثنیہ، جمع اور تذکیر و تانیث دونوں کااختلاف داخل ہے، (اس کی مثال وہی تمت کلمۃ ربک ہے، جو ایک قراء ت میں تمت کلمات ربک بھی پڑھا گیا ہے)
٢ افعال کا اختلاف، کہ کسی قراء ت میں صیغۂ ماضی ہو، کسی میں مضارع اور کسی میں امر (اس کی مثال ربنا باعد بین أسفارنا ہے کہ ایک قراء ت میں اس کی جگہ ربنا بعد بین أسفارنا بھی آیاہے)
٣ وجوہ اعراب کا اختلاف، جس میں اعراب یاحرکات مختلف قراء توں میں مختلف ہوں (اس کی مثال وَلَا یُضَارَّ کَاتِبٌ اور لَا یُضَارُّ کَاتِبٌ اور ذُوْالْعَرْشِ المَجِیْدُ اور ذُوْالعَرْشِ المَجِیْدِ)
٤ الفاظ کی کمی بیشی کااختلاف، کہ ایک قراء ت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ ہو (مثلاً ایک قراء ت میں وما خلق الذکر والانثی ہے اور دوسری میں والذکر والانثیٰ ہے اور اس میں وماخلق کا لفظ نہیں ہے، اسی طرح ایک قرا ء ت میں تجری من تحتھا الانھر اور دوسری میں تجری تحتھا الانھر)
٥ تقدیم و تاخیر کااختلاف کہ ایک قراء ت میں کوئی لفظ مقدم اور دوسری میں مؤخر ہے۔ (مثلاً وجاء ت سکرۃ الموت بالحق اور جاء ت سکرۃ الحق بالموت)
٦ بدلیت کا اختلاف،کہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہے اور دوسری قراء ت میں اس کی جگہ دوسرالفظ (مثلاً ننشزھا اور ننشرھا،نیز فتبینوا،فتثبتوا اور طلح اور طلع)
٧ لہجوں کا اختلاف، جس میں تفخیم، ترقیق، امالہ، قصر، مد، ہمر، اظہار اور ادغام وغیرہ کے اختلاف شامل ہیں۔(فتح الباری:۹؍۳۴ ) (مثلاً موسیٰ ایک قراء ت امالہ کے ساتھ ہے، اور دوسری میں بغیر امالہ کے ہے)
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ، علامہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ اور قاضی ابوطیب رحمہ اللہ کی بیان کردہ وجوہ اختلاف بھی اس سے ملتی جلتی ہیں، البتہ امام ابوالفضل رازی رحمہ اللہ کا استقراء اس لیے زیادہ جامع معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا اختلاف چھوٹا نہیں ہے،اس کے برخلاف باقی تین حضرات کی بیان کردہ وجوہ میں آخری قسم یعنی لہجوں کے اختلاف کا بیان نہیں ہے، اور امام مالک رحمہ اللہ کی بیان کردہ وجوہ میں لہجوں کا اختلاف تو بیان کیا گیا ہے ، لیکن الفاظ کی کمی بیشی، تقدیم و تاخیر اور بدلیت کے اختلافات کی پوری وضاحت نہیں ہے، اس کے برخلاف امام ابوالفضل رازی رحمہ اللہ کے استقراء میں یہ تمام اختلافات وضاحت کے ساتھ جمع ہوگئے ہیں، محقق ابن الجزری رحمہ اللہ جنہوں نے تیس سال سے زائد غوروفکر کرنے کے بعد سات احرف کو سات وجوہ اختلاف پر محمول کیا ہے۔ انہوں نے بھی امام ابوالفضل رحمہ اللہ کا قول بڑی وقعت کے ساتھ نقل فرمایا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ اُن کے مجموعی کلام سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ انہیں امام ابوالفضل رحمہ اللہ کااستقراء خود اپنے استقراء سے بھی زیادہ پسند آیا ہے۔(النشر في القراء ات العشر:۱؍ ۲۷،۲۸)
اس کے علاوہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے کلام سے بھی یہ محسوس ہوتاہے کہ انہوں نے ان تینوں اقوال میں امام ابوالفضل رازیؒ کے استقراء کو ترجیح دی ہے، کیونکہ انہوں نے علامہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ کا قول نقل کرکے لکھا ہے کہ ھذا وجہ حسن (یہ اچھی توجیہ ہے) پھر امام ابوالفضل کی بیان کردہ سات وجوہ بیان کرکے تحریر فرمایاہے:
’’قلت وقد أخذ کلام ابن قتیبۃ ونقحہ‘‘(فتح الباري:۹؍۲۴)
’’میراخیال ہے کہ امام ابوالفضل رازیؒ نے ابن قتیبہ کا قول اختیارکرکے اُسے اور نکھار دیا ہے۔‘‘
آخری دور میں شیخ عبدالعظیم الزرقانی رحمہ اللہ نے بھی انہی کے قول کو اختیارکرکے اس کی تائید میں متعلقہ دلائل پیش کئے ہیں۔ (مناہل العرفان فی علوم القرآن:۱؍۱۵۴ تا ۱۵۶)
بہر کیف! استقراء کی وجوہ میں تو اختلاف ہے، لیکن اس بات پر امام مالک علامہ ابن قتیبہ، امام ابوالفضل رازی، محقق ابن الجزری اور قاضی باقلانی رحمہم اللہ پانچوں حضرات متفق ہیں کہ حدیث میں سات حروف سے مراد قراء ت کے وہ اختلاف ہیں جوسات نوعیتوں میں منحصر ہیں۔
احقر کی ناچیز رائے میں’سبعہ احرف‘ کی یہ تشریح سب سے زیادہ بہتر ہے۔ حدیث کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے الفاظ کو مختلف طریقوں سے پڑھا جاسکتا ہے اور یہ مختلف طریقے اپنے نوعیتوں کے لحاظ سے سات ہیں، ان سات نوعیتوں کی کوئی تعیین چونکہ کسی حدیث میں موجود نہیں ہے اس لیے یقین کے ساتھ تو کسی کے استقراء کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ حدیث میں وہی مراد ہے لیکن بظاہر امام ابوالفضل رازیؒ کا استقراء زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ موجودہ قراء ات کی تمام انواع کو جامع ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس قول کی وجوہ ترجیح

’سبعہ احرف‘ کی تشریح میں جتنے اقوال حدیث، تفسیر اور علوم قرآن کی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں ہمارے نزدیک اُن سب میں یہ قول (کہ سات حروف سے مراد اختلاف قراء ت کی سات نوعیتیں ہیں) سب سے زیادہ راجح، قابل اعتماد اور اطمینان بخش ہے اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہ ہیں:
١ اس قول کے مطابق ’حروف‘ اور ’قراء ات‘ کو دو الگ الگ چیزیں قرار دینا نہیں پڑتا۔ علامہ ابن جریررحمہ اللہ اور امام طحاوی رحمہ اللہ کے اقوال میں ایک مشترک الجھن یہ ہے کہ ان میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت میں دو قسم کے اختلافات تھے، ایک حروف کا اختلاف اور دوسرا قراءات کا اختلاف۔ حروف کا اختلاف اب ختم ہوگیا اور قراء ات کا اختلاف باقی ہے، حالانکہ احادیث کے اتنے بڑے ذخیرے میں کوئی ایک ضعیف حدیث بھی ایسی نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ ’حروف‘ اور ’قراء ات‘ دو الگ الگ چیزیں ہیں، احادیث میں صرف حروف کے اختلاف کا ذکر ملتا ہے اور اسی کے لیے کثرت سے ’قراء ت‘ کا لفظ استعمال کیا گیاہے۔اگر ’قراء ات‘ ان ’حروف‘ سے الگ ہوتیں تو کسی نہ کسی حدیث میں اُن کی طرف کوئی اشارہ تو ہونا چاہئے تھا ، آخر کیا وجہ ہے کہ ’حروف‘ کے اختلاف کی احادیث تو تقریباً تواتر تک پہنچی ہوئی ہیں، اور ’قراء ات‘ کے جداگانہ اختلاف کا ذکر کسی حدیث میں بھی نہیں ہے؟ محض اپنی قیاس سے یہ کہہ دینا کیونکرممکن ہے کہ اختلاف حروف کے علاوہ قرآن کریم کے الفاظ میں ایک دوسری قسم کا اختلاف بھی تھا؟
مذکورہ بالا قول میں یہ اُلجھن بالکل رفع ہوجاتی ہے، اس لیے کہ اس میں ’حروف‘ اور ’قراء ات‘ کو ایک ہی چیز قرار دیا گیا ہے۔
٢ علامہ ابن جریررحمہ اللہ کے قول پر یہ ماننا پڑتا ہے کہ سات حروف میں سے چھ حروف منسوخ یا متروک ہوگئے اور صرف ایک حرف قریش باقی رہ گیا۔ (موجودہ قراء ات اسی حرف قریش کی ادائیگی کے اختلافات ہیں)اور اس نظریہ کی قباحتیں ہم آگے تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے، مذکورہ بالا آخری قول میں یہ قباحتیں نہیں ہیں، کیونکہ اس کے مطابق ساتوں حروف آج بھی باقی اور محفوظ ہیں۔
٣ اس قول کے مطابق ’سات حروف‘ کے معنی بلا تکلف صحیح ہوجاتے ہیں جبکہ دوسرے اقوال میں یا ’حروف‘ کے معنی میں تاویل کرنی پڑتی ہے یا ’سات‘ کے عدد میں۔
٤ ’سبعہ احرف‘ کے باب میں جتنے علماء کے اقوال ہماری نظر سے گذرے ہیں، اُن میں سب سے زیادہ جلیل القدر اور عہد رسالتؐ سے قریب تر ہستی امام مالک رحمہ اللہ کی ہے اور وہ علامہ نیشاپوری رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق اسی قول کے قائل ہیں۔
٥ علامہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ اور محقق ابن الجزری رحمہ اللہ دونوں علم قراء ات کے مسلم الثبوت امام ہیں، اور دونوں اسی قول کے قائل ہیں اور مؤخر الذکر کایہ قول پہلے گذر چکا ہے کہ انہوں نے تیس سال سے زائد اس حدیث پر غور کرنے کے بعد اس قول کو اختیارکیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس قول پر وارد ہونے والے اعتراضات اور اُن کا جواب

اب ایک نظر اُن اعتراضات پر بھی ڈال لیجئے جو اس قول پر وارد ہوسکتے ہیں یا وارد کئے گئے ہیں:
١ اس پر ایک اعتراض تو یہ کیا گیا ہے کہ اس قول میں جتنی وجوہ اختلاف بیان کی گئی ہیں وہ زیادہ تر صرفی اور نحوی تقسیمات پرمبنی ہیں،حالانکہ آنحضرت ﷺ نے جس وقت یہ حدیث ارشاد فرمائی اس وقت صرف ونحو کی یہ فنی اِصطلاحات اور تقسیمات رائج نہیں ہوئی تھیں، اُس وقت اکثر لوگ لکھنا پڑھنا بھی نہیں جانتے تھے، ایسی صورت میں ان وجوہ اختلاف کو ’سبعہ احرف‘ قرار دینا مشکل معلوم ہوتاہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے یہ اعتراض نقل کرکے اس کایہ جواب دیا ہے کہ:
’’ولایلزم من ذلک توھین ما ذھب إلیہ ابن قتیبۃ لاحتمال أن یکون الانحصار المذکور فی ذلک وقع اتفاقاً وإنما اطلع علیہ بالاستقراء وفی ذلک من الحکمۃ البالغۃ مالایخفی‘‘ (فتح الباری:۹؍۲۴ )
’’اس سے ابن قتیبہؒ کے قول کی کمزوری لازم نہیں آتی، اس لیے کہ یہ ممکن ہے کہ مذکورہ انحصار اتفاقاً ہوگیا ہو اور اس کی اطلاع استقراء کے ذریعہ ہوگئی ہو اور اس میں جو حکمت بالغہ ہے وہ پوشیدہ نہیں۔‘‘
ہماری ناچیز فہم کے مطابق اس جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ درست ہے عہد رسالتؐ میں یہ اصطلاحات رائج نہ تھیں اور شاید یہی وجہ ہو کہ آنحضرت ﷺ نے ’’سبعۃ احرف‘‘ کی تشریح اس دور میں نہیں فرمائی۔ لیکن یہ ظاہر ہے کہ یہ فنی اصطلاحات جن مفاہیم سے عبارت ہیں وہ مفاہیم تو اس دور میںبھی موجود تھے۔ اگر آنحضرت ﷺ نے ان مفاہیم کے لحاظ سے وجوہ اختلاف کو سات میں منحصر قرار دے دیا ہو تو اس میں کیا تعجب ہے؟ ہاں اُس دور میں اگر سات وجوہ اختلاف کی تفصیل بیان کی جاتی، تو شایدعامۃ الناس کی سمجھ سے بالاتر ہوتی۔ اس لیے آپؐ نے اس کی تفصیل بیان فرمانے کے بجائے صرف اتنا واضح فرما دیا کہ یہ وجوہ اختلاف کل سات میں منحصر ہیں بعد میں جب یہ اصطلاحات رائج ہوگئیں تو علماء نے استقراء تام کے ذریعہ ان وجوہ اختلاف کو اصطلاحی الفاظ سے تعبیر کردیا، یہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ کسی خاص شخص کے استقراء کے بارے میں یقین کامل سے یہ کہنا مشکل ہے کہ حضور اقدسﷺ کی مراد یہی تھی، لیکن جب مختلف لوگوں کا استقراء یہ ثابت کررہا ہے کہ وجوہ اختلاف کل سات ہیں تو اس بات کاقریب قریب یقین ہوجاتاہے کہ ’’سبعۃ احرف‘‘ سے آپؐ کی مراد سات وجوہ اختلاف تھیں، خواہ ان کی تفصیل بعینہٖ وہ نہ جو بعد میں استقراء کے ذریعے معین کی گئی ہے بالخصوص جبکہ ’سبعہ احرف‘ کی تشریح میں کوئی اور صورت معقولیت کے ساتھ بنتی ہی نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سات حروف کے ذریعہ کیاآسانی پیدا ہوئی؟

٢ اس قول پردوسرا اعتراض یہ ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کو سات حروف پر اس لیے نازل کیا گیا، تاکہ امت کے لیے تلاوت قرآن میں آسانی پیدا کی جائے۔ یہ آسانی علامہ ابن جریررحمہ اللہ کے قول پر تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ عرب میں مختلف قبائل کے لوگ تھے اورایک قبیلے کے لیے دوسرے قبیلے کی لغت پرقرآن پڑھنا مشکل تھا لیکن امام مالک رحمہ اللہ، امام رازی رحمہ اللہ اور ابن الجزری رحمہ اللہ وغیرہ کے اس قول پر تو ساتوں حروف ایک لغت قریش ہی سے متعلق ہیں۔اس میں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ جب قرآن کریم ایک ہی لغت پر نازل کرنا تھا تو اس میں قراء ات کا اختلاف باقی رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟
اس اعتراض کی بنیاد اس بات پر ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تلاوت قرآن میں سات حروف کی جو سہولت اُمت کے لیے مانگی تھی اس میں قبائل عرب کااختلاف لغت آپؐ کے پیش نظر تھا۔ حافظ ابن جریرطبری رحمہ اللہ نے اسی بناء پر ’سات حروف‘ کو ’سات لغات عرب‘ کے معنی پہنائے ہیں، حالانکہ یہ وہ بات ہے جس کی تائید کسی حدیث سے نہیں ہوتی۔اس کے برعکس ایک حدیث میں سرکاردو عالم ﷺ نے صراحت و وضاحت کے ساتھ یہ بیان فرما دیاہے کہ سات حروف کی آسانی طلب کرتے ہوئے آپﷺ کے پیش نظر کیا بات تھی؟ امام ترمذی رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ:
’’لقی رسول اﷲ! جبریل عند احجار المراء فقال رسول اﷲ! لجبریل: إنی بُعثت إلی اُمۃ اُمیین فیھم الشیخ الفانی والعجوز الکبیرۃ والغلام، قال فمرھم فلیقرء وا القرآن علیٰ سبعۃ أحرف‘‘ ( النشر فی القراء ات العشر:۱؍۲۰ )
’’رسو ل اللہﷺ کی حضرت جبریل علیہ السلام سے مراء کے پتھروں کے قریب ملاقات ہوئی، آپؐ نے حضرت جبریل ؑ سے فرمایا: میں ایک اَن پڑھ اُمت کی طرف بھیجا گیا ہوں جس میں لبِ گور بوڑھے بھی ہیں، سن رسیدہ بوڑھیاں بھی اور بچے بھی، حضرت جبریلؑ نے فرمایا کہ اُن کو حکم دیجئے کہ وہ قرآن کو سات حروف پر پڑھیں۔‘‘
ترمذی ہی کی دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں کہ آپؐ نے حضرت جبریل ؑسے فرمایا :
(إنی بعثت إلی اُمۃ اُمیین منھم العجوز والشیخ والکبیر والغلام والجاریۃ والرجل الذی لم یقرأ کتابا قط) (سنن الترمذی:۲۹۴۴)
’’مجھے ایک اَن پڑھ اُمت کی طرف بھیجا گیا ہے جن میں بوڑھیاں بھی ہیں، بوڑھے بھی، سن رسید بھی، لڑکے بھی اورلڑکیاں بھی اورایسے لوگ بھی جنہوں نے کبھی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔‘‘
اس حدیث کے الفاظ صراحت اور وضاحت کے ساتھ بتلارہے ہیں کہ اُمت کے لیے سات حروف کی آسانی طلب کرنے میں آنحضرت ﷺ کے پیش نظر یہ بات تھی کہ آپؐ ایک اُمی اور اَن پڑھ قوم کی طرف مبعوث ہوئے ہیں۔جس میںہر طرح کے افراد ہیں۔ اگر قرآن کریم کی تلاوت کے لیے صرف ایک ہی طریقہ متعین کردیا گیا تو اُمت مشکل میں مبتلا ہوجائے گی۔ اس کے برعکس اگر کئی طریقے رکھے گئے تو یہ ممکن ہوگا کہ کوئی شخص ایک طریقے سے تلاوت پر قادر نہیں ہے تو وہ دوسرے طریقہ سے انہی الفاظ کو ادا کردے۔ اس طرح اس کی نماز اور تلاوت کی عبادات درست ہوجائیں گی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بوڑھوں، بوڑھیوں یا اَن پڑھ لوگوں کی زبان پر ایک لفظ ایک طریقہ سے چڑھ جاتاہے اور اس کے لیے زیر زبر کا معمولی فرق بھی دشوار ہوتاہے، اس لیے آپؐ نے یہ آسانی طلب فرمائی کہ مثلاً کوئی شخص معروف کا صیغہ ادا نہیں کرسکتا تو اس کی جگہ دوسری قراء ت کے مطابق مجہول کا صیغہ اداکرلے یاکسی کی زبان پر صیغۂ مفرد نہیں چڑھتا تو وہ اسی آیت کو صیغہ جمع سے پڑھ لے، کسی کے لیے لہجہ کا ایک طریقہ مشکل ہے تو دوسرا اختیار کرلے اور اس طرح اس کو پورے قرآن میں سات قسم کی آسانیاں مل جائیں گی۔
آپ نے مذکورہ بالا حدیث میں ملاحظہ فرمایاکہ اس میں آنحضرتﷺ نے سات حروف کی آسانی طلب کرتے وقت یہ نہیں فرمایا کہ میں جس اُمت کی طرف بھیجا گیا ہو وہ مختلف قبائل سے تعلق رکھتی ہے اور اُن میں سے ہر ایک کی لغت جدا ہے، اس لیے قرآن کریم کو مختلف لغات پر پڑھنے کی اِجازت دی جائے اس کے برخلاف آپؐ نے قبائلی اختلافات سے قطع نظر ان کی عمروں کا تفاوت اور اُن کے اُمی ہونے کی صفت پر زور دیا یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سات حروف کی آسانی دینے میں بنیادی عامل قبائل کا لغوی اختلاف نہ تھا بلکہ اُمت کی ناخواندگی کے پیش نظر تلاوت میں ایک عام قسم کی سہولت دیناپیش نظر تھا، جس سے اُمت کے تمام افراد فائدہ اٹھاسکیں۔
٣ اس قول پر تیسرا اعتراض یہ ہوسکتا ہے کہ اختلاف قراء ات کی جو سات نوعیتیں بیان کی گئی ہیں وہ خواہ مالکؒ یا ابوالفضل رازیؒ کی بیان کی ہوئی ہوں یا علامہ ابن قتیبہؒ،محقق ابن الجزریؒ اورقاضی ابن الطیبؒ کی، بہرحال ایک قیاس اور تخمینہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی وجہ سے ان حضرات میں سے ہر ایک نے ان سات وجوہ اختلاف کی تفصیل الگ الگ بیان کی ہے، اُن کے بارے میں یقین کے ساتھ یہ کیونکر باور کرلیا جائے کہ آنحضرتﷺ کی مراد یہی تھی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ’سبعہ احرف‘ کی کوئی واضح تشریح کسی حدیث یا کسی صحابی کے قول میں نہیں ملتی۔ اس لیے اس باب میں جتنے اقوال ہیں اُن سب میں روایات کو مجموعی طور پر جمع کرکے کوئی نتیجہ نکالا گیا ہے۔ اس لحاظ سے یہ قول زیادہ قرین صحت معلوم ہوتا ہے، کیونکہ اس پر کوئی بنیادی اعتراض واقع نہیں ہوتا۔ روایات کو مجموعی طور پر دیکھنے کے بعد ہمیں اس بات کا تو قریب قریب یقین ہوجاتا ہے کہ حدیث میں سات حروف سے مراد اختلاف قراء ت کی سات نوعیتیں ہیں۔ رہی ان نوعیتوں کی تعیین و تشخیص، سو اس کے بارے میں ہم پہلے بھی یہ عرض کرچکے ہیں کہ اسے معلوم کرنے کا ذریعہ استقراء کے سوا کوئی اورنہیں، امام ابوالفضل رازیؒ کااستقراء ہمیں جامع و مانع ضرور معلوم ہوتا ہے، مگر یقین کے ساتھ ہم کسی کے استقراء کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ حضورﷺ کی مراد یہی تھی، لیکن اس سے یہ اصولی حقیقت مجروح نہیں ہوتی کہ’سبعہ احرف‘ سے آنحضرتﷺ کی مراد اختلاف قراء ت کی سات نوعیتیں تھیں، جن کی تفصیل کایقینی علم حاصل کرنے کا نہ ہمارے پاس کوئی راستہ ہے اورنہ اُس کی چنداں ضرورت ہے۔
٤ اس قول پر چوتھا اعتراض یہ ممکن ہے کہ اس قول میں ’حروف سبعہ‘ سے الفاظ اور ان کی ادائیگی کے طریقوں کااختلاف مراد لیاگیا ہے، معانی سے اس میں بحث نہیں ہے، حالانکہ ایک روایت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد سات قسم کے معانی ہیں۔امام طحاویؒ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت سے آنحضرتﷺ کایہ ارشاد نقل فرماتے ہیں:
’’کان الکتاب الاول ینزل من باب واحد علی حرف واحد و نزل القرآن من سبعۃ أبواب علی سبعۃ أحرف زاجر وامرو حلال و حرام ومحکم ومتشابہ وأمثال… الخ‘‘
’’پہلے کتاب ایک باب سے ایک حرف پرنازل ہوتی تھی اور قرآن کریم سات ابواب سے سات حروف پر نازل ہوا (وہ سات حروف یہ ہیں) زاجر (کسی بات سے روکنے والا) آمر (کسی چیزکاحکم دینے والا) حلال وحرام، محکم (جس کے معنی معلوم ہیں) متشابہ (جس کے یقینی معنی معلوم نہیں)اور امثال‘‘
اسی بناء پربعض علماء سے منقول ہے کہ انہوں نے سات حروف کی تفسیر سات قسم کے معانی سے کی ہے:
اس کاجواب یہ ہے کہ مذکورہ بالا روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ اس کی سند پر کلام کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اسے ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، حالانکہ ابوسلمہؓ کی ملاقات حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے نہیں ہوئی۔ (مشکل الآثار:۴؍۱۸۵)
اس کے علاوہ قدیم زمانہ کے جن بزرگوں سے اس قسم کے اقوال منقول ہیں، ان کی تشریح کرتے ہوئے حافظ ابن جریر طبریؒ نے لکھا ہے کہ ان کا مقصد’سبعہ احرف‘ والی حدیث کی تشریح کرنا نہیں تھا، بلکہ ’ سبعہ احرف‘ کے زیر بحث مسئلہ سے بالکل الگ ہوکر یہ کہنا چاہتے تھے کہ قرآن کریم اس قسم کے مضامین پر مشتمل ہے۔ (تفسیر ابن جریر:۱؍۱۵)
رہے وہ لوگ جنہوں نے ’سبعہ احرف‘ والی حدیث کی تشریح ہی میں اس قسم کی باتیں کہی ہیں، اُن کا قول بالکل بدیہی البطلان ہے۔ اس لیے کہ پیچھے جتنی احادیث نقل کی گئی ہیں، اُن کو سرسری نظر ہی سے دیکھ کر ایک معمولی عقل کا انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ حروف کے اختلاف سے مراد معانی اور مضامین کا نہیں، بلکہ الفاظ کااختلاف ہے چنانچہ محقق علماء میں سے کسی ایک نے بھی اس قول کااختیار نہیں کیا، بلکہ اس کی تردید کی ہے۔(تفصیل تردید کے لیے ملاحظہ ہو ، الاتقان :۱؍۴۹ ، نوع ۱۶، اور النشر فی القراء ات العشر لابن الجزری:۱؍۲۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حروف سبعہ اب بھی محفوظ ہیں یا متروک ہوگئے
’سات حروف‘ کے معنی متعین ہوجانے کے بعدا ہم بحث یہ ہے کہ یہ ساتوں حروف آج بھی باقی ہیں یا نہیں؟ اس مسئلہ میںمتقدمین سے تین قول منقول ہیں:
١ پہلا قول حافظ ابن جریر طبریؒ اور ان کے متبعین کاہے، پیچھے ہم عرض کرچکے ہیں کہ ان کے نزدیک ’احرف سبعہ‘ سے مرادقبائل عرب کی سات لغات ہیں۔ اسی بناء پر وہ یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک قرآن کریم ان ساتوں حروف پر پڑھا جاتا تھا، لیکن حضرت عثمان ؓ کے زمانے میں جب اسلام دور دراز ممالک تک پھیلا تو ان حروف سبعہ کی حقیقت نہ جاننے کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑے ہونے لگے، مختلف لوگ مختلف حروف پر قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور ایک دوسرے کی تلاوت کو غلط ٹھہراتے تھے۔ اس فتنہ کے انسداد کے لیے حضرت عثمانؓ نے صحابہ کرام ؓ کے مشورے سے پوری اُمت کو صرف ایک حرف یعنی لغت قریش پر جمع کر دیا اور اسی کے مطابق سات مصاحف مرتب فرماکر مختلف صوبوں میں بھیج دیئے اور باقی تمام مصاحف کونذر آتش کرا دیا تاکہ کوئی اختلاف پیدانہ ہوسکے۔لہٰذا اب صرف لغت قریش کا حرف باقی رہ گیا ہے اور باقی چھ حروف محفوظ نہیں رہے اور قراء توں کا جو اختلاف آج تک باقی چلاآتا ہے وہ اسی ایک حرف قریش کی ادائیگی کے مختلف طریقے ہیں۔ (تفسیرابن جریر:۱؍۱۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن جریررحمہ اللہ کانظریہ اور اُس کی قباحتیں

حافظ ابن جریر طبریؒ نے چونکہ اپنا یہ نظریہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں بڑی تفصیل اور جزم و وثوق کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔اس لیے یہ قول بہت مشہور ہوگیا اور آج کل حروف سبعہ کی تشریح عموماً اسی کے مطابق کی جاتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بیشتر محقق علماء (ان علماء کے اسماء گرامی آگے آرہے ہیں) نے اسے اختیار نہیں کیا بلکہ اس کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے۔ کیونکہ اس قول پر متعدد الجھنیں ایسی کھڑی ہوجاتی ہیں جن کا کوئی حل نہیں ہے۔
اس نظریہ پر سب سے پہلا اعتراض تو وہی ہوتا ہے جو ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ اس میں’حروف‘ اور ’قراء ات‘ کو دو الگ الگ چیزیں قرار دیا گیاہے۔حالانکہ یہ بات کسی حدیث سے ثابت نہیں ۔
دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ حافظ ابن جریر طبریؒ ایک طرف تو یہ تسلیم فرماتے ہیں کہ ساتوں حروف منزل من اللہ تھے۔ دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عثمان ؓ نے صحابہؓ کے مشورے سے چھ حروف کی تلاوت کو ختم فرما دیا حالانکہ اس بات کو باور کرنا بہت مشکل ہے کہ صحابہ کرام ؓاُن حروف کو یکسر ختم کرنے پرمتفق ہوگئے ہوں جواللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کی فرمائش پراُمت کی آسانی کے لیے نازل فرمائے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کااجماع بیشک دین میں حجت ہے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہ ممکن نہیں معلوم ہوتا کہ جس چیز کا قرآن ہونا تواتر کے ساتھ ثابت ہو، اُسے وہ صفحۂ ہستی سے مٹا دینے پرمتفق ہوجائیں۔
حافظ ابن جریرؒ نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ دراصل امت کو قرآن کریم کی حفاظت کاحکم ہوا تھا اور اسے ساتھ ہی یہ اختیار بھی دے دیا تھا کہ وہ سات حروف میں سے جس حرف کو چاہے اختیار کرلے، چنانچہ اُمت نے اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک اجتماعی مصلحت کی خاطر چھ حروف کی تلاوت چھوڑ دی اور ایک حرف کی حفاظت پر متفق ہوگئی۔ اس اقدام کامنشاء نہ اُن حروف کو منسوخ قرار دینا تھا اور نہ اُن کی تلاوت کو حرام قرار دینا تھا، بلکہ اپنے لیے اجتماعی طور پر ایک حرف کا انتخاب تھا۔
لیکن یہ جواب بھی اس لیے کمزور معلوم ہوتا ہے کہ اگر صورت یہی تھی تو کیا یہ مناسب نہ تھا کہ اُمت اپنے عمل کے لیے خواہ ایک حرف کو اختیار کرلیتی، باقی چھ حروف کا وجود سرے سے ختم کرنے کے بجائے اُسے کم از کم کسی ایک جگہ محفوظ رکھتی، تاکہ اُن کا وجود ختم نہ ہو، قرآن کریم کا یہ ارشاد ہے:
’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹)
’’بلا شبہ ہم نے قرآن نازل کیا ہے اورہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
جب ساتوں حروف قرآن تھے تو اس آیت کا صاف تقاضا یہ ہے کہ وہ ساتوں حروف قیامت تک محفوظ رہیں گے اور کوئی شخص ان کی تلاوت چھوڑنا بھی چاہے تو وہ ختم نہیں ہوسکیں گے، حافظ ابن جریر طبریؒ نے اس کی نظیر میں یہ مسئلہ پیش کیا ہے کہ قرآن کریم نے جھوٹی قسم کھانے کے کفارے میں انسانوں کو تین باتوں کا اختیار دیا ہے، یا تو وہ ایک غلام آزاد کرے یادس مسکینوں کو کھاناکھلائے ، یادس مسکینوں کو کپڑے دے، اب اگر اُمت باقی صورتوں کوناجائز قرار دیئے بغیر اپنے عمل کے لیے ان میں سے کوئی ایک صورت اختیارکرلے تو یہ اُس کے لیے جائز ہے، اسی طرح قرآن کے سات حروف میں سے اُمت نے ایک حرف کو اجتماعی طور پر اختیار کرلیا، لیکن یہ مثال اس لیے درست نہیں کہ اگر امت کفارۂ یمین کی تین صورتوں میں سے ایک صورت اس طرح اختیار کرلے کہ باقی صورتوں کو ناجائز تو نہ کہے لیکن عملاً ان کا وجود بالکل ختم ہوکر رہ جائے اور لوگوں کو صرف اتنامعلوم رہ جائے کہ کفارۂ یمین کی دو صورتیں اور تھیں جن پر اُمت نے عمل ترک کردیا، لیکن وہ صورتیں کیاتھیں؟ اُن کا جاننے والا بھی کوئی باقی نہ رہے تو یقینا اُمت کے لیے ایسے اقدام کی گنجائش نہیں ہے۔
پھر سوال یہ ہے کہ باقی چھ حروف کو ترک کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟حافظ ابن جریرؒ نے فرمایا کہ مسلمانوں میں ان حروف کے اختلاف کی وجہ سے شدیدجھگڑے ہورہے تھے۔اس لیے حضرت عثمان نے صحابہ ؓ کے مشورہ سے یہ مناسب سمجھا کہ ان سب کو ایک حرف پر متحد کردیا جائے، لیکن یہ بھی ایسی بات ہے جسے باور کرنا بہت مشکل ہے۔ حروف کے اختلاف کی بناء پرمسلمانوں کا اختلاف تو خود سرکار دو عالمﷺ کے زمانے میں بھی پیش آیا تھا، احادیث میں ایسے متعدد واقعات مروی ہیں کہ ایک صحابی نے دوسرے صحابی کو مختلف طریقے سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے سنا تو باہمی اختلاف کی نوبت آگئی، یہاں تک کہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عمررضی اللہ عنہ تو حضرت ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے گلے میں چادر ڈال کر انہیں آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے آئے تھے اور حضرت اُبی بن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ حروف کا یہ اختلاف سن کرمیرے دل میں زبردست شکوک پیدا ہونے لگے تھے، لیکن اس قسم کے واقعات کی بناء پر آنحضرت ﷺ نے حروف سبعہ کو ختم کرنے کے بجائے انہیں حروف کی رخصت سے آگاہ فرمایا، اور اس طرح کوئی فتنہ پیدا نہیں ہوسکا۔ صحابہ کرامؓ سے یہ بعید ہے کہ انہوں نے اس اسوۂ حسنہ پرعمل کرنے کے بجائے چھ حروف ختم کرنے کافیصلہ کرلیاہو۔
پھر عجیب بات ہے کہ علامہ ابن جریرؒ کے قول کے مطابق صحابہؓ نے چھ حروف تو اختلاف کے ڈر سے ختم فرما دیئے اورقراء تیں (جو اُن کے قول میں حروف سے الگ ہیں)جوں کی توں باقی رکھیں، چنانچہ وہ آج تک محفوظ چلی آتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ افتراق و اختلاف کا جو اندیشہ مختلف حروف پر قرآن کی تلاوت جاری رکھنے میں تھا کیا وہی اندیشہ قراء ات کے اختلاف میں نہیں تھا؟ جبکہ ان قراء توں کی روشنی میں بعض مرتبہ ایک ایک لفظ بیس بیس مختلف طریقوں سے پڑھاجاتا ہے؟ اگرچھ حروف ختم کرنے کامنشاء یہی تھاکہ مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہو اور وہ سب ایک طریقہ سے قرآن کی تلاوت کیاکریں تو قراء توں کے اختلاف کو آخر کیوں ختم نہیں کیاگیا؟ جب قراء ات کے اختلاف کو باوجود مسلمانوں کے انتشار کوروکا جاسکتاتھا اورمسلمانوں کو یہ سمجھایاجاسکتاتھا کہ ان تمام طریقوں سے تلاوت جائز ہے تو یہی تعلیم حروف سبعہ کے باب میں فتنہ کا سبب کیوں سمجھ لی گئی؟ حقیقت یہ ہے کہ حافظ ابن جریرؒ کے قول پر ’حروف سبعہ‘ اور ’قراء ات‘ کے بارے میں صحابہ کرامؓ کی طرف ایسی حیرت انگیز دو عملی منسوب کرنی پڑتی ہے جس کی کوئی معقول توجیہ سمجھ میں نہیں آتی
پھر حضرت عثمان ؓ اور دوسرے صحابہ کرامؓ کی طرف اتنے بڑے اقدام کی نسبت کسی صریح اور صحیح روایت کی بناء پر نہیں بلکہ بعض مجمل الفاظ کی قیاسی تشریح کے ذریعہ کی گئی ہے جن روایات میں حضرت عثمان ؓ کے جمع قرآن کا واقعہ بیان ہوا ہے اس میں اس بات کی کوئی صراحت نہیں ہے کہ انہوں نے چھ حروف کو ختم فرما دیا تھابلکہ اس کے خلاف دلیلیں موجود ہیں جن کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ اب کسی صحیح اور صریح روایت کے بغیر یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے اُن چھ حروف کو بالکل بے نشان کردینا گوارا کرلیا جو آنحضرت ﷺ کی بار بار فرمائش پر بذریعہ وحی نازل ہوئے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ جن صحابہ کرام ؓ کی جمع و ترتیب قرآن کے نیک کام میں محض اس لیے تأمل رہا ہو کہ یہ کام آنحضرت ﷺ نے نہیں کیا، جنہوں نے قرآن کریم کے ایک ایک لفظ کو محفوظ رکھنے میں اپنی عمریں کھپائی ہوں اور جنہوں نے منسوخ التلاوۃ آیات تک کو محفوظ کرکے اُمت تک پہنچایا ہو، اُن سے یہ بات بے انتہا بعید ہے کہ وہ سب کے سب چھ حروف کو ختم کرنے پر اس طرح متفق ہوجائیں کہ آج اُن حروف کا کوئی نام و نشان تک باقی نہ رہے، جن آیات کی تلاوت منسوخ ہوچکی تھی، صحابہ کرامؓ نے انہیں بھی کم از کم تاریخی حیثیت میں باقی رکھ کر ہم تک پہنچایا ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ ’حروف‘ جن کے بارے میں حافظ ابن جریرؒ بھی تسلیم فرماتے ہیں کہ وہ منسوخ نہیں ہوئے، بلکہ محض مصلحۃً اُن کی قراء ت و کتابت ختم کردی گئی، اُن کی کوئی ایک مثال کسی ضعیف روایت میں بھی محفوظ نہ رہ سکی۔
یہی وجہ ہے کہ بیشتر محقق علماء نے حافظ ابن جریر طبریؒ کے اس قول کی تردید فرمائی ہے جن کے اقوال کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام طحاویؒ کا قول

٢ دوسرا مسلک امام طحاویؒ نے اختیار فرمایا ہے۔پیچھے گذر چکا ہے کہ اُن کے نزدیک قرآن کریم نازل تو صرف ایک لغت قریش پر ہوا تھا،لیکن اُمت کی آسانی کے خیال سے یہ اجازت دے دی گئی تھی کہ وہ قرآن کی تلاوت میں سات کی حدتک دوسرے مرادفات استعمال کرسکتے ہیں اور یہ مرادفات بھی آنحضرت ﷺ نے متعین فرما دیئے تھے۔ اسی اجازت کو حدیث میں قرآن کریم کے ’سات حروف‘ پر نازل ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے، لیکن یہ اجازت ابتداء اسلام میں تھی، بعدمیں جب لوگ قرآنی لغت کے عادی ہوگئے تو خود آنحضرتﷺ کے زمانہ میں یہ اجازت منسوخ ہوگئی اور جب آپ نے اپنی وفات سے پہلے رمضان میں حضرت جبریل سے قرآن کریم کا آخری دور کیا تو اس وقت یہ مرادفات منسوخ کردیئے گئے اور اب صرف وہی حرف باقی ہے جس پر قرآن کریم نازل ہوا تھا، یعنی حرف قریش، باقی چھ مرادفات منسوخ ہوچکے۔
یہ قول حافظ ابن جریرؒ کے قول کے مقابلہ میں اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس میں صحابہ کرامؓ کی طرف یہ بات منسوب نہیں کی گئی کہ چھ حروف انہوں نے ترک کئے، بلکہ نسخ کی نسبت خود عہد رسالتؐ کی طرف کی گئی ہے ، لیکن اُس پر ایک اشکال تو یہ ہوتا ہے کہ اس قول کے مطابق چھ حروف منزل من اللہ نہیں تھے، حالانکہ حضرت عمرؓ اور حضرت ہشامؓ کے درمیان جواختلاف پیش آیا اس میں حضرت ہشام ؓ نے حضورﷺ کے سامنے سورۂ فرقان اپنے طریقہ سے تلاوت فرمائی ، تو اُسے سن کر آپؐ نے فرمایا: ھکذا أنزلت (یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے) اور پھر حضرت عمرؓ نے اپنے طریقہ سے تلاوت فرمائی، اُسے سن کر بھی آپؐ نے فرمایا : ھکذا أنزلت ( صحیح البخاري:۲۴۱۹) (یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے) ان الفاظ کاکھلا ہوا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں طریقے منزل من اللہ تھے۔
دوسرے جیسا کہ پیچھے عرض کیاگیا اس قول میں بھی قراء ات کی حیثیت واضح نہیں ہوتی کہ وہ سات حروف میں داخل تھیں یا نہیں۔ اگر داخل تھیں تو چھ حروف کی طرح اُن کے بارے میں بھی یہ کہنا پڑے گا کہ (معاذ اللہ) وہ منزل من اللہ نہیں ہیں۔ حالانکہ یہ اجماع کے خلاف ہے اور اگر داخل نہیں تھیں تو ان کے علیحدہ وجود پر کوئی دلیل نہیں، اس لیے اس قول پر بھی شرح صدر نہیں ہوتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سب سے بہتر قول

تیسرا قول جو سب سے زیادہ اطمینان بخش اور بے غبار ہے وہ یہی ہے کہ سات اَحرف سے مراد چونکہ اختلاف قراء ت ہی کی سات مختلف نوعیتیں ہیں جن کا ذکر پیچھے آچکا ہے، اس لیے یہ ساتوں حروف آج بھی پوری طرح محفوظ ہیں اور باقی ہیں اور ان کی تلاوت کی جاتی ہے، البتہ اتنا فرق ضرور ہوا ہے کہ ابتدائے اسلام میں قراء توں کے اختلافات کی تعداد بہت زیادہ تھی اور ان میں مرادف الفاظ کے اختلاف کی کثرت تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ لغت قرآن کے پوری طرح عادی نہیں ہوئے انہیں زیادہ سے زیادہ سہولت دی جائے، بعد میں جب اہل عرب لغت قرآن کے عادی ہوگئے تو مرادفات وغیرہ کے بہت سے اختلافات ختم کردیئے گئے، چنانچہ آنحضرت ﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے جو آخری دور کیا، (اور جسے اصطلاح میں عرضۂ اخیرہ کہا جاتاہے) اُس وقت بہت سی قراء تیں منسوخ کردی گئیں جن کی دلیل آگے آرہی ہے ، لیکن جتنی قراء تیں اُس وقت باقی رہ گئیں وہ ساری کی ساری آج تواتر کے ساتھ چلی آرہی ہیں اور ان کی تلاوت ہوتی ہے۔
’احرف سبعہ‘ کی پیچیدہ بحث میں یہ وہ بے غبار راستہ ہے جس پر تمام روایات حدیث بھی اپنی اپنی جگہ صحیح بیٹھ جاتی ہیں۔ نہ اُن میں کوئی تعارض یا اختلاف باقی رہتا ہے اور نہ کوئی اور معقول اشکال پیش آتا ہے، اس سلسلے میں ممکنہ شبہات کا جواب ہم آگے تفصیل کے ساتھ دیں گے، جس سے اُس قول کی حقانیت اچھی طرح واضح ہوسکے گی، لیکن پہلے یہ سن لیجئے کہ اس قول کے قائل کون حضرات ہیں؟ یہاں ہم اُن حضرات کے اسمائے گرامی اور حوالے پیش کرتے ہیں جنہوں نے اس قول کو اختیار کیا یا حافظ ابن جریر طبریؒ کی تردید کی ہے:
 
Top