• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کے سات حروف

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس قول کے قائلین

حافظ ابوالخیر محمد بن الجزری (متوفی ۸۳۳ھ) جو قراء ات کے امام اعظم مشہور ہیں اور حدیث و فقہ میں حافظ ابن کثیرؒ کے شاگرد اور حافظ ابن حجرؒ کے استاد ہیں، اپنی مشہور کتاب’النشر فی القراء ات العشر‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’أمّا کون المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی جمیع الاحرف السبعۃ فانّ ھذہ مسئلۃ کبیرۃ اختلف العلماء فیھا فذھب جماعات من الفقہاء والقراء والمتکلمین الیٰ أنّ المصاحف العثمانیہ مشتملۃ علیٰ جمیع الاحرف السبعۃ وبنوا ذلک علیٰ أنہ لا یجوز علی الامۃ أن تھمل نقل شئ من الحروف السبعۃ التی نزل القرآن بھا وقد اجمع الصحابۃ علی نقل المصاحف العثمانیۃ من الصحف التی کتبھا ابوبکر وعمر وإرسال کل مصحف منھا إلی مصر من أمصار المسلمین وأجمعوا علیٰ ترک ما سویٰ ذلک،قال ھؤلاء ولا یجوز أن ینھیٰ عن القراء ۃ ببعض الاحرف السبعۃ ولا أن یجمعوا علیٰ ترک شئ من القرآن،وذھب جماھیر العلماء من السلف والخلف وائمۃ المسلمین إلی أن ھذہ المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی ما یحتملہ رسمھا فقط جامعۃ للعرضۃ الاخیرۃ التی عرضھا النبی! علی جبریل علیہ السلام متضمنۃ لھا لم تترک حرفاً منھا، قلت وھذا القول ھوالذی یظھر صوابہ لانّ الاحادیث الصحیحۃ والاحاد المشھورۃ المستفیضۃ تدل علیہ وتشھد لہ‘‘(النشر فی القراء ات العشر:۱؍۳۱ )
’’رہا یہ مسئلہ کہ حضرت عثمانؓ نے جو مصاحف تیار فرمائے تھے وہ ساتوں حروف پر مشتمل ہیں یا نہیں؟ سو یہ ایک بڑا مسئلہ ہے جس میں علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ فقہاء ، قراء اور متکلمین کی جماعتوں کا مذہب یہ ہے کہ عثمانی مصاحف ساتوں حروف پر مشتمل ہیں، اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اُمت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ ان سات حروف میں سے کسی حرف کو نقل کرنا ترک کردے جن پر قرآن نازل ہوا، اور صحابہ نے اجماع طو رپر یہ عثمانی مصاحف اُن صحیفوں سے نقل کئے تھے جو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے لکھے تھے اور اُن میں ہر ایک مصحف عالم اسلام کے مختلف شہروں میں بھیج دیا تھا اور اُن کے ماسوا جتنے صحیفے تھے اُن کو چھوڑنے پر متفق ہوگئے تھے، ان حضرات کا کہنا ہے کہ نہ یہ بات جائز ہے کہ حروف سبعہ میں سے کسی حرف کی قراء ت روک دی جائے، اور نہ یہ کہ صحابہ ؓ قرآن سے کسی حصہ کے چھوڑنے پر متفق ہوجائیں اور سلف و خلف کے علماء کی اکثریت کا قول یہی ہے کہ یہ عثمانی مصاحف اُن حروف پر مشتمل ہیں جو اُن کے رسم الخط میں سما گئے اور حضور اکرمﷺ نے حضرت جبریل علیہ السلام سے قرآن کریم کا جو آخری دور کیا تھا، اُس کے تمام حروف ان مصاحف میں جمع ہیں، اُن میں سے کوئی حرف ان مصاحف میں نہیں چھوٹا، میرا خیال یہ ہے کہ یہی وہ قول ہے جس کی صحت ظاہر ہے، کیونکہ صحیح احادیث اور مشہور آثار اسی پر دلالت کرتے ہیں اور اسی کی شہادت دیتے ہیں۔‘‘
اور علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ نقل فرماتے ہیں:
’’واختلف الأصولیون ھل یقرأ الیوم علی سبعۃ أحرف فمنعہ الطبری وغیرہ وقال إنما یجوز بحرف واحد الیوم وھو حرف زید ونحی إلیہ القاضی ابوبکر،وقال ابوالحسن الاشعری اجمع المسلمون علیٰ أنہ لا یجوز حظر ما وسعہ اﷲ تعالی من القراء ۃ بالاحرف التـی أنزلھا اﷲ تعالـی ولا یسـوغ للامۃ أن تمنع ما یطلقہ اﷲ تعالیٰ،بل ھی موجودۃ فی قراء تنا مفرقۃ فی القرآن غیر معلومۃ فیجوز علیٰ ھذا وبہ قال القاضی ان یقرأ بکل مانقلہ اھل التواتر من غیر تمییز حرف من حرف فیحفظ حرف نافع بحرف الکسائی وحمزۃ ولا حرج فی ذلک‘‘ (عمدۃ القاری:۱۲؍۲۵۸)
’’اور اس بارے میں اصولی علماء کا اختلاف ہے کہ قرآن کریم کو آج سات حروف پر پڑھا جاسکتا ہے یا نہیں؟ چنانچہ علامہ (ابن جریر) طبریؒ وغیرہ نے اس سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ آج قرآن کی قراء ت ایک ہی حرف پر جائز ہے اور وہ حضرت زید بن ثابتؓ کا حرف ہے اور قاضی ابوبکرؒ بھی اسی طرح مائل ہیں لیکن امام ابوالحسن اشعریؒ فرماتے ہیں کہ اس بات پرمسلمانوں کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حروف نازل کرکے اُمت کو سہولت عطا فرمائی تھی اسے روکنا کسی کے لیے جائز نہیں اور اُمت اس بات کی مجاز نہیں ہے کہ جس چیز کی اجازت اللہ نے دی ہو اُسے روک دے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ساتوں حروف ہماری موجودہ قراء ت میں موجود ہیں، اور قرآن کریم میں متفرق طور پر شامل ہیں، البتہ معین طور سے معلوم نہیں۔ اس لحاظ سے اُن کی قراء ت آج بھی جائز ہے اور یہی قول قاضی صاحب (غالباً قاضی عیاضؒ مراد ہیں) کا ہے، جتنے حروف تواتر کے ساتھ منقول ہیں، اُن سب کو پڑھنا جائز ہے اور ایک حرف کو دوسرے حرف سے ممتاز کرنے کی بھی ضرورت نہیں، چنانچہ نافعؒ کی قراء ت کو کسائیؒ اور حمزۃؒ کی قراء ت کے ساتھ (مخلوط کرکے) یاد کرلیا جائے تو اس میں کچھ حرج نہیں ہے۔‘‘ (اس مسئلہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :النشر فی القراء ات العشر :۱؍۱۸،۱۹ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور علامہ بدر الدین زرکشی رحمہ اللہ قاضی ابوبکررحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں :
’’والسابع اختارہ القاضی أبوبکر،وقال: الصحیح أن ھذہ الاحرف السبعۃ ظھرت واستفاضت عن رسول اﷲ! وضبطھا عنہ الائمۃ واثبتھا عثمان والصحابۃ فی المصحف‘‘ (البرہان فی علوم القرآن:۱؍۲۲۳)
’’ساتواں قول قاضی ابوبکرؒ (غالباً قاضی ابوبکر باقلانیؒ مراد ہیں) کیونکہ یہی عبارت علامہ نوویؒ نے قاضی باقلانیؒ کے نام سے روایت کی ہے ۔(شرح مسلم للنووی:۱؍۲۷۲)نے اختیار کیاہے اور فرمایا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ ساتوں حروف رسول اللہﷺ سے شہرت کے ساتھ منقول ہیں، ائمہ نے انہیں محفوظ رکھا ہے اور حضرت عثمانؓ اور صحابہ ؓ نے انہیں مصحف میں باقی رکھا ہے۔‘‘
اور علامہ ابن حزمؒ نے بھی حافظ ابن جریرؒ کے قول کی بڑے سخت الفاظ میں تردید کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ چھ حروف کو ختم کرنے کا قول بالکل غلط ہے، اور اگر حضرت عثمان ؓ ایسا کرنا بھی چاہتے تو نہ کرسکتے ، کیونکہ عالم اسلام کا چپّہ چپّہ ان حروف سبعہ کے حافظوں سے بھراہوا تھا، وہ لکھتے ہیں:
’’وأما قول من قال أبطل الأحرف الستۃ فقد کذب من قال ذلک ولو فعل عثمان ذلک أو أرادہ لخرج عن الإسلام ولما مطل ساعۃ بل الاحرف السبعۃ کلھا موجودۃ عندنا قائمۃ کما کانت مثبوتۃ فی القراء ات المشہورۃ المأثورۃ‘‘(الفصل فی الملل والاہواء والنحل:۲؍۷۷، ۷۸)
’’رہا یہ قول کہ حضرت عثمانؓ نے چھ حروف کو منسوخ کردیاتو جس نے یہ بات کہی ہے اس نے بالکل غلط کہا ہے، اگر حضرت عثمان ؓ ایسا کرتے یا اس کا ارادہ کرتے تو ایک ساعت کے توقف کے بغیراسلام سے خارج ہوجاتے۔(علامہ ابن حزمؒ کا یہ قول اس صورت میں ہے جبکہ یوں کہا جائے کہ حضرت عثمانؓ نے (معاذ اللہ) چھ حروف کو منسوخ کردیا، لیکن واضح رہے کہ حافظ ابن جریرؒ کے قول کے مطابق انہوں نے چھ حروف کو منسوخ نہیں کیا بلکہ ان کی قراء ت ترک فرمائی تھی، اس لیے اگرچہ حافظ ابن جریر طبریؒ کا قول درست ہو لیکن وہ اتنے سخت الفاظ کے … مستحق نہیں ہیں۔) بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ساتوں کے ساتوں حروف ہمارے پاس بعینہٖ موجود اور مشہور اور قراء توں میںمحفوظ ہیں۔‘‘
اور مشہور شارح مؤطا، علامہ ابوالولید باجی مالکیؒ (متوفی ۴۹۴ھ) ’سبعہ احرف‘ کی تشریح سات وجوہ قراء ت سے کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’فإن قیل ھل تقولون أن جمیع ھذہ السبعۃ الاحرف ثابتۃ فی المصحف فإن القراء ۃ بجمیعھا جائزۃ قیل لھم کذلک نقول،والدلیل علی صحۃ ذلک قولہ عزوجل ’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ ولا یصح انفصال الذکر المنزل من قراء تہٖ فیمکن حفظہ دونھا ومما یدل علیٰ صحۃ ما ذھبنا إلیہ أنّ ظاھر قول النبی! یدل علی أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف تیسیراً علیٰ من أراد قراء تہ لیقراً کل رجل منھم بما تیسر علیہ وبما ھو أخف علیٰ طبعہ وأقرب إلی لغتہ لما یلحق من المشقۃ بذلک المالوف من العادۃ فی النطق ونحن الیوم مع عجمۃ ألسنتنا و بعدنا عن فصاحۃ العرب أحوج‘‘ (المنتقیٰ شرح الموطأ:۱؍۳۴۷ )
’’اگر یہ پوچھا جائے کہ کیا آپ کا قول یہ ہے کہ یہ ساتوں حروف مصحف میں (آج بھی) موجود ہیں، اس لیے کہ ان سب کی قراء ت (آپ کے نزدیک) جائز ہے، تو ہم یہ کہیں گے کہ جی ہاں، ہمارا قول یہی ہے، اور اس کی صحت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ (ہم نے ہی قرآن نازل کیاہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں) اور قرآن کریم کو اس کی قراء ات سے الگ نہیں کیاجاسکتا کہ قرآن تو محفوظ رہے اور اس کی قراء ات ختم ہوجائیں اور ہمارے قول کی صحت پر ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد کُھلے طو رپر دلالت کرتا ہے کہ قرآن کو سات حروف پراس لیے نازل کیا گیا تاکہ اس کی قراء ت کرنے والے کو آسانی ہو تاکہ ہر شخص اس طریقہ سے تلاوت کرسکے جو اس کے لیے آسان ہو اس کی طبیعت کے لحاظ سے زیادہ سہل اور اس کی لغت سے زیادہ قریب ہو، کیونکہ گفتگو میں جو عادت پڑ جاتی ہے اُسے ترک کرنے میں مشقت ہوتی ہے اور آج ہم لوگ اپنی زبان کی عجمیت اور عربی فصاحت سے دور ہونے کی بناء پر اس سہولت کے زیادہ محتاج ہیں‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اور حضرت امام غزالی رحمہ اللہ اصول فقہ پر اپنی مشہور کتاب ’المستصفی‘ میں قرآن کریم کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں:
’’ما نقل إلینا بین دفتي المصحف علی الاحرف السبعۃ المشہورۃ نقلاً متواترا‘‘(المستصفی:۱؍۶۵)
’’وہ کلام جو مصحف کے دو گتوں میں مشہور سات حروف کے مطابق متواتر طریقہ پر ہم تک پہنچا ہے۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ امام غزالی رحمہ اللہ بھی حروف سبعہ کے آج تک باقی رہنے کے قائل ہیں
اور ملّاعلی قاری رحمہ اللہ (متوفی ۱۰۱۴ھ) تحریر فرماتے ہیں:
’’وکأنّہ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کشف لہ أن القراء ۃ المتواترۃ تستقر فی أمتہ علیٰ سبع وھی الموجودۃ الان المتفق علیٰ تواترھا والجمھور علیٰ أنّ ما فوقھا شاذّ لا یحل القراء ۃ بہ‘‘
’’اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرتﷺ پر یہ منکشف ہوگیاتھا، کہ متواتر قراء تیں آپؐ کی اُمت میں آخر کار سات رہ جائیں گی، چنانچہ وہی آج موجود ہیں اور اُن کے تواتر پر اتفاق ہے اور جمہور کامسلک یہ ہے کہ اس کے علاوہ جو قراء تیں ہیں وہ شاذ ہیں اور اُن کی تلاوت جائز نہیں۔‘‘(مرقاۃ المفاتیح:۵؍۱۶)
اس میں ملّا علی قاریؒ کا یہ فرمانا تو درست نہیں ہے کہ سات حروف قراء توں کے ماسوا جتنی قراء تیں ہیں وہ سب شاذ ہیں، کیونکہ علماء قراء ات نے اس کی سخت تردید کی ہے۔(النشر فی القراء ات العشر :۱؍۳۳ ومابعد) لیکن اس سے اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک احرف سبعہ آج بھی باقی ہیں اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا قول پیچھے گذر چکا ہے کہ وہ ’سبعہ احرف‘ میں سات کے عدد کو کثرت کے معنی پرمحمول کرتے ہیں، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’ودلیل برآنکہ ذکر سبعہ بجہت تکثیر است نہ برائے تحدید اتفاق ائمہ است برقراء ات عشر دہر قراء تک را ازیں عشرہ دو راوی ست دہریکے بار دیگرے مختلف ست پس مرتقی شد عدد قراء ۃ ت بیست‘‘ (المصفٰی: ص۶۸۷)
’’اور اس بات کی دلیل کہ سات کا عدد حدیث میں تکثیر کے لیے ہے نہ کہ تحدید کے لیے دس قراء توں پر ائمہ کااتفاق ہے، اور اُن دس قراء توں میں سے ہر ایک کے دو راوی ہیں اور ہر ایک دوسرے سے مختلف ہے، پس قراء ات کی تعداد بیس تک پہنچ گئی ہے۔‘‘
اس عبارت میں اگرچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے لفظ ’سبعہ‘ کو جمہور کے خلاف تکثیر کے لیے قرار دیا ہے، ( کیونکہ شاید بیس قراء توں کو سات وجوہ اختلاف میں منحصر قرار دینا ان پرواضح نہیں ہوسکا) لیکن اس سے یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جن حروف کاذکر حدیث میں کیاگیاہے وہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے نزدیک قراء تیں ہی ہیں اور وہ منسوخ یا متروک نہیں ہوئے بلکہ آج بھی باقی ہیں،آخری دور میں دینی علوم کے امام، محقق عصر، اور حافظ حدیث حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیریؒ نے اس حدیث کی تحقیق کرتے ہوئے مسئلہ کی حقیقت مختصر الفاظ میں اس طرح واضح فرما دی ہے کہ اُسے حرف ِ آخر کہنا چاہئے۔ یہاں ہم اُن کی پوری تحقیق نقل کرتے ہیں:
’’واعلم أنھم اتفقوا علیٰ أنہ لیس المراد من سبعۃ أحرف القراء ۃ السبعۃ المشھورۃ،بأن یکون کل حرف منھا قراء ۃ من تلک القراء ات،اعنی أنہ لا انطباق بین القراء ات السبع والاحرف السبعۃ کما یذھب إلیہ الوھم بالنظر إلی لفظ السبعۃ فی الموضعین،بل بین تلک الاحرف والقراء ۃ عموم و خصوص وجھی،کیف،وأنّ القراء ات لاتنحصر فی السبعۃ، کما صرح ابن الجوزی فی رسالۃ النشر فی قراء ۃ العشر،وانما اشتھرت السبعۃ علی الالسنۃ لانھا التی جمعھا الشاطبی ثم اعلم أن بعضھم فھم أن بین تلک الاحرف تغایرا من کل وجہ،بحیث لا ربط بینھا ولیس کذلک،بل قد یکون الفرق بالمجرد والمزید واخریٰ بالابواب،ومرۃ باعتبار الصّیغ من الغائب والحاضر،وطورا بتحقیق الھمزۃ وتسھیلھا، فکل ھٰذہ التغییرات یسیرۃ أو کانت أو کثیرۃ حرف برأسہ،وغلط من فھم انّ ھذہ الاحرف متغایرۃ کلھا بحیث یتعذر اجتماعھا أما أن کیف عدد السبعۃ فتوجہ إلیہ ابن الجزری وحقق أن التصرفات کلھا ترجع إلی السبعۃ وراجع القسطلانی والزرقانی،بقی الکلام فی أن تلک الاحرف کلھا موجودۃ أو رفع بعضھا وبقی البعض فاعلم أن ما قرأہ جبریل علیہ السلام فی العرضۃ الا خیرۃ علی النبی! کلہ ثابت فی مصحف عثمان،ولما یتعین معنی الاحرف عند ابن جریرذھب إلی رفع الاحرف الست منھا وبقی واحد فقط‘‘ (فیض الباري:۳؍۳۲۱،۳۲۲ )
’’یہ ذہن نشین کرلیجئے کہ تمام علماء اس بات پر تو متفق ہیں کہ سات حروف سے مراد مشہور سات قراء تیں نہیں اور یہ بات نہیں ہے کہ ہر حرف ان سات قراء توں میں سے ایک قراء ت ہو، مطلب یہ ہے کہ سات قراء تیں اور سات حروف ایک چیزنہیں جیسے کہ سات کے لفظ سے پہلی نظر میں وہم ہوتا ہے، بلکہ ان حروف اور سات قراء توں میں عموم و خصوص من وجہ( مطلب یہ ہے کہ سات قراء توں میں سے بعض قراء تیں احرف سبعہ میں سے ہیں، جیسے کہ تمام متواتر قراء ات اور بعض قراء تیں ایسی ہیں جو احرف سبعہ میں داخل نہیں، مثلاً قراء سبعہ کی شاذ قراء تیں یا وہ قراء تیں جن میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور احرف سبعہ کے بعض اختلافات ایسے ہیں جو قراء ات سبعہ میں شامل نہیں، مثلاً امام یعقوبؒ، امام ابوجعفرؒاور خلفؒ کی متواتر قراء تیں کہ یہ احرف سبعہ میں سے ہیں،مگر معروف قراء ات سبعہ میں سے نہیں)کی نسبت ہے اور یہ دونوں ایک کیسے ہوسکتے ہیں جبکہ قراء تیں سات میں منحصر نہیں، جیساکہ علامہ ابن الجزریؒ نے النشر فی قراء ت العشرمیں تصریح کی ہے، البتہ سات قراء توں کالفظ زبان پر اس لیے مشہور ہوگیا کہ علامہ شاطبیؒ نے انہی سات قراء توں کو جمع کیاہے ۔پھر یہ بھی یاد رکھئے کہ بعض لوگ یہ سمجھے ہیں کہ سات حروف کے درمیان کلی تغایر ہے اور ان میں کوئی باہم ربط نہیں ہے، حالانکہ واقعہ ایسا نہیں بلکہ بعض اوقات دو حرفوں میں فرق صرف صیغۂ مجرد اور صیغۂ مزیدکاہوتا ہے اوربعض مرتبہ صرف (صرفی) ابواب کا اور بعض دفعہ غائب و حاضر کے صیغوں کا اور کبھی صرف ہمزہ کو باقی رکھنے اور اس کی تسہیل کرنے کا، پس یہ تمام تغیرات خواہ معمولی ہوں یا بڑے بڑے مستقل حرف ہیں اور جو لوگ یہ سمجھے ہیں کہ حروف کے درمیان کلی تغایر ہے، اور اُن کا (ایک کلمہ میں) جمع ہونا ناممکن ہے اُن سے غلطی ہوئی ہے۔ رہی یہ بات کہ حدیث میں سات کے عدد کا کیا مطلب ہے؟ سو اس کا جواب علامہ ابن الجزریؒ نے دیاہے اور تحقیق یہ بیان کی ہے کہ یہ سارے تغیرات سات قسم کے ہیں اور اس مسئلہ میں قسطلانیؒ اور زرقانیؒ کی مراجعت بھی کرلیجئے،اب صرف یہ بات رہ گئی کہ یہ تمام حروف موجود ہیں ، یا ان میں سے بعض ختم کردیئے گئے اور بعض باقی ہیں، پس یہ سمجھ لیجئے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جتنے حروف حضورﷺکے ساتھ قرآن کے دور میں پڑھے تھے وہ سب حضرت عثمان ؓ کے مصحف میں موجود ہیں، اور چونکہ علامہ ابن جریرؒ پر حروف کے معنی واضح نہیں ہوسکے ، اس لیے انہوں نے یہ مذہب اختیارکرلیا کہ چھ حروف ختم ہوگئے اور صرف ایک باقی رہ گیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس طرح مصر کے علماء متأخرین میں سے مشہور محقق علامہ زاہد الکوثری رحمہ اللہ (متوفی ۱۳۷۱ھ) تحریر فرماتے ہیں:
’’والاوّل رأی القائلین بان الاحرف السبعۃ کانت فی مبدء الامرثم نسخت بالعرضۃ الاخیرۃ فی عھد النبی! فلم یبق الاحرف واحد ورأی القائلین بانّ عثمان،جمع النّاس علیٰ حرف واحد ومنع من الستۃ الباقیۃ مصلحۃ،وإلیہ نحا ابن جریر وتھیبہ ناس فتابعوہ لکن ھذا رأی خطیر قام ابن حزم بأشد النکیر علیہ فی الفصل وفی الاحکام ولہ الحق فی ذلک والثانی رأی القائلین بأنھا ھی الاحرف السبعۃ المحفوظۃ کما ھی فی العرضۃ الاخیرۃ، الخ‘‘ ( مقالات الکوثری: ص۲۰،۲۱)
’’پہلی رائے (کہ موجودہ قراء ات ایک ہی حرف کی مختلف شکلیں ہیں)اُن حضرات کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ سات حروف ابتداء اسلام میں تھے، پھر عرضۂ اخیرہ (حضرت جبرئیل ؑ سے حضورؐ کے آخری دور) سے حضورﷺ ہی کے زمانہ میں منسوخ ہوگئے اور اب صرف ایک باقی رہ گیا، نیز یہی رائے اُن حضرات کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے تمام لوگوں کو ایک حرف پر جمع کردیاتھا، اور ایک مصلحت کی وجہ سے باقی چھ حروف کی قراء ت روک دی تھی، حافظ ابن جریرؒ کا یہی مسلک ہے اور بہت سے لوگ اس معاملہ میں اُن سے مرعوب ہوکر اُن کے پیچھے لگ گئے، لیکن درحقیقت یہ بڑی سنگین اور خطرناک رائے ہے، اور علامہ ابن حزم نے ’الفصل‘ اور ’الاحکام‘ میں اس پر سخت ترین نکیر ہے، جس کا انہیں حق تھا اور دوسری رائے (کہ موجودہ قراء ات ہے) احرف سبعہ ہیں، اُن حضرات کی ہے جویہ کہتے ہیں کہ یہی وہ حروف ہیں جو عرضۂ اخیرہ کے مطابق محفوظ چلے آتے ہیں۔‘‘
ہم نے یہ تمام اَقوال تفصیل کے ساتھ اس لیے پیش کئے ہیں کہ آج کل علامہ ابن جریر طبریؒ کا قول ہی زیادہ مشہور ہوگیا ہے اور علامہ ابن جریرؒ کی جلیل القدر شخصیت کے پیش نظر اسے عموماً ہرشک و شبہ سے بالاتر سمجھا جاتاہے اس کی بناء پر ابن الجزریؒ کا یہ بے غبار قول یا تو لوگوں کو معلوم نہیں ہے، یا اگر معلوم ہے تو اسے ایک ضعیف قول سمجھا جاتاہے، حالانکہ گذشتہ بحث کی روشنی میں یہ اچھی طرح واضح ہوجاتا ہے کہ امام مالک، علامہ ابن قتیبہ، علامہ ابوالفضل رازی، قاضی ابوبکر ابن الطیب، امام ابوالحسن اشعری، قاضی عیاض، علامہ ابن حزم، علامہ ابوالولید باجی، امام غزالی اور ملا علی قاری رحمہم اللہ جیسے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ ساتوں حروف آج بھی محفوظ اور باقی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کے عرضۂ اَخیرہ کے وقت جتنے حروف باقی رہ گئے تھے اُن میں سے کوئی نہ منسوخ ہوا، نہ اُسے ترک کیاگیا، بلکہ محقق ابن الجزریؒ نے اپنے اس قول کو اپنے سے پہلے جمہور علماء کا مسلک قرار دیا ہے، علماء متاخرین میں سے حضرت شاہ ولی اللہ محد ث دہلویؒ، حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ اور علامہ زاہد کوثریؒ کابھی یہی قول ہے، نیزمصر کے مشہور علماء علامہ محمد نجیت مطیعی، علامہ خضری دمیاطی اور شیخ عبدالعظیم زرقانی رحمہم اللہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔(مناہل العرفان :۱؍۱۵۱) لہٰذا دلائل سے قطع نظر ، محض شخصیات کے لحاظ سے بھی یہ قول بڑا وزنی قول ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اُس قول کے دلائل

اب وہ دلائل ذیل میں پیش خدمت ہیں جن سے اس قول کی تائید ہوتی ہے، اس کے کچھ دلائل تو مذکورہ بالا اقوال میں آچکے ہیں،مزید مندرجہ ذیل ہیں:
١ قرآن کریم کی آیت ’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّالَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘ ’’ہم نے ہی قرآن نازل کیاہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں‘‘ صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کررہی ہے کہ جو آیات قرآنی خود اللہ تعالیٰ نے منسوخ نہ فرمائی ہوں وہ قیامت تک باقی رہیں گی، دوسری طرف پیچھے وہ احادیث گزر چکی ہیں جن میں یہ تصریح ہے کہ قرآن کے ساتوں حروف منزل من اللہ تھے۔ اس لیے مذکورہ آیت کاواضح تقاضا یہی ہے کہ وہ ساتوں حروف قیامت تک محفوظ رہیں۔
٢ اگر حضرت عثمان ؓ نے چھ حروف کو ختم کرکے صر ف ایک حرف پرمصحف تیار کیاہوتا تو اس کی کہیں کوئی صراحت تو ملنی چاہئے تھی، حالانکہ نہ صرف اس کی کوئی صراحت موجود نہیں ہے ، بلکہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مصحف عثمانی میں ساتوں حروف موجود تھے۔مثلاً روایات میں یہ تصریح ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے اپنا مصحف حضرت ابوبکرؓ کے جمع فرمودہ صحیفوں کے مطابق لکھوایا تھا اور لکھنے کے بعد دونوں کامقابلہ بھی کیاگیا، جس کے بارے میں خود حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں:
’’فعرضت المصحف علیھا فلم یختلفا فی شئ‘‘ (مشکل الآثار:۴؍۱۹۳)
’’میں نے مصحف کا مقابلہ ان صحیفوں سے کیا تو دونوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔‘‘
اور ظاہر ہے کہ حافظ ابن جریر طبریؒ بھی تسلیم فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں ساتوں حروف موجود تھے اس لیے حضرت ابوبکرؓ کے صحیفوں میں قرآن کریم کو یقینا ان ساتوں حروف پر لکھا گیا ہوگا، لہٰذا اگر حضرت عثمانؓ نے چھ حروف کوختم کردیا ہوتا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد کیسے درست ہوسکتا ہے کہ ’’دونوں میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔‘‘
٣ علامہ ابن الانباری رحمہ اللہ نے کتاب المصاحف میں حضرت عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ کا جو مشہور تابعی ہیں یہ قول نقل فرمایاہے:
’’قراء تنا التی جمع النّاس عثمان علیھا ھی العرضۃ الاخریٰ‘‘ (کنز العمّال:ج۱،رقم الحدیث۴۸۴۰) یہی روایت حافظ ابن حجرؒ نے بھی مسنداحمدؒ، ابن ابی داؤدؒ اور طبریؒ کے حوالہ سے نقل کی ہے۔ (فتح الباري:۹؍۳۶ )’’ہماری وہ قراء ت جس پر حضرت عثمان ؓ نے لوگوں کوجمع فرمایا وہ عرضۂ اخیرہ کی قراء ت تھی۔‘‘
حضرت عبیدہؒ کا یہ قول اس بات پر بالکل صریح ہے کہ حضرت عثمان ؒ نے اُن حروف میں سے کوئی نہیں چھوڑا، جو عرضۂ اخیرہ (حضرت جبریل ؑ کے ساتھ حضورﷺ کے آخری قرآنی دور) کے وقت باقی تھے، اس پر بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ حضورﷺ کا آخری دور صرف ایک حرف قریش پرہوا تھا اور اسی پرحضرت عثمان ؓ نے سب کو جمع کردیا، لیکن یہ بات بہت بعید ہے کہ جو حروف منسوخ نہیں ہوئے تھے وہ اس دور سے خارج رہے ہوں۔
٤ حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ بھی مشہور تابعی ہیں، علامہ ابن سعدرحمہ اللہ نے اُن کا یہ قول نقل فرمایا ہے:
’’کان جبریل یعرض القرآن علی النبی! کل عام مرۃ فی رمضان فلما کان العام الذی توفی فیہ عرضہ علیہ مرّتین، قال محمد، فأنا أرجو أن تکون قراء تنا العرضۃ الاخیرۃ‘‘ (الطبقات الکبریٰ: ۲؍۱۹۵ )’’حضرت جبریل علیہ السلام ہر سال ایک مرتبہ رمضان میں حضورﷺ کے سامنے قرآن پیش کیا کرتے تھے، چنانچہ جب وہ سال آیا جس میں آپؐ کی وفات ہوئی تو حضرت جبریل علیہ السلام نے دو مرتبہ قرآن پیش کیا، پس مجھے اُمید ہے کہ ہماری موجودہ قراء ت اس عرضۂ اخیرہ کے مطابق ہے۔‘‘
٥ حضرت عامر شعبی رحمہ اللہ بھی مشہور تابعی ہیں اور انہوں نے سات سو صحابہ سے استفادہ کیا ہے۔ علامہ ابن الجزریؒ نے ان سے بھی اسی قسم کا قول نقل کیا ہے۔
یہ تینوں حضرات تابعی ہیں اور حضرت عثمان ؓ کے عہد سے نہایت قریب ہیں، اس لیے اُن کا قول اس باب میں قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔
٦ پورے ذخیرۂ احادیث میں ہمیں ایک روایت بھی ایسی نہیں ملی جس سے یہ ثابت ہو کہ قرآن کریم کی تلاوت میں دو قسم کے اختلافات تھے۔ایک سات حروف کااختلاف اور دوسرا قراء توں کا اختلاف۔ اس کے بجائے بہت سی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک چیز ہیں، کیونکہ ایک ہی قسم کے اختلاف پر بیک وقت’’اختلاف قراء ت‘‘ اور ’اختلاف احرف‘ دونوں الفاظ کااطلاق کیاگیا ہے۔مثال کے طور پر حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’کنتُ فی المسجد فدخل رجل یصلّی فقرأ قراء ۃ انکرتھا علیہ ودخل آخرقراء ۃ سوی قراء ۃ صاحبہ فلمّا قضینا الصلوٰۃ ادخلنا جمیعاً علی رسول اﷲ! فقلت ان ھذا قرأ قراء ۃ انکرتھا علیہ ودخل آخر فقرأ سویٰ قراء ۃ صاحبہ فامرھما رسول اﷲ! فقرا فحسن النبی! شأنھما فسقط فی نفسی من التکذیب ولااذکنت فی الجاھلیۃ فلما رأی رسول اﷲ! ما قد عشینی ضرب فی صدری ففضت عرقا وکأنما انظر إلی اﷲ فرقا فقال لی یا أبی ارسل الی ان اقرء القرآن علی حرف فرددت الیہ ان ھون علیٰ اُمتی فردّ إلی الثانیۃ أن اقرأہ علی حرفین فرددت الیہ ان ھون علیٰ اُمتی فرد ّ الی الثالثۃ اقرأہ علیٰ سبعۃ احرف‘‘ (صحیح مسلم:۱۹۰۴)
’’میں مسجد میں تھا کہ ایک شخص داخل ہوکر نماز پڑھنے لگا۔ اس نے ایک ایسی قراء ت پڑھی جو مجھے اجنبی معلوم ہوئی، پھر ایک دوسراشخص آیا اُس نے پہلے شخص کی قراء ت کے سوا ایک اورقراء ت پڑھی، پس جب ہم نے نماز ختم کرلی تو ہم سب رسول اللہﷺ کی خدمت میں پہنچے، میں نے عرض کیا کہ اس شخص نے ایک ایسی قراء ت پڑھی ہے جو مجھے اجنبی معلوم ہوئی، پھر ایک دوسرا شخص آیا اس نے پہلے شخص کی قراء ت کے سوا ایک دوسری قراء ت پڑھی۔ اس پر آپؐ نے دونوں کو پڑھنے کا حکم دیا، ان دونوں نے قراء ت کی تو حضورﷺ نے دونوں کی تحسین فرمائی۔اس پرمیرے د ل میں تکذیب کے ایسے ایسے وسوسے آنے لگے کہ جاہلیت میں بھی ایسے خیالات نہیں آتے تھے، پس جب رسول اللہﷺ نے میری حالت دیکھی تو میرے سینے پرمارا جس سے میں پسینہ میں شرابور ہوگیا، اور خوف کی حالت میں مجھے ایسے معلوم ہوا جیسے اللہ کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپؐ نے فرمایا کہ اے اُبی! میرے پروردگار نے میرے پاس پیغام بھیجا تھا کہ میں قرآن کو ایک حرف پرپڑھوں، میں نے جواب میں درخواست کی کہ میری اُمت پر آسانی فرمائیے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے دوبارہ پیغام بھیجا کہ میں قرآن دو حرفوں پر پڑھوں، میں نے جواب میں درخواست کی کہ میری اُمت پر آسانی فرمائیے، تو اللہ تعالیٰ نے تیسری بار پیغام بھیجاکہ میں اُسے سات حرفوں پرپڑھوں۔‘‘
اس روایت میں حضرت اُبی بن کعبؓ دونوں اشخاص کے اختلاف تلاوت کو باربار اختلاف قراء ت سے تعبیر فرما رہے ہیں اور اسی کو آنحضرتﷺنے سات حروف کے اختلاف سے تعبیر فرمایاہے۔اس سے صاف واضح ہے کہ قراء ت کے اختلاف اور حروف کے اختلاف کو عہد رسالتؐ میں ایک ہی چیز سمجھا جاتاتھا اور اس کے خلاف کوئی دلیل ایسی نہیں ہے جو دونوں کی جداگانہ حیثیت پر دلالت کرتی ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں، اور جب قراء ات کا محفوظ ہونا تواتر اور اجماع سے ثابت ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ احرف سبعہ آج بھی محفوظ ہیں۔
مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ حروف سبعہ کا جتنا حصہ عرضۂ اخیرہ کے وقت باقی رہ گیاتھا وہ سارے کا سارا عثمانی مصاحف میں محفوظ کرلیاگیا تھا اور وہ آج تک محفوظ چلاآتاہے ، نہ اسے کسی نے منسوخ کیا اور نہ اُس کی قراء ت ممنوع قرار دی گئی، لیکن ضروری ہے کہ مکمل وضاحت کے لیے ان ممکنہ سوالات کا جواب بھی دیا جائے جواس قول پروارد ہوسکتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس قول پر وارد ہونے والے سوالات اوراُن کا جواب:

(۱) اس قول پر سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت عثمان ؓ نے ساتوں حروف کو باقی رکھا ہے تو پھر اُن کا وہ امتیازی کارنامہ کیا تھا جس کی وجہ سے اُن کو ’’جامع القرآن‘‘ کہا جاتاہے۔
اس کاجواب یہ ہے کہ اگرچہ قرآن کریم بے شمار صحابہ کو پورا یادتھا، لیکن حضرت عثمان ؓ کے زمانہ تک قرآن کریم کامعیاری نسخہ صرف ایک تھا جو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مرتب فرمایاتھا، یہ نسخہ بھی مصحف کی شکل میں نہیں تھا بلکہ ایک ایک سورت علیحدہ علیحدہ صحیفوں میں لکھی ہوئی تھی، لیکن بعض صحابہؓ نے انفرادی طور پر اپنے اپنے مصاحف الگ الگ تیار کررکھے تھے اُن میں نہ رسم الخط متحد تھا ، نہ سورتوں کی ترتیب یکساں تھی اور نہ ساتوں حروف جمع تھے، بلکہ ہرشخص نے آنحضرتﷺ سے جن حروف کے مطابق قرآن سیکھاتھا اسی کو اپنے طور پر لکھ لیاتھا۔ اس لیے کسی مصحف میں کوئی آیت کسی حرف کے مطابق لکھی ہوئی تھی اور دوسرے مصحف میں کسی اور حرف کے مطابق، جب تک عہد رسالت قریب تھا اور مسلمانوں کا تعلق مرکز اسلام یعنی مدینہ طیبہ سے مضبوط اور مستحکم تھا۔ مصاحف کے اس اختلاف سے کوئی قابل ذکرخرابی اس لیے پیدا نہ ہوسکی کہ قرآن کریم کی حفاظت میں اصل مدار مصاحف کے بجائے حافظہ پرتھا اور صحابہ ؓ کی اکثریت اس بات سے باخبر تھی کہ قرآن کریم سات حروف پرنازل ہوا ہے، لیکن جب اسلام دور دراز ممالک تک پھیلا اور نئے نئے لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے صرف ایک ایک طریقے سے قرآن سیکھا اور یہ بات ان میں عام نہ ہوسکی کہ قرآن کریم سات حروف پر نازل ہوا ہے ۔ اس لیے ان میں اختلاف پیش آنے لگا، بعض لوگ اپنی قراء ت کو حق اوردوسرے کی قراء ت کو باطل سمجھنے لگے۔ادھر چونکہ انفرادی طور پر تیار کئے ہوئے مصاحف بھی حرف اور رسم الخط کے اعتبار سے مختلف تھے اور ان میں حروف سبعہ یکجا کرنے کااہتمام نہیں تھا اس لیے کوئی ایسا معیاری نسخہ ان کے پاس موجود نہیں تھا جس کی طرف رجوع کرکے اختلاف رفع کیاجاسکے۔
ان حالات میں حضرت عثمان نے محسوس کیا کہ اگر یہ صورت حال برقرار رہی اور انفرادی مصاحف کو ختم کرکے قرآن کریم کے معیاری نسخے عالم اسلام میں نہ پھیلائے گئے تو زبردست فتنہ رونما ہوجائے گا۔اس لیے انہوں نے مندرجہ ذیل کام کئے:
١ قرآن کریم کے سات معیاری نسخے تیار کرائے اور انہیں مختلف اطراف میں روانہ کردیا۔
٢ ان مصاحف کا رسم الخط ایسا رکھا کہ اس میں ساتوں حروف سما جائیں چنانچہ یہ مصاحف نقطوں اور حرکات سے خالی تھے اور انہیں ہر حرف کے مطابق پڑھا جاسکتا ہے۔
٣ جتنے انفرادی مصاحف لوگوں نے تیار کررکھے تھے اُن سب کو نذر آتش کرکے دفن کردیا۔
٤ یہ پابندی عائد کردی کہ آئندہ جتنے مصاحف لکھے جائیں وہ سب ان سات مصاحف کے مطابق ہونے چاہئے۔
٥ حضرت ابوبکرؓ کے صحیفے الگ الگ سورتوں کی شکل میں تھے۔ حضرت عثمانؓ نے ان سورتوں کو مرتب کرکے ایک مصحف کی شکل دے دی۔
ان اقدامات سے حضرت عثمان ؓ کا مقصد یہ تھا کہ پورے عالم اسلام میںرسم الخط اور سورتوں کی ترتیب کے اعتبار سے تمام مصاحف یکساں ہوجائیں اور ان میں حروف سبعہ اس طرح جمع ہوجائیں کہ بعد میں کسی شخص کو کسی صحیح قراء ت سے انکار کرنے یا غلط قراء ت پراصرار کرنے کی گنجائش باقی نہ رہے اور اگر کبھی قراء ت میں کوئی اختلاف رونما ہوتو مصحف کی طرف رجوع کرکے اُسے بآسانی رفع کیا جاسکے۔
یہ بات حضرت علی ؓ کے ایک ارشاد سے واضح ہے جو امام ابن ابی ابوداؤد نے کتاب المصاحف میں صحیح سند کے ساتھ نقل کی ہے:
’’قال علی لا تقولوا فی عثمان إلا خیراً فواﷲ ما فعل الذی فعل فی المصاحف الا عن ملإ منا قال،ما تقولون فی ھذہ القراء ۃ فقد بلغنی ان بعضھم یقول أن قراء تی خیر من قراء تک وھذا یکاد أن یکون کفرا،قلنا فما تری؟ قال أری أن نجمع النّاس علی مصحف واحد فلا تکون فرقۃ ولا اختلاف،قلنا فنعم مارأیت‘‘ (کتاب المصاحف ص۲۲ ، فتح الباري:۹؍۱۵ )
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں کوئی بات اُن کی بھلائی کے سوا نہ کہو،کیونکہ اللہ کی قسم انہوں نے مصاحف کے معاملہ میں جو کام کیا وہ ہم سب کی موجودگی میں کیا، انہوں نے ہم سے مشورہ کرتے ہوئے پوچھا تھاکہ ان قراء توں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ کیونکہ مجھے یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ بعض لوگ دوسروں سے کہتے ہیں کہ ’’میری قراء ت تمہاری قراء ت سے بہتر ہے‘‘ حالانکہ یہ ایسی بات ہے جوکفر کے قریب پہنچتی ہے۔ اس پرہم نے حضرت عثمان ؓ سے کہا: ’’پھر آپ کی کیارائے ہے؟‘‘ انہوں نے فرمایا: میری رائے یہ ہے ہم سب لوگوں کو ایک مصحف پرجمع کردیں تاکہ پھر کوئی افتراق و اختلاف باقی نہ رہے، ہم سب نے کہا آپ نے بڑی اچھی رائے قائم کی ہے۔‘‘
یہ حدیث حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کام کے بارے میں واضح ترین حدیث ہے، اس میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے’’نجمع النَّاس علی مصحف واحد‘‘ فرما کر یہ ارادہ ظاہر فرمایا ہے کہ ہم ایک ایسا مصحف تیار کرنا چاہتے ہیں جو پورے عالم اسلام کے لیے یکساں ہو، اور اس کے ذریعہ باہمی اختلافات کو ختم کیا جاسکے اور اسکے بعد کسی صحیح قراء ت کے انکار اور منسوخ یا شاذ قراء ت پر اصرار کی گنجائش باقی نہ رہے۔(الاتقان:۱؍۶۱)
نیز ابن اشتہ رحمہ اللہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ:
’’اختلفوا فی القرآن علی عھد عثمان حتیٰ اقتتل الغلامان والمعلمون فبلغ ذلک عثمان بن عفان فقال عندی تکذبون وتلحنون فیہ فمن نأی عنّی کان أشد تکذیباً وأکثر لحنا، یا أصحاب محمد اجتمعوا فاکتبوا للنّاس إماماً‘‘
’’حضرت عثمانؓ کے عہد میں قرآن کے بارے میں اختلاف ہوا، یہاں تک کہ بچے اور معلمین لڑنے لگے، یہ اطلاع حضرت عثمان ؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایاکہ تم میرے قریب رہتے ہوئے(صحیح قراء توں کی) تکذیب کرتے ہو، اور اس میں غلطیاں کرتے ہو، لہٰذا جو لوگ مجھ سے دور ہیں وہ تو اور بھی زیادہ تکذیب اور غلطیاں کرتے ہوں گے، پس اے اصحاب محمدؐ جمع ہوجاؤ اور لوگوں کے لیے ایک ایسا نسخہ تیارکرو جس کی اقتداء کی جائے۔‘‘
اس سے صاف واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا مقصد قرآن کے کسی حرف کا ختم کرنا نہیں تھا، بلکہ انہیں تو اس بات کا افسوس تھا کہ بعض لوگ صحیح حروف کا انکار کر رہے ہیں اور بعض لوگ غلط طریقہ سے تلاوت پراصرار کررہے ہیں۔اس لیے وہ ایک معیاری نسخہ تیار کرناچاہتے تھے جو پوری دنیائے اسلام کے لیے یکساں ہو۔
(بہت سے علماء نے حضرت عثمانؓ کے عمل کی یہی تشریح فرمائی ہے، ملاحظہ ہوالفصل فی الملل والاہواء والنحل: ص۷۷ ، البیان فی علوم القرآن،ص۶۲ ، مناہل العرفان:۱؍۲۴۸ تا ۲۵۶ )
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لغت ِ قریش پرلکھنے کا مطلب

٢ یہاں دوسرا سوال یہ پیداہوتا ہے کہ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق جس وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ کی قیادت میں مصحف قرآنی مرتب کرنے کیلئے صحابہ ؓ کی ایک جماعت بنائی تو ان سے فرمایا تھا:
’’إذا اختلفتم أنتم وزید بن ثابت فی شئ من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش فإنما أنزل بلسانھم‘‘ ’’جب تمہارے اور حضرت زید بن ثابتؓ کے درمیان قرآن کے کسی حصہ میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان پر لکھنا،کیونکہ قرآن انہی کی زبان پرنازل ہوا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري:۳۵۰۶)
… اگر حضرت عثمان ؓ نے ساتوں حروف باقی رکھے تھے تو اس ارشاد کا کیا مطلب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت حضرت عثمان ؓ کا یہی وہ جملہ ہے جس سے حافظ ابن جریرؒ اوربعض دوسرے علماء نے یہ سمجھاہے کہ حضرت عثمان ؓ نے چھ حروف ختم کرکے صرف ایک حرف قریش کومصحف میں باقی رکھاتھا، لیکن درحقیقت اگر حضرت عثمانؓ کے اس ارشاد پراچھی طرح غور کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ اس کایہ مطلب سمجھنا درست نہیں ہے کہ انہوں نے حرفِ قریش کے علاوہ باقی چھ حروف کو ختم فرما دیاتھا بلکہ مجموعی روایات دیکھنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد سے حضرت عثمان ؓ کا یہ مطلب تھا کہ اگر قرآن کریم کی کتابت کے دوران رسم الخط کے طریقے میں کوئی اختلاف ہو تو قریش کے رسم الخط کو اختیارکیاجائے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عثمان ؓ کی اس ہدایت کے بعد صحابہؓ کی جماعت نے جب کتابت ِ قرآن کاکام شروع کیا تو پورے قرآن کریم میں اُن کے درمیان صرف ایک اختلاف پیش آیا، جس کاذکر امام زہریؒ نے اس طرح فرمایا ہے :
’’فاختلفوا یومئذ فی التابوت والتابوہ فقال النفر القرشیون التابوت وقال زید بن ثابت التابوہ فرفع اختلافھم الیٰ عثمان فقال اکتبرہ التابوت فانہ بلسان قریش نزل‘‘ (کنزالعمال:۴۷۸۳ ،فتح الباري:۹؍۱۶ )
’’چنانچہ اس موقع پر اُن کے درمیان ’’تابوت‘‘ اور ’’تابوۃ‘‘ میں اختلاف ہوا، قریشی صحابہؓ کہتے تھے کہ تابوت (بڑی تا سے لکھاجائے) اور حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے تھے کہ تابوۃ (گول تاء سے لکھاجائے) پس اس اختلاف کامعاملہ حضرت عثمان ؓ کے سامنے پیش ہوا، جس پرانہوں نے فرمایا کہ اسے التابوت لکھو، کیونکہ قرآن قریش کی زبان پرنازل ہوا ہے۔‘‘
اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت زیدرضی اللہ عنہ اور قریشی صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان جس اختلاف کا ذکر فرمایا اس سے مراد رسم الخط کااختلاف تھا نہ کہ لغات کا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مرادف الفاظ سے تلاوت کا مسئلہ

٣ تیسرا سوال یہ پیداہوسکتا ہے کہ حضرت ابوبکرہؓ نے سبعۃ احرف کے اختلاف کی جو تشریح فرمائی ہے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سات حروف مصاحف عثمانی میں شامل نہیں ہوسکے، کیونکہ وہ فرماتے ہیں:
’’أن جبریل قال: یا محمد اقرأ القرآن علیٰ حرف، قال میکائیل استزدہ حتی بلغ سبعۃ أحرف،قال کل شافٍ کافٍ ما لم تخلط آیۃ عذاب برحمۃ أو رحمۃ بعذاب نحو قولک تعال واقبل وھلم واذھب و اسرع و عجل‘‘ (یہ الفاظ مسنداحمد میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہیں ،أوجز المسالک:۲؍۳۵۷ )
’’جبریل علیہ السلام نے (حضورﷺسے) کہا کہ اے محمدؐ! قرآن کریم کوایک حرف پرپڑھئے، میکائیل علیہ السلام نے حضورﷺ سے کہا اس میں اضافہ کروائیے، یہاں تک کہ معاملہ سات حروف تک پہنچ گیا، حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا ان میں سے ہرایک شافی کافی ہے، تاوقتیکہ آپؐ عذاب کی آیت کو رحمت سے یا رحمت کو عذاب سے مخلوط نہ کردیں، یہ ایسا ہی ہوگا، جیسے آپ تعال (آؤ) کے معنی کو اقبل، ھلم، اذہب ، اسرع اورعجل کے الفاظ سے اداکریں۔‘‘
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سبعۃ احرف کااختلاف درحقیقت مرادف الفاظ کا اختلاف تھا یعنی ایک حرف میں کوئی ایک لفظ اختیار کیاگیاتھا اور دوسرے حرف میں اسی کا ہم معنی کوئی دوسرا لفظ، حالانکہ عثمانی مصاحف میں جو قراء تیں جمع ہیں اُن کے درمیان مرادفات کایہ اختلاف بہت کم ہے ان قراء توں میں جو اختلاف ہے وہ زیادہ تر حرکات، صیغوں، تذکیر و تانیث اور لہجوں کااختلاف ہے۔
اس سوال کاجواب یہ ہے کہ ہم نے’سات حروف‘ کی جس تشریح کو اختیار کیا ہے اس میں قراء توں کے درمیان سات قسم کے اختلافات بیان کئے گئے ہیں، اُن سات اقسام میں سے ایک قسم بدلیت مرادفہ کااختلاف ہے، حضرت ابوبکرؓ نے یہاں سات حروف کے مکمل تشریح نہیں فرمائی،بلکہ اس کی صرف ایک مثال دی ہے، اس لیے اختلاف کی صرف ایک قسم یعنی اختلاف الفاظ بدلیت کا ذکر فرمایا ہے۔
اب اختلاف قراء ات کی یہ قسم یعنی اختلاف الفاظ ابتدائے اسلام میں بہت زیادہ تھی، چونکہ تمام اہل عرب لغت قریش کے پوری طرح عادی نہ تھے، اس لیے شروع میں انہیں یہ سہولت زیادہ سے زیادہ دی گئی تھی کہ وہ آنحضرت1 سے سنے ہوئے متبادل الفاظ میں سے جس لفظ کے ساتھ چاہیں تلاوت کرلیاکریں، چنانچہ شروع میں ایسا بکثرت تھاکہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہو اور دوسری قراء ت میں اس کا ہم معنی دوسرالفظ، لیکن جب لوگ لغت قرآن سے پوری طرح مانوس ہوگئے تو اختلاف قراء ت کی یہ قسم رفتہ رفتہ کم کردی گئی، یہاں تک کہ آنحضرتﷺ کی وفات سے پہلے رمضان میں حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپؐ سے قرآن کریم دو مرتبہ دور فرمایا، اس وقت بہت سے الفاظ منسوخ کردیئے گئے اوراس طرح الفاظ مرادفہ کااختلاف بہت کم رہ گیا۔
اب حضرت عثمانؓ نے وہ الفاظ مرادفہ اپنے مصاحف میں جمع نہیں فرمائے جو اس آخری دور میں منسوخ ہوچکے تھے، کیونکہ اُن کی حیثیت اب منسوخ التلاوۃ آیات کی سی تھی، البتہ قراء توں کا جو اختلاف آخری دور میں بھی باقی رکھاگیا تھا، اُسے حضرت عثمانؓ نے جوں کاتوں باقی رکھا، لہٰذا حضرت ابوبکرؓ نے حروف کے اختلاف کی جو قسم مذکورہ حدیث میں بطورِ مثال مذکور فرمائی ہے، وہ قسم ہی جس کی بیشتر جزئیات عرضۂ اخیرہ کے وقت منسوخ ہوچکی تھیں، چنانچہ وہ مصاحف عثمانی میں شامل نہیں ہوسکیں اورنہ موجودہ قراء ات اُن پرمشتمل ہیں۔
مذکورہ بالانتائج تین مقدمات سے مستنبط ہوتے ہیں:
١ عرضۂ اخیرہ (حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ حضورﷺ کے آخری قرآنی دور) کے وقت قرآن کریم کی متعدد قراء تیں منسوخ کی گئی تھیں۔
٢ حضرت عثمانؓ نے مصاحف عثمانی کو عرضۂ اخیرہ کے مطابق ترتیب دیا۔
٣ حضرت عثمان ؓ کے مصحف میں مرادف الفاظ کا وہ اختلاف موجود نہیں ہے جو حضرت ابوبکرہ5 نے بیان فرمایا ہے۔
جہاں تک تیسرے مقدمے کا تعلق ہے وہ تو بالکل ظاہر ہے اور دوسرے مقدمہ کے دلائل ہم پیچھے بیان کرچکے ہیں، جن میں سے صریح ترین دلیل حضرت عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ ’’حضرت عثمانؓ نے ہمیں جس قراء ت پر جمع کیا وہ عرضۂ اخیرہ کے مطابق تھی۔ (کنزالعمال:۱؍۲۸۶ ،حدیث: ۴۸۴ )
اب پہلا مقدمہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ عرضۂ اخیرہ کے وقت متعدد قراء تیں منسوخ ہوگئی تھیں، اس کی دلیل محقق ابن الجزریؒ کا یہ ارشاد ہے:
’’ولا شک أن القرآن نسخ منہ وغیر فیہ فی العرضۃ الاخیرۃ فقد صح النص بذلک عن غیر واحد من الصحابۃ وروینا بإسناد صحیح عن زرّ بن حبیش قال قال لی ابن عباس أی القراء تین تقرأ قلت الاخیرۃ قال فان النبی! کان یعرض القرآن علی جبریل علیہ السلام فی کل عام مرۃ قال فعرض علیہ القرآن فی العام الذی قبض فیہ النبی! مرتین فشھد عبداﷲ یعنی ابن مسعود ما نسخ منہ ومابدل‘‘ (النشر فی القراء ات العشر:۱؍۳۲ )
’’اور اس میں کوئی شک نہیںکہ عرضۂ اخیرہ کے موقع پر قرآن کریم میںبہت کچھ منسوخ کیا گیااور بدلا گیا ہے کیونکہ اس کی تصریح متعدد صحابہ ؓ سے منقول ہے۔ ہم تک صحیح سند کے ساتھ حضرت زر بن جیشؓ کا یہ قول پہنچا ہے کہ مجھ سے ابن عباسؓ نے پوچھا تم کون سی قراء ت پڑھتے ہو؟ میں نے کہا کہ آخری قراء ت ،انہوں نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ ہرسال ایک مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن سنایا کرتے تھے، پس جس سال آپؐ کی وفات ہوئی اُس سال آپؐنے دو مرتبہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کو قرآن سنایا، اس موقع پر جو کچھ منسوخ ہوا اور جس قدر تبدیلی کی گئی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اس کے شاہد تھے۔‘‘ (حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس مضمون کی متعدد روایات مختلف محدثین کے حوالوں سے نقل کی ہیں: فتح الباري:۹؍ ۳۶)
اس سے صاف ظاہر ہے کہ عرضۂ اخیرہ کے وقت بہت سی قراء تیں خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے منسوخ قرار دے دی گئی تھیں۔ حضرت ابوبکرہؓ نے مرادف الفاظ کے جس اختلاف کا ذکر فرمایا ہے اُس کی بہت سی جزئیات بھی یقیناً اسی وقت منسوخ ہوگئی ہوں گے، کیونکہ حضرت عثمانؓ نے عرضۂ اخیرہ کے مطابق مصحف تیار کرائے ہیں، ان میں الفاظ مرادفہ کا اختلاف بہت شاذ و نادر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور اُن کا مصحف

٤ مذکورہ بالا تحقیق پر چوتھا اشکال یہ ہوسکتا ہے کہ متعدد روایات سے ثابت ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے جمع قرآن کاجو کارنامہ انجام دیا، حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ اس سے خوش نہیں تھے اور انہوں نے اپنا مصحف بھی نذرآتش نہیں ہونے دیا۔اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف ختم نہیں فرمائے تھے تو پھر حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی وجہ اعتراض کیا تھی؟
اس کا جواب یہ ہے کہ درحقیقت حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کام پر دو اعتراض تھے، ایک یہ کہ کتابت قرآن کے کام میں انہیں کیوں شریک نہیں کیاگیا ۔ دوسرے یہ کہ دوسرے مصاحف کو نذرِ آتش کیوں کیا گیا؟
پہلے اعتراض کا ذکر صحیح ترمذی کی ایک روایت میں امام زہریؒ نے فرمایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کو یہ شکایت تھی کہ کتابت قرآن کا کام اُن کے حوالے کیوں نہیں کیاگیا، جبکہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصہ تک آنحضرتﷺ کی صحبت سے استفادہ کیاتھا۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ اس اعتراض کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس معاملہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا عذر یہ تھا کہ انہوں نے یہ کام مدینہ طیبہ میں شروع کیاتھا اور حضرت ابن مسعودؓ اس وقت کوفہ میں تھے اورحضرت عثمان ؓ اُن کے انتظار میں یہ کارخیر مؤخر فرمانا نہیں چاہتے تھے اس کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ نے بھی حضرت زید بن ثابتؓ ہی کو یہ کام سونپا تھا۔ اس لیے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ جمع و ترتیب قرآن کا یہ مرحلہ بھی انہی کے ہاتھوں انجام پائے۔(فتح الباري:۹؍۱۶ )
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کو دوسرا اعتراض یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ نئے مصاحف تیار کرنے کے بعد باقی تمام انفرادی مصاحف کو نذرآتش کرنے کا حکم دے دیاتھا اوروہ اپنا مصحف نذرِآتش کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ انہیں سمجھانے کے لیے تشریف لے گئے، لیکن انہوں نے فرمایا کہ:
’’واﷲ لا أدفعہ إلیھم،اقرأنی رسول اﷲ! بضعا وسبعین سورۃ ثم ادفعہ إلیھم،واﷲ لا أدفعہ الیھم‘‘ (مستدرک حاکم:۲؍ ۲۲۸ ، قال الحاکم: ’’ہذا حدیث صحیح الاسناد وأقرہ الذہبی)’’خدا کی قسم میں یہ مصحف ان کے حوالے نہیں کروں گا، مجھے رسول اللہﷺ نے ستر سے زیادہ سورتیں سکھائیں ہیں، پھر میں یہ مصحف انہیں دے دوں؟ خدا کی قسم میں انہیں نہیں دوں گا۔‘‘
جن حضرات نے کوفہ میں حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے مصحف کے مطابق اپنے مصاحف لکھ رکھے تھے، حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے انہیں بھی یہی ترغیب دی کہ وہ اپنے مصاحف حوالہ نہ کریں، حضرت خمیر بن مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أمر بالمصاحف أن تغیر قال قال ابن مسعود من استطاع منکم ان یغُل مصحفہ فلیغلہ… ثم قال قرأت من فم رسول اﷲ! سبعین سورۃ، أفأترک ما اخذت من فی رسول اﷲ! وعلیٰ و صحبہ وسلم‘‘ (الفتح الرباني تبویب مسنداحمد:۱۸؍۳۵ )’’مصاحف میں تبدیلی کا حکم دیاگیاتو حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ نے (لوگوں سے) فرمایاکہ تم میں سے جو شخص اپنے مصحف کوچھپا سکے وہ ضرور چھپا لے … پھر فرمایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے ستر سورتیں پڑھی ہیں تو کیا میں وہ چیز چھوڑ دوں جو میں نے براہ راست آنحضرت ﷺ کے دہن مبارک سے حاصل کی ہے۔‘‘
اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا مصحف عثمانی مصاحف سے کچھ مختلف تھا اورآپ اسے محفوظ رکھنا چاہتے تھے ،لیکن اس میں کیا چیزیں عثمانی مصاحف سے مختلف تھیں؟ اس کی صراحت صحیح روایات میں نہیں ملتی، بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے مصحف میں بنیادی فرق سورتوں کی ترتیب کا تھا، یہ بات پہلے بتائی جاچکی ہے کہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے جن صحف میں قرآن کریم کو جمع فرمایا تھا ان میں سورتیں الگ الگ لکھی ہوئی تھیں اوران میں ترتیب نہیں تھی اور حضرت عثمان ؓ نے جومصاحف لکھوائے اُن میں سورتوں کو ایک خاص ترتیب سے جمع کردیاگیاتھا۔
امام حاکم رحمہ اللہ تحریرفرماتے ہیں:
’’إن جمع القرآن لم یکن مرۃ واحدۃ فقد جمع بعضہ بحضرۃ رسول اﷲ! ثم جمع بعضہ بحضرۃ أبی بکر الصدیق، والجمع الثالث ھو فی ترتیب السورۃ،کان فی خلافۃ أمیر المؤمنین عثمان بن عفان‘‘ (المستدرک للحاکم:۲؍۲۲۹ )’’جمع قرآن کا کام ایک ہی مرتبہ میں مکمل نہیں ہوا، بلکہ قرآن کاکچھ حصہ رسول اللہﷺ کی موجودگی میں جمع ہوگیاتھا، پھر کچھ حصہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں ہوا اور جمع قرآن کا تیسرا مرحلہ وہ تھا جن میں سورتوں کو مرتب کیاگیا، یہ کام امیرالمؤمنین حضرت عثمان بن عفانؓ کے عہد خلافت میں ہوا۔‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا مصحف حضرت عثمانؓ کے مصاحف سے ترتیب میں بہت مختلف تھا، مثلاً اس میں سورۂ نساء پہلے اور سورہ آل عمران بعد میں تھی۔ (علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ابن اشتررحمہ اللہ کے حوالہ سے حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے مصحف کی پوری ترتیب نقل کی ہے جو مصاحف عثمانی سے بہت مختلف ہی۔( الاتقان:۱؍۶۶) ) اور حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے شاید اسی ترتیب کے ساتھ آنحضرتﷺ سے قرآن کریم سیکھا ہوگا۔ اس لیے اُن کی خواہش تھی کہ یہ مصحف اسی ترتیب پر باقی رہے اس کی تائید صحیح بخاری کی ایک روایت سے ہوتی ہے کہ عراق کا ایک باشندہ ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور کہا:
’’یا اُم المؤمنین أرینی مصحفک،قالت لم؟ قال لعلّی أؤلّف القرآن علیہ،فإنہ یُقرأ غیر مؤلف،قالت وما یضُرک آیۃ قرأت قبل‘‘ (صحیح البخاري:۴۹۹۳)
’’اس نے کہا کہ اُم المؤمنین! مجھے اپنا مصحف دکھائیے، حضرت عائشہؓ نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا تاکہ میں (اپنے) قرآنی مصحف کو اس کے مطابق ترتیب دے لوں، اس لیے کہ وہ (ہمارے علاقہ میں) غیر مرتب طریقہ سے پڑھا جاتا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ قرآن کا جو حصہ بھی تم پہلے پڑھ لو تمہارے لیے مضر نہیں۔‘‘
اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ یہ عراقی شخص حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی قراء ت پرکاربند تھا اورچونکہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنا مصحف نہ بدلاتھا اور نہ اُسے نابود کیاتھا، اس لیے اس کی ترتیب عثمانی مصاحف سے مختلف تھی اور ظاہر ہے کہ عثمانی مصاحف کی ترتیب میں مناسبتوں کی رعایت دوسرے مصاحف کے مقابلہ میں زیادہ تھی اس لیے اس عراقی شخص نے اپنے مصحف کو عثمانی مصحف کے مقابلہ میں غیرمرتب قرار دیا۔ (فتح الباري:۹؍۳۲ )
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کے مصحف میں بنیادی فرق سورتوں کی ترتیب کا تھا، اس کے علاوہ ہوسکتا ہے کہ رسم الخط کا فرق بھی ہو اور اس میں ایسا رسم الخط اختیارکیاگیاہو جس میں عثمانی مصاحف کی طرح تمام قرا ء توں کی گنجائش نہ ہو، ورنہ اگر حافظ ابن جریررحمہ اللہ کے بیان کے مطابق یہ کہا جائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو ختم کرکے صر ف ایک حرف پر قرآن لکھوایا تھا اور عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کامصحف انہی متروک حروف میں سے کسی حرف لکھا ہوا تھا، تو اس پر مندرجہ ذیل اعتراضات واقع ہوتے ہیں:
١ صحیح بخاری کی مذکورہ بالا حدیث میں عراقی باشندے نے صرف سورتوں کی ترتیب کااختلاف کاذکر کیا ہے، ورنہ اگر حرف کااختلاف بھی ہوتا تو وہ زیادہ اہم تھا، اسے زیادہ اہتمام سے ذکر کیا جاتا۔
٢ حافظ ابن جریرؒ وغیرہ کے قول کے مطابق سات حروف سے مراد سات مختلف قبائل کی لغات ہیں، اگر یہ بات صحیح ہوتی تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مصحف میں اور عثمانی مصاحف میں کوئی فرق نہ ہونا چاہئے تھا، کیونکہ اس قول کے مطابق حضرت عثمانؓ نے سب کو حرفِ قریش پرجمع کرکے اسی کے مطابق مصاحف لکھوائے تھے اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی قریشی تھے۔
٣ حافظ ابن جریرؒ اور اُن کے متبعین نے چھ حروف کو ختم کرنے پر سب سے بڑی دلیل اجماع صحابہؓ پیش کی ہے، لیکن اگر حضرت ابن مسعودؓ کسی اور حرف پر پڑھتے اور اس کی کتابت کو جائز سمجھتے تھے تو یہ اجماع کیسے متحقق ہوسکتا ہے، جس اجماع میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جیسے فقیہ صحابی شامل نہ ہوں وہ اجماع کہلانے کا مستحق ہی کہاں ہے۔ بعض حضرات نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے بعد میں حضرت عثمانؓ کی رائے کو قبول کرلیاتھا، لیکن اس بارے میں کوئی صریح روایت موجود نہیں ہے۔
حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں :
’’ابن ابی داؤدؒ نے ایک باب اس عنوان سے قائم کیا ہے کہ ’’ابن مسعودؓ کا بعد میں حضرت عثمانؓ کے عمل پرراضی ہوجانا‘‘ لیکن اس باب کے تحت کوئی ایسی صریح روایت نہیں لاسکے جواس عنوان کے مطابق ہو۔‘‘ (فتح الباري:۹؍۴۰ )
حافظ ابن جریرؒ وغیرہ کے قول پراِن اعتراضات کا کوئی جواب نہیں ملتا، لہٰذاصحیح یہی ہے کہ حضرت عثمان ؓنے ساتوں حروف عثمانی مصاحف میں باقی رکھے ہیں اور حضرت ابن مسعودؓ کااعتراض یہ نہیں تھا کہ چھ حروف کیوں ختم کردیئے گئے؟ (صرف ایک روایت مسنداحمد میں ایسی ملتی ہے جس سے بظاہر یہ مترشح ہوتا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے چھ حروف ختم فرما دیئے تھے اور حضرت ابن مسعودؓ کو اسی پر اعتراض تھا۔ (دیکھئے: (الفتح الرباني:۱۸؍۳۶ ) لیکن وہ ایک مجہول شخص سے مروی ہے، اس لیے مستند نہیں ہے،کیونکہ فی الواقع ایسا ہوا ہی نہیں تھا، بلکہ اعتراض یہ تھا کہ جو مصاحف پہلے سے لکھے ہوئے موجود ہیں اورجن کی ترتیب اوررسم الخط عثمانی مصاحف کے مطابق نہیں ہے اُنہیں ضائع کیوں کیاجارہا ہے جبکہ وہ بھی درست ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
نتائج بحث

’حروف سبعہ‘ کی یہ بحث اندازے سے طویل ہوگئی، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حاصل ہونے والے نتائج کاخلاصہ آخر میں پیش کردیا جائے، تاکہ اسے یادرکھنا آسان ہو:
١ اُمت کی آسانی کی خاطر آنحضرت ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے یہ فرمائش کی کہ قرآن کریم کی تلاوت کو صرف ایک ہی طبقے میں منحصرنہ رکھا جائے،بلکہ اُسے مختلف طریقوں سے پڑھنے کی اجازت دی جائے، چنانچہ قرآن کریم سات حروف پرنازل کردیا گیا۔
٢ سات حروف پر نازل کرنے کا راجح ترین مطلب یہ ہے کہ اس کی قراء ت میں سات نوعیتوں کے اختلافات رکھے گئے، جن کے تحت بہت سی قراء تیں وجود میں آگئیں۔
٣ شروع شروع میں ان سات وجوہ اختلاف میں سے اختلاف الفاظ و مرادفات کی قسم بہت عام تھی،یعنی ایسا بکثرت تھا کہ ایک قراء ت میں ایک لفظ ہوتا تھا اور دوسری قراء ت میں اس کا ہم معنی کوئی دوسرا لفظ، لیکن رفتہ رفتہ جب اہل عرب قرآنی زبان سے پوری طرح مانوس ہوگئے تو یہ قسم کم ہوتی گئی یہاں تک کہ جب آنحضرتﷺ نے اپنی وفات سے پہلے رمضان میں حضرت جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا آخری دور کیا (جسے اصطلاح میں عرضۂ اخیرہ کہتے ہیں) تو اس میں اس قسم کے اختلافات دور کردیئے گئے اور زیادہ تر صیغوں کی بناوٹ، تذکیر و تانیث، افرادو جمع، معروف و مجہول اور لہجوں کے اختلافات باقی رہے۔
٤ جتنے اختلافات عرضۂ اخیرہ کے وقت باقی رہ گئے تھے، حضرت عثمان ؓ نے ان سب کو اپنے مصاحف میں اس طرح جمع فرما دیا کہ ان کو نقطوں اور حرکات سے خالی رکھا، لہٰذا قراء توں کے بیشتر اختلافات اس میں سماگئے، اور جو قراء تیں اس طرح ایک مصحف میں نہیں سما سکیں انہیں دوسرے مصاحف میں ظاہر کردیا، اسی بناء پر عثمانی مصاحف میں کہیں کہیں ایک ایک دو دو لفظ کا اختلاف پیدا ہوا۔
٥ حضرت عثمان ؓنے اس طرح سات مصاحف لکھوائے اور ان میں سورتوں کو بھی مرتب فرما دیا جبکہ حضرت ابوبکرؓ کے صحیفوں میں سورتیں غیر مرتب تھیں، نیز قرآن کریم کے لیے ایک رسم الخط متعین کردیا اور جو مصاحف اس ترتیب اور اس رسم الخط کے خلاف تھے انہیں نذر آتش کردیا۔
٦ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے مصحف کی ترتیب عثمانی مصاحف سے مختلف تھی اور وہ اس ترتیب کو باقی رکھنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے اپنا مصحف نذر آتش کرنے کے لیے حضرت عثمانؓ کے حوالے نہیں کیا۔
 
Top