• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ عشرہ کا تواتراور حدیثِ سبعہ اَحرف کی تشریح

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حاصلِ کلام اور حرفِ آخر
اَحرفِ سبعہ سے کیا مراد ہے اور یہ کہ اب وہ باقی ہیں یا نہیں اور قراء اتِ سبعہ اور عشرہ کا تعلق کس لغت سے ہے تفصیل بالا سے واضح ہے کہ اس میں حضرات اہل علم کے مابین شدید اِختلاف پایا جاتا ہے علامہ دانی﷫،اکثر محققین اور جمہور اہل اَدا کے نزدیک اَحرف ِسبعہ سے مراد مختلف قبائل کی سات لغات ہیں اور علامہ طبری﷫ اور بعض دیگر حضرات کے نزدیک اَحرفِ سبعہ میں سے اب صرف ایک حرف باقی ہے دیگر اَحرف ستہ حضور اکرمﷺ کے زمانہ میں منسوخ ہوگئے تھے، اب وہ باقی نہیں رہے۔ ہمارے اَکابر میں سے حضرت علامہ ظفر اَحمد عثمانی﷫ کی رائے گرامی بھی یہی ہے خود احقر کے والد ماجد فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی عبدالشکور صاحب ترمذی﷫ جو اپنے دور میں ایک جید عالم دین اور عظیم فقیہ و مفسر ہونے کے ساتھ قراء اتِ سبعہ بلکہ عشرہ کے باقاعدہ قاری اور حضرت شیخ القراء جناب قاری محی الاسلام﷫ کے خاص تلمیذ رشید تھے ان کی رائے بھی یہی تھی۔ جیسا کہ انہوں نے علامہ شمس الحق اَفغانی﷫ سے متعلق اپنے مقالہ ’حضرت مولانا افغانی کی تفسیری خدمات‘ میں اِس کا اِظہار بھی فرمایا ہے۔ لیکن اس کے برعکس جمہور علماء ِکرام کا ایک دوسرا طبقہ جس کا تفصیلی ذکر علوم القرآن کے حوالہ سے گزر چکا ہے، ان کا نظریہ یہ ہے کہ اَحرف سبعہ اب بھی باقی ہیں۔ لیکن یہ ایک خالص علمی اور نظریاتی اِختلاف ہے اس سے اس حقیقت ثانیہ، کہ قرآن کریم چودہ سو سال سے آج تک بغیر کسی اَدنیٰ تغیر و تبدل، اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے تحت محفوظ چلا آرہا ہے اور اس کی جتنی قراء تیں تواتر کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ سب صحیح ہیں، پر ذرا بھی اَثر نہیں پڑتا۔ حضرت علامہ محمد تقی عثمانی﷾ نے اس بارہ میں نہایت صائب اور فیصلہ کن بات تحریر فرمائی ہے :
’’یہ سارا اختلاف محض نظریاتی نوعیت کا ہے اور عملی اعتبار سے قرآن کریم کی حقانیت و صداقت اور اس کے بعینہٖ محفوظ رہنے پر اس اختلاف کا کوئی اَثر بھی مرتب نہیں ہوتا۔‘‘ (علوم القرآن:۱۵۶)
سردست ہم اس تحریر پر اکتفاء کرتے ہیں، اُمید ہے کہ حصولِ مطلوب میں یہ کافی ہوگی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حواشی و حوالہ جات
(١) عن ابن عباس مرفوعا قال: ’’أقرأني جبریل علی حرف فراجعتہ، فلم أزل أستزیدہ ویزیدني حتی انتھی إلی سبعۃ أحرف‘‘۔ (أخرجہ البخاري: ۲؍۷۴۶، م الحسن)
(٢) وفی روایۃ مسلم عن أبي ابن کعب بلفظ أن النبي ! کان عند أضاۃ بنی غفار فأتاہ جبریل فقال: ’’إن اﷲ یأمرک أن تقرئ أمتک القرآن علی حرف‘‘، فرددت إلیہ أن ھون علی أمتي۔ وفی روایۃ لہ إن أمتي لا تطیق ذلک۔ (صحیح مسلم:۱؍۲۷۳، م، آرام باغ کراچی)
(٣) و للترمذی من وجہ آخر أنہ ! قال: ’’یا جبریل! إنی بعثت إلی أمۃ أمیین منھم العجوز والشیخ الکبیر والغلام والجاریۃ والرجل الذي لم یقرأ کتابا قط‘‘۔ الحدیث (جامع الترمذی: ۲؍۱۲۲، م الحسن)
(٤) وأخرج البخاري عن عمر في قصۃ طویلۃ، فقال رسول اﷲ !: ’’إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف فاقرئوا ماتیسر منہ‘‘۔ (صحیح البخاری: ۲؍۷۴۷، م الحسن)
(٥) وقال تعالیٰ: ’’ وَمَآ أَرْسَلْنَا ِمنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہٖ ‘‘(ابراھیم:۴)
(٦) وأخرج البخاري عن عثمان أنہ قال للرھط القرشیین الثلاثۃ: ’’إذا اختلفتم و زید بن ثابت في شيء من القرآن فاکتبوہ بلسان قریش، فإنما نزل بلسانھم۔‘‘ ففعلوا۔ (صحیح البخاری: ۲؍۷۴۶، م الحسن)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) وأخرج أبوداؤد من طریق کعب الأنصاری أن عمر کتب إلی ابن مسعود: ’’أن القرآن نزل بلسان قریش فأقرئ الناس بلغۃ قریش، لا بلغۃ ھذیل۔‘‘ وعن عمر أیضا أنہ قال: ’’إذا اختلفتم في اللغۃ فاکتبوھا بلسان مضر۔‘‘ (سنن ابوداؤد: ۲؍۴۲۰، م دھلی)
أخرجہ الحافظ في الفتح وعزاہ إلی ابن أبی داؤد في المصاحف وزیاداتہ في الفتح صحاح وحسان۔
(٨)وأخرج البخاري وحذیفۃ أنہ أفزعہ اختلافھم في القراء ۃ فقال حذیفۃ لعثمان: یا أمیر المؤمنین! أدرک ھذہ الأمۃ قبل أن یختلفوا في الکتاب اختلاف الیھود والنصاریٰ۔ الخ۔ قال الحافظ: وفي روایۃ یونس فتذاکروا القرآن فاختلفوا فیہ حتی کاد یکون بینھم فتنۃ۔ وفي روایۃ عمارۃ بن عزیۃ أن حذیفۃ قدم من غزوۃ، فلم یدخل بیتہ حتی أتی عثمان، فقال: یا أمیر المؤمنین! أدرک الناس۔ قال: وما ذاک؟ قال: غزوت أرمینیۃ فإذا أھل الشام یقرئون بقرائۃ أبي بن کعب فیأتون بما لم یسمع أھل العراق، وأہل العراق یقرئون بقرائۃ عبداﷲ بن مسعود فیأتون بما لم یسمع أھل الشام، فیکفر بعضھم بعضا۔ وأخرج ابن أبي داؤد في المصاحف من طریق أبي قلابۃ، قال: لما کان في خلافۃ عثمان جعل المعلم یعلم قرائۃ الرجل والمعلم قرائۃ الرجل فجعل الغلمان یتلقون فیختلفون، حتی ارتفع ذلک إلی المعلمین، حتی کفر بعضھم بعضا، فبلغ ذلک عثمان، فخطب فقال: أنتم عندي تختلفون فمن نأی منی من الأمصار أشد اختلافا۔
(٩) وأخرج ابن أبی داؤد بإسناد صحیح من طریق سوید بن غفلۃ قال: قال علي: ’’لاتقولوا في عثمان إلا خیرا۔ فقال: فو اﷲ ما فعل الذي فعل في المصاحف إلا عن ملأ منا۔ قال: ما تقولون في ھذہ القرائۃ فقد بلغني أن بعضھم یقول: إن قرائتي خیر من قرائتک وھذا یکاد أن یکون کفرا۔قلنا: فما تری؟ قال: أری أن نجمع الناس علی مصحف واحد فلا تکون فرقۃ ولا اختلاف۔ قلنا: فنِعْمَ ما رأیت۔ (ص۱۶ج۹)،(ص۴۲۴،۴۲۵ ج۲ م دھلی)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قال الحافظ: وذھب أبوعبید وآخرون إلی أن المراد بالأحرف السبعۃ اختلاف اللغات وھو اختیار ابن عطیۃ، وتعقب بأن لغات العرب أکثر من سبعۃ، وأجیب بأن المراد أفصحھا فجاء عن أبي صالح عن ابن عباس قال: نزل القرآن علی سبع لغات منھا خمس بلغۃ العجز من ھوازن قال: والعجز سعد بن بکر وھشیم بن بکر ونصر بن معاویۃ وثقیف وھؤلاء کلھم من ھوازن ویقال لھم: ’’علیا ھوازن‘‘ ولھذا قال أبوعمرو ابن العلائ:’’أفصح العرب علیا ھوازن وسفلی تمیم‘‘ یعنی بني دارم۔وأخرج أبوعبید من وجہ آخر عن ابن عباس قال: نزل القرآن بلغۃ الکعبین،کعب قریش وکعب خزاعۃ۔ قیل: وکیف ذلک؟ قال: لأن الدار واحدۃ۔ یعنی أن خزاعۃ کانوا جیران قریش، فسھلت علیھم لغتھم۔ قالوا: أبوحاتم السجستاني نزل بلغۃ قریش… وھذیل وتمیم الرباب والأزد وربیعۃ وھوازن وسعد بن بکر۔۱ھ ونقل أبوشامۃ عن بعض الشیوخ أنہ قال: أنزل القرآن أ ولا بلسان قریش ومن جاورھم من العرب الفصحاء ثم أبیح لسائر للعرب أن یقرئہ بلغاتھم التي جرت عادتھم باستعمالھا علی اختلافھم في الألفاظ والأعراب ولم یکلف أحد منھم الانتقال من لغتھم إلی لغۃ أخری للمشقۃ ولما کان فیھم من الحمیۃ ولطلب تسھیل تفھیم المراد۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٠) قال الحافظ: وتتمۃ ذلک أن یقال: إن الإباحۃ المذکورۃ لم تقع بالتشھي -أي أن کل أحد بفید الکلمۃ بمرادفھا في لغتہ- بل المراعی في ذلک السماع من النبي !۔ (ص۲۴، ج۹)، ص۴۲۹،ج۲۰ م دھلی)
(١١) وعلی ھذا وفیہ أیضا أما من أراد قرائتہ من غیر العرب فالاختیار لہ أن یقرأہ بلسان قریش لأنہ الأولی وعلی ھذا یحمل ما کتب بہ عمر إلی ابن مسعود لأن جمیع اللغات بالنسبۃ لغیر العربي مستویۃ في التعبیر۔ فإذا لابد من واحدۃ فلتکن بلغۃ النبي !۔ وأما العربی المجبول علی لغتہ فلو کلف قرائتہ بلغۃ قریش لعثر علیہ التحول مع إباحۃ اﷲ لہ أن یقرئہ بلغتہ۔ ویشیر إلی ھذا قولہ في حدیث أبي کما تقدم: ’’ھون علی أمتي‘‘۔ قولہ: ’’وإن أمتي لا تطیق ذلک‘‘۔ قال الحافظ: ویدل علی ما قرأہ (أبوشامۃ) إنہ أنزل أولا بلسان قریش، ثم سھل علی الأمۃ أن یقرأہ بغیر لسان قریش وذلک بعد أن کثر دخول العرب في الإسلام، فقد ثبت أن ورود التخفیف بذلک کان بعد الھجرۃ کما تقدم في حدیث أبي بن کعب أن جبریل لقي النبي ! عند أضاۃ بني غفار۔ الحدیث (وھو موضع بالمدینۃ النبویۃ) (ص۲۵ج۹، ص۴۳۰ج۲۰ م دھلی)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٢) قال الجزري فی النشر: کل قرائۃ وافقت العربیۃ ولو بوجہ ووافقت أحد المصاحف العثمانیۃ ولو احتمالا وصح إسنادھا فھي القرائۃ الصحیحۃ التي لایجوز ردھا ولا یحل إنکارھا بل ھي من الأحرف السبعۃ التي نزل بھا القرآن ووجب علی الناس قبولھا سواء کانت عن الأئمۃ السبعۃ أم عن العشرۃ أم عن غیرھم من الأئمۃ المقبولین ومتی اختل رکن من ھذہ الأرکان الثلاثۃ أطلق علیھا ضعیفۃ أو شاذۃ أو باطلۃ سواء کانت عن السبعۃ أم عمن ھو أکبر منھم۔ ھذا ھو الصحیح عند أئمۃ التحقیق من السلف والخلف صرح بذلک الداني ومکي والمھدوي وأبوشامۃ۔وھو مذھب السلف الذي لا یعرف من أحدھم خلافہ۔
(١٣) وفي الاتقان للحافظ السیوطی أن القراء ۃ أنواع:
٭ الأول: المتواتر، وھو ما نقلہ جمع لا یمکن تواطئھم علی الکذب من مثلھم إلی منتھاہ وغالب القرائۃ کذلک۔
٭ الثاني: المشھور، وھو ما صح سندہ ولم یبلغ درجۃ المتواتر ووافق العربیۃ والرسم۔ وأشھر عند القراء فلم یعدوہ من الغلط ولا من الشذوذ و یقرأہ بہ علی ما ذکر ابن الجزري ویفھمہ کلام ابن شامۃ السابق ومثالہ ما اختلف الطرق في نقلہ عن السبعۃ فرواہ بعض الرواۃ عنھم دون بعض وأمثلۃ ذلک کثیرۃ في فرش الحروف من کتب القرائات کالذي قبلہ۔
٭ الثالث، الأحاد وھو ما صح سندہ وخالف الرسم أو العربیۃ أو لم یشتھر إلا اشتھار المذکورۃ ولا یقرء بہ وقد عقد الترمذي في جامعہ والحاکم في مستدرکہ لذلک بابا إخراجا فیہ کثیرا صحیح الإسناد۔ ۱ھ ملخصا۔ (۱،۸۱)،(ص۷۷ج۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٤) قال في الشامیۃ: القرآن الذي تجوز بہ الصلاۃ بالاتفاق،ھو المضبوط في المصاحف الأئمۃ التي بعث بھا عثمان إلی الأمصار وھو الذي أجمع علیہ الأئمۃ العشرۃ وھذا ھو المتواتر جملۃ وتفصیلا،فما فوق السبعۃ إلی العشرۃ غیر شاذ،وإنما الشاذ ما وراء العشرۃ وھو الصحیح۔ ۱ھ ۔ (شامیۃ: ص۳۵۸ ج۱ ، م رشیدیہ کوئٹہ)
(١٥) قال أبوالخیر محمد بن الجزری: أما کون المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی جمیع الأحرف السبعۃ فإن ھذہ مسألۃ کبیرۃ اختلف العلماء فیھا، فذھب جماعات من الفقھاء والقراء والمتکلمین إلی أن المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی جمیع الأحرف السبعۃ ابنوا ذلک علی أنہ لا یجوز علی الأمۃ أن تھمل نقل شيء من الحروف السبعۃ التي نزل القرآن بھا، وقد أجمع الصحابۃ علی نقل المصاحف العثمانیۃ من الصحف التي کتبھا أبوبکر وعمر، وإرسال کل مصحف منھا إلی مصر من أمصار المسلمین وأجمعوا علی علی ترک ما سویٰ ذلک، قال ھٰؤلائ: ولا یجوز أن ینھیٰ عن القرائۃ ببعض الأحرف السبعۃ ولا أن یجمعوا علی ترک شيء من القرآن، وذھب جماھیر العلماء من السلف والخلف وأئمۃ المسلمین إلی أن ھذا المصاحف العثمانیۃ مشتملۃ علی ما یحتملہ رسمھا فقط، جامعۃ للعرضۃ الأخیرۃ التي عرضھا النبي! علی جبریل متضمنۃ لھا، لم تترک حرفا منھا۔قلت:وھذا القول ھو الذي یظھر صوابہ لأن الأحادیث الصحیحۃ والآثار المشھورۃ المستفیضۃ تدل علیہ وتشھد لہ۔ (النشر في القرائات العشر: ص۳۱ج۱)
(١٦) قال العلامۃ بدرالدین العینی: واختلف الأصولیون ھل یقرأ الیوم علی سبعۃ أحرف؟ فمنعہ الطبري وغیرہ وقال: إنما یجوز بحرف واحد الیوم، وھو حرف زید ونحی إلیہ القاضي أبوبکر۔وقال أبوالحسن الأشعری: أجمع المسلمون علی أنہ لا یجوز حظر ما وسعہ اﷲ تعالیٰ من القرائۃ بالأحرف التي أنزلھا اﷲ تعالیٰ ولا یسوغ للأمۃ أن تمنع ما یطلقہ اﷲ تعالیٰ، بل ھي موجودۃ في قرائتنا مفرقۃ في القرآن غیر معلومۃ بأعیاننا، فیجوز علی ھذا وبہ قال القاضي: أن یقرأ بکل ما نقلہ أھل التواتر من غیر تمییز حرف من حرف، فیحفظ حرف نافع بحرف الکسائی و حمزۃ ولا حرج فی ذلک۔ (عمدۃ القاری کتاب الخصومات:۱۲؍۲۵۸)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٧) قال القاضي أبوبکر: والسابع اختارہ القاضی أبوبکر وقال: الصحیح أن ھذہ الأحرف السبعۃ ظھرت واستفاضت عن رسول اﷲ ! وضبطھا عنہ الأئمۃ وأثبتھا عثمان والصحابۃ في المصحف۔ (البرھان فی علوم القرآن:۱؍۲۲۳)
وأما قول من قال:’’أبطل الأحرف الستۃ‘‘۔فقد کذب من قال ذلک،بل الأحرف السبعۃ کلھا موجودۃ عندنا قائمۃ کما کانت مثبوتۃ في القراء ت المشھورۃ المأثور۔(ابن حزم، الفصل في الملل والأھواء والنحل: ۲؍۷۷، ۷۸)

(١٨) قال أبوالولید الباجي المالکي: فإن قیل ھل تقولون إن جمیع ھذہ السبعۃ الأحرف ثابتۃ في المصحف فالقرائۃ بجمیعھا جائزۃ قیل لھم کذلک،نقول:والدلیل علی صحۃ ذلک قولہ عزوجل: ’’ إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ‘‘ (الحجر: ۹) ولا یصح انفصال الذکر المنزل من قرائتہ فیمکن حفظہ دونھما، ومما یدل علی صحۃ ما ذھبنا إلیہ إن ظاھر قول النبي ! یدل علی أن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف تیسیرا علی من أراد قرائتہ لیقرأ کل رجل منھم بما تیسر علیہ وبما ھو أخف علی طبعہ وأقرب إلی لغتہ،لما یلحق من المشقۃ بذلک المألوف من العادۃ في النطق۔ونحن الیوم مع عجمۃ ألسنتنا وبعدنا عن فصاحۃ العرب أحوج۔ (أبوالولید الباجي، المنتقی شرح المؤطا: ۱؍۳۴۷)
(١٩)قال الإمام الغزالي: ما نقل إلینا بین دفتي المصحف علی الأحرف السبعۃ المشہور نقلا متواترا۔ (المستصفی: ۱؍۶۵)
(٢٠) قال الملا علي القاری: وکأنہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کشف لہ أن القرائۃ المتواترۃ تستقر في أمتہ علی سبع وھی الموجودۃ الاٰن المتفق علی تواترھا، والجمھور علی أن ما فوقھا شاذ، لا یحل القرائۃ بہ۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۵؍۱۶)
الإنتباہ: وما قال الملا علی القاری والجمھور علی أن ما فوقھا شاذ… الخ، لیس بصحیح لأن ما وراء السبعۃ لیس بشاذ، بل العشرۃ کلھا متواترۃ، وما فوقھا شاذ وھذا مالا شک فیہ کما لا یخفیٰ علی أحد، (عبدالقدوس ترمذی غفرلہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢٢) قال الشاہ ولي اﷲ:
ولیل برآنکہ ذکر سبعہ بجہت تکثیر است نہ برائے تحدید اتفاق ائمہ است بر قرائات عشر وہر قرآتے را ازیں عشرہ دو راوی است وہر یکے با دیگرے مختلف است پس مرتقی شدہ عدد قرائۃ تا ہیست۔ (المصفٰی: ۱۸۷)
(٢٣) قال العلامۃ محمد أنور شاہ کشمیری: واعلم أنھم اتفقوا علی أنہ لیس المراد من سبعۃ أحرف القرائۃ السبعۃ المشھورۃ، بأن یکون کل حرف منھا قرائۃ من تلک القرائات، أعنی أنہ لا انطباق بین القرائات السبع والأحرف السبعۃ کما یذھب إلیہ الوھم بالنظر إلیٰ لفظ السبعۃ في الموضعین،بل تلک الأحرف والقرائۃ عموم وخصوص وجھي، کیف، وإن القرائات لا تنحصر في السبعۃ،کما صرح ابن الجزري في رسالۃ النشر في القرائۃ العشر، وإنما اشتھرت السبعۃ علی الألسنۃ لأنھا التي جمعھا الشاطبي۔ ثم اعلم إن بعضھم فھم أن بین تلک الأحرف تغایرا من کل وجہ، بحیث لا ربط بینھا ولیس کذلک،بل قد یکون الفرق بالمجرد والمزید والأخریٰ بالأبواب،ومرۃ باعتبار الصیغ من الغائب والحاضر، وطورا بتحقیق الھمزۃ وتسھیلھا، فکل ھذہ التغییرات یسیرۃ کانت أو کثیرۃ حرف برأسہ،وغلط من لھم إن ھذہ الأحرف متغایرۃ کلھا بحیث یتعذر اجتماعھا أما إنہ کیف عدد السبعۃ فتوجہ إلیہ ابن الجزري وحقق أن التصرفات کلھا ترجع إلی السبعۃ، وراجع القسطلانی والزرقاني، بقي الکلام في أن تلک الأحرف کلھا موجودۃ أو رفع بعضھا وبقي البعض فاعلم أن ما قرأہ جبریل في العرضۃ الأخیرۃ علی النبي ! کلہ ثابت في مصحف عثمان،ولما یتعین معنی الأحرف الستۃ منھا وبقی واحد فقط۔ (فیض الباری:۳؍۳۲۱،۳۲۲)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢٤) قال المحقق العلامۃ محمد زاھد الکوثري: والأوّل رأی القائلین بأن الأحرف السبعۃ کانت في مبدء الأمر ثم نسخت بالعرضۃ الأخیرۃ في عھد النبي ! فلم یبق إلا حرف واحد ورأی القائلین بأن عثمان جمع الناس علی حرف واحد ومنع من الستۃ الباقیۃ للمصلحۃ، وإلیہ نحی ابن جریر وتھیأہ ناس فتابعوہ لکن ھذا رأی خطیر، قام ابن حزم بأشد الکبیر علیہ في الفصل وفي الأحکام، ولہ الحق في ذلک، والثاني رأی القائلین بأنھا ھي الأحرف السبعۃ المحفوظۃ کما ھي في العرضۃ الأخیرۃ…الخ۔ (مقالات الکوثری: ص۲۰،۲۱،مطبعۃ الانوار قاہرہ ۱۳۷۲ھ)
فقط واﷲ أعلم​
ھذا من عندی ولعل عند غیري أحسن من ھذا وفي ھذا کفایۃ لمن لہ درایۃ واﷲ ھو العاصم من الضلالۃ والغوایۃ ولہ الحمد في البدایۃ والنھایۃ۔

کتبہ الأحقر عبدالقدوس الترمذي غفر لہ
خادم الإفتاء بالجامعۃ الحقانیۃ
ساھیوال من مضافات سرجودھا
۱۷من شھر صفر المظفر ۱۴۳۱ھ​
٭_____٭_____٭
 
Top