• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ عشرۃکی اَسانید اور ان کا تواتر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٦ امام حمزہ کوفی رحمہ اللہ کی سند


ان کے بھی دو مشہور راوی ہیں: (۱) سیدنا خلف رحمہ اللہ (۲) سیدنا خلاد رحمہ اللہ
ابو محمد خلف بن ہشام رحمہ اللہ اور خلاد بن عیسیٰ رحمہ اللہ دونوں نے ابوعیسیٰ سلیم بن عیسیٰ بن سلیم بن عامر بن غالب بن سعیدبن سلیم رحمہ اللہ سے قراء ت حاصل کی، انہوں نے امام حمزہ بن عمارہ رحمہ اللہ سے، انہوں نے سلیمان بن مہران رحمہ اللہ سے، انہوں نے یحییٰ بن وثاب رحمہ اللہ سے ،انہوں نے عبیدہ سلمانی رحمہ اللہ، علقمہ رحمہ اللہ، اسودرحمہ اللہ اور مسروق رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے آنحضرتﷺ سے قراء ت حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٧ امام علی بن حمزہ کسائی کوفی رحمہ اللہ کی سند


ان کے بھی دو مشہور راوی ہیں: (۱) سیدنا ابو الحارث رحمہ اللہ (۲) سیدنا دوری رحمہ اللہ
ابوعمر و حفص بن عمر بن عبدالعزیز بن صہبان ازدی دوری رحمہ اللہ اور ابوالحارث لیث بن خالدرحمہ اللہ دونوں نے ا مام کسائی رحمہ اللہ سے براہ راست قراء ت حاصل کی، انہوں نے ابوعمارہ حمزہ بن حبیب زیات رحمہ اللہ سے، انہوں نے سلیمان بن مہران رحمہ اللہ سے، انہوں نے یحییٰ بن وثاب رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابو مریم زر بن حبیش رحمہ اللہ سے، انہوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اورعبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے اور ان دونوں حضرات نے آپﷺ سے قراء ت حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٨ امام ابوجعفر یزید بن قعقاع رحمہ اللہ کی سند


ان کے بھی دو مشہور راوی ہیں: (۱) سیدنا ابن وردان رحمہ اللہ (۲)سیدنا ابن جماز رحمہ اللہ
ابوالحارث عیسیٰ بن وردان مدنی رحمہ اللہ اور ابوربیع سلمان ابن سالم بن جماز رحمہ اللہ دونوں نے امام ابوجعفررحمہ اللہ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے قراء ت حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٩ امام یعقوب بصری رحمہ اللہ کی سند


ان کے بھی دو مشہور راوی ہیں: (۱) سیدنا رُویس رحمہ اللہ (٢) سیدنا رَوح رحمہ اللہ
ابوعبداللہ محمد بن متوکل لؤلؤی بصری المعروف رویس رحمہ اللہ اور ابوالحسن روح بن عبدالمومن ہذلی رحمہ اللہ نے امام یعقوب بن اسحاق بصری رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوعمرو بصری رحمہ اللہ سے، انہوں نے مجاہد بن جبررحمہ اللہ اورسعیدبن جبیررحمہ اللہ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے قراء ت حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
١٠ امام خلف العاشررحمہ اللہ کی سند


ان کے بھی دو مشہور راوی ہیں: (۱) سیدنا اسحاق رحمہ اللہ (۲) سیدنا ادریس رحمہ اللہ
ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن عثمان بغدادی رحمہ اللہ اور ابوالحسن ادریس بن عبدالکریم حداد رحمہ اللہ نے امام خلف بن ہشام بزاررحمہ اللہ سے، انہوں نے یحییٰ بن سلیم رحمہ اللہ سے، انہوں نے حمزہ بن عمارہ بن اسماعیل رحمہ اللہ سے، انہوں نے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ سے، انہوں نے منہال بن عمرورحمہ اللہ سے، انہوں نے سعید بن جبیررحمہ اللہ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے آنحضرت ﷺسے قراء ت حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسانید کے ذکر کرنے کے بعد ہم دوسری طرف چلتے ہیں۔ وہ ہے سند عالی اور نازل کی معرفت، کیونکہ عالی سند کا حصول سنت ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ کے قرب کے حصول کا بھی ذریعہ ہے۔
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اصحاب حدیث نے عالی اورنازل سند کو پانچ حصوں میں تقسیم کیاہے:
١ ایسی سند صحیح جو ضعف سے محفوظ ہو، اور اس میں عدد کے اعتبار سے رسول اللہﷺ سے قرب ہو، یہ علو کی سب سے بہتر قسم ہے۔ موجودہ دور میں سند عالی کی اس قسم میں ۱۴ واسطے موجود ہیں۔اس کی نظیرقراء ات میں، سیدنا ابن ذکوان رحمہ اللہ کی امام ابن عامر رحمہ اللہ سے روایت ہے۔ یا۱۵ واسطے موجود ہیں، قراء ات میں اس کی مثال قراء ت عاصم بروایت حفص اورقراء ت یعقوب بروایت رویس ہیں۔
٢ محدثین کے ہاں علو کی دوسری قسم ائمہ حدیث میں سے کسی امام کی طرف قرب ہے، جیسے أعمش رحمہ اللہ، ہشیم رحمہ اللہ، ابن جریج رحمہ اللہ، اوزاعی رحمہ اللہ اور مالک رحمہ اللہ ہیں۔ علم قراء ت میں اس کی مثال امام نافع رحمہ اللہ اور امام ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی قراء ت ہے، جس میں ان آئمہ تک ۱۲؍ واسطے ہیں۔
٣ محدثین کے ہاں تیسری قسم ہے کتب ستہ میں سے کسی ایک کی روایت کرنے کی نسبت کاعلو۔ وہ یوں کہ اگر ایک محدث کسی حدیث کو کتب ستہ کے طریق سے بیان کرتاہے تو وہ نازل ہو اور اگر ان کے علاوہ کسی طریق سے بیان کرے تو وہ عالی ہو۔ قراء ات میں اس کی مثال کتب ِمعروفہ: تیسیراورشاطبیہ وغیرہ میں۔
موافقات، ابدال، مساوات اور مصافحات علو کی اس قسم کے قبیل سے ہیں:
موافقت: یہ ہے کہ اصحاب کتب میں سے کسی ایک کے ساتھ کسی دوسرے طریق سے (جو نسبتاً کم واسطوں والاہو) سے اس کے شیخ پراکٹھا ہونا۔ صاحب کتاب اگر اسے اپنے طریق سے بیان کرتا، تو وہ سند عالی نہ بنتی۔ کبھی اس فن میں اس کی مثال نہیں بھی ملتی۔ علم قراء ات میں سیدنا بزی رحمہ اللہ نے جو مکی رحمہ اللہ سے بطریق ابن نبان بواسطہ ابوربیعہ روایت کیا ہے، اس کو حافظ ابن جزری رحمہ اللہ نے بواسطہ کتاب المفتاح از ابومنصور محمد بن عبدالملک بن خیرون رحمہ اللہ سے اورکتاب المصباح از ابوالکرم شہرزوری رحمہ اللہ سے نقل کیاہے۔ ان دونوں حضرات یعنی ابومنصوررحمہ اللہ اور شہر زوری رحمہ اللہ نے یہ قراء ت عبدالسعید بن عتاب رحمہ اللہ سے پڑھی۔ امام جزری رحمہ اللہ کا ان دونوں طریقوں میں سے کسی ایک طریق کے مطابق نقل کرنا، اصول حدیث کی روشنی میں ’موافقت‘ کہلائے گا۔
بدل:یہ ہے کہ کسی مصنف کے استاد کے ایک یا زیادہ اساتذہ تک اس مصنف کی سند کے علاوہ کسی ایسی سند کے ساتھ پہنچنا جس میں واسطے کم ہوں۔ یہ صورت کبھی عالی نہیں ہوئی یا بالفاظ دیگر اس کی مثال نہیں ملی۔ یہاں ہم اس کی مثال میں امام ابوعمرو رحمہ اللہ کی قراء ت، جو دوری رحمہ اللہ نے ابن مجاہد بواسطہ ابوالزعراء نقل کی ، پیش کرتے ہیں۔
اس قراء ت کو امام دانی رحمہ اللہ نے ابوالقاسم عبدالعزیز بن جعفر بغدادی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوطاہررحمہ اللہ سے بواسطہ ابن مجاہد نقل کیا ہے۔ اورکتاب المصباح سے اس طرح نقل کیا ہے کہ اس قراء ت کو ابوالکرم رحمہ اللہ نے ابوالقاسم یحییٰ بن احمدالبستی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالحسن حمامی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوطاہر رحمہ اللہ سے حاصل کی۔ امام جزری رحمہ اللہ کا اس قراء ت کو بطریق مصباح نقل کرنا امام دانی رحمہ اللہ کے استاد کے استاد کے لئے بدل کہلائے گا۔
مساوات: اکثر طور پر روایت کے رواۃ عدد میں برابر ہوں تو اسے مساوات کہتے ہیں، گویا کہ وہ راوی صاحب کتاب سے ملے ہیں، اس سے مصافحہ کیا اور یہ روایت نقل کی ہے۔ اس کی مثال امام نافع رحمہ اللہ کی قراء ت ہے، جسے امام شاطبی رحمہ اللہ نے ابوعبداللہ محمد بن علی نفری رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوعبداللہ بن غلام رحمہ اللہ سے، انہوں نے سلیمان بن نجاح رحمہ اللہ وغیرہ سے، انہوں نے ابوعمرو دانی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالفتح فارس بن احمدرحمہ اللہ سے، انہوں نے عبدالباقی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالحسن بن بویان بن حسن رحمہ اللہ سے، انہوں ابراہیم بن عمر مقری رحمہ اللہ سے، انہوں نے أبو الحیض بن بویان رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوبکر بن اشعث رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوجعفر الریعی المعروف ابونشیط رحمہ اللہ سے، انہوں نے سیدنا قالون رحمہ اللہ سے اور انہوں نے امام نافع رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے۔
اسی قراء ت کو امام جزری رحمہ اللہ نے ابوبکر خیاط رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابومحمد بغدادی رحمہ اللہ وغیرہ سے، انہوں نے صائغ رحمہ اللہ سے، انہوں نے کمال بن فارس رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالیمن کندی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوالقاسم ہبۃ اللہ بن احمد حریری رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابوبکر خیاط رحمہ اللہ سے، انہوں نے غرضی رحمہ اللہ سے، انہوں نے ابن بویان رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے۔یہ امام ابن جزری رحمہ اللہ کے لئے مساوات ہے، کیونکہ ابن جزری رحمہ اللہ اور ابن بویان رحمہ اللہ کے مابین سات واسطے ہیں۔ امام شاطبی رحمہ اللہ اور امام جزری رحمہ اللہ کے مابین بھی اتنے ہی واسطے ہیں، توجس نے امام جزری رحمہ اللہ سے قراء ت حاصل کی، گویا اس نے امام شاطبی رحمہ اللہ سے مصافحہ کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
باعتبار سند قراء کی تقسیم اور اس طرح کے دیگرمسائل

مذکورہ تقسیم تو علماء حدیث کے ہاں تھی۔ قراء کرام کے ہاں اسناد کی تقسیم ، قراء ات، روایت، طریق اور وجہ کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے۔
قراء ت: اگر اختلاف ائمہ سبعہ یا عشرہ میں سے کسی ایک سے منقول ہو اور تمام طرق و روایات اس اختلاف کو نقل کرنے میں متفق ہوں، تو اسے اصطلاحا ’قراء ت‘ کہا جائے گا۔
روایت: اگر اختلاف کی نسبت امام کے راوی کی طرف ہو تو اسے ’روایت‘ کہاجائے گا۔
طریق : اگر اختلاف کی نسبت راوی کے شاگرد یا اس کے شاگردوں میں سے نیچے تک کسی ایک کی طرف منسوب ہو تو اسے ’طریق‘ کہا جائے گا۔
وجہ:اگر اختلاف کی نسبت شاگرد کے استاد کی طرف اس طرح ہو کہ وہ اختلاف اس کے لئے اختیاری ہو تو اسے ’وجہ‘ کہتے ہیں۔
علو کی چوتھی قسم: شیخ کی وفات کا اپنے ساتھی، جس سے راوی نے اخذ کیا ہے، مقدم ہونا۔ مثلا تاج بن مکتوم رحمہ اللہ سے اخذ کرنا، ابوالمعالی بن اللُّبان رحمہ اللہ سے اخذ کرنے میں اعلیٰ ہے، اور ابن اللبان رحمہ اللہ سے نقل کرنا برہان شامی رحمہ اللہ سے نقل کرنے سے اعلیٰ ہے، اگرچہ یہ تینوں ابوحیان رحمہ اللہ سے نقل میں برابر ہیں، لیکن پہلے کی وفات دوسرے سے اور دوسرے کی وفات تیسرے سے مقدم ہے۔
علو کی پانچویں قسم: علو شیخ کی موت کی وجہ سے ہو، نہ کہ کسی اور امر یا دوسرے استاد کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے۔ یہ علو کب حاصل ہوتا ہے؟ بعض محدثین کا خیال ہے کہ مسند کو علو کا یہ درجہ اس وقت حاصل ہوگا، جب اس سند سے روایت کرتے ہوئے شیخ کی موت کو پچاس برس بیت چکے ہوں۔ امام ابن مندہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق پچاس کے بجائے تیس سال گزر چکے ہوں۔اس قول کی بناء پر ابن جزری رحمہ اللہ کے وہ شاگرد، جن کا تعلق ۸۶۳ھ سے ہے، کا نقل کرنا عالی ہے، کیونکہ ابن جزری رحمہ اللہ آخری شخص ہیں، جن کی سند عالی ہے اور ۸۶۳ھ تک ان کی موت کو تیس سال گزر چکے ہیں۔ (الاتقان: ۱؍۲۰۷تا۲۱۰، گیارہویں نوع، کچھ اختصار اور تصرف کے ساتھ)
قراء کی اسانید کے تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے علماء نے کہا ہے کہ قراء ات تو قیفی ہیں۔ (البرھان للزرکشی: ۱؍۳۲۱) علامہ ابن عبدالشکور رحمہ اللہ مسلم الثبوت میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ اسانید قراء ات بالاجماع صحیح ہیں اورعلماء بلکہ اُمت کے ہاں انہیں تلقِّی بالقبول حاصل ہے۔ مزید لکھتے ہیں اگر ان اسانید کے معارض کوئی سند آجائے تو وہ ناقابل التفات ہے۔ قراء عشر کی اسانید صحیح ترین ہونے کے ساتھ ساتھ انہیں امت کے ہاں شرف قبولیت بھی حاصل ہے۔‘‘ (فواتح الرحموت: ۲؍۱)
علماء نے قراء ات کے توقیفی ہونے اور ان کے متعلق عدم تواتر والے شبہات کو دور کرنے کے لئے سندوں کااہتمام کیاتھا۔ جوبھی قراء ات کے معاملہ میں تتبع اور تحقیق کرے گا،اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ قراء کرام اپنی قراء ات کی نسبت صحت سند کی بنیاد پرآپﷺ کی طرف کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَسانید قراء ات ِعشرہ کا تواتر


جو قرآن کریم آپﷺنے صحابہ کوسنایا وہی سکھایا آسمانوں سے نازل ہوا تھا اور اسی کی تبلیغ کا حکم دیا، جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:
’’اگر تمہیں میری طرف سے ایک آیت بھی پہنچے تو اس کوآگے پہنچاؤ۔ ہاں بنی اسرائیل سے نقل کرنے میں کوئی حرج نہیں یہ بات بھی یاد رکھو کہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا اس نے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالیا۔‘‘(صحیح البخاري:۳۴۶۲)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ (متوفی۷۷۴ھ) فرماتے ہیں:
’’ اس کا مطلب ہے کہ اگر تمہارے پاس صرف ایک ہی روایت کاعلم ہو تو تمہاری ذمہ داری بنتی ہے کہ اسے آگے پہنچاؤ۔ آنحضرت ﷺ کے صحابہ نے اسی حکم کو بجا لاتے ہوئے قرآن مجید کو لوگوں تک بلا کم و کاست پہنچایا۔اس لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ صحابہ تک جوبات آپؐ کی پہنچی انہوں نے اللہ کے فضل و کرم سے اس بات کو ہماری طرف نقل کردیا۔‘‘ (فضائل القرآن:۱۹)
صحابہ کرام ؓ نے آپﷺ سے نہ صرف قرآن مجید حاصل کیا بلکہ ان میں سے ایک جماعت نے اس میں مہارت تامہ بھی حاصل کی اور وہ قرآن مجید پڑھتے پڑھاتے تھے۔ آپؐ انہی لوگوں کو قرآن کی تعلیم کے لئے مختلف اَطراف میں روانہ فرمایا کرتے تھے۔ ان لوگوں کو آپ ﷺ کے زمانہ میں’القراء ‘کہا جاتا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان نے رسول اللہﷺ سے اپنے اپنے دشمنوں کے خلاف مدد مانگی تو آپؐ نے ستر (۷۰) انصار صحابہ کرام، جنہیں آپؐ کے زمانہ میں ’قرائ‘ کہا جاتاتھا، کو ان کے ساتھ روانہ کردیا۔ یہ قراء صحابہ دن کو لکڑیاں اکٹھی کرتے تھے اور رات کو نماز میں مشغول رہا کرتے تھے۔
عہد نبی میں بہت سارے صحابہ کرام ؓ نے قرآن مجید حفظ کیاہوا تھا، جن میں سے بعض تک قراء ات کی اَسانید بھی پہنچتی ہیں۔ امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ جن صحابہ نے قرآن مجید حفظ کرکے آپ کوسنایا ان میں سے مندرجہ ذیل صحابہ کرام زیادہ معروف ہیں:
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ (متوفی۳۵ھ)، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ(متوفی ۴۰ھ)، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (متوفی۳۲ھ)، عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ (متوفی ۳۲ھ)، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ(متوفی۴۵ھ)، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ (متوفی۵۰ھ)، ابودرداءرضی اللہ عنہ (خلافت عثمان رضی اللہ عنہ کے آخر میں انہوں نے وفات پائی)۔ یہ تو وہ صحابہ کرام ؓ ہیں،جن کے متعلق ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے حیاۃ رسول میں ہی قرآن کریم حفظ کیا اور یاد کرکے آپ کو سنایا۔ یہی وہ مکرم ہستیاں ہیں جن کے گرد ائمہ عشرہ کی اَسانیدقراء ات گھومتی ہیں۔ (الإعلام: ۵؍۳۲۶) ان کے علاوہ بھی دیگر صحابہ کرام نے قرآن مجید یاد کیا تھا۔ ان میں سے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ( المتوفی۱۸ھ) ابوزیدرضی اللہ عنہ، سالم مولی ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ (المتوفی ۷۳ھ) اور عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ قابل ذکر ہیں، لیکن ان کی قراء ات ہم تک نہیں پہنچیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ متعدد صحابہ کرام ؓ نے قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کے ساتھ ساتھ زبانی بھی یادکررکھاتھا۔‘‘ (معرفۃ القراء الکبار: ۲۴ تا ۴۲، کچھ تصرف واختصار کے ساتھ)
حفظ ِقرآن کاخاصہ ہے کہ اس کے ساتھ اللہ نے قرآن کوماقبل کتب سے ممتاز کیا، جیساکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (المتوفی ۷۲۸ھ) نے فرمایا ہے:
’’ نقل قرآن میں اصل اعتماد حفظ پرہے، نہ کہ مصاحف پر ، جیساکہ ایک صحیح حدیث میں بھی ہے:
’’میرے رب نے مجھے کہا: تجھ پر ایسی کتاب نازل کی گئی ہے جسے پانی بھی نہیں مٹا سکتا۔ آپﷺ اس کو سوتے جاگتے تلاوت کرتے ہیں۔‘‘ (صحیح مسلم:۲۸۶۵)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید اپنی حفاظت میں ایسی کتابت ِصحائف کا محتاج نہیں ہے، جس کتابت کو پانی کے ساتھ مٹایا جاسکے، بلکہ صحابہ کرام نے ہر حال میں قرآن مجیدکی تلاوت کی، جیساکہ اُمت محمدیہ کے وصف کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’’بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْعِلْم‘‘ یعنی ان کی اَناجیل(قرآنی سورتیں) ان کے سینوں میں محفوظ ہیں، برخلاف اہل کتاب کے کہ ان کی کتب کی حفاظت کا واحد ذریعہ صرف کتابت تھا، وہ صرف دیکھ کرتلاوت کرسکتے تھے، زبانی تلاوت پر انہیں قدرت حاصل نہ تھی۔‘‘ (مجموع الفتاوی:۱۳؍۴۰۰)
حفظ قرآن مجید کے ضمن میں صرف تلاوت یا زبانی یاد کرنے پر ہی اکتفاء نہ کیا گیا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی کتابت کا بھی اہتمام کیاگیاتھا۔ تو یہ دونوں صورتیں (حفاظت کے حوالہ) سے ایک دوسرے کو تقویت بخشتی ہیں۔ جب ایک صورت میں غلطی کااندیشہ ہوتاہے تو دوسری صورت اس کی تصحیح کردیتی ہے۔ اسی وجہ سے جب بھی آپﷺ پر وحی اتاری جاتی تو آپﷺ حاضرین کو سنانے کے ساتھ ساتھ فی الفور کاتبین وحی میں سے کسی کوبلوا کر وہ وحی لکھوادیا کرتے تھے۔ (مدخل إلی علم القرآن الکریم:ص۳۴)
امام ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس کتاب کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے خاص کردیتا ہے۔اس نے ایسے ثقہ ائمہ کو اس کام پر مامور کیا،جنہوں نے اس کی تصحیح کی انتہاء کے حصول کی خاطر اپنی تمام تر توانائیاں صرف کردیں۔ انہوں نے قرآن مجید کو حرف بحرف آپ سے نقل کیا۔ ان لوگوں نے نہ تو کسی حذف و اثبات اور حرکت و سکون کو چھوڑا اورنہ ہی انہیں کسی شک و شبہ کا سامنا کرناپڑا۔ ان میں سے بعض نے مکمل بعض نے اکثر اورمتعددنے قرآن کا بعض حصہ آپؐ کی زندگی میں ہی یادکرلیاتھا۔‘‘ (النشر فی القراء ات العشر:۱/۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم

امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ صحابہ کرامؓ کے جم غفیر نے آپؐ کے دور میں قرآن مجید حفظ کرلیا تھا ۔ان میں سے چند صحابہ کرام کے اسماء یہ ہیں:
’’خلفاء راشدین، سالم مولی ابوحذیفہ، ابن مسعود، ابوہریرہ، ابن عباس، ابن زبیر، ابن عمر، ابن عمرو بن عاص، عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم ۔ اسی طرح انصار میں سے ابی بن کعب، زید بن ثابت، معاذ بن جبل، ابودرداء اور ابوزیدرضی اللہ عنہم حافظ قرآن تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ آپؐ کے دور میں کثیر تعدادمیں صحابہ کرام ؓ نے قرآن مجیدحفظ کرلیا تھا اور یہ بات بھی منقول ہے کہ واقعہ ٔ بئر معونہ میں شہید ہونے والے ستر (۷۰)صحابہ کرام سب کے سب حفاظ اور قراء قرآن تھے ۔(الاتقان)
حفظ قرآن صرف مرد صحابہ کرامؓ کا خاصہ نہ تھا، بلکہ اس میدان میں صحابیات بھی پیچھے نہ تھیں، چنانچہ امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’کئی صحابیات نے بھی یہ میدان سر کیا ۔ حفظ صحابیات کے ضمن میں ابن سعدرحمہ اللہ نے ’طبقات‘ میں اپنی سند کے ساتھ نقل کیاہے کہ آپ اُم ورقہ بنت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہا، جو کہ حافظہ قرآن تھیں،کے پاس جاتے تھے۔ آپ ﷺ نے انہیں ’شہیدہ‘ کا لقب عطافرمایا۔ جب آپﷺ نے غزوہ بدر کا ارادہ فرمایا تو انہوں نے بھی ساتھ چلنے کی اجازت طلب کی تاکہ وہ زخمیوں کی مرہم پٹی اور بیماروں کی نگرانی کریں اور انہوں نے آپ 1سے یوں عرض کیا تھا کہ یا رسول اللہﷺ! مجھے بھی ساتھ لے چلیں، ہوسکتا ہے اللہ مجھے شہادت سے سرفراز کرے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ آپ کوشہادت کے درجہ پرفائز فرمائیں گے، اور ساتھ ہی فرمایا کہ آپ اپنی اہل خانہ(خواتین)کی امامت کروائیں اورآپﷺنے ان کے لئے ایک مؤذن مقرر فرما دیا۔ ان کا ایک غلام اور لونڈی تھی، جنہیں انہوں نے مد بربنا رکھا تھا۔ خلافت عمر میں غلام اور لونڈی نے ان کو دبوچ لیا، حتیٰ کہ قتل کردیا، جب عمر رضی اللہ عنہ کو ان کے قتل کی اطلاع ملی، تو فرمانے لگے، سچ فرمایا ،
’’رسول اللہﷺ نے آپؐ ہم سے کہا کرتے تھے چلو بھئی شہیدہ کی ملاقات کے لئے چلتے ہیں۔آپﷺ نے ایک مسلمہ حافظہ کو کس قدر عزت سے نوازا کہ آپﷺ خود ان سے ملاقات کے لئے تشریف لے جاتے۔‘‘ (الاتقان:۱/۷۱)
جب آپﷺ فوت ہوئے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو حالات نے گھمبیر شکل اختیار کرلی۔ مرتدین سے لڑائیاں عروج پر تھیں، جس کے سبب قراء صحابہ کرام بکثر ت شہید ہونے لگے۔ قراء کی بکثرت شہادت کی وجہ سے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے خطرہ محسوس کیا کہ کہیں قرآن ضائع نہ ہوجائے۔ انہوں نے اس خطرہ سے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کو آگاہ فرمایا اور قرآن مجید کو ایک صحیفے میں جمع کرنے کا مشورہ دیا۔حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ مصحف جمع کیاگیا اور تاحیات ان کے پاس رہا۔ ان کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس رہا اور ان کی وفات کے بعد یہی مصحف حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی تحویل میں چلا گیا۔ خلافت عثمانیہ میں جب سلطنت اِسلامیہ کا دائرہ وسیع ہوا توصحابہ کرام ؓ اطراف عالم میں پھیل گئے، تاکہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دیں۔چنانچہ ۲۴ھ کے شروع یا اواخر کی بات ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ آذربائیجان کے علاقہ آرمینیہ میں ایک جنگ میں شریک ہوئے، وہاں انہیں اس وقت خطرناک صورت حال کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے لوگوں کو قرآن کے بارہ میں اختلاف کرتے دیکھا۔ اختلاف یہ تھا کہ ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ میری قراء ت تیری قراء ت سے بہتر ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ معاملہ کی نزاکت کو بھانپ گئے سیدھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوئے اور کہا کہ اس اختلاف کا سدباب کیا جائے اس سے پہلے کہ یہ اختلاف یہودونصاریٰ کے افتراق کی طرح پھیل جائے۔ آنجناب رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں بارہ ہزارصحابہ سے مشورہ کیا۔ آپ نے چار مہاجر کاتبین، زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ، سعید بن عاص رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن بن حارث رضی اللہ عنہ پرمشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی اور انہیں حکم دیا کہ وہ بڑے بڑے اسلامی شہروں کی تعداد کے مطابق قرآن مجید کے نسخے تیارکریں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ ان کی تعداد چار تھی، جیساکہ امام حمزہ زیات رحمہ اللہ اورامام دانی رحمہ اللہ کا مؤقف ہے۔ (المقنع:۱۹) بعض نے کہا پانچ تھی۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ (المتوفی ۵۸۲ھ) اور امام سیوطی رحمہ اللہ (المتوفی ۹۱۱ھ)کایہی مؤقف ہے۔ بعض کے نزدیک ان کی تعداد چھ تھی۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق سات تھی، جبکہ امام جزری رحمہ اللہ کی رائے کے مطابق مصاحف کی تعداد آٹھ تھی۔ (کتاب المصاحف:۴۳)
بصرہ، کوفہ، شام، یمن، مکہ اوربحرین کی جانب ایک ایک مصحف روانہ کیاگیا۔ ایک مصحف مدینہ میں رکھا گیا اور ایک مصحف، جسے امام کہا جاتا ہے حضرت عثمان نے اپنے لئے خاص کررکھاتھا۔ اسی طرح طبقہ صحابہ کے بعد بے شمار تابعین عظام نے قرآن مجید اور قراء ت کی تعلیم حاصل کی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تابعی قراء کرام رحمہم اللہ

ہرشہروالے اپنے اپنے مصحف کے مطابق صحابہ کرام سے سیکھ کر قرآن مجید پڑھا کرتے تھے۔ صحابہ کرام نے قرآن مجید رسول اللہﷺ سے حاصل کیاتھا۔ ان کے بعد تابعین عظام نے لوگوں کوقرآن کی تعلیم دیناشروع کی۔ صحابہ کے شاگرد بکثرت ہوئے اور مختلف دیار و اَمصار میں پھیل گئے۔ (جمال القراء:۲/۴۲۵،النشر:۱/۸)
 
Top