• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ عشرۃکی اَسانید اور ان کا تواتر

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٣ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنے شیخ امام مالک رحمہ اللہ سے تو یہ روایت بیان کی ہے کہ بسم اﷲ قرآن کا جزو نہیں، لیکن ان کا مذہب اس کے برعکس یہ ہے کہ بسم اﷲ قرآن بلکہ ہر ہر سورت کا جزو ہے، کیونکہ امام شافعی رحمہ اللہ اہل مکہ میں سے ہیں، جو دوسورتوں کے درمیان بسملہ کو ثابت رکھتے ہیں اور اسے فاتحہ کی اور اسی طرح ہر ہر سورت کی ایک مستقل آیت شمار کرتے ہیں، نیز امام شافعی رحمہ اللہ نے اسماعیل قسط رحمہ اللہ سے قراء ت ابن کثیررحمہ اللہ پڑھی ہے، پس شافعی رحمہ اللہ نے عدم بسملہ والی اُس روایت پر تو اعتماد نہیں کیا، جو امام مالک رحمہ اللہ سے ہے، اس لئے کہ وہ آحاد میں سے ہے اور ابن کثیررحمہ اللہ کی قراء ت پر اعتماد کرلیا، کیونکہ وہ متواتر ہے۔ یہ ایک لطیف اور انتہائی دقیق بات ہے جو قابل غور ہے اور میں اپنے اصحاب کی کتب میں یہ لکھا ہوا دیکھتاتھا کہ شافعی رحمہ اللہ نے عدم بسملہ والی حدیث امام مالک رحمہ اللہ سے روایت کی ہے، لیکن اس پر اعتماد نہیں کیا۔ پس معلوم ہوا کہ اس بارہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کے لئے کوئی علت و سبب ظاہر ہوا ہوگا، ورنہ بلاوجہ وہ اس حدیث کی اتباع کو ترک نہ کرتے۔‘‘
علامہ جزری رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ
’’ ہمارے اصحاب میں سے کسی نے بھی اس کی وجہ بیان نہیں کی اور میں ایک رات اس میں غوروفکر کررہا تھا کہ اچانک اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ بات دل میں ڈالی کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کی روایت آحاد میں سے ہے اور قراء ت ابن کثیر متواتر ہے، شائد اسی بنا پر امام شافعی رحمہ اللہ نے آحاد کو چھوڑ کر متواتر پرعمل کرلیا ، واللہ اعلم
اسی طرح مزید ذکر فرماتے ہیں کہ میں نے قراء ت ابن کثیررحمہ اللہ امام شافعی رحمہ اللہ کی روایت سے بھی پڑھی ہے، جو بعینہٖ سیدنا بزی رحمہ اللہ اور سیدنا قنبل رحمہ اللہ کی روایت کی طرح ہے، اور جب شافعیہ کے اکابر ائمہ میں سے ہمارے بعض اصحاب کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے مجھ سے قراء ات ابن کثیر بروایت امام شافعی رحمہ اللہ پڑھنے کے خیال کااظہار فرمایا۔ پس اس تفصیل سے بھی اس بات کی تائید ہوگئی کہ ہر شہر والوں کی قراء ت ان کے اعتبار سے متواتر ہے۔‘‘
٤ امام ابوحاتم سجستانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
’’بصرہ میں سب سے پہلے جس نے قراء ت کی وجوہ کو تلاش کیا اور انہیں ایک تالیف میں جمع کردیا اور شاذ و مشہور اور متواتر قراء توں کی تحقیق کی، وہ ہارون بن موسیٰ اعورa ہیں جوقراء میں سے تھے۔ پس لوگوں نے ان کے اس عمل کوناپسند کیا اور یہ کہا کہ انہوں نے قراء توں کو ایک تالیف میں جمع کرکے نامناسب کام کیا ہے، جس سے فن قراء ت کی اہمیت و عظمت ختم ہوجاتی ہے۔ اس لئے کہ قراء ات کی شان تو یہ ہے کہ انہیں ہرقرن و زمانہ والے جماعت در جماعت بالمشافہ ایک دوسرے سے حاصل کرتے ہیں۔‘‘
اس قول سے بھی قراء ات کے متواتر ہونے کی مزید تائید ہوجاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٥ حافظ علامہ ابوسعید خلیل کیکلائی علائی رحمہ اللہ اپنی کتاب المجموع المذہب میں فرماتے
ہیں:
’’شیخ شہاب الدین ابوشامہ رحمہ اللہ نے کتاب المُرشد الوجیزوغیرہ میں ایسا کلام فرمایاہے جس سے قراء ات سبعہ اور ان کے علاوہ دوسری اختلافی قراء ات میں فرق معلوم ہوتا ہے اور ابوشامہ رحمہ اللہ کے سوا دوسرے قراء متقدمین کے کلام سے یہ وہم ہوتاہے کہ قراء ات سبعہ کی وجوہ متواتر نہیں بلکہ ان میں سے اکثر وجوہ صرف ایسی ہیں کہ ان میں صحت سند، اتباع رسم، موافقت عربیت و لغت فصیحہ یہ تینوں رکن موجود ہیں او ران میں فقط استفاضہ و شہرت کافی ہے تواتر کی شرط کی ضرورت نہیں حالانکہ معاملہ ایسا نہیں جیساکہ ان لوگوں نے بیان کیا ہے۔ بلکہ قراء ات عشرہ کی سبھی وجوہ متواتر ہیں اور ان لوگوں کو یہ شبہ اس سے ہوگیا کہ قراء ات سبعہ کی سندیں صرف مشہور و معروف قراء و روات و رجال میں منحصر ہیں جو متواتر کی حد تک نہیں پہنچتے اس بنا پر انہوں نے یہ خیال کرلیا کہ یہ قراء تیں اخبار آحاد کے قبیل سے ہیں۔‘‘
٦ علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ امام الائمہ ابوالمعالی رحمہ اللہ سے اس بارہ میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:
’’ان سندوں کے خاص ایک جماعت میں منحصر ہوجانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ قراء تیں ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے ثابت و منقول ہی نہیں، بلکہ اصل یہ ہے کہ یہ قراء تیں ہر زمانہ اور ہرشہر میں اور ہمیشہ سے جماعت در جماعت اورطبقہ در طبقہ متواتر چلی آرہی ہیں اور خاص ان حضرات کی طرف نسبت کی وجہ یہ ہے کہ یہ حضرات اختلافی وجوہ کے ضبط و نشر کی اور اپنے شیوخ سند کے حفظ و ضبط کی طرف خصوصی توجہ دیتے تھے، دیکھو حجۃ الوداع وغیرہ کے بارہ میں جو اخبار و اَحادیث وارد و منقول ہیں وہ نہایت واضح مگر آحاد کے قبیل سے ہیں اس کے باوجود حجۃ الوداع وغیرہ کا واقعہ متواترہ ہے کہ اسے ہر زمانہ اور ہر شہر میں ایک طبقہ اورایک بہت بڑی جماعت دوسرے طبقہ اور جماعت سے نقل کرتی چلی آئی ہے پس قراء ات کا حال بھی یہی ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس پر تنبیہ کرنا نہایت ضروری و مناسب ہے۔‘‘ ( کلُّہ مأخوذ من منجد المقرئین ومرشد الطالبین للامام المحقق محمد ابن الجزري)
ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ہم ذیل میں آئمہ عشرہ کے ہزاروں تلامذہ میں سے معروف دو دو تلامذہ ذکر کردیں اور پھر ہر راوی کے مزید آگے چند معروف شاگردوں کا تذکرہ کردیں تاکہ معلوم ہوجائے کہ قراء کے ہاں موجود قراء ات عشرہ صغری یا عشرہ کبری سے مراد کون کون سے طرق ہیں، جو عملاً درسگاہوں میں بطور تعلیم وتعلّم جاری ہیں۔
صاحب اختیار ائمہ قراء ات عشرہ کے دو دو شاگرد، جو زیادہ معروف ہوئے، اصطلاح قراء میں راوی کہلاتے ہیں اور پھر راویوں سے مثلاً علامہ جزری رحمہ اللہ تک جن واسطوں سے قراء ات پہنچیں، ان کو طرق‘ کہتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آئمہ عشرہ، ان کے مشہور رواۃ اور طرق کا تعارف


نوٹ : طرق میں پہلے چوکور نمبر سے مراد استاذ اور گول نمبر سے مراد ان کے شاگرد ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ت ، روایت اور طریق


اگر کسی قراء ت کے تمام راوی اس پر متفق ہیں تو یہ قراء ت کہلاتی ہے اور اگر کسی قراء ت کے رواۃ میں اختلاف ہے مگر روایت کے طرق متحد ہیں تو یہ روایت کہلا تی ہے اور اگر راوی کے شاگردوں میں اختلاف ہے خواہ کسی طبقہ میں ہو تو یہ طریق کہلاتا ہے۔
مثلاً امام عاصم رحمہ اللہ سے جب ان کے دونوں شاگرد سیدنا حفص رحمہ اللہ اور سیدنا شعبہ رحمہ اللہ ان کی کسی اختیارکردہ قراء ت پرمتفق ہوں تو وہ ’قراء ت‘ کہلاتی ہے اور اگر ان کی کسی اور اختیار کردہ قراء ت کو نقل کرنے میں ان کے شاگردوں کا اختلاف ہو، مثلاً سیدنا حفص رحمہ اللہ اس کو روایت کرتے ہوں اور سیدنا شعبہ رحمہ اللہ روایت نہ کرتے ہوں، تو یہ امام عاصم رحمہ اللہ کی سیدنا حفص رحمہ اللہ سے ’روایت‘ کہلائے گی۔ اسی طرح امام شعبہ رحمہ اللہ امام عاصم رحمہ اللہ کی کسی اختیار کردہ قراء ت کو نقل کرتے ہوں، جس کو امام حفص رحمہ اللہ نقل نہ کرتے ہوں، تو وہ امام عاصم رحمہ اللہ کی امام شعبہ رحمہ اللہ سے روایت کہلائے گی۔ پھر مثلاً امام حفص رحمہ اللہ کی روایت بھی اس وقت کہلائے گی، جب امام حفص رحمہ اللہ کے تمام شاگرد اس کو نقل کرنے میں متفق ہوں۔ اگر ان کے شاگرد ان سے کوئی اور قراء ت نقل کرنے میں مختلف ہوں، جیسے سیدنا عبید رحمہ اللہ ایک طرح سے پڑھتے ہوں اور دیگر شاگر دوسرے طریقے سے پڑھتے ہوں، تو ان میں سے ہر ایک کے نقل کردہ روایت کو اصطلاح قراء میں ’طریق‘ کہتے ہیں۔
 
Top