• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ متواترہ (سبعۃ وعشرۃ) (فسانہ یا حقیقت؟)

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ متواترہ (سبعۃ وعشرۃ)
(فسانہ یا حقیقت؟)

قاری صہیب احمدمیرمحمدی​
لفظ’قراء ات‘ کی لغوی بحث
لفظ قراء ات جمع ہے قراء ۃ کی۔ لغت میں قرأ یقرأ سے قراء ۃ مصدر سماعی ہے۔چنانچہ کہا جاتا ہے قرأ یقرأ قراء ۃ وقرآنابمعنی تلا یعنی اس نے پڑھا، تلاوت کی۔ اسی سے اسم فاعل قاری آتا ہے اور قاری کی جمع قراء، قراۃ اور قاریون آتی ہے۔
لفظ قراء ۃ سے قاراۃ بمعنی دراسۃ بھی استعمال ہوتا ہے۔ گویا دراست قراء ۃ سے خارج نہیں۔اسی طرح تقرا بمعنی تفقہ بھی مستعمل ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ قراء ۃ کو گہرے فہم سے بھی علاقہ ہے بلکہ دراست تلقی اور تفقہ معانی و مطالب کو قراء ت میں شامل کرنے کا فائدہ دے رہی ہے۔اہل لغت نے قراء ت کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے:’’ھي عبارۃ عن لفظ الأحرف مجموعا من مختلف المخارج‘‘
’’حروف کے مجموعہ کو قراء ت کہتے ہیں خواہ وہ مجموعہ متفق المخارج ہویا مختلف المخارج۔‘‘
امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’المفردات فی غریب القرآن‘ کے صفحہ ۴۹۲ پر رقم طراز ہیں کہ ترتیل میں بعض کلمات اوربعض حروف کو بعض کے ساتھ ملا دینے اور جمع کردینے کو قراء ت کہتے ہیں۔چنانچہ اگر کوئی حرف واحد کا تلفظ کرے تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ قراء ت کررہا ہے۔جیساکہ درجہ ابتدائیہ کے بچوں کا معمول ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں سورۂ قیامہ کی آیت ۱۷،۱۸ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَ قُرْآنَہُ فَاِذَا قَرَئْ نَاہُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہُ‘‘
اس آیت کی تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ یوں کرتے ہیں: إذا جمعناہ وأثبتناہ فی صدرک فاعمل بہ (جب ہم نے اس کو جمع کردیا اور آپ کے سینے میں محفوظ کردیا تو آپؐ اس پر عمل کریں) اس سے بھی قراء ت کا لغوی معنی واضح ہوتاہے۔
علامہ فیروز آبادی رحمہ اللہ اپنی کتاب قاموس المحیط کی جلد۱ صفحہ ۲۵ میں یوں صراحت کرتے ہیں کہ قراء ۃ الشیء کامعنی ضمہ وجمعہ ہے یعنی چیز کو جمع کرنے اور ضم کرنے کو قراء ت کہتے ہیں۔ چنانچہ یہاں سے بھی لغوی معنی واضح ہوگیا۔
علامہ زبیدی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’تاج العروس‘ کی جلد۱،ص۱۰۲ میں قراء ت القرآن کی تعبیر لفطت بہ مجموعاسے کرتے ہیں جس سے لغوی معنی واضح ہوگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کی اصطلاحی تعریف
اصطلاح علمی میں قراء ات کی مختلف تعریفیں کی گئیں ہیں:
٭علامہ زرکشی رحمہ اللہ اپنی کتاب البرھان فی علوم القرآن کی جلد۱ ص۳۱۸ پررقم طراز ہیں کہ:
’’قراء ات کہتے ہیں:اختلاف الفاظ الوحی فی الحروف وکیفیتہ من تخفیف وتشدید وغیرھا یعنی اس علم کو قراء ت کانام دیا گیاہے کہ جس میں وحی قرآنی کے الفاظ کااختلاف اور کیفیات کو جانا جاتا ہے۔ مثلاً تخفیف کے ساتھ کلمہ کا وارد ہونا یا تشدید کے ساتھ مثلاً ’’یَکْذِبُون و یُکَذِّبُون‘‘
٭علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اپنی کتاب منجد المقرئین کے صفحہ۳ پریوں لکھتے ہیں:
’’القراء ات علم بکیفیۃ أداء کلمات القرآن واختلافہا بعز والناقلۃ یعنی قراء ات اس علم کا نام ہے کہ جس میں کلماتِ قرآنیہ کے اَدا کی کیفیت اور اس کااختلاف (جو کہ تغایر اور تنوع کے قبیل سے ہوتا ہے نہ کہ تضاد اور تناقض سے)معلوم کیا جاتا ہے جوکہ متصل بالناقل ہوتاہے۔‘‘
٭علامہ دمیاطی رحمہ اللہ اپنی کتاب اتحاف فضلاء البشر کے صفحہ۵ پریوں لکھتے ہیں:
’’علم یعلم منہ اتفاق الناقلین لکتاب اﷲ تعالیٰ واختلافہم فی الحذف والتحریک والتسکین والفصل والوصل وغیرہ ذلک من ھیئۃ النطق والابدال وغیرہ من حیث السماع‘‘
’’علم قراء ات وہ علم ہے جس میں کتاب اللہ کے ناقلین کا اتفاق و اختلاف جانا جاتاہے جو کہ حذف، تحریک، اسکان، فصل، وصل کے قبیل سے ہو اور نطق کی کیفیت و ابدال وغیرہ بھی جو کہ سماع پر موقوف ہیں۔‘‘
٭علامہ عبدالفتاح القاضی رحمہ اللہ اپنی کتاب البدور الزاھرۃ کے صفحہ ۷ پر لکھتے ہیں:
’’ھو علم یعرف بہ کیفیۃ النطق بالکلمات القرآنیۃ وطریق أدائہا اتفاقا واختلافا مع عزوکل وجہ لناقلہ‘‘
’’قراء ات کا علم وہ ہے جس میں کلمات قرآنیہ کے نطق کی کیفیت معلوم کی جاتی ہے اورکلمات قرآنیہ کی اتفاقی و اختلافی اداکاطریق کار معلوم کیاجاتاہے لیکن ہروجہ کی نسبت اس کے قائل(محمدﷺ) کی طرف ہوتی ہے۔‘‘
٭علامہ زکریا انصاری رحمہ اللہ نے قراء ت کی تعریف ان الفاظ سے کی ہے:
’’تطبیق المنقول او المسموع علی القرآن الکریم تلاوۃ و آدائ‘‘
’’منقول یا مسموع (سنے ہوئے) انداز سے آیات قرآنی کی اداء و تلاوت کرنا۔‘‘
٭ڈاکٹر عبدالہادی الفضلی رحمہ اللہ اپنی کتاب القراء ات القرآنیۃ کے صفحہ ۵۶ پر یوں فرماتے ہیں:
’’إن القراء ۃ ھی النطق بالفاظ القرآن کما نطقہا النبی!… الخ‘‘
’’یعنی علم قراء ات وہ علم ہے جس سے قرآنی الفاظ کی وہ ادائیگی معلوم ہوتی ہے جو کہ آپﷺ نے (ادائیگی) کی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعریفوں سے حاصل ہونے والے فوائد
ان تمام تعریفات کو جمع کیاجائے تو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
(١) علم قراء ات کا تعلق وحی قرآنی سے ہے جیسا کہ اختلاف الفاظ الوحی القرآنی سے معلوم ہوتا ہے گویا علم قراء ات، وحی جلی کا علم ہے۔
(٢) علم قراء ات نقل اور سماع پر موقوف ہے نہ کہ رائے اور اجتہاد پر جو کہ تعز والناقلۃ، من حیث السماع، مع عزوکل وجہ لناقلہ سے ثابت ہورہا ہے۔ گویا قراء ات کی صحت کے لیے نقل و سماع ضروری ہے۔ جیساکہ امام سیوطی رحمہ اللہ اپنی کتاب الاتقان فی علوم القرآن جلد۱ ،صفحہ۷۵ پر اور سعید بن منصوررحمہ اللہ اپنی سنن میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’القراء ۃ سنۃ متبعۃ یأخذھا الاخر عن الأوّل‘‘
’’قراء ت سنت متبعہ (سنت متواترہ) ہے جسے بعد میں آنے والے متقدمین سے حاصل کریں گے۔‘‘
اور ابن مجاہد رحمہ اللہ کی کتاب’کتاب السبعۃ‘کے صفحہ ۵۰۔۵۱ پرابی بکر بن مجاہد سے ہے:
’’القراء ۃ سنۃ متبعۃ فاقروا کما تجدونہ‘‘
’’قراء ت سنت متبعہ (سنت متواترہ) ہے اس کو جس طرح تم پاؤ ویسے ہی تلاوت کرو۔‘‘
یہاں لفظ تجدونہ استعمال ہوا ہے اور وجدان کی تکمیل بغیر نقل اور سماع کے ممکن نہیں۔
پھر فرماتے ہیں کہ میں نے بعض شیوخ کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور حضرت عمربن عبدالعزیزرحمہ اللہ سے بھی یوں روایت کرتے سنا ہے۔
چنانچہ مذکورہ عبارت سے یہ معلوم ہواکہ قراء ات کادارومدار نقل و سماع پر ہے، رائے اور اجتہاد سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔چنانچہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ اپنی کتاب حـرز الامانـی ووجـہ التہانی کے صفحہ۳۱ پر شعر نمبر ۳۵۴، باب الرآء ات میں فرماتے ہیں۔
وما لقیاس فی القراء ۃ مدخل
فدونک ما فیہ الرضا متکفلا​
’’قراء ات کے اندر قیاس و اجتہاد کاکوئی دخل نہیں لہٰذا تو ائمہ سلف کے معتبر و منقول کو اس طرح پکڑ لے کہ تو بھی اس نقل کاذمہ دار (آگے پہنچانے والا)بننے والاہے۔‘‘
اسی طرح علامہ جزری رحمہ اللہ اپنی کتاب منجد المقرئین کے صفحہ۴ میں فرماتے ہیں:
’’ولیحذر القاری الاقراء بما یحسن فی رأیہ دون النقل أو وجہ إعراب أولغۃ دون روایۃ‘‘
’’قاری کو اس قراء ات کے یا وجہ اعراب کے یا لغت کے پڑھانے سے رک جاناچاہئے جو اس کی رائے میں اچھی ہو لیکن روایت کے بغیر ہو۔‘‘
(٣) علم قراء ات میں تطبیق بھی ضروری ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ علم قراء ت کی روایت میں راوی میں اَدا کرنے کی اہلیت ہونا بھی شامل ہے، کہ راوی اپنی بیان کردہ روایت کے مطابق تلاوت کرکے سنائے، چونکہ اس کاتعلق قراء ت سے ہے اور جو خود اداکرنانہیں جانتا، وہ روایت کیسے کرسکتا ہے؟ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم اور اس کی روایات کا مدار صرف تحریر پرنہیں، ادا پر بھی ہے۔ کیونکہ زیادہ احتیاط ہر دو کا تقاضا کرتی ہے۔غرض قراء ات کاتعلق وحی قرآنی (جلی) سے ہے اور قراءات وہ صحیح ہوں گی جو نقل و سماع کے اکمل طریقے سے تطبیق و ادا(تلاوت) کے ساتھ ہم تک پہنچی ہوں۔
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ اپنی کتاب منجد المقرئین کے صفحہ ۴ پر فرماتے ہیں کہ:
’’لابد فی القراء ۃ مشافہۃ والمقری العالم بہا رواھا مشافہۃ‘‘
’’قراء ت میں مشافہہ (منہ درمنہ بات چیت)ہونالازمی ہے اور مقری عالم وہی ہوگا جو اس کو بالمشافہہ روایت کرے۔‘‘
لسانیات میں اختلاف لہجات ایک معروف چیز ہے۔ اسی طرح عرب کے مختلف قبائل اور مختلف علاقوں کی زبان میں بھی خاصا اختلاف پایاجاتا ہے، لیکن اس اختلاف کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ اس سے زبان کے اندر کوئی بنیادی تغیر رونما ہوجاتا ہو۔ مقامی تلفظ، لہجات، محاورات اور زبان کے بعض دوسرے اسالیب کے اختلاف کے باوجود زبان کا بنیادی سانچہ ایک ہی رہتا ہے۔جیساکہ زبان کے مقامی رنگ اور اختلافات کامشاہدہ ہم آج کل بھی کرسکتے ہیں۔ مثلاً آپ پنجاب کے مختلف حصوں میں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر ضلع اور بعض اوقات ایک ہی ضلع کے مختلف حصوں کی زبان مختلف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہی حال اُردو زبان کا ہے کہ پشاور سے لے کر مدراس تک آپ چلے جائیں۔اُردو بولنے والوں میں ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے مختلف لہجے، مختلف تلفظ اورمختلف محاورے ملتے ہیں، دہلی والوں اور لکھنؤ والوں کی زبان، اسی طرح حیدرآباد (دکن) اور پنجاب والوں کی اُردو ہے، لیکن ایک ہی مضمون کو ادا کرنے کے لیے مختلف اَسالیب اختیارکئے جاتے ہیں۔
یہی چیز نزول قرآن کے وقت عرب میں بھی تھی اور آج بھی پائی جاتی ہے۔ عرب میں آپ یمن سے لے کر شام تک چلے جائیں، آپ کو لہجے اور تلفظ بدلتے ہوئے ملیں گے۔ ایک ہی مضمون کو عرب کے ایک حصے میں کسی اور طرح اَداکرتے ہیں اور دوسرے حصے میں کسی اور طرح لیکن اس اختلاف کے باوجود معنی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
چنانچہ مذکورہ حدیث میں سات حروف سے مراد یہی لہجات اور اَسالیب وغیرہ کا اختلاف ہے جن کو آج کل قراء ات سے موسوم کیا جاتاہے۔رسالت مآبﷺ نے فرمایا کہ قرآن مجید اگرچہ اولاً قریش کی زبان میں نازل ہوا تھا، لیکن اہل عرب کو اس بات کی اجازت دی گئی کہ وہ اسے اپنے مقامی لہجات اور تلفظ کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں، اس شرط کے ساتھ کہ وہ تبدیلی نبی اکرمﷺسے بطریق تواتر ثابت ہو۔ کیونکہ ایک عرب کا باشندہ جب قرآن مجید پڑھے گا تو زبان کے مقامی اختلافات کے باوجود اس میں کوئی ایسا ردوبدل نہیں ہوگا، جس سے معنی اورمفہوم تبدیل ہوجائیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ حرام حلال ہوجائے یا حلال حرام ہوجائے یاتوحید کامضمون ہو اور وہ مشرکانہ مفہوم میں بدل جائے۔
بعض کرم فرماؤں نے اس حدیث کو ناقابل اعتبار بتایا ہے، سنئے، ان کے الفاظ ہیں:
’’مجرد اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے اس مذکورہ حدیث کو اٹھا کر پھینک دیا جاسکتا ہے کہ یہ ابن شہاب زھری رحمہ اللہ کی روایت ہے کیونکہ ابن شہاب رحمہ اللہ کے متعلق اہل فن کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ جس روایت میں یہ ہوں وہ روایت بے حیثیت ہوجائے گی، کیونکہ جتنے بھی فتنے ہمارے ہاں حدیث کے ذریعے آئے ہیں، ان کے سب کے بانی یہی ہیں اس لیے کہ اصل میں یہ شیعوں کی طرف میلان رکھنے والے تھے۔ یہ ایک دنیادار آدمی تھے۔ دنیوی وجاہت کی طلب میں انہوں نے بنو اُمیہ سے بھی تعلق بنائے اور حدیث کے اندر ان کااِدراج بھی مشہور ہے اور حتیٰ کہ ان کے بارے مرسلاتہ بمنزلہ الریح کہا گیا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام محمد بن شہاب زہری رحمہ اللہ کی ثقاہت
حقیقت اس اعتراض کی یوں ہے کہ:
’’اس روایت کااگر علمی اور فنی تجزیہ کیاجائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بخاری و مسلم جیسی معتمد کتابوں میں موجود ہے۔مجرد اسی بات پرتمام اعتراضات کورد کیا جاسکتا ہے کہ اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ جیسے جلیل القدر امام نے اپنی الصحیح الجامع میں روایت کیا ہے اور صحیح بخاری کو أصح الکتاب بعد کتاب اﷲ اور اس کی روایات کو تمام اُمت کابالاتفاق صحیح ماننے کا اعزاز حاصل ہے۔
امام ابوعبیدرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث متواتر ہے اور محقق ابن الجزری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے طرق کو ایک رسالہ میں جمع کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو متن کے معمولی اختلاف کے ساتھ حضرت عمر، ہشام بن حکیم بن حزم، عبدالرحمن بن عوف، ابی بن کعب، عبداللہ بن مسعود، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، عبداللہ بن عباس، ابوسعید خدری، حذیفہ بن الیمان، ابوبکرہ، عمرو بن العاص، زید بن ارقم، انس بن مالک، سمرۃ بن جندب، عمرو بن ابی سلمہ، ابوجہم، ابوطلحہ، اُم ایوب انصاری، سلیمان بن حرد، عثمان بن عفان،رضی اللہ عنہم سمیت ۲۱ صحابہ کی جماعت نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابویعلی موصلی رحمہ اللہ اپنی کتاب مسند کبیرمیں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے ایک روز منبر پرکھڑے ہوکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ میں ان حضرات کو خدا کاواسطہ دیتا ہوں جنہوں نے نبی کریمﷺسے یہ الفاظ:(إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف کلہا شاف کاف)سنے ہوں وہ کھڑے ہوجائیں۔ اس پر صحابہ کرامؓ کی اتنی بڑی جماعت مسجد میں کھڑی ہوگئی جس کی گنتی نہیں ہوسکتی تھی اور سب نے اس پرگواہی دی پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’میں بھی اس پر گواہ ہوں۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر احمد حسن الوجیز فی أصول الفقہ للدکتور عبدالکریم زیدان کے اُرد و ترجمہ جامع الاصول کے صفحہ۲۱۱ پر تواتر کی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تواتر کی ایک قسم لفظی ہے اور یہ متواتر کی اعلیٰ قسم ہے۔ بعض علماء کا قول ہے کہ ایسا تواتر پایا ہی نہیں جاتا، لیکن دوسرے علماء کہتے ہیں کہ ایسا تواتر مندرجہ ذیل چھ اَحادیث میں موجود ہے۔
(۱) (إنما الاعمال بالنیات) ’’اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔‘‘
(۲) (البینۃ علی المدّعی والیمین علی من أنکر) ’’دلیل مدعی کے ذمہ ہے اور انکار کرنے والے پرقسم‘‘
(۳) (من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار) ’’ جو مجھ( محمدﷺ) پر عمداً جھوٹ بولے وہ اپناٹھکانہ جہنم کو بنا لے‘‘
(۴) (لا نورث ما ترکنا فھو صدقۃ) ’’ہم انبیاء میراث نہیں چھوڑتے جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہے۔‘‘
(۵) (إن ھذا القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف) ’’یہ قرآن سات حروف پرنازل کیا گیا ہے‘‘
(۶)( إنکم سترون ربکم یوم القیامۃ کما ترون ھذا القمر لیلۃ البدر) ’’تم اپنے رب کو قیامت کے
دن یوں دیکھو گے جیسے چودہویں شب میں چاند کو دیکھتے ہو۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ حدیث (أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف) کو متواتر کہا گیا ہے اور متواتر بھی لفظی ہے۔ الغرض علمی اعتبار سے اس حدیث میں کوئی نقص نہیں صرف تواتر کا ہونا تمام نقائص کی نفی کے لیے کافی ہے اور علماء کی تصریحات بھی اس پر ہیں۔ تواتر کی فنی حیثیت کے بارے میں قارئین کو جان لینا چاہئے کہ :
’’والمتواتر لا یبحث رجالہ بل یجب العمل بہ من غیر بحث‘‘( نخبۃ الفکر)
’’متواتر حدیث کے راویوں کے بارے میں بحث نہیں کی جاتی اوربلا تحقیق و بحث اس پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے۔‘‘
جہاں تک اس حدیث کو ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کے ذریعے ناقابل اعتبار کہنے کا تعلق ہے تو درحقیقت یہ وہ بنیاد ہے جوپورے اسلام کو تشکیک کی نذر کررہی ہے کیونکہ بخاری و مسلم جن کو تمام اُمت نے قابل اعتماد قرار دیا ہے، کی کافی احادیث انہی ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے مروی ہیں اور اس کومان لیا جائے تو ہر مشکل العمل حدیث کو یہ طعن لگا کر شک کی نذر کرنے کی طرف ایک قدم ہوگا۔ واضح رہنا چاہئے کہ اہل سنت کے ہاں تدوین حدیث میں ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کی خدمات انہیں امام کے درجے تک پہنچاتی ہے اوراگر ان کی شخصیت کوناقابل اعتبار بنادیاجائے تو تمام ذخیرۂ حدیث میں شک کی دراڑیں پڑ جائیں گی۔
اصل میں امام زہری رحمہ اللہ پریہ اعتراض آج کے معترضین کے نہیں بلکہ یہ اعتراض ایک مستشرق یہودی گولڈ زیہر کے ہیں جن کی تردید قبل ازیں ائمہ دین نے بھی کی ہے۔ جیسا کہ السنۃ ومکانتہا فی التشریح الإسلامي کے صفحہ۲۰۶ پرڈاکٹر مصطفی سباعی مصری نے تصریح کی ہے۔
رہا امام زہری رحمہ اللہ کا ادراج یاتدلیس کرنا یاان کی مرسلات کا بمنزلہ ریح کے ہونا جو کہ فی الحقیقت ان کی ذات اور ثقاہت پرطعن اور حملہ ہے تو ان کا جواب ذیل کے اقوال سے خود بخود آجائے گا۔ امام ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ جن کو ’امیرالمومنین فی الحدیث‘کامرتبہ حاصل ہے اوراس کی تصدیق اعتراض کرنے والوں نے بھی کی ہے۔ آپ کامکمل نام ابوبکر محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب بن عبداللہ بن حارث بن زہرہ القرشی الزہری رحمہم اللہ ہے۔
یہ وہ شخصیت ہے کہ جس نے اللہ کے کلام کوصرف ۸۰ راتوں میں حفظ کرلیا تھا جس کی تصریح امام زہری رحمہ اللہ کے بھتیجے محمد بن عبداللہ بن مسلم رحمہ اللہ نے کی ہے۔ان کی ثقاہت کا مسلم ہونا صرف اسی بات ہی سے مانا جاسکتا ہے کہ انہیں تقریباً دس صحابہ حضرت انس، عبداللہ بن عمر، حضرت جابر، سھل بن سعد،رضی اللہ عنہم وغیرہ سے ملاقات کا شرف حاصل رہا ہے۔ اگرچہ انہوں نے کبار تابعین سعید بن مسیب، عروۃ بن زبیر، عبیداللہ بن عبداللہ، ابوبکر بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہم وغیرہ کے سامنے بھی زانوائے تلمذ طے کیاہے۔ چنانچہ عالم اسلام کے تمام علماء کا بھی ان کی ثقاہت پر اتفاق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک عظیم ہستی صحابہ سے ملاقات کرنے اور کبار تابعین سے کسب فیض کرنے کے بعد دنیوی مال و جاہت کے لیے اپنے پاس سے حدیث میں التباس کرے یاپھر سامع کو دھوکا دے یاپھر صحابی کے واسطے کو گرا کر بلا واسطہ آپﷺ سے روایت کرے؟یہ صرف بہتان ہے جو کہ ایک امام حدیث کو داغدار کرنے کی سازش ہے۔گولڈ زیہرجیسے متعصب یہودی نے بھی الزام کی تردید کی ہے کہ آپ دنیادار آدمی تھے۔ السنۃ ومکانتھا فی التشریح الإسلامی کے صفحہ ۲۱۶ پر گولڈ زیہر کے حوالے سے عمرو بن دیناررحمہ اللہ کی یہ روایت موجود ہے کہ عمرو نے فرمایا:
’’ما رأیت دینارا ولادرھم عند أحد أھون منہ عند الزھری کأنھما بمنزلہ البعر‘‘
’’امام زہری رحمہ اللہ کے ہاں درہم و دینار سے کمتر کوئی چیز نہ تھی، حتیٰ کہ وہ اسے بکری کی مینگنی کے برابر وقعت دیتے۔‘‘
یاد رہے کہ یہ اعتراف اور اس روایت پر اعتماد گولڈ زیہر نے کیا ہے اور اس کو اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔
مزید تفصیل کے لیے امام زہری رحمہ اللہ کے بارے میں ائمہ کے اقوال ملاحظہ فرمائیں:
(١) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنی کتاب ’تقریب التہذیب‘ جلد ۲، صفحہ۲۰۷ پر رقم طراز ہیں:
’’الفقیہ الحافظ متفق علی جلالتہ وإتقانہ‘‘
’’یعنی امام زہری رحمہ اللہرحمہ اللہ جو کہ فقیہ اور حافظ تھے ان کی جلالت شان اور پختگی علم و عمل پر سب اتفاق ہے۔‘‘
(٢)حافظ ابن حجررحمہ اللہ اپنی دوسری کتاب’تہذیب التہذیب‘ جلد ۹،ص ۴۴۵، ۴۴۶، ۴۴۷میں بھی یوں لکھتے ہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ ’’أحد الائمۃ الاعلام وعالم الحجاز والشام‘‘ کہ وہ نامور ائمہ میں سے ہیں اور حجاز اور شام کے مشہور عالم تھے۔
(٣) ابن سعدرحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’ کان الزھری ثقۃ کثیر الحدیث والعلم والروایۃ فقیہا جامعا‘‘
’’یعنی امام زہری رحمہ اللہ ثقہ تھے حدیث، علم اورروایت میں بڑے عالم، فقیہ اور جامع کی حیثیت رکھتے تھے۔‘‘
d امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
’’أحسن أسانید تروی عن رسول اﷲ أربعۃ‘‘
’’ یعنی رسول کریمﷺسے مروی اسانید میں سے سب سے بہتر چار سندیں ہیں جن میں سے دو امام زہری رحمہ اللہ کے واسطے سے ہیں۔‘‘
(١)الزھری عن علی بن الحسین عن ابیہ عن جدہ عن النبی!
(٢)الزھری عن عبیداﷲ عن ابن عباس عن النبی!
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) امام احمد حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں
’’ الزھری أحسن الناس حدیثا وأجودھم إسنادا‘‘
’’یعنی امام زہری رحمہ اللہ تمام لوگوں سے حدیث میں افضل ہیں اور ان کی سند اجود و اعلیٰ ہے۔‘‘
(٦) ابن ابی حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوذرعہ سے سوال کیاگیاکہ صحیح ترین سند کون سی ہے تو انہوں نے جواب دیا:
أربعۃ: أولہا الزھری عن سالم عن أبیہ عن النبی!
’’یعنی چارسندیں صحیح ترین ہیں، ان میں سے پہلی سند یہ ہے: زھری عن سالم عن ابیہ یعنی جس میں امام زہری رحمہ اللہ ہیں۔‘‘
(٧) ابن حبان’کتاب الثقات‘ میں فرماتے ہیں:
’’محمد بن مسلم بن شہاب الزھری القرشی کنیتہ أبوبکر،رای عشرۃ من الصحابۃ وکان من أحفظ أھل زمانہ وحسنھم سیاقا لمتون الاخبار وکان فقیہا فاضلا روی عنہ الناس۔‘‘
’’محمد بن مسلم بن شہاب الزہری رحمہ اللہ جن کی کنیت ابوبکر ہے، انہوں نے دس صحابہ کو دیکھا تھا اور وہ اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ حافظ تھے اوراحادیث کے متون میں سب سے احسن تھے (یعنی احادیث کو نقل کرنے میں) وہ فقیہ اور فاضل تھے۔ بہت سارے لوگوں نے ان سے روایت کیا‘‘
(٨) صالح بن احمد فرماتے ہیں: کہ مجھے اس کے باپ نے بتایا کہ:
الزھری مدنی تابعی ثقۃ یعنی ’’امام زہری رحمہ اللہ مدنی تابعی اور ثقہ تھے۔‘‘
(٩) امام مسلم رحمہ اللہ نے ’صحیح مسلم‘کے مقدمہ میں لکھا ہے:
’’فأما من تراہ یعمد لمثل الزھری فی جلالتہ و کثرۃ اصحابہ الحافظ المتقنین لحدیثہ و حدیث غیرہ… الخ‘‘
’’لیکن اگر آپ کسی کو دیکھیں کہ وہ زہری رحمہ اللہ ایسے جلیل شخص سے روایت کا قصد کرے جن کے ایسے کثیر شاگرد ہیں جو حافظ اورمضبوطی والے ہیں، اپنی اور دوسروں کی احادیث کی روایت میں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٠)امام ذہبی ’تذکرۃ الحفاظ‘ میں لکھتے ہیں:
’’ھو أعلم الحفاظ الامام الحافظ الحجۃ‘‘
’’یعنی وہ تمام حفاظ حدیث سے زیادہ عالم تھے۔ امام، حافظ اور حجت تھے۔‘‘
(١١)امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سند کے ساتھ احادیث بیان کیں۔ جیسا کہ ابن عساکر رحمہ اللہ نے ولید بن مسلم رحمہ اللہ سے بیان کیا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ نے اہل شام سے فرمایاکہ:
’’یا أھل الشام مالی أری أحادیثکم لیس لہا أزمۃ ولا خطم‘‘
’’یعنی آپ جو حدیثیں بیان کرتے ہیں، ان کی نوعیت تویوں ہے کہ نہ ان کی کوئی نکیل ہے، نہ لگام۔ تو اس دن اہل شام نے اسانید کو لازم کرلیا۔‘‘
(١٢) ابن حاتم نے اپنی کتاب ’الجرح والتعدیل‘ اور حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’التاریخ‘میں ذکر کیا ہے کہ عمرو بن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے اپنے درباریوں سے کہا:
’’کیا تم ابن شہاب رحمہ اللہ کے پاس جاؤ گے تو انہوں نے جواب دیا: ہاں تو پھر عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ نے کہا کہ جاؤ کیونکہ ان سے بڑھ کرسنت کا کوئی عالم باقی نہیں رہا۔‘‘
معمر کہتے ہیں: ’’حالانکہ حسن بصری رحمہ اللہ اور ان جیسے اوربھی علماء اس وقت حیات تھے۔‘‘
(١٣)علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حجاز میں ثقہ لوگوں کا علم زہری رحمہ اللہ اور عمرو بن دیناررحمہ اللہ پر منحصر ہے۔بصرہ میں قتادہ اور یحییٰ بن ابی کثیرپر اور کوفہ میں ابواسحاق اور اعمش رحمہم اللہ پر۔
(١٤) عمرو بن دیناررحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ما رأیت انص والبصر بالحدیث من الزھری‘‘
’’یعنی میں نے حدیث کی عبارت اور فہم کے بارے میں زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘
(١٥) ایوب رحمہ اللہ نے سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے کہا کہ زہری رحمہ اللہ کے بعد اہل حجاز کا سب سے بڑا عالم یحییٰ بن بکیر رحمہ اللہ ہے تو سفیان کہنے لگے:
’’لم یکن فی الناس احد اعلم بالسنۃ من الزھری‘‘
’’یعنی لوگوںمیں زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر سنت کا کوئی عالم ہے ہی نہیں۔‘‘
(١٦) مکحول رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :
’’ما بقی علی ظہرھا اعلم بسنۃ ماضیۃ من الزھری‘‘
’’یعنی زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر کوئی بھی سنت ماضیہ کا عالم نہیں رہا۔‘‘
(١٧) یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
’’ما بقی عند أحد من العلم ما بقی عند ابن شہاب‘‘
’’یعنی کسی کے پاس وہ علم نہیں رہا جو ابن شہاب رحمہ اللہ کے پاس ہے۔‘‘
(١٨) امام ذہبی رحمہ اللہ اپنی کتاب’تذکرۃ الحفاظ‘میں اور حافظ ابن عساکررحمہ اللہ اپنی کتاب ’التاریخ‘میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ لیث بن سعدرحمہ اللہ نے کہا:
’’ما رأیت عالما قط أجمع من الزھری‘‘
’’یعنی میں نے زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کرکوئی عالم نہیں دیکھا۔ جب وہ ترغیب میں روایت کرتے ہیں تو کہتے: لایحسن إلا ھذا بس یہی صحیح ہے اور جب وہ قرآن وسنت کی بات کریں تو ان کی بات جامع ہوتی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١٩) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن شہاب رحمہ اللہ مدینہ میں آئے اور ربیعہ کا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں چلے گئے۔ عصر کے وقت جب کمرہ سے باہر نکلے تو وہ فرما رہے تھے کہ میں سمجھتا ہوں کہ مدینے میں ربیعہ جیسا کوئی عالم نہیں اور ربیعہ کہہ رہے تھے کہ:
ما ظننت أن أحد أبلغ من العلم ما بلغ ابن شہاب ‘‘
’’میں سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص علمی میدان میں ابن شہاب رحمہ اللہ تک رسائی حاصل نہیں کرسکا۔‘‘
(٢٠)عمرو بن دیناررحمہ اللہ دیر تک زہری رحمہ اللہ کے ساتھ بیٹھے رہے جب فارغ ہوئے تو فرمانے لگے: واﷲ مثل ھذا القرشی مارایت قط ’’یعنی بخدا میں نے اس قریشی جیسا کہ کوئی نہیں دیکھا۔‘‘
(٢١) امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ جب مدینہ منورہ آئے تو وہاں کا کوئی عالم ان کے جانے تک حدیث بیان کرنے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔حالانکہ مدینہ میں۷۰،۸۰ سالہ عمر رسیدہ مشائخ موجود تھے، لیکن ان شیوخ سے لوگ اس وقت علم حاصل نہیں کرتے تھے، بلکہ امام زہری رحمہ اللہ جو کہ عمر میں ان سے کم تھے ان کے ہاں طلباء کا اژدھام ہوا کرتا۔
(٢٢)ہشام بن عبدالملک رحمہ اللہ نے ایک دفعہ امام زہری رحمہ اللہ کاامتحان لیناچاہااور ان سے درخواست کی کہ میرے لڑکے کے لیے علم لکھوا دیں تو امام زہری رحمہ اللہ نے کاتب کو بلایا اور چار سو احادیث لکھوائیں پھر ایک مہینہ کے بعد ہشام بن عبدالملک رحمہ اللہ نے کہا کہ اے ابوبکر!وہ کتاب ضائع ہوگئی ہے تو امام زہری رحمہ اللہ نے کاتب کو بلایااور پھر وہ چارسو اَحادیث لکھوادیں پھر ہشام رحمہ اللہ نے اس کتاب کا اور پہلی کاموازنہ کیاتو فما غادر حرفا ایک بھی حرف خلاف نہ پایا۔
(٢٣) ابوالزنادرحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ہم تو صرف حلال و حرام کے مسائل لکھا کرتے تھے، لیکن ابن شہاب رحمہ اللہ ہرعلمی بات کو لکھ لیا کرتے تھے۔ جب ان سے کسی مسئلہ کی ضرورت پڑتی تو معلوم ہوتاکہ وہ اعلم الناس ہیں۔
(٢٤) ابن عینیہ عمرو بن دیناررحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں۔ ما رأیت انص للحدیث عن الزھری یعنی زہری رحمہ اللہ سے بڑھ کر حدیث کے متن کے بارے میں،میں نے کسی کونہیں پایا۔
(٢٥) ابن مہدی وھیب بن خلادرحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ سمعت أیوب یقول ما رأیت أحدا أعلم من الزھری یعنی زہری رحمہ اللہ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔
(٢٦) عبدالرزاق معمر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’مارأیت مثل الزھری فی النص الذی ھو فیہ‘‘ میں نے زہری رحمہ اللہ کی طرح کسی کونہیں دیکھا جس طرح وہ اپنے فن میں ماہر تھے اور کوئی نہیں تھا۔
(٢٧) لیث جعفر بن ربیعہ رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے غراک بن مالک رحمہ اللہ کو کہاکہ اہل مدینہ میں سے سب سے زیادہ فقیہ کون ہے اور سعید بن مسیب، عروۃ، عبداللہ بن عبداللہ رحمہم اللہ کا نام ذکر کیا تو غراک رحمہ اللہ کہنے لگا وأعلمھم جمیعا ابن شہاب رحمہ اللہ ان تمام سے زیادہ عالم ابن شہاب رحمہ اللہ ہیں۔
 
Top