• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ متواترہ (سبعۃ وعشرۃ) (فسانہ یا حقیقت؟)

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢٨) عجلی کہتے ہیں کہ روی عن ابن عمر نحوا من ثلاثۃ أحادیث یعنی امام زہری رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ سے تین روایتیں کی ہیں۔
(٢٩) امام ذیلی عبدالرزاق رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے معمر سے کہا: ’’ھل سمع الزھری من ابن عمر قال نعم‘‘ یعنی اے معمر کیازہری رحمہ اللہ کا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سماع ہے؟ تو انہوں نے کہا ہاں۔
ان تمام نصوص پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ ایسی شخصیت نہ تدلیس کا جرم کرسکتی ہے اور نہ ہی ادراج کا، اور نہ ہی ان کی مراسیل کی حیثیت ہوا کی ہے بلکہ ان تمام الزامات سے وہ شخصیت مبرا ہے۔رہا امام زہری رحمہ اللہ کا بنوامیہ کے ساتھ تعلق خاص (جیساکہ گولڈ زیہر مستشرق یہودی نے بھی کہا ہے) کہ دنیوی وجاہت کی خاطر ابن شہاب الزہری رحمہ اللہ نے اموی خاندان کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے۔
حالانکہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ زہری رحمہ اللہ جیسے صادق، ثقہ، حجت آدمی کا خلفائے بنوامیہ سے تعلق ان سے فائدہ اٹھانے کی دلیل کیسے بن سکتا ہے؟ ان پرالزام یہ لگایا جاتا ہے کہ تعلق قائم کرنے کے بعد انہوں نے اپنی خواہشات کے مطابق احادیث میں امام زہری رحمہ اللہ سے فائدہ اٹھایا یعنی امام زہری رحمہ اللہ خلفائے بنوامیہ کے لیے وضع الحدیث کا کام کرتے اور اس طرح مال و وجاہت کا حصول ممکن بناتے۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی علماء کا خلفاء سے تعلق رہا ہے لیکن اس تعلق کی وجہ سے ان ائمہ کی امانت ، صداقت، ثقاہت داغدار نہیں۔ لہٰذا زہری رحمہ اللہ جیسے عظیم عالم کا ان خلفائے سے تعلق کسی طرح سے ان کے دین و امانت و ورع میں اثر انداز نہیں ہوسکا۔امام زہری رحمہ اللہ سے بہرحال مسلمان مستفید ہوتے رہتے ہیں۔اس طرح کے الزام کی کوئی بنیاد ہے نہ حقیقت۔
امام زہری رحمہ اللہ خلفائے کی مجلس میں جاکر بھی احادیث روایت کرتے یا کوئی علمی رائے پیش کرتے یا ان پر عائد ہونے والے عوامی فرائض کو ذکر کرتے اور احکام الٰہی اور اس کے فرائض کو ببانگ دہل بیان کرتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ ’العقد الفرید‘ کے صفحہ ۶۰ جلد اوّل پرلکھا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ ولید بن عبدالمالک رحمہ اللہ کے پاس گئے تو ولیدرحمہ اللہ کہنے لگا کہ اس حدیث کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جواہل شام نے بیان کی ہے؟ تو امام زہری رحمہ اللہ پوچھنے لگے کہ کون سی حدیث؟ ولید بن عبدالمالک رحمہ اللہ کہنے لگا کہ اہل شام بیان کرتے ہیں کہ جب بندہ کسی رعیت کا ذمہ دار بن جاتاہے تو اس کی نیکیاں تو لکھی جاتی ہیں، گناہ نہیں لکھے جاتے۔امام زہریa فرمانے لگے: اے امیرالمومنین یہ تو جھوٹی روایت ہے آپ بتائیں کیا جو نبی خلیفہ ہو وہ اللہ کے ہاں افضل ہے یا محض خلیفہ؟ تو ولید نے کہا جو نبی خلیفہ ہووہ افضل ہے تو امام زہری رحمہ اللہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی داؤد کے بارے فرماتے ہیں کہ:
’’یَا دَاوُودُ إنَّا جَعَلنَاکَ خَلِیفَۃً فِی الأرْضِ فَاحْکُمْ بَینَ النَّاسِ وَلَا تَتَّبِعِ الھَوَی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اﷲِ إنَّ الَّذِینَ یَضِلُّونَ عَنْ سَبِیلِ اﷲ لَہُمْ عَذَابٌ شَدِیدٌ بِمَا نَسُوْا یَومَ الحِسَاب‘‘ (ص:۲۶)
اور پھر فرمانے لگے کہ اے امیرالمؤمنین یہ نبی خلیفہ کے لیے وعید ہے کہ خواہشات کی پیروی نہ کرنا وگرنہ سیدھے راستے سے بھٹک جائیں گے اورجو لوگ سیدھے راستے سے بھٹک جاتے ہیں، ان کے لیے قیامت کے دن دردناک عذاب ہوگا اور جو صرف خلیفہ ہو نبی نہ ہو، اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔ تب ولید کہنے لگا کہ لوگ تو ہمیں غلط اُمیدوں پرلگاکراپنے دین سے گمراہ کرناچاہتے ہیں۔
یہاں دیکھیں، امام زہری رحمہ اللہ کاولید کے ساتھ تعلق کوئی فائدہ نہیں دے رہا اورنہ ہی امام زہری رحمہ اللہ شاہی گھرانے کے اثر سے عالمانہ موقف پیش کرنے میں جھکے ہیں اور نہ ہی رسول اکرمﷺ پر حدیث گھڑنے میں ان کی رغبت کاساتھ دیتے ہیں۔ بلکہ ایک اسلام پسند اور خیرخواہ عالم کی طرح اللہ کے دین اور مسلمانوں کی خیرخواہی چاہتے ہیں اور سنت رسولﷺسے جھوٹی، موضوع روایتوں کودور کرتے ہیں اور خلیفہ وقت کو جھوٹے خوشامدیوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو دوسروں کو تو روکے اور خود ادراج یاتدلیس کرے یاپھر دنیوی مال کا طالب ہو حالانکہ خلیفہ کو اس کے منہ پروعید الٰہی بھی سناتے ہیں۔
مزید شہادت کے لیے ابن عساکر رحمہ اللہ کی اس روایت کی طرف آئیے جو انہوں نے اپنی سند سے امام شافعی رحمہ اللہ تک پہنچائی ہے کہ ہشام بن عبدالملک رحمہ اللہ نے سلیمان بن یساررحمہ اللہ سے ’’والَّذِی تَوَلّی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہُ عَذَابٌ عَظِیْم‘‘کی تفسیر پوچھی تو سلیمان بن یساررحمہ اللہ نے جواب دیا کہ اس سے مراد عبداللہ بن ابی بن سلول ہے۔ ہشام رضی اللہ عنہ نے امتحان لینے کے لیے کہا: نہیں بلکہ اس سے مراد تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔ چونکہ ہشام رضی اللہ عنہ سنجیدہ نہیں تھا بلکہ وہ سلیمان بن یسار رحمہ اللہ کی صائب رائے پر مضبوطی کا امتحان لے رہا تھا۔بہرحال سلیمان رحمہ اللہ نے کہا کہ اے امیرالمومنین! آپ زیادہ جانتے ہیں۔اتفاق سے کچھ دیر بعد ابن شہاب زہری رحمہ اللہ پھر ادھر آپہنچے تو ہشام رحمہ اللہ نے ان سے بھی آیت کی تفسیر پوچھی توامام زہری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس سے مرادعبداللہ بن ابی بن سلول ہے۔ ہشام رضی اللہ عنہ کہنے لگا:آپ غلط کہتے ہیں،اس سے مراد تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں۔تو امام زہری رحمہ اللہ غصے میں آگئے اورکہنے لگے أنا أکذب؟ کیا میں جھوٹ بولتا ہوں، لا أبالکتیراباپ مرجائے اورفرمایا: فواﷲ لو نادانی مناد من السماء ان اﷲ أحل الکذب ما کذبت یعنی اللہ کی قسم اگر آسمان سے اعلان کرنے والا کوئی اعلان کردے کہ اللہ نے جھوٹ کو حلال کردیا ہے تب بھی میں جھوٹ نہ بولوں گا۔ کیونکہ ’’حدثنی فلان و فلان إن الذی تولی کبرہ منہم ھو عبد اﷲ بن أبی بن سلول‘‘ یعنی فلاں فلاں نے مجھے حدیث بیان کی ہے کہ اس آیت سے مراد عبداللہ بن اُبی بن سلول ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دیکھیں صدیوں پہلے ابن عساکررحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں امام شافعی رحمہ اللہ کی روایت سے امام زہری رحمہ اللہ کی صداقت کو ثابت کیا ہے جبکہ خلفاء کے ساتھ رابطے کی بنا پر امام زہری رحمہ اللہ پر طعن بازی کرنے والے مستشرق یہودی اور اس کے ہم نوا وجود میں بھی نہیں آئے تھے۔
کیااس کو امام زہری رحمہ اللہ کی امانت داری اور دیانتداری کی دلیل نہیں بنایا جاسکتا کہ بادشاہ وقت کو منہ پر أنا أکذب؟ لا أبالک جیسا سخت کلمہ کہہ رہے ہیں۔ شاہ کے خوشامدیوں سے ایسی توقع قطعاً محال ہے۔
اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ کاتعلق ایسا نہیں تھا جو کہ ان کے دین میں اور امانتداری میں نقص پیدا کرے بلکہ امام زہری رحمہ اللہ ایک خوددار شخص تھے جوغلط بات سن کر غضبناک ہوجاتے اور رسولﷺکے اصحاب کے متعلق تاریخی حقیقت کو مسخ ہوتے دیکھتے تو آگ بگولہ ہوجاتے اور خلاف حقیقت کتاب اللہ کی کسی آیت کی تفسیر سن کر خلیفہ وقت کے سامنے تردید کردیتے۔
یہ بات بھی مدنظر رہے کہ مستشرق گولڈ زیہر کاالزام یہ بھی ہے کہ اہل مدینہ کے علماء ان کے خلاف تھے، حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ نے مدینہ میں نشوونما پائی۔ علماء مدینہ سے ہی علم اخذ کیا۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی وفات تک ان کے پاس رہے اور جب بھی امام زہری رحمہ اللہ مدینہ میں آتے تو امام مالک ان سے استفادہ کرتے اور ۳۵ سال کے لمبے عرصے تک امام زہری رحمہ اللہ کی مدینہ اور شام کے درمیان آمدورفت جاری رہی، تو علماء مدینہ نے ان کی تکذیب کیوں نہ کی؟ اگر بنوامیہ کے لیے یہ جھوٹ گھڑ کر دنیوی مقاصد حاصل کرتے تھے تو اہل مدینہ ان کے خلاف کیوں نہ اٹھ کھڑے ہوئے؟ اور ان کے شیخ ابن مسیب نے ان سے برات کااظہار کیوں نہ کیا؟ حالانکہ وہ رجال کی جرح میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ اسی طرح دولت عباسیہ نے ان پر تنقید کیوں نہ کی؟ حالانکہ بنوامیہ کے عباسی بہت خلاف تھے۔ ائمہ جرح و تعدیل(مثلاً احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین، امام بخاری، امام مسلم، ابن ابی حاتم رحمہم اللہ ) وغیرہ نے ان پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ حالانکہ وہ دین کے بارے کسی ملامت سے نہیں ڈرتے تھے۔
کیا ائمہ جرح و تعدیل کی توثیق، علماء مدینہ، ان کے شیخ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی خاموشی اور علماء کا ان سے احادیث کو لینا (دو رعباسیہ میں)اور علماء دور عباسیہ کا کلام نہ کرنا اس بات کے ٹھوس دلائل نہیں کہ امام زہری رحمہ اللہ ان تمام اعتراضات اور شبہات (جو فی الحقیقت انکار حدیث کی پیداوار ہیں) سے بہت بلند اور فائق ہیں اورکذب ووضع و ادراج و تدلیس و تعلق لنیل المال والعز کے الزام سے کہیں اعلیٰ و بلند و بالا ہیں۔
مستشرقین اور ان کے ہم نواؤں کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس طرح استخفاف حدیث پیداکرکے، اس امام کو مجروح کردیا جائے جس نے تدوین حدیث میں بنیادی خدمات انجام دی ہیں۔ جس کے بعد ہر کسی حدیث کو اس طرح کی طعنہ سازی کے ذریعے اپنے مقاصد کی تکمیل میں رد کردیاجائے اور اس اصل بنیاد کو مشکوک کردیا جائے جو علم حدیث کی پہلی کڑی ہے۔جیسا کہ امام مالک کافرمان گزر چکا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭اعتراض: نماز کے اندر روایت حفص کے علاوہ دوسری قراء ات کونہیں پڑھا جاسکتا، کیونکہ آپﷺنے ایسا کام کیااور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین سے یوں مروی ہے۔
جواب: اگر تو اس اعتراض سے قراء ات کامکمل انکار مقصود ہے تو اس کی حقیقت اور ہمارا استدلال واضح ہے اور اگر اس اعتراض کی نوعیت یہ ہے کہ یہ قراء تیں ویسے تو صحیح ہیں، لیکن نماز میں درست نہیں تو بات بنتی ہی نہی، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک قرآن نماز کے علاوہ تو تلاوت پر مستحق ثواببناتاہے لیکن نماز میں اس کی تلاوت درست نہ ہو۔ چنانچہ مذکورہ بالا حدیث (جو متواتر درجے کی ہے) میں قراء ات کایہ واقعہ خارج نمازنہیں بلکہ دوران نماز کاہے کہ حضرت ہشام نماز پڑھارہے تھے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے الفاظ ملاحظہ کریں: فتصبرت حتی سلم کہ میں نے بمشکل نماز میں صبر کیاحتیٰ کہ اس نے سلام پھیر دیا۔ اس عمل کا تذکرہ نبی اکرمﷺ کے سامنے ہوا جس کی آپ نے تردید نہ کی۔ گویا یہ تقریری حدیث ہوئی اور بعد ازاں نبی اکرمﷺ کافرمان قولی حدیث کے ضمن میں آگیا۔ غرض صحابہ رضی اللہ عنہم نماز پڑھ سکتے ہیں تو ہمارے لیے بھی آج کوئی مانع نہیں ہے اگر صحابہ رضی اللہ عنہم سنت کی اتباع کرتے تھے تو ہم پر بھی واجب ہے کہ اس سنت کا احیاء کریں۔
٭اعتراض:نماز کے اندر دوسری قراء ت پڑھنے سے خشوع و خضوع خراب ہوتا ہے، اس لیے نماز میں دوسری قراء ت نہیں کرنا چاہئے؟
جواب: فی الحقیقت یہ پہلے اعتراض کا حصہ ہے۔ غور طلب بات ہے کہ اگر صحابہ رضی اللہ عنہ کاخشوع خضوع خراب نہیں ہوتا تھا تو مجرد قراء توں سے ہمارا خشوع و خضوع کیسے خراب ہوسکتا ہے؟ہاں ہم میں آج کل جو دینی کمزرویاں ہیں، اس کی بنا پر تو خشوع میں فرق آسکتا ہے لیکن صرف اگر خشوع و خضوع خراب ہونے کو قراء توں سے مشروط کردیاجائے تو ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے خشوع کے بارے میں کیا خیال ہے جونمازوں میں دوسری قراء ات پڑھتے تھے جیساکہ مذکورہ حدیث میں گزرا ہے اور آئندہ بھی مزید احادیث میں آنے والا ہے بلکہ یادرہناچاہئے کہ یہ احیائے سنت نبوی ہوگا جس کا ثواب بہت عظیم ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭اعتراض: نبی اکرمﷺ کے دور میں تو اعرابیوں کے لیے عذر تھا جس کی بنا پر قراء ات کا جواز ہوا، اب وہ عذر باقی نہیں رہا، اس لیے نہیں پڑھنی چاہئیں؟
جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن کی ہرطرح سے تلاوت کی کھلی اجازت ہے یا اس کی تلاوت صرف نبی اکرمﷺسے روایت پرمنحصر و موقوف ہے، تو واضح رہنا چاہئے کہ یہ صرف نبی اکرمﷺ کی تلاوت پر ہی موقوف ہے،کیونکہ آپﷺنے خود قراء ات سکھلائی تھیں ہر طرح سے پڑھنے کی کھلی اجازت نہیں دے دی تھی جیسا کہ ہمیں’’أقرأنی رسول اﷲ‘‘ سے معلوم ہوتاہے اور جو چیز نبی اکرمﷺ سکھلا دیں یا حکم فرما دیں یا جس پرسکوت فرمایا وہ قیامت تک شریعت کاحصہ بن جاتی ہے۔ إنی بعثت إلی الناس کافۃ کا تقاضا یہی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اصول فقہ کاقاعدہ ہے کہ ’’عذر الماضین حجۃ علی الباقین‘‘ جس کو فتح الباری میں حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے۔یعنی متقدمین کاعذر متاخرین کے لیے حجت کاحکم رکھتا ہے چنانچہ اس وقت عذر تھا تو اس وقت وہ عذر ہم پر حجت ہے کیونکہ آسانی ہمیں بھی چاہئے۔
صحیح بخاری جلد ۲ صفحہ ۶۱۰،۶۱۱ میں روایت ہونے والی حدیث سے یہ اصول قرار پایا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں:
قدم رسول اﷲ! وأصحابہ فقال المشرکون أنہ یقدم علیکم وقد وھنھم حمی یثرب وأمرھم النبی! أن یرملوا الاشواط الثلثۃ وأن یمشوا مابین الرکنین ولم یمنعہ أن یأمرھم أن یرملوا الا شواط کلہا إلا الابقاء علیہم قال ارملوا فیہ المشرکون قوتہم والمشرکون من قبل قعیقعان۔
’’آپﷺاورصحابہ رضی اللہ عنہم جب بیت اللہ آئے تو آپﷺنے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیانی حصہ میں رمل کریں (یعنی پہلوانوں کی طرح سینہ تان کر اور کچھ اکڑ کر چلیں کیونکہ قعیقعان پہاڑ کی طرف بیٹھے ہوئے مکہ کے مشرکین کو یہ دکھلانا تھاکہ مسلمان طاقتور ہیں کیونکہ وہ کہتے تھے: قد وھنھم حمی یثرب کہ مکہ کے بخار نے مسلمانوں کو لاغر کردیا ہے، یہ ہم سے کیسے لڑسکتے ہیں، لیکن جب انہوں نے صحابہ کو دیکھا تو کہنے لگے کانہم غزلان گویا کہ یہ تو ہرن ہے۔‘‘(اس روایت کو امام ابوداؤد نے بھی الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے)
اب دیکھیں اس وقت رمل کا عذر مشرکین مکہ کودکھلاناتھاکہ ہم میں جسمانی طاقت ہے لیکن کیا کوئی ذی عقل مسلمان کہہ سکتا ہے کہ اس وقت عذر تھا اور آج وہاں مشرکین نہیں، اس لیے حج یا عمرہ کرنے جائیں تو رمل نہیں کرنا چاہئے۔ نہیں بلکہ اب یہ ہمارے لیے رکن کی حیثیت رکھتا ہے جب تک رمل نہیں کریں گے، مناسک حج کی تکمیل نہیں ہوگی۔ یہ حج تو صرف اس پر فرض ہے جو اس کی طاقت رکھے لیکن قرآن کامعاملہ تو اس سے بلند تر ہے تو کیوں نہ پہلوں کاعذر ہم پر حجت کے طور پر لاگو ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اعتراض: یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو دوسری قراء ت کاعلم ہی نہیں تھا جو ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ پڑھ رہے تھے حالانکہ وہ ہر وقت آپﷺکے ساتھ نمازیں پڑھنے والے تھے۔؟
جواب:پہلی بات تو یہ ہے کہ احادیث کامطالعہ کیاجائے تو معلوم ہوتاہے کہ بعض امور کادیگر صحابہ کو علم نہیں تھا۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں۔اسی طرح ایسابھی ہوتا ہے کہ انسان کو علم تو ہو لیکن ذہن میں حاضر نہ ہو اور جب کوئی یاددلائے تو یاد آجائے۔ مثال کے طور پر نبی اکرمﷺکی وفات کاواقعہ، صحیح بخاری جلد نمبر۲ صفحہ ۶۴۰ پر مذکور حدیث کوپڑھیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:
إن أبابکر أقبل علی فرس من مسکنہ بالسنح حتی نزل فدخل المسجد فلم یکلم الناس حتی دخل علی عائشۃ فتیمم رسول اﷲ! وھو مغشی بثوب حبرۃ فکشف عن وجھہ ثم أکب علیہ فقبلہ وبکیٰ ثم قال بابی أنت وأمی لایجمع اﷲ علیک موتتین أما الموتۃ التی کتبت علیک فقد متہا۔
پھر آگے دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
إن أبابکر خرج و عمر یکلم الناس فقال إجلس یا عمر فابی عمر أن یجلس فاقبل الناس إلیہ وترکوا عمر فقال أبوبکر أما بعد من کان یعبد محمدا فإن محمدا قد مات ومن کان یعبد اﷲ فإنہ حیی لا یموت قال اﷲ تعالیٰ ’’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ! قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ … الشَّاکِرِیْنَ‘‘وقال واﷲ لکان الناس لم یعلموا أن اﷲ أنزل ھذہ الایۃ حتی تلاھا أبوبکر فتلقاھا منہ الناس کلھم… الخ۔
’’ان دونوں احادیث کا مختصر مفہوم یہ ہے کہ جب آپﷺفوت ہوئے تو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ آئے، اور آکر یمنی کپڑاچہرہ مبارک سے اٹھاکر بوسہ دیا اور کہا کہ آپﷺپر جو موت لکھی تھی وہ آچکی ہے۔ادھر حضرت عمررضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے کہ جو یہ کہے کہ محمدﷺفوت ہوگئے ہیں، میں اس کاسر تن سے جدا کردوں گا تب حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا: ’’جو محمدﷺکی عبادت کرتا تھا، تو اس کا رب آج دنیاسے رخصت ہوچکاہے اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے، اس کا رب زندہ اور حی قیوم ہے اور پھر آپ رضی اللہ عنہ نے سورہ آل عمران کی آیت :’’وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ! قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَائِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ … الشَّاکِرِیْنَ‘‘ (پڑھی۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم گویاکہ لوگوں کو اس آیت کاپتہ ہی نہیں تھا اور جیساکہ یہ اب ہی نازل ہوئی ہے پھر لوگوں پر خاموشی چھاگئی اور ہر ایک نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ سے وہ آیت پڑھی۔‘‘
اب دیکھیں کہ نبیﷺ کی وفات کے موقع پر کتنے صحابہ حافظ قرآن اور قاری تھے کیا کسی نے بھی یہ آیت نبی اکرمﷺسے نہیں سنی تھی؟ہرگز نہیں بلکہ بہت سے صحابہ کرام کو اس کاعلم ہوگا اور اس کامفہوم بھی ان کے ذہن میں ہوگا لیکن اس وقت کسی کو یادنہیں آئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ’’گویا ان کو اس کاپتہ ہی نہیں تھا اوروہ محسوس کررہے تھے کہ یہ آیت ابھی ابھی نازل ہوئی ہے۔‘‘
اسی طرح أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کاحضرت عمرtکو علم تو ضرور ہوگا، لیکن اگر انہوں نے کسی صحابی کو دیکھ لیا کہ وہ اس قراء ت کے مخالف پڑھ رہاہے جونبی اکرمﷺ نے انہیں سکھائی تھی، تو دین میں شدت کی وجہ سے وقتی طور پر اس کو پکڑ کرنبی اکرمﷺکے پاس لے گئے۔ جب آپﷺنے یہ فرمایاکہ یہ بھی نازل شدہ ہے اور یوں بھی نازل ہوا ہے اور أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کافرمان دہرایا تو آپ رضی اللہ عنہ کو یادآگیا اورخاموش سے سر تسلیم خم کر لیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعۂ اَحرف سے کیا مراد ہے؟
مناسب یہ ہے کہ’علی سبعۃ أحرف‘ کی تشریح ہوجائے تاکہ معلوم ہوسکے کہ حروف سے کیا مراد ہے؟آیاوہ قراء ات ہیں یاپھر کوئی اور چیز؟
لغوی طورپر ’حرف‘ کا لفظ چھ معانی میں استعمال ہوتاہے۔
(۱)حافہ (۲) ناحیہ (۳) وجہ (۴)طرف (۵) حد (۶) کسی چیزکا ٹکڑا
حافظ ابوعمرو دانی رحمہ اللہ کے مطابق اَحرف کے دومعنی ہوسکتے ہیں:
(١)حرف بمعنی وجہ :یہ لغوی معنی کے مطابق ہے یعنی قرآن سات وجوہ پرنازل ہوا ہے اور ’’وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَعْبُدُ اﷲَ عَلٰی حَرْفٍ‘‘’’بعض لوگ اللہ کی عبادت ایک وجہ پر کرتے ہیں ‘‘ بھی اسی معنی سے ہے۔ پھر آگے اس کی توضیح فرمائی ہے کہ اگر ان کو خیر (نعمت و راحت، مال، عافیت، دعا کی قبولیت وغیرہ) حاصل ہوتی ہیں تو ایمان پرجمے رہتے اور عبادت کرتے رہتے ہیں اوراگر سختی، نقصان اور آزمائش کی حالت پیش آجاتی ہے تو کفر اختیارکرکے (حرف بمعنی) عبادت چھوڑ دیتے ہیں۔
(٢) حرف بمعنی قراء ت:حرف کایہ معنی مجازی ہے اور یہ اس بنا پر کہ عرب کی عادت ہے کہ کبھی کسی شے کا وہ نام بھی رکھ دیتے ہیں جو اس چیز کا جزو یاقریب یا مناسب یا سبب یااس سے تعلق رکھنے والی چیز کانام ہو۔ بس چونکہ مختلف قراء ات حروف میں تغیرسے پیداہوتی ہیں مثلاً حرکات کی تبدیلی، ایک حرف کا دوسرے سے اِبدال، تقدیم و تاخیر، اِمالہ،زیادتی و کمی اس لیے عرب کے استعمال پر اعتماد کرتے ہوئے رسالت مآبﷺنے قراء ت کو(گو وہ طویل کلام ہو) حرف فرمادیا۔ گویا یہاں کل کی بجائے جزو کا نام استعمال کیا ہے جس کو اِصطلاح میں مجاز مرسل کہتے ہیں(یعنی حرف کہہ کر وہ کلمہ قرآنیہ مراد لیاگیا) جس میں خاص قراء ت پائی جا رہی ہو،یہ ایسے ہی ہے جیسے تحریر رقبۃ سے مراد صرف گردن آزاد کرنا نہیں بلکہ پورا غلام آزاد کرناہوتاہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ حدیث میں سبعۃ أحرف لفظ کاجو استعمال ہوا ہے، وہ لغوی اعتبار سے وجہ کے معنی میں ہے اورمجازاً قراء ت کے معنی میں… لیکن اگر مذکورہ اَحادیث پر غور کیا جائے تو حرف کی حقیقت واضح تر ہوجاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حرف سے مراد ’ قراء ت‘ہیں
(١) حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ہشام رضی اللہ عنہ کو سنا ’’یقرأ علی حروف کثیرۃ‘‘ … اس کے بعد جب حضرت ہشام رضی اللہ عنہ نے نبی اکرمﷺکے فرمانے پر پڑھنا شروع کیا تو حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’فقرأ علیہ القراء ۃ التی سمعتہ یقرا‘‘ … اب دیکھیں پہلے جملے میں فرمایا کہ وہ حروف پڑھے تھے، بعد میں حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس نے وہ قراء ت پڑھی جو میں نے اسے پڑھتے سنا تھا۔ گویا حروف سے مراد انہوں نے قراء ت لیا ہے… اور ہم قراء ت کی تعریف میں یہ واضح کرچکے ہیں کہ
’’عبارۃ عن لفظ الأحرف مجموعا‘‘ …’’یعنی حروف کے مجموعہ کو قراء ۃکہتے ہیں۔‘‘
یہی مراد حضرت عمررضی اللہ عنہ نے اس حدیث میں استعمال کی ہے۔ پہلے حروف کہا بعدازاں دوسرے جملے میں ان حروف کو قراء ت سے تعبیر کردیا۔
(٢) اسی طرح حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے ’’فقرأ قراء ۃ أنکرتہا علیہ‘‘ کہاہے، حالانکہ نزول توحروف کاہواتھا، چونکہ قراء ت حروف سے مرکب ہوتی ہے اس لیے قراء ت کہ دیا اور بعد میں بھی اسی لفظ کودھرایا ہے۔’’إن ھذا قرأ قراء ۃ سوی قراء ۃ صاحبہ‘‘ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف توحروف میں تھاجس کو قراء ت کہہ رہے چونکہ حروف کے مجموعہ کو قراء ت کہتے ہیں، لہٰذا انہوں نے حروف کو قراء ت کہہ دیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف کا تعلق قراء ت سے ہے، جیسا کہ علامہ دانی رحمہ اللہ نے تعریف میں اس کی وضاحت کردی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سات حروف پرنازل ہونے کا سبب کیاتھا؟
سات حروف پر نازل ہونے کا سبب … اُمت کی سہولت
قرآن مجید کا سات حرف پرنازل ہونے کا سبب اُمت کو آسانی دینا ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو اعلیٰ ترین کتاب اور اشرف ترین رسول عطافرما کر سب اُمتوں پرفوقیت دی۔ اسی طرح رسول اکرمﷺ کی خواہش، اُمت کی ضرورت اور اپنی خصوصی رحمت سے اُمت کے لیے مزیدآسانی فرماتے ہوئے قرآن مجید کو سات حروف پرنازل فرمایا۔چنانچہ اَحادیث میں موجودہے کہ جبریل علیہ السلام نے آکر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺکو یہ حکم دیتے ہیں کہ آپﷺاپنی اُمت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیں آپﷺنے جواب دیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے عافیت اور مدد چاہتا ہوں،میری اُمت اس پر عمل نہیں کرسکے گی پھر آپﷺباربار درخواست کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے سات حروف کی اِجازت دے دی۔
نیز صحیح روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ قرآن سات دروازوں سے سات حروف پر نازل ہوا اور پہلی کتابیں ایک ہی دروازے سے ایک ہی حرف پر نازل ہوتی تھیں اوریہ فرق اس لیے تھا کہ پہلے انبیاء کو صرف ان کی قوم کے لیے بھیجا جاتاتھا اور رسالتماب1 کو عرب وعجم اور سفید وسیاہ یعنی تمام مخلوق کی طرف بھیجاگیا اور قرآن عرب کی لغت میں نازل ہواتھا اور عرب کی لغات جدا جداتھیں۔ زبانیں متفرق تھیں اور ایک لغت والے کو دوسروں کی لغت میں پڑھنا دشوارتھا بلکہ بعض تو پڑھ ہی نہیں سکتے تھے دوسری قوم کے انداز قراء ت میں پڑھنا تعلیم و تدبیر سے بھی ممکن نہیں تھا۔ خصوصاً بوڑھوں، عورتوں، اَن پڑھ لوگوں کو اور بھی دشواری تھی جیسا کہ نبی کریمﷺنے اپنے ارشاد میں اس کی طرف اشارہ فرمایا۔ پس اگر ہر حالت میں یہ حکم ہوتا کہ ایک ہی حرف پرقرآن مجید پڑھنا ہے تو یہ ان کی طاقت سے باہر ہوتا یا سخت مشقت درپیش آتی اور طبیعتیں قرآن کی تلاوت سے مشکل محسوس کرتیں۔
چنانچہ ابومحمد عبداللہ بن قتیبہ رحمہ اللہ اپنی کتابمشکلمیں کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ نے آسانی عطا کرنے کے لیے نبی کریمﷺکو حکم دیا کہ’’اپنی اُمت کو ان کی زبان اور عادت کے مطابق قرآن پڑھائیں۔‘‘
چنانچہ اَصحاب ہذیل ’حتّٰی‘ کی بجائے ’عتی‘ بولتے تھے اور بنو اسد ’’تَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُ تَسْوَدُّ وُجُوْہٌ، اَلَمْ اَعْھَدْ اِلَیْکُمْ‘‘ وغیرہ میں علامت مضارع کو کسرہ سے ادا کرتے تھے جب کہ بنی تمیم ’’یَألَمُوْنَ، شِئْتَ یُوْمِنُوْنَ‘‘وغیرہ میں ہمزہ پڑھتے تھے، لیکن قریش اس ہمزہ میں ابدال کرتے اور بعض ’’قِیْلَ لَھُمْ‘‘ اور ’’غِیْضَ الْمَائُ‘‘ میں اِشمام کرتے تھے۔
اسی طرح ’’لَا تَاْمَنَّا‘‘میں ادغام اور ضمہ کااشمام کرتے … بعض ’’عَلَیْھِمْ،فِیْھِمْ‘‘جبکہ بعض ’’عَلَیْھِمُوْ اور مِنْھُمُوْ‘‘پڑھتے تھے۔اسی طرح بعض ’’قَدْ اَفْلَحَ، قُلْ اُوْحِیَ اِلَیَّ‘‘ میں نقل کرتے جبکہ بعض ’’ مُوْسیٰ، عِیْسَی، دُنْیَا‘‘ کو امالہ سے، بعض تقلیل، (تھوڑے امالہ) سے پڑھتے تھے۔اسی طرح بعض ’’خَبِیْراً اور بَصِیْراً‘‘ کی راء کو ترقیق کے ساتھ اور بعض ’’ اَلصَّلَاۃَ اور الطَّلاَق‘‘ کی لام کوتفخیم سے پڑھتے تھے۔
ابن قتیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ان حضرات سے ہرگروہ یہ چاہتا کہ وہ اپنی لغت یعنی بچپن،جوانی اور بڑھاپے کی پڑی ہوئی عادت کو چھوڑ دے تو اس میں ان کو بڑی دشواری پیش آتی اوربڑی محنت کرنا پڑتی اور ایسا عرصہ تک مشق کرنے اور زبان کو مسخر کرنے اور عادت کو ترک کرنے کے بعد ممکن ہوتا، پس اللہ تعالیٰ نے جس طرح اُمت کو دین میں آسانی دی تھی اسی طرح اپنے لطف و کرم و انعام سے قرآن مجیدکو پڑھنے میں بھی وسعت کردی تاکہ آسانی ہوجائے اور اُمت سے رحمت کامعاملہ ہوجائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید سات حروف پر کیوں نازل ہوا؟ کم یازیادہ پر کیوں نہیں؟
اکثر حضرات کہتے ہیں کہ عرب کے اصل اوربڑے بڑے قبیلے سات ہی تھے یا عرب کی فصیح اور باقاعدہ لغات سات ہی تھیں۔ اسی لیے قرآن مجید سات حروف پر ہی نازل ہوا کم یازیادہ پر نہیں، لیکن یہ محض دعویٰ ہے۔ اسی طرح بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ سبعہ سے سات کا مخصوص عدد مراد نہیں جس میں زیادتی و کمی کی گنجائش نہ ہو بلکہ مراد یہ ہے کہ اس میں وسعت و سہولت دے کر حق تعالیٰ نے مطلقاً اجازت دی ہے کہ قرآن مجید کو عرب کی لغات میں سے کسی لغت میں پڑھنا چاہو پڑھ سکتے ہو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ نبی اکرمﷺنے اس طرح پڑھ کر سکھایا ہو۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ عرب کی عادت ہے کہ سبعۃ ، سبعین اور سبع مائۃ بول کر اس سے معین عدد کی بجائے کثرت مراد لیتے ہیں۔جیسے قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔’’کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ… إِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً فَلَنْ یَّغْفِرَاﷲُ لَہُمْ‘‘حدیث نبویﷺمیں بھی یہ استعمال موجود ہے:(وَالْجَنَّۃُ إلَی سبعمائۃ ضعف إلی أضعاف کثیرۃ) اور (الایمان بضع وسبعون شعبۃ) اسی قبیل سے ہیں، یہ توجیہ بظاہر تو بڑی عمدہ ہے، لیکن درحقیقت یہ بھی درست نہیں ہے۔ (جس کی وجہ آگے ذکر ہوگی)
علامہ ابن الجزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث پر۳۰ سال تک غوروفکر کیا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اس کا ایک مطلب ظاہرفرمادیا اوروہ یہ کہ میں نے تمام قراء ات کو تلاش کیا توان کے تغیر کو ذیل کی سات اَنواع سے مزید نہیں پایا۔انہیں میں نے دیکھا کہ سات قسموں میں سے کسی نہ کسی طرح کا تغیر ہوتا ہے۔
(١) حرکات میں تغیر ہوجائے، لیکن لفظ کی صورت اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے جیسا کہ بالبُخل،بالبَخل
(٢) حرکات اور معنی میں تغیر ہوجائے،لیکن صورت میں نہ ہوجیسے ’’فَتَلَقَّی آدَمُ مِنْ رَبِّہٖ کَلِمَاتٍ‘‘ اور ’’آدمَ مِنْ رَبِّہِ کَلِمَاتٌ‘‘
(٣) حروف اور صورت میں تغیر ہوجائے، لیکن معنی میں نہ ہو۔ جیسا کہ بصطۃ اور بسطۃ اور الصراط والسراط میں ہے۔
(٤) حروف اور معنی میں تغیر ہوجائے، لیکن صورت میں نہ ہو، جیسے تَبْلُوْا تَتْلُوا اور نُنَجِّیْکَ نُنْجِیْکَ
(٥) حروف و معنی و صورت تینوں ہی میں تغیر ہوجائے، جیسے اَشَدَّ مِنْکُمْ، اَشَدَّ مِنْہُمْ اور یَأتَلِ،یَتَألَّ
(٦) تقدیم و تاخیر کاتغیر فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ اور فَیُقْتَلُوْنَ،وَیَقْتُلُوْنَ
(٧) حروف کی زیادتی و کمی کا تغیر ہو وَاَوْصَی وَوَصّٰی
آپ مزید کہتے ہیں کہ اُصولی اختلافات جیسیاظہار، ادغام، روم، اشمام، تفخیم، ترقیق،مد،قصر،امالہ،فتحہ،تحقیق،تسہیل،ابدالاور نقل وغیرہ میں لفظ و معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی بلکہ صرف کیفیت ہی میں ہوتی ہے اور اگر مان لیں کہ تبدیلی ہوتی ہے تو پھر یہ ان سات میں سے پہلی قسم میں داخل ہوں گے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ علامہ ابوالفضل رازی رحمہ اللہ اور ابن قتیبہ رحمہ اللہ نے بھی قدرے مختلف عناوین سے یہی تشریح مراد لی ہے یعنی انہوں نے بھی سات حروف سے لفظی تغیر مراد لیا کہ جو بھی حرف ہوگا ان تغیرات سے باہر نہیں ہوگا۔
بعض علماء محققین نے اس کی تشریح یوں کی ہے کہ جب ہم قراء ات متواترہ میں تغیرات کا شمار کرتے ہیں تو وہ اِن سات صورتوں سے زیادہ ہوتی ہیں اور نہ ہی کم اور وہ صورتیں یہ ہیں:
 
Top