• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ متواترہ (سبعۃ وعشرۃ) (فسانہ یا حقیقت؟)

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) اسماء میں اختلاف: جو مفرد، تثنیہ، جمع اور مبالغہ کے قبیل سے ہوگا۔
جیسا کہ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مَسٰکِیْن (البقرۃ:۱۸۴) وَکِتٰبِہٖ وَرُسُلِہٖ (البقرۃ:۲۸۵) فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ(المائدۃ:۶۷) اَﷲُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (الانعام:۱۲۴) وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُم ْ(الاعراف:۱۵۷) أنْ یَعْمُرُوْا مَسٰجِدَ اﷲِ (التوبۃ:۱۷) وَسَیَعْلَمُ الْکُفّٰرُ (الرعد:۴۲) اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِیْ الْمَجٰلِسِ(المجادلۃ:۱۱) یہ تمام الفاظ مِسْکِیْن، کُتُبِہٖ، رِسَالَتَہُ، إِصْرَھُمْ، مَسَاجِدَ، الکُفَّار، المَجَالِسِ مفرد وجمع پڑھے گئے ہیں۔ ان میں ہر ایک میں دو دو قراء تیں ہیں۔ ایک مفرد کے ساتھ اور دوسری جمع کے ساتھ۔
کبھی اسماء میں تذکیر وتانیث کے اعتبار سے اختلاف ہوتا ہے۔
جیسا کہ وَلَا یُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ کو وَلَا تُقْبَلُ مِنْہَا شَفَاعَۃٌ (البقرۃ:۴۸) کَأنْ لَمْ یَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہُ مَوَدَّۃٌکو کَأنْ لَمْ تَکُنْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَہٗ مَوَدَّۃ (النساء:۷۳) وَاِنْ یَکُنْ مِنْکُمْ مِائَۃ کو وَاِنْ تَکُنْ مِنْکُمْ مِائَۃ(الانفال:۶۵) پڑھا گیاہے۔ اسی طرح کبھی اسماء میں اختلاف مبالغہ کا ہوتا ہے۔جیسے عالم الغیب کو علَّام الغیب پڑھا گیاہے۔
(٢) افعال میں اختلاف: افعال میں اختلاف تصرف و تغیر کے قبیل سے ہوتاہے۔
جیساکہ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْراً (البقرۃ:۱۵۸) کو وَمَنْ یَطَوَّعْ خَیْرًا، وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاھِیْمَ(البقرۃ:۱۲۵) کو وَاتَّخَذُوا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاھِیْمَ، قَالَ کَمْ لَبِثْتُمْکو قُلَ کَمْ لَبِثْتُم (المومنون:۱۱۲) قَالَ اَعْلَمُ أنَّ اﷲَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (البقرۃ:۲۵۹) کو قَالَ اعْلَمْ اَنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ پڑھا گیاہے۔
(٣) اِعراب کے وجوہ میں اختلاف:جیساکہ وَلَا تُسْئَلُ عَنْ اَصْحَابِ الْجَحِیْمِ کو وَلَا تَسْئَلْ عَنْ اَصْحَابِ الْجَحِیْم (البقرۃ:۱۱۹)، اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً کو اِلَّا اَنْ تَکُوْنَ تِجَارۃٌ (النساء:۲۸۲)، اَﷲِ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِیْ السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِی الاَرْضِکو اَﷲُ الَّذِیْ لَہٗ مَا فِیْ السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الاَرْض(ابراہیم:۲) اور فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ کو فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٌ (البروج:۲۲) پڑھاگیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) زیادتی اور نقص کااختلاف:جیسا کہ وَسَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ کو سَارِعُوْا اِلٰی مَغْفِرَۃ ( آل عمران:۱۳۳)، وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا کو اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا(التوبۃ:۱۰۷)، وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ کو وَمَا عَمِلَتْ اَیْدِیْھِمْ (یسٓ:۳۵) وَفِیْہَا مَا تَشْتَھِیْہِ الاَنْفُسُ کو مَا تَشْتَھِی الاَنْفُسِ(الزخرف:۷۱) اور فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ کو بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ (الشوریٰ:۳۰) اور فَاِنَّ اﷲَ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ کو فَاِنَّ اﷲَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ (الحدید:۲۴) پڑھاگیا ہے۔
(٥)تقدیم وتاخیر کا اختلاف:جیسا کہ وَقٰــــتَلُوْا وَقُتِلُوْا کو وَقٰـــــتَلُوْاوَقُتِلُوْا(اٰل عمران:۱۹۵)،وَنَاٰی بِجَانِبِہٖ کو وَنَائَ بِجَانِبِہٖ (بنی إسرائیل:۸۳)، اَفَلَمْ یَایْئَسِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا کو اَفَلَمْ یَایَسِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا (الرعد:۳۱) اور خِتٰمُہٗ مِسْکٌ کو خٰتَمُہٗ مِسْکٌ (المطففین:۲۶)پڑھا گیا ہے۔
(٦) اِبدال کا اختلاف :ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ کی جگہ بدل دینا:
جیساکہ ھُوَ الَّذِیْ یُسَیِّرُکُم کو ھُوَ الَّذِیْ یَنْشُرْکُمْ(یونس:۲۲)، وَمَا اَنْتَ بِہَادِیْ الْعُمْیَ کو وَمَا اَنْتَ تَھْدِیْ الْعُمْیَ(النمل:۸۱،الروم:۵۳)، لَنُبَوِّئَنَّھُمْ مِنْ الْجَنَّۃِ غُرَفًا کو لَنُثْوِیَنَّھُمْ (العنکبوت:۵۸) ، یَقُصُّ الْحَقَّ کو یَقْضِ الْحَقَّ (الانعام:۵۷)، کَیْفَ نُنْشِزُھَا کو کَیْفَ نُنْشِرُھَا(البقرۃ:۲۵۹)، وَالْعَنْھُمْ لَعْنًا کَبِیْراً کو لَعْنًا کَثِیْرًا (الاحزاب:۵۸)، ھُنَالِکَ تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسکو ھُنَالِکَ تَتْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ (یونس:۳۰)، وَمَا ھُوَ عَلَی الْغَیْبِ بِضَنِیْن کو بِظَنِیْن (التکویر: ۲۴) ، وَلَا یَخَافُ عُقْبٰھَاکو فَلَا یَخَافُ عُقْبٰھَا (الشمس:۱۵) پڑھا گیاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) لہجات میں اختلاف: جیسا کہ فتح، امالہ، اظہار، ادغام، روم، اشمام، تفخیم، ترقیق، تسہیل، تحقیق، ابدال، نقل، تخفیف اور تشدید اس میں وہ کلمات بھی داخل ہیں جن کی ادائیگی میں قبائل نے اختلاف کیا ہے۔
جیساکہ خُطُوَاتٍ کو خُطْوَاتٍ،بُیُوْت کو بِیُوت،خُفْیَۃ کو خِفْیَۃ، یَحْسِبُ کو یَحْسَب، بِزَعْمِھِمْ کوبِزُعْمِھِمْ یَعْزُبُکو یَعْزِبُ، اَلْقِسْطاس کو اَلْقُسْطَاس، یَلْحَدُوْنَ کو یُلْحِدُوْنَ، بِالْبُخْلِ کو بِالْبَخَلِ، ضُعْفًا کو ضَعْفاً، شَنَاٰنُ کو شَنْاٰنُ، یَقْنَطُ کو یَقْنِطُ، فَلْیُسْحِتَکُمْ کو فَلْیَسْحَتَکُمْ پڑھا گیا ہے۔
اب آئیے ان اقوال کی روشنی میں درج ذیل عبارت کی مدد سے سمجھتے ہیں کہ سات میں کمی و زیادتی کیوں نہیں؟
حدیث میں آیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی کریمﷺکے پاس قرآن کو ایک حرف پر لے کر آئے تو میکائیل علیہ السلام نے آپﷺسے عرض کیا کہ زیادتی کی درخواست کیجئے۔ اس پر اللہ تعالیٰ سے آپﷺنے اپنی اُمت کے لیے آسانی کی درخواست کی۔پھر وہ دو حروف لے کر آئے۔میکائیل علیہ السلام نے پھر کہا کہ زیادتی کی درخواست کیجئے۔ سو آپﷺ نے پھر آسانی کی درخواست کی، پھر تین حروف لے کر آئے اور اسی طرح ہوتا رہا یہاں تک کہ حروف کی تعداد سات تک پہنچ گئی۔
ابوبکرہ کی حدیث میں ہے کہ اس کے بعد میں نے میکائیل علیہ السلام کو دیکھا کہ وہ خاموش ہوگئے میں نے اس سے سمجھا کہ اب شمار ختم ہوچکا ہے (اس پر زیادتی نہیں ہوگی) پس یہ دلیل ہے کہ معین عدد سات ہے۔
اصل میں اس حدیث سے جو ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے اور دیگر اَحادیث جن کا مضمون بھی یہی ہے، سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے بعد آپ کا درخواست نہ کرنا اور دل کامطمئن ہوجانا اس بات پردال ہے کہ سات کے عدد کو کافی سمجھ لیا۔ظاہر ہے کہ حضورﷺکااطمینان قلب بھی قدرتی حکمت کے تابع ہے گویا اللہ کی مرضی و منشا بھی یہ تھی کہ سات حروف میں قرآن مجیدکوناز ل کریں۔اس لیے رسول اللہﷺکے دل کو اطمینان نصیب ہوا تو انہوں نے مزیدسوال نہیں کیاتھا۔دراصل معلوم یہ ہوتا ہے کہ جتنے بھی الٰہی عظیم افعال ہیں، ان میں خدا نے سات کی رعایت رکھی ہے۔ دیکھیں آسمان بنائے تو سات، زمینیں بنائی تو سات اور ان دونوں کی تکمیل کے بعد ساتویں دن ہی عرش پر مستوی ہوئے۔
اور حدیث میں آتا ہے کہ سات سال کابچہ ہوجائے تو اس کو نماز کاحکم دو، اس لیے کہ یہ وہ مدت ہے کہ جب اس کو بہر صورت اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا چاہئے۔ گویا جتنے بھی بڑے کام،انجام کے اعتبار سے ہوں یا بنفسہٖ معظم ہوں، اس میں سات کے عدد کی رعایت کی ہے۔ اس طرح برتن میں اگر کتا منہ ڈال دے تو سات بار دھونے کاحکم ہے۔ گویا صفائی یہ بھی اللہ کو چونکہ نہایت پسند ہے، اس میں بھی سات کو پسند فرمایا۔ قرآن مجید کا معاملہ بھی یہی ہے کہ اسے کل کائنات کے لیے نمونہ اور کتاب ہدایت بنناتھا تو اس کو بھی سات حروف پر نازل کیا۔ کمی وزیادتی نہیں کی،لیکن اب اگر کوئی قرآن کو ایک حرف پر محصور کردے تو گویا اس نے اللہ کے حکم اور حکمت کی مخالفت کی جس کاحساب اسے روز حشر اللہ تعالیٰ کے سامنے دینا ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات کے اختلاف کی حقیقت اور اس کے علمی فوائد
قراء ت کابظاہر اختلاف تنوع اور تغایر کی قسم سے ہوتا ہے تضاد و تناقض کے قبیل سے نہیں یعنی قراء ت سے طرح طرح کے معانی سامنے آتے ہیں جو ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود باہم متضاد اور مخالف نہیں ہوتے، کیونکہ کتاب اللہ میں تضاد محال ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے:
’’اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا‘‘ (النساء:۸۲ )
’’اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور طرف سے ہوتا تو اس میں اختلاف کثیرہوتا چنانچہ ناممکن ہے کہ ایک قراء ت میں امر ہو اوردوسری میں نہی ہو یا کسی طرح تعارض ہو۔‘‘
علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تمام قراء توں کے اختلاف میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصداق کے اعتبار سے اختلاف کی تین قسمیں ہیں:
اوّل:یہ کہ لفظ میں تبدیلی ہوجائے، لیکن معنی دونوں قراء توں میں ایک ہی رہے جیسے الصراط، السراط … عَلَیْہِمْ،عَلَیْہُمْ … القدْس، القدُس … یحسِب یحسَب
دوم: لفظ اور معنی میں تبدیلی تو ہوجائے، لیکن دونوں کا مصداق ایک ہو یعنی دونوں ایک ہی ذات پر صادق آتے ہوں جیسے سورۃ فاتحہ میں مٰلِکِ اور مَلِکِ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفتیں ہی ہیں، اس لیے کہ وہ قیامت کے دن کے مالک بھی ہیں اور اس روز کے بادشاہ بھی، کیونکہ اس دن سب مجازی سلطنتیں بھی ختم ہوجائیں گی… بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُونَ اور یُکَذِّبُوْنَ (بقرہ) اس میں دونوں قراء توں پر فعل کی ضمیر منافقین کے لیے ہے۔ پہلی قراء ت کی صورت میں معنی یہ ہوں گے ’’یہ منافقین اپنے آپ کو مومن بتلانے میں جھوٹ بولتے ہیں‘‘ جبکہ دوسری قراء ت کے یہ ہوں گے کہ ’’یہ منافقین نبی کریمﷺکوجھوٹا بتاتے ہیں‘‘ … کَیْفَ نُنْشِزُھَا اور نُنْشِرُھَا(بقرہ) اس میں بھی دونوں قراء توں میں مفعول کی ضمیرعظم (ہڈیوں) کے لیے ہے جو مونث لفظی ہے چنانچہ پہلی قراء ت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہڈیوں کو دیکھو ہم ان کو کس طرح ایک دوسرے پر چڑھاتے ہیں حتیٰ کہ وہ سب جڑ کر ایک ہوجاتی ہیں جبکہ دوسری قراء ت کامعنی یہ ہوگا کہ دیکھو ہم ان ہڈیوں میں جان ڈال کر ان کو کس طرح زندہ کردیتے ہیں۔پس قراء توں کے ذریعے دونوں معانی اَدا ہوگئے۔
سوم: لفظ و معنی دونوں میں تبدیلی آجائے اور دونوں کامصداق بھی جدا جدا ہو، لیکن کوئی ایسی توجیہ کرناممکن ہو جو دونوں کو متحد کردے اور تضاد پیدانہ ہونے پائے۔
(١)مثالیں: وَظَنُّوْا اَنَّہُمْ قَدْ کُذِبُوْا اور کُذِّبُوْا میں ذال کی تخفیف والی قراء ت پر ظن، وہم کے معنی میں ہے اور جمع کی تینوں ضمیریں کفار کے لیے ہیں اور معنی یہ ہیں کہ کفار کو یہ وہم ہوگیا کہ رسولوں نے جو خبریں دی ہیں ان میں ہم سے جھوٹ بولا گیا ہے۔ تشدید کی صورت میں ظن یقین کے معنی میں ہے اور تینوں ضمیریں رسولوں کے لیے ہیں یعنی رسولوں کو اس بات کایقین ہوگیا کہ اب ان کی قوم نے انہیں پوری طرح جھٹلا دیا ہے ۔ضد اور مخالفت کے سبب اب ان کے ایمان لانے کی کوئی اُمیدنہیں رہی۔
(٢) وَاِنْ کَانَ مَکْرُھُمْ لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَالُ اور لِتَزُوْلَ مِنْہُ الْجِبَال: پہلی قراء ت میں ان نافیہ ہے جو لام نفی کی تاکید کے لیے ہے جب کہ مضارع اَن مقدرہ کی بناپر منصوب ہے اورالجبال سے مجاز کے طور پر نبی کریمﷺکی نبوت، دین اسلام اور قرآن مجید مراد ہے یعنی کفار کی تدبیریں تو فی نفسہا بڑی بڑی اورمضبوط تھیں لیکن اس کے باوجود بھی ان کی تدبیر ایسی نہ تھی جن سے پہاڑ (نبوت، قرآن، دین حق) اپنی جگہ سے ہٹ جاتے اور دین الٰہی مٹ جاتا بلکہ ان کی مخالفت کے باوجود بھی دین حق غالب ہی رہا اور ان کی تدبیریں نیست و نابود ہوگئیں اوردوسری قراء ت پر اَن مخففہ من المثقلہ ہے اور لتزول کے پہلے لام پر فتحہ ہے اور یہ لام ابتدائیہ ہے جبکہ دوسرے لام کارفع ہے اور الجبال حقیقی معنی میں ہے پس اس سے یہی ظاہری پہاڑ مراد ہیں یعنی یہ بات یقینی ہے کہ کفار کی تدبیریں اس قدر مضبوط اور سنگین تھیں کہ ان سے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے مٹ جاتے، لیکن اس کے باوجود وہ دین الٰہی کومغلوب نہ کرسکے جو دین اور نبی کریمﷺ کی صداقت پر واضح ترین دلیل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ اور عَلِمْتُ (الاسراء) تاء مفتوحہ کی صورت میں عَلِمْتَ کافاعل اور مخاطب فرعون ہے یعنی موسیٰ علیہ السلام نے ڈانٹتے ہوئے فرمایاکہ اے فرعون تو خوب جانتا ہے کہ یہ آیات ومعجزات حق تعالیٰ نے نازل کئے ہیں۔پس علم کے باوجود تیرا انکار ضد اور عناد کی بنا پر ہے، شک و شبہ کے طورپر نہیں اور تاء مضمومہ والی قراء ت میں فاعل موسیٰ علیہ السلام ہیں اور اس میں فرعون کے قول ’’إنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ‘‘کا جواب ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام کو مجنون کہا تھا۔ پس قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ میں فرمایا کہ مجھے اس بات کاپورا علم ہے کہ یہ اَحکام و آیات آسمان و زمین کے رب کے نازل کئے ہوئے ہیں اور کیا مجنون عالم ہوسکتا ہے پس عالم کو مجنون کہنے والا خود مرض جنون میں گرفتار ہے۔
ان مثالوں پر غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ ضدیت اور منافات کسی بھی قراء ت میں نہیں۔ اگر ہمیں کسی قراء ت کی ضدیت کاشبہ ہو تو وہ ہماری ہی کم فہمی اور کم علمی و کم عقلی کانتیجہ ہے جس سے کلام الٰہی بالکل بری اور پاک ہے۔ہر قراء ت میں متفقہ مراد کی توجیہ ممکن ہے۔ جو قراء ت بھی نبی کریمﷺسے صحیح ثابت ہوجائے اس کاماننا واجب ہے اور اس کو قبول کرنا لازم ہے اور اُمت میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ اس کو رد کرے، اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور اس امرپر یقین رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہر قراء ت حق تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ ہے، کیونکہ ہر قراء ت کا تعلق دوسری قراء ت کے ساتھ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک آیت کا دوسری آیت کے ساتھ ہیــ۔ پس ہر آیت اور قراء ت جس معنی پر مشتمل ہے اعتقاداً بھی اس کی پیروی کرنا ضروری ہے اور عملاً بھی اور یہ بھی جائز نہیں کہ دو قراء توں میں تعارض ومخالفت کاگمان کرکے ایک پرتو عمل کرلیاجائے اور دوسری کے حکم کو نظر انداز کردینے کاطرزِ عمل اختیار کیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لا تختلفوا فی القرآن ولا تنازعوا فإنہ لایختلف ولا یتساقط… الخ
’’قرآن مجید میں جھگڑا نہ کرو،کیونکہ نہ تو اس میں اختلاف کی گنجائش ہے اورنہ کوئی حصہ اس کا حذف ہوسکتا ہے۔‘‘
چنانچہ فقہاء اور قراء کے اختلاف میں نمایاں فرق یہ ہے کہ فقہاء کا اختلاف اجتہادی ہوتا ہے اور قراء کااختلاف روایتی ہوتا ہے۔اس لیے فقہ کی اِختلافی وجوہ میں فی الواقعہ ایک ہی صحیح، حق اور راست ہے اور ہر مذہب دوسرے کی نسبت سے درست ہے، لیکن خطا کا احتمال رکھتا ہے جبکہ قراء ت متواترہ کی اختلافی وجوہ میں سے واقع میں ہر ایک صحیح حق اور منزل من اللہ ہے اور کلام الٰہی ہے جس پر ہم ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اعتقاد ہے کہ جس صحابی یا تابعی کی طرف اس کی نسبت ہے اس نے اس کو اسی طرح پڑھا اور اپنا معمول بنارکھا تھا اور وہ اس کے لیے اضبط و اقرا تھا یعنی اس کو سب سے زیادہ محفوظ رکھتا اور نہایت عمدگی سے پڑھتا تھا اور قراء ت کے اماموں اور راویوں کی طرف قراء ات اور روایات کی جونسبت ہوتی ہے اس کے بھی یہی معنی ہیں کہ قاری یا راوی نے معتبر حضرات سے پڑھ کر ان وجوہ کو اختیار کرکے اپنے لیے لازم کرلیاتھا اور ہمیشہ انہیں وجوہ کو پڑھتا اور پڑھاتا تھا اور لوگوں نے اس سے اسی کو روایت کیا۔
معلوم ہواکہ قراء ات کی کسی قاری یا صحابی کی طرف نسبت ترتیب، اختیار و لزوم اور ہمیشگی کی وجہ سے ہے اس لیے نہیں کہ انہوں نے ان وجوہ کو اپنے اجتہاد اوررائے سے خود بنا لیاتھا۔اسی لیے نبی کریمﷺنے مختلف وجوہ پڑھنے والوں میں سے ہر ایک کو أحسنت،أصبت اور ہکذا أنزلت فرما کر درست بتایا تھا۔ حدیث عمررضی اللہ عنہ میں ہے کہ حضرت اُبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے مسجدمیں آکر سورہ نحل پڑھی برخلاف اس کے جیسا کہ میں پڑھتاتھا۔ میں نے پوچھا کہ تجھے یہ سورت کس نے پڑھائی ہے تو کہنے لگا نبی کریمﷺنے… پھر ایک اورشخص آیا اور اس نے بھی سورہ نحل پڑھی اور ہم دونوں کے خلاف تیسری طرح پڑھی میں نے جب اس سے پوچھا تو اس نے بھی وہی جواب دیا جس سے میرے دل میں شک پیداہوگیا اور میں ان دونوں کو نبی کریمﷺکے پاس لے گیا آپﷺنے ایک سے سن کر فرمایا: ’أحسنت‘تو نے اچھی پڑھی اور دوسرے سے سن کرفرمایا :’أصبت‘یعنی تو درستی کو پہنچا۔ پھر مجھ سے سن کر فرمایا: ’ہکذا أنزلت‘یعنی یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے اور پھرمیرے سینہ پر ہاتھ مارا اور ارشاد فرمایا: أعیذک باﷲ یا أبی من الشک’’اے اُبی رضی اللہ عنہ! میں تمہیں شک و شبہ سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’ ان میں سے جو وجہ بھی پڑھو وہ ہی درست ہے شک نہ کرو، کیونکہ ان میں شک کرنا کفر ہے۔‘‘
ابن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
’’ جوشخص ایک حرف پڑھے، وہ اس کو ترک کرکے دوسرے کی طرف نہ جائے یعنی کسی وجہ کاانکار نہ کرے۔

٭______٭_____٭
 
Top