• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ متواترہ کی حجیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ متواترہ کی حجیت

شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی
مرتب : ملک کامران طاہر​
زیرنظر مضمون دراصل شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی ﷾کے ان ارشادات کی قلم بندی پرمشتمل ہے، جوکہ حضرت حافظ صاحب نے مادر اِدارہ کلِّیۃ القرآن الکریم کے زیراہتمام سالانہ محفل تجوید وقراء ات ۲۰۰۶ء میں حجیت قراء ات کے تفصیلی خطاب کی صورت میں پیش فرمائے۔اس خطاب کو بعدازاں مجلس التحقیق الاسلامی، لاہور کے آرگن ماہنامہ ’محدث‘ کے صفحات میں شائع کیاگیا تھا۔ ان قیمتی ارشادات کو ’مجلس‘ کے فاضل رکن کامران طاہر﷾ نے قلم وقرطاس کے سپرد کیا تھا۔مناسب مقامات پر ضروری اضافہ جات کرنے کے بعدموصوف نے اس تحریر کوقراء ات نمبر کے قارئین کے لئے دوبارہ ترتیب دیا ہے۔ (ادارہ)
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے اپنے برگزیدہ بندے یعنی انبیاء و رسل مبعوث فرمائے اور اپنا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لیے آسمان سے کتب و صحائف نازل فرمائے جو درج ذیل ہیں:
’’إنَّا اَنْزَلْنَا التَّوْرَاۃَ فِیْھَا ھدًی وَنُوْرً‘‘ (المائدۃ :۴۴)
’’ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت اور روشنی تھی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) تورات موجودہ بائبل(کتاب مقدس) کا ایک حصہ ہے کتاب مقدس کے دو اہم حصے ہیں:
عہد قدیم(Old Testament) ، عہد جدید(New Testament) عہد قدیم بمقابلہ عہد جدید زیادہ ضخیم ہے کل بائیبل تمام عیسائیوں کی مذہبی کتاب ہے، لیکن یہودیوں کی بنیادی مذہبی کتاب عہدقدیم ہے یہود عہد جدید کو نہیں مانتے، کیونکہ یہ صحائف انجیل ودیگر صحائف، جو عیسائیوں کے نزدیک مقدس ہیں،پر مشتمل ہے۔
عہد قدیم یہودیوں کے مختلف مقدس صحیفوں کا مجموعہ ہے عیسائیوں نے ابتدا ہی سے اسے اپنی مقدس کتاب تسلیم کیاہے بلکہ پہلی دوسری صدی میلادی میں عام طور پر ان کی بھی مقدس کتاب عہد قدیم ہی رہی تاآنکہ ایپی فینیس (Epiphanius) اور ایتھا نیس(Athanasius) نے چوتھی صدی میلادی میںعہد جدید کو اس شکل میں جس میں کہ وہ اب موجود ہے تسلیم کیا۔ (اُردو دائرہ معارف اسلامیہ، مادہ تورات، ص۷۰۳)
لیکن یہ ایک ایسی کتاب تھی جس کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود نہیں لیا بلکہ قوم موسیٰ کے سپرد کردیا کہ تم نے خود اس کی حفاظت کرنا ہے۔ توراۃ اصل میں أسفار خمسہ: سفر تکوین، سفر خروج، سفر لاویین، سفر اعداد اور سفر الثنیۃ کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب اپنی اصل پرقائم نہ رہ سکی۔ہر زمانہ کے لوگوں نے اس میں ردوبدل کیا۔ اس کی اندرونی شہادتیں بھی اس امر کی غماز ہیں کہ یہ محرف شدہ ہے ،کیونکہ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کا وصف موجود ہے اور کوئی عاقل انسان یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی وفات کا حال خود ہی تحریر کردیا ہو یا آپ نے اپنی موت کا مشاہدہ ہی کیا ہو۔ اس کے علاوہ متعدد دلائل اس کے محرف ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
(٢) انجیل : یہ کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی، لیکن کسی مؤرخ نے آج تک یہ نہیں لکھا کہ یہ کتاب کس شکل میں تھی؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس کی دعوت زبانی کلامی دیتے تھے۔ قرآن میں ہے:
’’وَلِاُحِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ‘‘ (آل عمران:۵۰)
’’اور میں اس لیے آیا ہوں کہ تمہارے لیے بعض ان چیزوں کو حلال کردوں جوتم پر حرام کردی گئیں ہیں۔‘‘
انجیل کا تورات سے معمولی فرق تھا۔اس کے بعد اس میں تحریف کا سلسلہ شروع ہوا اور اس حدتک بڑھا کہ ہرقبیلہ کی الگ الگ انجیل بنا لی گئی۔ ۳۲۵ء میں قسطنطین نامی بت پرست عیسائیت میں داخل ہوا اور اس نے انیقہ میں عیسائیت کا بین الاقوامی اجتماع منعقد کیاجس میں یہ طے پایا کہ چار انجیلیں رکھی جائیں اور باقی انجیلوں کو تلف کردیا جائے اور یہ اس لیے کیا گیا کہ اختلاف کو ممکن حد تک کم کیا جائے، لہٰذا ایسا ہی کیا گیا اور چار انجیلوں کو باقی رکھا گیا جو کہ متیٰ، مرقس، لوقا اور یوحنا کے ناموں سے مشہور ہیں۔
ان کامطالعہ کرنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ان چار انجیلوں کی باہم شکل وصورت اور موضوع بہت زیادہ مختلف ہیں، حتیٰ کہ ابتداء، انتہا، آیات اور فصول کے اعتبار سے ان کااس قدر اختلاف ہے کہ ان کے اتحاد کی کوئی صورت نہیں۔یہی وجہ ہے کہ جمہور علما اس میں لفظی و معنوی دونوں طرح کی تحریف موجود ہونے کے قائل ہیں اور قرآن مجید نے خود اس کی شہادت دی ہے۔’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِہِ‘‘ (المائدۃ:۱۳)
’’ان کا حال یہ ہے کہ الفاظ کا الٹ پھیر کرکے بات کو کہیں سے کہیں لے جاتے ہیں۔‘‘
پادری ہارن(Horne) بائیبل کی تحریف کے اقرار کے ساتھ اپنی کتاب دیباچہ علوم بائیبل ۲:۳۱۷ میں اس کی چار عالمانہ وجوہ قائم کی ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اوّل:ناقلوں کی غفلت
(ا) : عبرانی اور یونانی کے کئی حروف صوت اورصورت میں مشابہ ہیں۔اسی سبب سے بعض غافل اور بے علم ناقلوں نے کسی ایک لفظ یا حرف کے بجائے دوسرا لفظ یا حرف لکھ کر اختلاف پیدا کردیا۔
(ب): ابتدا میںکتابت بڑے(Capital) حروف میں کی جاتی تھی اور لفظوں بلکہ فقروں کے درمیان اکثر اَوقات بیاض نہ چھوڑی جاتی تھی اسی وجہ سے کہیں لفظوں کے جز لکھنے سے رہ گئے اور کہیں مقرر تحریرہوگئے۔
(ج): اختصار کے نشان قدیم قلمی نسخوں میںبکثرت موجود ہیں غفلت شعار نقل نویسوں نے ان کا صحیح مفہوم نہ سمجھا۔
(د):قدیم نسخوں میں ان کے لکھنے یا پڑھنے والوں نے بعض تشریحی اور تفسیری الفاظ اور فقرے اپنے طور پر تحریرکردیئے تھے، انہیں متن کا حصہ سمجھ لیاگیا۔قدیم نسخوں میں بین السطور یا حاشیے میں مشکل مقامات کی شرح لکھنے کاعام رواج تھا ۔وغیرہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوم : غلط نسخوں سے نقل
یہ غلطیاں بھی متعدد وجوہ سے پیدا ہوئیں مثلاً
(ا) : سہوکتابت (ب) بعض حروف کے شوشے کم ہوگئے یا مٹ گئے۔ (ج) یہ اغلاط چمرے، بردی، جھلی اور کاغذ کے مختلف انواع کی وجہ سے بھی پیدا ہوئیں مثلاً کاغذ یا چمڑا باریک ہوا تو اس میں ایک طرف کالکھا ہوادوسری طرف پھوٹ گیا اور دوسری طرف کے حرف کاجز معلوم ہونے لگا۔
سوم: اختلافات عبارت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ نکتہ چین محض قیاسا اصل متن کو بالارادہ بہتر اور درست کرنے کی نیت سے از خود تصحیح کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ میکلس نے تصریح کی ہے کہ ایک بہت بڑا سبب جس سے عہدنامہ جدید میں مشتبہ مقامات بکثرت پیدا ہوگئے ہیں یہ ہے کہ ایک ہی واقع کا ذکر جن مختلف جگہوں میں ہے ان میں اس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی جس سے ان میں ایک دوسرے سے زیادہ مطابقت ہوجائے اَناجیل اربعہ کو اس سے خصوصاً نقصان پہنچا۔
چہارم : یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ بعض لوگوں نے ازراہ دوراندیش بھی کچھ تحریفات کیں تاکہ جومسئلہ تسلیم کیا گیا ہے اسے تقویت ہو یا جو اعتراض کسی مسئلے پر ہوتا ہو وہ دور ہوجائے۔
تحریف انجیل کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ ابتدائی دور میں لکھنے لکھانے کا سامان کم یاب اور گراں تھا۔ بسااوقات قدیم تحریروں کو مٹا کر پھر انہیں پرنئی تحریریں لکھ دی جاتی تھیں اور بعض اوقات چار چار پانچ پانچ مرتبہ یہی عمل دہرایا جاتاتھا۔یہی صورت انجیل کے ساتھ بھی پیش آئی اور بعض قدیم تحریریں بعدمیں کسی وقت ابھر آئیں اور انجیل کی عبارتوں میں مل گئیں۔ (اردو دائرہ معارف اسلامیہ مادہ انجیل ص۳۳۱،۳۱۲)
قرآن مجید میں بکثرت آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ یہود و نصاریٰ نے اپنی کتابوں میں تحریف کی ہے۔ اس کے متعلق مزیدتفصیل کے لیے ’’الجواب الصحیح لمن بدّل دین المسیح لابن تیمیہ‘‘ کامطالعہ مفید ہوگا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٣) زبور : یہ کتاب حضرت داؤدعلیہ السلام پرنازل ہوئی اور اس کی ڈیڑھ سو آیات تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤدعلیہ السلام کو یہ معجزہ عطا فرمایا تھا کہ آپ اپنی سواری کی تیاری کے دوران ہی ان آیات کی تلاوت مکمل کرلیتے تھے۔ لیکن یہ کتاب بھی اب اپنی اصل شکل میں موجود نہیں ہے۔
(٤) قرآن مجید: سب سے آخر میں ہمارے نبی اکرم1کو مبعوث فرمایاگیا اور آپﷺ پر جو کتاب نازل ہوئی، اس کا نام قرآن مجید ہے۔ یہ وہ عظیم کتاب ہے جس کے نزول کاآغاز غارحرا سے ہو ا اور اس کی تکمیل تیئس سال میں ہوئی۔ عمومی قاعدہ کے مطابق قرآن کا وہ حصہ جو ہجرت سے پہلے نازل ہوا’ مکی‘ اور بعد میں نازل ہونے والا ’مدنی‘ کہلاتا ہے۔ خواہ وہ مدینہ میں نازل ہو، مکہ میں یا بیت المقدس یا کسی اور علاقے میں، سب کا سب حصہ ’مدنی‘ ہی کہلاتاہے۔
علماء نے قرآن کی تعریف ان الفاظ کے ساتھ کی ہے:
’’ھو کلام اﷲ تعالیٰ المعجز المنزل علیٰ خاتم الأنبیاء والمرسلین بواسطۃ الأمین جبریل علیہ السلام المکتوب فی المصاحف المنقول إلینا بالتواتر المتعبد بتلاوتہ المبدوء بسورۃ الفاتحۃ المختوم بسورۃ الناس‘‘
’’وہ اللہ تعالیٰ کا معجز کلام ہے جو خاتم الانبیاء والمرسلین پر جبریل امین علیہ السلام کے ذریعہ نازل ہوا، مصاحف میں لکھا گیا اورہم تک تواتر کے ذریعہ نقل ہوکر پہنچا۔ اس کی تلاوت کارِ ثواب ہے۔ یہ سورۃ فاتحہ سے شروع ہوتا ہے اور سورۃ الناس پر ختم ہوتا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(۳)قرآن کی حفاظت کاذمہ
جیساکہ قرآن کے علاوہ آسمانی صحائف کا ذکر گزر چکا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کتب و صحائف کو مختلف قوموں کی طرف ایک مدت تک کے لیے اتارا لیکن ان تمام صحائف و کتب کی استنادی حالت یہ ہے کہ مرور زمانہ کی وجہ سے وہ اپنی اصل حالت پر برقرار نہ رہ سکیں اور ان میں دانستہ یا نادانستہ طو رپر مسلسل تحریف ہوتی رہی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے آخری فرستادہ نبی محمدﷺ جلوہ افروز ہوئے اور اس نبیﷺ کو آسمانی کتاب قرآن ملی جوکہ قیامت تک کے لیے دستور حیات ٹھہری، تو ضروری تھا کہ اس جیسے ضابطہ حیات کی حفاظت کے اقدامات کئے جاتے لہٰذااس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ تعالیٰ نے لیا، فرمایا:
’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ‘‘ (الحجر:۹)
’’ہم نے اس ذکر (قرآن) کو اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ قرآن کے اتارنے والے بھی ہم ہیں اور اس کی ہرقسم کی حفاظت کا ذمہ بھی ہم نے لیا ہے۔ جس شان اور شکل سے وہ اترا ہے بغیر زیر زبر کی تبدیلی کے چارد انگ عالم میں پہنچ کر رہے گا اور قیامت تک ہر طرح کی تعریف لفظی و معنوں سے محفوظ رہے گا۔ زمانہ کتنا ہی بدل جائے مگر اس کے اصول و احکام کبھی نہ بدلیں گے۔ فصاحت و بلاغت اور علم و حکمت کی موشگافیاں بھی کتنی ترقی کرجائیں مگر قرآن صوری ومعنوی حیثیت میں انحطاط محسوس نہ ہوگا اور بڑی بڑی طاقتیں قرآن کی آواز کودبانے یا کم کرنے کی کوششیں کریں گی،لیکن زیرزبر یا ایک نقطے کو کم نہ کرسکیں گے اور اللہ رب العزت کا حفاظت کا وعدہ اس طور پورا ہوکر رہا کہ بڑے بڑے مغرور مخالفوں کے سر بھی جھک گئے۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر زمانے میں اللہ کے سپاہیوں یعنی علماء نے علوم مطالب اور غیر منتہی عجائب کی حفاظت کی وہاں کاتبوں نے رسم الخط کی، قاریوں نے طرز ادا کی ،حافظوں نے اس کے الفاظ و عبارت کی وہ حفاظت کی کہ نزول کے وقت سے آج تلک ایک زیر زبر تبدیل نہ ہوسکی کسی نے قراء ت کے رکوع گنے، کسی نے آیتیں شمار کیں، کسی نے حروف کی تعداد بتلائی حتیٰ کہ بعض نے ایک ایک حرکت اور ایک ایک نقطے کو شمارکرڈالا۔ (ادارہ معارف اسلامیہ: ۱۶؍۴۷۵)
یہی وجہ ہے کہ مستشرقین تک یہ کہنے پر مجبور نظر آتے ہیں کہ قرآن تمام صحیفوںمیں مستند ترین صحیفہ ہے اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(١)وھیری اپنی تفسیرقرآن میں لکھتا ہے:
’’تمام قدیم صحیفوں میں قرآن میں سے زیادہ غیرمخلوط اور خالص ہے۔‘‘
(٢) قرآن کامعروف انگریزی مترجم پامر(Palmor)کہتا ہے۔
’’سیدناعثمان کا ترتیب دیا ہوامتن اس وقت سے آج تک طے شدہ اور مسلم صحیفہ رہاہے۔‘‘
(٣)لین پول (Lanepoole)کہتا ہے۔
’’قرآن کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی اصلیت میں کوئی شبہ نہیں ہے ہر حرف جو ہم آج پڑھتے ہیں اس پر یہ اعتمادکرسکتے ہیں کہ تقریباً تیرہ صدیوں سے غیر مبدل رہا ہے۔‘‘(مجلہ فہم القرآن لاہور، اپریل ۲۰۰۱ء بحوالہ مضمون ابوالحسن ندوی)
اور اس کے برعکس دوسرے آسمانی صحائف کا یہ خیال ہے کہ وہ اب تک دین اصل شکل میں صحیح و سالم موجود نہیں اور یہ تاریخی طور پر ثابت اورایک حقیقت ہے جس کا اعتراف خود ان امتوں اور قوموں نے کیا ہے جن کے پاس یہ صحائف آئے تھے عہد تحقیق کے صحیفے برابر غارت گری اور آتشزدگی کاکھلے طور پر نشانہ بنتے رہے ہیں اور خود یہودی مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ تاریخ میں تین بار ایسے مواقع پیش آئے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) پہلی دفعہ جببابل کے بادشاہ بخت نصرنے یہودیوں پر (۵۸۶ ق م) میں حملہ کیا اور بیت المقدس کو آگ لگاد ی جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے توریت کی تختیاں اور آل موسیٰ و آل ہارون علیہم السلام کے تبرکات محفوظ کردیئے تھے اور جو یہودی قتل سے بچ گئے انہیں وہ قید کرکے بابل لے گیا جہاں وہ پچاس سال تک رہے اور عذرا نبی کے پانچ پہلے صحیفوں کو جو ’توراۃ‘ کہلاتے ہیں اپنے حافظہ سے دوبارہ لکھوایا اور واقعات کو تاریخی اسلوب میں لکھا پھر ’یخمیا‘ نے کتابوں کے دوسرے سلسلہ کااضافہ کیا اور حضرت داؤد ؑ کو بھی ملحق کیا۔
(٢) دوسری مرتبہ انطبورخس چہارم (Antiorhus) جسے ’ابیقانس‘ کہاجاتا ہے، نے (۱۶۸ق م)میں بیت المقدس پرحملہ کرکے صحائف مقدسہ کو جلا دیا جو بعد میں پھر مرتب ہوئے۔
(٣) تیسری بار ٹائٹس (Titus) رومن بادشاہ ۷ ستمبر ۱۹۷۰ء کو حملہ کیااور مقدس صحیفوں کو یادگارکے طور پر اپنے ساتھ دارالحکومت لے گیا اور یہود کو جلا وطن کردیا۔
پیغمبروں کے ان صحیفوں اور آسمانی کتابوں کی صحت و حفاظت اور مطابق اصل ہونے کے بارے میں یہودیوں کا معیار اور نقطہ نظر اس معیار اورنقطہ نظر سے قطعاً مختلف ہے جو مسلمانوں کاقرآن مجید کے آسمانی اور الہامی وحی اور کتاب ہونے کے بارے میں ہے مسلمان قرآن مجید کے ہر لفظ کو کلام الٰہی منزل من اللہ اور اپنے زمانہ نزول سے لے کر اس وقت تک اس کی اپنی اصل حالت اور شکل میں محفوظ جانتے ہیں جبکہ یہودیوں کے نزدیک ان کتابوں میں کی گئی ترمیم و کمی بیشی ان کی آسمانی کتابیں ہونے کے منافی نہیں وہ انبیاء علیہم السلام کو ان کا مصنف کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں ممتاز ترین یہودی فضلاء اور ماہرین فن کی تیار کی ہوئی یہودی انسائیکلو پیڈیا میں اس طرح مرقوم ہے:
’’یہودی روایات اگرچہ اس پر مصر ہیں کہ عہد نامہ قدیم انہیں کرداروں کی تصنیف ہے جو ان میں مذکور ہیں اور یہ قطعاً غیر مناسب بھی نہیں ہے مگر انہیں یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ ان میں سے بعض کتابوں میں بعد میں ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘
اسپینوزا (Spinoza) کاکہنا ہے کہ ’’عہد نامہ قدیم کی پہلی پانچ کتابیں موسیٰ کی نہیں عذرا کی تصنیف ہیں۔‘‘
اناجیل کے بارے میں نو مسلم فرانسیسی مستشرق مولسبوایقین دینیہ (Eatonpien)کے متعلق لکھتے ہیں:
’’اللہ نے جو انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی اور قوم کی زبان میں دی تھی وہ تو کوئی شک نہیں کہ ضائع ہوچکی ہے اور اب اس کاکوئی نام و نشان بھی نہیں رہ گیا ہے یاوہ خود تلف ہوگئی یاعمداً تلف کردی گئی ۔اسی وجہ سے عیسائیوں نے اس کی جگہ چار ’تالیفات‘ کو اپنا یاجن کی صحت اور تاریخی حیثیت مشکوک ہے کیونکہ یہ یونانی زبان میں ملتی ہیں جس کا مزاج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اصل سامی زبان سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا اسی لیے یونانی انجیلوں کا اپنے اتارنے والے سے رشتہ اور رابطہ یہود کی تورات اور عربوں کے قرآن سے کہیں کمزور ہے۔‘‘
’’یہ ان صحیفوں کاحال ہے جن کو ان کے ماننے والے ہزاروں برس سے سینوں سے لگائے ہوئے ہیں اوردنیا کی دو متمدن ترین قومیں (یہود اور عیسائی) ان کی حلقہ بگوش اورعلمبردار ہیں اور اسلام اور مسلمانوں نے بھی ان کو اس حد تک تسلیم کیا ہے کہ ان دونوں کو اہل کتاب کا نام دیا ہے۔‘‘ (نفس مصدر ملحق مارچ۲۰۰۱ء)
مذکورہ بالاحقائق سے ثابت ہوا کہ قرآن کی حفاظت قرآن کاایک اہم اعجاز ہے، اور کیوں نہ ہو اس کتاب کے نازل کرنے والے نے اسے تحریف و تبدل اور کمی و زیادتی سے محفوظ رہنے کا ذمہ لیا ہے اور یہ ذمہ تاقیامت قائم ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تدوین قرآن، زمانۂ رسولﷺ میں
آپﷺ کے زمانہ میں قرآن کی تدوین کاکام باقاعدہ طور پرنہ تھا۔آپﷺ پر مختلف آیات نازل ہوتیں تو آپﷺ کہتے: اسے فلاںسورت میں رکھ دو، فلاں جگہ پر رکھ دو۔ اس طرح آپﷺ کے زمانے میں آیات کی ترتیب مکمل ہوئی اور یہ ’ترتیب توقیفی‘کہلاتی ہے یعنی ایسی ترتیب جو انسانوں کے اپنے ذوق کی بجائے وحی الٰہی پر موقوف ہو۔جہاں تک سورتوں کی ترتیب کاتعلق ہے تو علامہ سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ کا خیال ہے کہ یہ بھی ’توقیفی‘ ہے، لیکن جمہور علماء اس کے توقیفی ہونے کے قائل نہیں۔
قرآن کریم کے نزول سے بلکہ اس کی جمع و تدوین تک کے تمام مراحل کا مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں قرآن کی حفاظت و جمع کے لیے دو طریقے نظر آئیں گے۔
(١)حفظ (٢) کتابت
آغاز وحی سے ہی یہ دونوںطریقے استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن اس کا مدار زیادہ تر حفظ پر رہا ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو تسلی دی کہ :
’’لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ٭إنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْأنَہٗ ٭فَإِذَا قَرَأنَاہٗ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہٗ٭ ثُمَّ إنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ‘‘ (القیامۃ:۱۶تا۱۹)
’’(اے نبیﷺ) اس وحی کوجلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قراء ات کو غور سے سنتے رہو پھر اس کامطلب سمجھا دینا بھی ہمارے یہی ذمہ ہے۔‘‘
چونکہ حفظ اُمت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے اس لیے قرآن اور اس کی قراء ت میں اس پر اعتماد کیا گیا۔
ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إن الاعتماد فی نقل القرآن علی حفظ الصدور والقلوب لا علی حفظ المصاحف والکتب و ھذہ الشرف خصیصۃ من اﷲ تعالیٰ لھذہ الأمۃ‘‘ (النشر :۱؍۶)
’’قرآن کے نقل کرنے میں اعتماد حفظ القلوب پر ہے نہ کہ مصاحف اور کتب کی حفاظت پر اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم خاصہ ہے۔‘‘
قرآن کی صدری حفاظت کے لیے خود رسول اللہﷺ ہرسال رمضان المبارک میں جبریل علیہ السلام سے دور فرمایاکرتے تھے۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
’’أسرّ إلی إن جبریل کان یعارضنی القرآن کل سنۃ وإنہ عارضنی العام مرتین ولا أراہ إلا حضر أجلی‘‘ (صحیح البخاري:۳۶۲۴)
’’نبی ﷺنے مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا جبرئیل مجھ سے ہر سال ایک مرتبہ قرآن کا دور کیا کرتے تھے،اس سال دو مرتبہ کیا ہے میں یہ خیال کرتا ہوں کہ میری موت کا وقت آپہنچا ہے۔‘‘
نبیﷺکے قرآن کو یاد کرنے کے اہتمام کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی یہ رجحان عام تھا کہ وہ قرآن کریم کی سورہ کو یاد کرتے لہٰذابے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہوا تھا۔ اور ان حفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم کاذکر ہمیں متعدد کتب میں ملتاہے۔
ابوشامہ المقدسی رحمہ اللہ نے امام ابوعبیدالقاسم بن سلام رحمہ اللہ کی کتاب القراء ات کے حوالے سے پچیس حفاظ و قراء صحابہ کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق مہاجرین میں سے۔
ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، سعد، ابن مسعود، سالم، حذیفہ بن الیمان، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمرو، عمرو بن العاص، ابوہریرہ، معاویہ بن ابی سفیان، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہم ۔
انصارمیں سے:ابی بن کعب،معاذ بن جبل، ابوالدرداء، زید بن ثابت، مجمع بن جاریہ اور انس بن مالک شامل ہیں۔ اسی طرح ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت اُم سلمہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام بھی حفاظ کی فہرست میں شامل ہیں۔(المرشد الوجیز، ص۴۰)
ان کے علاوہ ابومعبد الخوری،ثمیم الداری، سلمہ بن مخلد، ابوموسیٰ اشعری، عبادہ بن صامت، ابوایوب انصاری، ابوزید انصاری، فصالہ بن عامر، عقبہ بن عامررضی اللہ عنہم کے نام ملتے ہیں۔
اور وہ حفاظ صحابہ جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے اور وہ جن کو آپ متفرق قبائل کی طرف قرآن کی تعلیم کے لیے بھیجتے تھے اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حفاظ صحابہ کی تعداد سینکڑوں تھی۔علامہ یمینی رحمہ اللہ کے مطابق جنگ یمامہ کے موقع پر سات سو حفاظ قراء شہیدہوئے۔(عمدۃ القاری:۲؍۱۶)
حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إن ھذا العدد ھم الذین عرضوہ علی النبی واتصلت بنا أسانیدھم وأما من جمعہ منھم ولم یصل بنا فکثیر‘‘ (طبقات القراء، ص۲۴تا۴۲)
’’یہ تعداد وہ ہے جو نبیﷺ سے متصل سند کی بنا پرمنقول ہوئی ہے جبکہ غیر متصل سند سے منقول تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘
بہرحال ابتدائے اسلام میں قرآن کی حفاظت کے لیے صدری طریقہ ہی اختیار کیا گیا اور ان حالات کے پیش نظر یہی طریقہ قابل اعتماد تھا۔قرآن کی حفاظت بذریعہ کتابت کے ادوار کا ذکر آئندہ سطور میں کیاجائے گا۔
نبیﷺ کی زندگی میں قرآن مکمل ہوچکا تھا، لیکن غیرمرتب تھا۔لوگ مختلف آیات اور سورتوں کو پتھروں پر، کھجور کے پتوں اور چھڑیوں پراور اسی طرح چوڑی ہڈیوں اور باریک چمڑوں پر لکھ لیتے تھے۔آپﷺ کی وفات تک قرآن مجید کے غیرمرتب ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ زمانہ نزول وحی کا زمانہ تھا اور نزول وحی کے زمانہ میں آیات کی کمی و بیشی بھی ہوسکتی تھی، بعض احکام اور آیات منسوخ بھی ہوسکتے تھے، بعض میں کچھ اضافہ بھی ہوسکتاتھا اس وجہ سے آپﷺ کے دور میں قرآن مجید کو تدوینی شکل نہ مل سکی۔
(٥) جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ کتابت وحی کا کام آپﷺ کی زندگی میں شرو ع ہوچکا تھا۔ کاتبین وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے جن میں مشہور یہ ہیں:
ابوبکر، عمر، عثمان، علی، ابی بن کعب، عبداللہ بن ابی سرح، زبیر بن عوام، خالد بن سعیدبن العاص، ریان بن سعیدبن العاص، حنظلہ بن الربیع، معقیب بن ابی فاطمہ، عبداللہ بن ارقم الزہری، شرجیل بن حسنہ، عبداللہ بن رواحہ، عامر بن فہیرہ، عمرو بن العاص، ثابت بن قیس بن شماس، مغیرہ بن شعبہ، خالد بن ولید، معاویہ بن ابی سفیان، زید بن ثابت رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تدوین قرآن: حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے زمانے میں
اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید کو صحیفوں کی شکل دی گئی۔ حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابوبکررضی اللہ عنہ نے پیغام بھیجا کہ یمامہ کے محاذ پر قراء کرام کثرت سے شہید ہورہے ہیں۔ یاد رہے کہ یمامہ کی لڑائی مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ ان کے پاس ہی تھے۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمررضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہاکہ مقتولین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، مجھے ڈر ہے کہ اگر اسی طرح تیزی سے قراء شہید ہوتے گئے تو قرآن کا بہت سارا حصہ ضائع ہوجائے گا، میرا خیال ہے کہ قرآن کو جمع کرلیاجائے تو میں نے عمررضی اللہ عنہ کو کہا کہ جو کام اللہ کے رسولﷺ نے نہیں کیا، ہم وہ کیسے کرلیں؟ حضرت عمرﷺنے کہا : ھٰذا واﷲ خیر’’اللہ کی قسم! مجھے تو یہ کام بہتر نظر آتاہے۔‘‘ تو حضرت عمررضی اللہ عنہ اس سلسلے میں مجھ سے باربار تقاضا کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میری رائے بھی وہی ہوگئی جو عمررضی اللہ عنہ کی تھی۔
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے حضرت زیدرضی اللہ عنہ کو کہا کہ آپ نوجوان اور عقلمند ہیں، ہمیں آپ پرشک و شبہ کا بھی امکان نہیں۔ آپ اللہ کے رسولﷺ کی وحی لکھتے تھے اور اب آپ ہی قرآن کا تتبع کریں اور اس کو جمع کریں۔ حضرت زیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! مجھے اگر یہ لوگ پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کہتے تو یہ آسان تھا، بہ نسبت اس کے کہ میں قرآن مجید کو جمع کروں تو میں نے کہا : یہ کام آپ کیسے کرنا چاہتے ہیں جو اللہ کے رسولﷺ نے نہیں کیا؟
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کہنے لگے : ھو واﷲ خیر’’ اللہ کی قسم یہ بہتر ہے۔‘‘ اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اس طرح اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا جس کے لیے ابوبکررضی اللہ عنہ اور عمررضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا۔ میں نے پھر قرآن مجید کی جستجو کی اور اسے کھجور کی چھڑیوں، پتوں اور لوگوں کے دلوں سے جمع کرنا شروع کردیا حتیٰ کہ سورۂ توبہ کی آخری آیت ’’لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ‘‘مجھے ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں سے ملی جو کہ کسی کے پاس لکھی ہوئی نہ تھی۔ یہ صحیفے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے پاس رہے، یہاں تک ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد یہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور بعد ازاں اُم المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمررضی اللہ عنہا کے پاس رہے۔ یہ وہ ابتدائی شکل تھی جس میں قرآن کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی۔ (صحیح البخاري:۴۹۸۶)
(٦) مختلف چیزوں پر لکھی گئی آیات کو وصول کرنے کامعاملہ بھی اتنا آسان نہیں رکھا گیاتھا بلکہ احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل طریقوں سے لائی جانے والی آیات کی تصدیق کی جاتی تھی۔
(١) یادداشت سے توثیق کی جاتی۔
(٢)حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حصرت زیدرضی اللہ عنہ دونوں چونکہ حافظ قرآن تھے تو دونوں آیات کو وصول کرتے یعنی حضرت زیدرضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی ا پنے حافظہ سے اس کی توثیق کرتے۔ (فتح الباري:۹؍۱۱)
(٣)کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی جب تک کہ اس کے متعلق دو گواہیاں دستیاب نہ ہوجائیں۔
اس ضمن میں یہ بات یاد رہے کہ مذکورہ بالااقدامات صرف احتیاط کے پیش نظر تھے وگرنہ سینکڑوں صحابہ قرآن کے حافظ تھے اور یہ آیات ان کو یادتھیں لیکن حفظ کے علاوہ کتابت کوملحوظ رکھتے ہوئے آیات کو تب لیاگیا کہ وہ کسی نہ کسی کے پاس لکھی ہوئی موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ براء ت کی آخری آیات’’لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ…الخ‘‘حضرت خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے لکھی ہوئی ملیں(صحیح البخاري:۴۶۷۹)
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے جو صحیفہ مرتب فرمایا اس میں آیات قرآنی کو کاغذ کے مختلف صحیفوں پر مشتمل تھا اور ہر سورہ الگ صحیفہ میں لکھی گئی اس طرح یہ نسخہ مختلف صحیفوں کی شکل میں تھا۔ اوریہ نسخہ اُم کے نام سے معروف ہوا۔ اس نسخہ میں آیات کی ترتیب تو نبیﷺ کے بتائے ہوئے طریقہ پر تھی جبکہ سورتوں کی ترتیب نہ تھی۔ ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے اور یہ نسخہ خط حیری میں لکھا گیا تھا اور اس میں صرف وہ آیات درج تھیں جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھیں۔
حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے لکھوائے ہوئے یہ صحیفے آپ کے پاس رہے آپ کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ کے پاس ، حضرت عمررضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یہ نسخہ اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہاکے پاس رہا۔(فتح الباري :۹؍۱۲۔۱۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تدوین قرآن؛ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں
تدوین قرآن کا آخری دور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پورا ہوا۔ اس کے متعلق صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔وہ اس وقت آرمینیہ اور آذربائیجان کی فتوحات کے لیے عراق اور شام کے مسلمانوں سے مل کر لڑ رہے تھے۔ آپ نے وہاں قراء ۃ کااختلاف دیکھا تو گھبرائے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ امیرالمؤمنین اس اُمت کی اصلاح کیجئے، اس سے پہلے کہ یہود کی طرح یہ بھی قرآن میں اختلاف کرنے لگیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ جو صحیفے آپ کے پاس موجود ہیں، ہمیں دے دیں ہم ان کو مصاحف کی شکل میں نقل کرنا چاہتے ہیں اور نقل کرنے کے بعد آپ کوواپس کردیئے جائیں گے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھیج دیئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زیدبن ثابت، عبدالرحمن بن زبیر، سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔یہ چار آدمی تھے، تین قریشی اور ایک انصاری۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تینوں قریشیوں کو کہا کہ جب تمہارازیدرضی اللہ عنہ سے قرآن میں سے کسی لفظ کے لکھنے میں اختلاف ہو تو اس کو قریش کے رسم پر لکھنا، کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔ انہوں نے اسی طرح کیا، ان صحائف کو مصاحف میں نقل کردیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا والے صحائف انہیں واپس کردیئے اور جو مصاحف ان سے نقل کئے گئے تھے وہ مختلف علاقوں میں بھیج دیئے گئے اور ان کے علاوہ باقی سب مصاحف کو جلا دیا گیا۔ (رقم:۴۹۸۷)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ کے دور میں قرآن منتشر تھا اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید صحیفوں کی شکل میں مرتب کیا گیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں صحیفوں کو مصحف کی شکل میں مرتب کیا گیا اور اس کی بنیاد اسی نسخہ کو بنایا گیا جو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچا تھا۔
(٧) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کتابت قرآن میں درج ذیل امور سرانجام دیئے۔
(١) حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے دورمیں غیر مرتب سورتوں کو ایک مصحف میں ترتیب دیا گیا۔
(٢) قرآن کی آیات کو اس طور پر لکھا گیا کہ ایک رسم الخط میں تمام قراء ات سما جائیں۔
(٣) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود ایک نسخہ سے دیگر نقول تیار کی گئیں اور ان کی تعداد سات تک بتائی جاتی ہے جو مکہ، شام، یمن، بحرین،بصرہ اور کوفہ جبکہ ایک مدینہ میں رکھا گیا۔
(٤) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تیارہونے والا نسخہ کی آیات اور سور کوتحریری مسودات سے ایک بار پھر ملایا گیا۔
(٥) ان مصاحف کی تیاری کے بعد باقی تمام مصاحف جلا دیئے گئے۔ اور اس کام پرتمام صحابہ کااجماع تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لا تقولوا فی عثمان إلا خیرا فواﷲ ما فعل الذی فعل فی المصاحف إلا عن ملأ منا‘‘(فتح الباري)
’’عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کی اچھائی کے سوا کوئی بات نہ کہو اللہ کی قسم انہوں نے مصاحف کے معاملہ میں جوکچھ کیا ہم سب کے مشورہ سے کیا۔‘‘
 
Top