• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ متواترہ کے فقہی اَحکام پر اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء اتِ متواترہ کے فقہی اَحکام پر اَثرات

مولانا محمد شفیق مدنی​
یہ بات تواتر سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سات حروف میں نازل فرمایا ہے۔ اور اس میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ جن میں سے قرآن کریم کو پڑھنے والوں کے لیے آسانی بہم پہنچانا اور قرآنی الفاظ کے ترجمہ وتفسیر‘ معنی ومفہوم اور اَحکام ومسائل کے اَخذ و اِستنباط میں اُمت مرحومہ کے لیے وسعت اور آسانی کی راہیں ہموار کرنا خصوصی اہمیت کی حامل ہیں۔ قرآن مجید کو فقہ اِسلامی میں اصل الاصول اور ماخذ اوّل کی حیثیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہاء کرام نے ہر دور میں قرآن کی متعدد قراء ات پڑھنے، علم قراء ات سیکھنے اور بوقت ِضرور ت قراء کی طرف رجوع کرنے کا بہت اہتمام فرمایا ہے تا کہ قرائاتِ متواترہ اور غیر متواترہ کے درمیان فرق کرنے کے ساتھ ساتھ ان قراء ات سے شرعی اَحکام پر استدلال اور مختلف قراء ات پر مرتب ہونے والے فقہی اَثرات کی نشاندہی کر سکیں۔
قرآن کریم سے اَحکام کے استنباط کرنے میں فقہائے کرام نے قراء اتِ متواترہ کے ساتھ بعض مسائل میں شاذہ قراء ت کو پیش نگاہ رکھا ہے لیکن قراء تِ متواترہ کے بارہ میں فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ اس قراء ت کی مخالفت کرنا جائز نہیں ہے بلکہ قراء تِ متواترہ اور قرآن کریم دراصل ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اس لیے مختلف متواتر قراءات نماز میں تلاوت اور احکام کے استنباط کرنے میں بالکل برابر کی حیثیت رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اُمت کے مختلف مکاتب فکر کے فقہاء کے درمیان بعض مسائل میں اختلاف کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ بعض قراء ات قرآنیہ متعدد اور مختلف معانی کا احتمال رکھتی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
لیکن یہ بات ملحوظ خاطر رہنا ضروری ہے کہ متنوع قراء ات ِقرآنیہ کی وجہ سے احکام فقہ میں اوامر ونواہی اور حلال وحرام میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ یعنی اختلاف تضاد اور تناقض ممکن نہیں ہے کہ ایک ہی لفظ میں ایک قراء ت کے مطابق کسی کام کے کرنے کا حکم دیا جا رہا ہو اور دوسری قراء ت کے مطابق تقاضا ممانعت کا ہو رہا ہو یا ایک قراء ت میں کسی چیز کو حلال اور دوسری قراء ت میں حرام قرار دیا گیا ہو۔ جیسا کہ اِمام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں سبعہ اَحرف والی حدیث میں ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے یہ اضافہ نقل کیا ہے کہ سبعہ اَحرف کی اجازت صرف ایسے اَمر میں تھی جس میں حلال وحرام کا اختلاف واقع نہ ہو۔ کیونکہ کسی لفظ کے متعدد اور متنوع معانی سے ان کا باہمی تضاد لازم نہیں آتا بلکہ بعض مقامات پر ایک قراء ت کا معنی دوسری قراء ت کے معنی میں وسعت اور گہری مناسبت پیدا کر دیتا ہے۔ اور دونوں معانی کا انطباق ایک ہی ذات یا چیز پر ہو رہا ہوتا ہے۔
جیسا کہ سورت فاتحہ میں ’’ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ‘‘ میں دوسری قراء ت ’’ مَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ‘‘ ہے۔ ایک قراء ت کا معنی روز جزاء کا مالک اور دوسری قراء ت کا معنی روز قیامت کا بادشاہ ہے۔ دونوں اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں دونوں قراء توں نے مل کر معنی ومطلب میں وسعت اور مزید نکھار پیدا کر دیا۔ اور بعض دیگر مقامات پر ایک قراء ت دوسری قراء ت کے ساتھ بغیر تضاد اور ٹکراؤ کے نیا فائدہ اور مختلف حکم ثابت کر رہی ہوتی ہے۔ اور کبھی دو قراء توں کے درمیان ظاہری تعارض بھی واقع ہو جاتا ہے اس لیے فقہاء کے نزدیک کسی لفظ میں دو متواتر قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں انہیں دل سے قرآن تسلیم کرنا اور ن کے مقتضٰی کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے اور ان کا معنی ومفہوم اس طرح بیان کیا جائے گا جس طرح کسی ایک مسئلہ میں نازل ہونے والی دو آیات کا بیان کیا جاتا ہے۔ اور اگر دو متواتر قراء توں میں ظاہری تعارض نظر آئے تو اُن کے درمیان جمع وتطبیق کی کوئی صورت نکالنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح دو آیتوں کے درمیان ظاہری تعارض کی صورت میں نکالی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیسا کہ اِمام ابوبکر جصاص﷫ وضوء میں پاؤں کی طہارت کے حکم کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں‘ ایک میں دھونے کا حکم ہے اور دوسری میں مسح کرنے کا۔ کیونکہ ان میں دونوں معانی کا احتمال ہے اس لیے اگر بالفرض اس کے بارے میں دو آیتیں نازل ہو جاتیں‘ ایک کا معنی دھونا ہوتا اور دوسری کا مسح کرنا تو دھونے کے حکم کو مسح کے مقابلہ میں چھوڑنا جائز نہ ہوتا۔ (أحکام القرآن: ۲؍۳۴۶)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’أما القرائۃ الأخری وہي قرائۃ من قرأ ’وأرجلِکم‘ بالخفض فہي لا تخالف السنۃ المتواترۃ إذا القرائتان کالآیتین۔‘‘ (مجموع الفتاوی: ۲۱؍۱۳۱)
’’اور دوسری قراء ت جو کہ أرجلِکم کے لام کے زیر کے ساتھ ہے وہ سنت ِمتواترہ کے مخالف نہیں ہے‘ اس لیے کہ دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں۔‘‘
٭ علامہ صدیق حسن خاں رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
’’وقد تقرر أن القرائتین بمنزلۃ الآیتین فکما أنہ یجب الجمع بین الآیتین المشتملۃ إحداہما علی زیادۃ العمل بتلک الزیادۃ کذلک یجب الجمع بین القرائتین‘‘۔ (نیل المرام: ص ۵۲)
’’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں‘ جس طرح ایسی دو آیتوں کے درمیان تطبیق دینا ضروری ہے جن میں سے ایک زائد عمل پر مشتمل ہو‘ اسی طرح دو قراء توں کے درمیان بھی تطبیق ضروری ہے۔‘‘
٭ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فتح الباری میں رقمطراز ہیں:
’’بین القرائتین تعارض ظاہر والحکم فیما ظاہرہ التعارض أنہ إن أمکن العمل بہما وجب وإلا عمل بالقدر الممکن، ولا یتأتی الجمع بین الغسل والمسح في عضو واحد في حالۃ واحدۃ لأنہ یؤدي إلی تکرار المسح لأن الغسل یتضمن المسح والأمر المطلق لا یقتضي التکرار، فینبغي أن یعمل بہما في حالین توفیقا بین القرائتین وعملا بالقدر الممکن‘‘۔(فتح الباری: ۱؍۳۴۶)
’’دو قراء توں کے درمیان ظاہری تعارض ہے اور ظاہری تعارض والے دلائل کا حکم یہ ہے کہ اگر دونوں پر عمل کرنا ممکن ہو تو یہی ضروری ہو گا ورنہ ممکن حد تک دونوں پر عمل کیا جائے گا۔ اور یہاں (آیت وضو میں) ایک عضو میں اس کا دھونا اور اسی پر مسح کرنا ایک ہی حالت میں جمع نہیں ہو سکتے‘ کیونکہ اس سے مسح کا تکرار لازم آتا ہے۔ کیونکہ پاؤں کو دھونا مسح کرنے کو بھی شامل ہے جبکہ اس میں امر مطلق تکرار کا تقاضا نہیں کرتا۔ چنانچہ جو صورت باقی رہی وہ یہ ہے کہ دونوں قراء توں پر دو مختلف حالتوں میں عمل کیا جائے تا کہ دونوں قراء توں کے درمیان تطبیق ہو جائے اور بقدرِ امکان عمل بھی ہو جائے۔‘‘
ذیل میں ہم چند ایسی آیات کا بطور مثال ذکر کرتے ہیں جن میں ایک سے زائد قراء تیں ثابت ہیں‘ تا کہ ان قراء ات پر مرتب ہونے والے فقہی اَحکام کی وضاحت ہو سکے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر ۱: مقام ابراہیم علیہ السلام پر نماز پڑھنے کا حکم
اِرشاد الٰہی ہے:
’’ وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہِمَ مُصَلیًّ‘‘ (البقرۃ: ۱۲۵)
اس آیت کریمہ میں لفظ ’’ وَاتَّخِذُوْا ‘‘ میں دو قراء تیں ثابت ہیں امام نافع اور امام ابن عامر شامی نے اسے خاء کے فتح یعنی فعل ماضی کے صیغہ سے پڑھا ہے۔ جو خبر کا فائدہ دیتا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اولاد ابراہیم نے مقام ابراہیم کو جائے نماز بنایاتھا اور اس میں دوسری قراء ت ’’ وَاتَّخِذُوْا ‘‘ صیغہ اَمر کے ساتھ ہے۔ یہ باقی قراء ِکرام کی قراء ت ہے۔ جس کی رُو سے اُمت محمدیہ کو مقام ابراہیم پر نماز ادا کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ یہ چونکہ صیغہ اَمر ہے اور اَمر وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔
اس مسئلہ میں فقہاء کرام کے مابین اختلاف ہے کہ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
امام مالک‘ امام احمد اور امام شافعی رحمہم اللہ نے اپنے ایک قول میں اس کو سنت کہا ہے جبکہ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی رحمہما اللہ نے دوسرے قول میں اس کو واجب کہا ہے۔
فقہاء کے مابین اس اِختلاف کی وجہ یہ ہے کہ آیت کریمہ میں قراء تِ متواترہ باہم مختلف ہیں‘ جن فقہاء نے صیغہ خبر والی قراء ت سے اِستدلال کیا ہے انہوں نے مقام ابراہیم کے پیچھے نماز کو سنت قرار دیا ہے اور جنہوں نے صیغہ اَمر والی قراء ت سے استدلال کیا ہے انہوں نے اسے واجب کہا ہے لیکن کسی فقیہ نے مقام ابراہیم پر نماز کو ممنوع قرار نہیں دیا بلکہ سب کا اس کی مشروعیت پر اتفاق ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر ۲:مسجد حرام میں لڑائی کا حکم
اِرشاد الٰہی ہے:
’’ وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْہُمْ ‘‘ (البقرۃ: ۱۹۱)
اس آیت کریمہ میں تین افعال ’تُقٰتِلُوْہُمْ‘، ’یُقٰتِلُوْکُمْ‘، ’قٰتَلُوْکُمْ‘ میں دو متواتر قراء تیں ہیں۔
قرائے عشرہ میں سے امام کسائی‘ امام حمزہ اور خلف نے ’الف‘ کو حذف کرکے انہیں فعل ثلاثی سے پڑھا ہے۔ جبکہ باقی قراء ِکرام نے ’الف‘ کے اثبات کے ساتھ باب مفاعلۃ سے پڑھا ہے۔
فقہائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مسجد حرام میں قتال سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اور کسی مسلمان کے لیے کافر یا مشرک سے قتال کرنا جائز نہیں ہے جب تک کہ کوئی کافر مسلمان سے قتال کی ابتداء نہیں کرتا کیونکہ ایسی حالت میں مسلمان صرف دفاعی پوزیشن میں ہو گا۔ ’الف‘ کے اِثبات والی قراء ت اس مسئلہ میں بہت واضح ہے۔ البتہ فقہاء کا اختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ مسجد ِحرام میں حدود و قصاص کے طور پر مشرک یا کافر کو قتل کرنا جائز ہے یا کہ نہیں، امام مالک رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ امام احمدرحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس کو ناجائز قرار دیا ہے۔
فقہاء کے اس اختلاف کا سبب۔ آیت کریمہ میں قراء تِ متواترہ کا تنوع ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ نے دوسری قراء ت سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ اس کافر مشرک کو حدود ِحرم میں بھی قتل کیا جاسکتا ہے جو موجب ِقتل کام کر کے مسجد حرام میں پناہ گزیں ہو جائے۔ جبکہ باقی فقہاء نے پہلی قراء ت کو بنیاد بناکر اس سے منع کردیا ہے۔ دونوں قراء توں کے معانی میں ظاہری تعارض کو بعض علماء نے اس طرح رفع کیا ہے کہ حرم میں عام حالات میں تو کسی کافر کا خون بہانا یا اس پر حد لگانا جائز نہیں ہے‘ ہاں اگر کوئی کافر مسلمانوں کو مجبور کر دے کہ ان کی کوشش کے باوجود مسجد حرام سے باہر نہ نکل رہا ہو‘ بلکہ فتنہ وفساد اور مسلمانوں سے قتال اور ان کا قتل شروع کر دے تو مسلمانوں کیلئے بھی اس سے قتال اور اس کا قتل جائز ہو گا جیسا کہ امام شوکانی رحمہ اللہ اور صنعانی رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔(نیل الأوطار: ۴؍۷۱‘ سبل السلام: ۴؍۷۲-۷۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر ۳:حائضہ عورت سے اِستمتاع کا حکم
فقہائے کرام کے نزدیک اس بات پر اتفاق ہے کہ ایامِ حیض کے دوران بیوی سے ہم بستری کرنا بالکل حرام ہے البتہ اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ، کیا حیض کا خون منقطع ہونے کے بعد اور غسل سے قبل عورت سے صحبت کی جاسکتی ہے؟ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ جمہور فقہاء نے اس سے منع کیا ہے۔
فقہاء کے مابین اِختلاف کا سبب، قراء ت متواترہ کا باہمی اختلاف ہے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’ وَ لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَأْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ أَمَرَکُمُ اللّٰہُ ‘‘ (البقرۃ: ۲۲۲)
اس آیت کریمہ میں دو قراء تیں پائی جاتی ہیں۔ ایک قراء ت ’’ یَطْھُرْنَ ‘‘ میں طاء کی تخفیف کے ساتھ ہے یہ جمہور قراء کی قراء ت ہے جبکہ دوسری قراء ت امام حمزہ، کسائی اور خلف کی ہے۔ جس میں ’’ یَطَّھَّرْنَ ‘‘ کو طاء اور ھا کی تشدید اور فتحہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے جمہور کی قراء ت سے استدلا ل کرکے طہارت سے مراد انقطاع دم لیاہے اور بعد والے لفظ ’فإذا تطہرن‘ کامعنی بھی انقطاع دم کر دیا ہے، جبکہ جمہور فقہاء نے امام کسائی رحمہ اللہ وغیرہ کی قراء ت کی بنیاد پر غسل حیض تک جماع کی اِجازت نہیں دی خواہ خون آنا بند ہوچکا ہو۔ اور انہوں نے تخفیف والی قراء ت کو شد والی قراء ت کے معنی میں کر کے دونوں قراء توں کا معنی ایک کر دیا ہے اور ان کے نزدیک دونوں قراء توں کے درمیان تطبیق کی صورت یہ بھی ہے کہ شد والی قراء ت کا معنی انقطاع دم ہی کر لیا جائے، لیکن شوہر کے لیے غسل سے قبل بیوی سے صحبت جائز نہیں ہو گی کیونکہ بعد میں ’’ فَاِذَا تَطَہَّرْنَ فَاْتُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ‘‘ کی شرط اس پر دلالت کرتی ہے اور احناف نے دونوں قراء توں کے ظاہری تعارض کو دور کرنے کے لیے تخفیف والی قراء ت کو دس دنوں کے بعد انقطاع دم پر محمول کیا ہے اور شد والی قراء ت کو دس دنوں سے کم مدت میں خون منقطع پر محمول کیا ہے۔
اور اَحناف کے نزدیک کبھی شد والی قراء ات کی بناء پر غسل سے قبل بیوی سے وطی کرنا اگرچہ جائز ہے لیکن یہ عمل اِستحباب کے خلاف ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر۴: کاتب اورگواہ کیلئے اِیذا ر سانی کی ممانعت
اِسلام نے جہاں مالی معاہدات کو لکھنے کا حکم صادر فرمایاہے وہاں ایک دوسرے کوتکلیف دینے سے بھی منع کردیا ہے۔
اِرشاد الٰہی ہے:’’لَا یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَھِیْدٌ‘‘ (البقرہ: ۲۸۲)
لفظ ’یضار‘ کو ابن کثیر اور بصری قراء ِکرام نے راء کے رفع کے ساتھ پڑھا ہے۔ گویا کہ اس میں لائے نافیہ ہے اور فعل مضارع مرفوع ہے۔ باقی قرائِ کرام نے اِس کو فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ گویا کہ ان کے نزدیک یہ لائے ناہیہ ہے اور فعل مضارع مجزوم ہے۔ رفع والی قراء ت میں حکم کا تعلق صاحبِ حق سے ہوگا کہ وہ کاتب اور گواہ کو نقصان نہ پہنچا ئے یعنی انہیں کتابت اور گواہی میں مصروف رکھ کر انکے ضروری کام متاثر نہ کر دے جبکہ منصوب قراء ت میں حکم کا تعلق کاتب اور شہید سے ہوگا۔یعنی گواہ گواہی چھپا کر یا جھوٹی گواہی دے کر صاحبِ حق کو نقصان نہ پہنچائے اورکاتب ضرورت کے وقت لکھنے سے انکار کر کے یا لکھوائی جانے والی بات میں تبدیلی کر کے صاحب ِحق پر ظلم نہ کرے۔
لیکن دونوں قراء توں کے معانی مختلف ہونے کے باوجود ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ دونوں قرائاتیں دوسرے شخص کی ضرر رسانی کی حرمت پر متفق ہیں اور اسلام میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ وہ ضرر او رنقصان کی کسی صورت کی اِجازت نہیں دیتا رسول اللہﷺکا فرمان ہے:’’لَا ضَرَرَ وَلَا ضرَارَ‘‘۔ (سنن ابن ماجہ: ۲۳۴۱، قال الشیخ الألبانی: صحیح)
اور اس پر تمام فقہاء بھی متفق ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر۵ : ’سلم‘ میں داخل ہونا
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’ یٰٓأَیُّہَا الَّذِینَ ئَامَنُوا ادْخُلُوا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً …‘‘ (البقرۃ: ۲۰۸)
اس آیت ِکریمہ کے کلمہ ’’السِّلم‘‘ میں دو متواتر قراء تیں وارد ہیں:
ابن کثیر مکی اور کسائی رحمہما اللہ نے اسے سین کے فتحہ اور لام کے سکون سے (السَّلْم) سے پڑھا ہے اور باقی قراء کرام اسے سین کے کسرہ اور لام کے سکون سے (السِّلْم) پڑھتے ہیں۔
بعض علماء کے ہاں دونوں قراء تیں دو لغتیں ہیں جن کا معنی ایک ہی ہے، جبکہ دیگر بعض علماء کے ہاں ہر قراء ت کا معنی دوسری قراء ت سے مختلف ہے۔
سین کے کسرہ والی قراء ت (السِّلم) سے مراد اسلام ہے یعنی اس کا معنی یہ ہوگا کہ اے ایمان والو! اسلام میں اس طرح داخل ہوجائو کہ اس کی تمام تعلیمات، احکام وآداب اور اوامر ونواہی کے ذمہ دار اور پابندی کرنے والے بن جاؤ۔ اور سین کے فتحہ والی قراء ت (السَّلم) سے مراد صلح اور امن ہے اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اے مؤمنو! تمہارے ایمان کا یہ تقاضا ہے کہ تم دین کی مدد کیلئے آپس میں اتحاد واتفاق سے رہو اور ایک دوسرے سے دشمنی اور علیحدگی اختیار کرنے کی بجائے صلح جو اور امن پسند بن کر زندگی گزارو۔
واضح رہے کہ دونوں قراء توں کے درمیان یہ ظاہری تعارض تناقض نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان تطبیق ممکن ہے اور اس کی صورت یہ ہے کہ فتحہ والی قراء ت سے ثابت ہو رہا ہے کہ بعض دفعہ دشمن سے صلح کرنے میں اسلام کا بہت بڑا فائدہ ہوتا ہے اور اس سے یہ مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے کہ مسلمان قتل وغارت سے اور ان کا مال اور وطن ضائع ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ اور سین کے کسرہ والی قراء ت کے مطابق اسلام میں مکمل طریقے سے داخل ہونے بھی بہت بڑی مصلحت ہے کیونکہ اللہ کی اطاعت اور اس کی رضا کے مطابق عمل کرنا ہم سب پر واجب اور ضروری ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر۶: عورت کو چھونے سے وضو کا حکم
فقہائِ کرام کا اس مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے کہ عورت کو چھونے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے یا کہ نہیں؟ حنفیہ کا خیال ہے کہ محض عورت کو چھونے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ شافعیہ کا خیال ہے کہ مطلقا عورت کو مس کرنے سے ہی وضو ٹوٹ جائے گا۔ مالکیہ کے نزدیک اگر لذت کی غرض سے ہاتھ لگاتا ہے تو وضو ٹوٹے گا جبکہ حنابلہ کہتے ہیں کہ شہوت کے ساتھ چھونے سے وضو ٹوٹ جائے گا۔
فقہائے کرام کے اختلاف کا سبب یہ ہے کہ آیت کریمہ میں مختلف قراء ات پائی جاتی ہیں۔
اِرشاد باری تعالی ہے:
’’وَإِنْ کُنْتُمْ مَرْضٰٓی أَوْ عَلـی سَفَرٍ أَوْ جَآئَ أَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآپطِ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا ‘‘ (المائدۃ: ۶)
اس آیتِ کریمہ میں دو قراء تیں ہیں۔ امام حمزہ، کسائی اور خلف نے ’’لٰمَسْتُمُ‘‘ کو الف کے بغیر ’’لَمَسْتُمُ‘‘ پڑھا ہے جبکہ جمہور قراء ِکرام نے اس کو الف کے اثبات کے ساتھ پڑھا ہے۔ فقہائے حنفیہ نے جمہور کی قراء ت کی بنا پر اس کی تقسیر جماع کے ساتھ کی ہے۔ شافعیہ نے امام حمزہ وغیرہ کی قراء ت کی رو سے ہر قسم کے لمس کو ناقص وضو قرار دیا ہے۔ جبکہ فقہائے مالکیہ اور فقہائے حنابلہ کے نزدیک اس سے ہر قسم کا لمس مراد نہیں ہے بلکہ وہ لمس مراد ہے جو وضو کے لئے ناقض ہو یعنی جس میں لذت یا شہوت پائی جاتی ہو۔ بہرحال اِس مسئلہ میں اختلاف کی بنیاد دراصل قراء ت کے اختلاف پر ہی ہے۔
 
Top