• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء اتِ متواترہ کے فقہی اَحکام پر اَثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء تِ شاذہ کے فقہی اَحکام پر اَثرات
جس قراء ت میں قراء ت ِمتواترہ کی تمام شرائط نہ پائی جائیں وہ قراء ت، قراء تِ شاذہ کہلاتی ہے۔ گویا جس قراء ت کی سند صحیح نہ ہو، یا وہ رسم عثمانی کے موافق نہ ہو، یا لغت ِعربی جس کا احتمال نہ رکھتی ہو، یا جس کی سند میں تواتر نہ پایا جاتا ہو، وہ قراء ت، قراء ت ِشاذہ ہوگی۔ البتہ ایسی قراء ات جو لغتِ عرب اور رسم ِعثمانی کے موافق ہیں لیکن ان کی سندیں موجود نہیں ہیں ان کو شاذہ کے بجائے مکذوبہ یا موضوعہ کہا جاتا ہے۔ قراء تِ شاذہ کو قرآن نہ سمجھتے ہوئے خبر واحد یا تفسیر کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے۔ اور ان سے اَحکام شریعہ پر استدلال کیا جاسکتا ہے یا کہ نہیں؟ فقہائے اَربعہ کے مابین اس کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اِستنباط اَحکام کے سلسلہ میں فقہائے اَحناف قراء تِ شاذہ سے استدلال اور اس کی حجیت پر متفق ہیں۔ البتہ ان کے نزدیک اس کی سند کا صحیح ہونا اس پر عمل کرنے کی شرط ہے اور جنابلہ کے نزدیک بھی قراء تِ شاذہ حجت ہے۔ اس لیے نے اُن کے ہاں بھی اَحناف کی طرح قسم کے کفارہ میں روزے مسلسل رکھنے ضروری ہیں کیونکہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ اور اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں ’فصیام ثلاثۃ أیام متتابعات ‘ کے اَلفاظ ہیں ان کے ہاں اگر یہ قرآن نہیں تو مرفوع خبر ضرور ہے جسے راوی نے قرآن سمجھ لیا ہے لہٰذا اس کا رتبہ خبر واحد کا ہے اور یہ قرآنی آیت کی نبوی تفسیر ہے، مالکیہ میں قراء ت شاذہ کی حجیت اور عدم ِحجیت پر اختلاف رائے پایا جاتا ہے، یہی حال شافعیہ کا بھی ہے۔ ان دونوں مکاتب فکر میں اِستنباط اَحکام پر دو دو آراء پائی جاتی ہیں۔ تاہم اَمثلہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے بھی قراء تِ شاذہ سے مسائل کے اِستنباط میں بھرپور اِستفادہ کیا ہے ۔لیکن جہاں مالکیہ نے شاذہ قراء ات سے استدلال کو رد کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تائید دیگر اَخبار سے نہیں ہوئی یا اس قراء ت کے معنی پر انہیں اِطمینان حاصل نہیں ہوا اور جہاں قراء اتِ شاذہ قوی سند سے ثابت ہے اور کسی اور دلیل سے اس کے معنی کی تائید ہوتی ہے تو اُسے وہ قبول کر لیتے ہیں جیسا کہ اَخیافی بھائیوں کی وراثت کے مسئلہ میں اُنہوں نے شاذہ قراء ات پر عمل کیا ہے کیونکہ اس کی تائید اِجماع سے ہو رہی ہے۔
اِسی طرح شافعیہ بھی تفسیری قراء اتِ شاذہ کو قبول کرتے ہیں اور اس کے مقتضٰی کے مطابق عمل پیرا ہوتے ہیں بشرطیکہ اُس کی سند صحیح اور کوئی صحیح روایت اس کے معارض نہ ہو۔اِس اِجمالی بحث سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اَئمہ اَربعہ اور مذاہبِ اربعہ کے فقہاء ِکرام بعض شرائط کے ساتھ قراء اتِ شاذہ کی حجیت کے قائل ہیں۔ فقہ اِسلامی پر قراء ت شاذہ کا کیا اَثر پڑتا ہے؟ اور فقہائے کرام نے ان سے کیسے استدلال کیا ہے؟ ذیل میں چند اَمثلہ اس ضمن میں پیش کی جارہی ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر۱: صلوٰۃ وسطیٰ کا مسئلہ
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں نماز پنجگانہ کی پابندی کرنے پر متنبہ فرمایا ہے۔ اس ضمن میں ساتھ ہی صلوٰۃ وسطیٰ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد کون سے نماز ہے جس کی تاکید نماز پنجگانہ کے متصل بعد ہی کردی گئی ہے؟
صلوٰۃ وسطیٰ کی تعیین میں فقہائے کرام کے مختلف اَقوال ہیں۔ حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک صلوٰۃ وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ مالکیہ میں سے ابن العربی رحمہ اللہ اور ابن عطیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ صلوٰۃ وسطیٰ سے بعض فقہاء کے نزدیک فجر کی نماز مراد ہے۔ یہ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا مؤقف ہے۔
فقہاء کے مابین اس اِختلاف کا سبب قراء تِ شاذہ ہے۔
اِرشاد الٰہی ہے:’’ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا ِﷲِ قٰنِتِیْنَ ‘‘ (البقرۃ: ۲۳۸)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مصاحف میں ’والصلوٰۃ الوسطیٰ‘ کے بعد ’وھی صلوٰۃ العصر‘ کے اَلفاط بھی وارد ہوئے ہیں۔ فقہاء میں اختلاف کا سبب یہی الفاظ ہیں جو قراء تِ شاذہ کے قبیل سے ہیں۔ جن فقہاء کے ہاں اس سے مراد نماز عصر ہے وہ اس مقام پر ’واؤ‘ کو عاطفہ کہتے ہیں اور جن کے نزدیک اس سے عصر کی نماز مراد نہیں ہے انہوں نے ’واؤ‘ کو مغایرت کا نام دیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر۲: روزوں کی قضائی کا حکم
صورت مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص سے رمضان المبارک میں دو یا دو سے زیادہ روزے رہ جائیں تو ان کی قضاء کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ آیا یہ روزے مسلسل رکھے جائیں گے یا ان کے درمیان وقفہ بھی کیا جاسکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت کے بعد ان کی قضا کا بیان بھی کیا ہے۔
اِرشاد ربانی ہے:’’یٰٓــــأَیــــھَا الَّذِیْنَ ئَامَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ٭ أَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا أَوْ عَلـی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ ‘‘(البقرۃ: ۱۸۳۔۱۸۴)
قضائے صیام کے مسئلہ میں فقہائے کرام میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ قضائے صیام میں تسلسل کو شرط قرار دیتے ہیں۔ داؤد ظاہری کے نزدیک تسلسل شرط نہیں بلکہ واجب ہے۔ اس کے برعکس ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کا مؤقف یہ ہے کہ قضائے صیام میں تسلسل شرط نہیں ہے البتہ مستحب ضرور ہے۔
فقہاء کے مابین اس مسئلہ میں اختلاف کی ایک وجہ قراء تِ شاذہ ہے جو حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ’فعدۃ من أیام أخر متتابعات‘ اس میں متتابعات کا اِضافہ ہے۔ جبکہ قراء تِ متواترہ کے ظاہر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا میں تسلسل شرط نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان وقفہ بھی کیا جاسکتاہے۔ لیکن قراء تِ شاذہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قضائے صیام میں تسلسل شرط ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قراء تِ متواترہ میں قضائے صیام کا حکم مطلق تھا لیکن قراء تِ شاذہ نے اس مطلق حکم کو مقید کردیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر۳: وجوب عمرہ کا مسئلہ
شریعتِ اسلامیہ کی رو سے زندگی میں ایک دفعہ صاحب حیثیت مکلف انسان پر حج بیت اللہ کی ادائیگی کو فرض قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اِختلاف اس مسئلہ میں ہے کہ کیا عمرہ بھی زندگی میں ایک دفعہ اَدا کرنا فرض ہے یا کہ نہیں؟
اس مسئلہ کے بارہ میں فقہاء کے درمیان دو مؤقف پائے جاتے ہیں۔ پہلا مؤقف شافعیہ اور حنابلہ کا ہے۔ جو عمرہ کو حج کی مانند فرض قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرا مؤقف حنفیہ اور مالکیہ کا ہے۔ جن کے نزدیک زندگی میں ایک دفعہ عمرہ اَدا کرنا سنت مؤکدہ ہے۔
فقہاء کے مابین اس اِختلاف کی ایک وجہ قراء تِ شاذہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ ‘‘ (البقرۃ: ۱۹۶)
اِس آیتِ کریمہ میں قراء ت ِمتواترہ کے پیش نگاہ ’’العمرۃ‘‘ کو نصب کے ساتھ پڑھا گیا ہے جبکہ اس کو رفع کے ساتھ پڑھنا ایک شاذ قراء ت ہے۔ عمرہ کو فرض قرا ر دینے والے فقہاء نے نصب والی متواتر قراء ت سے اِستدلال کیا ہے کہ عمرہ کے لیے بھی فعل اَمر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ عمرہ کو فرض قرار دیا جائے جبکہ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ ’’العمرۃ ﷲ‘‘ میں ایک جملہ خیریہ کا بیان ہے کہ جس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ عمرہ خالص اللہ کے لیے ہے اور اس میں مشرکین کی مانند بتوں کو شریک کرنا درست نہیں ہے۔ لہٰذا عمرہ فرض نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مثال نمبر ۴: چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم
اِسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب مال مسروقہ اسلام کے مقرر کردہ نصاب تک پہنچ جائے گا تو چور کا دایاں ہاتھ کاٹیں گے یا بایاں؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس آیتِ مبارکہ میں حدِ سرقہ بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے: ’’ وَ السَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا أَیْدِیَھُمَا ‘‘ (المائدۃ: ۳۸)
یہ اَئمہ عشرہ کی قراء ت ہے۔ جو متواترہ ہے جس کی رُو سے چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن یہ بیان نہیں کیا گیا کہ اس کا کون سا ہاتھ کاٹا جائے گا؟
لیکن فقہائے اُمت کا اس بات پر اِتفاق ہے کہ جب پہلی دفعہ کسی شخص پر چوری کا جرم ثابت ہوجائے اور چوری کا سامان بھی مقررہ نصاب تک پہنچ جائے تو چور کا دایاں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔
اس اجماع کی ایک دلیل قراء تِ شاذہ کا ورود ہے۔
یہ عبداللہ بن مسعود w کی قراء ت ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں:
’’وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا أَیْمَانَھُمَا۔‘‘ (السنن الکبری للبیہقي: ۸؍۲۷۰)
اس کا مطلب یہ ہے کہ قراء ت متواترہ میں چور کا مطلق ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے اور یہ قید نہیں ہے کہ کون سا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ لیکن قراء ت شاذہ دائیں ہاتھ کے کاٹنے کو متعین کررہی ہے۔ گویا اس حکم کا مدار اجتہاد پر نہیں بلکہ نص پر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مسئلہ نمبر۵: آغازِ عدت کا مسئلہ
شریعت اِسلامیہ میں شوہر کو یہ حکم دیاگیا کہ وہ اپنی بیوی کو طہر کی حالت میں طلاق دے گا۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اَیام عدت کا آغاز طلاق دینے کے فوراً بعد شروع ہوجائے گا، یا اَیام عدت کی گنتی طلاق کے بعد آنے والے حیض سے شروع ہوگی؟
فقہاء ِکرام کے ہاں یہ ایک معرکہ آرا مسئلہ ہے۔ جس کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ’ثلاثۃ قروء‘ میں قرء سے مراد حیض ہے یا طہر ہے؟ اس بارہ میں دو آراء پائی جاتی ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک اس سے مراد طہر ہے۔ اِس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمدرحمہ اللہ کی رائے میں قروء سے مراد حیض ہے۔
اِرشاد الٰہی ہے: ’’اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ‘‘اس میں ایک شاذ قراء ت ’فطلقوہن بقبل عدتہن ‘ بھی ہے۔
امام شافعیa فرماتے ہیں کہ مجھے شک تھا کہ عدت میں اعتبار حیض کا ہوگا یا طہر کا؟ لیکن اس قراء تِ شاذہ کے بعد میرا شک رفع ہوگیا۔ لہٰذا عدت سے مراد طہر ہی ہے۔یعنی طلاق کے فوراً بعد عدت کا آغاز ہوجائے گا۔ لہٰذا طہر ہی کو قرؤ کی تفسیر سمجھنا چاہئے کیونکہ اگر ہم حیض کو عدت قرار دیتے ہیں تو طہر کی حالت میں دی جانے والی طلاق عدت کے آغاز میں نہیں ہوگی بلکہ طہر کے اِختتام کے بعد عدت کا حیض سے آغاز ہوگا جو قراء تِ شاذہ کے الفاظ کی رُو سے صحیح نہیں ہے۔
٭_____٭_____٭
 
Top