• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات قرآنیہ کی اَساس…تلقّی وسماع

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء ات قرآنیہ کی اَساس…تلقّی وسماع

قاری صہیب احمد میر محمدی​
ہم قراء ات سبعہ وعشرہ متواترہ کی نشاۃ و تدوین کو دو مرحلوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱ مرحلہ اولیٰ: اس بحث پر مشتمل ہے کہ ان قراء ات کا اصل مصدر تلقی وسماع عن النبی ہے۔
۲ مرحلہ ثانیہ: یہ تدوین قراء ات کے بارے میں علی الاختصار بحث پر مشتمل ہے۔
(١) مرحلہ اولیٰ:قراء اتِ سبعہ وعشرہ جو ثبوت میں تواترکا درجہ رکھتی ہیں ان میں اصل مصدر سماع عن النبی ہے۔قرآن کریم کی پہلی وحی ’’إقْرَأ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔خَلَقَ الِانْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۔ اِقْرَأ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الِانْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ‘‘(العلق:۱تا۵)کے الفاظ سے ہے۔ اور آخری وحی راجح قول کے مطابق ’’وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اﷲِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَا کَسَبَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ‘‘ ہے۔(البقرۃ:۲۸۱)
ابتدائے وحی کے متصل بعد سب سے بڑی چیز جس کا حکم ہوا وہ’’ قُرْاٰنًا فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَاٰہُ عَلَی النَّاسِ عَلٰی مُکْثٍ وَّنَزَّلْنَاہُ تَنْزِیْلًا‘‘(الاسراء: ۱۰۶)کے الفاظ میں موجودہے ۔چنانچہ اسی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپﷺنے صحابہ کو وحی کے مطابق ایک کامل واَکمل طریقہ پرکتاب وحکمت کی تعلیم دی۔جس طرح آپﷺصحابہ کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے، خود بھی اس کے ضبط کرنے میں بڑے حریص تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عبداللہ عباس﷜بیان فرماتے ہیں کہ:
کان رسو ل اﷲﷺ یعالج من التنزیل شدۃ وکان مما یحرک شفتیہ فأنزل اﷲ ’’لاتحرک بہ لسانک لتعجل بہ۔ إن علینا جمعہ وقرآنہ‘‘ فکان رسول اﷲﷺ بعد ذلک إذا أتاہ جبریل استمع فاذا انطلق جبریل قرأہ النبیﷺ کما قرأہ۔ (صحیح بخاری: کتاب بدأ الوحی)
’’نزول وحی کے وقت آپﷺفوراً وحی کو یاد کرنے کی کوشش کرتے (کہ کہیں بھول نہ جائے) تو اللہ تعالیٰ نے ’’لَاتُحَرِّک بِہِ لِسَانَک لِتَعْجَلَ بِہ…‘‘(القیامۃ:۱۶) آیت اتاری کہ آپﷺاپنی زبان کو جلدی جلدی حرکت نہ دیں کیونکہ اس کو محفوظ کرنا اور تلاوت سکھلانا ہماری ذمہ داری ہے۔تواس کے بعد جب جبریل﷤آتے تورسول اللہﷺغور سے سنتے رہتے اور جبریل﷤کے جانے کے بعد ویساہی پڑھتے جیسا جبریل﷤پڑھا کرجاتے تھے۔‘‘
آپﷺنزول وحی کے وقت فوراً وحی کواس لیے یاد کرناشروع کر دیتے تھے کیونکہ آپﷺکے ذمہ قرآن کریم کو بعینہٖ آگے منتقل کرنا بھی فرض تھا۔ اس ذمہ داری کی وجہ سے آپ ﷺکو خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں بھول نہ جاؤں۔
جس طریقے سے آپﷺقرآن کریم اَخذ کرتے تھے اسے تلقِّی کہتے ہیں اور نقل قرآن میں یہ بنیادی شرط ہے۔وحی کا سلسلہ یوں ہی چلتارہا پھرآپﷺ کا معمول یہ بن گیا کہ ہرسال رمضان المبارک میں جبریل﷤ کے ساتھ قرآن کا دور کرتے جیسا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ:
’’ أسرَّ إلی النبیﷺ أن جبریل کان یعارضنی بالقرآن کل سنۃ وأنہ عارضنی العام مرتین ولا أراہ إلا حضر أجلی‘‘(صحیح البخاري:۳۶۲۴)
’’جبریل﷤ ہرسال آپﷺکے ساتھ دور کرتے اور آخری سال دو مرتبہ دور کیا۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح ابن عباس﷜سے روایت ہے کہ
’’ کان النبیﷺ أجود الناس وأجود ما یکون فی شھر رمضان لان جبریل کان یلقاہ فی کل لیلۃ فی شھر رمضان حتی ینسلخ یعرض علیہ رسو ل اﷲ القرآن ‘‘(صحیح البخاري:۴۹۹۷)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ آپﷺرمضان میں جبرئیل﷤کے ساتھ قرآن کا دور کرتے تھے۔اسی طرح امام بخاری﷫نے مذکورہ حدیث کے بعد ابوہریرہ﷜سے روایت نقل کی ہے کہ
’’کان یعرض علی النبی القرآن کل عام مرۃ فعرض علیہ مرتین فی العام الذی قبض فیہ وکان یعتکف فی کل عام عشرا فاعتکف عشرین فی العام قبض فیہ‘‘
اس حدیث سے یہی واضح ہوتاہے کہ آپﷺہرسال جبریل﷤کے ساتھ قرآن کادور کرتے اورزندگی کے آخری سال دومرتبہ دورکیا۔ یہ دلائل آپﷺکے جبرئیل﷤ سے مشافہہ اور تلقی سے قرآن کے حاصل کرنے پر دال ہیں۔ پھر اللہ کے رسو لﷺنے اسی طرح صحابہ کو سکھلایا۔ چنانچہ ابن الجزری﷫غایۃ النہایہ: ۱؍ ۴۵۸،۴۵۹پر اور دکتور محمدحسین الذہبی﷫ التفسیر والمفسرون کی جلد۱،ص۸۶ پر ابن مسعود ﷜سے روایت نقل کرتے ہیں کہ:
’’حفظت من فی النبی بضعۃ وسبعین سورۃ ‘‘
’’ میں نے ستر(۷۰) سے زائد سورتیں رسول اللہﷺ سے مشافہۃیاد کیں ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
واضح رہنا چاہیے کہ تعلیم کے دو طریقے ہیں:(١) شیخ پڑھے اورشاگرد سماعت کرے (٢)شاگردپڑھے اور شیخ تصحیح کرائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود﷜۷۰ سے زائدسورتیں پہلے طریقے کے مطابق یاد کیں اوربقیہ خود یاد کرکے ان پر پڑھیں۔ اسی طرح بخاری کتاب الاستئذان حدیث نمبر ۶۲۶۵ ابن مسعود﷜ سے روایت کرتے ہیں کہ
’’علمنی رسول اﷲ وکفی بین کفیہ التشہد کما یعلمنی السورۃ من القرآن ‘‘
’’آپﷺنے مجھے تشہد اس طرح سکھلایا جیسے قرآنی سورت سکھلاتے تھے اور میری ہتھیلی آپ کی ہتھیلی میں تھی۔‘‘
گویا کہ قرآن کریم کوصحابہ کرام ﷢نے رسول اللہﷺسے بالمشافہ سماعاً وعرضاً حاصل کیا۔
اسی طرح صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ (حدیث نمبر ۴۰۳ا)میں ابن عباس سے روایت ہے کہ:
’’کان رسول اﷲﷺ یعلمّنا التشہد کما یعلمّنا السورۃ من القرآن‘‘
’’رسول اللہﷺہمیں تشہد اس طرح سکھلاتے تھے جیسے قرآن کریم کی کوئی سورت سکھلاتے تھے۔‘‘
اس سے یہ واضح ثبوت ملتاہے کہ جس طرح آپﷺ تشہدکے کلمات سکھلاتے تھے اسی طرح قرآن بھی سکھلاتے تھے۔
اسی طرح تفسیرطبری :۱؍۸۰ پرحضرت عبداللہ بن مسعود﷜سے مروی ہے کہ :
’’کان الرجل منا إذا تعلم عشر آیات لم یجاوزہن حتی یعرف معانیہن والعمل بہن‘‘
’’ہم میں سے کوئی شخص دس آیات سیکھنے کے بعد اس وقت تک آگے نہ سیکھتا جب تک ان کے معانی ومطالب سے متعارف نہ ہوجاتا اور عمل نہ کرلیتا ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ صحابہ کرام﷢عمل کرنے کے بعد مزید قرآن کریم سیکھتے تھے۔
اسی طر ح ابوعبد الرحمن السلمی﷫ سے روایت ہے کہ:
’’حدثنا الذین کانوا یقرء ونا أنہم کانوا یستقرء ون من النبی فکانوا إذا تعلموا عشر آیات لم یخلفوہا حتی بما فیہا من العمل فتعلمنا القرآن والعمل جمیعا‘‘ (تفسیرطبری :۱ ؍ ۸۰)
یستقرء ون من النبی کے الفاظ سابقہ حدیث کے مفہوم کو مزید تقویت دیتے ہیں۔
اسی طرح محدث ناقد ومورّخ امام ذہبی﷫( المتوفی ۷۴۸ھ) الاعلام:۵؍۳۲۶پر رقمطراز ہیں کہ
الذین عرضوا علی رسول اﷲﷺ القرآن عثمان بن عفان (المتوفی۳۵ھـ)وعلی بن ابی طالب (المتوفی ۴۰ھـ) وابی بن کعب (المتوفی ۳۲ھـ) وعبداللہ بن مسعود (المتوفی ۳۲ھـ) وزید بن ثابت (المتوفی ۴۵ھـ)وابوموسی الاشعری (المتوفی ۵۰ھـ) وابوالدردائ( المتوفی فی آخر خلافۃ عثمان)
’’وہ مشاہیر صحابہ﷢جنہوں نے آپﷺسے قرآن حفظ کیا ان میں عثمان بن عفان ،علی بن ابی طالب، ابی بن کعب،عبداللہ بن مسعود، زید بن ثابت، ابوموسی الاشعری ،ابوالدرداء﷢ہیں۔‘‘
اگرچہ ان کے علاوہ کثیر تعداد میں صحابہ کرام﷢ کا قرآن کریم کا حفظ کرنا ثابت ہے۔اس کے بعدمزید فرماتے ہیں کہ:
’’فہولاء الذین بلغنا أنہم حفظوا القرآن فی حیاۃ النبی وأخذ عنہم عرضا وعلیہم دارت أسانید قراء ۃ الأئمۃ العشرۃ‘‘
’’یہ وہ صحابہ کرام﷢ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺکی زندگی میں قرآن کریم حفظ کیا تھا اور جن پر قراء عشرہ کی اَسانید کا مدارہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اگرچہ ان کے علاوہ اور بہت سے صحابہ کرام﷢نے قرآن کریم کو مصاحف میں نقل کیاہے ،جیسا کہ بخاری، کتا ب فضائل القرآن، باب القراء من أصحاب النبی میں منقول ہے ،لیکن اعتماد حفظ ، سماع وتلقی پرہی تھا جیسا کہ علامہ (ابن تیمیہ﷫ المتوفی ۷۲۸) مجموع فتاوی جلد نمبر ۱۳ ص ۴۰۰ پر رقمطراز ہیں کہ :
الاعتماد فی نقل القرآن علی حفظ القلوب لا علی المصاحف کما فی الحدیث الصحیح عن أنس قال إن ربی قال لی ان قم فی قریش فانذرہم… ومنزل علیک کتابا لا یغسلہ الماء تقرء ہ نائما ویقظانا ۔۔۔۔الخ
’’قرآن کریم کے نقل کے لیے باعتماد ذریعہ حافظہ ہے،مصحف نہیں۔ جیسا کہ حضرت انس﷜سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺسے فرمایا:اٹھیے اور قریش کو ڈرائیں، آپپر وہ کتاب اتاری ہے جوپانی سے ختم نہیں ہوگی بلکہ ہرحال میں باقی رہے گی،نیند اور بیداری ہر دو حالت میں پڑھی جائے گی۔‘‘
امت محمدیہ کی خصوصیت ہے کہ أناجیل ہم فی صدورہم کہ یہ اُمت کتاب کو سینوں میں محفوظ کرے گی۔‘‘
اگرچہ اعتماد حفظ پرتھا لیکن اس کے باوجود آپﷺوحی آنے پر کاتبین وحی کوبلا کر لکھوا بھی دیتے تھے جیسا کہ محمد ابی شہبہ نے المدخل لدارسۃ القرآن الکریم کے ص ۳۴ پرصراحت کی ہے ،لیکن اس کے بارے میں ہم مرحلہ ثانیہ میں گفتگوکریں گے۔
سابقہ بحث سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ صحابہ﷢نے قرآن کوحفظ کیا اور اعتماد سماع وتلقی پر تھا، چنانچہ یہی وجہ تھی کہ حفاظ کی شان میں رسالت مآب نے وہ کلمہ کہہ دیا جوتمام فضائل کو مشتمل ہے ۔چناچہ سنن ابن ماجہ ،مسند احمد،سنن الدارمی نے اس کو روایت کیاہے اور اسی طرح المناوی نے فیض القدیر شرح جامع الصغیر: ۳ ؍۶۷ پر اور ملا علی بن سلطان القاری مرقاۃ المفاتیح کی جلد ۲؍ ۵۷۳ پر نقل کرتے ہیں کہ حضرت انس﷜فرماتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا ’’حملۃ القرآن ہم أہل اﷲ وخاصۃ‘‘ ’’یعنی اہل قرآن تواللہ والے اور اس کے خواص میں سے ہیں۔‘‘ اورانہی کے بارے میں طبرانی، مسند کبیرمیں اور المناوی فیض القدیر کی جلد ۲؍ ۵۲۲ پر ابن عباس﷜ سے نقل کرتے ہیں کہ :
أشراف أمتی حملۃ القرآن’’کہ سب سے اشرف وافضل لوگ حاملین قرآن ہیں ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اوران کے مشغلہ کوکل کائنات سے افضل گردانا، جیسا کہ امام بخاری﷫ نے فضائل القرآن کے تحت اورفتح الباری:۹؍ ۶۱ پرحافظ ابن حجر﷫ نے اور امام ابوداؤد﷫نے کتاب نمبر ۸ باب نمبر۱۴ پر اورامام ترمذی﷫ نے کتاب نمبر۴۳ باب نمبر ۱۵ پرامام ابن ماجہ﷫ نے جلد نمبر ۱ ؍ ۹۲،۹۳ پر امام دارمی﷫ نے کتاب نمبر ۲۳ اورامام طیالسی﷫ نے حدیث نمبر ۷۳ میں حضرت عثمان﷜ سے نقل کیاہے کہ:
’’ خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ ‘‘
’’ تم میں سے بہترین وہ ہے جو قرآن کی تعلیم حاصل کرے اورآگے تعلیم دے۔‘‘
اسی حدیث کی وجہ سے ابوعبدالرحمن السلمی﷫ ۴۰ سال کوفہ کی جامع مسجد میں لوگوں کوتعلیم قرآنی دیتے رہے جیساکہ ابن الجزری﷫ نے النشرفی القراء ات العشر: ۱؍ ۳ پر اور ابونعیم﷫ نے حلیۃ الاولیاء : ۴؍ ۱۹۴ پر نقل کیا ہے۔
رسول اللہﷺنے قرآن کویاد کرکے بھلانے والے کے لئے وعید سنائی ہے، چنانچہ امام القراء البغوی﷫ المصابیح السنۃکی جلد نمبر ۱ ص ۱۵ پر نقل کرتے ہیں کہ آپﷺنے فرمایا :
’’مامن امریء یقرء القرآن ثم ینساہ الا لقی اﷲ یوم القیامۃ أجرم ‘‘
’’یعنی جو شخص قرآن کو حفظ کرکے بھلادے ،قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے فالج زدہ کرکے لایا جائے گا۔‘‘
قرآن کریم کا حفظ کرنابھی عبادت ہے ،جیسا کہ المناوی﷫ نے فیض القدیر جلد نمبر ۲ ص ۴۴پر نقل کیاہے
’’أفضل العبادۃ قراء ۃ القرآن ‘‘
’’کہ افضل عبادت قرآن کی تلاوت ہے ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اورامام بیہقی﷫ نے شعب الایمان میں یہ روایت بھی بیان کی ہے کہ:
’’ أفضل عبادۃ أمتی قراء ۃ القرآن‘‘
’’ اُمت محمدیہ کی سب سے افضل عبادت تلاوت قرآن ہے۔‘‘
توجب قرآن کریم کا حفظ کرنا، پڑھنا عبادت ہے تو اسی حکمت کومد نظررکھتے ہوئے رسالت مآبﷺنے جب مختلف قبائل عرب کواسلام بگوش ہوتے دیکھا،اورعجمیوں کومسلمان ہوتے دیکھاتواللہ تعالیٰ سے رخصت مانگی کہ اللہ قرآن کریم کو زیادہ حروف میں نازل کرکے میری امت پر آسانی فرمائی جائے۔چنانچہ امام مسلم﷫ کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ۲۸ ابوداؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر ۱۴۷۷،۱۴۷۸اورنسائی کتاب الصلوۃ جلد نمبر ۲ ص ۱۵۲،۱۵۴ پر ابی بن کعب﷜سے روایت کرتے ہیں کہ:
أن النبی کان عند إضاء ۃ بنی غفار قال فأتاہ جبریل علیہ السلام فقال إن اﷲ یامرک أن تقرا أمتک القرآن علی حرف فقال أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لاتطیق ذلک ثم أتاہ الثانیہ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی حرفین فقال اسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الثالثۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی ثلثۃ أحرف فقال اسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لاتطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعہ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقرأ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف فأیما حرف قروؤا علیہ فقد أصابوا
’’رسول اللہﷺمدینہ میں ایک جگہ بنی غفار کے محلے میں تھے توجبریل﷤آئے اور کہنے لگے کہ اللہ آپﷺ کوحکم فرماتے ہیں کہ اپنی امت کوایک حرف پر قرآن پڑھاؤ ،توآپﷺنے فرمایا: میں اللہ سے اس کی عافیت اورمغفرت طلب کرتاہوں! میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی ۔پھر جبریل﷤ اللہ کے پاس گئے اور دوسری مرتبہ آئے اور حکم سنایاکہ دو حرفوں پرامت کو پڑھائیں، توآپﷺنے مذکورہ بات کہی پھرتیسری مرتبہ آئے اور تین حروف پر پڑھنے کوکہا توپھروہی جواب دیا پھرچوتھی مرتبہ سات حروف پرپڑھنے کاحکم سنایا ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح کی روایت جس کو ترمذی﷫نے حدیث نمبر ۲۹۴۴ پرنقل کیاہے اورحسن صحیح کہا ہے اور شیخ البانی﷫نے بھی صحیح سنن ترمذی جلد نمبر ۳ ص ۱۵ پرصحیح کہاہے اورمحقق جامع الاصول نے بھی جلد نمبر ۲ ص ۴۸۳پر اس کی سند کوحسن قراردیاہے وہ روایت یہ ہے کہ:
’’لقی رسول اﷲﷺ جبریل فقال یا جبریل بعثت إلی أمۃ أمیین فیہم العجوز والشیخ والکبیر والغلام والجاریۃ الرجل الذی لم یقراء کتابا قط فقال یا محمد إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف‘‘
’’رسول اللہﷺکی جبریل﷤سے ملاقات ہوئی تو آپﷺنے فرمایا: اے جبر یل﷤!میں ایک ایسی امت کی طرف بھیجا گیاہوں جوان پڑھ ہیں اورپھر ان میں بوڑھے،بچے اورایسے لوگ بھی ہیں کہ انہوں نے کبھی کچھ پڑھا ہی نہیں۔ توجبریل﷤نے کہا کہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیا ہے۔‘‘
اوراس کے بعض طرق میں’’ فمرہ فلیقرأ القرآن علی سبعۃاحرف ’’یعنی ان کو حکم دیجیے کہ قرآن کوسات حروف پرپڑھیں۔‘‘
چنانچہ جیسے صحابہ کرام﷜نے قرآن کریم کوحفظ کرنے میں تلقی وسماع کوکسوٹی بنایااسی طرح قراء ات میں بھی اصل چیز تلقی اورسماع ہے ۔آپﷺنے صحابہ کرام﷢کواسی طرح پڑھایا،کیونکہ آپﷺکو اسی کا حکم دیا گیا تھا اس کے علاوہ وہ حدیث مذکور میں أن تقرأ أمتک کے الفاظ بھی اس پر دلالت کررہے ہیں ۔ بغیر تلقی قرآن کا ثبوت نہیں ہوتا ورنہ تقرأ کے بجائے تأمر بھی کہا جا سکتا تھا۔اور اللہ تعالیٰ نے تلقی کو اس لیے ضروری قرار دیاکہ جب تک تلقی وسماع نہیں ہوگا اس وقت تک قرآن کریم کی قراء ات کے حصول کا تحقق نہیں ہوسکتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح امام مسلم﷫ اپنی صحیح میں جلد نمبر ۱ ص ۲۷۳پر ، احمد بن شیبہ﷫ اور طبری﷫ وغیرہ نے بھی اپنی کتابوں میں اس کی تخریج کی ہے کہ ابی بن کعب﷜ روایت کرتے ہیں کہ:
’’کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقراء قراء ۃ أنکرتہا علیہ ثم دخل آخر فقرأ قراء ۃ سوی قراء ۃ صاحبہ فلما قضینا الصلاۃ دخلنا جمیعا علی رسول اﷲ فقلت إن ہذا قرأ قراء ۃ أنکرتہا علیہ ودخل آخرفقرأ سواء قراء ۃصاحبہ فلما قضینا الصلاۃ دخلنا جمیعا علی رسول اﷲ فقلت إن ہذا قرأ قراء ۃ أنکرتہا علیہ ودخل آخر فقرأ سوی قراء ۃ صاحبہ فأمرہما رسول اﷲ فقرأ فحسن النبی شأنہما فسقط فی نفسی فی التکذیب ولا إذا کنت فی الجاہلیۃ فلما رأی رسول اﷲ ما قد غشی ضرب فی صدری ففضت عرقا وکأنما أنظر إلی اﷲ فرقا فقال لی یا أبی ارسل إلی ان اقرأ القرآن علی حرف فرددت إلیہ أن ہون علی أمتی فرد إلی الثانیۃ أن اقرء ہ علی حرفین فرددت إلیہ أن ہون علی أمتی فرد إلی الثالثۃ أن أقرأہ علی سبعۃ أحرف فلک لکل ردۃ رددتکہا مسئلہ تسألنیہا فقلت اللہم اغفر لامتی اللہم اغفرلامتی وأخرت الثالثۃ لیوم یرغب إلی الخلق کلہم حتی إبراہیم‘‘
اس حدیث پر غور کریں کہ آپﷺنے جب ابی بن کعب﷜ کا معمولی سارد عمل دیکھا توفوراً وضاحت کردی کہ اے میرے صحابی! مجھے حکم ہوا تھا کہ میں اپنی امت کو مختلف حروف پر پڑھاؤں جوکہ أن اقرأ القرآن، أقرأ علی حرفین،أقرأہ علی سبعۃ أحرف سے مترشح ہوتاہے۔ اصل میں توضیح نبویﷺ کا مقصود یہ تھا کہ دونوں صحابہ کا قراء ت میں اختلاف تمہیں پریشان نہ کرے، کیونکہ دونوں قراء ات میں نے ان کوحکم خداوندی کی تعمیل کرتے ہوئے سکھلائی ہیں۔ اورفحسن قرأتہما سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ نے ویسا ہی پڑھا ہوگا جیساکہ آپﷺسے حاصل کیاتھا ورنہ آپﷺکبھی بھی تحسین کا لفظ استعمال نہ کرتے۔ چنانچہ اس حدیث سے بھی سماع وتلقی کے لزوم کا پتہ چلتا ہے۔
 
Top