• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء ات قرآنیہ کی اَساس…تلقّی وسماع

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بصرہ کی نمایاں شخصیات میں عبداللہ بن ابی اسحاق الحضرمی﷫ (م ۱۱۷ ھ)، عیسی بن عمر الثقفی﷫ (م ۱۴۹ ھ) اور ابوعمروبن العلاء﷫ (م ۱۵۴ ھ) وغیرہ شامل ہیں۔ امام ابو عمرو﷫ قراء ات عشرہ کے تیسرے قاری ہیں، انہوں نے تابعین کی ایک جماعت پرپڑھا، جن میں سعید بن جبیر﷫ اورمجاہد بن جبیر﷫بھی شامل ہیں۔ اسی طرح بصرہ کے دیگر قراء میں عاصم الجہدری﷫ (م ۱۳۰ ھ)، یعقوب الحضرمی﷫ (م ۲۰۵ ھ) وغیرہ کا نام شامل ہے۔ امام یعقوب ﷫نے مغیرہ بن شہاب﷜اور ابوالدرداء ﷜ پر قرآن پڑھا۔ یہ بھی کہا گیاہے کہ حضرت عثمان﷜پربھی انہوں نے قراء ت پیش کی تھی اوریہ قراء عشرہ میں نویں قاری ہیں۔
شام کے معروف قراء میں حضرت عبداللہ بن عامر﷫(م ۱۱۸ ھ) کا نام سامنے آتا ہے، جنہوں نے مغیرہ بن شہاب﷜پرپڑھا، انہوں نے حضرت عثمان﷜پر پڑھا۔ یہ قراء اتِ عشرہ کے چوتھے قاری ہیں۔ شام کے دیگر معروف قراء میں عطیہ بن قیس الکلابی﷫ (م ۱۲۱ ھ)، یحی بن حارث الذماری ﷫(م ۱۴۵ ھ)، شریح بن یزید الحضرمی ﷫ (م ۲۰۳ ھ)وغیرہ نے قرآن کی قراء ات پر اپنی زندگیاں وقف کیں اور قرآن کی تعلیم دیتے رہے۔
صحابہ کرام﷢کی طرح تمام تابعین اور تبع تابعین وغیرہ کا یہی منہج رہا ہے کہ وہ قراء ات کی نسبت آپﷺکی طرف کرتے تھے اور انہیں باقاعدہ متصل اسانید کے ساتھ صحابہ تک پہنچاتے، جیساکہ مکی بن ابی طالب القیسی ﷫ (م ۳۴۷ ھ) نے التبصرۃ فی القراء ات السبع کے صفحہ ۴۴ تا ۷۴ پر اس ضمن میں باقاعدہ ایک فصل قائم کی ہے، جوکہ ذکر اتصال قراء ۃ من ذکرنا من الائمۃ بالنبی وشرف وکرم کے نام سے موجود ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسی طرح امام خطابی﷫الاعلام: ۲ ؍ ۲۷۳ پر رقمطرازہیں کہ
’’إن أصحاب القراء ات من أہل الحجاز والشام والعراق کل منہم عزا قراء تہ التی اختارہا إلی رجل من الصحابۃ قرأہا علی رسول اﷲ لم یثتثن من جملۃ القرآن شیئا ‘‘
’’ حجاز، شام اور عراق کے علماء قراء ات نے اپنی قراء ات کی نسبت ان صحابہ کی طرف کی ہے جن صحابہ کی قراء ات انہوں نے اختیار کی اور ہر چیز کومسند بیان کیا ہے ۔‘‘
چنانچہ عاصم کوفی کی قراء ات حضرت علی﷜اورابن مسعود﷜کی طرف مستند ہے او رابن کثیر مکی کی قراء ۃ اور ابوعمر و بصری کی قراء ۃ کی سند ابی بن کعب﷜کی طرف منسوب ہے اور ابن عامرشامی کی قراء ۃ حضرت عثمان﷜کی طرف منسوب ہے۔ وعلی ہذا القیاس
اورعلامہ قرطبی﷫اپنی تفسیر کی جلد نمبر ۱ ص ۵۹ پر نقل کرتے ہیں کہ
’’وہولاء کلہم یقولون قرانا علی رسو ل اﷲﷺ وأسانید ہذہ القراء ات متصلۃ ورجالہا ثقات فالقراء ات سنۃ متبعۃ یأخذ الاخر عن الاول عن رسول اﷲﷺ‘‘
’’ تمام صحابہ کرام﷢نے آپﷺسے پڑھا اور ان قراء ات کی اسانید متصل ہیں اوررجال ثقات ہیں اوریہ سنت متواترہ ہے ،متاخرین متقدمین سے حاصل کرتے ہیں ۔‘‘
انہوں نے قراء ات نقل وسماع پر مبنی اصول کے مطابق حاصل کیں اورساتھ ساتھ یہ بھی بتلایا کہ بغیر نقل وسماع صرف مصاحف پر اعتماد کرنا اورقرآن پڑھنا صحیح نہیں۔چنانچہ جمیع قراء ات اسلامی ممالک میں متداول رہیں، جیسا کہ مکی بن ابی طالب﷫فرماتے ہیں کہ
’’ دوسری صدی کی ابتداء میں لوگ بصرہ میں ابوعمرو اوریعقوب﷭ کی، کوفہ میں حمزہ وعاصم﷭ کی، شام میں ابن عامر شامی﷫ کی، اور مکہ میں ابن کثیر مکی﷫ کی اور مدینہ میں نافع﷫ کی قراء ات پڑھتے تھے لیکن تھی نقل وسماع پرمبنی کیونکہ بغیرنقل وسماع کے قرا ء ات کی صحت ممکن نہیں ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چنانچہ تصحیفات المحدثین مجلد نمبر ۱ ص ۶ پرسلیمان بن موسی﷫ سے روایت ہے کہ
’’ قا ل کان یقال لاتاخذوا القرآن من المصحفیین ولا العلم من الصحفیین ‘‘
’’کہ قرآن ان سے نہ لو جنہوں نے مصاحف سے بغیر کسی استاد کے قرآن پڑھا ہو اور ایسے ہی ان لوگوں سے علم حاصل نہ کرو جو کتابوں سے بغیر استاد کے حاصل کرتے ہیں۔‘‘
اورمذکورہ حوالہ ص ۷ پر سعید بن عبد العزیز التنوخی﷫ کا قول روایت کیا ہے کہ
’’ لاتحملوا العلم عن صحفی ولا تاخذوا القرآن من مصحفی‘‘
’’ کہ علم کومیرے صحائف سے اور قرآن کومیرے مصحف سے مت حاصل کرو۔‘‘
چنانچہ یہ قاعدہ مقررہوگیا کہ طالب علم مشائخ ضابطین متقنین سے بالمشافہ حاصل کرے جیساکہ لبیب السعید﷫ نے الجمع الصوتی الاوّل کے ص ۱۳۲ پرنقل کیا ہے:
’’کیونکہ بغیر معلم کے علم کا صحیح حصول ممکن نہیں بلکہ کلام میں تصحیف ہوجاتی ہے ۔‘‘
چناچہ علماء وتابعین وتبع تابعین کویہ کہنا پڑا کہ لاتاخذوا القرآن من مصحفی ولا العلم من صحفی کہ قرآن کوصرف میرے مصحف سے اور علم کومیرے اوراق سے مت لو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علماء کے اقوال میں سے ایک یہ بھی قول ملتاہے کہ
’’من أعظم البلبیہ تشیخ الصحیفہ أی یتعلم الناس من الصحف‘‘ (تذکرۃ السابع:ص۸۷)
’’سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ کتاب کو استاد بنا لیا جائے۔‘‘
اور اس کتاب میں امام شافعی﷫ کا قول منقول ہے کہ
’’ من تفقہ من بطون الکتب ضیع الاحکام ‘‘
’’یعنی جس نے صرف کتابوں کے اوراق سے فقاہت حاصل کی اس نے احکام کوضائع کیا۔‘‘
حتی کہ علماء توبغیر حفظ اور شیخ کے کتابت پراکتفاء کرنے کو مذموم گردانتے تھے جیسا کہ خطیب بغدادی﷫ کتاب تقید العلم کے ص ۵۸ پر لکھتاہے کہ بئس المستودع العلم القراطیس
’’کہ علم کے لیے سب سے بری حفاظت کی جگہ اوراق ہیں ۔‘‘
اورابن عبدالبر﷫جامع بیان العلم : ۱؍ ۶۹ پر لکھتے ہیں کہ یونس بن حبیب﷫ نے ایک آدمی سے سنا کہ !
استودع العلم قرطاسا وضیعہ​
وبئس مستودع العلم القراطیس​
’’ جس نے علم کی امانت کواوراق کے سپرد کردیا اس نے علم کو ضائع کیا اور سب سے بڑی حفاظت کی جگہ اوراق ہیں ،کیونکہ اوراق ضائع ہوسکتے ہیں، جل سکتے ہیں جبکہ سماع وتلقی پر مبنی علم تاحیات ساتھ رہتاہے الا یہ کہ کوئی عارضہ پیش آجائے ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اورعلامہ زرکشی﷫ برہان فی علوم القرآن کی جلد نمبر ۲ ص ۱۵۳ پریحییٰ بن معاذa کا قول نقل کرتے ہیں کہ
’’أفواہ الرجال حوانیتہا وأسناتہا صنائعہا فإذا فتح الرجل باب حانوتہ تبین العطار من البیطار والتمار من الزمار
’’ یعنی انسان کامنہ دوکان کی مانند ہے اوردانت ان دوکانوں کے ماہرین ہیں۔ جب آدمی دوکان کا دروازہ کھولتاہے تویہ عطار(عطر بیچنے والا) اوربیطار(نعل بندی کرنے والا) کے درمیان ، تمار(کھجوریں بیچنے والا) اور زمار (بانسری بجانے والا)کے درمیان فرق کرتاہے ۔‘‘
یعنی ادائیگی سے ہرچیز کافرق واضح ہوجاتاہے جبکہ عدم ادائیگی سے یہ چیز میسرنہیں آسکتی۔
اورلبیب السعید﷫ نے الجمع الصوتی الاول ص ۱۳۸ پر اسی کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے امام العسکری﷫ کے حوالے سے خلف الاحمر﷫ کا شعر نقل کیاہے۔
لا یہم الحاء فی القراء ۃ بالخاء
ولا یأخذ إسنادہ عن الصحیف​
’’حاء کی قراء ت کرتے وقت خاء کے ساتھ ملتبس مت کی جائے او رنہ ہی اس کی سند کتب سے حاصل کی جائے۔‘‘
یعنی حاء اور خاء کا فرق اگر سمجھ آسکتاہے توسماع وتلقی من المشائخ سے آسکتاہے ۔علامہ جزری﷫نے بھی خوب کہا ہے ولیس بینہ وبین ترکہ : الا ریاضۃ أمری بفکہ
’’کہ قار ی اور غیرقاری میں فرق منہ کی مشق اور ریاضت کا ہے گویا اصل ادائیگی ہے قواعدنہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چناچہ علامہ العسکری﷫ شرح مایقع فیہ التصحیف والتحریف کے ص ۱۲،۱۳ پر نقل کرتے ہیں کہ حمزہ زیات﷫ مصحف سے قرآن یاد کرتے تھے توایک دن انہوں نے باپ کے سامنے پڑھا:’’ الم ذلک الکتاب لا ریب فیہ‘‘لا زیت فیہ توان کے والد نے کہا دع المصحف وتلقین من أفواہ المشائخ
کہ مصحف کوچھوڑ دے یعنی صرف قرآنی مصحف پر اعتماد نہ کروبلکہ علماء وقراء سے بالتلقی والمشافحہ پڑھو۔
اورحماد بن الزبرقان﷫ کے بارے میں آتاہے کہ وہ بغیر قار ی کے مصحف سے قرآن یاد کرتے تھے توتصحیف کا شکار ہوئے چنانچہ’’ بَلِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ عِزَّۃٍ وَّشِقَاقٍ‘‘ کو’’فی غرۃ وشقاق‘‘ پڑھتے اور’’لِکُلٍّ امْرِیٍ مِّنْہُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ‘‘ کو’’یعنیہ‘‘ پڑھتے ۔
تذکرۃ الحفاظ جلد نمبر ۲ ص ۳ پر امام الذہبی﷫ لکھتے ہیں کہ عثمان بن ابی شیبۃ﷫ (م ۲۳۹ ھ)’’ وَابِلٌ فَطَلٌّ‘‘ کو ’’فظل‘‘پڑھتے تھے بعد میں انہوں نے مشائخ سے صحیح کیا۔اسی طرح امام ذہبی﷫ نے ہی ذکر کیاہے کہ وہ ’’مِنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ‘‘ کو’’من الخوارج‘‘ پڑھتے تھے اسی طرح ’’بَطَشْتُمْ جَبَّارِیْنَ‘‘ کی ’’خبارین‘‘ پڑھتے تھے۔ اورانہوں نے سورۃ المدثر کو سورۃ المدبرلکھا ہواتھا اور’’ فَلَمَّا جَہَّزَہُمْ بِجَہَازِہِمْ جَعَلَ السِّقَایَۃَ فِیْ رَحْلِ اَخِیْہِ‘‘ کو’’رجل اخیہ‘‘ پڑھتے ۔اسی طرح ’’فَضَرَبَ بَیْنَہُ بِسُوْرٍ لَّہٗ‘‘ باب کی جگہ’’ بسنورلہ‘‘ پڑھتے جوکہ بعد میں مشائخ سے سن کر صحیح کیا۔ اور ابن الجوزی﷫ اخبار الحمقی والمغفلین میں محمد بن جریر الطبری﷫ سے نقل کرتے ہیں کہ ان محمد بن جمیل الرازی قرأ’’ وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ‘‘کی جگہ’’یجرحوک‘‘ ’’ محمد بن جمیل الرازی﷫ ’’یُخْرِجُوْکَ‘‘ کی جگہ ’’یجرحوک‘‘ پڑھا۔‘‘اوراسی طرح لکھتے ہیں کہ الدارقطنی﷫ نے ابوبکر الباغندی﷫ کو’’وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الاَرْضِ ہَوْنًا‘‘ کی جگہ ’’ہویا‘‘ لکھوایا اورمزید لکھتے ہیں کہ ہمارے شیخ عدم سماع کی وجہ سے’’وَللہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوَاتِ‘‘ کوچالیس سال تک ’’میزاب السموات‘‘ پڑھتے رہے، پھر شیوخ نے صحیح کیا اور اللہ سے توبہ کی ۔
اسی طرح ایک شخص کا نام مشکدانہ تھا جو ۲۳۶ ھ کے قریب فوت ہوا وہ ’’یَعُوْقَ وَنَسْرًا‘‘کوبشرا پڑھتا تھا تواس کے معاصر نے مزاحاً اس کے بارے کہا کہ ذاک الذی یصحف علی جبریل۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اورایک شخص ’’وَالْعَادِیَاتِ ضَبْحًا‘‘کوصبحاپڑھتاتھا تواس کا امتحان لیاگیاتوپتہ چلاکہ عدم سماع وتلقی کی وجہ سے یہ’’ مِمَّایَعْرِشُوْنَ‘‘ کویغرسون اور’’وَعَدَہَا اِیَّاُہ ‘‘کو اباہ اور’’اُصِیْبُ بِہٖ مَنْ اَشَائُ‘‘ کواصبت بہ من أن أشاء اور’’فَنَادَوْ وَلَاَت حِیْنَ مَنَاصٍ ‘‘کوفباذوا ولات حین مناص اور’’فَاَنَا اَوَّلُ الْعَابِدِیْنَ‘‘ کو اول العائدین اور’’کُلَّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ‘‘ کو خبار اور’’إنَّ فِیْ النَّہَاِر سَبْحًا طَوِیْلًا‘‘ کو شیخا طویلا پڑھتا تھا جوکہ بعد میں اس نے مشائخ سے سن کر صحیح کیا۔
اسی طرح کسائی﷫ کے بارے میں آتاہے کہ مجھے ری میں پڑھانے کے لئے بلایاگیا توایک قاری بچے کو’’ذَوَاتَیْ اُکُلٍ خَمْطٍ وَاَثْلٍ ‘‘کی جگہ اتل پڑھا رہا تھا ،اسی طرح ایک اعرابی نے امام کوپڑھتے سنا جس نے کسی شیخ پرنہیں پڑھا تھا ’’وَلَا تَنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُوْمِنُوْا‘‘ تووہ کہنے لگا سبحان اللہ یہ اسلام سے قبل قبیح تھا توبعد میں کیسے ہے تواس کو کہا گیاکہ یہ لحن ہے اصل میں ’’تُنْکِحُوْا‘‘ ہے تووہ کہنے لگا کہ قبحہ اﷲ لا تجعلوہ بعدہا اماما فإنہ یحل ماحرم اﷲ ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ان تمام روایات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم میں اصل تلقی وسماع وادائیگی ہے نہ کہ کتابت۔یہ توعام قرآن پڑھنے کے بارے میں روایات تھیں توقراء ات کا تواس سے بھی مسئلہ پیچیدہ ہے تو اس کے لئے تو بالاولی سماع اور تلقی لازمی تھی جس کااللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکوحکم دیااور آج تک چلاآتاہے ۔اگر تلقی وسماع نہ ہوتا تو یہی کچھ ہوتا آتا اوربغیر قصد کے بھی غلطیاں ہوتیں۔ چنانچہ شائد اسی صورت حال کوسامنے رکھتے ہوئے علامہ الشیخ محمدعلی بن خلف الحسینی الشہیر بالحداد﷫نے القول السدید فی بیان حکم التجوید کے ص ۵ پر یوں کہا ہے کہ
’’من یأخذ العلم عن شیخ مشافہۃ یکن عن الزیغ والتصحیف فی حرم ومن یکن آخذ للعلم من مصحف فعلمہ عند أہل العلم کالعدم‘‘
’’ جوعلم کو مشائخ سے بالمشافحہ حاصل کرتاہے ،تلقی کواعتماد بناتاہے وہ گمراہی اور تحریف سے محفوظ رہتاہے اورجو شخص محض مصحف اور کتابوں سے علم حاصل کرتاہے اہل علم کے نزدیک اس کا علم لاشیء اوربے حقیقت ہے ۔‘‘
چنانچہ اس تصحیف کے ڈر سے علماء نے کتابیں لکھیں جیسا کہ عبدالرحمن البسطامی﷫ لکھتے ہیں أول من تکلم فی التصحیف للامام علی اسی طرح پھر أبو احمد الحسن بن عبد اﷲ بن سعید العسکری (م ۳۸۲ ھ) نے کتاب لکھی وما إلی غیر ذلک من الکتاب ۔
اس تمام بحث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ قرا ء ات منزل من اللہ ہیں اور مبنی علی التلقی والسماع والروایۃ ہیں اور اصل مصدر ان کا تلقی اور ادائیگی ہے اگرچہ اس کی تدوین کی شکل بھی ہوئی جس پر دوسرے مرحلہ میں گفتگو کرتے ہیں ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا مرحلہ
یہ مرحلہ تدوین کامرحلہ ہے کہ قراء ات کی تدوین بھی ہوئی۔ علوم اسلامیہ کی تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ قرآن مجید اوراس کی اشاعت وترویج کے لئے امت مسلمہ نے سب سے پہلے جس علم کو مدون کیا وہ علم تجوید وقراء ات ہے، کیونکہ نظم قرآنی کی حفاظت ان دونوں کے بغیرناممکن تھی ۔جب قرآن مجید کانزول ہوا توآپﷺنے صحابہ کو سکھلانے کے ساتھ کاتبین وحی کوبلا کرلکھا بھی دیتے تھے جیساکہ محمد محمد ابی شہبہ﷫ نے المدخل لدراسۃ القرآن الکریـم کے ص ۳۴ پر اس بات کی صراحت کی ہے اور اس روایت سے بھی یہ ثابت ہوتاہے کہ قرآن لکھا بھی جاتاتھا جس کے ضمن میں قراء ات بھی تھیں جس کوابن ابی داؤد﷫نے المصاحف مجلد نمبر۵ ص ۱۸۰،۱۸۱ پر نقل کیاہے کہ
’’ عن نافع عن ابن عمر نہی رسو ل اﷲﷺ أن یسافر بالمصاحف إلی أرض العدو مخافۃ أن ینالوا وفی روایۃ مخافۃ أن یتناول منہ شیء وفی روایۃ مخافۃ أن ینالوا العدو‘‘
’’ آپﷺنے مصحف کے ساتھ دشمن کے خطہ میں سفرکرنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ دشمن اس کی بے حرمتی نہ کریں۔‘‘
مصاحف کا کسی نہ کسی شکل میں وجود تھا توآپ کی نہی کا تحقق ہوسکتاہے ،خواہ وہ باریک پتھروں پر تھا، اونٹ کی بڑی ہڈیوں پر تھایاکسی بھی شکل میں تھا۔جیساکہ روایات میں آتاہے کہ کاتبین وحی جن میں ابوبکرصدیق ،عمر فاروق ، عثمان ،علی ،ابان بن سعید،خالد بن الولید ،معاویہ بن ابی سفیان ،زید بن ثابت ،ابی بن کعب ﷢کوجو چیز میسر آتی اس پر لکھ لیتے تھے،مثلاً کھجور کے پتے اور چمڑے کے ٹکڑے وغیرہ ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حضرت عبداللہ بن عباس ﷜کی صریح روایت ہے کہ
’’کان رسو ل اﷲﷺ إذا أنزلت علیہ سورۃ دعا بعض من یکتب فقال ضعوا ہذہ السورۃ فی الموضع الذی یذکر فیہ کذا وکذا ‘‘
’’جب کوئی سورت نازل ہوتی توکاتبین میں سے کسی کوبلا کر حکم دیتے کہ اس کو فلاں جگہ پر لکھو ۔‘‘
اور زید بن ثابت﷜فرماتے ہیں کنا عند رسو ل اﷲﷺ نؤلف القرآن من الرقاع ’’ کہ ہم قرآن کوچمڑے کے ٹکڑوں پر لکھتے تھے۔‘‘
اور صحیح مسلم کی حدیث نمبر ۳۰۰۴ ہے
’’لاتکتبوا عنی غیرالقرآن ومن کتب غیر القرآن فلیمحہ‘‘
’’ یعنی قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھو جس نے لکھاہے وہ مٹا دے۔‘‘( تاکہ قرآن اور سنت ملتبس نہ ہو جائے،اگرچہ التباس کے رفع ہونے کے بعد اجازت دے دی تھی )
الغرض قرآن کریم آپﷺکے زمانے میں مکمل لکھا جاچکاتھا اوراس کی کتابت سبعہ احرف کے ساتھ تھی جیساکہ ابوشہبہ﷫ نے المدخل کے ص ۲۶۸ پر نقل کیاہے۔
دورِ نبویﷺ کے بعد پھر صدیقی دور میں قرآن مجید کو جمع کیا گیا جیساکہ زید بن ثابت﷜ سے ابن خزیمہ﷫ کی لمبی روایت ہے جس میں یہ حروف ہیں وإنی أرای أن تاب
 
Top