• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء میں تحقیق کا فقدان … لمحہ فکریہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قراء میں تحقیق کا فقدان … لمحہ فکریہ

حافظ فہد اللہ مراد​
اِنسان جمیع مخلوقات سے افضل و اعلیٰ ہے اور اس کی اَفضلیت کا سبب دو اشیاء ہیں۔عقل و شعور اور علم۔ حیوانوں سے امتیاز کی وجہ عقل و شعور ہے اور ملائکہ سے علم قرآن مجید میں ہے:’’ وَعَلَّمَ ءَ ادَمَ الاَسْمَآئَ کُلَّھَا ‘‘ (البقرۃ:۳۱)
’’اس نے آدم﷤ کو تمام اَشیاء کے ناموںکا علم دیا۔ اور اسی علم کی بدولت وہ مسجود ملائکہ قرار پائے۔‘‘
اِنسان اگر اپنی انہی دو صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتا تو یہ انعام الٰہی کی ناقدری ہے کہ اُس کی پیدا کی گئی صلاحیتوں سے بہرہ مند نہ ہوا جائے۔ انسان اس حالت سے اس وقت دوچار ہوتاہے، جب اجتہادی اور تخلیقی عمل چھوڑ کر تقلیدی طرزِ فکر اپنالے اور باری تعالیٰ کی طرف سے ہدیہ کی گئی نعمت کو بروئے نہ کار لائے، بلکہ چوپائے کی مانند کسی کے ہنکانے پر ہانکتا چلا جائے، یہ رویہ بہرحال محموداِنسانی اَقدار کے خلاف ہے۔ ایک باشعور انسان بغیر کسی دلیل وبرہان کے کسی کی پیروی نہیں کرتا،بلکہ اپنی ہتک محسوس کرتا ہے اور اسے باعث عار سمجھتا ہے بخلاف اس کے کہ وہ اس پر فخر کا اظہار کرے۔اس اندازِفکر کو اہل علم نے تقلید سے تعبیر کیاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تقلید کا لغوی معنی ہے :
’’کسی چیز کو گلے میں لٹکانا۔‘‘(أساس البلاغۃ:۳۷۵)
اور جب یہ لفظ شرعی اِصطلاح کے طور پر بولا جائے تو اس کامفہوم ہے کسی کی بات کو بغیر دلیل اور بغیر غوروفکر کے قبول کرنا ۔ (لسان العرب:۳؍۳۶۷)
علما ء اُصول نے تقلید کی تعریف یوں کی ہے:
’’التقلید: العمل بقول الغیر من غیر حجۃ۔‘‘ (مسلّم الثبوت:۲ ؍۳۵۰)
’’کسی کی بات پر بغیر دلیل عمل کرنے کانام تقلید ہے۔‘‘
امام غزالی﷫تقلیدکی تعریف کرتے ہیں:
’’التقلید ھو قبول قول بلا حجۃ ولیس ذلک طریقاً إلی العلم لا فی الأصول ولا فی الفروع۔‘‘ (المستصفی:۲؍۴۶۲)
’’کسی کی بات کو بلا دلیل قبول کرنا تقلید ہے یہ علم تک رسائی کا طریقہ، نہ اصول میں ہے اور نہ فروع میں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ بیانات سے پتہ چلا کہ تقلید نہ تو علم کا نام ہے اور نہ ہی علم تک رسائی کا کوئی ذریعہ ہے۔ اگر کوئی بھی فرد کسی انسان کی بات صرف اس لئے بغیر دلیل تسلیم کرتا ہے کہ وہ بہت بڑا عالم، قاری، محدث یا شیخ ہے،اوراُس سے تقاضائے دلیل، جناب کے حضور میں گستاخی یابے اَدبی ہے اوراُن کے مرتبہ کے منافی ہے، تو یہ انسان اعلیٰ حضرت کو کسی مرتبہ پر فائز نہیں کررہا بلکہ اس کے حق میں ظلم اور زیادتی کی راہ پر چل رہا کہ وہ مقام جو حق تعالیٰ شانہ کے لائق ہے کہ ُاس کی بات بغیر کسی دلیل کے قبول کی جاتی ہے۔ وہ کسی انسان کو عطا کررہا ہے ایسا کرنے والوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے:
’’اِتَّخَذُوْآ أحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ أَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اﷲِ‘‘ (التوبۃ:۳۱)
’’انہوں نے اپنے علماء اوردرویشوں کو اللہ کے سوارب بنا لیاہے۔‘‘
اہل کتاب کا اپنے علماء کو رب بنانا قطعاً اس طرح نہیں تھا کہ انہوں نے اللہ رب العزت کو چھوڑ کر اپنے علماء کی عبادت شروع کردی تھی بلکہ وہ علماء کی باتوں کو بغیر کسی دلیل کے قبول کرتے تھے۔ ان کے علماء اگر اللہ کی حلال کردہ اشیاء کو حرام کردیتے تو وہ اُسے حرام سمجھتے تھے اور کسی حرام کردہ شے کو حلال کردیتے تو وہ اُسے حلال کہتے تھے ان کے اس عمل کو ان کی عبادت قرار دیا گیا ہے تو کیا ہمارا ایسا کرنا اللہ کی عبادت اور قربت الٰہی کا سبب ہوسکتا ہے؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جس طرح اَحکام میں کسی کی بات کو بغیر دلیل تسلیم کرنا اس کو رب کا درجہ دینا ہے، اسی طرح باقی جمیع علوم شرعیہ جن کو متقدمین علماء نے دلائل کی روشنی میں مرتب کر دیا ہے،ان میں بلا دلیل بات کرنا بھی ناجائز ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی کے خلاف بات کہے اور جب اس سے دلیل طلب کی جائے تو کہے: ’’میرے شیخ نے یوں کہاہے یا میرے فرقہ کا یہ مذہب اور طریقہ کار ہے‘‘۔ تو یہ بھی تقلیدہی کے زمرہ میں داخل ہے اور اس پر ہٹ دھرمی کرنے والے شخص کا علم و معرفت سے دور کا تعلق بھی نہیں ہے جہاں یہ رویہ بہت سے لوگوں کا باقی علوم میں ہے اسی طرح علم تجوید و قراء ات بھی اس سے محفوظ نہیں رہا۔
قرآن کریم کی نقل کا مدار تلقّی (یعنی شاگرد کا اپنے استا دسے بالمشافہ اَخذ کرنا) پر ہے کہ تلمیذ مُقری سے ہر ہر لفظ کا تلفظ صحیح طور پر سنے، اس کو محفوظ کرے اور ریاضت کرکے اَدا میں پختگی پیدا کرے تاکہ آئندہ آنے والے لوگوں تک قرآن کریم کاتلفظ درست انداز میںمنتقل ہوسکے۔ سلف نے جہاں قرآن پاک کی اس طرح تعلیم دی وہاں حروف کا تلفظ صفاتِ حروف کے ساتھ محفوظ کردیا تاکہ کسی کو اُستاد سے سننے میں سہو ہوگیا ہو تو وہ کتب کی طرف رجوع کرکے اس کی تصحیح کرلے ،نیز حروف کی اَدائیگی میں طلباء بالعموم جو غلطیاں کرتے ہیں ان کی نشاندہی بھی فرما دی، تاکہ قرآن کریم کی ہر دور میں اپنے اصل اور درست تلفظ کے مطابق تلاوت ہوتی رہے ۔ اگر کوئی شخص کسی حرف کو اُس کے اصل تلفظ، جس کے مطابق جمہور قراء تلاوت کرتے ہیں اور متقدمین اور متاخرین کی جمیع کتب میں جو تلفظ مذکور ہے، کے خلاف پڑھے اورکسی طرح چھوڑنے کے لئے بھی تیار نہ ہو تو ایسے شخص کے بارے میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ذیل میں ہم اس کی چند مثالیں ذکر کرتے ہیں:
مثال اَوّل
ضاد معجمۃ کو دال مہملہ کے مشابہ پڑھنا۔
ضاد معجمہ ایک مستقل حرف ہے، اس کا ایک مستقل مخرج ہے اس میں صفات لازمہ میں سے جہررخوت، استعلاء، اطباق، اصمات اور صفت استطالت پائی جاتی ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ حرف ضاد کو اس کے مخرج سے مع صفات لازمہ درست اَدا کیا جائے۔
مذکورہ بحث میں اہم بات یہ ہے کہ اس کو کس لفظ کے مشابہ اَداکیا جائے؟اس حوالہ سے دوطرزِ تلاوت پائے جاتے ہیں:
(١) جمہور قراء ضاد کو مشابہ بالظاء پڑھتے ہیں
(٢) بعض دوسرے قراء ا سے مشابہ بالدال پڑھتے ہیں۔
جمہور کا مؤقف یہ ہے کہ ضاد کا مخرج،صفات لازمہ ہے اور متقدمین قراء کی تصریحات اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ اسے مشابہ بالظاء اَدا کیا جائے ،کیونکہ ضاد اور ظاء کی جمیع صفات لازمہ سوائے صفت استطالت کے متفق ہیں تو اس حوالے سے فن تجوید کی سب سے قدیم کتاب الرعایۃ میں مکی بن اَبی طالب القیسی﷫ فرماتے ہیں:
’’والضاد یشبہ لفظھا بلفظ الظاء۔‘‘
’’لفظ ضاد ظاء کے مشابہ ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اَور مزید فرماتے ہیں:
’’ولولا اختلاف المخرجین وما فی الضاد استطالۃ لکان لفطھما واحد۔‘‘ (الرعایۃ:۷۹)
’’اگر ضاد اور ظاء کے مخارج کا اختلاف نہ ہوتا اور ضاد میں صفت استطالت نہ ہوتی تو یہ دونوں لفظ ایک ہی ہوجاتے۔‘‘
٭ علامہ دانی﷫ فرماتے ہیں:
’’ومن أکد علی القراء أن یخلصوہ من حرف الظاء باخراجہ من موضعہ وایفائہ حقہ من الاستطالۃ۔‘‘ (التحدید، ص۱۶۲)
’’قراء کو سب سے زیادہ جس بات کی تاکید ہے وہ یہ کہ ضاد کو ظاء سے خالص کرکے اَدا کریں اور مخرج اور صفت اِستطالت کا حق اَدا کریں۔
علامہ دانی﷫ کایہ قول ذکر کرنے کے بعد شیخ محمد عبدالرحمن الیحیی﷫الحجۃ میں لکھتے ہیں:
’’ علامہ دانی﷫ کا یہ کہنا کہ ضاد کو ظاء سے خالص کرتے ہوئے اَدا کرو اس بات کی دلیل ہے کہ ضاد مشابہ بالظاء ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اِمام عبدالوہاب القرطبی﷫ فرماتے ہیں:
’’وأکثر القراء الیوم علی إخراج الضاد من مخرج الظاء ویحب أن تکون العنایۃ بتحققھا تامۃ۔‘‘ (الموضح فی التجوید:۱۴۴)
’’آج کل اکثر قراء ضاد کو ظاء کے مخرج سے ادا کرتے ہیں حالانکہ ان دونوں کے مابین تحقیق تام لازم ہے۔‘‘
٭ امام جزری﷫ مقدمہ میں فرماتے ہیں:
’’والضاد باستطالۃ ومخرج، میز من الظاء و کلھا تجی۔‘‘
’’ضاد جہاں بھی آئے اس کو مخرج اور صفت استطالت کے سبب ظاء سے ممتاز کرو۔‘‘
٭ علامہ محمد مرعشی﷫ فرماتے ہیں:
’’إن جعل الضاد طاء مہملۃ مطلقا أعنی فی المخرج والصفات لحن جلی وخطا محض وکذا جعلھا ظاء معجمۃ مطلقا لکن بعض الفقھاء قال بعدم فساد الصلاۃ من جعلھا ظاء معجمۃ مطلقا لتعسر التمیر بینھما فھو أھون الخطائین۔‘‘ (کیفیۃ أداء الضاد:۲۳)
’’اگر ضاد کو مطلقاً طاء مہملہ سے تبدیل کردیں تو لحن جلی ہے اور غلط محض ہے اور اسی طرح ظاء کا مسئلہ ہے لیکن بعض فقہاء کا مذہب ہے کہ جو آدمی نماز میں ضاد کی جگہ مشکل کے سبب ظاء اَدا کرلے تو یہ ہلکی غلطی ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
’’ولیس الفارق بین الضاد والظاء المعجمتین إلا الاستطالۃ والمخرج۔‘‘ (جہد المقل :۱۶۹)
’’ضاد اور ظاء معجمہ کے مابین مخرج اور صفت اِستطالت کے علاوہ فرق کرنے والی کوئی بھی شے نہیں ہے۔‘‘
٭ علامہ حسن بن قاسم المرادی﷫ فرماتے ہیں:
’’أما یشبہ لفظہ بلفظ الضاد من حرفان وھو الظاء واللام و ذلک لأن الظاء یشارک الضاد في أوصافہ المذکورہ غیر الاستطالۃ فلذلک اشتد شبھہ وعسر التمیز بینھما واحتاج القاری في ذلک إلی الریاضۃ التامۃ ولولا اختلاف المخرجین وما في الضاد من الاستطالۃ لاتحدا في السمع۔‘‘ (المفید:۱۰۸)
’’ضاد کی مشابہت دو حروف ظاء اور لام سے ہے اور ظاء اس کی جمیع صفات میں سوائے استطالت کے شریک ہے اسی وجہ سے ان کے مابین مشابہت شدید ہے اور ایک دوسرے سے امتیاز مشکل ہے لہٰذا قاری ریاضت تامہ کامحتاج ہے اگر (ضاد) کا مخرج اور صفت استطالت نہ ہوتی تو دونوں کی آواز بالکل ایک جیسی ہوتی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
متقدمین قراء کی یہ تمام تصریحات اس بات پر دال ہیں کہ ضاد کی مشابہت ظاء کے ساتھ ہے اور علامہ جزریa نے مقدمہ میں ایک باب قائم کیا جس کانام، باب فرق بین الضاد والظاء رکھا ہے اور پھر اس کے ذیل میں تمام وہ کلمات جمع کئے ہیں جہاں ضاد اور ظاء جمع ہورہے ہیں تاکہ قاری ان کو یاد کرکے ان کے مابین خوب فرق کرلے۔
لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے مطالعہ میں متقدمین قراء میں سے کوئی ایک صاحب بھی ایسے نہیں ہیں جنہوں نے بھی ضاد کو مشابہ بالدال لکھا ہو جو کہ آج ایک مستقل اَداکا طریقہ بن چکا ہے اور بے شمار کتب صرف ضاد اور ظاء میں فرق پر لکھیں گئیں ہیں ہم ان میں چند کتب کاذکرکرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ضاد اور ظاء کے فرق پر لکھی گئیں کتب
(١) کتاب الضاد والظاء والذال والسین والصاد لابی الفہد النحوی البصری﷫(ت ۳۲۰ھ)
(٢) کتاب الفرق بین الضاد والظاء لصاحب بن عباد﷫ (ت۳۸۵ھ)
(٣) کتاب الفرق بین الضاد والظاء للامام ابی عمرو المعروف بغلام ثعلب﷫ (ت۳۴۵ھ)
(٤) رسالۃ أصول الظاء فی القرآن والکلام وذکر مواضعھا فی القرآن لمکی بن ابی طالب القیسی﷫ (ت۴۳۷ھ)
(٥) رسالۃ فی الظاء ات القرانیۃ لابی عمرو الدانی﷫ (ت۴۴۴ھ)
(٦) کتاب الاقتضاء للفرق بین الذال والضاد والظاء لمحمدبن سعود والانصاری﷫ (ت۴۷۰ھ)
(٧) کتاب الضاد والظاء لابی بکر القیروانی﷫ (ت ۳۷۱ھ)
(٨) کتاب المعرفۃ مایکتب بالضاد والظاء لسعد بن علی الرنجانی﷫(ت ۴۷۰ھ)
(٩) منظومۃ الظاء ات القرآنیۃ للامام الشاطبی﷫ (ت ۵۹۰ھ)
(١٠) کتاب الفرق بین الضاد والظاء لقاسم بن علی الحریری (ت۵۱۶ھ)
 
Top