• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قراء میں تحقیق کا فقدان … لمحہ فکریہ

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تمطیط: ترتیل میں مدات، حرکات و سکنات میں حد سے زیادہ دیر کرنا یہ عند القراء مکروہ ہے۔
تخلیط: حدرکو اس قدر تیزی سے پڑھنا کہ حروف آپس میں گڈمڈ ہونا شروع ہوجائیں اور سامع کے لئے حروف کے مابین فرق کرنا دشوار ہوجائے تو ایسا کرنا حرام ہے۔
تمضیع: تلاوت کرتے ہوئے حروف کو چبانا ،پورا ادا نہ کرنا بھی حرام ہے۔
تطنین: ہر حرف کی آواز ناک میں لے جانا اگر طبعی طور پر ایسی کیفیت ہے تو یہ مکروہ ہے اور خود تکلف سے لے کر جانا حرام ہے۔
زمزمہ: گانے اور نغمہ کی طرح گھما گھما کر پڑھنا اگر یہ لوٹانا حدود تجوید میں ہو تو مکروہ ہے ورنہ حرام ہے۔
ترقیص: آواز کو نچانا یہ حرام ہے۔
ترعید: آواز کا کپکپانا جسے قاری سردی سے ٹھٹھر رہا ہو، یہ حرام ہے۔
تقطیع: حرفوں کو کاٹ کاٹ پڑھنا یہ حرام ہے۔ (کمال الفرقان:۹)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ یہ غلطی بھی عام ہے کہ عین کو اَدا کرتے وقت انتہائی تکلف اور سختی سے کام لیا جاتاہے جیسے پڑھنے والے کی جان نکل رہی ہو، ایسا کرنا قواعد ترتیل کے خلاف ہے اور بے جا تکلف ہے بلکہ عین کی صفت متوسطہ کا تقاضا ہے کہ اس کو آرام سے اَدا کیا جائے۔ زیادہ گلے کو کھول کر بھی اَدا نہیں کرناچاہئے کہ الف بن جائے اور زیادہ سختی بھی نہ کی جائے کہ حرف اپنا حسن کھو بیٹھے۔
٭ بعض قراء کرام خصوصاً مصری حضرات قلقلہ بہت کثرت سے کرتے ہیں، تقریباً ہر ساکن حرف کو قلقلہ سے پڑھتے ہیں اور بعض کبار قراء نے مصری قراء سے کہا بھی کہ
’’حروف القلقلۃ عندنا خمسۃ وعندکم عشرین۔‘‘
’’ہمارے نزدیک حروف قلقلہ پانچ ہیں جب کہ آپ کے نزدیک بیس۔‘‘
لہٰذا امام جزری﷫ کے قول واحرص علی السکون کے موافق سکون کا خصوصی خیال رکھا جائے اور بے جا قلقلہ سے اِحتراز کیا جائے۔
٭ عموماً مبتدی قاریوں سے یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ وہ ایسے بعض حروف کو کلمات کے ساتھ مل کر آتے ہیں اور ان کا نفس کلمہ سے تعلق نہیں ہوتا جیسے حروف عاطفہ اور حروف تاکید وغیرہ تو ان کو اس طرح اَداکیا جاتا ہے، جیسے کلمہ میں شامل ہوتے ہیں یہ غلطی ایسے قراء میں زیادہ ہے جو ترجمہ قرآن اور عربی گرامر سے واقف نہیں ہیں۔ ایسے حروف کا خصوصی خیال رکھنا چاہئے تاکہ سامع پر التباس نہ ہو اور فساد معنی نہ لازم آئے ایسے کلمات کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) فَسَقٰـی:یہ سقی پلانے کے معنی میںہے اگر ماکو جدا نہ کیا جائے فسق گناہ کرنے کے معنی میں ہو جائے گا۔
(٢) فَجَعَلَھُمْ: یہ جعل بنانے کے معنی میں ہے اگر فاء کو جدا کرکے نہ پڑھا جائے تو یہ فجع مصیبت آنا کے معنی میں ہوجائے گا۔
(٣) فَتَرَیٰ:یہ رؤیت دیکھنے کے معنی میں ہے اگر ما کوجدا نہ کیا جائے تو فتر جھوٹ گڑھنے کے معنی میں ہوجائے گا۔
(٤) وَکَـفٰی:کفایہ کافی ہونا سے ہے اگر واؤ کو ملاکر نہ پڑھیں تو وکف ٹپکنے کے معنی میں ہوجائے گا۔
(٥) لَمَعَ:یہ مع ساتھ کے معنی میں ہے اور لام تاکید ہے اس کو خیال کرکے نہ پڑھا جائے تو یہ لمع روشن ہونے کے معنی میں ہوجائے گا۔
ہم نے اپنی اِستطاعت کے موافق چند غلطیوں کی طرف نشان دہی کرنے کی کوشش کی ہے۔اگر قراء ان کی طرف توجہ فرمائیں تو تلاوت قرآن کے مسئلہ میں اعتدال آ سکتا ہے۔باقی یہاں کسی پر تنقید مقصود نہیں صرف قراء میں پائے جانے والے ایک نقطۂ نظر کی وضاحت مطلوب تھی کہ تلاوتِ قرآن کے مسئلہ میں تلقّی اگرچہ معیارِ اوّل ہے،لیکن اس کے نام پر تلاوتِ قرآن میں نئی بدعتوں کو رواج دینا حملۃ القرآن کی شان کے منافی ہے۔اللہ ہمیں اقرئوا القرآن کما أنزل کے موافق قرآن پڑھنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔آمین
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیسا کہ تجوید کے مسئلہ میں قراء کا ایک طبقہ تحقیقی اَنداز کو ترک کیے ہوئے ہے بعینہٖ ایسے ہی قراء ات کے عمومی فکری مسائل بھی قراء کے اسی طرز فکر کا شکار ہیں اور بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ کسی شخص کی ایک تحقیقی رائے کو اہمیت دینے کے بجائے اپنے سنے سنائے پرانے نظریات پر ہی یقین کامل رکھے ہوئے اُسے ردّ کردیا جاتا ہے اور ان مسائل کو سمجھنے اور ان کے بارے میں شرح صدر کے ساتھ کسی کے نقطۂ نظر کو تسلیم کرنے یا پھر اپنی حد تک ایک تحقیقی نقد کرنے کے بجائے صرف یہ کہہ کر ردّ کردینا کہ یہ صحیح نہیں ہے اسی رویہ نے قراء میں تقلیدی روش کی جڑوں کومضبوط کیا ہے اور عام طور پر قراء الا ماشاء اللہ اپنے ان مسائل کے بارے میں کسی بھی سمجھدار سائل کو مطمئن کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ذیل میں ہم ان مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) اختیارات قراء کا مسئلہ
اختیارات سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی اِمام روایات مرویہ میں سے اپنی شرائط کے موافق قراء ت کے کسی انداز کو اختیار کرلے اور اسی کے موافق تلاوت کرے اور وہ قراء ات (یعنی اختیار) اُسی امام کی نسبت سے معروف ہوجائے۔ اختیارات کے بارے میں امام جزری﷫ فرماتے ہیں:
’’الاختیار ما اختارہ القاری من مرویاتہ وروی قراء ۃ تنسب إلیہ۔‘‘ (النشر:۱؍۵۲)
’’اختیار یہ ہے کہ قاری مختلف روایات میں سے بعض اَشیاء کو اپنے لیے خاص کرلے اسی کے موافق تلاوت کرے اور اسی کو اپنی قراء ت کے طور پر روایت کرے۔ ‘‘
اَب قراء کے ہاں عمومی طور پر یہ نقطۂ نظر پایا جاتا ہے کہ سرے سے اختیار کا مسئلہ ہی غلط ہے اور اس پر ہمیں بعض مؤقر قراء کرام کے خطوط بھی موصول ہوئے ہیں کہ اس مسئلہ کو یا اس نظریہ کو پیش نہیں کرنا چاہئے ہماری اس بارے میں رائے یہ ہے کہ ان مسائل میں معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کے بجائے ایک تحقیقی نقطہ ٔ نظر اختیا رکرنا چاہئے اور نوخیز قراء و علماء کو اس مسئلہ کو صحیح طورسمجھانا چاہئے تاکہ ایک علمی اور تحقیقی طرز فکر پروان چڑھے اور ہر ایک چیز کو اس کا صحیح مقام حاصل ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) خلط قراء ات کا مسئلہ
خلط قراء ات کامفہوم یہ ہے کہ مختلف روایات اور قراء ات کو آپس میں ایک دوسرے سے ملا کر پڑھنا مثلاً قراء ت کرتے ہوئے کسی ایک روایت کا التزام نہ کیا جائے بلکہ کئی روایات کو آپس میں ملا دیا جائے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے اس بارے میں عمومی طور پر قراء کا نظریہ یہ ہے کہ خلط قراء ات غلط ہے اور یہ قرآن کریم میں تغیرّ و تبدل کے مترادف ہے جبکہ یہ نظریہ تحقیقی نقطۂ نگاہ سے درست نہیں ہے بلکہ اس میں تفصیل ہے جیسا کہ امام ابن الجزری﷫ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ یہ کہنا کہ مطلق طور پر خلط قراء ات درست نہیں ہے صحیح نہیں ہے لہٰذا قراء ِعظام سے گزارش ہے کہ اس میدان میں بھی قدم رنجا فرمائیں۔ بعض قراء کو یہ شکوہ کرتے بھی سنا ہے کہ لوگ عمومی طور پر جمیع مسائل میں تومفتیان کرام سے مسائل پوچھتے ہیں لیکن قراء ات کے نظری مسائل میں بجائے مفتیان و شیوخ الحدیث کے رجوع قراء کی طرف ہوتا ہے حتیٰ کہ عوام کے بجائے مفتیان کرام اور شیوخ الحدیث عظام بھی قراء کی طرف رجوع کرتے ہیں حالانکہ چاہئے تویہ کہ جہاں دیگر سینکڑوں مسائل میں ہر شیخ الحدیث کوئی نہ کوئی نقطۂ نظر رکھتا ہے تو قراء ات کے مسائل کے بارے میں بھی ان کی کوئی رائے ہونی چاہئے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس سلسلہ میں قراء کی خدمت میں عرض ہے کہ یقیناً ان کا یہ احساس بجاہے کہ مفتیان و شیوخ قراء ات کے مسائل کے بارے میں کوئی نظریہ نہیں رکھتے، لیکن اس بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ سب سے پہلے تو وہ شخص جو خود قراء ات کا عالم نہیں ہے اس کا علم قراء ات کے بارے میں صحیح رائے دینا ایک بہت ہی مشکل مسئلہ ہے اگر کسی شیخ الحدیث کی علم قراء ات پر بھی گہری نظر ہے تو وہ یقیناً اس کا بہت بڑا امتیاز ہے لیکن جہاں یہ شکوہ قراء کا دیگر علماء عظام سے ہے ایسے یہ ہمارا شکوہ قراء سے بھی ہے کہ عام طور پر قراء کا بھی اس بارے میں کوئی نظریہ نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو وہ بھی کوئی تحقیقی نقطۂ نظر نہیں ہوتا بلکہ جو اساتذہ سے سنا تھا اُسے ہی حق سمجھتے ہوئے اس پر پکا ایمان ہے اور اس سے کسی بھی طرح ٹس سے مَس ہونے کو تیا رنہیں ہیں۔
مذکورہ دونوں مسائل پر تفصیلی بحث دیکھنے کے لیے قراء ات نمبر حصہ اوّل میں ہمارے مضمون مسئلہ خلط قراء ات کا مطالعہ فرمائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حدیث سبعہ اَحرف کے مفہوم کا مسئلہ
قراء ات کی بحث میں حدیث سبعہ اَحرف کا کیا مفہوم ہے ایک بنیادی ترین مسئلہ کی شکل اختیار کرگیا ہے اگرچہ حجیت قراء ات اور ثبوت قراء ات کی بحث سے اس کا تعلق بالکل اضافی ہے اس علمی مسئلہ کے بارے میں قراء عموماً تو کسی رائے کے حامل ہوتے ہی نہیں ہیں لیکن اگر ہیں بھی تو بعض دفعہ ایسی رائے ہوتی ہے جو ویسے ہی قراء ات کے عدم حجیت پر دلالت کررہی ہوتی ہے مثلاً یہ کہنا کہ سبعہ اَحرف سے مراد قراء سبعہ کی قراء ات ہیں یہ ایک انتہائی سطح رائے ہے اور اس سے دیگر قراء اتِ ثلاثہ متواترہ کی عدم حجیت کا خود بخود اعلان ہورہا ہے اس لیے ہمیں اس بات سے شکوہ نہیں ہے کہ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہونی چاہئے ہمارا شکوہ یہ ہے کہ رائے جو بھی اختیار کریںوہ دلائل و براہین کی قوت لیے ہوئے ہو اور دیگر آراء کا بھی ایک تجزیہ کیا ہونا چاہئے بعض دفعہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ قراء ات کے ان فکری مباحث میں عموماً قراء امام جزری﷫ کی رائے کو حتمی سمجھتے ہوئے پورے زور دار انداز سے پیش کردیتے ہیں۔ تو یہ اَنداز بھی ہماری نظر میں درست نہیں ہے کیونکہ شرعی علوم میں ہمیشہ یہی مسلک ہونا چاہئے کہ کسی مسئلہ کو دلائل کی بنیاد پر پرکھا جائے اور جس کی بھی رائے اَقرب اِلی الصواب ہو اُسے اختیار کرلیا جائے اس سے یہ قطعاً مراد نہیں ہے کہ امام جزری﷫ کی آراء ضعیف ہوتی ہیں یا پھر معاذ اللہ ان کی تنقیض مقصود ہے بلکہ مقصد بحث یہ ہے کہ اگرچہ امام جزری﷫ ہی کی رائے کو اختیار کیا جائے لیکن دلائل کی بنیاد پر مکمل شرح صدر ہونے کے بعد ویسے بھی تحقیق کی دنیا میں شخصیات کے بجائے دلائل و براہین سے ہی تمسک قابل ستائش امر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسم عثمانی کا مسئلہ
رسم عثمانی کے مسئلہ پر بھی ہماری معلومات نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں کہ آیا رسم توقیفی یا توفیقی یعنی اللہ کے رسولﷺکی طرف سے عطا کردہ یا حضرت عثمان﷜نے خود اختیار فرمایا تھا یا یہ کہ اُسے رسم عثمانی کیوں کہا جاتا ہے۔ رسم نبوی کیوں نہیں کہا جاتا یہ ایسے سوالات ہیں کہ قراء ات کے متعلق سوچنے والے ہر ذہن میں موجود ہیں اس لیے ہمیں بھی ان موضوعات پرنہ کہ خود تیاری کرنی چاہئے بلکہ وہ قراء کرام جو ماشاء اللہ ہر سال قراء اتِ عشرہ سے سند فضیلت حاصل کررہے ہوتے ہیں انہیں بھی باقاعدہ طور پر ان موضوعات پر تیاری کروائی جائے اور اگر ہوسکے تو ان سے مقالات تحریر کروائے جائیں تاکہ وہ جب میدان عمل میں جائیں تو دلائل کے اسلحہ سے لیس ہوں ،باطل نظریات کے حاملین کا ڈٹ کر مقابلہ کریں اور انہیں منہ توڑ جواب دیں ۔اس مسئلہ پر تفصیلی معلومات حاصل کرنے کے لیے قراء ات نمبر حصہ اوّل میں مجلس تحقیق اسلامی کے فاضل رکن قاری محمد مصطفی راسخ کا مضمون رسم عثمانی کی شرعی حثییت کا مطالعہ مفید رہے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس مسئلہ سے جڑا ہوا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جمع عثمانی کی نوعیت کیا تھیں روایات میں مذکور جمع عثمانی کے بارے میں بعص بظاہر متعارض الفاظ کی حقیقت کیا ہے کیا حضرت عثمانt نے سبعہ اَحرف کو ترک کردیا تھا اور سبعہ اَحرف کے بغیر قرآن کو صرف حرف قریش پر جمع کیا تھا یا یہ ایک مرجوح رائے ہے اور اس مسئلہ کی حقیقت کیا ہے ان تمام موضوعات پر بھی قراء کرام کی خصوصی نظر ہونی چاہئے تاکہ حفاظت قرآنی اور خدمت قرآن کے عظیم مقصد میں ہم کامیاب و کامران قرار پائیں، اس سلسلہ میں جاننے کے لیے قراء ت نمبر حصہ سوم میں موجود مضمون (رسم عثمانی روایات کے آئینہ میں) کا مطالعہ فرمائیں۔
 
Top