• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرانی انسائیکلوپیڈیا حسن نثار کا کالم

ام حماد

رکن
شمولیت
ستمبر 09، 2014
پیغامات
96
ری ایکشن اسکور
66
پوائنٹ
42
پھر بھی اگر اس پر کویی عالم دین جایزہ لے کر رایے لکھ دیں تو بہتر ہو گا
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
تبصرہ کتب:
========
اخبارات و جرائد کا ایک مستقل اور بہت قدیم سلسلہ ہے۔ کتاب کا مصنف یا ناشر اپنی اپنی نئی تصانیف معروف اخبارات و جرائد کو گو تبصرہ کی غرض سے ارسال کرتے ہیں۔ لیکن اس کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اخبارات و جرائد کے قارئین تک اس کتاب کے چھپنے کی اطلاع پہنچ جائے۔ پہلے، بہت پہلے۔۔۔ اخبارات و جرائد کے مدیران یہ تبصرے کتاب کے موضوع سے متعلق "ماہرین" سے لکھوایا کرتے تھے۔ بعد ازاں یہ ذمہ داری خود مدیران نے اپنے ناتواں قلم پر ڈال دی اور اب تو یہ کام اخبارات کے ہر ایرے غیرے کے ذمہ لگادیا جاتا ہے۔ کتاب کے مصنفین اور ناشر اب اپنی اپنی کتب معروف کالم نویسوں کو بھی بھیجنے لگے ہیں۔

دیگر موضوعات کی کتب کی حد تک تو تبصرہ کتب کی اس مشق پر کوئی خاص "اعتراض" نہیں ہوتا لیکن جب کتاب دینی موضوعات پر ہو تو ۔ ۔ ۔ یہ طریقہ کار انتہائی نامناسب ہے۔ چونکہ ہم تبصرہ کتب کے مروجہ طریقہ کار کو تبدیل کرنے کی "طاقت" نہیں رکھتے اس لئے ہمیں کوئی متبادل طریقہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ عوام الناس نئی دینی کتب کے بارے میں مستند علما کی رائے سے واقف ہوسکیں۔

میری تجویز یہ ہے کہ ابلاغ عامہ میں لکھنے لکھانے کی اہلیت کے حامل علمائے کرام اور ان کے لکھاری معاونین کی ایک غیر رسمی ٹیم تشکیل دی جائے جو ملک میں شائع ہونے والی دینی کتب بالخصوص اخبارات و جرائد میں تبصرہ ہونے والی دینی کتب پر متعلقہ ماہر علمائے کرام کی رائے پر مبنی تبصرے انہی اخبارات و جرائد و کالم نویس کو بھیجنے کے ساتھ ساتھ اپنے "ہم خیال" کالم نویس و جرائد کو بھی بھیجے جائیں تاکہ عوام ایسی کتب کی دینی حیثیت سے آگاہ ہوسکیں۔

(کوئی یہ سوال نہ اٹھائے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا۔ ابتسامہ)
 
Top