• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قران کریم میں سے ایک سبق ::::::: سجاوٹ والے امتحان :::::::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
:::::: سجاوٹ والے امتحان ::::::


بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم
اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ،
بے شک خالص تعریف اللہ کے لیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ، جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا اور حقیقی معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں :
اللہ سُبحانہ ُ و تعالیٰ کا اِرشاد پاک ہے ((((( زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالبَنِينَ وَالقَنَاطِيرِ المُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالفِضَّةِ وَالخَيلِ المُسَوَّمَةِ وَالأَنعَامِ وَالحَرثِ ذَلِكَ مَتَاعُ الحَيَاةِ الدُّنيَا وَاللَّهُ عِندَهُ حُسنُ المَآبِ O قُل أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيرٍ مِن ذَلِكُم لِلَّذِينَ اتَّقَوا عِندَ رَبِّهِم جَنَّاتٌ تَجرِي مِن تَحتِهَا الأَنهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَأَزوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَرِضوَانٌ مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالعِبَادِ ::: لوگوں کے لیے عورتوں ، بیٹوں ، سونے اور چاندی کے خزانوں میں اور پالتو نشان لگائے گھوڑوں اور مویشیوں میں اور کھتیت باڑی میں لالچ سجا دیے گئے ، یہ سب دُنیا کی زندگی کا سامان ہے اور اور اللہ کے پاس (جو کچھ ) ہے (وہ) بہترین ٹھکانہ اور ثواب ہے O آپ فرمایے کیا میں تم لوگوں کو اس سے زیادہ خیر والی خبر نہ بتاوں (کہ) جو تقویٰ والے ہیں اُن کے لیے ان کے رب کے ہاں باغات ہیں جن کے نیچے دریا بہتے ہیں جہاں وہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور (وہاں ) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور اللہ کی خوشنودی ہوگی اور اللہ اپنے بندوں (اور ان کے اعمال ) کو دیکھتا ہے))))) آل عمران/آیات 14،15، ان دو آیات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا میں دی گئی مختلف لذتوں میں سے ان کی خبر عطا فرمائی ہے جو لوگوں کے لیے سجا دی گئی ہیں ، یعنی لوگوں کے لیے کو بہت پر کشش اور محبوب بنا دیا گیا اور وہ لذتیں عورتوں اور بیٹوں اور مال و مویشی سے متعلق ہیں ،
اللہ تعالیٰ نے یہاں سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ دُنیا کے فتنوں یعنی امتحانات میں سب سے بڑا امتحان عورت ہے کہ اس کے ذریعے دِین دُنیا اور آخرت سب ہی کچھ خطرے میں پر جاتے ہیں اور بسا اوقات تباہ ہو جاتے ہیں ، لہذا عورت سے بڑھ کر فتنہ اور کوئی نہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ((((( مَا تَركتُ بَعدِي فَتنَة أضَرُ عَلٰى الرِّجَالِ مِن النِّساءِ::: میں نے اپنے بعد مَردوں کے لیے عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ امتحان اور کوئی نہیں چھوڑا )))))
لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عورت بہر صورت ، ہمیشہ پریشانی اور نقصان کا باعث ہی بنتی ہے ، بلکہ عورت بہت خیر اور برکت کا باعث بھی ہوتی ہے اور اگرعورتوں کے ذریعے اپنی عِزت اور عفت کو برقرار رکھنا ، اور اولاد کی کثرت کا ارادہ ہو تو عورت کا بطور بیوی حصول نہ صرف جائز بلکہ مطلوب اور پسندیدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ و سلم نے اس کی ترغیب دی ہے اور فرمایا ہے کہ (((((الدُّنيَا مَتَاعٌ وَخَيرُ مَتَاعِ الدُّنيَا المَرأَةُ الصَّالِحَةُ ::: دُنیا سامان ہے اور اس کے سامان میں سب سے زیادہ خیر والی چیز نیک بیوی ہے))))) صحیح مُسلم / کتاب الرضاع / باب17،
اور فرمایا (((((يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ ::: اے جوانو، تُم میں سے جو کوئی جنسی تعلق قائم کرنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ شادی کرلے ، کیونکہ ایسا کرنا نظر کو جھکانے ، اور شرمگاہ کی حفاظت کا سبب ہے ، اور جو شادی نہیں کر سکتا وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ اُس کے لیے ڈھال ہے)))))متفقٌ علیہ،صحیح البُخاری/حدیث5066/کتاب النکاح/باب3، صحیح مُسلم/حدیث3466/ کتاب النکاح / پہلاباب،
اور فرمایا (((((تَزَوَّجُوا الْوَلُودَ الْوَدُودَ فَإِنِّى مُكَاثِرٌ بِكُمْ ::: محبت کرنے والیوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والیوں سے نکاح کرو کہ میں (قیامت والے دن) تم لوگوں کی کثرت کی وجہ سے دوسری اُمتوں سے کثرت میں رہوں [)))))سُنن النسائی /حدیث3240/کتاب النکاح/باب11، اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے کہا """حدیث حَسنٌ صحیح """،
ایسی ہی تابع فرمان نیک عورتوں کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا فرمان ہے (((((حُبِّبَ إلي من الدُّنيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ وَجُعِلَ قُرَّةُ عَينِي في الصَّلَاةِ :::میرے لیے عورتیں اور خُوشبُو پسندیدہ بنائی گئی اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں بنائی گئی)))))سنن النسائی / حدیث 8887/کتاب عشرۃ النساء /باب اول ،صحیح سنن النسائی / حدیث 3939 ،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے اِن مذکورہ بالا سب ہی فرامین مُبارکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو اللہ کے دیے ہوئے منصب کی ذمہ اداری کی تکمیل کے لیے ، اللہ پاک کے کلام قران کریم کی تفسیر و تشریح کرنے والے ہیں ،اللہ پاک کے کلام قران حکیم کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بیان کردہ قولی اور فعلی تفسیر و تشریح کے بغیر سمجھنے کی کوشش سوائے گمراہی کے اور کچھ نتیجہ نہیں دیتی ،
پس مذکورہ بالا احادیث مبارکہ کی روشنی میں عورت کو بحیثیتِ جنس امتحان اور فتنہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کا مذکورہ بالا فرمان ایک عام خبر رکھتا ہے جس سے یہ یقینی علم ملتا ہے کہ اس جِنس کی اکثریت فتنے کا سبب ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ،
عورت کے بعد اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں دوسرے نمبر پر بیٹوں کا ذِکر فرمایا ہے ، کہ بیٹوں کی چاہت اور ان کے ہونے کی محبت بھی انسان کے لیے پر کشش اور خوشنُما بنا دی گئی ہے ، اس کے بھی دو سبب سمجھ میں آتے ہیں ایک تو بنی نوع انسان کے ساتھ مشترک ہے اور ایک نیکو کار ایمان والوں کے ساتھ ،
پہلا سبب دُنیاوی فخر و تکبر اور فوائد کے حصول کے لیے بیٹوں کی خواہش اور محبت ، ،،دوسرا سبب محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اُمت میں نیک موحد اور مجاھد ایمان والوں کی کثرت کی خواہش کی وجہ سے بیٹوں کے حصول کی محبت ، اور یہ محبت مطلوب ہے ، محمود ہے ، ممدوح ہے ، مرغوب ہے ، جیسا کہ ابھی ابھی ذکر کردہ حدیث شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ حُکم ذکر کر گذرا ہوں((((( تَزَوَّجُوا الوَدُودَ الوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُم الأمَمَ ‏:::محبت کرنے والیوں اور زیادہ بچے پیدا کرنے والیوں سے نکاح کرو کہ میں (قیامت والے دن) تم لوگوں کی کثرت کی وجہ سے دوسری اُمتوں سے کثرت میں رہوں )))))سنن ابی داود / حدیث 2050 / کتاب النکاح / باب 5 ،
پس بیٹوں کی محبت ، یعنی ان کے ہونے کی محبت اور چاہت اگر پہلے سبب سے ہو تو فتنہ ، اور اگر دوسرے سبب سے ہو تو قابل ستائش اور دُنیا اور آخرت کی خیر والی ، ان شاء اللہ ،
اسی طرح مال سونا چاندی پالتو جانور مویشی وغیرہ کی خواہش اور اس کی محبت ہے ، اس کا معاملہ بھی بیٹوں کی محبت جیساہے ، یعنی اس کے بھی ویسے ہی سابق الذِکردو بنیادی سبب نظر آتے ہیں ،
پہلاسبب تو یہ کہ مال کی خواہش اور مال کی محبت عموماً فخر اور تکبر کے لیے ہوتی ہے ، کمزور اور غریب لوگوں پر رعب اور دھونس جبر و ستم کے لیے ہوتی ہے،
دوسرا سبب یہ کہ مال کی خواہش اور محبت نیک ایمان والوں کے ہاں اللہ کے قرب کے حصول کے ذریعے کے طور پر ہوتی ہے کہ وہ لوگ نیک کاموں کے میں ، اللہ کے دین کی سُرخرُوئی کے لیے وہ مال خرچ کر کے اللہ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنا چاہتے ہیں ، اور ایسے ہی اِیمان والوں کی نشانیوں میں اللہ تعالی نے یہ فرمایا ہے کہ ((((( و مِمَّا رَزقناھُم یُنفِقُون ::: اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا اُس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں ))))) سورت البقرۃ ،
مال کے ذکر میں اللہ تعالی نے ایک خاص مقدار """ قنطار """ کا ذکر فرمایا ہے ، اس مقدار کے بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ ایک قنطار کتنا ہوتا ہے ، ،،مثلا کہا گیا کہ قنطار ، ایک ہزار دینار ، اور کہا گیا ایک ہزار دو سو دینار ، اور کہا گیا بارہ ہزار ، اور کہا گیا چالیس ہزار ، اور کہا گیا ساٹھ ہزار اور اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں ، لیکن اس معاملے میں سب سے اچھی بات اور بہتر قول امام الضحاک رحمہ اللہ کا ہے کہ """ قنطار بہت زیادہ مال کو کہا جاتا ہے """
اللہ تعالیٰ نے قنطار کا جو ذِکر فرمایا ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ ایک قنطار سے کم مال کی محبت یا اس کو جمع رکھنا قابل گرفت نہ ہوگا بلکہ اس کے ذِکر کا مطلب یہ ہے بہت زیادہ مال جمع کرنے کی محبت عموماً انسان کو ھلاکت کی طرف لے جاتی ہے ،
اس کے علاوہ اللہ تعالی نے گھوڑوں کی محبت کا ذِکر فرمایا اور اِن گھوڑوں کی صفت کے طور پر اُن کو """ المسمومہ """ کہا ہے ، """ المسومہ """ کی تفیسر عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے """ پالتو """ فرمائی ،
پالتو گھوڑوں سے محبت کے بھی سابق الذکر جیسے ہی تین سبب ہیں ،
(1) پہلا سبب ، کبھی تو یہ محبت اللہ کی ر اہ میں جہاد کے لیے ہوتی ہے کہ ایمان والے اپنے بہترین نشان لگے ، تحجیل والے یعنی ایسے گھوڑے جن کی آنکھوں اور پہروں وغیرہ کے گرد حلقے ہوتے ہیں اور وہ گھوڑے تیار رکھتے ہیں کہ کسی بھی وقت اللہ کی راہ میں استعمال کی ضرورت پیش آجائیں تو تاخیر نہ ہو ،یہ لوگ اپنے اس عمل پر ان شاء اللہ مأجور ہوں گے کیونکہ اللہ کا حُکم ہے کہ ‏(((((‏ وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا استَطَعتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الخَيلِ تُرهِبُونَ بِهِ عَدوَّ اللّهِ وَعَدُوَّكُم وَآخَرِينَ مِن دُونِهِم لاَ تَعلَمُونَهُمُ اللّهُ يَعلَمُهُم وَمَا تُنفِقُوا مِن شَيءٍ فِي سَبِيلِ اللّهِ يُوَفَّ إِلَيكُم وَأَنتُم لاَ تُظلَمُونَ ::: اور کافروں کے تیار رکھو طاقت میں سے جو تماُرے اختیار میں ہو اور بندھے ہوئے تاير گھوڑوں میں سے جس کے ذریعے تُم لوگ خوف زدہ کر سکو اللہ کے دُشمنوں اور تُمارے دُشمنوں کو اور جو اُن کے علاوہ ہیں جنہیں تم لوگ نہیں جانتے اللہ ہی انہیں جانتا ہے ، اور تُم لوگ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو وہ تم لوگوں کی طرف وفا (کے ساتھ پلٹا دیا جائے ) گا اور تُم لوگوں پر ظُلُم نہ کیا جائے گا)))))سُورت الأنفال آیت 60 ‏،
(2) دوسرا سبب ، کبھی گھوڑوں کی پرورش اپنی سیفد پوشی کے لیے ہوتی ہے اور گھوڑوں کی نسل بڑھانے کے لیے ہوتی ہے ، یہ لوگ اگر مسلمان ہوں اور ان جانوروں کا حق ادا کرتے ہوں تو ان شاء اللہ آخرت میں ان کے لیے فائدہ مند ہو گا ،
(3) تیسرا سبب ، کبھی گھوڑے پالے جاتے ہیں ایک دوسرے کے سامنے تکبر اور فخر کرنے کے لیے یا اسلام اور مسلمانوں کےخلاف استعمال کرنے لے لیے پالے جاتے ہیں ، ایسا کرنا کرنے والوں کے آخرت میں عذاب کا سبب ہو گا ،
ہمارے اِس وقت زیر مطالعہ، اللہ تعالیٰ کے اِس فرمان مُبارک میں """و الأنعام ::: مویشی """ سے مراد اُونٹ گائے بکری وغیرہ ہیں ، اور """ الحرث ::: کھیتی """سے مُراد ایسی زمین ہے جِسے کھیتی باڑی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ،
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا (((ذَلِكَ مَتَاعُ الحَيَاةِ الدُّنيَا ::: یہ سب دُنیا کی زندگی کا سامان ہے))) یعنی یہ سب کچھ صرف دُنیا کی زندگی میں ہی ہے ، اور صرف اِسی زندگی کی سجاوٹ اور دل پذیری کا سبب ہے ، جسے ایک دِن زائل ہونا ہی ہے ، ختم ہونا ہی ہے (((وَاللَّهُ عِندَهُ حُسنُ المَآبِ ::: اور اللہ کے پاس (جو کچھ ) ہے (وہ) بہترین ٹھکانہ اور ثواب ہے)))أمیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ """ جب (((زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ)))نازل ہوئی تو میں نے کہا ، اب اے ہمارے رب جب کہ آپ نے اسے ہمارے لیے سجا دیا ہے (تو اس کے بعد ہم اِس سجاوٹ کے دھوکے سے کیسے بچیں )، تو پھر (((قُل أَؤُنَبِّئُكُم بِخَيرٍ مِن ذَلِكُم لِلَّذِينَ اتَّقَوا ))) نازل ہوئی """
اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جنّت میں موجود نعمتوں کا ذِکر فرما کر لوگوں کو اس کی جنّت کی ترغیب دلاتے ہوئے بتایا کہ جو کچھ اللہ پاس ہے وہ دُنیا کی ظاہری اور ختم ہوجانے والے زینت سے کہیں زیادہ بہترین ہے اور وہ جنت ایسی ہے جس میں اس کے باغات کے نیچے دریا بہتے ہیں ، دُودھ ، شہد ، شراب اور پانی اور طرح طرح کے مشروبات کے دریا ، اور اس میں وہ کچھ ہے جو کسی آنکھ نے دیکھا نہیں کسی کان نے سُنا نہیں اور نہ ہی کسی انسان کے دِل میں اِس کا گمان بھی گذرا ہے ، وہاں اِن دریاؤں والی جنّت میں ، ایسی پاکیزہ بیویوں کے ساتھ جو دُنیا کی عورتوں کے طرح حیض و نفاس وغیرہ جیسی علتوں سے پاک ہوں گی ، اور ان سب نعمتوں سے بڑھ کر اور عظیم بڑی نعمت ‏((((( وَرِضوَانٌ مِنَ اللَّهِ أكبر ‏)))))‏ اللہ کی رضا اور خوشی کے ساتھ وہاں رہیں گے اور ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، نہ اُس کے بعد اللہ تعالیٰ ان پر ناراض ہوں گے اور نہ ہی وہ لوگ ان نعمتوں سے خارج ہوں گے ،
اِس آیت مبارکہ کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا (((((‏ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالعِبَادِ ))))) یعنی اللہ تعالیٰ ہر ایک کو وہ کچھ عطا کرے گا جس کا وہ اپنے اعمال کے مطابق مستحق ہو گا ۔ اللہ تعالی اپنے لطف و کرم سے ہر مسلمان کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اللہ کی جنّت میں داخل ہونے کا مستحق ہو جائے ۔والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
تفسیر ابن کثیر سے ماخوذ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برقی نسخہ """ یہاں """ سے اتارا جا سکتا ہے ۔
 
Top