• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

::: قران کو سمجھنے کے لیے لازم ہے سنت کا ذریعہ :::

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
::: قران کو سمجھنے کے لیے لازم ہے سنت کا ذریعہ :::

بِسّمِ اللہ الرّ حمٰنِ الرَّحیم

اِن اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا ، مَن یَھدِ ہ اللَّہ فَلا مضِلَّ لَہ وَ مَن یضلِل ؛ فَلا ھَاديَ لَہ ، وَ أشھَد أنَّ لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ ، وَ أشھَد أنَّ مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ، :::بے شک خالص تعریف اللہ کے لئیے ہے ، ہم اُس کی ہی تعریف کرتے ہیں اور اُس سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور اُس سے ہی مغفرت طلب کرتے ہیں اور اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اپنی جانوں کی بُرائی سے اور اپنے گندے کاموں سے ،جِسے اللہ ہدایت دیتا ہے اُسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا ، اور جِسے اللہ گُمراہ کرتا ہے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک اللہ کے عِلاوہ کوئی سچا معبود نہیں اور وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم )اللہ کے بندے اور اُس کے رسول ہیں ::: اور اس کے بعد ، کہتا ہوں کہ :::
::::::: قُران کو اللہ کے مطلوب و مقصود کے مطابق سمجھنے کے لیے سنّت کے ذریعے سمجھنا لازمی ہے :::::::
کچھ عرصہ پہلے ایک مختصر سا مراسلہ بعنوان ''' صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم کی حجیت ''' ارسال کیا تھا ، یہ رواں مضمون پڑھنے سے پہلے ان شاء اللہ بہت بہتر ہوگا کہ اُس مراسلے کا مطالعہ کر لیا جائے ،
اللہ سبحانہ و تعالی نے خود اس بات کا اعلان فرمایا ہے کہ اُس نے اپنے آخری رسول مُحمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر اپنی کتاب حکیم قُران الکریم کے ساتھ ساتھ کچھ اور بھی نازل فرمایا اور اس کو اللہ نے ''' حِکمت ''' فرمایا ،
((( وَلَولاَ فَضلُ اللّہِ عَلَیکَ وَرَحمَتُہُ لَہَمَّت طَّآئِفَۃٌ مُّنہُم أَن یُضِلُّوکَ وَمَا یُضِلُّونَ إِلاُّ أَنفُسَہُم وَمَا یَضُرُّونَکَ مِن شَیء ٍ وَأَنزَلَ اللّہُ عَلَیکَ الکِتَابَ وَالحِکمَۃَ وَعَلَّمَکَ مَا لَم تَکُن تَعلَمُ وَکَانَ فَضلُ اللّہِ عَلَیکَ عَظِیماً::: اور (اے رسول ، صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) اگر آپ پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو ایک گروہ یہ ارادہ کر رہا تھا کہ آپ کو راہ (حق ) سے ہٹا دے اور وہ لوگ اپنے آپکو ہی گمراہ کرتے ہیں ، اور وہ آپ کو کسی چیز میں سے نقصان نہ پہنچائیں گے (کیونکہ اللہ آپ کی حفاظت کرنے والا ہے ) اور اللہ نے آپ پر کتاب (قران ) نازل کی اور (اسکے ساتھ ) حکمت (نازل کی ) اور آپ کو وہ کچھ سیکھایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور اللہ کا فضل آپ پر بہت زیادہ ہے ))) سورت النساء / آیت 113
اللہ تعالی نے خبر دی کہ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم پر قران کے ساتھ ساتھ حکمت بھی نازل فرمائی ، اور بالکل واضح سمجھ آتا ہے کہ یہ حِکمت قران کے ساتھ تو ہے اس میں سے نہیں ، ایک مستقل الگ چیز ہے ، یہاں چند ایک سوال سامنے آتے ہیں کہ :::
(1) اللہ نے یہ حکمت کیوں نازل فرمائی ؟ ( 2) یہ حکمت ہے کیا ؟ اور (3 ) رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے کس کو براہ راست یہ حکمت سیکھائی ؟؟؟
پہلے اور تیسرے سوال کے جواب ''' صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم کی حجیت ''' والے مراسلے میں موجود ہیں ، یہاں میں دوسرے سوال کہ ::: یہ حِکمت ہے کیا ؟ ::: کا جواب پیش کرتا ہوں ،
لیکن اس جواب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرامین کو پڑھا جائے اور ان پر اپنا ایمان پختہ کیا جائے :::
(((وَ مَا اتاکُم الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ مَا نَھا کُم عَنہُ فَانتَھُوا ::: اور رسول جو کچھ تمہیں دے وہ لے لو اور جِس سے منع کرے اُس سے باز آ جاؤ ))) (سورت الحشر / آ یت ٧ ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ہر حُکم پر عمل کرنے کا اللہ کی طرف سے حُکم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے جِس کام سے باز رہنے کا حُکم ہے اُس سے باز رہنا اللہ کا حُکم ہے ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کِسی بھی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے حُکم پر عمل نہ کرنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے ، کِسی حیل و حجت یا تاویل کی گنجائش نہیں ،
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اطاعت فرض ہے ، محض زبانی جمع خرچ سے یہ اطاعت نہیں ہوتی ، اس کی فرضیت کے بارے میں ایک مضمون ارسال کر چکا ہوں)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے ((( وَمَآ أَنزَلنَا عَلَیکَ الکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِی اختَلَفُوا فِیہِ وَہُدًی وَرَحمَۃً لِّقَومٍ یُؤمِنُونَ ::: اور ہم نے آپ پر یہ کتاب صرف اس لیے نازل کی ہے کہ لوگ جس میں اختلاف کرتے ہیں آپ لوگوں کے لیے اس کی وضاحت کیجیے ، اور(یہ کتاب ) ایمان والوں کے لیے(بطور ) ہدایت اور رحمت نازل کی ہے ))) سورت النحل / آیت 66
پس ، اللہ کی کتاب کا بیان ، ہمارے اختلافات کا حل ، ہمارے عقائد ، عبادات ، معاملات ، معاشرت ، معیشت کے احکام ، حلال و حرام ، جاننے کے لیے اللہ کی طرف سے یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہم اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی قولی فعلی تقریری سنّت کے ذریعے جانیں اور اسی پر عمل کریں ، نہ کہ اپنے خود ساختہ یا لوگوں کے ذاتی نظریات پر مبنی فلسفوں کے مطابق ،
اللہ کے ان مندرجہ بالا فرامین کی روشنی میں اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی زبان مُبارک سے ادا ہوئے یہ الفاظ بھی پڑھیے ، چلتے چلتے یہ بھی ہاد کرواتا چلوں کہ اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے کاموں اور فرامین کے اس بات کی بھی گواہی دی ہے کہ ((( مَا ضَلَّ صَاحِبُکُم وَمَا غَوَی (2) وَمَا یَنطِق ُ عَنِ الہَوَی(3) إِن ہُوَ إِلَّا وَحیٌ یُوحَی (4) ::: تم لوگوں کا ساتھی(محمد صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) نہ گمراہ ہوا اور نہ ہی اغوا(2) اور نہ ہی وہ اپنی خواھشات کی بنا پر بات کرتا ہے(3) اس کی بات تو صرف اس کی طرف کئی گئی وحی ہے(4)))) سورت النجم ،
اور اُس پاک زُبان سے جو اللہ کی وحی کے مطابق بات فرماتی تھی یہ الفاظ ادا ہوئے :::
((( ألا إِنّی أُوتِیتُ الکِتَابَ وَمِثلَہُ مَعہ ألا إِنّی أُوتِیتُ القُرآنَ وَمِثلَہُ مَعہ ألا یُوشِکُ رَجُلٌ شَبعَاناً علی أَرِیکَتِہِ یقول : عَلَیکُم بِالقُرآنِ فما وَجَدتُم فیہ من حَلاَلٍ فَأَحِلُّوہُ وما وَجَدتُم فیہ مِن حَرَامٍ فَحَرِّمُوہُ ::: خبردار (یاد رکھو ) کہ بے شک مجھے کتاب( قُران ) دی گئی اور اُس کے ساتھ اُس جیسا اور بھی دیا گیا ، خبردار(یاد رکھو ) قریب ہے کہ (کوئی) مال داری ، عیش و آرام اور معاشرتی حیثیت کے خُمار میں مخمور شخص اپنی پر آسائش نشست گاہ میں ٹیک لگائے یہ کہے گا : تُم لوگ(صِرف) قُران پر عمل کرو ، پس جو قُران میں حلال ملے اُسے حلال سمجھو اور جو قُران میں حرام ملے اُسے حرام سمجھو))) سنن ابو داود /حدیث ٤٥٩١/ کتاب السُنّۃ /باب ٥ ، مُسنداحمد ، سنن البیہقی الکبری ، اِمام الالبانی نے صحیح قرار دیا ،
:::::: کچھ مزید وضاحت اس روایت میں ہے جو ، المقدام بن معدي کرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا (((یُوشِکُ الرَّجُلُ مُتَّکِئًا علی أَرِیکَتِہِ یُحَدَّثُ بِحَدِیثٍ من حَدِیثِی فیقول بَینَنَا وَبَینَکُم کِتَابُ اللَّہِ عز وجل فما وَجَدنَا فیہ من حَلَالٍ استَحلَلنَاہُ وما وَجَدنَا فیہ من حَرَامٍ حَرَّمنَاہُ أَلَّا وَإِنَّ ما حَرَّمَ رسول اللَّہِ صَلّی اللَّہ ُ عَلِیہِ و عَلَی آلہِ وسَلّمَ مِثلُ ما حَرَّمَ اللَّہ ::: قریب ہے کہ کوئی شخص اپنی سجی سجائی پُر آسائش نشست گاہ میں ٹیک لگائے ہو اور اسے میری کوئی حدیث سنائی جائے تو وہ کہے ::: ہمارے اور تُمہارے درمیان اللہ عز و جل کی کتاب ہے پس ہمیں جو اس کتاب میں حلال ملتا ہے ہم اسے حلال کرتے ہیں اور جو اس میں حرام ملتا ہے اسے حرام کرتے ہیں ::: اور (لیکن تم لوگ یاد رکھو کہ ) جو اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ) نے حرام کیا وہ اس طرح ہے جس طرح اللہ نے حرام کیا ))) سنن ابن ماجہ / باب 2 /حدیث 12
کچھ اور مزید وضاحت اس روایت میں ہے جس کے آخر میں یہ اضافہ ہے کہ ((( أَلا لا یَحِلُّ لَکُمُ الحِمَارُ الأَہلِیُّ وَلا کُلُّ ذِی نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَلا لُقَطَۃُ مُعَاہَدٍ إِلا أَن یَستَغنِیَ عنہا صَاحِبُہَا وَمَن نَزَلَ بِقَومٍ فَعَلَیہِم أَن یَقرُوہُ ::: خبردار تم لوگوں کے لیے پالتو گدھے (کھانا)حلال نہیں ہیں ، اور نہ ہی ناب والے جانور ، اور نہ ہی جس سے معاھدہ کیا گیا ہو (ذمی وغیرہ) کی کوئی گری پڑی چیز لینا حلال ہے سوائے اس کے کہ وہ خود اس کو چھوڑ دے ، اور جو کسی قوم کے پاس آئے تو اس قوم کو چاہیے کہ اس کا خیال کرے ))) المعجم الکبیر للطبرانی /جلد20/حدیث 670/ ، مُسند احمد /حدیث 17213،17272/مُسند معدي کرب رضی اللہ عنہ کی چوتھی حدیث ،
::::: اور ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ((( لَا أُلفِیَنَّ أَحَدَکُم مُتَّکِئًا علی أَرِیکَتِہِ یَأتِیہِ الأَمرُ مِمَّا أَمَرتُ بِہِ أو نَہَیتُ عنہ فیقول لَا أَدرِی ما وَجَدنَا فی کِتَابِ اللَّہِ اتَّبَعنَاہُ ::: تم میں سے کوئی ایسے شخص سے ضرور ملے گا جو اپنی سجی سجائی پُر آسائش نشست گاہ میں ٹیک لگائے ہو ، جب اُس تک میرے دیے ہوئے احکام میں سے کوئی حُکم پہنچے گا یا میری طرف سے کئی گئی کوئی ممانعت پہنچے گی تو وہ کہے گا ::: مجھے اس کا پتہ نہیں ہمیں تو جو اللہ کی کتاب میں ملتا ہے اس کی اتباع کرتے ہیں ))) سنن ابن ماجہ / باب 2 /حدیث 13

:::::ایسے لوگوں کی ایک نشانی ::::: ابو سعید الخُدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ((( یَخرُجُ نَاسٌ مِن قِبَلِ المَشرِقِ ویقرؤون القُرآنَ لَا یُجَاوِزُ تَرَاقِیَہُم یَمرُقُونَ من الدِّینِ کما یَمرُقُ السَّہمُ من الرَّمِیَّۃِ ثُمَّ لَا یَعُودُونَ فیہ حتی یَعُودَ السَّہمُ إلی فُوقِہِ قِیلَ ما سِیمَاہُم قال سِیمَاہُم التَّحلِیقُ أو قال التَّسبِیدُ ::: مشرق کی طرف سے ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو قران پڑہیں گے لیکن قُران ان کے حلق سے آگے نہیں جائے گا ، وہ لوگ دِین میں سے اس طرح نکلیں گے جِس طرح تِیر کمان سے نکلتا ہے ، اور اس وقت تک واپس نہ آئیں گے جب تک کہ کمان سے نکلا ہوا تِیر کمان میں واپس نہ آئے ) ::: پوچھا گیا ''' اُن کی کیا نشانی ہے ؟ ''' فرمایا ( بال مونڈھنا ) یا فرمایا ( بالوں کو تیل کنگھی سے محروم رکھنا ))) صحیح البُخاری /حدیث 7123 /کتاب التوحید /باب57 ،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی بتائی ہوئی یہ نشانیاں سب سے پہلے خوارج میں ظاہر ہوئیں ، جن کا خاتمہ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا ، لیکن اُن کے منہج کی باقیات ابھی تک مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں ، اور ان بیان کردہ نشانیوں کے ساتھ موجود ہیں کہ سر یا داڑھی کے بال مونڈھتے ہیں ، یا بالوں کو اجاڑے پھرتے ہیں ، قران خوب پڑھتے ہیں ، لیکن وہ قران ان کے حلق سے آگے نہیں جاتا کہ وہ سنت رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے قولی ، عملی یا فکری انکار کا شکار نظر آتے ہیں ،
اللہ ہم سب کو ہر گمراہی کی پہچان کا علم و سلیقہ عطا فرمائے اور گمراہی کا شکار ہونے سے محفوظ رکھے ،
ابھی میں نے سر یا داڑھی کے بال مونڈھنے کی جو بات کی ہے ، اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا عام طور پر بال مونڈھنے کا ذِکر فرمانا ہے ، صرف سر کے بالوں کی قید نہیں ، لغتاً بھی یہ بات صاف ظاہر ہے ، اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فعل سے بھی ، اور الحمد للہ میرے اس فہم کی تصدیق امام بدرالدین محمود العینی الحنفی رحمہ اللہ کی ''' عُمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ''' میں اسی حدیث کی شرح میں بھی ملتی ہے ،
اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے یہ فرامین ہر کسی کے لیے بہت وضاحت سے یہ بتا رہے ہیں کہ اللہ کی کتاب سمجھنے کے لیے ، ہمارے اختلافات کا حل جاننے کے لیے، ہمارے عقائد ، عبادات ، معاملات ، معاشرت ، معیشت کے احکام ، حلال و حرام ، جاننے کے لیے اللہ کی طرف سے یہ لازم کیا گیا ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی قولی ، فعلی اور تقریری سنّت کی حدود میں رہتے ہوئے اسے سمجھیں ، اور یہ سُنّت ہی وہ '''حِکمت ''' ہے جو اللہ نے اپنی کتاب کے ساتھ ساتھ نازل فرمائی، اِس ''' حکمت ''' سے متعلق باقی دو سوالات کے جوابات '''صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فہم کی حجیت ''' والے مضمون میں دیکھیے ،
اللہ تعالی ہمیں یہ ہمت اور توفیق دے کہ ہم اپنی سوچ و فِکر کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود کا پابند کریں اور پھر اس کے مطابق عمل کریں اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ،
:::::ایک اور نشانی :::::: حذیفہ ابن یمان رضی اللہ عنہ جنہیں ''' صاحب السّرِ النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ''' یعنی ''' نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا راز دان ''' کہا جاتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے انہیں مدینہ کے منافقین کے نام بتائے تھے ، جو انہوں نے کسی بھی اور کو نہیں بتائے ، یہ حذیفہ ابن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :::
''''' لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں اُن سے شرّ کے بارے میں پوچھا کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں (میں اس شرّ کو پہچانتا نہ ہوں اور )وہ شرّ مجھے قابو نہ کر لے ، تو میں نے عرض کیا ''' یا رَسُولَ اللَّہِ إِنَّا کنا فی جَاہِلِیَّۃٍ وَشَرٍّ فَجَاء َنَا اللَّہ بہذا الخَیرِ فَہَل بَعدَ ہذا الخَیرِ مِن شَرٍّ ::: اے اللہ کے رسول ہم لوگ جاھلیت اور شرّ میں تھے تو اللّہ تعالی ہمارے لیے اس خیر (یعنی اسلام ) کے ساتھ آیا ، تو کیا اس خیر کے بعد کوئی اور شرّ ہے ؟ ''' تو فرمایا ((( نعم ::: جی ہاں ))) تو میں نے پھر عرض کیا '''وَہَل بَعدَ ذلک الشَّرِّ من خَیرٍ ::: تو کیا پھر اُس شرّ کے بعد کوئی خیر ہے ؟ ''' تو فرمایا (((نعم وَفِیہِ دَخَنٌ ::: جی ہاں اور اس خیر میں (برائی کی )دُھندلاہٹ ہو گی ))) میں نے عرض کیا ''' وما دَخَنُہُ ::: وہ دُھندلاہٹ کیا ہے ؟ ''' ارشاد فرمایا (((قَومٌ یَستَنُّونَ بِغَیرِ سُنَّتِی و یَہدُونَ بِغَیرِ ہَدیِی تَعرِفُ منہم وَتُنکِرُ ::: ایسے لوگ جو میری سُنّت کے علاوہ کو سُنّت اپنائیں گے اور میری ہدایت کے علاوہ کسی اور طور ہدایت دینے کی بات کریں گے تُم ان کے اعمال و افعال کو پہچانو گے بھی اور ان پر انکار بھی کرو گے ))) میں نے پھر عرض کیا '''فَہَل بَعدَ ذلک الخَیرِ من شَرٍّ ::: تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی اور شرّ ہو گا ؟ ''' تو ارشاد فرمایا (((نعم دُعَاۃٌ إلی أَبوَابِ جَہَنَّمَ من أَجَابَہُم إِلَیہَا قَذَفُوہُ فیہا ::: جی ہاں جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہوئے داعی (دعوت دینے والا ، بُلانے والا ، )جو ان کی دعوت قبول کرے گا اسے جہنم میں پھینک دیں گے ))) میں نے پھر عرض کیا '''یا رَسُولَ اللَّہِ صِفہُم لنا :::اے اللہ کے رسول ہمیں ان کی نشانیاں بتایے ''' تو ارشاد فرمایا (((ہُم مِن جِلدَتِنَا وَیَتَکَلَّمُونَ بِأَلسِنَتِنَا ::: وہ ہم میں سے ہی ہوں گے اور ہماری زبانوں میں ہی بات کرتے ہوں گے ))) میں نے پھر عرض کیا ''' فما تَأمُرُنِی إن أَدرَکَنِی ذلک ::: اگر مجھے یہ حالت ملے تو آپ مجھے کیا کرنے کا حُکم فرماتے ہیں ؟ ) ارشاد فرمایا ((( تَلزَمُ جَمَاعَۃَ المُسلِمِینَ وَإِمَامَہُم ::: تُم مضبوط طور پر مُسلمانوں کی جماعت اور اُن کے اِمام کے ساتھ ہی رہنا ))) میں نے پھر عرض کیا ''' فَإِن لم یَکُن لہم جَمَاعَۃٌ ولا إِمَامٌ ::: اگر (اُس وقت ) مُسلمانوں کی نہ تو کوئی جماعت ہو اور نہ ہی کوئی اِمام ( تو میں کیا کروں ) ؟ ''' تو ارشاد فرمایا ((( فَاعتَزِل تِلکَ الفِرَقَ کُلَّہَا وَلَو أَن تَعَضَّ بِأَصلِ شَجَرَۃٍ حتی یُدرِکَکَ المَوتُ وَأَنتَ عَلَی ذَلِک ::: تو تُم اُن تمام گروہوں سے الگ رہنا ، خواہ درخت کی جڑ چوس کر (زندہ رہنا پڑے لیکن اُن سے الگ ہی رہنا ) یہاں تک کہ تُمہاری موت آجائے اور تُم اسی (علیحدگی والی ) حالت میں ہو ))) صحیح البخاری / حدیث 6673 /کتاب الفتن /باب 11، صحیح مُسلم /حدیث 1847 /کتاب الاِمارہ/باب 13 (مندرجہ بالا الفاظ مُسلم کی روایت کے ہیں)
اس مندرجہ بالا حدیث میں جماعت سازی اور الگ الگ دعوت بازی کی شرعی حیثیت کا حُکم بھی ملتا ہے اور ہمارے رواں موضوع کے بارے میں بڑی وضاحت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سنت کو چھوڑ کر کسی اور طور سے ہدایت اور حق کی دعوت یا بات کرنے والے گمراہی کا شکار ہوتے بھی ہیں اور کرتے بھی ہیں ، اُن کی دعوت اور وہ خود خیر اور حق کی دھندلاہٹ کا باعث ہوتے ہیں ، پس صاف ستھری صحیح ہدایت وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت کی موافقت رکھتی ہے ، اگر سُنّت کو ترک کیا جائے یا کسی حیلے بہانے سے کچھ کو چھوڑا جائے یا کچھ کو اپنایا جائے ، یا محض اضافی معلومات سمجھا جائے ، یا معاشرتی سوچ اور عادات کا عکاس جانا جائے ، تو یہ سب فلسفے باطل ہیں ، جِن کی موجودگی میں خیر اور ہدایت نہیں پائی جا سکتی ، کیونکہ اللہ کے احکام ، و فرامین کا مطلوب و مقصود جانے بغیر ہدایت نہیں مل سکتی اور یہ مطلوب و مقصود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی سُنّت کے بغیر نہیں سمجھے جا سکتے ،
اللہ تعالی ہم سب کو حق اور باطل ، خیر اور شرّ پہچاننے کی توفیق عطاء فرمائے ، اور حق قبول کرنے کی ہمت عطا فرمائے اور اس پر عمل کرنے اسے نشر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اُسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے ،
اس موضوع پر اور بھی بہت سے دلائل ہیں ، لیکن بات کو مختصر رکھنے کے لیے میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں ، اللہ تعالی اسے میرے اور سب پڑھنے والوں کے لیے خیر و برکت کے ساتھ کافی کر دے ، والسلام علیکم ۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
جزاکم اللہ خیرا عادل سہیل بھائی جان۔ بے شک کتاب و سنت لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کو ذاتی فہم سے پرکھنے کو اتحاد امت کی بنیاد سمجھنے والے آج خود دعوت الی القرآن کے دعویٰ کے باوجود گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ بے شک ہدایت تو اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں منحصر ہے۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
جزاکم اللہ خیرا عادل سہیل بھائی جان۔ بے شک کتاب و سنت لازم و ملزوم ہیں۔ ایک کے بغیر دوسرے کو ذاتی فہم سے پرکھنے کو اتحاد امت کی بنیاد سمجھنے والے آج خود دعوت الی القرآن کے دعویٰ کے باوجود گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ بے شک ہدایت تو اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی میں منحصر ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
اللہ تعالیٰ آپ کو بھی بہترین اجر سے نوازے شاکر بھائی ، و السلام علیکم۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
و ایاک یا اخی الکریم ، و السلام علیکم۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں پہلے سوچتا تھا کہ "جزاک اللہ خیرا" کے بدلے میں کیا لکھا کروں تو کسی نے بتایا کہ "وایاک" یا "وایاکم"لکھا جاتا ہے۔لیکن شیخ محترم کفایت اللہ صاحب نے اس بارے میں حیرانی کا اظہار کیا۔اب سے کچھ احتیاط ہے۔ویسے اب تک اس کی کوئی دلیل سامنے نہیں آئی۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میں پہلے سوچتا تھا کہ "جزاک اللہ خیرا" کے بدلے میں کیا لکھا کروں تو کسی نے بتایا کہ "وایاک" یا "وایاکم"لکھا جاتا ہے۔لیکن شیخ محترم کفایت اللہ صاحب نے اس بارے میں حیرانی کا اظہار کیا۔اب سے کچھ احتیاط ہے۔ویسے اب تک اس کی کوئی دلیل سامنے نہیں آئی۔
ارسلان بھائی، وایاک یا وایاکم کا کم و بیش مطلب ہے کہ ’اور آپ پر بھی ہو‘۔ لہٰذا اس کے لئے تو کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔
آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی ، کفایت اللہ بھائی نے کسی اور وجہ سے حیرانی کا کبھی اظہار کیا ہوگا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی، وایاک یا وایاکم کا کم و بیش مطلب ہے کہ ’اور آپ پر بھی ہو‘۔
شاکر بھائی گویا آپ کا یہ موقف بھی کنفرم نہیں اور یہ لفظ "کم و بیش" سے ثابت ہے۔
لہٰذا اس کے لئے تو کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اگر چھینک آ جائے اور چھینکنے والا "الحمدللہ" کہے تو اس کا بھی جواب دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔اگر اس کی دلیل دی نہیں ہے تو پھر "جزاک اللہ خیرا" کے بدلے "وایاک" کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔جبکہ اس کے معنی پر بھی کوئی کنفرم نہیں کہ اس کا مطلب "اور آپ پر بھی" بنتا ہو۔
آپ کو غلط فہمی ہوئی ہوگی ، کفایت اللہ بھائی نے کسی اور وجہ سے حیرانی کا کبھی اظہار کیا ہوگا۔
جی مجھے غلطیاں فہمیاں اکثر ہوتی رہتی ہیں لیکن کئی کئی باتیں میرے دماغ پر نقش ہو جاتی ہیں۔اور موقع موقع پر یاد آ جاتی ہیں۔
 

عادل سہیل

مشہور رکن
شمولیت
اگست 26، 2011
پیغامات
367
ری ایکشن اسکور
941
پوائنٹ
120
شاکر بھائی گویا آپ کا یہ موقف بھی کنفرم نہیں اور یہ لفظ "کم و بیش" سے ثابت ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اگر چھینک آ جائے اور چھینکنے والا "الحمدللہ" کہے تو اس کا بھی جواب دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔اگر اس کی دلیل دی نہیں ہے تو پھر "جزاک اللہ خیرا" کے بدلے "وایاک" کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔جبکہ اس کے معنی پر بھی کوئی کنفرم نہیں کہ اس کا مطلب "اور آپ پر بھی" بنتا ہو۔

جی مجھے غلطیاں فہمیاں اکثر ہوتی رہتی ہیں لیکن کئی کئی باتیں میرے دماغ پر نقش ہو جاتی ہیں۔اور موقع موقع پر یاد آ جاتی ہیں۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ ،
بھائی محمد ارسلان صاحب ، میں کوشش کرتا ہوں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے آپ کی مذکورہ بالا باتوں میں نظر آنے والے اشکالات یا سوالات کو دور کرنے کا سبب بنا لے ،
محمد بھائی ، لفظ """ ایاک """ میں اصل لفظ """ إيَّا """ ہے اور """ ک """ اس میں مخاطب کی ضمیر ہے ، اس لفظ """ إيَّا """ کے ساتھ غائب ، مخاطب اور متکلم کی ساری ہی ضمیریں استعمال ہو جاتی ہیں ، اور اس لفظ """ إيَّا """ کے لیے لغت کے علماء کے ہاں تقریبا چھ مفاہیم اور انداز بنتے ہیں ، پس اس کے سیاق و سباق اور ظرف یعنی استعمال کے موقع و محل کے مطابق اس کا مفہوم سمجھا جاتا ہے ، جب کسی کو اُس کی کسی بات جو کہ عموما کوئی دعا ہوتی ہے ، کے جواب میں """ ایاک """ کہا جاتا ہے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ " تُمہارے لیے بھی ایسا ہی ہو """ مخاطب کے عدد اور جنس کے مطابق """ إيَّا """ کے بعد والی """ضمیر """ تبدیل کی جاتی ہے ،
جوابی دُعا کے طور پر اس """ إيَّاک """ کے مترادف یعنی ہم معنی اور ہم مفہوم الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں ، مثلآ """ و انت ::: اور تُم بھی """ ، """ وانت کذلک ::: اور تمہارا بھی یہی حال ہو،یا ، تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی ہو """ ان کے علاوہ دیگر بھی کئی عبارات استعمال ہوتی ہیں ،
جن سب کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ کسی دعا کرنے والے کو جواب میں اسی چیز کی دعا دی جائے جس کی اس نے کی ہو ،
بھائی محمد ارسلان صاحب ،ممکن ہے آپ خیال فرمائیں کہ اس خشک سی لغوی تشریح کی کیا ضرورت تھی ، جبکہ آپ کا اشکال تو اس کے بارے میں کوئی دلیل ہونے یا نہ ہونے کے متعلق تھا ، تو بھائی میں نے یہ سب معلومات آپ کو ایک حدیث شریف سنانے کے لیے ، اسے سمجھنے کے لیے ایک تمہید کے طور پر بیان کی ہیں ، اور ان شاء اللہ ان میں فائدہ ہی ہوگا ،
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں انصار کے کچھ لوگ اپنا ایک مسئلہ لیے حاضر ہوئے ، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان کے لیے فیصلہ صادر فرمایا تو ان میں سے ایک صحابی اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا """ جزاك الله خيراً يا رسول الله"""" ،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جواب میں ان کے لیے ارشاد فرمایا """وأنتم فجزاكم الله خيراً """ ، صحیح ابن حبان ، امام الالبانی رحمہ اللہ نے بھی صحیح قرار دیا ہے ،
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے جواب کے ابتدائی حصے پر غور فرمایے تو ان شاء اللہ یہ واضح ہو جائے گا کہ میں نے لغوی تشریح کیوں بیان کی ،
جی بھائی محمد ارسلان صاحب ، کسی دعا کے جواب میں """ و انتم """ اور """ و ایاکم """ ایک ہی مفہوم رکھتے ہیں ،
بس چونکہ ہم لوگ دین کے بہت سے کاموں میں اختصار اور متبادل کی روش اپنائے ہوئے ہیں لہذا """ و ایاک """ معروف ہو چکا ہے ،
جزاک اللہ خیرا ، کہ آپ کی باتوں نے ایک زیادہ بہتر اور عین سنت مبارکہ کے مطابق عمل کی طرف توجہ مبذول کروائی ۔

اس کے بعد آپ کی دوسری کی بات کی طرف چلتے ہیں :::
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔اگر چھینک آ جائے اور چھینکنے والا "الحمدللہ" کہے تو اس کا بھی جواب دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔اگر اس کی دلیل دی نہیں ہے تو پھر "جزاک اللہ خیرا" کے بدلے "وایاک" کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے۔جبکہ اس کے معنی پر بھی کوئی کنفرم نہیں کہ اس کا مطلب "اور آپ پر بھی" بنتا ہو۔
مجھے محسوس ہوا کہ شاید آپ کو چھینک پر الحمد للہ کہنے والے کو جواب دینے اور پھر جواب دینے والے کو جواب دینے کی دلیل کی تلاش ہے ، عین ممکن ہے میرا یہ احساس درست نہ ہو ، لیکن مین یہاں وہ حدیث شریف بھی ذکر کیے دے رہا ہوں جو ان کاموں کی دلیل ہے ، اگرمیرا احساس غلط بھی رہا ہو تو بھی ان شاء اللہ حدیث شریف کا ذکر یقینا فائدہ مند ہی ہو گا ،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلیہ آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا """ إِذَا عَطَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ . وَلْيَقُلْ لَهُ أَخُوهُ أَوْ صَاحِبُهُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ . فَإِذَا قَالَ لَهُ يَرْحَمُكَ اللَّهُ . فَلْيَقُلْ يَهْدِيكُمُ اللَّهُ وَيُصْلِحُ بَالَكُمْ ::: جب تُم میں سے کسی کو چھینک آئے تو وہ ضرور الحمد للہ کہے ، اور اس کو ( جواب میں) اس کابھائی یا دوست (جو ساتھ ہو) کہے ، اللہ تم پر رحم کرے ، اور اگر اس کے لیے کہہ دیا جائے کہ ، اللہ تم پر رحم کرے ، تو وہ (جواب میں) میں کہے ، اللہ تُم سب کو ہدایت دے اور تم لوگوں کے احوال کی اصلاح کرے """ صحیح البخاری، کتاب الادب ، باب 126،
جی مجھے غلطیاں فہمیاں اکثر ہوتی رہتی ہیں لیکن کئی کئی باتیں میرے دماغ پر نقش ہو جاتی ہیں۔اور موقع موقع پر یاد آ جاتی ہیں۔
اللہ سبحانہ ُ وتعالیٰ آپ کے حافظے کو وہ کچھ یاد رکھنے کی توفیق دیے رکھے جس میں خیر ہو ،
طوالت کے لیے معذرت خواہ ہوں ، اور اگر آپ کی باتوں سے کچھ غلط سمجھا ہو تو اس کے لیے بھی ، و السلام علیکم۔
 
Top