• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن حافظ کے فضائل پر ایک صحیح روایت اور چار مشہور ضعیف روایات

محمد فراز

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 26، 2015
پیغامات
536
ری ایکشن اسکور
151
پوائنٹ
116
قرآن حافظ کے فضائل پر ایک صحیح روایت اور چار مشہور ضعیف روایات
(ایک صحیح روایت)
2914 - حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُقَالُ - يَعْنِي لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ -: اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا ": «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ» حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمٍ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(قیامت کے دن) صاحب قرآن سے کہا جائے گا: (قرآن) پڑھتا جا اور (بلندی کی طرف) چڑھتا جا۔ اور ویسے ہی ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جس طرح تو دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا۔ پس تیری منزل وہ ہو گی جہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہو گی“۔
الكتاب: سنن الترمذي:۲۹۱۴ ومسند احمد:۲۸۹۹ وابوداود:۱۴۶۴ والنسائی الکبری:۷۰۵۶ وصحیح ابن حبان:۱۷۹۰
نوٹ:یہ مقام بھی اس قرآن حافظ کو ملے گا جو عمل بھی کرتا ہوں

(چار ضعیف روایات)

2913 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَابُوسَ بْنِ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ القُرْآنِ كَالبَيْتِ الخَرِبِ»
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جس کے دل میں قرآن کا کچھ حصہ یاد نہ ہو وہ ویران گھر کی طرح ہے“۔
الكتاب: سنن الترمذي:۲۹۱۳ وسنن الدارمی:۳۳۰۹
قال الشیخ زبیر علی زئی فی مشکاة المصابیح(۲۱۳۵)اسناده ضعیف،قابوس فیه لین

یہ ضعیف روایت ہے کیونکہ اس میں قابوس بن أبي ظبيان ضعیف راوی ہے امام النسائی رحمہ اللہ کہتے ہے کہ یہ قوی نہیں ہے
الکتاب:میزان الاعتدال جلد۳ پیج۳۶۷

1453 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ زَبَّانِ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ، أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ، فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا؟»
معاذ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے قرآن پڑھا اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا تو اس کے والدین کو قیامت کے روز ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی چمک سورج کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہو گی جو تمہارے گھروں میں ہوتی ہے اگر وہ تمہارے درمیان ہوتا، (پھر جب اس کے ماں باپ کا یہ درجہ ہے) تو خیال کرو خود اس شخص کا جس نے قرآن پر عمل کیا، کیا درجہ ہو گا"۔
الکتاب:سنن ابي داود ۱۴۵۳

قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
إسناده ضعيف ¤ زبان : ضعيف (تقدم:1287) [انظر ص 185] ¤ و روى الحاكم (567/1 ح 2086) عن بريدة قال قال رسول الله ﷺ : ” من قرأ القرآن و تعلمه و عمل به ألبس يوم القيامة تاجاً من نور ضوؤه مثل ضوء الشمس ويكسى والديه حلتان لا يقوم بھما الدنيا فيقولان : بما كسينا ؟ فيقال : بأخذ ولد كما القرآن ۔ “ وسنده حسن و صححه الحاكم على شرط مسلم و وافقه۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:۱۱۲۹۴)، وقد أخرجہ: (حم (۳/۴۴۰) (ضعیف) (اس کے راوی زبُّان اور سہل ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف

2905 - حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا حَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ، فَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الجَنَّةَ وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ». هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الوَجْهِ وَلَيْسَ لَهُ إِسْنَادٌ صَحِيحٌ، وَحَفْصُ بْنُ سُلَيْمَانَ أَبُو عُمَرَ بَزَّازٌ كُوفِيٌّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے قرآن پڑھا اور اسے پوری طرح حفظ کر لیا، جس چیز کو قرآن نے حلال ٹھہرایا اسے حلال جانا اور جس چیز کو قرآن نے حرام ٹھہرایا اسے حرام سمجھا تو اللہ اسے اس قرآن کے ذریعہ جنت میں داخل فرمائے گا۔ اور اس کے خاندان کے دس ایسے لوگوں کے بارے میں اس (قرآن) کی سفارش قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی" ۱؎۔
الکتاب:سنن الترمذي ۲۹۰۵

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۶ (۲۱۶) (تحفة الأشراف: ۱۰۱۴۶) (ضعیف جداً) (سند میں حفص بن سلیمان ابو عمر قاری کوفی صاحب عاصم ابن ابی النجود قراءت میں امام ہیں، اور حدیث میں متروک)
قال الشيخ زبیر علی زئی في انوار الصحیفة فی احادیث ضعیفة من السنن الاربعة:
(2905) إسناده ضعيف جدًا / جه 216 ¤ حفص بن سليمان : متروك الحديث مع إمامته فى القراءة وشيخه كثير بن زاذان مجهول (تق: 1405 ،5609) وقال الهيثمى فى حفص بن سليمان : وضعفه الجمهور (مجمع الزوائد 163/10)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا، ابن ماجة (216) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (38) ، المشكاة (2141) ، ضعيف الجامع الصغير (5761) //

3457 - حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُهَاجِرِ بْنِ الْمِسْمَارِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حَفْصِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ مَوْلَى الْحُرَقَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه وْ يس قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ، فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ، قَالَتْ: طُوبَى لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا، وَطُوبَى لِأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا، وَطُوبَى لِأَلْسِنَةٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا "
ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں رسول الله ﷺ نے فرمایا:الله تعالی نے زمین و آسمان کی تخلیق سے ہزار برس پہلے سورة طہ اور سورة یسین کی تلاوت فرمائی،جب فرشتوں نے قرآن سنا تو انہوں نے کہا:اس امت کے لیے خوشخبری ہو جس پر یہ اتارا جائے گا،ان مبارک دلوں کے لیے خوشخبری ہو جو اسے یاد کریں گے،اور اسے پڑھنے والی زبان کے لیے خوشخبری ہو۔
الکتاب: سنن الدارمي ۳۴۵۷

[تعليق المحقق(حسين سليم أسد الداراني)] إسناده ضعيف جدا عمر بن حفص بن ذكوان قال أحمد: تركنا حديثه وحرقناه
قال الشیخ الزبیر علی زئی فی المشكاة المصابيح حدیث نمبر(۲۱۴۸)إسناده ضعیف جدا موضوع، و ابن الجوزي فی الموضوعات (۱/۱۱۰)۔إبراھیم بن مھاجر بن مسمار:ضعیف وعمر بن حفص بن ذکران متروك۔
 

ابو حسن

رکن
شمولیت
اپریل 09، 2018
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
29
پوائنٹ
90
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (قرآن کریم قیامت کے دن آ کر کہے گا: پروردگار! اسے مزین فرما دے۔ تو اسے معزز تاج پہنایا جائے گا، پھر قرآن کہے گا: یا رب! مزید مزین فرما دے، تو پھر اسے مکرم لباس پہنایا جائے گا، پھر قرآن کہے گا: یا رب! اس سے راضی ہو جا، تو اسے کہا جائے گا: پڑھتا جا چڑھتا جا اور ہر ایک کے پڑھنے پر اس کا حسن دوبالا ہوتا جائے گا) اسے ترمذی: (2915) نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح قرار دیا، نیز البانی رحمہ اللہ صحیح ترمذی (2328) میں اسے حسن کہتے ہیں۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قیامت کے دن متغیر رنگت والے آدمی کی شکل میں قرآن مجید آ کر قرآن پڑھنے والے سے کہے گا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں ہی ہوں وہ جو تمہیں راتوں کو جگاتا تھا اور گرمی کے دنوں میں [روزے رکھوا کر ] پیاس برداشت کرواتا تھا۔ ہر تاجر کے سامنے اس کی تجارت ہوتی ہے اور میں آج تمہارے لیے کسی بھی تاجر سے پیش پیش ہوں گا، تو وہ حافظ قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہی دے گا اور بائیں ہاتھ میں سرمدی زندگی دے گا، اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ دنیا و مافیہا بھی اس کے برابر نہیں پہنچ سکتے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمارے لیے کہاں سے ؟ تو انہیں کہا جائے گا: تم نے اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم دی اس کے عوض ۔ طبرانی نے اسے معجم الاوسط: (6/51) میں روایت کیا ہے۔


اسی طرح بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص قرآن کریم پڑھے اور پھر اس کے احکام سیکھے نیز اس پر عمل بھی کرے تو اللہ تعالی اس کے والدین کو نور کا تاج پہنائے گا، اس کی روشنی سورج جیسی ہو گی، اس کے والدین کو دو ایسے لباس پہنائے جائیں گے کہ پوری دنیا بھی اس کے برابر نہ پہنچ سکے، تو والدین کہیں گے: پروردگار! یہ ہمیں کس کے عوض پہنایا گیا؟ تو انہیں کہا جائے گا: تمہارے بچوں کے قرآن سیکھنے کی وجہ سے۔) حاکم (1/756)نے اسے روایت کیا ہے۔

یہ دونوں حدیثیں ایک دوسرے کو حسن درجے تک پہنچا دیتی ہیں۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سلسلہ صحیحہ (2829) کا مطالعہ کریں۔



حافظ قرآن کا دنیا و آخرت میں امتیاز
 
شمولیت
مارچ 02، 2023
پیغامات
675
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
53
احادیث پر صحت و ضعف کا حکم اجتہادی عمل ہے اس لیے ممکن ہے کہ مذکورہ بالا احادیث کسی دوسرے محدث کے ہاں صحیح ہوں
 
Top