• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کریم کو قواعد موسیقی پرپڑھنے کی شرعی حیثیت

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن کریم کو قواعد ِموسیقی پرپڑھنے کی شرعی حیثیت

قاری فہد اللہ مراد
رسول کریمﷺ کے اِرشادِ مبارک: (من لم یتغنّ بالقرآن فلیس منا)کے مطابق قرآن مجیدکو کوشش کرکے حسن صوت کے ساتھ پڑھناضروری ہے اور اس سلسلہ میں بالعموم کی جانے والی تمام کاوشیں محمود ہیں۔البتہ قرآن مجیدچونکہ کلام اللہ ہے، چنانچہ اس میں روحِ قرآن سے قطع نظرعامیانہ اَسالیب اورتکلّفانہ کوششوں سے اِجتناب انتہائی ضروری ہے اور اس ضمن میں اِفراط و تفریط پر مشتمل رویوں کی اِصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے۔ پاکستان میں محافل قراء ات کا رواج ایک محمود ذوق ہے، جس سے گانوں اورنغموں کے بالمقابل فطرت کے تقاضوں کو قرآن کریم کی تلاوت سے پورا کرنے کا رجحان پیدا کیاجارہاہے، لیکن ان تمام باتوں کے باوجود قرآن کی روح یہی ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور اس میں اللہ کا پیغام اپنے بندوں کے نام پیش کیاگیا ہے۔ اس لیے لحون کے وہ اَسالیب جن میں یہ روح سرے سے مفقود ہے ، بلکہ اگر قراء کرام کے پیش نظر گھٹیا شعروشاعری و نغمگی (موسیقی) کے قواعد ہیں تو ان سے ہر صورت میں قاری کے لیے اجتناب ضروری ہے۔ اس ضمن میں معتدل رویہ کیا ہوناچاہیے، زیر نظر مضمون میں اسے ہی موضوع بنایاگیا ہے۔
اس سلسلہ کا ایک اور مضامین’’ مروجہ محافل قراء ات… تنقیدی جائزہ‘‘ کے عنوان سے رشد قراء ات نمبر (حصہ دوم) میں ان شاء اللہ پیش ِخدمت کیا جائیگا، جس میں ’’مقامات سبعہ‘‘ کے علاوہ مروجہ محافل قراء ت میں سامنے آنے والے دیگر غیر محمود امور کی نشاندہی کی جائیگی۔ امت کا قرآن کریم سے تعلق وقت کا اہم ترین تقاضا ہے، لیکن اس ضمن میں وہ اُمور جو تعلق بالقرآن کے سلسلہ میں انتہائی نقصان دہ اثر رکھتے ہیں اور عملاً امت کو روح قرآن سے بہت دور لے جارہے ہیں، ان کی نشاندہی بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسلام ایک کامل اور معتدل دین ہے۔ کامل اس لیے کہ زندگی کے جمیع پہلوؤں، مثلاً معاشی، معاشرتی، سیاسی سطح پر ایک جامع اور قابل عمل نظام پیش کرتا ہے اور معتدل بایں معنی کہ اسلام نے ہرایک شے کو اس کا صحیح اور معتدل مقام عطا کیاہے اور کسی بھی چیز میں اِفراط تفریط کاقائل نہیں، مثلاً اسلام نے نماز، روزہ، نفل و نوافل اور ذکر و اَذکار کو ایک خاص مقام دیا ہے اور اس کے بغیر خوشنودئ الٰہی کو ناممکن بتایا ہے اور ان کو ترک کرنے پر عذاب و عقاب کی وعیدیں سنائی ہیں، لیکن کوئی فردِ ملت صرف انہی عبادات کے درپے ہوجائے اور اِجتماعی زندگی کو یکسرنظر انداز کردے تو اسلام نے ایسے فرد کی بے حد حوصلہ شکنی کی ہے اور کہا ہے’’لا رھبانیۃ فی الاسلام‘‘ اسلام میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ افراد کو صرف انہی کاموں کے لیے چھوڑ دے بلکہ اسلام معاشرتی زندگی میں رہتے ہوئے ، اس کے اتار چڑھاؤ اور مصائب و آلام کو سہتے ہوئے اللہ رب العزت کی طرف متوجہ رہنے کی رغبت دلاتا ہے۔ اس سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ اسلام ایک معتدل مذہب ہے اورایک شے کو اس کا صحیح مرتبہ دینے کے بعد اس میں کمی بیشی پسند نہیں کرتا۔
اسی طرح تلاوت کلام کا مسئلہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت خوش آوازی اور خوش الحانی سے کی جائے۔ اس پر مسلمانوں کوبہت زیادہ برانگیختہ کیاگیا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
(من لم یتغنّ بالقران فلیس منا)
’’جس نے قرآن کریم کو خوش آوازی سے نہ پڑھا وہ اُمت محمدﷺ کے راستہ پر نہیں ہے۔‘‘
دوسری مقام پر ارشاد ہے:
(ما أذن اﷲ لشئ ما أذن لنبی حسن الصوت یتغنی بالقرآن یجھر بہ)
’’اللہ رب العزت اتنی توجہ سے کسی شے کو نہیں سنتے جتنا قرآن کو توجہ سے سنتے ہیں جب نبیﷺ اسے بآواز بلند خوش الحانی سے تلاوت کررہے ہوں۔‘‘
٭ فضالہ بن عبیدرضی اللہ عنہ سے مروی کہ نبی مکرمﷺ نے فرمایا:
(ﷲ أشد إدنا الی الرجل الحسن الصوت بالقرآن یجھر بہ من صاحب القینۃ إلی قینتہ)
’’بلا شبہ اللہ تعالیٰ خوش آوازشخص کا قرآن اس انہماک اور توجہ سے سنتے ہیں کہ ایک گانا سننے والا شخص گلوکارہ کا گانا بھی اتنی توجہ سے نہیں سنتا۔‘‘
اسی لیے جناب نبی کریم ﷺ خود بھی بہت خوبصورت انداز میں تلاوت فرماتے تھے اور کوئی بھی شخص آپؐ سے زیادہ خوش اِلحان نہ تھا۔ صحیحین میں جناب جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
’’سمعت النبیﷺ یقرأ فی المغرب بالطور لم أسمعہ‘‘
’’میں نے نبی مکرم ﷺ کو نماز مغرب میں سورۃ الطور تلاوت کرتے ہوئے سنا(آپ اس قدر خوش الحانی سے پڑھ رہے تھے) کہ میں نے ایسا کبھی نہیں سنا تھا۔‘‘(صحیح البخاري:۴۸۵۴)
دوسری روایت میں ہے آپؐ جب آیت ’’أَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَيْئٍ أمْ ھُمُ الْخَالِقُوْنَ‘‘پر پہنچتے توآپ کی آواز میں اس قدر سوز پیدا ہو گیا کہ قریب تھا کہ میرا دل شدت تاثیرسے پھٹ جاتا۔ (صحیح البخاري:۴۸۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’سمعت النبی! قرأ فی العشآء بالتین والزیتون فما سمعت أحداً أحسن صوتاً منہ‘‘ (صحیح مسلم :۱۰۳۹)
’’میں نے نبیﷺ کوعشاء کی نماز میں سورۃ التین کی تلاوت فرماتے سنا، کہتے ہیں ، میں نے آج تک کوئی ایک ایسا نہیں سنا جوآپﷺ سے زیادہ خوش اِلحان ہو۔‘‘
آپﷺ جہاں خود قرآن کو خوش الحانی سے پڑھتے تھے وہاں صحابہ کو بھی اس کی ترغیب دیتے اور خوش آواز صحابہ کی حوصلہ اَفزائی بھی فرماتے تھے۔آپﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
(زینوا القرآن بأصواتکم فإن الصوت الحسن یزید بالقرآن حسنا)
’’قرآن کو اپنی آوازوں سے مزیں کرو کیونکہ خوبصورت آواز قرآن کے حسن کو دوبالا کرتی ہے۔‘‘
ایک مقام پر آپﷺ نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
(یا أبا موسیٰ لقد أوتیت مزمارا من مزامیر آل داؤد) (صحیح البخاري:۵۰۴۸)
’’اے ابوموسیٰ آپ کو حضرت داؤدعلیہ السلام کی راگوں میں سے راگ دیئے گئے ہیں۔‘‘
صحابہ رضی اللہ عنہم بھی خوش آوازی سے قرآن سننے کو پسند کرتے تھے۔چنانچہ حضرت عمررضی اللہ عنہم ، حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہم سے فرماتے :(ذَکِّرْنَا رَبَّنَا) ’’ابوموسیٰ ہمیں ہمارا رب یاد دلاؤ‘‘ پھر جب حضرت ابوموسیٰ ؓ خوب خوش آوازی سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو حضرت عمرؓ فرماتے: ’’من استطاع أن یتغنی بالقرآن غناء أبی موسیٰ فلیفعل‘‘ (الطبري) ’’جوشخص ابوموسیٰ کی طرح قرآن خوش الحانی سے تلاوت کرسکتا ہے وہ کرے۔‘‘
اسی طرح حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ قرآن کریم بہت خوبصورت آواز سے پڑھاکرتے تھے۔ تو انہیں حضرت عمررضی اللہ عنہ نے کہا:
’’مجھے فلاں فلاں سورۃ سناؤ۔ جب انہوں نے سنائی تو حضرت عمرؓ رونا شروع ہوگئے اور فرمایا میرا خیال نہیں تھاکہ یہ نازل ہوئی ہے۔‘‘
مذکورہ روایات سے معلوم ہواکہ قرآن کریم کو خوش الحانی سے پڑھنا شرعاً مطلوب ہے اور تقرب الی اللہ اور خوشنودی الٰہی کاباعث ہے، لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ قرآن کریم کو خوبصورت پڑھنے کی کچھ حدود قیود بھی ہیں یاپھر طبعِ آزاد کو سامانِ نشاط و طرف فراہم کرنے کے لیے جس طرح من چاہے پڑھتے چلے جائیں۔تو یہ بدیہی امر ہے کہ کچھ اُصول وضوابط ہونے چاہیے تو ہماری نظر میں تلاوتِ قرآن کے وقت چار باتوں کا لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے ورنہ وہ تلاوت ہمیں قرب الٰہی کی بجائے قرب اِبلیس کی طرف لے جائے گی اور ہم ’’الماھر بالقرآن مع السفرۃ الکرام البررۃ‘‘ کی صف سے نکل کر کسی دوسرے گروہ میں شمولیت کے حقدار ٹھہریں گے۔ العیاذ باﷲ
قرآن کریم میں ہے: ’’یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا‘‘ (البقرۃ:۲۶)
’’اس قرآن کی وجہ سے بہت سے لوگ گمراہ اور بہت سے ہدایت یاب ہوں گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چار شروط جن کا لحاظ رکھنا ہر حال میں لازم ہے وہ یہ ہیں:
(١) تلاوت قرآن کرتے ہوئے قواعد ترتیل کا خیال رکھا جائے۔
(٢) تلاوت قرآن کرتے ہوئے قرآن کامقصدِ اصلی تدبر و تفکر فی آیات اللہ کسی طرح بھی نظر انداز نہ ہو۔
(٣) قرآن کریم کا کلام اللہ ہونے کی وجہ سے جو ذاتی عزت و وقار ہے اسے پامال نہ کیا جائے۔
(٤) عرب کے لب و لہجہ میں قرآن کریم کی تلاوت کی جائے اور عجم، اہل کتاب اور فساق لوگوں کے لہجات مذمومہ سے گریز کیا جائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اب ہم ان شروط کو قدرے تفصیل سے کھول کر بیان کرتے ہیں:
پہلی شرط :قرآن کریم کو تلاوت کرتے ہوئے قواعد ترتیل کا خیال رکھنا
قرآن کریم کو پڑھنے کاالٰہی اور نبوی طریقہ صرف اور صرف ترتیل ہے۔ اللہ رب العزت اپنے طریق تلاوت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: {وَرَتَّلْنٰہُ تَرْتِیْلًا} ’’ہم نے قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھا۔‘‘
اور آپ علیہ السلام کو اسی طرح تلاوت کرنے کا حکم دیا گیا، فرمایا:
’’وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلًا‘‘ ’’اے نبیؐ آپ بھی قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھیں۔‘‘
اب یہ معلوم کرنا ہے کہ ترتیل ہے کیا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی وضاحت یوں فرماتے ہیں:
(الترتیل ہو تجوید الحروف ومعرفۃ الوقوف)
’’حروف کو تجوید کے ساتھ پڑھنے اور اوقاف کی معرفت کا نام ترتیل ہے۔اور تجوید حروف کو مخارج سے ان کی جمیع صفات لازمہ اور عارضہ کا خیال رکھتے ہوئے ادا کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘
لہٰذا قرآن کریم کو خوش آوازی سے پڑھیں یا نہ پڑھیں، ہرحال میں ترتیل کے ساتھ پڑھنا لازم و ضروری ہے اور خوش الحانی کے نام پر قواعد تجوید کی دھجیاں اڑانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے اور نہ ہی یہ چیز باعث اجروثواب ہے بلکہ ایسا پڑھنے والا رُبَّ قاری للقران والقرآن یلعنہ کا مصداق ہے ۔اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک آدمی بغیر وضو کے لمبی اور انتہائی خشوع خضوع کے ساتھ نماز پڑھے اور اس پر اجر و ثواب کابھی متمنی ہو اور اپنے آپ کو ’’قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤمِنُوْنَ٭ اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خَاشِعُوْنَ‘‘کا مصداق سمجھے، لہٰذا تلاوت قرآن کریم بغیر ترتیل کے کسی صورت بھی جائز نہیں ہے اور بجائے اجروثواب کے حصول اثم و زر کا سبب بنی گی۔ اس لیے قرآن کا کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ قاری ہو یا بڑے سے بڑا ماہرجس کے نام کے ساتھ لاحقوں، سابقوں کی بھرمارہو وہ اگر قرآن کو ٹھیک ، درست اور منشاء الٰہی کے موافق پڑھنا چاہتا ہے تو قواعد ترتیل کے موافق پڑھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری شرط:تلاوت قرآن کرتے ہوئے قرآن کامقصد اصلی تدبر و تفکر فی آیات اللہ کسی طرح بھی نظر اندازنہ ہو
نزول قرآن کامقصد اصلی غوروفکر اور تدبر وتفکر ہے تاکہ انسان کلام اللہ کی آیات بینات میں غرق ہوکر اپنے لیے ہدایت و تقویٰ اور علم و معرفت کا سامان حاصل کرے اور انوارِ قرآنی کی بارش اس کے قلب آہن پر اس قدر برسے کہ اسے آب کر دے۔ اور اس طرف قرآن کریم نے متعدد مقامات پرتوجہ دلائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’کِتَابٌ اَنْزَلْنَاھُ اِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوْا آیَاتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُوْلُوْ الاَلْبَابِ‘‘ (ص :۲۹)
’’یہ ایک برکت والی کتاب ہے جو( اے نبیؐ )ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔‘‘
دوسرے مقام پر فرمایا:
’’وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ‘‘(النحل :۴۴)
’’ اور اب یہ ذکر آپ پر نازل کیاہے تاکہ آپ لوگوں کے سامنے اس کی تشریح و توضیح کرتے جاؤ جو ان کے لیے اتاری گئی ہے تاکہ وہ خود بھی غوروفکر کریں۔‘‘
مذکورہ آیت میں آپؐ کو تبین قرآن کاحکم ہی صرف اسی غرض سے دیا گیا ہے کہ لوگ اس پر تدبر و تفکر کریں۔
نیز ارشاد ہے: ’’اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ إِذَا ذُکِرَ اﷲُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ آیَاتُہُ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا‘‘ (الانفال:۲)
’’سچے اہل ایمان وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کاایمان بڑھ جاتا ہے۔‘‘
قرآن کریم قلبی خشوع و خضوع اور زیادت ایمان کا ذریعہ تب ہی بنے گاجب اس پر غوروفکر کیا جائے گا۔ لہٰذا جب انسان قرآن پر غور و فکر کئے بغیر لمبی لمبی سُریں لگا کر پڑھتا ہے تو وہ قرآن کے حقیقی مقاصد سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر آیات بینات اس پر اثر نہیںکرتیں ایسے لوگوں کی حالت قرآن میں یوں بیان ہوئی ہے:
’’اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَقْفَالُھَا‘‘ (محمد:۲۴)
’’ان لوگوں نے قرآن پر غور نہیں لیا یا ان کے دلوں پر قفل چڑھے ہوئے ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسری جگہ ایسے طرز فکر کے حاملین ذکریوں ہے:
’’خَتَمَ اﷲُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْ وَعَلٰی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ‘‘ (البقرۃ:۷)
’’اللہ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا ہے۔‘‘
آیاتِ مذکورہ اس بارے میں صراحت کررہی ہیں کہ نزولِ قرآن کاحقیقی مقصد اس میں غوروخوض کرنا ہے، لہٰذا تلاوتِ کلام حمید کا ایسا انداز اپنانا چاہئے، جس سے سامعین اور خود قاری کو آیات پر غوروفکر کا موقع میسرآئے اور دونوں اس طرف راغب ہوں کہ ہمیں بھی قرآن کے مطالب ومعانی سے واقفیت ہونی چاہئے۔ اگر ایسی تلاوت ہو تو واقعی مسنون تلاوت ہے اور بارگاہ الٰہی میں باعث اَجر وثواب اور ذریعہ بلندی درجات ہے ورنہ وہ تلاوتِ قرآن نہیں بلکہ ذہن بیمار کی تسکین کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسری شرط :قرآن کریم کلام اللہ ہے اس کے عزت ووقار کو پامال نہ کیا جائے
قرآن کریم کلام خداوندی ہونے کی وجہ سے الٰہی عزت و وقار کی حامل کتاب ہے جس طرح ذات برحق کو کسی غیر سنجیدہ انداز تکلم میں مخاطب کرنا بہت بڑا گناہ ہے اسی طرح کلام الٰہی کو کسی غیر معقول انداز میں پڑھنا بھی بدعتی اور مشکلات کا باعث ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
’’اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃً إنَّہُ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ‘‘
’’اپنے رب کو گڑگڑاتے ہوئے چپکے چپکے پکارو یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
لہٰذا جس طرح ذات الٰہی کا اَدب و اِحترام ہر حال میں ملحوظ رکھنا واجب وفرض ہے۔اس طرح کلام اللہ کا اکرام و توقیر بھی ضروری ہے ۔لہٰذا بوقتِ تلاوت ایسالب و لہجہ اختیار نہ کیاجائے جس میں کلام اللہ کھیل تماشا بن جائے اور اس کا تقدس باقی نہ رہے اور سامعین سنتے ہوئے ایسا تاثر دیں جس طرح کسی گلوکار کو سن رہے ہیں، لہٰذا ایسی صورتِ حال خود قاری اور سامعین کے لیے بے حد خطرناک ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چوتھی شرط:قرآن کریم کی عرب کے لب و لہجہ میں تلاوت کی جائے اور عجم، اہل کتاب اور عشاق لوگوں کے لہجات مذمومہ سے گریز کیا جائے۔
قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا ہے جس طرح ہر زبان کاایک خاص لہجہ ہوتاہے اسی طرح عربی زبان کا بھی ایک خاص لہجہ ہے اور قرآن کریم کو اسی لہجہ کے موافق پڑھنا چاہئے۔
حدیث مبارک میں ہے: (إقرء وا القرآن بلحون العرب وأصواتھا)
’’قرآن کریم کو عرب کے لب ولہجہ میں پڑھو۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کو عجم کے لب و لہجہ میں پڑھنا ممنوع ہے لہٰذا عجم کے لہجوں پر پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ذیل میں ہم اس مسئلہ پرتفصیل سے بحث کریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قواعد موسیقی (مقامات) کے موافق تلاوت کرنا
قرآن مجید کو خوش آوازی سے پڑھنا۔ بلا شبہ ایک مستحسن امر ہے اور اس کی قرآن و سنت میںترغیب دی گئی ہے لیکن اس کا بالکل یہ مطلب نہیں کہ تغنّی اورتحسین قراء ت کی آڑ میں قرآن مجید کو موسیقی کے قواعد اور موسیقی کی دھنوں میں پڑھنا شروع کردیا جائے یہ امر قطعی ناجائز ہے۔ آج کل یہ مرض بہت بڑھ رہا ہے اور بعض مخلص اور حقیقت سے ناآشنا قراء اس کو اختیار کئے ہوئے ہیں اور اس کو سیکھنے میں خاصی محنت اور تکلف سے کام لے رہے ہیں۔یہ عادت قراء میں کیوں عام ہورہی ہے ؟اس کابھی ایک خاص پس منظر ہے وہ یہ کہ، گذشتہ چند سالوں سے مصری قراء کا پاکستان میں کثرت سے آنا جانا شروع ہوگیا۔ اکثر مصری قراء قرآن کریم کو قواعد موسیقی پر تلاوت کرتے ہیں اورمصر میں مقامات یعنی قواعد موسیقی پر قرآن کو پڑھنے کی باقاعدہ تعلیم دی جاتی ہے کہ قرآن کریم کو کس طرح موسیقی کی دھنوں پر پڑھا جائے۔ اس کی تعلیم کے لیے باقاعدہ درسگاہیں بھی قائم ہیں اوریہ مرض اس قدر بڑھتا جارہا ہے کہ اس کو انٹرنیشنل سطح پر انٹرنیٹ کے ذریعہ ترویج دی جارہی ہے اور بعض ویب سائٹس باقاعدہ اس پر کام کررہی ہیں۔ جب سے مصری قراء نے اپنے مبارک قدم اَرض پاکستان پر رنجافرمائے ہیں، اس وقت سے یہ رجحان بڑھاہے، چونکہ وہ قواعد موسیقی (مقامات) کے مطابق تلاوت کرتے ہیں، جس کااندازہ وہ حضرات بخوبی کرسکتے ہیں جوایسی محافل میں شریک رہے ہیں، مثلاً اپنے ہاتھوں اور انگلیوں کو ایک خاص انداز میں حرکت دینا جس طرح کوئی موسیقارپیانو بجاتے وقت کرتا ہے تو ان کی دیکھا دیکھی ہمارے حقیقت سے ناآشنا قراء کرام نے مقامات پر پڑھنے کی کوشش شروع کردی ہے۔
مقامات یعنی قرآن کو قواعد موسیقی پر پڑھنے کے بارے میں تفصیلی بحث سے پہلے ضروری ہے کہ مقامات کی اصطلاحی تعریف ذکر کی جائے تاکہ یہ علم ہوجائے کہ ’مقامات‘ کہتے کسے ہیں۔
 
Top