• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کی تحدید وتخصیص​

شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
368
ری ایکشن اسکور
1,006
پوائنٹ
97


اصول غامدی:۔

غامدی صاحب اپنے قواعد وضوابط کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قرآن مجید کی یہ حیثیت ، جو اس نے خود اپنے لئے ثابت قرار دی ہے لہٰذا اس کی بنیاد پر جو باتیں قرآن کے بارے میں بطور اصول ماننی چاہئے وہ یہ ہیں ۔
پہلی یہ کہ قرآن سے باہر کوئی وحی خفی یا جلی یہاں تک کہ خدا کا پیغمبر بھی جس پر یہ نازل ہوا ہے ، اس کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص یا اس میں کوئی ترمیم وتغیر نہیں کرسکتا دین میں ہر چیز کے ردوقبول کا فیصلہ اس کی آیات بینات کی روشنی میں ہوگا (اصول ومبادی میزان صفحہ ۲۴ )
اسی طرح کی بات کو غامدی صاحب نے حدیث اور قرآن کا باب باندھ کر بیان کیا ہے وہ رقمطراز ہیں : چوتھے سوال کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے قرآن کے نسخ اور اس کی تحدید وتخصیص کایہ مسئلہ محض سوء فھم اور قلت تدبر کا نتیجہ ہے اسی طرح کا کوئی نسخ یا تحدید وتخصیص سرے سے واقع ہی نہیں ہوئی کہ اس سے قرآن کی یہ حیثیت کہ وہ میزان اور فرقان ہے کسی لحاظ سے مشتبہ قرار پائے (اصول ومبادی میزان ۳۶)
جواب:۔

یہاں پر بھی غامدی صاحب بغیر دلیل کے اصول بیان کررہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اگر قرآن میں کسی قسم کی تحدید وتخصیص یا نسخ نہیں کرسکتے تو اس بات کی کیا دلیل ہے ۔ آخر یہ ایک بہت بڑا اصول ہے جو کو غامدی صاحب بیان کررہے ہیں لیکن اتنے بڑے اصول کو بیان کرنے کے بعد اسکی دلیل نہ دینا ۔اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ غامدی صاحب کا خود ساختہ اصول ہے اگر غامدی صاحب کہیں کہ یہ اصول خود قرآن پاک نے بیان کیا ہے تو میں غامدی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ ایک قرآن کی ایسی آیت دکھادیں جس میں یہ اصول بیان ہوا ہو ؟؟؟
(۲) قرآن مجید میں وراثت کا عام حکم ہے چاہے کوئی وارث مسلمان ہو یا کافر اسی طرح کوئی مورث۔ لیکن غامدی صاحب نے اس حکم کی تخصیص کے لئے اس حدیث کو پیش کیا ہے ''لا یرث المسلم الکافر ولاالکافر المسلم '' نہ مسلمان ان میں سے کسی کافر کے وارث ہوں گے اور نہ کافر کسی مسلمان کے ۔(اصول ومبادی میزان ۴۱)
اسی طرح قرآن مجید میں ہے '' والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیھما ۔۔۔(المائدہ ۵ آیت ۳۸ )
ترجمہ:'' چو ر مرد اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو ''
اب یہ حکم عام ہے چاہے چوری کسی قسم کی ہو یا کسی چیز کی ہو تھوڑی ہو یا زیادہ لیکن غامدی صاحب نے اس حکم کی بھی تخصیص کے لئے اس حدیث کو پیش کیا ہے ''لا قطع فی ثمر معلق ولافی حریسۃ جبل ، فاذا آواہ المراح اوالبحر ین فالقطع فیما یبلغ ثمن المجن (المؤطا،۱۵۱۸)
'' میوہ درخت پر لٹکتا ہو یا بکری پہاڑ پر چڑھتی ہو اور کوئی اسے چرالے تو اس میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا ۔ہاں اگر بکری باڑے میں پہنچ جائے اور میوہ کھلیا ن میں آجائے تو ہاتھ کاٹا جائے بشرطیکہ اس کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر نہ ہو ''(اصول ومبادی میزان۴۴)
اور قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ''حرمت علیکم المیتۃ '' تم پر مردار حرام کردیا گیا (المائدہ ۵ آیت ۳ )یہ حکم بھی عام ہے جبکہ غامدی صاحب اس حکم کی تخصیص اس حدیث سے کررہے ہیں ''تمہارے لئے دومردے حلال ہیں مچھلی اورٹڈی (اصول ومبادی میزان۴۲)
ایک طرف غامدی صاحب اس بات کا انکار کررہے ہیں کہ کوئی وحی خفی یا جلی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قرآن کی تخصیص وتحدید کریں ۔ اور پھر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ذریعے قرآن کی تخصیص کررہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غامدی صاحب اس بات کو مانتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی تخصیص وتحدید کرسکتے ہیں اگر چہ وہ اس کو تخصیص وتحدید کے بجائے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اس کی مدعا کی تعبیر ہے جو قرآن کے الفاظ میں مضمر ہے (اصول ومبادی میزان ۴۱)یہ صرف اس وجہ سے کہ اس بات کو مانا جائے جو ان کے نظریہ یا مطلب کے مطابق ہو ، کیونکہ اگر کان دائیں طرف سے پکڑیں یا بائیں طرف سے بات ایک ہی ہے پکڑا کا ن ہی کو جارہا ہے اسی طرح غامدی صاحب حدیث سے قرآن کی تخصیص کو مان رہے ہیں لیکن اس کو نام دوسرا دے رہے ہیں ۔
(۳)غامدی صاحب حدیث سے تو قرآن کی تخصیص کا انکار کرہے ہیں جبکہ انسانی فطرت کو اس کی تخصیص کا حق دے رہے ہیں مثال کے طور پر قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے (سورہ انعام ۷ آیت ۱۴۵)
قل لااجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ان یکون میتۃ او دما مسفوحا اولحم خنزیر فانہ رجس اوفسقا اھل لغیر اللہ بہ (سورہ انعام ۷ آیت ۱۴۵)
ترجمہ: کہہ دو میں تو اس وحی میں جو میری طرف آئی ہے کسی کھانے والے پرکوئی چیز جو وہ کھاتا ہے حرام نہیں پاتا سوائے اس کے کہ وہ مردارہو یا بہایا ہوا خون یا سور کا گوشت '' یقینا یہ ناپاک ہے یا اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے غیر اللہ کے نامزد کردیا گیا ہو ۔
لیکن غامدی صاحب نے اس کے علاوہ جو محرمات ذکر کئے ہیں جیساکہ۔ چیتا ، شیر ، گدھا وغیرہ کی تحریم کے لئے یہ کہا کہ انسان کی یہ فطرت بالعموم اس کی صحیح رہنمائی کرتی ہے (اصول ومبادی میزان ۳۷)
جب بقول غامدی صاحب کے کہ خدا کا پیغمبر جس پر قرآن نازل ہوا ہے اس کے کسی حکم کی تحدید وتخصیص نہیں کرسکتا تو عام انسان کی فطرت کو یہ حق کس نے دیا کہ قرآن کے کسی حکم کی تخصیص کرے ؟؟
(۴)اگر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرف سے قرآن کی تخصیص یا اسکے کسی حکم کو منسوخ کرتے تو غامدی صاحب کی بات سمجھ میں آتی تھی۔ لیکن اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ''وما ینطق عن الھوی ، ان ھو الا وحی یوحی ''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش سے نہیں بولتے مگر وہی بولتے ہیں جو (اللہ کی طرف سے ) ان پر وحی ہوتی ہے۔(سورہ نجم ۵۳آیت ۴،۳)دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے ''قل انما اتبع ما یوحی الی ''کہہ دیجئے میں صرف اس بات کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر (اللہ کی طرف سے ) وحی کی جاتی ہے ۔(سورہ اعراف ۷ آیت ۲۰۳)
لہٰذا یہ بات عیاں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کوئی بات نہ کرتے تھے اور نہ ہی کوئی عمل کرتے تھے لیکن جب اللہ کی طرف سے وحی ہوتی تو آپ بولتے تھے اور عمل کرتے تھے اور اس بات میں کوئی قباحت نہیں کہ اللہ اپنے کسی وحی کردہ حکم کی تخصیص اور اسکا نسخ اپنے کسی دوسرے وحی کردہ حکم سے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کروادے ۔
اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :
وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیھا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ ''(سورہ بقرۃ ۲ آیت ۱۴۲)
ترجمہ: ہم نے پہلا قبلہ( بیت المقدس )اس لئے بنایا تھا کہ تاکہ ہم جانیں کہ کون رسول کی اتباع کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھرجاتا ہے ۔
قرآن مجید میں یہ کہیں نہیں ملے گا کہ اللہ رب العز ت نے مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کے علاوہ بھی احکامات دیا کرتا تھا ۔ اور جب اللہ رب العزت مسلمانوں کو قرآن کے علاوہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے کسی چیز کا حکم دے سکتا ہے تو قران کے علاوہ کسی حکم سے اپنے نبی کے ذریعے قرآن کے کسی حکم کی تخصیص یا اس کا نسخ کیوں نہیں کرواسکتا۔
 
Top