• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرا ء ت کی حجیت، اہمیت اور اُمت کا تعامل

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرا ء ت کی حجیت، اہمیت اور اُمت کا تعامل

پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی​
قرآن کریم کی ابتدائی کتابت عہدِ نبوی میں مکمل ہوچکی تھی۔ تدوین عہد صدیق﷜و عہد عثمانی﷜ میں ہوئی، عرب قبائل اپنے لب و لہجہ کے مطابق قرآن کریم کی تلاوت اور تعلیم و تبلیغ کرتے رہے، زیاد ابن اُمیہ رحمہ اللہ (م۵۲ھ؍بمطابق ۶۷۲ء) کے حکم پر ابوالاسود دؤلی رحمہ اللہ (م۶۹ھ؍بمطابق ۶۸۸ء) یا اس کے شاگرد نصربن عاصم رحمہ اللہ نے قرآن کریم کے متن پر اعراب و نقاط لگائے اور پانچ پانچ دس دس آیات پر نشانات لگوائے۔ عبداللہ بن زیادرحمہ اللہ (م۶۹ھ؍بمطابق ۶۸۸ء) والی بصرہ نے اپنے کاتب یزید الفارسی رحمہ اللہ سے حروف پر کامل اعراب وجزام لگوائے، کوفہ کے گورنر حجاج بن یوسف رحمہ اللہ نے قرآن کریم کو سات حصوں میں تقسیم کیا۔ اسی زمانہ میں آیات کے درمیان میں وقف،وصلاور آیات کی نمبرنگ کی گئی اور رسم قرآنی کی تعیین پر جوکہ عہد عثمانی میں منظر عام پر آچکی تھی، مختلف کتابیں تصنیف کی گئیں۔قرآن کریم دنیا کی واحد آسمانی کتاب ہے جس کے نازل کرنے والے نے خود ہی اس کی حفاظت اپنے ذمہ لی ۔
’’إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ‘‘
اوریہ حفاظت ہر زاویہ سے تھی، خواہ اس کا تعلق قرآن کریم کے متن سے ہو یا معنی و مفہوم سے، فہم قرآن کو آسان و عام فہم بنانے کے لئے عربوں کو مختلف لہجوں میں تلاوت کی اِجازت دی گئی، اور کیوں نہ دی جاتی، جب آپﷺکو دونوں جہانوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا گیا۔
’’وَمَا أرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰــــــلَمِیْنَ‘‘
ہر زاویہ سے رحمت ہیں، تعلیم و تعلم کا میدان ہو یا معیشت و معاشرت کا،میدان رزم ہو یا بزم، جلوت ہو یا خلوت ہر پہلو سے یسّروا اوربشّروا کی تعلیم دی گئی، اور قرآن کریم کی مختلف لہجوں میں تلاوت کی اِجازت دی گئی۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جاحظ لکھتے ہیں:
’’والذین بعث فیہم أکثر مایعتمدون علیہ البیان واللسان‘‘
آپ ﷺ ایسی قوم میں بھیجے گئے، جن کے ہاں کمال کا معیار بلاغت و فصاحت تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پرجو کتاب نازل کی وہ فصاحت وبلاغت کا مرقع ہے،جو کلمات آپﷺکی زبان مبارک سے اَدا ہوئے (حدیث نبویﷺ) وہ اَدب کا شاہکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی صاحب زبان اَدیب و شاعر نے آپ کے کلام میں کوئی عیب نہیں نکالا، صحابہ کرام﷢ بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق﷜ کو آپﷺکی فصاحت و بلاغت کے ساتھ مختلف لہجوں پر حاصل عبور پر حیرت تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’أدَّبنی ربي فأحسن تأدیبي‘‘ ’’یعنی خدا کی جانب سے بطورِ معجزہ مختلف عرب لہجوں پر مجھے عبور عطا کیا گیا تھا۔‘‘
آپﷺ ہر قبیلہ والے سے اسی کے لہجہ میں گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ قرآن کامعیاری لہجہ اور رسم الخط لغت قریش سے متعین کردیا گیا، لیکن عرب قبائل کو اِجازت دے دی گئی کہ وہ اپنے اپنے لہجہ میں تلاوت کرسکتے ہیں،یہ ایسا ہی ہے جیسے آج کے دور میں اردو زبان جب لکھی جاتی ہے تو دہلی کی ٹیکسالی زبان میں لکھی جاتی ہے، لیکن بولنے میں مختلف لہجے اختیار کئے جاتے ہیں، مثلاً معیاری جملہ ہے آپ کہاں جا رہے ہیں؟اسے اردو کے مختلف لہجوں میں مختلف انداز میں اَدا کیا جاتا ہے۔ مثلاً کہاں جاوت ہو، کہاں جاریا ہے؟ تم کہاں جا رہے ہو؟ لیکن اس لہجہ کے اَدا کرنے والے بھی جب لکھتے ہیں تو اس طرح نہیں لکھتے، یہی صورت مختلف قراء ت کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فن قراء ات پر تصانیف
فن قراء ت ایسا موضوع ہے جس پر تعلیم وتعلم اور تصنیف و تالیف کے حوالہ سے پہلی صدی ہجری سے عہد حاضر تک کوئی عہد خالی نہیں رہا ہے۔
عہد نبویﷺہی میں مختلف قرا ء ات کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ باہمی اختلاف کی صورت میں آپ ﷺ رہنمائی فرما دیتے کہ دونوں کی تلاوت درست ہے، بعد میں اہل علم نے دیگر فنون کی طرح بحیثیت فن کے مختلف قراء ات کی جمع و تدوین کا آغاز کر دیا تھا، یہ قرا ء ات پہلے تفسیر قرآن کریم کا حصہ تھیں، بعد میں مستقل کتابوں کی شکل اختیار کر گئیں۔
٭ ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کی فضائل القرآن
٭ یحییٰ بن العمیررحمہ اللہ(م۸۹ھ مطابق ۷۰۷ء) کی کتاب القراء ت
٭ عبداللہ بن عامرالیحصبی رحمہ اللہ (م۱۱۸ھ مطابق ۷۳۶ء)کی کتاب اختلافات مصاحف الشام والحجاز والعراق
٭ العاصم رحمہ اللہ کی الجمع
٭ محمدبن عبدالرحمن بن محیصن رحمہ اللہ (م۱۲۳ھ مطابق ۷۴۰ء)کی اختیار فی القرأۃ علی مذاہب العربیۃ
٭ عیسیٰ بن عمرالثقفی رحمہ اللہ (م۱۴۹ھ مطابق ۱۷۲۲ء) کی کتاب اختیار
٭ علی بن عساکررحمہ اللہ (م۵۷۲ھ مطابق ۱۱۷۶ء)کی کتاب الخلاف بین قراء ۃ عبد اﷲ بن عامر وبین قراء ت أبی عمرو بن العلاء وغیرہ
جزری رحمہ اللہ کے مطابق ابتدائی مصنفین میں ابوجعفر طبری رحمہ اللہ اور ابوحاتم السجستانی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں۔ اسی طرح جن شخصیات نے فن قراء ت کو فروغ دیا، ان کی تدریسی و تصنیفی خدمات پر مختلف ناموں سے مستقل تصانیف مرتب کی گئیں، جس میں ابن الجوزی رحمہ اللہ کی غایۃ النہایۃ فی طبقات القراء، مولانا فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ کی مقدمہ عنایات رحمانی، مولانا ابوالحسن اعظمی رحمہ اللہ کی مقدمہ علم قراء ت وقراء سبعہ اور دارالعلوم دیوبند وخدمات تجوید وقرأت کرنل مرزا بسم اللہ بیگ رحمہ اللہ کی تذکرہ قاریان ہند وغیرہ، امت کے تعامل و تواتر کو ثابت کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
آج بھی برصغیر کے ہربڑے مذہبی ادارے مثلاً دارالعلوم دیوبندجامعہ ڈابھیل وغیرہ میں قراء ت سبعہ کی درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہے، اس فن پر بلامبالغہ کئی ہزار کتب اور ان کی شروحات مختلف زبانوں میں لکھی جاچکی ہیں، میرے اندازہ کے مطابق تقریباً پچاس قرآنی نسخوں پر مختلف ادوار میں قراء ت سبعہ و عشرہ حواشی پر تحریر کی جاچکی ہیں، یہ نسخے آج بھی مطبوعات و مخطوطات کی صورت میں محفوظ ہیں، البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس موضوع پر زیادہ مواد عربی میں ہے، مثلاً احمد بن محمد البناء رحمہ اللہ کی اتحاف فضلاء البشر بالقرأت الأربعۃ عشر (دو جلد) ڈاکٹر محمد سالم رحمہ اللہ کی المغنی(تین جلدیں)، الدکتور احمد مختار عمررحمہ اللہ کی معجم القراء ت القرآنیۃ (پانچ جلدیں)، ابی محمد مکی رحمہ اللہ کی کتاب الکشف عن وجوہ القراء ات (دوجلد)، محمد بن الجزری رحمہ اللہ کی کشف النظر(تین جلدیں)، حجیت قراء ت پر مختلف کتب کے ساتھ مستقل مضامین بھی لکھے گئے ہیں، مثلاً صہیب احمد میر محمدی رحمہ اللہ کی دفاعاً عن قراء ات المتواترہ ، جبیرۃ الجراحات فی حجیۃ القراء ات، مکتبۃ بیت السلام الریاض،ابی الفتح ابن جنی رحمہ اللہ کا مضمون المحتسب فی تبیین وجوہ شواذ القراء ات والایضاح عنہا(مجمع دمشق مج ۴۲۔۱۹۶۷۔ ۱۹۶۸ء)احمد نصیف الجنانی رحمہ اللہ کا مضمون انتصار قراء ۃ ورش (الرسالۃ الإسلامیۃ) (ع ـ۱۱۲، ۱۳۹۸ھ) سبیع حمزۃ حاکمی رحمہ اللہ کا مضمون حجۃ القراء ات لابن زنجلہ(مجمع دمشق مج ۵۶ـ ۱۹۸۱ھ) عبدالرحمن السیدرحمہ اللہ کا مضمون گولڈزیہر اور قراء ات (المربد س۱ـ ع ۱ ـ ۱۹۸۱ء) عبدالعال سالم مکرم رحمہ اللہ کا مضمون حول نسبۃ کتاب الحجۃ فی القرأت السبع لابن خالویۃ (اللسان العربی م ج۹ ج۱، ۱۹۷۲ء) وغیرہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تعارف فن قراء ت
قراء ت کی جمع قراء ات ہے، یعنی مختلف قراء تیں، قراء ت اس علم کو کہتے ہیں جس سے کلماتِ قرآنیہ میں قرآن کے ناقلین کا وہ اتفاق اور اختلاف معلوم ہو جو نبی کریم ﷺسے سن لینے کی بنا پر ہے، نہ کہ اپنی رائے کی بناپر قراء ت کا موضوع کلماتِ قرآنی ہیں، جس سے تحریف و تغیر اور غلطی سے محفوظ رہا جاتاہے۔ اسی لئے اس کا سیکھنا اور سکھانا واجب علی الکفایہ ہے۔
جیسا کہ ارشادِ نبوی ﷺ ہے:
’’أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف‘‘
’’یعنی قرآن کریم سات أحرف کی صورت میں نازل کیا گیا ہے۔‘‘
قرآن کریم اس وقت جس رسم خط میں شائع ہوتا ہے یہ توقیفی اور سماعی ہے، آپ ﷺ کے حکم و املاء سے ثابت و منقول ہے اور لوح محفوظ کی ہیئت کتابت اور رسم خط کے مطابق منزل من اللہ ہے۔ اس میں کسی رائے اور قیاس کو دخل نہیں ہے، اس کی اتباع لازم اور مخالفت حرام ہے۔رسم خط کی بنیادی طور سے ۱۲ قسمیں شمار کی گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے ہندی انگریزی یا کسی اور رسم خط میں قرآن کریم لکھنا ناجائز ہوگا۔ان زبانوں کے حروف ہجاء بھی عربی سے جدا ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مفہوم سبعۂ اَحرف
اَحرف حرف کی جمع ہے، حرف لغت میں تین معنی میں مستعمل ہے، قرآن کریم میں کبھی حد، طرف اور جانب کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ کبھی انحراف کے معنی میں اور کبھی قدرت علی الفعل کے معنی میں۔ سبعۃ کے مفہوم میں بہت زیادہ اختلافات منقول ہیں، چالیس سے زیادہ اَقوال ہیں، بعض مستقل تصانیف اس پہلو پر تحریر کی گئی ہیں۔
٭ ایک رائے ہے قرآن کریم کا ہر کلمہ سات طرح سے پڑھا جاسکتا ہے۔
٭ دوسری رائے ہے سبعہ کا لفظ قرآن کریم میں کثرت کے اظہار کے لئے آیا ہے، کسی مخصوص عدد کے لئے نہیں۔
٭ تیسری رائے ہے اس سے احکام سبعہ مراد ہیں۔
٭ چوتھی رائے ہے اس سے زجر و امر حلال و حرام اور محکم و متشابہ مراد ہے۔
٭ پانچویں رائے ہے وعدہ وعید حلال و حرام مواعظ و امثال و احتجاج مراد ہے۔
٭ چھٹی رائے ہے مراد سات لغات ہیں، یعنی مختلف قبائل کی سات لغات۔
٭ ساتویں رائے ہے اس سے عربوں کے سات لہجے مراد ہیں۔
٭ آٹھویں رائے ہے کہ سات مشہور قرآنی قراء تیں مراد ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں میں نے تیس سال اس مسئلہ پر غور و فکر کیا تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس سے مراد تمام قراء توں میں سات طرح کے اختلافات مراد ہیں اور یہ اختلاف
(۱) یا تو حرکات کا ہے
(۲) یا صرف معنی میں تبدیلی کا ہے
(۳) یا حروف میں ایسی تبدیلی کا ہے جس سے معنی میں تبدیلی نہ آئے
(۴)یا حروف میں ایسی تبدیلی کا ہے جس سے معنی میں تبدیلی آئے۔
(۵) یا معنی اور صورت دونوں میں تبدیلی آئے
(۶)یا تقدیم و تاخیر کی تبدیلی
(۷) یا الفاظ میں کمی و بیشی ہو جیسےاوصٰی اور وصّٰیم
علامہ جزری رحمہ اللہ کی اس رائے پر اکثر اہل علم کا اتفاق ہے۔
لیکن ایک اور نکتہ پر اختلاف ہے کہ سات لہجوں میں تلاوت کی اِجازت ہمیشہ کے لئے تھی یا فقط عہد نبویﷺتک کے لئے تھی، بعض کی رائے ہے جس میں امام طبری رحمہ اللہ بھی شامل ہیں کہ مصحفِ عثمانی کے بعد اب چھے حروف ختم ہوگئے، فقط ایک پر تلاوت باقی رہ گئی ہے، لیکن پھر سوال پیدا ہوا کہ عثمانt کو چھ قراء ت ختم کرنے کا اختیار تھا؟طبری رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہیں کہ سات قراء ا ت میں تلاوت کی اِجازت ابتدائی عہد میں لوگوں کی آسانی کے لئے دی گئی تھی، یہ لازمی نہیں تھی، لیکن جب یہ اختلاف قراء ت اُمت کے اختلاف کا سبب بننے لگا توفقط ایک لغت قریش پر قرآن کو باقی رکھا۔
دوسری رائے امام رازی رحمہ اللہ ابن کثیررحمہ اللہ اور جمہور علماء کی ہے کہ ساتوں قراء ات مصحف عثمانی میں موجود ہیں اوران پر صحابہ کا اجماع ہے، مصحف عثمانی اسی مصحف کی نقل ہے جو حضرت ابوبکر صدیق﷜ کے زمانہ میں عمر﷜ کے مشورہ سے زید بن ثابت﷜نے تیارکیا تھا، لہٰذا ساتوں قراء ات میں پڑھنے سے منع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ه اس کی تائید قرآن و حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سات حروف میں نزول قرآن کی حکمت
ڈاکٹر محمد سالم لکھتے ہیں:
(١) اس کی پہلی حکمت یہ ہے کہ اُمت میں بچے، بوڑھے، ضعیف سب ہیں، ان کی آسانی کے لئے اجازت دی گئی۔
(٢) مختلف لہجوں میں قرآن کی تلاوت یہ قرآن کا اعجاز ہے۔
(٣) اُمت کو لغت قریش پر جمع کردیا کہ یہ معیاری لہجہ و رسم خط ہے، قرآن ہمیشہ اسی پر لکھا جائے گا، لیکن ہر قبیلہ کے لب و لہجہ کو بھی عزت دینے اور محفوظ رکھنے کے لئے اِجازت دے دی گئی کہ ان کے لہجہ میں بھی تلاوت کی جاسکتی ہے۔
(٤) دلائل نبوت میں ایک دلیل و معجزہ تھا کہ آپﷺہر قبیلہ سے اس کے لہجہ میں بات کرلیا کرتے تھے، حالانکہ آپﷺ اُمی تھے، یہ معجزہ قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے قرآن کریم کی صورت میں زندہ و پائندہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حجیت قراء ت قرآن و حدیث کی روشنی میں:
قرآن کے مخاطب صرف قریش یاعرب قبائل نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی ساری نسل انسانیت ہے اس لئے قرآن کریم نے اِسلامی تعلیمات کو آسان و سہل بنایا ہے اور یہی حکم آپ ﷺ اور علماء اُمت کو ہے، ارشاد ربانی ہے:’’یُرِیْدُ اﷲ ُبِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ‘‘
’’اللہ آسانی چاہتا ہے، تنگی و مشکل نہیں۔‘‘
ہر مشکل کے ساتھ آسانی بھی پیدا کی ہے۔متعدد مقامات پر فرمایا ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے۔…ظاہر ہے مختلف لہجوں میں تلاوت کی اِجازت آسانی پیدا کرنا ہے، اپنے نبی کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’فَاِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ‘‘
قرآن ایک کلام الٰہی ہے، جس کا اجراء عام انسانی زبانوں پر غالباً مشکل ہوتا ہے، لہٰذا لسان نبویﷺپر اجراء کرکے اس کی تعلیم کو سہل بنادیا گیا۔
اِشارۃ النص سے واضح ہوتا ہے، قرآن کریم کی مختلف لہجوں میں تلاوت منشاء قرآنی کے مطابق ہے۔
’’عن أبی بن کعب رضی اﷲ عنہ قال: لقی رسول اﷲ جبریل فقال: یا جبریل إنی بعثت إلی أمۃ أمیین منہم العجوز والشیخ الکبیر والغلام والجاریۃ والرجل الذی لم یقرأ کتابا قط،قال یا محمد إن القرآن أنزل علی سبعۃ أحرف‘‘
’’حضرت اُبی بن کعب﷜سے روایت ہے: نبی کریم ﷺنے جبریل﷤سے ملاقات کی تو آپﷺنے فرمایا:اے جبریل﷤ میں ایسی امت کی جانب رسول بناکر بھیجا گیا ہوں، جو امی ہے، اور اس میں بوڑھے، عمررسیدہ، غلام افراد بھی ہیں، جو قرآن کریم کی تلاوت (ایک لہجہ) میں نہیں کرسکتے ہیں، تو جبریل﷤نے فرمایا: اے محمدﷺقرآن کریم کو سات (قراء ات ) (لہجوں) میں تلاوت کیا جاسکتا ہے۔‘‘
یعنی آپﷺکی خواہش پر مختلف قراء ات کی اجازت دی گئی اور خواہش کا سبب کمزوروں کے لئے آسانی ہے، اسی صحابی سے دوسری روایت میں مکمل تفصیل سامنے آتی ہے۔
عن أبی بن کعب رضی اﷲ عنہ أن النببی ﷺ کان عند أضاء ۃ بنی غفار، فأتاہ جبریل علیہ السلام فقال: إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرف فقال: أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک،ثم أتاہ الثانیۃ فقال: إن اﷲ یأمرک أن تقرء أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الثالثۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی ثلثۃ أحرف فقال: أسأل اﷲ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعۃ فقال إن اﷲ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف، فأیما حرف قرؤا علیہ فقد أصابوا‘‘
آپﷺ نے فرمایا: میری امت طاقت نہیں رکھتی، اس لئے اللہ تعالیٰ نے مختلف قراء ات میں تلاوت قرآن کریم کی اجازت دے دی اور واضح فرمایا کہ جملہ قراء ات میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے حق پر ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ظاہر ہے یہ اِجازت سب کے لئے ہے اور قیامت تک آنے والی اُمت کے افراد کے لئے ہے۔
عن ابن عباس رضی اﷲ عنہما: أن رسول اﷲﷺ قال: أقرأنی جبریل علی حرف فراجعتہ فلم أزل أستنریدہ ویزیدنی حتی انتہی إلی سبعۃ أحرف
’’حضرت ابن عباس﷜ کی اس روایت سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے، یہی وجہ ہے عہد نبویﷺ میں صحابہ کرام﷢ مختلف لہجوں میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اختلاف کی صورت میں آپﷺسے رابطہ فرماتے تھے، جیسا کہ حضرت عمر فاروق﷜ کا واقعہ ہے۔ انہوں نے ہشام بن حکیم﷜ کی تلاوت کے لہجہ پر اعتراض کیا تو آپﷺنے دونوں سے جدا جدا لہجہ میں تلاوت سنی اور دونوں کے بارے میں فرمایا:
کذلک أنزلتٹ ’’یعنی دونوں قراء ات درست ہیں۔ ‘‘
اسی طرح ابی بن کعب﷜کی دوسری روایت میں مختلف قراء ات کے اختلاف کے بارے میں فحسن النبی ﷺ شأنہما ،کہہ کر دونوں کی تحسین فرمائی۔ نبیﷺ نے جس عمل کی تحسین فرمائی، امت کا کوئی فرد اس کی تکذیب نہیں کرسکتا۔ مختلف قراء ت کے جواز پر بے شمار صحیح اَحادیث موجود ہیں، جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں۲۱؍ صحابہ سے یہ روایت منقول ہے ان میں:
ابی بن کعب، انس، حذیفہ بن الیمان، زید بن ارقم، سمرۃ بن جندب، سلیمان بن صرد، ابن عباس، ابن مسعود، عبدالرحمن بن عوف ، عثمان بن عفان، عمر بن الخطاب ، عمرو بن ابی سلمہ، عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ہشام بن حکیم، ابی بکرۃ، ابی جہیم، ابی سعید الخدری، ابی طلحہ الانصاری، ابی ہریرۃ اور ابی ایوب﷢شامل ہیں اور جسے صحابہ کی اتنی بڑی تعداد نقل کرے اسے خبر متواتر کہا جاتا ہے جس کا انکار گمراہی ہے۔
 
Top