• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی میں ایک بکری ،سارے گھر والوں کی طرف سے کافی

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام و علیکم و رحمت الله -

قربانی سے متعلق سوال:

١-اگر کسی صاحب نصاب پر قرض ہو اور اس کے پاس صرف اتنی رقم ہو کہ قربانی کرسکتا ہو لیکن قرض ادا نہیں کرسکتا- جب کہ قرض دار مطالبہ بھی کرتا ہو کہ قرض واپس کردو - تو ایسی صورت میں قرض ادا کرنا ضروری ہے یا قربانی کرنا ضروری ہے ؟؟-

١-اگر کسی صاحب نصاب پر قرض ہو- جب کہ قرض دار فلوقت مطالبہ نہیں کررہا - تو کیا ایسی صورت میں پہلے قربانی کی جا سکتی ہے اور قربانی کے بعد کس بھی وقت قرض ادا کیا جا سکتا ہے؟؟-

قرآن و سنّت کی روشنی میں جواب درکار ہے

@اسحاق سلفی
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
معاف کیجئے گا -

پھچلی پوسٹ میں غلطی سے قرض دار لکھا گیا ہے- اس جگہ "قرض دینے والا" لکھنا چاہیے تھا -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
١-اگر کسی صاحب نصاب پر قرض ہو اور اس کے پاس صرف اتنی رقم ہو کہ قربانی کرسکتا ہو لیکن قرض ادا نہیں کرسکتا- جب کہ قرض دار مطالبہ بھی کرتا ہو کہ قرض واپس کردو - تو ایسی صورت میں قرض ادا کرنا ضروری ہے یا قربانی کرنا ضروری ہے ؟؟-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایسی صورت میں (جس میں قرض خواہ واپسی کا مطالبہ کر رہا ہو ) قرض پہلے ادا کرنا چاہیئے ۔
کیونکہ قرض کی ادئیگی بالاتفاق فرض ہے ،جب کہ قربانی جمہور کے نزدیک سنت موکدہ ہے ۔
اور جنکے ہاں قربانی واجب ہے وہ بھی استطاعت و قدرت کی شرط کے ساتھ واجب کہتے ہیں ۔یعنی اگر استطاعت ہے تو واجب ہے ورنہ نہیں ۔۔
اسلئے پہلے قرض کا فرض ادا کرے ۔(اس کے دلائل تک آپ آسانی سے پہنچ سکتے ہیں ، مجھے جیسے ہی فرصت ملتی ہے ۔ان شاء اللہ مختصراً دلائل فراہم کردوں گا ،)
ذیل کے فتوی میں یہی بات بیان کی گئی ہے
1- هل تجوز الأضحية لمن كان عليه ديون أكثر مما يملك .

2-هل تجوز الأضحية لمن لم يدفع مهر زوجته؟

الإجابــة




الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فمذهب جمهورأهل العلم على أن الأضحية سنة وليست بواجبة، كما تقدم فى الفتوى رقم: 6216.

ومن عليه ديون سواء كانت صداق زوجة أوغير ذلك فليبدأ بقضاء دينه؛ لأن قضاء الدين واجب، والأضحية سنة على الراجح، والواجب مقدم على السنة.

وإذا قام الشخص المذكور بالأضحية أجزأته. وراجع الفتوى رقم:43637، والفتوى رقم:57314.

والله أعلم.


 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم،
گائے کی قربانی میں حصہ ڈالنے کی صورت میں بھی ایک حصہ سب گھر والوں کی طرف سے کافی ہو گا؟ اگر ہاں تو اس کی دلیل کیا ہے۔ @اسحاق سلفی
الاشتراك في الأضحية
هل يجوز الاشتراك في الأضحية ، وكم عدد المسلمين الذين يشتركون في الأضحية ؟.

الحمد لله

يجوز الاشتراك في الأضحية إذا كانت من الإبل أو البقر ، أما الشاة فلا يجوز الاشتراك فيها .
ويجوز أن يشترك سبعة أشخاص في واحدة من البقر أو الإبل .
وقد ثبت اشتراك الصحابة رضي الله عنه في الهدي ، السبعة في بعير أو بقرة في الحج والعمرة .
روى مسلم (1318) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنهما قَالَ : نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ .

وفي رواية : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَحَرْنَا الْبَعِيرَ عَنْ سَبْعَةٍ ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ .

وروى أبو داود (2808) عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( الْبَقَرَةُ عَنْ سَبْعَةٍ ، وَالْجَزُورُ - أي : البعير - عَنْ سَبْعَةٍ ) . صححه الألباني في صحيح أبي داود .

قال النووي في "شرح مسلم" :
" فِي هَذِهِ الأَحَادِيث دَلالَة لِجَوَازِ الِاشْتِرَاك فِي الْهَدْي , وَأَجْمَعُوا عَلَى أَنَّ الشَّاة لا يَجُوز الاشْتِرَاك فِيهَا . وَفِي هَذِهِ الأَحَادِيث أَنَّ الْبَدَنَة تُجْزِئ عَنْ سَبْعَة , وَالْبَقَرَة عَنْ سَبْعَة , وَتَقُوم كُلّ وَاحِدَة مَقَام سَبْع شِيَاه , حَتَّى لَوْ كَانَ عَلَى الْمُحْرِم سَبْعَة دِمَاء بِغَيْرِ جَزَاء الصَّيْد , وَذَبَحَ عَنْهَا بَدَنَة أَوْ بَقَرَة أَجْزَأَهُ عَنْ الْجَمِيع " انتهى باختصار .

وسئلت اللجنة الدائمة عن الاشتراك في الأضحية ، فأجابت :
" تجزئ البدنة والبقرة عن سبعة ، سواء كانوا من أهل بيت واحد أو من بيوت متفرقين ، وسواء كان بينهم قرابة أو لا ؛ لأن النبي صلى الله عليه وسلم أذن للصحابة في الاشتراك في البدنة والبقرة كل سبعة في واحدة ، ولم يفصل ذلك " انتهى .
"فتاوى اللجنة الدائمة" (11/401) .

وقال الشيخ ابن عثيمين في "أحكام الأضحية" :
" وتجزئ الواحدة من الغنم عن الشخص الواحد ، ويجزئ سُبْع البعير أو البقرة عما تجزئ عنه الواحدة من الغنم " انتهى .

الإسلام سؤال وجواب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ:
قربانى ميں حصہ ڈالنا
كيا قربانى ميں حصہ ڈالنا جائز ہے، ايك قربانى ميں كتنے مسلمان شريك ہو سكتے ہيں ؟


الحمد للہ:

اگر اونٹ يا گائے كى قربانى ہو تو اس ميں حصہ ڈالا جا سكتا ہے، ليكن اگر بكرى اور بھيڑ يا دنبہ كى قربانى كى جائے تو پھر اس ميں حصہ نہيں ڈالا جا سكتا، اور ايك گائے يا ايك اونٹ ميں سات حصہ دار شريك ہو سكتے ہيں.

صحابہ كرام رضى اللہ عنہم سے حج يا عمرہ كى ھدى ميں ايك اونٹ يا گائے ميں سات افراد كا شريك ہونا سے ثابت ہے.
امام مسلم رحمہ اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ہم نے حديبيہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ ايك اونٹ اور ايك گائے سات سات افراد كى جانب سے ذبح كى تھى "(صحيح مسلم حديث نمبر ( 1318 ).

اور ايك روايت ميں ہے كہ جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيا كرتے ہيں كہ:
" ہم نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ حج كيا اور ايك اونٹ اور ايك گائے سات افراد كى جانب سے ذبح كي "

اور ابو داود كى روايت ميں ہے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" گائے سات افراد كى جانب سے ہے، اور اونٹ سات افراد كى جانب سے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2808 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں رقمطراز ہيں:
" ان احاديث ميں قربانى كے جانور ميں حصہ ڈالنے كى دليل پائى جاتى ہے، اور علماء اس پر متفق ہيں كہ بكرے ميں حصہ ڈالنا جائز نہيں، اور ان احاديث ميں يہ بيان ہوا ہے كہ ايك اونٹ سات افراد كى جانب سے كافى ہوگا، اور گائے بھى سات افراد كى جانب سے، اور ہر ايك سات بكريوں كے قائم مقام ہے، حتى كہ اگر محرم شخص پر شكار كے فديہ كے علاوہ سات دم ہوں تو وہ ايك گائے يا اونٹ نحر كر دے تو سب سے كفائت كر جائيگا " انتہى مختصرا.

اور مستقل فتوى كميٹى سے قربانى ميں حصہ ڈالنے كے متعلق دريافت كيا گيا تو ان كا جواب تھا:

" ايك اونٹ اور ايك گائے سات افراد كى جانب سے كفائت كرتى ہے، چاہے وہ ايك ہى گھر كے افراد ہوں، يا پھر مختلف گھروں كے، اور چاہے ان كے مابين كوئى قرابت و رشتہ دارى ہو يا نہ ہو؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو ايك گائے اور ايك اونٹ ميں سات افراد شريك ہونے كى اجازت دى تھى، اور اس ميں كوئى فرق نہيں كيا " انتہى.

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 401 )

اور " احكام الاضحيۃ " ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور بكرى ايك شخص كى جانب سے كفائت كرےگى، اور اونٹ يا گائے ان سات افراد كى جانب سے كافى ہے جن كى جانب سے سات بكرياں كفائت كرتى ہيں " انتہى.

يعنى سات حصے ہونگے.
واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایسی صورت میں (جس میں قرض خواہ واپسی کا مطالبہ کر رہا ہو ) قرض پہلے ادا کرنا چاہیئے ۔
کیونکہ قرض کی ادئیگی بالاتفاق فرض ہے ،جب کہ قربانی جمہور کے نزدیک سنت موکدہ ہے ۔
اور جنکے ہاں قربانی واجب ہے وہ بھی استطاعت و قدرت کی شرط کے ساتھ واجب کہتے ہیں ۔یعنی اگر استطاعت ہے تو واجب ہے ورنہ نہیں ۔۔
اسلئے پہلے قرض کا فرض ادا کرے ۔(اس کے دلائل تک آپ آسانی سے پہنچ سکتے ہیں ، مجھے جیسے ہی فرصت ملتی ہے ۔ان شاء اللہ مختصراً دلائل فراہم کردوں گا ،)
ذیل کے فتوی میں یہی بات بیان کی گئی ہے
1- هل تجوز الأضحية لمن كان عليه ديون أكثر مما يملك .

2-هل تجوز الأضحية لمن لم يدفع مهر زوجته؟

الإجابــة




الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله وصحبه، أما بعـد:

فمذهب جمهورأهل العلم على أن الأضحية سنة وليست بواجبة، كما تقدم فى الفتوى رقم: 6216.

ومن عليه ديون سواء كانت صداق زوجة أوغير ذلك فليبدأ بقضاء دينه؛ لأن قضاء الدين واجب، والأضحية سنة على الراجح، والواجب مقدم على السنة.

وإذا قام الشخص المذكور بالأضحية أجزأته. وراجع الفتوى رقم:43637، والفتوى رقم:57314.

والله أعلم.


جزاک الله - شکریہ جواب کا -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
هل تكفي أضحية واحدة عن أهل البيت جميعاً ، ولو كان عددهم كثيراً ؟.
ـــــــــــــــــــــــــ
الجواب
الحمد لله

تكفي أضحية واحدة عن أهل البيت جميعا ، مهما كثروا .

روى الترمذي (1505) عن عَطَاء بْن يَسَارٍ قال : سَأَلْتُ أَبَا أَيُّوبَ الأَنْصَارِيَّ كَيْفَ كَانَتْ الضَّحَايَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ : كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ، فَيَأْكُلُونَ وَيُطْعِمُونَ . صححه الألباني في صحيح الترمذي .

قال في "تحفة الأحوذي" :

"هذا الحديث نَصٌّ صَرِيحٌ فِي أَنَّ الشَّاةَ الْوَاحِدَةَ تُجْزِئُ عَنْ الرَّجُلِ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ ، وَإِنْ كَانُوا كَثِيرِينَ ، وَهُوَ الْحَقُّ .

قَالَ الْحَافِظُ اِبْنُ الْقَيِّمِ فِي "زَادِ الْمَعَادِ" : وَكَانَ مِنْ هَدْيِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الشَّاةَ تُجْزِئُ عَنْ الرَّجُلِ وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ وَلَوْ كَثُرَ عَدَدُهُمْ .

وقَالَ الشَّوْكَانِيُّ فِي "نيْلِ الأوطار" : وَالْحَقُّ أَنَّ الشَّاةَ الْوَاحِدَةَ تُجْزِئُ عَنْ أَهْلِ الْبَيْتِ , وَإِنْ كَانُوا مِائَةَ نَفْسٍ أَوْ أَكْثَرَ كَمَا قَضَتْ بِذَلِكَ السُّنَّةُ " انتهى باختصار .

وقال الشيخ ابن عثيمين في "الشرح الممتع" (5/275) :

" التشريك في الثواب لا حصر له ، فها هو النبي صلى الله عليه وسلم ضحى عن كل أمته ، وها هو الرجل يضحي بالشاة الواحدة عنه وعن أهل بيته ، ولو كانوا مئة " انتهى .

وسئلت اللجنة الدائمة : هذه العائلة تتكون من اثنين وعشرين فرداً ، والدخل واحد ، والمصروف واحد ، وفي عيد الأضحى المبارك يضحون بضحية واحدة ، فلا أدري هل هي تجزئ أم أنه يلزمهم ضحيتان ؟

فأجابت :

" إذا كانت العائلة كثيرة ، وهي في بيت واحد ، فيجزئ عنهم أضحية واحدة ، وإن ضحوا بأكثر من واحدة فهو أفضل " انتهى .

فتاوى اللجنة الدائمة" (11/408) .

الإسلام سؤال وجواب

https://islamqa.info/ar/45916
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
كيا سب گھر والوں كى جانب سے ايك ہى قربانى كافى ہے، چاہے ان كى تعداد زيادہ بھى ہو ؟
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب
الحمد للہ:

سب گھر والوں كى جانب سے چاہے ان كى تعداد كتنى بھى زيادہ ہو ايك ہى قربانى كافى ہے.
عطاء بن يسار بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے دريافت كيا:
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں قربانى كا كيا حساب تھا ؟

تو انہوں نے جواب ديا:
آدمى اپنى اور اپنے گھروالوں كى جانب سے ايك بكرى قربانى كرتا تو وہ بھى كھاتے اور دوسروں كو بھى كھلاتے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1505 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح كہا ہے.

تحفۃ الاحوذى ميں ہے:
" يہ حديث اس كى صريح نص اور دليل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھروالوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد زيادہ ہى ہو، اور حق بھى يہى ہے.

حافظ ابن قيم رحمہ اللہ " زاد المعاد " ميں كہتے ہيں:
" اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ اور سنت ميں يہ بھى شامل ہے كہ ايك بكرى آدمى اور اس كے گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد كتنى بھى زيادہ ہو.

اور امام شوكانى " نيل الاوطار " ميں لكھتے ہيں:
" حق يہى ہے كہ ايك بكرى ايك گھر والوں كى جانب سے كافى ہے چاہے ان كى تعداد سو يا اس بھے زيادہ ہى كيوں نہ ہو، جيسا كہ سنت سے اس كا فيصلہ ہو چكا ہے " انتہى مختصرا.

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ثواب ميں شراكت كى كوئى حصر نہيں ہے، ديكھيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سارى امت كى جانب سے قربانى كى، اور ايك شخص اپنى اور اپنے گھر والوں كى جانب سے ايك ہى قربانى كرتا ہے چاہے ان كى تعداد ايك سو ہى كيوں نہ ہو " انتہى.
ديكھيں الشرح الممتع ( 5 / 275 ).

مستقل فتوى كميٹى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك خاندان بائيس افراد پر مشتمل ہے، اور آمدنى ايك ہى ہے، اور خرچ بھى ايك، اور وہ سب قربانى بھى ايك ہى كرتے ہيں، مجھے علم نہيں كہ آيا ان كے ليے يہ ايك قربانى كافى ہے يا كہ انہيں دو قربانياں كرنا ہونگى؟

كميٹى كا جواب تھا:

" اگر تو خاندان بڑا ہے اور اس كے افراد زيادہ ہيں اور وہ ايك ہى گھر ميں سكونت پذير ہوں تو ان سب كى جانب سے ايك ہى قربانى كافى ہے، اور اگر وہ ايك سے زيادہ كريں تو يہ افضل ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 11 / 408 ).
واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
@اسحاق سلفی صاحب
السلام علیکم

حنفیہ کا یہ کہنا ہے کہ قربانی کا نصاب وہی ہے جو زکوٰۃ کا نصاب ہے لیکن اس میں مال پرسال گذرنے کی شرط نہیں ۔ یعنی اگر صاحب مال کے پاس عین عید کے دن بھی مال آگیا تو قربانی واجب ہوجائےگی ۔ اس میں ان کی کیا دلیل ہے۔

برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں کہ کیا قربانی کیلئے بھی کوئی نصاب ہے ۔یعنی اس کا وجوب کب ہوگا۔ اور نصاب کیا قران و سنت سے ثابت ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
لسلام علیکم

حنفیہ کا یہ کہنا ہے کہ قربانی کا نصاب وہی ہے جو زکوٰۃ کا نصاب ہے لیکن اس میں مال پرسال گذرنے کی شرط نہیں ۔ یعنی اگر صاحب مال کے پاس عین عید کے دن بھی مال آگیا تو قربانی واجب ہوجائےگی ۔ اس میں ان کی کیا دلیل ہے۔

برائے مہربانی اس کی وضاحت فرمادیں کہ کیا قربانی کیلئے بھی کوئی نصاب ہے ۔یعنی اس کا وجوب کب ہوگا۔ اور نصاب کیا قران و سنت سے ثابت ہے ۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
قربانی کیلئے صاحب نصاب ہونے کی شرط کی کوئی دلیل قرآن و سنت میں موجود نہیں ،
بلکہ اس کے الٹ یہ ثابت ہے کہ جس کےپاس قربانی کرنے کی استطاعت ہے وہ قربانی کرے ،
عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو (قربانی کی) وسعت ہو اور وہ قربانی نہ کرے، تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے“۔
تخریج « بہ ابن ماجہ، ، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۲۱، ۶/۲۲۰) سنن الدارقطنی ، مستدرک حاکم
علامہ البانی رحمہ اللہ اسے (حسن) کہتے ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور صحیح البخاری میں حدیث شریف ہے کہ :
عن البراء بن عازب رضي الله عنهما، قال: خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم الأضحى بعد الصلاة، فقال: «من صلى صلاتنا، ونسك نسكنا، فقد أصاب النسك، ومن نسك قبل الصلاة، فإنه قبل الصلاة ولا نسك له» ، فقال أبو بردة بن نيار خال البراء: يا رسول الله، فإني نسكت شاتي قبل الصلاة، وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب، وأحببت أن تكون شاتي أول ما يذبح في بيتي، فذبحت شاتي وتغديت قبل أن آتي الصلاة، قال: «شاتك شاة لحم» قال: يا رسول الله، فإن عندنا عناقا لنا جذعة هي أحب إلي من شاتين، أفتجزي عني؟ قال: «نعم ولن تجزي عن أحد بعدك»
براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔ براء کے ماموں ابو بردہ بن نیار یہ سن کر بولے کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو بہت اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔ ابوبردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ مجھے گوشت کی دو بکریوں سے بھی عزیز ہے، کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں لیکن تمہارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہو گی۔ ))

اس حدیث میں واضح ہے کہ جس آدمی کے پاس محض ایک چھوٹی سی بکری ہے اسے بھی قربانی کا حکم دیا جارہا ہے ،یہ نہیں کہا کہ تمہارے پاس اگر بکری خریدنے کی سکت نہیں ،تو قربانی مت کرو ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور مفتی عبدالستار الحماد لکھتے ہیں :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قربانی کے لئے صاحب نصاب ہونے کی شرط
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں کچھ مذہبی حلقوں میں کہا جاتا ہے کہ قربانی کے لئے صاحب نصاب ہونا شرط ہے یعنی وہ اتنے مال کا مالک ہو کہ وہ زکوٰۃ ادا کرنے کے قابل ہو، اس شرط کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قربانی کے متعلق بایں الفاظ حکم دیا ہے: "آپ صرف اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔" (الکوثر:2)
یہ حکم تمام امت مسلمہ کے لئے یکساں ہے خواہ وہ صاحب نصاب ہو یا نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی معاشی زندگی انتہائی تنگدستی میں گزاری، اس کے باوجود آپ مدنی دور میں برابر قربانی کرتے رہے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا اور آپ برابر قربانی کرتے رہے۔ (سنن الترمذی،الاضاحی:1507)
حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں دین اسلام کے ہر حکم پر عمل کیا ہے لیکن آپ نے کبھی زکوٰۃ نہیں دی کیونکہ زکوٰۃ صاحب نصاب پر فرض ہے لیکن آپ کبھی صاحب نصاب نہیں ہوئے، اس کے باوجود آپ ہر سال قربانی کرتے اور اس کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ اس بنا پر ہمارا رجحان ہے کہ قربانی کے لئے صاحب نصاب ہونے کی شرط لگانا انتہائی محل نظر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں قربانی کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: "عورتوں اور مسافروں کا بیان" (صحیح البخاری،الاضاحی باب2)
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسافر حضرات بھی قربانی کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں بھی قربانی کی ہے۔ بہرحال قربانی کے لئے صاحب نصاب ہونے کی شرط لگانا کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ (واللہ اعلم)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب​

جلد4۔صفحہ نمبر 357​

محدث فتویٰ​

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top