• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی کا جانور

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم شیخ @اسحاق سلفی !
ایک دوست کا قربانی کا جانور بیماری کی وجہ سے مرنے کے قریب تھا تو اُنہوں نے اسے ذبح کردیا۔
اس گوشت وغیرہ کا کیا کریں؟
اور مزید یہ کہ اب نیا جانور لینے کی استطاعت نہیں۔
ان دو مسائل کے بارے میں جلد از جلد آگاہ کریں۔جزاک اللہ خیرا!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ور مزید یہ کہ اب نیا جانور لینے کی استطاعت نہیں۔

فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 3408

قربانی کا جانور مر گیا تو کیا کرے؟
شروع از بتاریخ : 04 June 2013 08:17 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بکرا یا گائے قربانی کیلئے خریدی اور وہ جانور کھو گیا یا مر گیا تو کیا کرنا چاہئے بکرے کے عوض بکرا خریدے یا گائے میں حصہ ڈالے یاقربانی ہوگئی۔؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قربانی ہوگئی اس کے عوض بکراخریدنے کی کوئی ضرورت نہیں ہاں مزید ثواب کیلئے کرے تو کوئی حرج بھی نہیں۔(مفتی عبدالستار فتاوی ستاریہ جلد1 ص 17)

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 13 ص 47
محدث فتویٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 12455

قربانی کا جانور خریدنے کے بعد اس میں عیب پڑنا
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 15 June 2014 10:48 AM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر قربانی کا جانور خریدنے کےبعد اس میں عیب پڑ جائےتو اسے ذبح کیا جاسکتا ہے یا اس کی جگہ کوئی صحیح و سالم جانور خریدنا ہوگا؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
احادیث میں قربانی کے جانور کےمتعلق صحابہ کرامؓ کا یہ معمول بیان ہوا ہے کہ اسے ذبح کرتے وقت ان عیوب کو دیکھتے تھے، جو قربانی کے لئے رکاوٹ کا باعث ہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خریدنے کےبعد ذبح کرنے سے پہلے قربانی کے جانور میں کوئی عیب پڑجائے تو وہ قربانی کے قابل نہیں رہتا اسے تبدیل کرنا چاہیے۔ یہ ایسے ہے جیسے قربانی کےجانور کو قبل از وقت ذبح کردیا جائے، چنانچہ حدیث میں بیان ہے کہ حضرت ابوبردہ بن نیارؓ نے عید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کردیا تھا تو رسول اللہﷺ نے

فرمایا کہ ‘‘ یہ عام گوشت ہے اس کے بدلے کوئی اور جانور ذبح کیا جائے۔’’(صحیح بخاری،الاضاحی:۵۵۶۰)


خریدنے کےبعد عیب پڑنے کی صورت میں بعض صحابہ کرام ؓ اس جانور کو قربانی کے طور پر ذبح کردینے کا فتویٰ دیتے ہیں اور دلیل میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدریؓ نے قربانی کے لئے ایک دنبہ خریدا، لیکن ذبح سے پہلے اس کی چکی ایک بھیڑیا لے گیا تو رسو ل اللہﷺ نے انہیں وہی جانور ذبح کرنے کی اجازت فرمائی۔(مسند اما م احمد:۷۸/۳)

لیکن ایک تو یہ حدیث اس قابل نہیں کہ اسے بطور صحت پیش کیا جائے، کیونکہ اس کی سند میں ایک راوی جابر جعفی ہے جو محدثین کےہاں انتہائی مجروح اور ناقابل اعتبار ہے ، نیز اس کی سند میں ایک دوسرا محمد بن قرظہ جو جابر جعفی کا استاد ہے، کتب جرح میں اسے مجہول قراردیاگیا ہے۔ (خلاصہ تہذیب الکمال،صفحہ نمبر:۳۵۶)

دوسری بات یہ ہے کہ دنبے کی چکی کا نہ ہونا کوئی ایسا عیب نہیں ہے جو قربانی کے لئے رکاوٹ کا باعث ہو۔ یہ ایسے ہے کہ اگر قربانی کا جانور کا دانت ٹوٹ جائے تو اسےقربانی کےطور پر ذبح کیا جاسکتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قربانی کا جانور نامزد کرنےکے بعد اگر اس میں عیب پڑ جائے تو اس کےبدلے دوسرا جانور ذبح کرنا چاہیے۔ اگر قربانی کی استطاعت نہیں تو اللہ تعالیٰ کسی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے ہیں۔ (واللہ اعلم )

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اصحاب الحدیث

ج2ص392
محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات
فتویٰ نمبر : 2243

قربانی کا بیمار جانور

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جناب میرے ایک دوست نے قربانی لی تھی،وہ جانور ابھی شدید بیمار پڑ گیا ہے اور لگتا نہیں کہ وہ بچ جائے. اگر یہ جانور مر جاتا ہے. تو پھر کیا ہوگا؟ کیا اسکو دوسرا جانور خریدنا پڑے گا؟ اس نے یہ جانور ٧١٠٠٠ ہزار کا لیا تھا- اور اسکی مالی حالت دوسرے جانور لینے کی بالکل نہیں ہے. ایک مفتی سے پوچھا ہے اس نے کہا ہے کہ اگر یہ جانور مر جائے تو جس طرح بھی ہو قربانی کرنی پڑے گی- کیونکہ یہ تم پرفرض ہے. اب کیا کیا جائے. برائے مہربانی جلدی جواب دیجیے.؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
راجح مسلک کے مطابق قربانی کرنا سنت موکدہ ہے، فرض یا واجب نہیں ہے۔اگر یہ جانور مرجاتا ہے تو ان شاء اللہ نیت کے مطابق مالک کو ضرور ثواب ملے گا۔ اللہ تعالی آپ کے جانور کو صحت دے ،اگر خدا نخواستہ یہ مر جاتا ہے اور بھائی کے پاس دوبارہ خریدنے کی طاقت نہیں ہے تو وہ بھائی اللہ کے ہاں معذور ہیں اور ان پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ہاں البتہ اگر بھائی دوبارہ جانور خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں، بے شک سستا ہی خرید لیں،تو ان کو ضرور اس نیک عمل میں شریک ہونا چاہیے۔

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب
فتویٰ کمیٹی
محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ایک دوست کا قربانی کا جانور بیماری کی وجہ سے مرنے کے قریب تھا تو اُنہوں نے اسے ذبح کردیا۔
اس گوشت وغیرہ کا کیا کریں؟
اور مزید یہ کہ اب نیا جانور لینے کی استطاعت نہیں۔
قربانی کے وقت سے پہلے اگر جانور ذبح کر دیا جائے ،تو قربانی نہیں ہوتی ۔
اگر کسی عذر سے ایسا کرنا پڑے تو قربانی تو نہیں ۔۔البتہ نیت اور خرچ کا اجر ان شاء اللہ ملے گا۔
اگر بیماری کی وجہ ذبح کیا گیا تو اگرگوشت مضر صحت نہ ہو تو یقیناً کھایا جائے گا ۔
درج ذیل حدیث دیکھئے :

عن البراء بن عازب رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم الاضحى بعد الصلاة فقال:‏‏‏‏ " من صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد اصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فإنه قبل الصلاة ولا نسك له فقال ابو بردة بن نيار خال البراء:‏‏‏‏ يا رسول الله فإني نسكت شاتي قبل الصلاة وعرفت ان اليوم يوم اكل وشرب واحببت ان تكون شاتي اول ما يذبح في بيتي فذبحت شاتي وتغديت قبل ان آتي الصلاة قال:‏‏‏‏ شاتك شاة لحم قال:‏‏‏‏ يا رسول الله فإن عندنا عناقا لنا جذعة هي احب إلي من شاتين افتجزي عني قال:‏‏‏‏ نعم ولن تجزي عن احد بعدك ".
(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 955 )

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔ براء کے ماموں ابو بردہ بن نیار یہ سن کر بولے کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو بہت اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔ ابوبردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ مجھے گوشت کی دو بکریوں سے بھی عزیز ہے، کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں لیکن تمہارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہو گی۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
قربانى كا جانور گر گيا اور مرنے سے قبل اسے ذبح كر ليا گيا تو كيا يہ قربانى شمار ہو جائےگى؟

ہمارے گھر كى چھت سے قربانى كا جانور نيچے گر كيا تو گھر والوں نے مرنے سے قبل اسے ذبح كر ليا، كيا يہ جائز ہے ؟

الحمد للہ :

اول:

آپ كے سوال سےظاہر يہ ہوتا ہے كہ آپ لوگوں نے جانور نماز عيد سے قبل ذبح كيا ہے، اگر تو معاملہ ايسے ہى ہے تو يہ قربانى نہيں ہوگى، كيونكہ قربانى كے ليے شرط يہ ہے كہ وہ قربانى كے ايام اور وقت ميں ذبح كى جائے، اور وہ عيد كا دن اور اس كے بعد تين دن ہيں.

جندب بن سفيان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں عيد الاضحى كى نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ حاضر ہوا، جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عيد پڑھا لى تو ايك ذبح شدہ بكرى ديكھى تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى نماز عيد سے قبل بكرى ذبح كى وہ اس كى جگہ اور بكرى ذبح كرے، اور جس نے ذبح نہيں كى وہ اللہ تعالى كا نام لے كر ذبح كرے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 942 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1960 ).


تو اس بنا پر اگر يہ جانور قربانى كا تھا تو اس كے بدلے اور ذبح كرنا ہو گا.

ليكن اگر آپ نے قربانى كے وقت ميں جانور ذبح كيا اور اسے قربانى كى نيت سے خريدا تھا تو يہ كفائت كر جائےگا، اور قربانى شمار ہوگى، چاہے چھت سے گرنے كے باعث اس كى ہڈى وغيرہ بھى ٹوٹ گئى ہو، مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 39191 ) كا جواب ضرورى ديكھيں.

دوم:

اور آپ كا اس جانور كو ذبح كرنا صحيح ہے يا نہيں؟ اس كے متعلق گزارش ہے كہ اگر تو آپ نے اسے مرنے سے قبل ذبح كيا ہے تو صحيح ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى نے گلا گھٹنے اور كسى ضرب سے ( جو كوئى پتھر يا لوہے وغيرہ كى ضرب سے مرے ) اور اونچى جگہ سے گرنے والے ( جيسا كہ آپ كے ذبح كردہ جانور كے ساتھ ہوا ) اور جسے درندے چيڑ پھاڑ ڈاليں اور وہ مر جائے تو ان سب كو اللہ تعالى حرام قرار ديا ہے.

ليكن اگر ان جانوروں كو مرنے سے قبل ہى شرعى طور پر ذبح كر ليا جائے تو وہ حلال ہونگے.

فرمان بارى تعالى ہے:

﴿ تم پر مردار، اورخون، اور خنزير كا گوشت، اور جس پر اللہ تعالى علاوہ كسى اور كا نام ليا گيا ہو، اور جو گلا گھٹنے سے مرا ہو، اور جو كسى ضرب سے مر گيا ہو، اور جو اونچى جگہ سے گر كر مرا ہو، اور جو كسى سينگ مارنے سے مرا ہو، اور جسے كسى درندے نے پھاڑ كھايا ہو حرام كر ديا گيا ہے، ليكن جسے تم ذبح كر ڈالو تو وہ حرام نہيں ہے﴾ المآئدۃ ( 3 ).

ابن كثير رحمہ اللہ تعالى اس آيت كى تفسير ميں كہتے ہيں:

قولہ تعالى:

﴿ مگر جسے تم ذبح كر ڈالو ﴾. اس ميں ضمير اس طرف لوٹ رہى جس جانور ميں موت كا سبب پايا گيا اور اس كى زندگى ختم ہونے سے قبل اسے ذبح كر ليا گيا تو اس كى طرف لوٹےگى، اور يہ ضمير اس طرف لوٹ رہى ہے:

﴿ اور گلا گھٹنے سے مرنے والا، اور ضرب لگنے سے مرنے والا، اور اونچى جگہ سے گر كر مرنے والا، اور كسى كے سينگ مارنے سے مرنے والا اور جسے درندے چير پھاڑ ديں﴾ .


ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 2 / 11 - 12 ).

كعب بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى ايك لونڈى سلع ( مدينہ ميں ايك پہاڑ ہے ) ميں بكرياں چرا رہى تھى اس نے ايك بكرى كو موت كى كشمش ميں ديكھا تو ايك پتھر توڑ كر بكرى ذبح كردى، تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے كہا اسے نہ كھاؤ حتى كہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كے متعلق دريافت نہ كر لوں، انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دريافت كيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں كھانے كا حكم ديا"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2181 ).

واللہ اعلم .

الاسلام سوال وجواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ذبح کرنے سے قبل قربانی کے جانورکا زخمی ہونا :

میں نے عید سے کئي دن قبل دنبہ بالکل صحیح وتندرست خریدا ، اورذبح کرنے کے لیے سیڑھیوں سے نیچے اتارتے ہوئے اس کے پاؤں میں ( ذبح سے تقریبا ایک گھنٹہ قبل ) زخم ہوگيا توکیا قربانی میں یہ عیب شمار ہوگا ؟

الحمد للہ

زاد المستقنع کے مؤلف کا کہنا ہے :

( اگر وہ ( قربانی کا جانور ) عیب دار ہوگئی اوراسے ذبح کردیا تواس کی قربانی ہوجائے گی ۔۔۔۔ ) ۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں اس کی مثال یہ ہے کہ :

ایک شخص نے قربانی کا جانور خریدا اوراس کی تعیین کے بعد پھر اس کی ٹانگ ٹوٹ گئي اوروہ صحیح جانوروں کے ساتھ چلنے سے قاصر ہوگیا ، تواس حالت میں وہ ذبح کرے تویہ قربانی ادا ہوجائے گي ، اس لیے کہ جب اس کی تعیین کردی گئي تووہ اس کےپاس امانت ہوگئي جس طرح کہ کوئي چيزامانت رکھی جاتی ہے ، اورجب وہ امانت ہے اوریہ اس میں عیب بھی اس کے فعل سے پیدا نہیں ہوا یا اس کی زيادتی سے نہيں تواس پر کوئي ضمان نہيں اوریہ قربانی ادا ہوجائے گي ۔.

دیکھیں : الشرح الممتع لابن عثیمین ( 7 / 515 ) ۔
 
شمولیت
ستمبر 11، 2017
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
17
تاریخ:۱۲ستمبر۲۰۱۷ء
محترم مفتیان عظام وعلمائے کرام!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
استفتاء:اجتماعی قربانی کا ایک جانورایک دن قبل مرگیا
بعدازسلام استدعایہ ہے کہ درج ذیل مسئلہ میں شریعت کا فیصلہ کیاہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔
اجتماعی قربانی کاایک جانور۹ذی الحج کی شام سے ہی سُست سُست رہا۔ڈاکٹرکو چیک کرواگیا پَر روبہ صحت نہ ہوا۔
بالآخر رات گئے وہ مرگیا۔
صورتِ مسئلہ میں ذمہ دار کون ہوگا؟ قربانی کے حصہ دار؟یااجتماعی قربانی کرنے والے ؟
جانوردوسراخریدکرقربانی کرنی ہوگی یا؟؟؟؟
اگردوسراجانورخریدناہوتوحصہ داروں سے دوبارہ پیسے لیے جائیں گے یااجتماعی قربانی کرنے والوں کے ذمے ہوگا کہ وہ خریدے؟

مستفتی
عتیق الرحمان
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
استفتاء:اجتماعی قربانی کا ایک جانورایک دن قبل مرگیا
بعدازسلام استدعایہ ہے کہ درج ذیل مسئلہ میں شریعت کا فیصلہ کیاہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔
اجتماعی قربانی کاایک جانور۹ذی الحج کی شام سے ہی سُست سُست رہا۔ڈاکٹرکو چیک کرواگیا پَر روبہ صحت نہ ہوا۔
بالآخر رات گئے وہ مرگیا۔
جانوردوسراخریدکرقربانی کرنی ہوگی یا؟؟؟؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگر ممکن ہو یعنی قربانی کا دوسرا جانور خریدنے کی استطاعت ہو ، تو نیا جانور لے کر قربانی کریں ، کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ :​
عن البراء بن عازب رضي الله عنهما قال:‏‏‏‏ خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم الاضحى بعد الصلاة فقال:‏‏‏‏ " من صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد اصاب النسك ومن نسك قبل الصلاة فإنه قبل الصلاة ولا نسك له فقال ابو بردة بن نيار خال البراء:‏‏‏‏ يا رسول الله فإني نسكت شاتي قبل الصلاة وعرفت ان اليوم يوم اكل وشرب واحببت ان تكون شاتي اول ما يذبح في بيتي فذبحت شاتي وتغديت قبل ان آتي الصلاة قال:‏‏‏‏ شاتك شاة لحم قال:‏‏‏‏ يا رسول الله فإن عندنا عناقا لنا جذعة هي احب إلي من شاتين افتجزي عني قال:‏‏‏‏ نعم ولن تجزي عن احد بعدك ".
(صحیح البخاری ،حدیث نمبر: 955 )
ترجمہ :
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔ جناب براء رضی اللہ عنہ کے ماموں ابو بردہ بن نیار یہ سن کر بولے کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو بہت اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔ ابوبردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ مجھے گوشت کی دو بکریوں سے بھی عزیز ہے، کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں لیکن تمہارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہو گی۔" انتہی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

قال ابن قدامة رحمه الله في "المغني" (9/353) :
" فَإِنْ تَلِفَتْ الْأُضْحِيَّةُ فِي يَدِهِ بِغَيْرِ تَفْرِيطٍ , أَوْ سُرِقَتْ , أَوْ ضَلَّتْ , فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ ; لِأَنَّهَا أَمَانَةٌ فِي يَدِهِ , فَلَمْ يَضْمَنْهَا إذَا لَمْ يُفَرِّطْ كَالْوَدِيعَةِ " انتهى . وينظر: "الإنصاف" للمرداوي (4/71) .
2- فإن أتلفها هو أو غيره ضمن المتسبب في التلف قيمتها أو بدلها .
قال ابن قدامة رحمه الله في "المغني" (9/352) :
" إذَا أَتْلَفَ الْأُضْحِيَّةَ الْوَاجِبَةَ , فَعَلَيْهِ قِيمَتُهَا ; لِأَنَّهَا مِنْ الْمُتَقَوِّمَاتِ , وَتُعْتَبَرُ الْقِيمَةُ يَوْمَ أَتْلَفَهَا " .

فإذا تبين ذلك : فلا يلزمك شيء ، لأنك لم تتلف الأضحية ، ولم تفرط في حفظها .
وأما ما ذبحته بعد ذلك بنية الأضحية ( الجدي ) فهو أمر طيب ، تؤجر عليه إن شاء الله ، ولم يكن يلزمك أن تذبح بدلها ، لكن ما دمت قد فعلت فهو تطوع , وزيادة خير منك ، إن شاء الله .

وليس في موت أضحيتك ما يدل على أن ذلك نوع من الحرمان ، أو العقاب الإلهي لك ، أو شيء من ذلك ، بل من يدري : لعله ابتلاء تؤجر عليه ، مع ما سبق من سعيك إلى عمل الخير، ثم تقدير الله لك أن تذبح أضحية أخرى بدل التي تلفت ، وهذا كله زيادة خير وبر لك إن شاء الله .
قال شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله :
" والْإِرَادَةُ الْجَازِمَةُ إذَا فَعَلَ مَعَهَا الْإِنْسَانُ مَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ كَانَ فِي الشَّرْعِ بِمَنْزِلَةِ الْفَاعِلِ التَّامِّ : لَهُ ثَوَابُ الْفَاعِلِ التَّامِّ وَعِقَابُ الْفَاعِلِ التَّامِّ الَّذِي فَعَلَ جَمِيعَ الْفِعْلِ الْمُرَادِ حَتَّى يُثَابَ وَيُعَاقَبَ عَلَى مَا هُوَ خَارِجٌ عَنْ مَحَلِّ قُدْرَتِهِ مِثْلَ الْمُشْتَرِكِينَ والمتعاونين عَلَى أَفْعَالِ الْبِرِّ " .
انتهى من "مجموع الفتاوى" (10 /722-723) وينظر أيضا : "مجموع الفتاوى" (23 /236) .

نسأل الله أن يتقبل منك ومن جميع المسلمين .
والله أعلم .

موقع الإسلام سؤال وجواب

_______________________
ترجمة :ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (9/353) میں کہتے ہیں:
"اگر اس کی قربانی کا جانور کسی سستی یا کوتاہی کے بغیر تلف ہو جاتا ہے، یا چوری ہو جائے یا گم ہو جائے تو اس پر کچھ نہیں؛
کیونکہ قربانی کا جانور اس کے پاس امانت تھا، تو چونکہ اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی تو وہ اس کا ضامن نہیں ہو گا، بالکل اسی طرح جیسے امانت میں ضامن نہیں ہوتا" انتہی
مزید کیلیے دیکھیں: "الانصاف" از مرداوی (4/71)

دوم:

اگر انسان خود قربانی کا جانور تلف کر دے یا کوئی اور کرے تو وہ تلف ہونے میں سبب بننے والا شخص اس کی قیمت یا متبادل جانور کا ضامن ہو گا۔
امام ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (9/352) میں کہتے ہیں:
"اگر واجب قربانی کا جانور تلف کر دیا تو اس پر اس کی قیمت ہو گی؛ کیونکہ جانور کی قیمت لگ سکتی ہے اور قیمت بھی اسی دن کے اعتبار سے لگے گی جس دن جانور کو تلف کیا گیا" انتہی

----------------------------
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی کام کے کرنے کا پختہ ارادہ رکھنے کے ساتھ انسان جب حسب استطاعت کوشش بھی کرے تو شریعت میں اسے مکمل طور پر کام سر انجام دینے والے کا درجہ دیا جاتا ہے، اسے مکمل طور پر کام کرنے والے کا ثواب ملتا ہے، اور [اگر کام عقوبت کے لائق ہو تو]اسے متعلقہ کام کرنے پر پوری سزا بھی ملتی ہے۔ یعنی اسے اس کام کی جزا یا سزا بھی ملتی ہے جو اس کی استطاعت میں نہیں تھا[لیکن اس نے حتی المقدور کرنے کی کوشش کی تھی] جیسے کہ نیکی کے کاموں میں شریک ہونے والوں کو جزا ملتی ہے" انتہی
ماخوذ از: "مجموع الفتاوی" (10 /722-723) اسی طرح یہ بھی دیکھیں: "مجموع الفتاوى" (23 /236)

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سمیت تمام مسلمانوں کی قربانی قبول فرمائے۔

واللہ اعلم.
الإسلام سؤال وجواب
https://islamqa.info/ar/178524
 
Top