• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی کا مسئلہ شکوک وشبہات بنام تحقیقات کا ازالہ

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
قربانی کا مسئلہ شکوک وشبہات بنام تحقیقات کا ازالہ

ایک چور کا اپنے سے بڑے چور سے سوال :

قرآني فیصلے میں اس بحث کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے طبقہ میں سے کوئی صاحب پرویز صاحب سے قربانی کی دینی حیثیت پوچھتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ کم از کم مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ ایسے محسوس کرتا ہے کہ اس سے قوم کا بہت سا روپیہ بے کار جاتا ہے. لیکن اس بات کو زبان پر نہیں لاتا. آج کل اقتصادی حالات سخت پیچیدہ ہیں. گھر گھر مہاجر پڑے ہیں. ایسا طبقہ قربانی دینے پر آمادہ نہیں. لیکن ساتھ ہی وہ اپنے آپ کو "چور" محسوس کرتے ہیں. میں خود بھی انہیں مجرموں میں سے ایک ہوں. اس لئے دریافت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ "قربانی کی دینی حیثیت کیا ہے" (قرآنی فیصلے ص١٥٢)

اس سوال سے آپ یہ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ "پڑھا لکھا طبقہ" سے مراد کون لوگ ہیں؟ اور اس پڑھے لکھے طبقہ کو دین کے فرائض و احکام سے جس طرح وابستگی ہوتی ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے. اب قربانی کا مسئلہ چونکہ صاحب حیثیت لوگوں سے متعلق ہے اور یہ پڑھا لکھا طبقہ بھی اکثر صاحب حیثیت ہی ہوتا ہے. لہٰذا مال کے ضیاع کا واسطہ دے کر اپنے سے بڑے چور اور دین کے واحد اجارہ دار سے اس قربانی سے فرار کی راہ دریافت کر رہا ہے تاکہ قربانی بھی نہ کرنی پڑے اور ان کے اسلام پر بھی کوئی حرف نہ آ سکے.

پرویز صاحب کا جواب:

پرویز صاحب اس پڑھے لکھے سائل کو مطمئن کرتے ہوئے فرماتے ہیں.
"یہ بالکل درست ہے کہ حضرت خلیل اکبر اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے تذکار جلیلہ کے ضمن میں قرآن نے یہ کہیں نہیں کہا کہ اس واقعہ عظیم کی یاد میں جانوروں کو ذبح کیا کرو. حتی کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ مینڈھا ذبح کرنے کا واقعہ بھی قرآن میں نہیں تورات میں ہے " (قرآنی فیصلے ص ٥٤).

اب دیکھیے اس دو تین سطر کے جواب میں جناب پرویز صاحب نے قرآن کی صریح وضاحت کے علی الرغم دو جھوٹ بولے ہیں. ارشاد باری ہے. وفدیناہ بذبح عظیم وترکنا علیہ فی الٓاخرین
(الصافات/۱۰۸۔۱۰۷)

ترجمہ:
اور ہم نے ایک بڑی قربانی کے عوض اسماعیل کو چھڑا لیا. اور اس واقع (ذبح عظیم) کو پیچھے آنے والوں میں (باقی) چھوڑ دیا.
: ترجمہ:
اور ہم نے ایک بڑی قربانی کے عوض اسماعیل کو چھڑا لیا. اور اس واقع (ذبح عظیم) کو پیچھے آنے والوں میں (باقی) چھوڑ دیا.

''الفدي والفداء ''کے معنی کسی کی جانب سے کچھ دے کر اسے مصیبت سے بچا لینا ہے. (مفردات امام راغب)
گویا اللہ تعالٰی نے ایک بڑی قربانی کا عوضانہ دے کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان بچا لی اب اگر اس "بڑی قربانی" (پرویز صاحب فرماتے ہیں کہ مینڈھے کے ذبح ہونے کا واقعہ تو اسرائیلی افسانوں میں سے ایک افسانہ ہے جس کی قرآن تائید نہیں کرتا) کی تفصیل یعنی "مینڈھا" کا لفظ قرآن میں نہیں بلکہ تورات میں ہو تو اس سے اصل واقعہ میں کیا فرق پڑتا ہے؟ پھر اس ذبح عظیم کے واقعہ یعنی سنت ابراہیمی کو آنے والی نسلوں میں باقی چھوڑنا بھی قرآن سے ثابت ہے یہ دوسرا جھوٹ ہے.
پھر اس کے بعد دوران حج اپنا خود ساختہ فلسفہ پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ : "مقام حج کے علاوہ کسی دوسری جگہ (یعنی اپنے اپنے شہروں میں) قربانی کے لیے کوئی حکم نہیں، تاریخ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قربانی نہیں کی. جب حج کے لئے تشریف لے گئے ہیں تو وہاں جا کر جانوروں کی قربانی کی ہے اور جب تشریف نہیں لے گئے تو اپنی طرف سے قربانی کے جانور امیر حجاج کے ہاتھوں وہاں بھیج دئیے. اس لیے یہ ساری دنیا میں اپنے اپنے طور پر قربانی کرنا ایک رسم ہے. اسی طرح حاجیوں کی وہ قربانیاں جو وہ آج کل کرتے ہیں. محض ایک رسم رہ گئی ہے. ایک ایک حاجی پانچ پانچ سات سات دنبے انفرادی طور پر ذبح کر دیتا ہے اور چونکہ اس قدر گوشت کا کچھ مصرف نہیں ہوتا. اس لئے ان ذبح شدہ جانوروں کو گڑھے کھود کر دبا دیتے ہیں.
(قرآنی فیصلے ص ٥٦)
: یہ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جب پرویز صاحب تاریخ کے حوالہ سے بات کریں تو تاریخ سے ان کی مراد عموماً احادیث اور روایات ہی ہوتی ہیں. اقتباس بالا میں آپ نے "تاریخ سے پتہ چلتا ہے" کا ذکر فرما کر اپنے لیے بہت سی الجھنیں پیدا کر لی ہیں جو یہ ہیں.
1.مقامی قربانی اور حج کی قربانی کے لیے الگ الگ لغت :
1.وہ قربانی جو حج کے دوران منی میں کی جاتی ہے. اس کے لیے ''هدى ''کا لفظ مخصوص ہے اور جو قربانی کوئی شخص حج کے علاوہ عید کے دن اپنے شہر میں کرتا ہے اس کے لیے ''أضحية ''(جمع اضاحي) کا" اب آپ صحاح ستہ کی جملہ کتب ملاحظہ فرما لیجیے. ان تمام کتابوں میں محدثین نے اضاحی کے لئے الگ کتاب (کتاب الأضاحي) مخصوص کی ہے. جس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر شخص کا اپنے اپنے شہر میں قربانی کرنا بھی ضروری ہے. صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ما هذه الأضاحي (يعنى يہ قربانیاں کیا ہیں؟) تو آپ نے فرمایا.
سنة أبيكم ابراهيم
یعنی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت.
(احمد. ابن ماجہ بحوالہ مشکوۃ، کتاب المناسک. باب فی الاضحیہ الفصل الثالث)

اور یہی مطلب ہے قرآن کی آیت (وتركنا عليه في الٓاخرين) کا
ترجمہ ۔اور ہم نے اس واقعہ (ذبح عظیم کو) آنے والی نسلوں میں (باقی) چھوڑا.
2.
مقامی قربانی کے دلائل:
آپ فرماتے ہیں "تاریخ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قربانی نہیں کی"
پرویز صاحب کے
اس اقتباس سے جہاں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے بھی اتنا بڑا جھوٹ منسوب فرما سکتے ہیں. وہاں آپ کی تاریخ دانی کا بھی پتہ چلتا ہے آپ وضاعین کو کوستے تو تھکتے نہیں اور اپنا یہ حال ہے کہ غیر شعوری طور پر اور بلا تکلف ایسے جرم کا ارتکاب کر جاتے ہیں. جس کی سزا جہنم ہے.
اب ہم یہ بتائیں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں قربانی کی تھی یا نہیں؟ اس سلسلہ میں ہم بخاری کتاب الاضاحی سے چند احادیث پیش کرتے ہیں.

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو چتکبرے سینگ دار مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے آپ اپنا پاؤں انکے پٹھے پر رکھتے اور اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے تھے
(بخاری، کتاب الاضاحی، باب :وضع القدم علی)
اس حدیث سے درج ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے :
(الف) یہ حدیث کتاب الاضاحی میں ہے. لہٰذا مدینہ میں مقامی قربانی سے تعلق رکھتی ہے. نیز ''یضحی ''کے الفاظ سے بھی یہ واضح ہوتا ہے.
(ب) ایک سے زیادہ قربانیاں کرنا بھی آپ کی سنت ہے.
(ج) یہ قربانیاں آپ ہر سال کیا کرتے تھے.
٢)
براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
"ہمارے آج کے دن (یعنی عید یوم النحر کے دن) پہلا کام جو ہم کرتے ہیں وہ نماز پڑھنا ہے پھر نماز سے لوٹ کر ہم قربانی کرتے ہیں.
اس حدیث میں جس قربانی کا ذکر ہے وہ مدینہ سے متعلق ہے کیونکہ حاجی اس دن عید کی نماز ہی نہیں پڑھتے. نیز یہ حدیث (کتاب الاضاحی باب سنۃ الاضحیہ )میں درج ہونے کی وجہ سے مقامی قربانی ہی قرار دی جا سکتی ہے.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا ہوں. (حوالہ. ایضاً، باب فی اضحیۃ النبی.........)
٤).
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ :
"ہم مدینہ میں قربانی کے گوشت کو نمک مرچ لگا کر رکھ دیا کرتے تھے پھر اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے تھے. " (بخاری بحوالہ ایضاً)

٥).
ابو امامہ بن سہل انصاری روایت کرتے ہیں کہ ہم مدینہ میں قربانی کو خوب کھلا پلا کر موٹا کرتے تھے. اور عام مسلمانوں کا بھی یہی طریقہ تھا." (بخاری بحوالہ ایضاً)
: اب بخاری کے علاوہ صحاح کی دوسری کتابوں سے بھی چند احادیث ملاحظہ فرما لیجیے.
٦)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم مدینہ میں دس سال رہے اور ہمیشہ قربانی کرتے رہے "(ترمذی معہ تحفہ الاحوذی ج ٢ص٢٥٩).
٧).
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا" قربانی کے دن اللہ تعالٰی کو انسان کے عملوں سے خون بہانے سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں ہے "(حوالہ ایضاً ص ٣٥٢).
٨).
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا." جو شخص استطاعت رکھتا ہو پھر قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ میں نہ آئے. " (ابن ماجہ اردو ص ٣٨١ مطبوعہ مکتبہ سعودیہ کراچی نمبر ١).

٣.ایک سے زیادہ جانوروں کی قربانی.

اس اقتباس میں ایک طرف تو آپ فرما رہے ہیں کہ" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے قربانی کے جانور امیر حجاج کے ہاتھوں مکہ بھیجے ہیں اور دوسری طرف یہ بھی فرما رہے ہیں کہ "حاجیوں کی قربانیاں جو وہ آج کل کرتے ہیں محض ایک رسم رہ گئی ہے. ایک ایک حاجی پانچ پانچ سات سات دنبے انفرادی طور پر ذبح کر دیتا ہے" (ایضاً ص ٥٦).
اب ہم تو یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانور (جمع کا صیغہ) مکہ بھیجیں اور ان کی اتباع میں کوئی حاجی پانچ سات دنبے (اگرچہ اس میں مبالغہ آرائی شامل ہے) قربانی کرے تو یہ تو سنت کا اتباع ہوا رسم کیسے بن گئی؟
ـــــــــــــــــ

مالی ضیاع کی فکر :

پڑھے لکھے طبقہ. یعنی ماڈرن مسلمان کو جو ہر شرعی عمل کو مادیت پرستی کی آنکھ سے دیکھنے کا عادی ہے کو قربانی کے سلسلہ میں مال کے ضیاع کا جو درد اٹھا ہے اس درد میں پرویز صاحب ان کے شریک ہی نہیں بلکہ زیادہ درد مند ہیں. چنانچہ وہ صرف کراچی شہر کا حساب لگا کر بتاتے ہیں کہ صرف کراچی شہر میں پندرہ لاکھ روپیہ اس قربانی کی نذر ہو جاتا ہے. تو پورے پاکستان کا خود حساب لگا لیجیے. (ایضاً ص ٥٦).
بجا فرمایا آپ نے. اب جو ان سے بھی زیادہ پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ دن میں جب پانچ نمازیں فرض ہیں اور ہر نماز باجماعت پر اوسطاً آدھ گھنٹہ صرف ہو تو ایک آدمی کے اوقات کار میں سے روزانہ اڑھائی گھنٹے ضائع ہو جاتے ہیں. اور وقت ہی اصل دولت ہے اب اگر پوری قوم کے وقتی ضیاع کا حساب لگایا جائے اور ملکی معیشت پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا جائے تو بات کہاں تک جا پہنچتی ہے.
اس پڑھے لکھے طبقہ کو بھولے سے یہ خیال نہ آئے گا کہ پکچرز پر قوم کا روپیہ کس قدر ضائع ہو رہا ہے مزید بر آں اس کے اخلاق کیسے بگڑ رہے ہیں وجہ یہ ہے کہ پکچرز دیکھنا اس طبقے کا اپنا پسندیدہ شغل ہے. اس مہذب طبقہ کو اگر مالی ضیاع کا درد اٹھتا ہے تو قربانی پر جس سے غریب طبقہ کو عید کی خوشی میں شریک ہونے کا موقع مل جاتا ہے.

قربانی کا فلسفہ :

پرویز صاحب کے نزدیک قربانی صرف حاجی پر فرض ہے اور اس کی غرض و غایت یہ ہے کہ جملہ مسلمان جب مکہ اکٹھے ہوں تو اس بے آب و گیاہ وادی میں ایک وقت پاکستان والے باقی ممالک کی اس قربانی کے گوشت سے ضیافت کریں گے دوسرے وقت ایران والے اور تیسرے وقت شام والے پھر اس گوشت کی ضیافت میں دوسرے لوگوں کو بھی شامل کر لیا جائے گا. امیروں کو بھی اور غریبوں کو بھی. ص(٥٤)

چلیے یوں ہی سہی مگر سوال یہ ہے کہ :
(١). اس طرح قربانی کے تین دنوں میں کوئی پانچ سات ممالک تو اس کار خیر میں حصہ لے سکیں گے باقی کے چالیس مسلم ممالک کو قربانی سے چھٹی مل جائے گی جب کہ قربانی ہر حاجی پر واجب ہے؟
٢). ہر حاجی کم از کم ایک قربانی تو ضرور کرتا ہے پھر کچھ زیادہ بھی کرتے ہیں پھر کچھ غیر حاجی اور غیر موجود لوگ بھی وہاں قربانی کے جانور بھیج دیتے ہیں. جیسے آپ نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ قربانی کے جانور امیر حجاج کے ہاتھوں مکہ روانہ فرمایا کرتے تھے. جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جتنے حاجی ہوتے ہیں کم از کم ان کی تعداد سے دو گنا جانور ضرور ذبح کئے جاتے ہیں. اور آج بھی یہ بات مشاہدہ کی جا سکتی ہے کہ مکہ میں رہنے والوں یا مذبح میں اس موقعہ پر موجود لوگوں کی تعداد حاجیوں کے مقابلہ میں دسواں حصہ بھی نہیں ہوتی. اب آپ خود ہی بتا دیجیے کہ قربانی کے گوشت کے ضیاع کا مناسب حل کیا ہو سکتا ہے؟
پھر یہ گوشت کے ضیاع کا مسئلہ بھی وہاں مکہ میں ہی پیدا ہوتا ہے. جسے آپ بھی ضروری سمجھتے ہیں. رہا دوسرے شہروں کا معاملہ تو وہاں قربانی کا گوشت قطعاً ضائع نہیں ہوتا. وہ سب کا سب امیر یا غریب انسانوں کی خوراک ہی بنتا ہے. غالباً پرویز صاحب نے بلدیہ والوں کو کہیں اوجھر اٹھاتے دیکھ لیا ہوگا (جسے لوگ ان ایام میں باہر پھینک دیتے ہیں) اور آپ نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ اُف کس قدر گوشت ضائع ہو رہا ہے.
قربانی سے متعلق پرویز صاحب کی "قرآنی بصیرت" پڑھ کر ایک اور صاحب نے اس اجمال کی تفصیل پوچھی تو آپ نے فرمایا.
"اجمال ہو یا تفصیل بات تو صرف اتنی ہے کہ یہ جو بقر عید کے موقعہ پر ہم ہر شہر اور ہر قریہ اور ہر گلی اور ہر کوچہ میں بکرے اور گائیں ذبح کرتے ہیں. یہ قرآن کے کس حکم کی تعمیل ہے. "(ص٥٧)
اب دیکھئے قرآن میں اس کے حکم پر ضمناً بحث پہلے آ چکی، کچھ بعد میں آئے گی سردست قابل غور یہ بات ہے کہ اگر یہ رسم متوارث ہے. (آگے چل کر ص ٧٠ پر لکھتے ہیں کہ یہ چیزیں (یعنی قربانی وغیرہ) ہزار برس سے امت میں متواتر چلی آ رہی ہے) . یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کا بانی کون تھا اور یہ تحریک کیسے پروان چڑھی.

تو پرویز صاحب کو یہ تو سراغ لگانا چاہیے تھا کہ یہ رسم کس دور میں شروع ہوئی اور کس شخص نے ابتداء کی تھی؟

پھر اس کی تفصیلات میں آپ نے بہت سے موضوعات کو چھیڑ کر خلط مبحث کر دیا. اور بہت سی باتوں کا رونا رویا ہے. کہیں تقلید پرستی کا ذکر ہے. کہیں ہندوانہ فلسفہ کا کہیں عجمی سازشوں کا، ملوکیت کا، پیشوائیت کا، تصوف کا، اور کہیں دین اور مذہب کا، گویا یہ سب عوامل ہیں. جنہوں نے قربانی اور ایسی ہی دوسری چیزوں کو متوارث رسوم بنا دیا ہے. البتہ ص ٦٢ پر اس موضوع سے متعلق بات کو پھر سے دہرایا ہے اور فرماتے ہیں.
"سارے قرآن میں ایک جگہ بھی نہیں کہ مکہ کے علاوہ کسی اور جگہ قربانی دی جائے گی (قربانی کا لفظ بھی قرآنی نہیں.) "(ایضاً ص ٦٣)

قربانی کا لفظ قرآن میں :

اب دیکھئے جس لفظ کو ہم اپنی زبان میں قربانی کہتے ہیں. اسی لفظ کو عربی زبان میں" قربان" کہتے ہیں. مفہوم دونوں کا ایک ہے. اور یہ لفظ قرآن میں کئی بار آیا ہے. اب اگر پرویز صاحب کو اپنی بات کی پچ میں یہ لفظ نظر ہی نہیں آئے تو اس کا کیا علاج ہے. چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے.

"اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں کی خبر پڑھ کر سناؤ ان دونوں نے اللہ کے ہاں قربانی پیش کی. ان میں سے ایک کی قربانی تو قبول ہو گئی مگر دوسرے کی نہ ہوئی. " (المائدہ /٢٧)

اس آیت سے مندرجہ ذیل باتوں کا پتہ چلتا ہے :
(1) قربانی یا قربان کا لفظ قرآن میں موجود ہے. اور اللہ کے حضور قربانی پیش کرنے کا عمل حضرت آدم کے بیٹوں سے آج تک متوارث چلا آ رہا ہے. اور یہ قربانی کا عمل اس وقت بھی اسی طرح مشروع و معروف تھا. ورنہ اس کے قبول اور عدم قبول کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
(2) حضرت آدم علیہ السلام ایک مخصوص فردِ واحد تھے. جب کہ اس بات سے پرویز صاحب نے قصہ آدم و ابلیس میں انکار کیا ہے.
(3) وہ قربانی کھائی نہیں جاتی. (ورنہ ہر حال میں مقبول متصور ہوتی) اس کے باوجود اس مالی ضیاع کو مقبول سمجھا جاتا تھا.
(4) یہ قربانی حج کے موسم اور مقام پر بھی نہ ہوتی تھی. دوسرے مقام پر ہے:

"جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہم سے عہد کیا ہے کہ ہم اس وقت تک کسی بھی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر نہ آئے جس کو آگ آ کر کھا جائے اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ مجھ سے پہلے کئی پیغمبر تمہارے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے اور وہ نشانی بھی جو تم کہہ رہے ہو. پھر اگر تم سچے ہو تو ایسے رسولوں کو قتل کیوں کرتے ہو. "
(آل عمران ٣/ ١٨٣)
اس آیت سے درج ذیل باتیں سامنے آتی ہیں :
(1)٠ مسلمانوں سے پہلے سابقہ امتوں میں بھی قربانی کا دستور تھا. اور یہ قربانی یا قربان کا لفظ قرآن میں موجود ہے.
(2)٠ قربانی کا حکم اللہ تعالٰی کی طرف سے تھا اور اسے انبیاء علیہم السلام بھی بجا لاتے تھے اور ان کی امت بھی.
(3)٠ اس قربانی کی مقبولیت کی علامت یہ ہے کہ آسمانوں سے آگ آتی اور اسے کھا جاتی ہے. گویا اس طرح کا مالی ضیاع اللہ تعالٰی کے ہاں بڑا پسندیدہ عمل تھا.
(4)٠ اور یہ بات سابقہ امتوں میں اتنی معروف و مشہور تھی کہ وہ نئے مبعوث انبیاء سے بطور تصدیق ایسی "مقبول قربانی" کا مطالبہ کرتے تھے گویا اسی طرح کی مقبول نشانی جسے آگ کھا جائے انبیاء کی شناخت کا معروف ذریعہ علامت تھی.
اب دیکھئے قربانی کے گوشت کو خود کھانے اور دوسروں کو کھلانے کی رعایت بھی صرف امت محمدیہ کو ملی ہے. ورنہ پہلے تمام تر قربانی "مالی ضیاع" ہی ہوتا تھا. اب پرویز صاحب کا فلسفہ قربانی ملاحظہ فرمائیے. ان کے خیال میں مکہ میں بھی اتنی ہی قربانی مناسب ہے جو ضیافتوں کی صورت میں انسانی خوراک بن سکے اور جو قربانی خوامخواہ بچ جائے تو اس کو پرویز صاحب اور پڑھا لکھا طبقہ مالی ضیاع کا نام دیتے ہیں اور قوم کے درد میں ان کے سینہ میں ہوک سی اٹھنے لگتی ہے. اب خود ملاحظہ فرمائیے کہ شریعت کے پیش کردہ فلسفہ قربانی اور ان حضرات کے پیش کردہ فلسفہ قربانی میں کتنا فرق ہے.

لفظ نحر کے لغوی تحقیق :

ایک تیسرے مستفسر نے قربانی کے وجوب کی دلیل (فصل لربک وانحر) سے پیش فرمائی. تو پرویز صاحب نحر کی لغوی تحقیق پیش کرتے ہوئے. اس لفظ کے معنی چھاتی کے اوپر کا مقام، سینہ پر ہاتھ باندھنا، نماز میں ہاتھ پر ہاتھ باندھنا اور آخر میں اس کے معنی اونٹ ذبح کرنا بتاتے ہیں.
پرویز صاحب کی یہ تحقیق بھی ناقص اور نامکمل ہے. امام راغب نے نحر البعير کے معنی اونٹ کے سینہ پر برچھا مار کر اسے ذبح کرنا لکھا ہے. نہ کہ محض نحر کے معنی اونٹ ذبح کرنا. گویا نحر سے مراد صرف ذبح یا قربانی کرنا ہے. اور صاحب منجد کے نزدیک نحر کے معنی گلے میں چوٹ لگانا ہے. ذبح کرنا انتحر بمعنی خود کشی کرنا. المنحر گلے میں زخم لگانے کی جگہ اور النّحیر کے معنی ذبح کیا ہوا جانور ہے. گویا نحر کے معنی اونٹ ذبح کرنا نہیں. بلکہ محض ذبح کرنا یا قربانی کرنا ہے.
پھر فرمایا اب تمام مختلف معانی میں سےاگر نحر کے معنی اونٹ ذبح کرنا ہی لیے جائیں. تو پھر اس سے (١) قربانی کرنا اور وہ بھی (٢) ہر گلی کوچہ میں قربانی کرنا کس طرح ثابت ہو سکتا ہے؟ (فصل لربک وانحر) میں صل (نماز پڑھ) اور انحر (اونٹ ذبح کرنے) کا حکم مطلق (عام) ہے. اسے مقید (خاص) کر کے صل سے مراد "عید کی نماز" اور ''وانحر ''سے مراد اونٹ کی قربانی کس اصول کے تحت کی جا سکتی ہے؟ (ایضاً ص ٧٣).
: معلوم ہوتا ہے اس مقام پر پرویز صاحب کچھ بوکھلا سے گئے ہیں. ہم تو ثابت ہی یہ کر رہے ہیں. کہ ''وانحر ''سے مراد محض قربانی کرنا ہے اونٹ قربانی کرنا نہیں. اور ''صل ''سے مراد محض نماز پڑھنا ہے "عید کی نماز پڑھنا نہیں پھر جس طرح ''صل ''کا لفظ عام ہے اور نماز ہر جگہ اپنے وقتوں پر پڑھی جاتی ہے. اسی طرح قربانی کا حکم بھی عام ہے اور یہ ہر جگہ ہونی چاہیئے. اپنے وقت پر (یعنی قربانی کے دن بھی) اور اس سے آگے پیچھے بھی. یہی کچھ تو ہم کہتے ہیں پھر اور کیسے اصول کا آپ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں؟ اور ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ جب یہ نماز اور قربانی کا حکم عام ہے تو آپ اس سے عید کی نماز اور اس دن کی قربانی کو خارج کیسے کر سکتے ہیں؟ خواہ یہ کسی بھی مقام پر ہوں؟
''فصل لربک وانحر'' آیت میں بھی عمومیت پائی جاتی ہےور اسی طرح درج ذیل آیت میں بھی.
ترجمہ :

اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ اللہ رب العالمین کے لئے ہے.
(الأنعام ١٦٢/٦)

سورہ کوثر اور اونٹ :

آخر میں پرویز صاحب نے سورہ کوثر کی لاجواب تفسیر فرمائی. اس تفسیر کا مرکزی خیال "اونٹ" ہے اور اس کے نکات درج ذیل ہیں.
1. یہ سورہ ہجرت سے پہلے ہی نازل ہوئی جب کہ مشرکین مکہ نے آپ پر قافیہ زیست تنگ کر رکھا تھا.
2. اس سورہ میں اللہ تعالٰی نے آپ کو خیر کثیر کی بشارت بھی دی اور یہ بھی بتا دیا آپ کا دشمن ہی غائب و خاسر رہے گا.
3. اس سورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹ کی قربانی کا حکم دیا گیا. وجہ یہ تھی کہ آپ ہجرت کر کے مدینہ جا رہے تھے. وہاں یہود آباد تھے. اور ان پر اونٹ حرام تھا. ان کے ساتھ سمجھوتہ کی صورت میں ان کے جذبات کا احترام ضروری تھا. لیکن قرآن نے پہلے ہی کہ دیا کہ ان سے سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا. ان کے علی الرغم اونٹوں کو ذبح کیا جائے گا. یعنی وہاں بھی غلبہ تمہارا ہی رہے گا. (قرآنی فیصلے ص ٧٤ ملخصا)
اب دیکھئے کہ :
(١)٠ اگر نحر کے معنی اونٹ کی قربانی کی بجائے صرف قربانی لیے جائیں (جیسا کہ میں نے مفردات اور منجد کے حوالے پیش کر چکا ہوں) تو اس تفسیر کی عمارت از خود دھڑام سے نیچے گر جائے گی.
(٢)٠ آپ فرما رہے ہیں کہ یہود سے سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا. حالانکہ آپنے مدینہ جاتے ہی ان سے سمجھوتہ کیا جو کہ میثاق مدینہ کے نام سے مشہور و معروف ہے. البتہ اس میثاق میں اونٹ، اس کی قربانی اور یہودیوں کے جذبات وغیرہ کا کہیں ذکر نہیں ملتا
(٣)٠ پھر اس تفسیر کے نتیجہ کے طور پر چند نکات پیش فرمائے ہیں. ان میں سے ہم صرف نہی کا جواب دیں گے جن کا جواب پہلے نہیں آیا.
(١)٠ آپ فرماتے ہیں "عام روایات کے مطابق سورہ کوثر مکہ میں نازل ہوئی تھی اور اس وقت نہ عید و بقر عید کی نماز تھی(حتی کہ جمعہ کی نماز بھی نہیں) اور نہ ہی قربانی کا کوئی سوال تھا"
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم نحر کے معنی صرف قربانی کرنا قرار دے رہے ہیں. اس میں نہ اونٹ کی قربانی کی قید ہے نہ بقر عید کے دن کی قربانی کی. یعنی قربانی کسی بھی جانور کی دی جا سکتی ہے. اور کسی وقت بھی دی جا سکتی ہے. پھر جب یہ حکم اتنا عام ہے تو اس سے بقر عید کے دن کی قربانی کو خارج بھی کیسے کیا جا سکتا ہے؟
٢)٠
اگر وانحر سے مراد "قربانی" ہے تو اس حکم کے مطابق قربانی اونٹ کی دی جانی چاہیئے نہ کہ بھیڑ بکری اور گائے بیل کی. نحر کا لفظ اونٹ ذبح کرنے کے لیے خاص ہے اور جانوروں کو ذبح کرنے کے لیے یہ لفظ نہیں بولا جاتا. "(ایضاً ص٧٦)

جواب : نحر کا لفظ اونٹ کی قربانی کے لیے خاص نہیں ہے. اور یہ لفظ اور جانوروں کے لئے بھی بولا جاتا ہے. جیسا کہ منجد کے حوالہ سے واضح کیا جا چکا ہے. علاوہ ازیں دوسرے جانوروں کی قربانی کے سلسلہ میں درج ذیل آیت بھی وضاحت کر رہی ہے.
ترجمہ:

اور ہم نے ہر ایک امت کے لیے قربانی کا طریقہ مقرر کیا تاکہ جو مویشی چارپائے اللہ نے ان کو دیئے ہیں. (ان کے ذبح کرنے کے وقت) ان پر اللہ کا نام لیں.
(الحج ٣٤/٢٢)
بہیمۃ الانعام میں بھیڑ، بکری، مینڈھا، گائے، بیل اونٹ وغیرہ نر مادہ سب شامل ہیں. لہذا ان سب جانوروں کی قربانی جائز ہوئی. اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان جانوروں کی قربانی سابقہ امتوں پر بھی واجب تھی.

٣. اپنے دعوی کی خود تردید:

آپ فرماتے ہیں کہ "مدینہ میں یہودیوں کی خواہش کے علم الرغم اونٹوں کو ذبح کیا جائے گا. اور غلبہ تمہارا ہی رہے گا. گویا یہ دونوں کام مدینہ میں ہوئے. پھر جب آپ خود ہی مدینہ میں اونٹ کی قربانی تسلیم فرما رہے ہیں. تو معلوم ہوا کہ مکہ کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی قربانی اللہ کی منشاء کے مطابق ہوتی رہی ہے اور ہو سکتی ہے. اور یہی کچھ ہم کہتے ہیں.

 
Top