• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی کے چار دن کتاب وسنت کی روشنی میں

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
سب سے پہلے لغوی اعتبار سے ایام تشریق کا مفہوم دیکھتے ہیں۔

(1) چنانچہ علامہ ابن حجر فتح الباری(4؍242) میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں
"وسميت أيام التشريق لأ لحوم الاضاحى تشرق فيها أي تنشر فى الشمس وقيل لأن الهدى لاينحر حتى تشرق الشمس"
''ان تینوں دنوں (11،12،13)کو ایام تشریق اس لیے کہا جاتاہے کہ ان دنوں میں قربانی کے گوشت کودھوپ میں سوکھنے کےلیے پھیلایا جاتا ہے نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ چونکہ قربانی کے جانور سورج چمکنے سےپہلے ذبح نہیں کئے جاتے۔

(2)مولانا انعام اللّٰہ صاحب قاسمی لکھتے ہیں:
''اس قول 'یعنی وجہ تسمیہ' کے بموجب ایامِ تشریق کا اطلاق جتنے دنوں پر بھی ہو گا اس کا تعلق ذبیحہ اور قربانی سے ہو گا۔ کیونکہ کوئی ایسا دن جس میں قربانی جائز نہ ہو تشریق کا دن نہیں کہا جا سکتا لہٰذا جب یوم النحر کے بعد تین دنوں کو باجماعِ اُمت تشریق کہا گیا ہے تو قربانی بھی یوم النحر کے بعد تین دنوں تک جائز ہو گی۔(ایام قربانی: ص 22)

چاردن قربانی کےدلائل قرآن کریم سے:

اللہ تعالى نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ : 203)
اور (ایام تشریق کے) معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔
نیز فرمایا :
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ( الحج : 28)
اور وہ ایام تشریق کےمعلوم دنوں میں اللہ کے دیے ہوئے مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں ۔
یعنی ایام معلومات اور ایام معدودات جو کہ باتفاق امت ایام تشریق ہی ہیں اور جن میں جلدی کے بارہ میں اللہ تعالى فرماتے ہیں وہ دو دن ہیں اور تیسرا دن بھی انہیں میں شامل ہے ‘ ان دنوں میں قربانی کے جانوروں پر اللہ کا نام لے کر ذبح ونحر کریں اور خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں ۔
اور ایام تشریق ذوالحجہ کی گیارہ اور بارہ اور تیرہ اور ذوالحجہ کی دس تاریخ کو یوم نحر کہا جاتا ہے۔
الغرض چار دن قربانی کرنا کتاب اللہ سے بھی ثابت ہے.

احادیث صحیحہ سے دلائل:

(1) أن نافع بن جبير بن مطعم رضي الله عنه أخبره، عن رجل من أصحاب النبي ﷺ قد سماه نافع فنسيته، أن النبي ﷺ قال لرجل من غفار: «قُم فأذّن أنه لا يدخل الجنة إلا مؤمن، وأنها أيام أكل وشرب أيام مني» زاد سليمان بن موسى وذبح، يقول: أيام ذبح ابن جريج يقوله. (السنن الکبرٰی للبیہقی: 9؍296)
''ایک صحابی سے مروی ہے کہ اللّٰہ کے نبی ﷺ نے ایک غفاری صحابی سے کہا کہ تم کھڑےہو اور اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مؤمن ہی جائیں گے اور ایام منیٰ (ایام تشریق) کھانے پینے کے دن ہیں۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ ان کے اُستاذ سلیمان بن موسیٰ نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے ذبح کے لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی وہ یہ بھی روایت کرتے تھے کہ یہ ذبح کے دن ہیں۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔(سلسلہ احادیث الصحیحہ: 5؍ 621، رقم: 2476)

(2) امام ابن حبان(م 354ھ) سیدنا جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں :
قال رسول الله ﷺ: «كل عرفات موقف، وارفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، فكل فجاج من منحر، وفي كل أيام التشريق ذبح۔ (صحیح ابن حبان: 9؍ 166، رقم 3854 )
'' اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادئ محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔''

(3) عن سعید بن المسیب ، مرة عن أبي سعيد ومرة عن أبي هريرة رضي الله عنهما عن النبي ﷺ «أيام التشريق كلها ذبح۔( السنن الکبری للبیہقی: 9؍ 296)
''دو صحابہ ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ اللّٰہ کے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں۔''

یہ حدیث بھی بالکل صحیح اور اس کی سند بھی متصل ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی نے اسے حسن قراردیا ہے۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ: 5؍621

صحابہ کرام سے ثبوت:

(1) مفسر قرآن عبد اللّٰہ بن عباس :
''عبد اللّٰہ بن عباس نے کہا کہ قربانی یوم النحر (10 ذوالحجہ) کے بعد تین دن(11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (یعنی یوم النحر عید کے دن کو لے کر کل چار دن قربانی کے ہیں . (السنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296)

اس کی سند ضعیف ہے لیکن اسی مفہوم کی بات ابن عباس سے متعدد سندوں سے منقول ہے جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے

(2) خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب:
''امام ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528)نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291)۔

(3) صحابی رسول جبیر بن مطعم:
''امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک قربانی کے آخری وقت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ یوم الاضحیٰ اور اس کے بعد تشریق کے تینوں دنوں میں قربانی جائز ہے اور یہی بات علی بن ابی طالب ، جبیر بن مطعم اور عبد اللّٰہ بن عباس نے بھی کہی ہے۔''(شرح مسلم: 13؍ 111)

(4) صحابی رسول اللّٰہ عبد اللّٰہ بن عمر:
''عبد اللّٰہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایام معلومات (قربانی کے معلوم دن) یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں اور یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر اور ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،: دار طیبہ)

تابعین سے ثبوت:

(1) امام اہل مکہ عطا بن رباح رحمۃ اللہ علیہ:
امام طحاوی فرماتے ہیں:
. ''امام حسن اور امام عطا نے کہا ہے کہ قربانی ایام تشرق کے آخری دن تک یعنی عیدسے لے کر چار دن تک ہے۔''
(احکام القرآن للطحاوی: 2؍ 206؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 299)

(2) امام اہل بصرہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ :
امام ابو عبد اللّٰہ المحاملی(م 330ھ) نے کہا:
''حسن بصری رحمہ اللہ کہتے تھے کہ تشریق کے تمام دنوں میں یعنی عید الاضحیٰ سمیت چار دنوں: 10، 11،، 12، 13 میں قربانی کی جائے۔''
(امالی المحاملی روایۃ ابن یحییٰ البیع: ص 89؛ سنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296من طریق حماد واسنادہ صحیح)

(3) امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ :
امام بیہقی (م 458ھ) فرماتے ہیں:
''خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے کہ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے (یعنی کل چار دن قربانی ہے)۔''(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 297 اسنادہ صحیح)

اس کے علاوہ درج ذیل تابعین سے بھی اہل علم نے چار دن قربانی کا قول نقل کیا ہے:
امام زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، اوزاعی اور سلیمان بن موسیٰ رحمہم اللہ
(التمہید لابن عبد البر: 23؍ 196؛ شرح النووی علی مسلم: 13؍ 111؛ زاد المعاد لابن القیم: 2؍ 319؛ المحلیٰ لابن حزم: 7؍ 378؛ تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،دارِ طیبہ)

چار دن قربانی اور ائمہ اربعہ:

(1)امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
بعض نے امام ابو حنیفہ کی طرف تین دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے۔ مگر واقعۃً امام ابو حنیفہ کے نزدیک قربانی کتنے دن تھی، اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ سے صحیح سند سے کوئی قول ہمیں نہیں ملا۔

(2)امام شافعی رحمہ اللہ
امام شافعی(م 204ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
'جب تشریق کے آخری دن یعنی 13؍ ذو الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد کوئی قربانی کرے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔''(الام للشافعی: 2؍ 244)

(3)امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
آپ کی طرف تین دن اور چار دن دونوں طرح کے اقوال منسوب ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ(م 774ھ) نے کہا:
''عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13 ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر ، ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی یہی مذہب ہے۔''
(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416؛ الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف للمرداوی: 4؍ 87)

(4)امام مالک رحمہ اللہ
آپ نے تین دن قربانی والا موقف اپنایا ہے لیکن اس سلسلے میں آپ نے کوئی حدیث پیش نہیں کی ہے، غالباً موطا میں آپ نے ابن عمر کے قول کی بنیاد پر یہ موقف اپنایا ہے۔لیکن خود ابن عمر کی طرف چار دن قربانی والا قول بھی منسوب ہے جیسا کہ ماقبل میں ابن کثیر کے حوالہ سے گذر چکا۔

چار دن قربانی سے متعلق اقوالِ محدثین ومحققین

1. امام ابن المنذر(م 319ھ) نے کہا:
''قربانی کا وقت عید کا دن اور اس کے بعد تشریق کے تین دن ہیں۔''( الاقناع لابن المنذر: ص 376)

2. امام بیہقی(م 458ھ) نے کہا:
''سلیمان بن موسیٰ (چار دن قربانی) والی حدیث زیادہ مناسب ہے کہ اس کے مطابق موقف اپنایا جائے۔''(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 298)

3. امام ابو الحسن الواحدی(م 468ھ)نے کہا :
''قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔''(تفسیر الوسیط للواحدی: 3؍ 268)

4. امام نووی(م676ھ) نے کہا:
''قربانی کا وقت تشریق کے آخر دن سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گا۔''(روضۃ الطالبین للنووی: 2؍468)

5. شیخ الاسلام ابن تیمیہ(م 728ھ) نے کہا:
''قربانی کا آخری وقت تشریق کا آخری دن ہے۔''(فتاویٰ الکبیر لابن تیمیہ: 5؍ 384)

6. امام ابن قیم(م751ھ) نے کہا:
''اور سیدنا علی نے کہا: قربانی کے دن: عید کا دن اور اس کے بعد تین دن ہیں اور اہل بصرہ کے امام حسن بصری اور اہل مکہ کے امام عطا بن ابی رباح اور اہل شام کے امام اوزاعی کا یہی موقف ہے اور یہی فقہائے اہل الحدیث کے امام شافعی کا موقف ہے اور اسے ہی امام ابن المنذر نے اختیار کیا ہے اور پورے ایام تشریق یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز)۔ جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پائی جاتی ہے اور نہ ہی اجماعِ اُمت، بلکہ اس کے برعکس نبی ﷺ سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے۔''( زاد المعاد: 2؍ 319)

7. امام ابن کثیر(م 774ھ) نے کہا:
''اور اس سلسلے میں راجح امام شافعی کا مذہب ہے اور وہ یہ کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔''( تفسیر ابن کثیر:1؍ 561)

8. امام شوکانی(1250ھ) نے کہا:
''چار دن قربانی والا موقف راجح ہے کیونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث ایک دوسرے سے مل کر قوی ہو جاتی ہیں۔''( نیل الاوطار:5؍149)

خلاصۂ بحث

قرآنی آ یات، احادیثِ صحیحہ اور جمہور سلف صالحین سے اسی بات کا ثبوت ملتا ہے کہ قربانی کے کل چار دن ہیں۔ جماعت اہل حدیث کا یہی متفقہ موقف ہے۔ علماے ہند کے علاوہ پاکستان وعرب کے معاصر کبار اہل علم نے بھی اسی موقف کی صراحت کی ہے۔مجلس کبار علما ، سعودی عرب کا بھی یہی فتویٰ ہے۔

ربّ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے، حق بات سننے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین!
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
قربانی عبادت ہے اور عبادت کے سارے اعمال توقیفی ہوتے ہیں ۔ انہیں من وعن ویسے ہی انجام دیا جائے گاجیسے شرع سے ثابت ہے ۔ صحیح قول کی روشنی میں قربانی سنت مؤکدہ ہے جسے طاقت ہے وہ قربانی کرے اور جو طاقت نہیں رکھتا وہ قربانی نہ کرے لیکن جو قربانی کی طاقت رکھے اور قربانی نہ کرے اس کے لئے سخت وعید ہے ۔
اس مختصر سے مضمون میں قربانی کے ایام پہ کتاب وسنت کی روشنی میں بحث کی جائے گی اور یہ دیکھا جائے کہ قربانی کے ایام تین دن ہیں یا چار دن ؟
قربانی کہتے ہیں :
"هي ما يذبح من النعم تقرّباً إلى الله تعالى من يوم العيد إلى آخر أيّام التشريق "( مغني المحتاج :6/122 ، الإقناع :2/277 )
ترجمہ: نعم (مخصوص جانوروں ) میں سےجسے اللہ تعالی کے تقرب کی خاطرعیدکےدن سےلیکرایّام تشریق کے آخرتک ذبح کیا جائے وہ قربانی ہے ۔
قربانی کے ایام میں "ایام تشریق " کی بڑی اہمیت ہے ، ایام تشریق کامفہوم اور اس کی تعیین سے قربانی کے ایام جاننا بہت آسان ہوجائے گا۔
گوکہ ایام تشریق بعض اہل علم کے نزدیک چار دن ہیں مگر راحج تین دن یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ ہیں۔ تشریق کا معنی روشن ہونا اور چمکناہے ۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ عرب والے حج کرتے وقت ایام تشریق یعنی گیارہ ، بارہ اور تیرہ کو قربانیوں کا گوشت کاٹ کاٹ کر منی کی پہاڑیوں پر سوکھنے کے لئے رکھ دیتے جب اس پہ سورج کی شعاع پڑتی تو گوشت چمک اٹھتا اس وجہ سے انہیں ایام تشریق کہاجانے لگا۔

ایام تشریق کے تین دن
٭ایام تشریق کا پہلا دن یوم القر(ٹھہرنے کا دن)کہاجاتاہے کیونکہ اس دن حجاج منی میں ٹھہرتے اوررات گذارتے ہیں۔
٭ایام تشریق کا دوسرادن یوم النفرالاول(نکلنے کا پہلادن) کہلاتا ہے ، اس دن حاجی کو رمی جمرات کے بعدغروب شمس سے پہلے تعجیل کرنے کی اجازت ہے ۔
٭ایام تشریق کا تیسرا دن یوم النفرالثانی(منی سے نکلنے کادوسرادن) کہلاتا ہے ، یہ حاجیوں کے لئے رمی جمرات کا آخری دن ہے ، رمی کے بعد منی چھوڑدیتے ہیں۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ ایام تشریق کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وسميت أيام التشريق لأ لحوم الاضاحى تشرق فيها أي تنشر فى الشمس وقيل لأن الهدى لاينحر حتى تشرق الشمس"( فتح الباری:4؍242)
ترجمہ:ان تینوں دنوں (11،12،13)کو ایام تشریق اس لیے کہا جاتاہے کہ ان دنوں میں قربانی کے گوشت کودھوپ میں سوکھنے کےلیے پھیلایا جاتا ہے نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ چونکہ قربانی کے جانور سورج چمکنے سےپہلے ذبح نہیں کئے جاتے۔
مولانا انعام اللّٰہ صاحب قاسمی لکھتے ہیں:
''اس قول 'یعنی وجہ تسمیہ' کے بموجب ایامِ تشریق کا اطلاق جتنے دنوں پر بھی ہو گا اس کا تعلق ذبیحہ اور قربانی سے ہو گا۔ کیونکہ کوئی ایسا دن جس میں قربانی جائز نہ ہو تشریق کا دن نہیں کہا جا سکتا لہٰذا جب یوم النحر کے بعد تین دنوں کو باجماعِ اُمت تشریق کہا گیا ہے تو قربانی بھی یوم النحر کے بعد تین دنوں تک جائز ہو گی۔(ایام قربانی: ص 22)
ایام تشریق کا مفہوم جاننے سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہےکہ قربانی کے چار دن ہیں ایک دن (یوم النحر) تو قربانی کے نام سے ہی جانا جاتاہے بقیہ تین دن ایام تشریق کے ۔ یہ بات قرآن و حدیث ، آثار صحابہ اور اقوال ائمہ وتابعین سے بھی ثابت ہے ۔

چاردن قربانی کےدلائل قرآن کریم سے:
اللہ تعالى نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ : 203)
ترجمہ:اور (ایام تشریق کے) معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔
نیز فرمایا :
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ( الحج : 28)
ترجمہ: اور وہ ایام تشریق کےمعلوم دنوں میں اللہ کے دیے ہوئے مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں ۔
یعنی ایام معلومات اور ایام معدودات ایام تشریق ہی ہیں ، اس پر امت کا اتفاق ہے۔
چنانچہ علامہ قرطبی رحمه الله اس سلسلے میں لکھتے ہیں:
أَمَرَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عِبَادَهُ بِذِكْرِهِ فِي الْأَيَّامِ الْمَعْدُودَاتِ، وَهِيَ الثَّلَاثَةُ الَّتِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ، وَلَيْسَ يَوْمُ النَّحْرِ مِنْهَا، لِإِجْمَاعِ النَّاسِ أَنَّهُ لَا يَنْفِرُ أَحَدٌ يَوْمَ النَّفْرِ وَهُوَ ثَانِي يَوْمِ النَّحْرِ، وَلَوْ كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فِي الْمَعْدُودَاتِ لَسَاغَ أَنْ يَنْفِرَ مَنْ شَاءَ مُتَعَجِّلًا يَوْمَ النَّفْرِ، لِأَنَّهُ قَدْ أَخَذَ يَوْمَيْنِ مِنَ الْمَعْدُودَاتِ.
کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو گنتی کے چند دنوں میں اپنے ذکر کا حکم دیا ہے اور یہ (گنتی کے دن) یوم النحر (یعنی قربانی کا دن ۱۰ ذی الحجہ) کے بعد تین روز ہیں جن میں یوم النحر داخل نہیں ہے کیونکہ اس بات پر لوگوں کا اجماع ہے کہ قربانی کے دوسرے دن (یعنی گیارہ کو) کوئی حاجی منی سے کوچ نہیں کر سکتا. اور اگر یوم النحر أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ میں داخل ہوتا تو پھر (بموجب حکم قرآنی) عجلت باز کے لئے گیارہ کو منی سے کوچ کرنا درست ہوتا،کیونہ وہ گنتی کے (تین دنوں میں سے) دو روز گزار چکا ہے. (اور اللہ تعالی نے دو روز گزار چکنے کے بعد منی سے کوچ کرنے کی اجازت دی ہے). (تفسیر القرطبی 3/363)
بقاعی لکھتے ہیں :

(معدودات) وهي أيام إقامتكم بمنى في ضيافته سبحانه لفعل بقية ما عليكم من تتمات العبادات الحجية أولها يوم القر، وهو الحادي عشر ليستقر الناس فيه بمنى، ثانيها يوم النفر الأول، ثالثها يوم النفر الأعظم، والثلاثة تسمى أيام التشريق، وهى مع يوم العيد تسمى أيام النحر. والأربعة مع يوم عرفة أيام التكبير والذكر. اهـ.
معدودات سے منی میں تمہارا ٹھہرنا مراد ہے عبادات حج کے بقیہ کام پر اللہ کی ضیافت میں ۔اس کا پہلا دن یوم القر ہے جوکہ گیارہ تاریخ ہے جس میں لوگ منی میں ٹھہرتے ہیں ۔ دوسرا دن یوم االنفر الاول ہے ۔ تیسرا دن یوم النفر الاعظم ہے ۔ یہ تین دن ایام تشریق کہلاتے ہیں اور یہ عید کے دن کے ساتھ ایام النحر اور چاردن عرفہ کے ساتھ ایام تکبیروذکر کہا جاتا ہے.

مزیدامام رازی اور علامہ شوکانی وغیرہم کی کتاب دیکھ سکتے ہیں( تفسیر ابن کثیر5/208 اور فتح القدیر1/205)
تعجیل کےدو دن اور تاخیروالا ایک دن، پورے تین دن بنتے ہیں۔ ان تینوں دنوں میں قربانی کے جانوروں پر اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کا حکم دیاگیاہے ۔گویاایام تشریق ذوالحجہ کی گیارہ ، بارہ اور تیرہ تاریخ ہوئی اور ذوالحجہ کی دس تاریخ تو سبھی کو معلوم ہے اسے یوم النحر (قربانی کا دن)کہا جاتا ہے۔
اس طرح اللہ کی آسمانی کتاب نے یہ فیصلہ کردیا کہ قربانی کے چاردن ہیں ۔اور وہ ہیں یوم النحر و ایام تشریق یعنی دس، گیارہ، بارہ اور تیرہ۔

چار دن قربانی کے دلائل احادیث صحیحہ سے:
اس سلسلے میں بھی متعدد احادیث ہیں چند کا یہاں ذکر کیاجاتاہے ۔
پہلی حدیث : أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ قال لرجلٍ من غِفارٍ قُمْ فأذِّنْ أنه لا يدخلُ الجنَّةَ إلا مؤمنٌ وأنها أيامُ أكلٍ وشربٍ أيام مِنًى زاد سليمانُ بنُ موسى وذَبحٍ يقول أيامُ ذبحٍ.
ترجمہ : ایک صحابی سے مروی ہے کہ اللّٰہ کے نبی ﷺ نے ایک غفاری صحابی سے کہا کہ تم کھڑےہو اور اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مؤمن ہی جائیں گے اور ایام منیٰ (ایام تشریق) کھانے پینے کے دن ہیں۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ ان کے اُستاذ سلیمان بن موسیٰ نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے ذبح کے لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی وہ یہ بھی روایت کرتے تھے کہ یہ ذبح کے دن ہیں۔
دیکھیں : السلسلة الصحيحة: 5/620
اس حدیث میں ایام منی کا ذکر ہے ۔ ایام منی معروف ہیں،یہ تین دن ہیں گیارہ ، بارہ اور تیرہ ۔ ان ایام کو کھانے اور پینے کا دن کہا گیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ ایام قربانی کے ہیں۔ بلکہ بعض روایات میں ذبح کی بھی صراحت آئی ہے کہ ایام منی ذبح (قربانی)کرنے کے ایام ہیں جس سے معنی کی تعیین میں مدد ملتی ہے ۔
یہ روایت متعدد کتب حدیث میں بھی مروی ہے ، ایک جگہ ہے :
أَيُّها الناسُ إن رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم قال : إنها لَيْسَتْ أيامَ صومٍ إنها أيامُ أكلٍ وشُرْبٍ . (صحيح ابن خزيمة للالبانی : 2147)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ اعلان کررہے تھے کہ اے لوگو! رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے : یہ ایام (ایام تشریق) روزے کے نہیں ہیں بلکہ کھانے اور پینے کے ہیں۔
ایک جگہ حدیث کے یہ الفاظ ہیں ۔
"إنها أيام طعم وذكر" یہ کھانے اور ذکر کے ایام ہیں۔
یہ حدیث امام مسلم کی شرط پر ہے (دیکھیں : ارواء الغلیل : 4/131)
مسلم شریف میں اس طرح مروی ہے ۔
أنَّ رسولَ الله ِصلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بعثه وأوْسَ بنَ الحدَثانِ أيامَ التشريقِ . فنادى أنه لا يدخلُ الجنةَ إلا مؤمنٌ . وأيامُ مِنًى أيامُ أكلٍ وشُربٍ .(صحيح مسلم:1142)
ترجمہ: نبی ﷺ نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور اوس بن حدثان رضی اللہ عنہ کو ایام تشریق میں بھیجا کہ وہ اعلان کردیں جنت میں صرف مؤمن ہی جائیں گے اور ایام منیٰ (ایام تشریق) کھانے پینے کے دن ہیں۔
دوسری حدیث : يومُ عرفةَ ويومُ النَّحرِ وأيَّامُ التَّشريقِ عيدَنا أَهلَ الإسلامِ ، وَهيَ أيَّامُ أَكلٍ وشربٍ(صحيح الترمذي:773،صحيح النسائي:3004،صحيح أبي داود: 2419،إرواء الغليل: 4/130)
ترجمہ : عرفہ کا دن، قربانی کا دن،اور ایام تشریق کے ایام ہماری عید ہیں اور یہ کهانے پینے کے ایام ہیں.
اس حدیث کو شیخ البانی نے ترمذی میں، نسائی میں، ابوداؤد میں صحیح کہا اور ارواء الغلیل میں مسلم کی شرط پر قرار دیا ہے ۔
اس حدیث میں عید کے دن کو ایام تشریق سے الگ کیا گیا ہے جو اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ ایام تشریق عید کے بعد سے تیرہ تاریخ تک ہے.
تیسری حدیث : كلُّ أيامِ التشريقِ ذَبحٌ ( السلسلة الصحيحة: 2476)
متعدد صحابہ کرام اس حدیث کو روایت کرتے ہیں ۔جبير بن مطعم، أبو سعيد خدري اور أبو هريرة رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تشریق کے سارے دن ذبح(قربانی) کے دن ہیں۔
اس حدیث کو البانی صاحب نے حسن کہاہے ۔
یہ حدیث مختصر مگر معنوی لحاظ سے بہت واضح ہے کہ ایام تشریق قربانی کے ایام ہیں ۔ اس معنی کی تھوڑی لمبی روایت اس طرح ہے ۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے :
كُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ ، وارفعوا عن عُرَنَةَ ، وكُلُّ مزدلِفَةَ موقِفٌ ، وارفعوا عن بطنِ مُحَسِّرٍ ، وكلُّ فجاجِ مِنًى منحرٌ ، وكلُّ أيامِ التشريقِ ذبحٌ( صحيح الجامع:4537)
ترجمہ: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادی محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔
چونکہ ایام تشریق قربانی اور کھانے پینے کے دن ہیں اس وجہ سے ان دنوں میں نبی ﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے :
نهَى عن صومِ ستَّةِ أيَّامِ من السَّنةِ : ثلاثةُ أيَّامِ التَّشريقِ ، ويومُ الفِطرِ ، ويومُ الأضحَى ، ويومُ الجمعةِ مختصَّةٌ من الأيَّامِ۔(السلسلة الصحيحة:2398 )
ترجمہ : نبی ﷺ نے سال میں چھ دنوں کا روزہ رکھنے سے منع کیا ہے ۔ وہ ہیں تین دن ایام تشریق کے ، عیدالفطر، عیدالاضحی اور جمعہ ۔
ایک دوسری جگہ ان دنوں کے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
بدیل بن ورقاء بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
من كان صائمًا فليُفطرْ فإنهنَّ أيامُ أكلٍ وشربٍ(السلسلة الصحيحة 7/1540)
ترجمہ: جو روزے سے ہو وہ روزہ توڑ دے کیونکہ یہ کھانے اور پینے کے دن ہیں۔
مذکورہ بالا نصوص کی روشنی میں چار دن قربانی کا واضح ثبوت ملتا ہے ، اکثر اہل اعلم کی بھی یہی رائے ہے امام شوکانی رحمہ اللہ نےحدیث "كل أيام التشريق ذبح " کو سامنے رکھتے ہوئے یہ استدلال کیا ہے :
أن أيام التشريق كلها أيام ذبح ، وهي يوم النحر وثلاثة أيام بعده(نیل الاوطار5/125)
کہ"تمام ایامِ تشریق ذبح کے دن ہیں اور وہ یوم النحر کے بعد تین دن ہیں"۔

چار دن قربانی کا ثبوت صحابہ کرام سے:
متعدد صحابہ کرام سے بھی چار دن قربانی کا قولا و فعلا ثبوت ملتا جن سے مذکورہ بالا نصوص کی مزید توضیح وتائید ہوتی ہے ۔
عن ابن عباس رضی اللہ عنہماقال : الأضحى ثلاثة ايام بعد يوم النحر۔
حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا کہ قربانی یوم النحر (10 ذوالحجہ) کے بعد تین دن(11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ یعنی یوم النحر عید کے دن کو لے کر کل چار دن قربانی کے ہیں . (دیکھیں :السنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296)
اس کی سند ضعیف ہے لیکن اسی مفہوم کی بات ابن عباس سے متعدد سندوں سے منقول ہے جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے
اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ نےشرح مسلم میں امام شافعی کا مسلک بتاتے ہوئے لکھاہے ۔
"قال الشافعي : تجوز في يوم النحر وأيام التشريق الثلاثة بعده " یعنی امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ قربانی یوم النحر اور اس کے بعد تین دن ایام تشریق میں کرنا جائز ہے ۔
اس کے بعد امام صاحب نے صحابہ سمیت اس مسلک کے قائلین کے چند اسماء ذکر کئے ہیں۔ عبارت اس طرح ہے ۔
"وممن قال بهذا علي بن أبي طالب ، وجبير بن مطعم ، وابن عباس ، وعطاء ، والحسن البصري ، وعمر بن عبد العزيز وسليمان بن موسى الأسدي فقيه أهل الشام ، ومكحول وداود الظاهري وغيرهم " یعنی امام شافعی رحمہ اللہ کے موقف کی طرح علی بن ابی طالب ، جبیر بن مطعم، ابن عباس، عطاء ، حسن بصری، عمربن عبدالعزیز، سلیمان بن موسی اسدی فقیہ شام ، مکحول اور داؤد ظاہری وغیرہم کا بھی موقف ہے۔
زاد المعاد ميں علامہ ابن قيم رحمہ اللہ لکھتے ہيں:
"قال علي بن أبي طالب رضي الله عنه : أيام النحر : يوم النحر ، وثلاثة أيام بعده"
یعنی على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى كا قول ہے: ايام نحر ( يعنى قربانى كے ايام ) يو النحر ( يعنى عيد والا دن ) اور اس كے بعد تين يوم ہيں۔
اہل بصرہ كے امام حسن، اور اہل مكہ كے امام عطاء بن ابى رباح، اور اہل شام كے امام الاوزاعى رحمہم اللہ اور فقھاء كے امام امام شافعى رحمہ اللہ كا مسلك يہى ہے، اور ابن منذر رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، اور اس ليے كہ تين ايام اس ليے كہ يہ منى اور رمى جمرات كے ساتھ خاص ہيں، اور يہى ايام تشريق ہيں، اور ان كے روزے ركھنا منع ہے، چنانچہ يہ ان احكام ميں ايك جيسے بھائى ہيں، تو پھر بغير كسى نص اور اجماع كے ذبح كرنے كے جواز ميں فرق كيسے كيا جا سكتا ہے.
اور دو مختلف وجوہات سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے مروى ہے كہ آپ نے فرمايا:
"كل منى منحر ، وكل أيام التشريق ذبح"(منى سارے كا سارا نحر كرنے كے ليے جگہ ہے، اور سارے كے سارے ايام تشريق ذبح كرنے كے دن ہيں) (زاد المعاد:2/319)

چار دن قربانی کا ثبوت تابعین سے:
صحابہ کرام کے علاوہ امت کے بہت سے تابعین وتبع تابعین سے چار دن قربانی کا ثبوت ملتا ہے ۔ ابھی ابھی امام نووی کے کلام سے چندصحابہ وتابعین کا موقف معلوم ہوگیا۔
عطاء بن رباح ، حسن بصری، امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز، امام زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، اوزاعی اور سلیمان بن موسیٰ رحمہم اللہ
سے چار دن کی قربانی اہل علم نے اپنی کتابوں میں نقل کیاہے ۔
(1) امام طحاوی فرماتے ہیں:. ''امام حسن اور امام عطا نے کہا ہے کہ قربانی ایام تشرق کے آخری دن تک یعنی عیدسے لے کر چار دن تک ہے۔''(احکام القرآن للطحاوی: 2؍ 206؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 299)
(2) امام ابو عبد اللّٰہ المحاملی(م 330ھ) نے کہا:''حسن بصری رحمہ اللہ کہتے تھے کہ تشریق کے تمام دنوں میں یعنی عید الاضحیٰ سمیت چار دنوں: 10، 11،، 12، 13 میں قربانی کی جائے۔''(امالی المحاملی روایۃ ابن یحییٰ البیع: ص 89؛ سنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296من طریق حماد واسنادہ صحیح)
(3) امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ :امام بیہقی (م 458ھ) فرماتے ہیں:''خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے کہ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے (یعنی کل چار دن قربانی ہے)۔''(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 297 اسنادہ صحیح)
ان کے علاوہ بہت سے تابعین نے چار دن قربانی کا موقف اختیار کیا ہے ۔

چار دن قربانی اور ائمہ اربعہ:
ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی رحمہ اللہ کانے چار دن کی قربانی کاواضح موقف اختیار کیا ہے ۔آپ کے موقف سے متعلق اوپر امام نووی ؒ کا قول گذرچکا ہے جس میں چاردن کی قربانی کا ذکر ہے ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب " الام" میں قربانی کا آخری وقت ذکر کرتے ہوئے لکھاہے :
فاذا غابت الشمس من آخر أيام التشريق, ثم ضحى أحد, فلاضحية له. ( الأم : 2/244)
ترجمہ:جب تشریق کے آخری دن یعنی 13 ذو الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد کوئی قربانی کرے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔
اور ایک قول کے مطابق امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک معلوم ہوتاہے ۔ باقی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی طرف تین دن کی قربانی منسوب کی جاتی ہے ، اسی طرح امام مالک کا موقف بھی تین دن کا ہے ۔
آیات واحادیث ، آثار صحابہ اور اقوال تابعین وائمہ کے علاوہ علماء کی ایک بڑی تعداد چار دن کی قربانی کے قائل ہیں۔ ان کی فہرست بہت لمبی ہے ان میں سے چند کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں۔
امام ابن المنذر، امام بیہقی ,امام نووی, شیخ الاسلام ابن تیمیہ, امام ابن قیم, امام ابن کثیراور امام شوکانی رحمہم اللہ وغیرہم ۔ یہاں طوالت کے خوف سے ان کے اقوال اور مزید علماء کے اسماء بیان نہیں کئے جارہے ہیں۔

تین دن قربانی کا جائزہ
حنفیہ کے نزدیک قربانی صرف تین دن ہی جائز ہے ، انہوں نے اپنے موقف کی تائید میں چند دلیلیں پیش کی ہیں ، یہاں ان کا جائزہ پیش کیاجاتاہے ۔
من ضحَّى منكم فلاَ يُصبِحنَّ بعدَ ثالثةٍ وفي بيتِهِ منهُ شيءٌ (بخاری ومسلم)
ترجمہ: یعنی جو شخص قربانی کرے تو تین دن کے بعد گھر میں گوشت نہ رکھے ۔
اس حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے کہ اس میں صرف تین دن قربانی کا گوشت رکھنے کا حکم ہے اس لئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی تین دن ہے ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اولا اس میں گوشت ذخیرہ کرنے کی ممانعت ہے نہ کہ تین دن سے زیادہ قربانی کرنے کی ۔ ثانیا اس حدیث کے آگے کے الفاظ میں خود ہی اس اشکال کا جواب مل جاتاہے ۔
فلمَّا كانَ العامُ المقبلُ ، قالوا : يا رسولَ اللَّهِ ، نفعلُ كما فعلنا عامَ الماضي ؟ قالَ كُلوا وأطعِموا وادَّخِروا ، فإنَّ ذلكَ العامَ كانَ بالنَّاسِ جُهدٌ ، فأردتُ أن تعينوا فيها۔
ترجمہ: اس کے بعد والا سال آیا تولوگوں نے کہا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم
:کیا ہم اس سال بھی پچھلے سال ہی طرح کریں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:کھاؤ اورکھلاؤ اورزخیرہ کرو کیونکہ اس سال تولوگوں کوتنگی تھی لھذا میں نے یہچاہا کہ تم ان کا اس تنگی میں تعاون کرو ( بخاری ومسلم)
اس کے علاوہ صحابہ کے بعض آثار پیش کئے جاتے ہیں جو پایہ ثبوت تک نہیں پہنچ پاتےہیں۔
حتمی فیصلہ صادر کرتے ہوئے یہ کہاجائے گا کہ قرآنی آ یات، احادیثِ صحیحہ اور جمہور سلف صالحین سے اسی بات کا ثبوت ملتا ہے کہ قربانی کے کل چار دن ہیں۔ جماعت اہل حدیث کا یہی متفقہ موقف ہے۔ علماے ہند کے علاوہ پاکستان وعرب کے معاصر کبار اہل علم نے بھی اسی موقف کی صراحت کی ہے۔مجلس کبار علما ، سعودی عرب کا بھی یہی فتویٰ ہے۔
ربّ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے، حق بات سننے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین


مضمون نگار: مقبول احمد سلفی
دفترتعاونی برائے دعوت وارشاد ، شمال طائف(مسرہ) سعودی عرب
 
شمولیت
مارچ 01، 2016
پیغامات
47
ری ایکشن اسکور
4
پوائنٹ
52
سب سے پہلے لغوی اعتبار سے ایام تشریق کا مفہوم دیکھتے ہیں۔

(1) چنانچہ علامہ ابن حجر فتح الباری(4؍242) میں اس سلسلے میں لکھتے ہیں
"وسميت أيام التشريق لأ لحوم الاضاحى تشرق فيها أي تنشر فى الشمس وقيل لأن الهدى لاينحر حتى تشرق الشمس"
''ان تینوں دنوں (11،12،13)کو ایام تشریق اس لیے کہا جاتاہے کہ ان دنوں میں قربانی کے گوشت کودھوپ میں سوکھنے کےلیے پھیلایا جاتا ہے نیز اس سلسلے میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ چونکہ قربانی کے جانور سورج چمکنے سےپہلے ذبح نہیں کئے جاتے۔

(2)مولانا انعام اللّٰہ صاحب قاسمی لکھتے ہیں:
''اس قول 'یعنی وجہ تسمیہ' کے بموجب ایامِ تشریق کا اطلاق جتنے دنوں پر بھی ہو گا اس کا تعلق ذبیحہ اور قربانی سے ہو گا۔ کیونکہ کوئی ایسا دن جس میں قربانی جائز نہ ہو تشریق کا دن نہیں کہا جا سکتا لہٰذا جب یوم النحر کے بعد تین دنوں کو باجماعِ اُمت تشریق کہا گیا ہے تو قربانی بھی یوم النحر کے بعد تین دنوں تک جائز ہو گی۔(ایام قربانی: ص 22)

چاردن قربانی کےدلائل قرآن کریم سے:

اللہ تعالى نے قرآن مجید میں فرمایا ہے :
وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ (البقرۃ : 203)
اور (ایام تشریق کے) معلوم دنوں میں اللہ کا ذکر کرو ۔ تو جو شخص دو دنوں میں جلدی کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں اور جو تأخیر کر لے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔
نیز فرمایا :
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ( الحج : 28)
اور وہ ایام تشریق کےمعلوم دنوں میں اللہ کے دیے ہوئے مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام ذکر کریں ۔
یعنی ایام معلومات اور ایام معدودات جو کہ باتفاق امت ایام تشریق ہی ہیں اور جن میں جلدی کے بارہ میں اللہ تعالى فرماتے ہیں وہ دو دن ہیں اور تیسرا دن بھی انہیں میں شامل ہے ‘ ان دنوں میں قربانی کے جانوروں پر اللہ کا نام لے کر ذبح ونحر کریں اور خود بھی کھائیں اور دوسروں کو بھی کھلائیں ۔
اور ایام تشریق ذوالحجہ کی گیارہ اور بارہ اور تیرہ اور ذوالحجہ کی دس تاریخ کو یوم نحر کہا جاتا ہے۔
الغرض چار دن قربانی کرنا کتاب اللہ سے بھی ثابت ہے.

احادیث صحیحہ سے دلائل:

(1) أن نافع بن جبير بن مطعم رضي الله عنه أخبره، عن رجل من أصحاب النبي ﷺ قد سماه نافع فنسيته، أن النبي ﷺ قال لرجل من غفار: «قُم فأذّن أنه لا يدخل الجنة إلا مؤمن، وأنها أيام أكل وشرب أيام مني» زاد سليمان بن موسى وذبح، يقول: أيام ذبح ابن جريج يقوله. (السنن الکبرٰی للبیہقی: 9؍296)
''ایک صحابی سے مروی ہے کہ اللّٰہ کے نبی ﷺ نے ایک غفاری صحابی سے کہا کہ تم کھڑےہو اور اعلان کر دو کہ جنت میں صرف مؤمن ہی جائیں گے اور ایام منیٰ (ایام تشریق) کھانے پینے کے دن ہیں۔ ابن جریج کہتے ہیں کہ ان کے اُستاذ سلیمان بن موسیٰ نے اسی حدیث کو بیان کرتے ہوئے ذبح کے لفظ کا اضافہ کیا ہے، یعنی وہ یہ بھی روایت کرتے تھے کہ یہ ذبح کے دن ہیں۔
اس حدیث کی سند صحیح ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔(سلسلہ احادیث الصحیحہ: 5؍ 621، رقم: 2476)

(2) امام ابن حبان(م 354ھ) سیدنا جبیر بن مطعم سے روایت کرتے ہیں :
قال رسول الله ﷺ: «كل عرفات موقف، وارفعوا عن عرنة، وكل مزدلفة موقف، وارفعوا عن محسر، فكل فجاج من منحر، وفي كل أيام التشريق ذبح۔ (صحیح ابن حبان: 9؍ 166، رقم 3854 )
'' اللّٰہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے اور عرنہ سے ہٹ کر وقوف کرو اور پورا مزدلفہ وقوف کی جگہ ہے اور وادئ محسر سے ہٹ کر وقوف کرو اور منیٰ کا ہر راستہ قربانی کی جگہ ہے اور تشریق کے تمام دن ذبح کرنے کے دن ہیں۔''

(3) عن سعید بن المسیب ، مرة عن أبي سعيد ومرة عن أبي هريرة رضي الله عنهما عن النبي ﷺ «أيام التشريق كلها ذبح۔( السنن الکبری للبیہقی: 9؍ 296)
''دو صحابہ ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ اللّٰہ کے نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: تشریق کے سارے دن ذبح کے دن ہیں۔''

یہ حدیث بھی بالکل صحیح اور اس کی سند بھی متصل ہے۔ علامہ ناصر الدین البانی نے اسے حسن قراردیا ہے۔ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ: 5؍621

صحابہ کرام سے ثبوت:

(1) مفسر قرآن عبد اللّٰہ بن عباس :
''عبد اللّٰہ بن عباس نے کہا کہ قربانی یوم النحر (10 ذوالحجہ) کے بعد تین دن(11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (یعنی یوم النحر عید کے دن کو لے کر کل چار دن قربانی کے ہیں . (السنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296)

اس کی سند ضعیف ہے لیکن اسی مفہوم کی بات ابن عباس سے متعدد سندوں سے منقول ہے جس سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے

(2) خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب:
''امام ابن المنذر نے علی سے روایت کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ (اسے ابن المنذر نے روایت کیا ہے. (کنز العمال: 4528)نیز دیکھیے (زاد المعاد: 2؍ 291)۔

(3) صحابی رسول جبیر بن مطعم:
''امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جہاں تک قربانی کے آخری وقت کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں امام شافعی کہتے ہیں کہ یوم الاضحیٰ اور اس کے بعد تشریق کے تینوں دنوں میں قربانی جائز ہے اور یہی بات علی بن ابی طالب ، جبیر بن مطعم اور عبد اللّٰہ بن عباس نے بھی کہی ہے۔''(شرح مسلم: 13؍ 111)

(4) صحابی رسول اللّٰہ عبد اللّٰہ بن عمر:
''عبد اللّٰہ بن عباس سے مروی ہے کہ ایام معلومات (قربانی کے معلوم دن) یوم النحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں اور یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر اور ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق یہی قول امام احمد بن حنبل کا بھی ہے۔(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،: دار طیبہ)

تابعین سے ثبوت:

(1) امام اہل مکہ عطا بن رباح رحمۃ اللہ علیہ:
امام طحاوی فرماتے ہیں:
. ''امام حسن اور امام عطا نے کہا ہے کہ قربانی ایام تشرق کے آخری دن تک یعنی عیدسے لے کر چار دن تک ہے۔''
(احکام القرآن للطحاوی: 2؍ 206؛ سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 299)

(2) امام اہل بصرہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ :
امام ابو عبد اللّٰہ المحاملی(م 330ھ) نے کہا:
''حسن بصری رحمہ اللہ کہتے تھے کہ تشریق کے تمام دنوں میں یعنی عید الاضحیٰ سمیت چار دنوں: 10، 11،، 12، 13 میں قربانی کی جائے۔''
(امالی المحاملی روایۃ ابن یحییٰ البیع: ص 89؛ سنن الکبریٰ للبیہقی:9؍ 296من طریق حماد واسنادہ صحیح)

(3) امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیزرحمۃ اللہ علیہ :
امام بیہقی (م 458ھ) فرماتے ہیں:
''خلیفہ عمر بن عبد العزیز نے کہا ہے کہ قربانی عید کے دن اور اس کے بعد تین دن ہے (یعنی کل چار دن قربانی ہے)۔''(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 297 اسنادہ صحیح)

اس کے علاوہ درج ذیل تابعین سے بھی اہل علم نے چار دن قربانی کا قول نقل کیا ہے:
امام زہری، ابراہیم نخعی، مکحول، اوزاعی اور سلیمان بن موسیٰ رحمہم اللہ
(التمہید لابن عبد البر: 23؍ 196؛ شرح النووی علی مسلم: 13؍ 111؛ زاد المعاد لابن القیم: 2؍ 319؛ المحلیٰ لابن حزم: 7؍ 378؛ تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416،دارِ طیبہ)

چار دن قربانی اور ائمہ اربعہ:

(1)امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ
بعض نے امام ابو حنیفہ کی طرف تین دن قربانی کا قول منسوب کیا ہے۔ مگر واقعۃً امام ابو حنیفہ کے نزدیک قربانی کتنے دن تھی، اس سلسلے میں امام ابو حنیفہ سے صحیح سند سے کوئی قول ہمیں نہیں ملا۔

(2)امام شافعی رحمہ اللہ
امام شافعی(م 204ھ) نے اپنی کتاب میں فرمایا:
'جب تشریق کے آخری دن یعنی 13؍ ذو الحجہ کو سورج غروب ہونے کے بعد کوئی قربانی کرے تو اس کی قربانی نہیں ہو گی۔''(الام للشافعی: 2؍ 244)

(3)امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
آپ کی طرف تین دن اور چار دن دونوں طرح کے اقوال منسوب ہیں۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ(م 774ھ) نے کہا:
''عبد اللّٰہ بن عباس فرماتے ہیں کہ (اللّٰہ تعالیٰ نے جن معلوم دنوں میں قربانی کا حکم دیا ہے) ان معلوم دنوں سے مراد یوم النحر (10 ذی الحجہ) اور اس کے بعد تین دن (11، 12، 13 ذی الحجہ کے دن) ہیں۔ یہی بات عبد اللّٰہ بن عمر ، ابراہیم نخعی سے بھی مروی ہے اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا بھی یہی مذہب ہے۔''
(تفسیر ابن کثیر: 5؍ 416؛ الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف للمرداوی: 4؍ 87)

(4)امام مالک رحمہ اللہ
آپ نے تین دن قربانی والا موقف اپنایا ہے لیکن اس سلسلے میں آپ نے کوئی حدیث پیش نہیں کی ہے، غالباً موطا میں آپ نے ابن عمر کے قول کی بنیاد پر یہ موقف اپنایا ہے۔لیکن خود ابن عمر کی طرف چار دن قربانی والا قول بھی منسوب ہے جیسا کہ ماقبل میں ابن کثیر کے حوالہ سے گذر چکا۔

چار دن قربانی سے متعلق اقوالِ محدثین ومحققین

1. امام ابن المنذر(م 319ھ) نے کہا:
''قربانی کا وقت عید کا دن اور اس کے بعد تشریق کے تین دن ہیں۔''( الاقناع لابن المنذر: ص 376)

2. امام بیہقی(م 458ھ) نے کہا:
''سلیمان بن موسیٰ (چار دن قربانی) والی حدیث زیادہ مناسب ہے کہ اس کے مطابق موقف اپنایا جائے۔''(سنن الکبریٰ للبیہقی: 9؍ 298)

3. امام ابو الحسن الواحدی(م 468ھ)نے کہا :
''قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔''(تفسیر الوسیط للواحدی: 3؍ 268)

4. امام نووی(م676ھ) نے کہا:
''قربانی کا وقت تشریق کے آخر دن سورج غروب ہوتے ہی ختم ہو گا۔''(روضۃ الطالبین للنووی: 2؍468)

5. شیخ الاسلام ابن تیمیہ(م 728ھ) نے کہا:
''قربانی کا آخری وقت تشریق کا آخری دن ہے۔''(فتاویٰ الکبیر لابن تیمیہ: 5؍ 384)

6. امام ابن قیم(م751ھ) نے کہا:
''اور سیدنا علی نے کہا: قربانی کے دن: عید کا دن اور اس کے بعد تین دن ہیں اور اہل بصرہ کے امام حسن بصری اور اہل مکہ کے امام عطا بن ابی رباح اور اہل شام کے امام اوزاعی کا یہی موقف ہے اور یہی فقہائے اہل الحدیث کے امام شافعی کا موقف ہے اور اسے ہی امام ابن المنذر نے اختیار کیا ہے اور پورے ایام تشریق یہ مخصوص ہیں منیٰ کے دن ہونے میں، رمی کے دن ہونے میں اور ان دنوں کا روزہ حرام ہے، پس جب یہ تینوں دن ان تمام احکام میں برابر ہیں تو پھر قربانی کے حکم میں کیسے الگ ہو جائیں گے (کہ کسی دن قربانی جائز ہو اور کسی دن ناجائز)۔ جبکہ الگ ہونے پر نہ کوئی نص شرعی پائی جاتی ہے اور نہ ہی اجماعِ اُمت، بلکہ اس کے برعکس نبی ﷺ سے متعدد روایات آئی ہیں جن سے پورے ایام تشریق میں قربانی کا ثبوت ملتا ہے۔''( زاد المعاد: 2؍ 319)

7. امام ابن کثیر(م 774ھ) نے کہا:
''اور اس سلسلے میں راجح امام شافعی کا مذہب ہے اور وہ یہ کہ قربانی کا وقت عید کے دن سے لے کر تشریق کے آخری دن تک ہے۔''( تفسیر ابن کثیر:1؍ 561)

8. امام شوکانی(1250ھ) نے کہا:
''چار دن قربانی والا موقف راجح ہے کیونکہ اس سلسلے میں وارد احادیث ایک دوسرے سے مل کر قوی ہو جاتی ہیں۔''( نیل الاوطار:5؍149)

خلاصۂ بحث

قرآنی آ یات، احادیثِ صحیحہ اور جمہور سلف صالحین سے اسی بات کا ثبوت ملتا ہے کہ قربانی کے کل چار دن ہیں۔ جماعت اہل حدیث کا یہی متفقہ موقف ہے۔ علماے ہند کے علاوہ پاکستان وعرب کے معاصر کبار اہل علم نے بھی اسی موقف کی صراحت کی ہے۔مجلس کبار علما ، سعودی عرب کا بھی یہی فتویٰ ہے۔

ربّ تعالیٰ ہمیں حق بات کہنے، حق بات سننے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے۔ آمین!
ماشاءاللہ بہت خوب پوسٹ کی اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے آمین یا رب العالامین . .
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
ماشاءاللہ بہت خوب پوسٹ کی اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے آمین یا رب العالامین . .
وایاک

پوسٹ کی ریٹنگ غلطی سے ناپسند ہوگئی ہے اسے کنسل کرکے پسند ریٹ کردیں۔
 
Top