• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قربانی ہم سے کیامطالبہ کرتاہے؟

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
(عیدالاضحیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار اورسنت ہے جس میں انہوں نے حکم الہی کی تعمیل میں اپنے بڑھاپے کے سہارے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری چلانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ نہ ان کے ہاتھ کانپے ،نہ ان کے عزم وارادہ میں کوئی تزلزل آیا۔ ان کی یہ ادااللہ کو اتنی پسند آئی کہ اس نے اپنے حبیب کی امت کے صاحب حیثیت مسلمانوں پر اس کولازم قراردے دیا۔​

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہم دور زوال میں ہیں اوردورزوال میں ایک زوال یافتہ قوم کی جونفسیات ہوتی ہے وہ پورے طورپر مسلمانوں میں موجود ہے یعنی حقیقی پیغام سے صرف نظر کرلینااوررسم کی ادائیگی پر زور دینا۔ ہم ہرسال قربانی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ کچھ لوگ کچھ خصوصی نشانیوں والی گائیں،بکرے ،بھیڑیں،لاکھوں کی رقم میں خریدتے ہیں اورپوری نمائش کے ساتھ رسم قربانی اداکرتے ہیں ۔لیکن ہم بھول جاتے ہیں کہ قربانی کا پیغام کیاہے مقصد کیاہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے آخری کلام (قرآن مجید) میں یہ واضح طورپر کہاہے کہ اللہ کو قربانی کا گوشت اورخون نہیں پہنچتا اس تک توتمہاراتقوی پہنچتاہے۔اورآج یہی تقویٰ جو قربانی کا حقیقی پیغام ہے ہم سے غائب ہورہاہے۔نتیجہ یہ ہے کہ قربانی محض ایک رسم اورنمود ونمائش کا موقع بن کر رہ گئی ہے۔علامہ اقبال نے کہاتھا​

آگ ہے اولاد ابراہیم ہے نمرود ہے
کیاکسی کو پھرکسی کا امتحاں مقصود ہے​

آج پوری دنیا میں مسلمانوں کے جوحالات ہیں وہ کسی بھی ذی ہوش شخص سے مخفی نہیں ہیں۔ برمامیں روہنگیا مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیاگیاہے۔ بودھ جب چاہتے ہیں ان کے خلاف فساد برپاکرکے ان کو موت کے گھاٹ اتاردیتے ہیں، برمی حکومت نے ان کو عملادوسرے درجہ کا شہری قراردیاہواہے۔ فلسطین مسلمانوں پر مظالم کی شب تاریک بہت طویل ہوچکی ہے۔ وہ ساٹھ سالوں سے صیہونی ظالموں سے نبردآزماہیں۔ صیہونی جب چاہتے ہیں۔ ان کے علاقوں پرراکٹ داغتے ہیں، ٹینک لے کر گھس جاتے ہیں۔ ان کی کھڑی فصلوں کو تباہ کردیتے ہیں۔شا م میں بشارالاسد کی فوجیں اپنے ہی ملک کے شہریوں کا قتل عام کرکے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہیں۔ ویسے بشارالاسد کے باپ حافظ السد نے بھی سنی مسلمانوں کے ایک احتجاجی مظاہرے پر تمام مظاہرین کا قتل عام کردیا تھا جس میں 30ہزار مسلمان مارے گئے تھے۔ عراق میں کوئی دن نہیں جاتا جب کچھ نام نہاد مسلمان خود کش دھماکے کرکے عراقیوں کو موت کے گھاٹ نہ اتاردیتے ہوں۔ افغانستان میں امریکی فوجیں تاحال برقرار ہیں اورجب جی چاہتاہے کسی گائوں پر بم پھینک کر بعد میں معذرت کردیتی ہیں کہ ایساغلطی سے ہوا۔ ڈروان حملے پاکستان اوریمن میں تواتر سے ہورہے ہیں اورطاقت کی بنیاد پر امریکہ بغیر کسی قانونی کارروائی کے ماروائے آئین لوگوں کو ہلاک کررہاہے محض اس لئے کہ وہ امریکہ کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ان ڈرون حملوں میں مطلوبہ شخص کے ساتھ بچے، بچیاں، مرد عورت مررہے ۔وطن عزیز ہندوستان میں بھی صورت حال خوش آئند نہیں ہے۔ فسادات یاپھردوسرے لفظوں میں ہجوم کی دہشت گردی کو اکثریت نے اپناشعار بنالیاہے اورہندوستان میں اب تک ہوئے فسادات میں لاکھوں مسلمان اپنی جان اوراربوں کی دولت کھوچکے ہیں اوران فسادیوں کے خلاف آج تک کارروائی نہیں ہوئی۔​

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دور حاضر کے جدید نمرودوں نے مسلمانوں پر زندگی تنگ کررکھی ہے۔وہ خوف کی زندگی جینے پر مجبور ہیں۔ انہیں معلوم نہیں کہ آئندہ کل ان کیلئے خوشی لے کر آئے گایاپھران کی تباہی وبربادی کی نئی داستان رقم ہوگی۔
یہ تمام حالات سچ ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایک مسلمان کا شعار یہ ہے کہ وہ مایوس نہیں ہوتا ۔وہ مشکلات کے گرداب اوربھنور میں بھی پھنس کر پرامید رہتاہے۔ ہم بھی پرامید ہیں کہ مظالم اورمصائب کے شب تاریک کی سحر ضرور ہوگی ۔چاہے اس میں کچھ مزید دیر ہی کیوں نہ ہو اورجدید نمرودوں کا انجام ماضی کے نمرود سے بھی مختلف نہیں ہوگا۔
مسلمان آج قربانی کررہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان عمل کی یاد کو تازہ کررہے ہیں۔ان کیلئے بھی ضروری ہے کہ وہ قربانی سے زیادہ قربانی کے پیغام کو سمجھیں کہ وقت کے نمرود کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرات اپنے اندر پیداکریں، دین وایمان اورملت اسلامیہ کیلئے کسی بھی قسم کی قربانی سے گریز اوردریغ نہ کریں۔ چاہے اپناگھر بار چھوڑناپڑے۔اجنبی سرزمین میں بودوباش اختیار کرنی پڑے حتی کہ اگراپنی اولاد کو قربان کرنے کا مرحلہ درپیش ہو تو بھی ہمت اورحوصلہ سے کام لیاجائے۔​

اگریہ جذبہ پیداہوگیاتویقین رکھئے کہ آج ہم جن مشکلات کی آگ میں جل رہے ہیں جن مظالم کی بھٹی ہمیں پھونک رہی ہے وہ آرام وراحت کے گلستاں اورامن وسکون کے چمنستاں میں تبدیل ہوجائے گی۔شرط یہ ہے کہ ہمارے اندر حضرت ابراہیم علیہ السلام والی صفات آجائیں اورہم پورے طورپر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقش قدم پر گامزن ہوجائیں۔​

جوہم بھی ذوق یقیں لے کر اس میں کود پڑیں
شرارآتش نمرود پھول ہوجائے​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جزاکم اللہ خیرا ۔
جمشید بھائی ماشاءاللہ فکر انگیز تحریر تھی ۔
آپ کی تحریروں میں بعض دفعہ تذکیر و تأنیث کے حوالے سے کچھ غرابت سی محسوس ہوتی ہے ۔
مثلا :
قربانی ہم سے کیامطالبہ کرتاہے؟
قربانی کرتا ہے ۔۔۔ یہ تذکیر پہلی دفعہ دیکھنے کو ملی ہے ۔
خود دوران تحریر آپ نے اس کے لیےدوبارہ تأنیث کا ہی استعمال کیا ہے :
قربانی محض ایک رسم اورنمود ونمائش کا موقع بن کر رہ گئی ہے
اسی طرح یہ عبارت :
ہم بھی پرامید ہیں کہ مظالم اورمصائب کے شب تاریک کی سحر ضرور ہوگی ۔
 
Top