• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرب قیامت اور ہماری ذمہ داریاں !

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ ۔

قرب قیامت کی بہت سی علامات ، نشانیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔فورم پر اس حوالے سے مواد بھی موجود ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ، کہ یہ فتنوں کا دور ہو گا ۔آج موجودہ صورت حال میں قرب قیامت کی علامات صاف دکھائی دیتی ہیں۔اس پر مجھے ایک الجھن ہے ، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا حق ہے اور سچ ہے ۔۔۔تو پھر آج ہم انہیں کیسے روک سکتے ہیں ؟ ایک حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے ، مفہوم حدیث کا آخری حصہ کہ " جب تم ایسا وقت پاؤ تو جو نیکی لگے وہ کرنا اور جو غلط لگے ، چھوڑ دینا ، اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا "۔۔۔۔یہ کیسا وقت ہو گا یا ہے کہ جب امر بالمعروف و نھی عن المنکر بھی ختم کر دینا ہو گا ؟؟
کیا ہمیں قرب قیامت کی علامات سے "جنگ" کرنی ہے ؟ نیز ہماری ذمہ داری آج کیا ہے ؟

اہل علم مدلل آراء سے آگاہ کریں۔​
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
قرب قیامت کی کچھ نشانیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائی ہیں جن میں چند کا ذکر کیا جاتا ہے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ "جب تم دیکھو کہ عورتیں اپنے مالکوں کو جنم دے رہی ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے "
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ"اور جب دیکھو کہ ننگے پاؤں بہرے گونگے جاہل زمین کے بادشاہ ہو رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے "
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ"اور جب دیکھو کہ اونٹوں کے چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنا کر اترا رہے ہیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے"

 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
قیامت کی نشانیاں کئی قسم کی ہیں :
(۱) قیامت کی چھوٹی نشانیاں
(۲) قیامت کی بڑی نشانیاں (جو قرب قیامت میں ہونگی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹی نشانیوں کچھ گزر چکی ہیں
مثلاً بعثت النبی ﷺ ۔انشقاق قمر ۔مدینۃ النبی میں عظیم آگ
کچھ موجود ہیں اور بڑھتی جارہی ہیں ، اور یہ بے شمارہیں
ان میں سے کچھ علامات ۔فتنوں ۔کی شکل میں ہیں ،اور ہونگی
ان میں سے جن کا تعلق انسانی عمل ،اختیار سے ہے ۔
ان کی موجودگی میں ہماری ذمہ داریاں حسب حال ہونی ضروری ہیں
یعنی جیسا فتنہ ،اس سے بچنے کے مطلوب شرعی ،فطری تقاضوں کی ادائیگی ۔
کسی فتنہ کا علاج علم ،کسی کا عبادات ،،کسی کا علاج جہاد ۔کسی کا اخلاق حسنہ ۔۔کسی کا دعوت و تبلیغ ۔۔وغیرہ وغیرہ
اور یہ بہت وسیع موضوع ہے ،جس پر کتابیں موجود ہیں ۔

اگر جامع اور مختصر بات کی جائے تو فتنوں کے سبب ایمان و تقوی ہاتھ سے جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ،لہذا:
اپنے ایمان کی حفاظت کی جائے،تقوی سے!
اور اپنے ماحول کو ایمانی بنانے کیلئے علم وحکمت سے دعوت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کام لینا چاہیئے
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
قیامت کی نشانیاں کئی قسم کی ہیں :
(۱) قیامت کی چھوٹی نشانیاں
(۲) قیامت کی بڑی نشانیاں (جو قرب قیامت میں ہونگی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھوٹی نشانیوں کچھ گزر چکی ہیں
مثلاً بعثت النبی ﷺ ۔انشقاق قمر ۔مدینۃ النبی میں عظیم آگ
کچھ موجود ہیں اور بڑھتی جارہی ہیں ، اور یہ بے شمارہیں
ان میں سے کچھ علامات ۔فتنوں ۔کی شکل میں ہیں ،اور ہونگی
ان میں سے جن کا تعلق انسانی عمل ،اختیار سے ہے ۔
ان کی موجودگی میں ہماری ذمہ داریاں حسب حال ہونی ضروری ہیں
یعنی جیسا فتنہ ،اس سے بچنے کے مطلوب شرعی ،فطری تقاضوں کی ادائیگی ۔
کسی فتنہ کا علاج علم ،کسی کا عبادات ،،کسی کا علاج جہاد ۔کسی کا اخلاق حسنہ ۔۔کسی کا دعوت و تبلیغ ۔۔وغیرہ وغیرہ
اور یہ بہت وسیع موضوع ہے ،جس پر کتابیں موجود ہیں ۔

اگر جامع اور مختصر بات کی جائے تو فتنوں کے سبب ایمان و تقوی ہاتھ سے جانے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے ،لہذا:
اپنے ایمان کی حفاظت کی جائے،تقوی سے!
اور اپنے ماحول کو ایمانی بنانے کیلئے علم وحکمت سے دعوت اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے کام لینا چاہیئے
لیکن اس میں تو بہت ہی الجھن ہے، ایک ہی فتنہ کے متعلق ہر فرد اپنا ہی نظریہ رکھتا ہے ، اور ہم دلیل کے لیے دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے ہیں ، اس پر کوئی کسی حدیث کو دیکھتا اور کوئی کچھ اور۔۔۔ہمیں کیسے واضح ہو کہ موجودہ فتنوں کے سدباب کے لیے جو ہم کر رہیں ہیں ، وہی ہماری ذمہ داری ہے؟؟
اگر ہم آج کے وقت میں اپنے ایمان کی فکر اور تقوی کی استقامت کے لیے اپنا دائرہ کار محدود کرتے ہیں تو ترک دنیا کا خوف !! اور یہ منع ہے!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فتنوں سے بچنے کی دعائیں سکھائیں ، اور فرمایا کہ فتنوں کے وقت میں جنگل میں بھی جانا پڑے تو چلے جانا ، اپنی تلوار کند کر دینا ، اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا۔پھر آج ہمیں کیسے "اس وقت" کا اندازہ ہو گا ؟؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اختلاف اور فتنوں کے دور میں کیا کرنا چاہۓ !!!

جب صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ پوچھا کہ جب فتنے کثرت سے ہوں تو میں کیا کروں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے جواب میں یہ فرمایا ( لوگوں سے علیحدگی اختیار کرو اور اپنے گھر میں بیٹھ رہو ) تو کیا یہ وہ دور اور زمانہ ہے ؟

اور صحیح (بخاری ) کتاب الفتن کے باب جب خلیفہ نہ ہو میں ہے حدیث کا معنی یہ ہے :

< نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فتنوں کے ظہور کے وقت اعتزال اور علیحدگی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا : اور اگر تمہیں درخت کی جڑہیں کھانی پڑیں ) ہم اس حدیث کی وضاحت اور علماء کے اقوال معلوم کرنا چاہتے ہیں ؟


الحمدللہ :

صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں ابو ادریس خولانی سے حدیث موجود ہے بخاری کے لفظ یہ ہیں :

ابو ادریس خولانی نے حذیفہ بن یمان کو یہ فرماتے ہوئے سنا لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر اور بھلائی کے متعلق سوال کرتے اور میں ان سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا اس ڈر سے کہ کہیں میں اس میں واقع نہ ہو جاؤں تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ تعالی نے ہمیں یہ خیر اور بھلائی دی تو کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جی ہاں اور اس میں فساد ہو گا میں نے کہا یہ دخن کیا ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایسی قوم آۓ گی جو میرے طریقے کو چھوڑ کر دوسرا اختیا کریں گے جسے تو جانے اور انکار کرے گا تو میں نے کہا کہ کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں جہنم کے دروازوں کی دعوت دینے والے ہوں گے جس نے ان کی مان لی وہ اسے جہنم میں پھینک دیں گے میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ان کے اوصاف بتائیں تو آپ نے فرمایا وہ ہم میں سے ہوں گے اور ہماری زبان میں بات کریں گے میں نے کہا کہ اگر میں نے یہ دور پا لیا تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑ میں نے کہا کہ اگر امام اور جماعت نہ ہوئی تو ؟ تو آپ نے فرمایا : تو ان سب فرقوں سے علیحدگی اختیار کر اگرچہ تجھے درخت کی جڑ ہی کیوں نہ کھانی پڑے حتی کہ تجھے اس حالت میں موت آجائے ۔

تو یہ دور اور زمانہ اس دور کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر دور اور زمانے میں اور جگہ پر عام ہے عہد صحابہ سے لے کر جب عثمان رضی اللہ عنہ پر خروج اور فتنہ شروع ہوا ۔

اور فتنہ کے دور میں لوگوں سے علیحدگی اختیار کرنے سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں امام طبری سے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

جب بھی لوگوں کا امام نہ ہو اور لوگوں میں اختلاف اور جماعتیں ہوں تو شر میں پڑنے کے ڈر سے اگر طاقت رکھو تو فرقوں میں کسی کی پیروی نہ کرو اور سب سے علیحدگی اختیار کرو، تو جب بھی کوئی ایسی جماعت ملے جو حق پر ہو اس میں ملنا چاہۓ اور ان کے تعداد میں اضافہ اور حق پر ان کا تعاون کرنا چاہۓ کیونکہ یہ جو ذکر کیا گیا ہے وہ اس شخص اور وقت اور مسلمانوں کی جماعت کا ہے ۔

اور اللہ ہی توفیق بخشنے والا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اور صحابہ پر اللہ تعالی رحمتیں نازل فرمائے ۔ .

فتاوی اللجنۃ الدائمۃ جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 95

http://islamqa.info/ur/11093
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حدثنا يحيى بن موسى حدثنا الوليد قال:‏‏‏‏ حدثني ابن جابر قال:‏‏‏‏ حدثني بسر بن عبيد الله الحضرمي قال:‏‏‏‏ حدثني ابو إدريس الخولاني انه سمع حذيفة بن اليمان يقول:‏‏‏‏ كان الناس يسالون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وكنت اساله عن الشر مخافة ان يدركني فقلت:‏‏‏‏ يا رسول الله إنا كنا في جاهلية وشر فجاءنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير من شر قال:‏‏‏‏ نعم قلت:‏‏‏‏ وهل بعد ذلك الشر من خير قال:‏‏‏‏ نعم وفيه دخن قلت:‏‏‏‏ وما دخنه قال:‏‏‏‏ قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر قلت:‏‏‏‏ فهل بعد ذلك الخير من شر قال:‏‏‏‏ نعم دعاة إلى ابواب جهنم من اجابهم إليها قذفوه فيها قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله صفهم لنا فقال:‏‏‏‏ هم من جلدتنا ويتكلمون بالسنتنا قلت:‏‏‏‏ فما تامرني إن ادركني ذلك قال:‏‏‏‏ تلزم جماعة المسلمين وإمامهم قلت:‏‏‏‏ فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام قال:‏‏‏‏ فاعتزل تلك الفرق كلها ولو ان تعض باصل شجرة حتى يدركك الموت وانت على ذلك".
ترجمہ داؤد راز
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن جابر نے، کہا کہ مجھ سے بسر بن عبیداللہ حضرمی نے، کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، انہوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ دوسرے صحابہ کرام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کیا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں۔ تو میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے زمانے میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر و برکت (اسلام کی)عطا فرمائی، اب کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، میں نے سوال کیا، اور اس شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، لیکن اس خیر پر کچھ دھواں ہو گا۔ میں نے عرض کیا وہ دھواں کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے۔ ان میں کوئی بات اچھی ہو گی کوئی بری۔ میں نے سوال کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کی بات قبول کرے گا اسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کے اوصاف بھی بیان فرما دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ہماری ہی قوم و مذہب کے ہوں گے۔ ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے عرض کیا، پھر اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کا حکم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا، میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان تمام فرقوں سے اپنے کو الگ رکھنا۔ اگرچہ تجھے اس کے لیے کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے، یہاں تک کہ تیری موت آ جائے اور تو اسی حالت پر ہو (تو یہ تیرے حق میں ان کی صحبت میں رہنے سے بہتر ہو گا)۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 3606
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
حدثنا يحيى بن موسى حدثنا الوليد قال:‏‏‏‏ حدثني ابن جابر قال:‏‏‏‏ حدثني بسر بن عبيد الله الحضرمي قال:‏‏‏‏ حدثني ابو إدريس الخولاني انه سمع حذيفة بن اليمان يقول:‏‏‏‏ كان الناس يسالون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وكنت اساله عن الشر مخافة ان يدركني فقلت:‏‏‏‏ يا رسول الله إنا كنا في جاهلية وشر فجاءنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير من شر قال:‏‏‏‏ نعم قلت:‏‏‏‏ وهل بعد ذلك الشر من خير قال:‏‏‏‏ نعم وفيه دخن قلت:‏‏‏‏ وما دخنه قال:‏‏‏‏ قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر قلت:‏‏‏‏ فهل بعد ذلك الخير من شر قال:‏‏‏‏ نعم دعاة إلى ابواب جهنم من اجابهم إليها قذفوه فيها قلت:‏‏‏‏ يا رسول الله صفهم لنا فقال:‏‏‏‏ هم من جلدتنا ويتكلمون بالسنتنا قلت:‏‏‏‏ فما تامرني إن ادركني ذلك قال:‏‏‏‏ تلزم جماعة المسلمين وإمامهم قلت:‏‏‏‏ فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام قال:‏‏‏‏ فاعتزل تلك الفرق كلها ولو ان تعض باصل شجرة حتى يدركك الموت وانت على ذلك".
ترجمہ داؤد راز
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن جابر نے، کہا کہ مجھ سے بسر بن عبیداللہ حضرمی نے، کہا کہ مجھ سے ابوادریس خولانی نے بیان کیا، انہوں نے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ دوسرے صحابہ کرام تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کیا کرتے تھے لیکن میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا اس خوف سے کہ کہیں میں ان میں نہ پھنس جاؤں۔ تو میں نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور شر کے زمانے میں تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر و برکت (اسلام کی)عطا فرمائی، اب کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، میں نے سوال کیا، اور اس شر کے بعد پھر خیر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، لیکن اس خیر پر کچھ دھواں ہو گا۔ میں نے عرض کیا وہ دھواں کیا ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو میری سنت اور طریقے کے علاوہ دوسرے طریقے اختیار کریں گے۔ ان میں کوئی بات اچھی ہو گی کوئی بری۔ میں نے سوال کیا: کیا اس خیر کے بعد پھر شر کا کوئی زمانہ آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کی بات قبول کرے گا اسے وہ جہنم میں جھونک دیں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ان کے اوصاف بھی بیان فرما دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ ہماری ہی قوم و مذہب کے ہوں گے۔ ہماری ہی زبان بولیں گے۔ میں نے عرض کیا، پھر اگر میں ان لوگوں کا زمانہ پاؤں تو میرے لیے آپ کا حکم کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا، میں نے عرض کیا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ان کا کوئی امام ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان تمام فرقوں سے اپنے کو الگ رکھنا۔ اگرچہ تجھے اس کے لیے کسی درخت کی جڑ چبانی پڑے، یہاں تک کہ تیری موت آ جائے اور تو اسی حالت پر ہو (تو یہ تیرے حق میں ان کی صحبت میں رہنے سے بہتر ہو گا)۔
صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 3606

میرے بھائی جو آپ نے ہائی لائٹ کیا ہے اس کی وضاحت بھی کر دے
 
Top