• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم قریش کی پارلیمنٹ دار الندوہ میں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
قریش کی پارلیمنٹ دار الندوہ میں

جب مشرکین نے دیکھا کہ صحابہ کرامؓ تیار ہو ہو کر نکل گئے اور بال بچوں اور مال ودولت کولا دپھاند کر اَوس وخَزرَج کے علاقے میں جاپہنچے تو ان میں بڑا کہرام مچا۔ غم والم کے لاوے پھوٹ پڑے اور انہیں ایسا رنج وقلق ہوا کہ اس سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا۔ اب ان کے سامنے ایک ایسا عظیم اور حقیقی خطرہ مجسم ہوچکا تھا جوان کی بت پرستانہ اور اقتصادی اجتماعیت کے لیے چیلنج تھا۔
مشرکین کو معلوم ہوا تھا کہ محمدﷺ کے اندر کمال قیادت ورہنمائی کے ساتھ ساتھ کس قدر انتہائی درجہ قوتِ تاثیر موجود ہے اور آپﷺ کے صحابہ میں کیسی عزیمت واستقامت اور کیسا جذبہ فداکاری پایا جاتا ہے۔ پھر اوس وخزرج کے قبائل میں کس قدر قوت وقدرت اور جنگی صلاحیت ہے اور ان دونوں قبائل کے عقلاء میں صلح وصفائی کے کیسے جذبات ہیں اور وہ کئی برس تک خانہ جنگی کی تلخیاں چکھنے کے بعد اب باہمی رنج وعداوت کو ختم کرنے پر کس قدر آمادہ ہیں۔
انہیں اس کا بھی احساس تھا کہ یمن سے شام تک بحر احمر کے ساحل سے ان کی جو تجارتی شاہراہ گزرتی ہے۔ اس شاہراہ کے اعتبار سے مدینہ فوجی اہمیت کے کس قدر حساس اور نازک مقام پر واقع ہے۔ درآں حالیکہ ملک شام سے صرف مکہ والوں کی سالانہ تجارت ڈھائی لاکھ دینار سونے کے تناسب سے ہوا کرتی تھی۔ اہل ِ طائف وغیرہ کی تجارت اس کے علاوہ تھی اور معلوم ہے کہ اس تجارت کا سارا دار ومدار اس پر تھا کہ یہ راستہ پُر امن رہے۔
ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ یثرب میں اسلامی دعوت کے جڑ پکڑنے اور اہل مکہ کے خلاف اہل یثرب کے صف آرا ہونے کی صورت میں مکے والوں کے لیے کتنے خطرات تھے۔ چونکہ مشرکین کو اس گھمبیر خطرے کا پورا پورا احساس تھا ، جو ان کے وجود کے لیے چیلنج بن رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس خطرے کا کامیاب ترین علاج سوچنا شروع کیا اور معلوم ہے کہ اس خطرے کی اصل بنیاد دعوتِ اسلام کے علمبردار حضرت محمدﷺ ہی تھے۔
مشرکین نے اس مقصد کے لیے بیعتِ عقبہ کبریٰ کے تقریباً ڈھائی مہینہ بعد ۲۶؍ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲/ ستمبر ۶۲۲ یوم جمعرات 1کو دن کے پہلے پہر 2مکے کی پارلیمنٹ دار الندوہ میں تاریخ کا سب سے خطرناک اجتماع
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 یہ تاریخ علامہ منصور پوری کی درج کردہ تحقیقات کی روشنی میں متعین کی گئی ہے۔ رحمۃ للعالمین ۱/۹۵، ۹۷،۱۰۲ ، ۲/۴۷۱
2 پہلے پہر اس اجتماع کے منعقد ہونے کی دلیل ابن اسحاق کی وہ روایت ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت جبرئیل ؑ نبیﷺ کی خدمت میں اس اجتماع کی خبر لے کر آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت دی۔ اس کے ساتھ صحیح بخاری میں مروی حضرت عائشہ ؓ کی اس روایت کو ملا لیجئے کہ نبیﷺ ٹھیک دوپہر کے وقت حضرت ابوبکرؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ''مجھے روانگی کی اجازت دے دی گئی ہے۔'' روایت بہ تفصیل آگے آرہی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
منعقد کیا اور اس میں قریش کے تمام قبائل کے نمائندوں نے شرکت کی۔ موضوع بحث ایک ایسے قطعی پلان کی تیاری تھی جس کے مطابق اسلامی دعوت کے علمبردار کا قصہ بہ عجلت تمام پاک کردیا جائے اور اس دعوت کی روشنی کلی طور پر مٹادی جائے۔
اس خطرناک اجتماع میں نمائندگان قبائل قریش کے نمایاں چہرے یہ تھے:
ابوجہل بن ہشا م قبیلہ ٔ بنی مخزوم سے۔
جبیر بن مطعم ، طعیمہ بن عدی اور حارث بن عامر بنی نوفل بن عبد مناف سے
شیبہ بن ربیعہ ، عتبہ بن ربیعہ اور ابوسفیان بن حرب بنی عبد شمس بن عبد مناف سے
نضر بن حارث بنی عبد الدار سے
ابو البختری بن ہشام ، زمعہ بن اسود اور حکیم بن حزام بنی اسد بن عبد العزیٰ سے
نبیہ بن حجاج اور منبہ بن حجاج بنی سہم سے
امیہ بن خلف بنی جمح سے
وقتِ مقررہ پر نمائندگان دار الندوہ پہنچے تو ابلیس بھی ایک شیخ جلیل کی صورت ، عبا اوڑھے ، راستہ روکے ، دروازے پر آن کھڑا ہو ا۔ لوگوں نے کہا: یہ کون شیخ ہیں ؟ ابلیس نے کہا :یہ اہلِ نجد کا ایک شیخ ہے۔ آپ لوگوں کا پروگرام سن کر حاضر ہوگیا ہے۔ باتیں سننا چاہتا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ آپ لوگوں کو خیر خواہانہ مشور ے سے بھی محروم نہ رکھے۔ لوگوں نے کہا : بہتر ہے آپ بھی آجائیے۔ چنانچہ ابلیس بھی ان کے ساتھ اندر گیا۔
پارلیمانی بحث اور نبیﷺ کے قتل کی ظالمانہ قرارداد پر اتفاق:
اجتماع مکمل ہوگیا تو تجاویز اور حل پیش کیے جانے شروع ہوئے اور دیر تک بحث جاری رہی۔ پہلے ابو الاسود نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم اس شخص کو اپنے درمیان سے نکال دیں اور اپنے شہر سے جلاوطن کردیں، پھر ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں کہ وہ کہاں جاتا اور کہا ں رہتا ہے۔ بس ہمارا معاملہ ٹھیک ہوجائے گا اور ہمارے درمیان پہلے جیسی یگانگت ہوجائے گی۔
مگر شیخ نجدی نے کہا : نہیں۔ اللہ کی قسم ! یہ مناسب رائے نہیں ہے۔ تم دیکھتے نہیں کہ اس شخص کی بات کتنی عمدہ اور بول کتنے میٹھے ہیں اور جو کچھ لاتا ہے اس کے ذریعے کس طرح لوگوں کا دل جیت لیتا ہے۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے ایسا کیا تو کچھ اطمینان نہیں کہ وہ عرب کے کسی قبیلے میں نازل ہوا ور انہیں اپنا پیروبنا لینے کے بعد تم پر یورش کردے ، اور تمہیں تمہارے شہر کے اندر روند کرتم سے جیسا سلوک چاہے کرے۔ اس کے بجائے کوئی اور تجویز سوچو۔
ابوالبختری نے کہا: اسے لوہے کی بیڑیوں میں جکڑ کر قید کردو اور باہر سے دروازہ بند کردو۔ پھر اسی انجام (موت) کا انتظار کرو جو اس سے پہلے دوسرے شاعروں مثلا: زہیر اور نابغہ وغیرہ کا ہوچکا ہے۔
شیخ نجدی نے کہا : نہیں۔ اللہ کی قسم! یہ بھی مناسب رائے نہیں۔ واللہ !اگر تم لوگوں نے اسے قید کردیا جیسا کہ تم کہہ رہے ہو تو اس کی خبر بند دروازے سے باہر نکل کر اس کے ساتھیوں تک ضرور پہنچ جائے گی۔ پھر کچھ بعید نہیں کہ وہ لوگ تم پردھاوا بول کر اس شخص کو تمہارے قبضے سے نکال لے جائیں۔ پھر اس کی مدد سے اپنی تعداد بڑھا کر تمہیں مغلوب کرلیں-- لہٰذا یہ بھی مناسب رائے نہیں، کوئی اور تجویز سوچو۔
یہ دونوں تجاویز پارلیمنٹ رد کر چکی تو ایک تیسری مجرمانہ تجویز پیش کی گئی۔ جس سے تمام ممبران نے اتفاق کیا۔ اسے پیش کرنے والا مکے کا سب سے بڑا مجرم ابوجہل تھا۔ اس نے کہا : اس شخص کے بارے میں میری ایک رائے ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ اب تک تم لوگ اس پر نہیں پہنچے ، لوگوں نے کہا : ابوالحکم وہ کیا ہے ؟ ابوجہل نے کہا : میری رائے یہ ہے کہ ہم ہرہر قبیلے سے ایک مضبوط ، صاحبِ نسب اوربان کا جوان منتخب کر لیں، پھر ہر ایک کو تیز تلوار دیں۔ اس کے بعد سب کے سب اس شخص کا رخ کریں اوراس طرح یکبار گی تلوار مار کر قتل کردیں ، جیسے ایک ہی آدمی نے تلوار ماری ہو۔ یوں ہمیں اس شخص سے راحت مل جائے گی اور اس طرح قتل کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شخص کا خون سارے قبائل میں بکھر جائے گا اور بنو عبد مناف سارے قبیلوں سے جنگ نہ کرسکیں گے۔ لہٰذادیت (خون بہا) لینے پر راضی ہوجائیں گے اور ہم دیت ادا کردیں گے۔1
شیخ نجدی نے کہا : بات یہ رہی جوا س جوان نے کہی۔ اگر کوئی تجویز اور رائے ہوسکتی ہے تو یہی ہے، دیگر ہیچ۔
اس کے بعد پارلیمان مکہ نے اس مجرمانہ قرارداد پر اتفاق کرلیا اور ممبران اس عزم مصمم کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس گئے کہ اس قرارداد کی تنفیذ علی الفور کرنی ہے۔
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۸۰- ۴۸۲
 
Top