• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قسطوں میں خرید و فروخت ۔

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم خضر حیات بھائی میں نے آپکے حکم کے مطابق محترم عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کا مقالہ کاپی کر دیا ہے جو کچھ اشکال کے جواب میں ہے
جہاں تک آپ کے اشکالات ہیں تو اس پر ان شاء اللہ فرصت سے بات کروں گا اللہ آپکا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم خضر حیات بھائی میں نے آپکے حکم کے مطابق محترم عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کا مقالہ کاپی کر دیا ہے جو کچھ اشکال کے جواب میں ہے
جہاں تک آپ کے اشکالات ہیں تو اس پر ان شاء اللہ فرصت سے بات کروں گا اللہ آپکا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
جزاکم اللہ خیرا ۔ منتظر رہیں گے ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
محترم خضر حیات بھائی میں نے آپکے حکم کے مطابق محترم عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ کا مقالہ کاپی کر دیا ہے جو کچھ اشکال کے جواب میں ہے
جہاں تک آپ کے اشکالات ہیں تو اس پر ان شاء اللہ فرصت سے بات کروں گا اللہ آپکا اور میرا حامی و ناصر ہو امین
محترم خضر حیات بھائی آپ کی پہلی پوسٹ میں تین قسم کے دلائل ہیں
1-اکثر علماء کا اسکو جائز کہنا (میرے خیال میں یہ شاہد دلیل نہ بن سکے)
2-واحل اللہ البیع و حرم الرباء کی دلیل پر اوپر حافظ عبد المنان رحمہ اللہ کا جواب موجود ہے
3-اونٹوں والی حدیث کے بارے محترم خضر بھائی آپ نے خود ہی کچھ لکھ دیا ہے

آپ کی دوسری پوسٹ میں میرے علم کے مطابق جو اعتراضات آتے ہیں وہ اگلی پوسٹ میں ان شاء اللہ بیان کروں گا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
آپ کی دوسری پوسٹ میں میرے علم کے مطابق جو اعتراضات آتے ہیں وہ اگلی پوسٹ میں ان شاء اللہ بیان کروں گا
محترم خضر حیات بھائی ایک ایک کر کے جواب دیتا چلوں

پہلا اشکال

راجح نقطہ نظر

1-ادھار کی صورت میں اضافے کا جواز خود قرآن کی آیت ( وَأَحَل اللہُ البیعَ ) '' اللہ تعالی نے بیع کو حال کیا ہے '' سے ثابت ہے ۔ کیونکہ یہ آیت ان لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جیساکہ ابن جریر طبری ، علامہ ابن العربی اور امام رازی رحمہم اللہ نے بیان کیا ہے ۔ جن کا اعتراض یہ تھا کہ جب عقد بیع کے وقت ادھار کی زیادہ قیمت مقرر کی جاسکتی ہے تو پھر وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اضافہ کیوں نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کہتے دونوں صورتیں یکساں ہیں ۔
اسکے بارے کچھ تو استادِ محترم عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ نے اوپر جواب دے دیا تھا کچھ مفسریں کے اقوال کا جواب یہاں دینا ہے
اس کو سمجھنے کے لئے پہلے دیکھیں کہ اصل قیمت پر اضافہ کون کون سا ہو سکتا ہے اوپر پھر بعد میں دیکھیں گے کہ کون سا اضافہ کس نص کے تحت یا کس وجہ کے تحت حرام ہے تو میرے خیال میں دو وجوہات سے ہوتا ہے
1-ایک وقت کا خیال رکھے بغیر
2-دوسرا وقت کا خیال رکھتے ہوئے
اسکے کے علاوہ کوئی اور وجوہات یا صورتیں بن سکتی ہیں تو بتا دیں تاکہ انکو دیکھا جا سکے
میری اوپر کی تقسیم کرنے میں دو بڑی وجوہات شامل ہیں
1-سود کی علت والا معاملہ بھی حل ہو جاتا ہے
2-یہ بھی پتا تب ہی چل سکتا ہے کہ احل اللہ البیع و حرم الربوا میں معترضین کو کون سا سکیل دیا جائے گا تاکہ انکا اعتراض ختم ہو کیونکہ اگر ہم تقسیم اس طرح کریں کہ شروع اور بعد کا فرق بتائیں (جیسے محترم صاحب مضمون بھائی نے لکھا ہے کہ شروع میں طے جائز اور بعد میں ناجائز ) تو پھر معترضین یہ کہ سکتے ہیں کہ پھر اللہ نے جواب بغیر کسی سکیل کے کیوں دیا
اب جہاں تک مفسرین کے احل اللہ البیع کی تفسیر میں اقوال لکھے گئے ہیں تو میرے خیال میں میری اوپر والی تقسیم کے مطابق احتمال زیادہ ہے اور صاحبِ مضمون کی تقسیم کے لحاظ سے احتمال کم ہے پس صرف صاحب مضمون کے احتمال کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا چنانچہ انکو دیکھتے ہیں

1-ابن جریر نے لکھا ہے (ہم بیع کے آغاز میں اضافہ کریں یا مدت پوری ہونے پر دونوں صورتوں میں یکساں ہیں۔ تو اللہ تعالی نے ان کی تردید فرمائی)
2-ابن العربی نے لکھا ہے (یعنی مدت پوری ہونے پر جو اضافہ کیا جاتا ہے وہ شروع عقد میں اصل قیمت میں اضافہ کی مانند ہے تو اللہ تعالی نے ان کے اس قول کا رد فرمایا ہے)
3-رازی نے لکھا ہے (جب کوئی شخص ایک کپڑا دس کا خرید کر گیارہ کا بیچے تو یہ جائز ہے اسی طرح جب دس ( درہم ) گیارہ کے بیچے تو معاملہ بھی جائز ہونا چاہیے ۔ کیونکہ دونوں صورتوں میں عملا کوئی فرق نیہں ہے ۔ یہ شبہ تو ربا النقد کے متعلق تھا ۔ '' رباالنسیئۃ '' کے بارہ میں یہ شبہ تھا کہ وہ کپڑا جس کی نقد قیمت دس ( درہم ) دے کر مہینے بعد گیارہ لے تو یہ بھی جائز ہونا چاہیے کیونکہ عقلی اعتبار سے دونوں میں کوئی فرق نہیں)
ان تفاسیر کو ذکر کرنے کے بعد صاحب مضمون لکھتے ہیں
ان جلیل القدر آئمہ تفسیر کے بیان سے ثابت ہوا کہ اہل جاہلیت کی اصل غلطی یہ تھی کہ وہ وقت پر ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں اصل دین پر اضافہ کو ادھار کی صورت میں زیادہ قیمت لینے پر قیاس کرتے تھے ۔ تو اللہ تعالی نے اس کا رد کرتےہوئے فرمایا کہ ادھار کی صورت میں قیمت میں اضافہ کرنا بیع میں شامل ہے جوجائز ہے جبکہ بروقت ادائیگی نہ کرنیکی صورت میں اضافہ سود ہے جو حرام ہے ۔
محترم بھائی نشان زدہ الفاظ کو اوپر تفاسیر سے ذرا مطابقت دیں تو پتا چل جائے گا کہ کسی مفسر سے ایسا ثابت نہیں بلکہ وہ شروع میں اضافہ سے مراد تجارت کے عقض منافع ہے جو محنت کے عوض لیا جاتا ہے بلکہ امام رازی کی تفسیر سے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے اور میری تقسیم ہی ٹھیک قرار پاتی ہے صاحب مضمون والا احتمال بھی نہیں بلکہ میرے والا ہی صرف احتمال ہو سکتا ہے
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
محترم خضر حیات بھائی ایک ایک کر کے جواب دیتا چلوں

پہلا اشکال


اسکے بارے کچھ تو استادِ محترم عبد المنان نور پوری رحمہ اللہ نے اوپر جواب دے دیا تھا کچھ مفسریں کے اقوال کا جواب یہاں دینا ہے
اس کو سمجھنے کے لئے پہلے دیکھیں کہ اصل قیمت پر اضافہ کون کون سا ہو سکتا ہے اوپر پھر بعد میں دیکھیں گے کہ کون سا اضافہ کس نص کے تحت یا کس وجہ کے تحت حرام ہے تو میرے خیال میں دو وجوہات سے ہوتا ہے
1-ایک وقت کا خیال رکھے بغیر
2-دوسرا وقت کا خیال رکھتے ہوئے
اسکے کے علاوہ کوئی اور وجوہات یا صورتیں بن سکتی ہیں تو بتا دیں تاکہ انکو دیکھا جا سکے
میری اوپر کی تقسیم کرنے میں دو بڑی وجوہات شامل ہیں
1-سود کی علت والا معاملہ بھی حل ہو جاتا ہے
2-یہ بھی پتا تب ہی چل سکتا ہے کہ احل اللہ البیع و حرم الربوا میں معترضین کو کون سا سکیل دیا جائے گا تاکہ انکا اعتراض ختم ہو کیونکہ اگر ہم تقسیم اس طرح کریں کہ شروع اور بعد کا فرق بتائیں (جیسے محترم صاحب مضمون بھائی نے لکھا ہے کہ شروع میں طے جائز اور بعد میں ناجائز ) تو پھر معترضین یہ کہ سکتے ہیں کہ پھر اللہ نے جواب بغیر کسی سکیل کے کیوں دیا
اس موضوع پر میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں ۔ اس شرط پر کہ کوئی کاپی پیسٹ نہ کرے اور جواب بہت زیادہ طویل نہ ہوں ۔ کیا کوئی تیار ہے؟ میں قسطوں والی بیع کے جواز کا قائل ہوں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اس موضوع پر میں بھی بات کرنا چاہتا ہوں ۔ اس شرط پر کہ کوئی کاپی پیسٹ نہ کرے اور جواب بہت زیادہ طویل نہ ہوں ۔ کیا کوئی تیار ہے؟ میں قسطوں والی بیع کے جواز کا قائل ہوں ۔
یہ تو بہت اچھا ہوگیا ۔
عبدہ بھائی !
جواز کے قائلین کی طرف سے فیضی صاحب کو سمجھیں ۔
اور سرفراز بھائی امید ہے اب آپ کو ’’ کاپی پیسٹ ‘‘ کی شکایت نہیں ہوگی ۔
چونکہ میں اور عبدہ بھائی نے یہ طے کیا تھا کہ بحث و مباحثہ سے پہلے دونوں طرف سے ( قائلین جواز و قائلین عدم جواز ) ایک ایک عالم دین کا فتوی لگائیں گے ۔ ہم دونوں نے یہ ذمہ داری مکمل کرلی ہے ۔اب ان شاء اللہ افہام و تفہیم کے انداز میں فریقین کی رضامندی سے مکالمہ ہوگا ۔
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
یہ تو بہت اچھا ہوگیا ۔
عبدہ بھائی !
ہم دونوں نے یہ ذمہ داری مکمل کرلی ہے ۔اب ان شاء اللہ افہام و تفہیم کے انداز میں فریقین کی رضامندی سے مکالمہ ہوگا ۔
انشاءاللہ لیکن بشرط فرصت- چنانچہ امید ہے میرے محترم بھائی دیر پر ناراض نہیں ہوں گے کیونکہ میرے پاس ٹائم کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتا ہے اور میں نے بات زیادہ جگہ شروع کر دی ہے کچھ لوگوں سے باتوں کے جواب کافی دن سے میرے ذمے ہیں- ابھی تو محترم خضر حیات بھائی آپ والے بھی کچھ اشکالات کا جواب دینا ہے ایک ایک کر کے انشاء اللہ بات کریں گے
میری تجویز

اب آپ بھائیو کے سامنے ایک تجویز رکھنا چاہوں گا کہ میں بھی آگے اشکالات کے جواب نہیں دیتا پہلے اوپر دونوں فریقوں کے دلائل ایک ایک کر کے لیتے جاتے ہیں اور اس پر تمام بھائی اپنی رائے دیتے جاتے ہیں فیصلہ ہونے یا نہ ہونے کے بعد اگلی بات کی طرف متفقہ فیصلہ کر کے چلیں گے اس طرح جب اوپر والے اشکالات ختم ہوں گے تو باقی اشکالات پر بھی بات ہو جائے گی

اگر متفق ہیں تو آپ میں سے ہی کوئی عبد المنان پوری رحمہ اللہ کے دلائل یا دوسرے شیخ کے دلائل سے ایک بات بتا دیں اس کو لے کر چلتے ہیں
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو امین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ا
اگر متفق ہیں تو آپ میں سے ہی کوئی عبد المنان پوری رحمہ اللہ کے دلائل یا دوسرے شیخ کے دلائل سے ایک بات بتا دیں اس کو لے کر چلتے ہیں
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو امین
جی سرفراز فیضی صاحب ۔
 
شمولیت
مئی 23، 2012
پیغامات
110
ری ایکشن اسکور
83
پوائنٹ
70
ماشااللہ عبدہ بھائی بہت اچھا جواب دیا ہے۔اللہپاک آپکو جزائے خیر دے۔بھائی مگر آپنے سیخ البانی اور دیگر اہل علم کے اقوال کہاں سے لئے اسکا مکمل ریفرینس نہیں دیا ہے۔مہربانی کرکے وہ دے دیں جلد سے جلد مجھے اسکی اشد ضرورت ہے
اس عبارت کا ریفرینس چاہیے

محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں:وَقَدْ مَضٰی قَرِیْباً تَفْسِیْرُہ، بِمَا ذُکِرَ عَنْ سِمَاکٍ.وَکَذَا فَسَّرَہ، عَبْدُالْوَھَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، فَقَالَ:یَعْنِیْ یَقُوْلُ:ھُوَ لَکَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ، وَبِنَسِیْئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ.اھـ(٥/١٥١)پیچھے قریب ہی اس کی تفسیرمیں سماک کاقول ذکرہواہے ، اسی طرح عبدالوھاب بن عطاء نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا:''یعنی آدمی کہے:نقدآپ کے لئے دس میں ہے اورادھاربیس میں''۔
عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ''مصنف ''میں لکھتے ہیں:قَالَ الثَوْرِیُّ:إِذَا قُلْتَ:أَبِیْعُکَ بِالْنَقْدِ بِکَذَاوَبِالْنَّسِیْئَۃِ بِکَذَاوَکَذَا۔فَذَھَبَ بِہِ الْمُشْتَرِیُ فَھُوَ بِالْخِیَارِ فِیْ الْبَیْعَیْنِ مَا لَمْ یَکُنْ وَقَعَ بَیْعٌعَلٰی أَحَدِھِمَا،فَإِنْ وَقَعَ الْبَیْعُ ھٰکَذَا فَھٰذَا مَکْرُوْہٌ، وَھُوَ بَیْعَتَانِ فِیْ بَیْعَۃٍ ، وَہُوَمَرْدُوْدٌ وَہُوَ الَّذِیْ یُنْھٰی عَنْہُ ، فَإِذَ وَجَدَتَ مَتَاعَکَ بِعَیْنِہِ أَخَذْتَہُ ، وَإِنْ کَانَ قَدْ اسْتَھْلَکَ فَلَکَ أَوْکَسُ الْثَمَنَیْنِ ، وَأَبْعَدُ الْأَجَلَیْنِ۔ [٨/١٣٨(١٤٦٣٢)]
امام ثوری رحمہ اللہ نے کہا:جب آپ کہیں کہ ''نقد آپ کو اتنے میں دوں گا اور ادھار اتنے میں ''کوئی ایک صورت طے ہونے کے بغیر گاہک اگر وہ چیز لے جائے تو اسے اختیار ہے دو قیمتوں میں سے جو مرضی ادا کر دے لیکن اگر اس طرح بیع طے ہو جائے تو ایسی بیع مکروہ ہے اور ایک بیع میں دو بیعیں ہیں جو کہ مردود اور ممنوع ہے، اگر آپ کو اپنا سامان بعینہ مل جائے تو اسے لے لو اور اگر خراب ہو چکا ہو تو دو قیمتوں میں جو کم ہے وہ لیں گے اور ادائیگی کے دو اوقات میں سے جو زیادہ تاخیر والا وقت ہے اس وقت وصول کریں گے۔
وَ قَالَ عَبْدُالْرَّزَّاقِ:أَخْبَرَنَا إِسْرَائَیْلُ قَالَ:حَدَّثَنَا سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِالْرَّحْمٰنِ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ:لَا تَصْلُحُ الْصَّفْقَتَانِ فِیْ الْصَّفْقَۃِ أَنْ یَّقُوْلَ: ہُوَ بِالنَّسِیْئَۃِ بِکَذَا وَ کَذَا، وَ بِالنَّقْدِ بِکَذَا وَ کَذَا۔اہـ(٨/١٣٨) عبدالرزاق فرماتے ہیں :ہمیں اسرائیل نے خبر دی ،اس نے کہا ہمیں سماک بن حرب نے بیان کیا از عبدالرحمان بن عبداللہ کہ عبداللہ بن مسعودص نے فرمایا:ایک چیز کے دو سودے کرنا کہ ''ادھار اتنے کی اور نقد اتنے کی ہے '' درست نہیں۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں فرماتے ہیں:''قَوْلُہ،:مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ.فَسَّرَہ، سِمَاکٌ بِمَا رَوَاہُ الْمُصَنِّفُ عَنْ أَحْمَدَ عَنْہُ ، وَقَدْ وَافَقَہ، عَلٰی مِثْلِ ذٰلِکَ الشَّافِعِیُّ ، فَقَالَ:بِأَنْ یَّقُوْلَ: بِعْتُکَ بِأَلْفٍ نَقْداً أَوْ أَلْفَیْنِ إِلٰی سَنَۃٍ ، فَخُذْ أَیَّھُمَا شِئْتَ أَنْتَ ، وَشِئْتُ أَنَا ، وَنَقَلُ ابْنُ الرِّفْعَۃَ عَنِ الْقَاضِیْ أَنَّ الْمَسْأَلَۃَ مَفْرُوْضَۃٌ عَلٰی أَنَّہ، قَبِلَ عَلٰی الْإِبْھَامِ.أَمَّا لَوْ قَالَ:قَبِلْتُ بِأَلْفٍ نَقْداً ،أَوْ بِأَلْفِیْنِ بِالنَّسِیْئَۃِ صَحَّ ذٰلِکَ.وَقَدْ فَسَّرَ ذٰلِکَ الشَّافِعِیُّ بِتَفْسِیْرٍ آخَرَ ، فَقَالَ: ھُوَ أَنْ یَّقُوْلَ: بِعْتُکَ ذَا الْعَبْدَ بِأَلْفٍ عَلٰی أَنْ تَبِیْعَنِیْ دَارَکَ بِکَذَا.أَیْ إِذَا وَجَبَ لَکَ عِنْدِیْ وَجَبَ لِیْ عِنْدَکَ ، وَھٰذَا یَصْلُحُ تَفْسِیْرٌ لِلرِّوَایَۃِ الْأُخْرٰی مِنْ حَدِیثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، لَا لِلْأُوْلٰی فَإِنَّ قَوْلَہ،:فَلَہ، أَوْکَسُھُمَا.یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہ، بَاعَ الشَّیْیئَ الْوَاحِدَ بَیْعَتَینِ بَیْعَۃً بِأَقَلَّ و َبیْعَۃً بِأَکْثَرَ .وَقِیْلَ فِیْ تَفْسِیْرِ ذٰلِکَ:ھُوَ أَنْ یُّسْلِفَہ، دِیْنَاراً فِیْ قَفِیْزِ حِنْطَۃٍ إِلٰی شَھْرٍ ، فَلَمَّا حَلَّ الْأَجَلُ ، وَطَالَبَہ، بِالْحِنْطَۃِ قَالَ: بِعْنِیْ الْقَفِیْزَ الَّذِیْ لَکَ عَلَیَّ إِلٰی شَھْرَیْنِ بِقَفِیْزَیْنِ. فَصَارَ ذٰلِکَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ ؛ لِأَنَّ الْبَیْعَ الثَّانِیَ قَدْ دَخَلَ عَلٰی الْأَوَّلِ فَیَرُدُّ إِلَیْہِ أَوْکَسَھُمَا ، وَھُوَ الْأَوَّلُ. کَذَا فِیْ شَرْحِ السُّنَنِ لِابْنِ رَسْلَانَ.اھـ
[کتاب البیوع باب بیعتین فی بیعۃ ٥/٢٤٩]
حدیث(( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ))کی تفسیر سماک نے اسی طرح کی ہے جس طرح مصنف نے امام احمدکے واسطے سے سماک سے روایت کیا ہے۔ امام شافعی کا قول بھی ان کے موافق ہی ہے،امام شافعی فرماتے ہیں: کہ حدیث کا مطلب ہے کہ آدمی مثال کے طور پر کہےـ:''نقد ہزار کی اور ایک سال تک ادائیگی کر دو تو دو ہزارکی،جو آپ چاہتے ہیں وہ لے لیں اور جو میں چاہوں وہ لے لوں''۔
ابن رفعہ نے قاضی سے نقل کیا ہے کہ اس صورت میں جب بات مبہم اور غیر واضح ہو لیکن اگر وضاحت ہو جائے اور کہہ دے کہ: نقد ہزار کی مجھے منظورہے، یا ادھار دو ہزار کی مجھے قبول ہے تو ایسا کرنا صحیح ہے۔
ا س کی وضاحت امام شوکانی نے اور طرح بھی کی ہے کہ وہ کہے:یہ غلام میں تمہیں ایک ہزار میں فروخت کرتا ہوں بشرطیکہ تو اپنا گھر مجھے اتنی اتنی قیمت پر بیچے۔ یعنی جب غلام تیرا ہو جائے گا تو گھر میرا ہو جائے گا۔
یہ ابو ھریرہ کی دوسری روایت کی تفسیر تو بن سکتا ہے مگر پہلی روایت کی نہیں کیونکہ فَلَہُ أَوکَسُھُمَا(اس کےلئے کم قیمت لینا جائز ہے)کے الفاظ اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کی دو بیعیں کر رہا ہے:ایک بیع کی قیمت کم ہے جبکہ دوسری کی زیادہ ۔
 
Top