• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قسطوں پر فروخت اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا فتوی

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
اس کا حوالہ مل سکتا ہے؟
یہ لیجئے اس کا حوالہ ::
امام دارقطنی رحمہ اللہ اپنی کتاب ۔۔السنن ۔۔میں لکھتے ہیں :
عن عمرو بن الحريش , قال: سألت عبد الله بن عمرو , قلت: إنا بأرض ليس فيها دينار ولا درهم , وإنما نبتاع الإبل والغنم إلى أجل فما ترى في ذلك؟ , فقال: على الخبير سقطت , جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم إبلا من إبل الصدقة حتى نفدت وبقي أناس , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اشتر لي إبلا بقلائص من الصدقة إذا جاءت حتى تؤديها إليهم» , فاشتريت البعير بالاثنين والثلاث قلائص حتى فرغت , فأدى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم من إبل الصدقة >> ’’ سنن الدار قطنی۔۔3053 ۔۔۔مسند احمد :6593 )
عمرو بن حریش کہتے ہیں کہ : میں نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے پوچھا :
ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں نقدی یعنی درھم و دینار نہیں ہوتے،
ہم اونٹ اور بکریوں کا لین دین مقررہ مدت پر کرتے ہیں ،آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں :
عبد اللہ بن عمرو فرمانے لگے ،تو نے ٹھیک ،باخبر کے سامنے سوال رکھا ہے (یعنی میں اس مسئلہ کے شرعی حکم سے واقف ہوں )
جناب رسول صلى الله عليہ وسلم نے صدقہ کے اونٹوں سے ایک لشکر تیار کیا یہا ں تک کہ اونٹ ختم ہوگئے، لیکن کچھـ لوگ باقی رہ گئے، تو رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا: تم ہمارے لئے صدقہ کے اونٹوں کے بدلے میں کچھـ اونٹ خریدو جب تک صدقہ کے اونٹ نہ آ جائيں، تاکہ ہم وہاں سے اس کو ادا کر سکيں، اس نے كہا پھر میں نے ایک اونٹ يادو یا تین اونٹوں کے بدلے میں خریدا یہاں تک کہ لشکر تیار کرنے کی ذمہ داری کو میں نے پورا کیا، پھر جب صدقہ کے اونٹ آ گئے تب حضور صلى الله عليہ وسلم نے وہاں سے یہ سب ادا کر دیا۔ ‘‘

’’ فتاوى اللجنة الدائمة ‘‘ میں اس روایت کے متعلق لکھا ہے :
رواه الإمام أحمد في مسنده، وهذا لفظه ج2 ص171، ورواه أبو داود، والدارقطني وصححه وقال الحافظ ابن حجر: إسناده ثقات،
اس کو دار قطنی نے روایت کیا ہے اور اسے ۔صحیح ۔کہا ، اور حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ: اس کی سند ثقہ رواۃ پر مشتمل ہے ‘‘

اور علامہ البانی رحمہ اللہ ( إرواء الغليل 5-206 ) میں لکھتے ہیں :
أخرجه البيهقى والدارقطنى وعنه (5/287 ـ 288) شاهدا للطريق الأولى وذكر أنه " شاهد صحيح ".
وأقره ابن التركمانى فى " الجوهر النقى " بل تأوله , ولم يتعقبه بشىء كما هى عادته!
وأقره الحافظ فى " التلخيص " , وصرح فى " الدراية " (ص 288) بأن إسناده قوى.
قلت: وهو حسن الإسناد , للخلاف المعروف فى رواية عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده
 

مسلم صہیب

مبتدی
شمولیت
فروری 05، 2018
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سَلَامٌ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی
أَمَّا بَعْدُ
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ
جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ) ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھاچکا سو کھاچکا، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
سورت البقرہ 275

اس پوسٹ پر زیر بحث موضوع پر اب تک جتنے بھی دلائل دیے گئے سب موضوع سے ہٹ کر اور اکثر علما کے فتاویٰ ہیں جوکہ کبھی بھی دین نہیں بن سکتے ، میں ان شاء الله اس موضوع پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا اور ساتھ ان روایات کی نشاندھی بھی کروں گا جن کو اس پوسٹ پر لوگوں نے بے مقصد ہی لگا دیا ۔اس سے پہلے سود کو سمجھتے ہیں ۔ اوپر میں نے سورت البقرہ کی آیت درج کی جس میں سود کھانے والوں کے لئے سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ قارئین ! سود کی بنیادی تعریف سے تقریباً سب لوگ واقف ہیں لیکن چونکہ اس پوسٹ کا مقصد علم پھیلانا ہے لہذا ایک دفع تعریف لکھ دی جائے ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی بھی ایسا قرض جس میں اضافے کے ساتھ واپسی ہو تو وہ بغیر کسی اختلاف کے حرام ہے"

اسی طرح ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"سب اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر قرض خواہ مقروض سے اضافی رقم یا تحفے کی شرط لگائے اور قرض خواہ اسی شرط پر اسے قرضہ دے دے تو اضافی رقم کی وصولی عین سود ہو گی، نیز ابی بن کعب، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ: انہوں نے ہر ایسے قرض سے روکا ہے جو منافع سپر موقوف ہو" انتہی
"المغنی" (6/436)


اب ایک مسلمان کا کام تو یہی ہونا چاہئے کہ جب اللہ نے سود کو حرام کردیا تو اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ خواہ اسے سود اور تجارت کا فرق اور ان کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے تاہم جو لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے۔ اللہ نے انہیں انتہائی بدھو اور مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔ جنہیں کسی جن نے آسیب زدہ بنا دیا ہو اور وہ اپنی خود غرضی اور زر پرستی کی ہوس میں خبطی ہوگئے ہوں کہ انہیں تجارت اور سود کا فرق نظر ہی نہیں آرہا، چونکہ وہ اس زندگی میں باؤلے ہو رہے ہیں۔ لہذا وہ قیامت کے دن بھی اسی حالت میں اپنی قبروں سے اٹھیں گے۔

اوپر اکثر ممبران نے رضا مندی کو بھی اس حرام کام کو حلال کرنے کی دلیل بنانے کی کوشش کی ، جہاں تک باہمی رضا مندی کا تعلق ہے تو یہ شرط صرف حلال معاملات میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال اور جائز معاملات میں بھی اگر فریقین میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو وہ معاملہ حرام اور ناجائز ہوگا۔ جیسے تجارت میں مال بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی رضا مندی ضروری ہے ورنہ بیع فاسد اور ناجائز ہوگی۔ اسی طرح نکاح میں بھی فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔ لیکن یہ رضا مندی حرام کاموں کو حلال نہیں بناسکتی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت باہمی رضا مندی سے زنا کریں تو وہ جائز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی باہمی رضا مندی سے جوا جائز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سود بھی باہمی رضا مندی سے حلال اور جائز نہیں بن سکتا۔

قارئین ! دیکھیں ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ قرآن اور احادیث نبوی پر عمل کرنے کا دعوی کرتے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ اتنے اہم معاملے کو فتووں سے حل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں ۔

سود لینے والا کبھی سود دینے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ خواہ شرح سود کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ بلکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے کہیں سے قرض حسنہ مل جائے تو وہ کبھی سود پر رقم یا اشیاء لینے کو تیار نہ تھا۔
رہی یہ بات کہ تجارتی سود میں کسی فریق پر ظلم نہیں ہوتا۔ گویا یہ حضرات سود کی حرمت کی علت یا بنیادی سبب ظلم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصور ہی غلط ہے۔ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ الفاظ سودی معاملات اور معاہدات کو ختم کرنے کی ایک احسن صورت پیش کرتے ہیں یعنی نہ تو مقروض قرض خواہ کی اصل رقم بھی دبا کر اس پر ظلم کرے اور نہ قرض خواہ مقروض پر اصل کے علاوہ سود کا بوجھ بھی لاد دے۔ ان الفاظ کا اطلاق ہمارے ہاں اس وقت ہوگا جب ہم اپنے معاشرہ کو سود سے کلیتاً پاک کرنا چاہیں گے، یا نجی طور پر قرضہ کے فریقین سود کی لعنت سے اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہوں گے۔ سود کی حرمت کا بنیادی سبب ظلم نہیں بلکہ بیٹھے بٹھائے اپنے مال میں اضافہ کی وہ ہوس ہے جس سے ایک سرمایہ دار اپنی فاضل دولت میں طے شدہ منافع کی ضمانت سے یقینی اضافہ چاہتا ہے اور جس سے زر پرستی، سنگ دلی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ جنم لیتے ہیں۔

امام دارقطنی رحمہ اللہ اپنی کتاب ۔۔السنن ۔۔میں لکھتے ہیں :
عن عمرو بن الحريش , قال: سألت عبد الله بن عمرو , قلت: إنا بأرض ليس فيها دينار ولا درهم , وإنما نبتاع الإبل والغنم إلى أجل فما ترى في ذلك؟ , فقال: على الخبير سقطت , جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم إبلا من إبل الصدقة حتى نفدت وبقي أناس , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اشتر لي إبلا بقلائص من الصدقة إذا جاءت حتى تؤديها إليهم» , فاشتريت البعير بالاثنين والثلاث قلائص حتى فرغت , فأدى ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم من إبل الصدقة >> ’’ سنن الدار قطنی۔۔3053 ۔۔۔مسند احمد :6593 )
@اسحاق سلفی صاحب نے شاید یہ حدیث غور سے نہیں پڑھی ورنہ اسے یہاں نہ لکھتے ۔
میں اس کی سند پر بات نہیں کروں گا کیونکہ یہ اس موضوع پر دلالت ہی نہیں کرتی ۔
قارئین ! اس سوال کو پہلے سمجھیں جس کا جواب دیا گیا
عمرو بن حریش کہتے ہیں کہ : میں نے عبد اللہ بن عمرو ؓ سے پوچھا :
ہم ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں نقدی یعنی درھم و دینار نہیں ہوتے،ہم اونٹ اور بکریوں کا لین دین مقررہ مدت پر کرتے ہیں ،آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں

سب سے پہلے، یہ معاملہ ہی الگ ہے ، یہاں نقدی بھی موجود ہے، جبکہ روایت کے مطابق سائل کے ہاں نقدی کا نظام ہی نہیں تھا ،
دوسرا : صحابی کا جواب کہ "جناب رسول صلى الله عليہ وسلم نے صدقہ کے اونٹوں سے ایک لشکر تیار کیا یہا ں تک کہ اونٹ ختم ہوگئے، لیکن کچھـ لوگ باقی رہ گئے، تو رسول صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا: تم ہمارے لئے صدقہ کے اونٹوں کے بدلے میں کچھـ اونٹ خریدو جب تک صدقہ کے اونٹ نہ آ جائيں، تاکہ ہم وہاں سے اس کو ادا کر سکيں، اس نے كہا پھر میں نے ایک اونٹ يادو یا تین اونٹوں کے بدلے میں خریدا یہاں تک کہ لشکر تیار کرنے کی ذمہ داری کو میں نے پورا کیا، پھر جب صدقہ کے اونٹ آ گئے تب حضور صلى الله عليہ وسلم نے وہاں سے یہ سب ادا کر دیا۔ ‘‘

جناب سلفی صاحب ، صحابی کہتے ہیں "میں نے ایک اونٹ يادو یا تین اونٹوں کے بدلے میں خریدا یہاں تک کہ لشکر تیار کرنے کی ذمہ داری کو میں نے پورا کیا"
صحابی نے اونٹوں کے عوض خریدا ناکہ وقت کے حساب سے کہ اتنا وقت لگایا تو اتنے اونٹ ، دوسرا ، ایک ، دو یا تین اونٹوں کے بدلے ایک خریدنے کی وجہ اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے کہ وہ جو تین اونٹ دینے کی بات کرتے تھے وہ کمزور ہوتے تھے جبکہ جو ان تین کے بدلے ایک خریدا جاتا وہ صحت مند اونٹ ہوتا ہوگا . جب نقدی نہ ہو تو مال کو دیکھ کر تبادلہ ہوتا ہے ۔ اس روایت سے قسطوں پر رقم بڑھانے کی کوئی دلیل نہیں نکلتی. لہذا لوگوں کو گمراہ کرنے کی بجائے انھیں قرآن و سنت رسول کی خالص تعلیم دیجئے ۔
 
Last edited:

مسلم صہیب

مبتدی
شمولیت
فروری 05، 2018
پیغامات
3
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
السلام علیکم!

خیرــــــــــــ آج مجھے ایک بھائی نے فون کر کے شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اس سلسلہ میں فتوا بتا یا ، جو نچلی سطروں میں پیسٹ کر رہا ہوں ۔ اہل علم سے روشنی ڈالنے کی درخواست ہے۔

س 2: اُدھار فروخت کرتے وقت تاجر جو اپنی طرف سے قیمت ميں زیادتی کردیتا ہے، کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ مثال کے طور پر ایک چیز اگر نقد خریدی جائے تو اس کی قیمت پانچ سو درھم ہے، اور اگر اسی کو اُدھار اور قسطوں میں خريدی جائے، تو اس کی قیمت کے ساتھـ پانچ یا دس فیصد اس کی قیمت پر بڑھادی جاتی ہے، تو کیا یہ زیادتی سود میں شمار ہوگی یا نہیں؟ ہم آنجناب سے مع دلیل اطمینان بخش جواب کے متمنی ہیں؟ ج 2: جب سامانِ تجارت ادھار کی شکل ميں اپنے مارکيٹ ريٹ سے بڑھا کر فروخت کیا جائے، اور فروخت کے وقت بڑھائی گئی رقم کے ساتھـ ادھار قيمت کی تعیین ہوجائے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ایک مدت کے بعد اس کی یکمشت ادائیگی ہو یا پھر ماہانہ قسطوں میں ایک متعین مدت تک ادا کیا جائے، چنانچہ صحيحين میں حضرت عائشہ رضی الله عنها سے مروی ہے، فرماتی ہیں کہ:
حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے اپنے آپ کو اپنے آقا سے نو اوقیہ کے عوض خریدلیا، جس کی ادائیگی سالانہ ایک اوقیہ تھی۔

( جلد کا نمبر 13; صفحہ 91)
اور یہ ماہواری قسطوں میں کئے جانے والا معاملہ ہے۔ وباللہ التوفیق۔ وصلی اللہ علی نبینا محمد، وآلھ وصحبھ وسلم۔علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ماخذ کا ربط
سب سے پہلے یہ محض ایک فتویٰ ہے اور دین نہیں ہے ۔ خیر اصل دیکھنے کی چیز دلیل ہے جوشیخ صاحب نے درج کی ہے ۔ سب سے پہلے پوری حدیث پڑھتے ہیں تاکہ آئندہ کی بات سمجھ آ سکے ۔
حدثنا إسماعيل، ‏‏‏‏‏‏حدثنا مالك، ‏‏‏‏‏‏عن هشام بن عروة، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه، ‏‏‏‏‏‏عن عائشة، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ جاءتني بريرة، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ كاتبت اهلي على تسع اواق في كل عام اوقية، ‏‏‏‏‏‏فاعينيني، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ إن احبوا ان اعدها لهم ويكون ولاؤك لي، ‏‏‏‏‏‏فعلت، ‏‏‏‏‏‏فذهبت بريرة إلى اهلها، ‏‏‏‏‏‏فقالت لهم، ‏‏‏‏‏‏فابوا عليها، ‏‏‏‏‏‏فجاءت من عندهم ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ إني قد عرضت ذلك عليهم، ‏‏‏‏‏‏فابوا إلا ان يكون الولاء لهم، ‏‏‏‏‏‏فسمع النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فاخبرت عائشة النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ خذيها واشترطي لهم الولاء، ‏‏‏‏‏‏فإنما الولاء لمن اعتق، ‏‏‏‏‏‏ففعلت عائشة، ‏‏‏‏‏‏ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس، ‏‏‏‏‏‏فحمد الله واثنى عليه، ‏‏‏‏‏‏ثم قال:‏‏‏‏ "ما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، ‏‏‏‏‏‏ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل، ‏‏‏‏‏‏وإن كان مائة شرط قضاء الله احق وشرط الله اوثق، ‏‏‏‏‏‏وإنما الولاء لمن اعتق".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہو گا۔ آپ بھی میری مدد کیجئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں ایک دم انہیں اتنی قیمت ادا کر سکتی ہوں۔ لیکن تمہاری ولاء میری ہو گی۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے یہاں گئیں اور ان سے اس صورت کا ذکر کیا لیکن انہوں نے ولاء کے لیے انکار کیا۔ جب وہ ان کے یہاں سے واپس ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ صورت رکھی تھی، لیکن وہ کہتے تھے کہ ولاء انہیں کی ہو گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات سنی اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو انہیں خرید لے اور انہیں ولاء کی شرط لگانے دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہو سکتی ہے جو آزاد کرے۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہیں ہے ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرطیں ہی پائیدار ہیں اور ولاء تو اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا۔

صحيح بخاري ،كتاب الشروط، بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْوَلاَءِ ،
حدیث نمبر:2729

اس حدیث سے ایک اور بات پتا چلی کہ "ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل
یعنی

ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔
تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ بیع میں مدت کا مقرر کرنا صحیح ہے یعنی دوسرے الفاظ میں بیع کو قسطوں پر کرنا جائز ہے لیکن اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ قسطوں کی وجہ سے قیمت بڑھا لی جائے گی ۔
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ
جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ) ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھاچکا سو کھاچکا، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
سورت البقرہ 275
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی بھی ایسا قرض جس میں اضافے کے ساتھ واپسی ہو تو وہ بغیر کسی اختلاف کے حرام ہے"
اسی طرح ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"سب اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر قرض خواہ مقروض سے اضافی رقم یا تحفے کی شرط لگائے اور قرض خواہ اسی شرط پر اسے قرضہ دے دے تو اضافی رقم کی وصولی عین سود ہو گی، نیز ابی بن کعب، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ: انہوں نے ہر ایسے قرض سے روکا ہے جو منافع سپر موقوف ہو" انتہی
"المغنی" (6/436)
اب ایک مسلمان کا کام تو یہی ہونا چاہئے کہ جب اللہ نے سود کو حرام کردیا تو اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ خواہ اسے سود اور تجارت کا فرق اور ان کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے تاہم جو لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے۔ اللہ نے انہیں انتہائی بدھو اور مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔ جنہیں کسی جن نے آسیب زدہ بنا دیا ہو اور وہ اپنی خود غرضی اور زر پرستی کی ہوس میں خبطی ہوگئے ہوں کہ انہیں تجارت اور سود کا فرق نظر ہی نہیں آرہا، چونکہ وہ اس زندگی میں باؤلے ہو رہے ہیں۔ لہذا وہ قیامت کے دن بھی اسی حالت میں اپنی قبروں سے اٹھیں گے۔
جہاں تک باہمی رضا مندی کا تعلق ہے تو یہ شرط صرف حلال معاملات میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال اور جائز معاملات میں بھی اگر فریقین میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو وہ معاملہ حرام اور ناجائز ہوگا۔ جیسے تجارت میں مال بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی رضا مندی ضروری ہے ورنہ بیع فاسد اور ناجائز ہوگی۔ اسی طرح نکاح میں بھی فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔ لیکن یہ رضا مندی حرام کاموں کو حلال نہیں بناسکتی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت باہمی رضا مندی سے زنا کریں تو وہ جائز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی باہمی رضا مندی سے جوا جائز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سود بھی باہمی رضا مندی سے حلال اور جائز نہیں بن سکتا۔
سود لینے والا کبھی سود دینے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ خواہ شرح سود کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ بلکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے کہیں سے قرض حسنہ مل جائے تو وہ کبھی سود پر رقم یا لینے کو تیار نہ تھا۔
رہی یہ بات کہ تجارتی سود میں کسی فریق پر ظلم نہیں ہوتا۔ گویا یہ حضرات سود کی حرمت کی علت یا بنیادی سبب ظلم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصور ہی غلط ہے۔ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ الفاظ سودی معاملات اور معاہدات کو ختم کرنے کی ایک احسن صورت پیش کرتے ہیں یعنی نہ تو مقروض قرض خواہ کی اصل رقم بھی دبا کر اس پر ظلم کرے اور نہ قرض خواہ مقروض پر اصل کے علاوہ سود کا بوجھ بھی لاد دے۔ ان الفاظ کا اطلاق ہمارے ہاں اس وقت ہوگا جب ہم اپنے معاشرہ کو سود سے کلیتاً پاک کرنا چاہیں گے، یا نجی طور پر قرضہ کے فریقین سود کی لعنت سے اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہوں گے۔ سود کی حرمت کا بنیادی سبب ظلم نہیں بلکہ بیٹھے بٹھائے اپنے مال میں اضافہ کی وہ ہوس ہے جس سے ایک سرمایہ دار اپنی فاضل دولت میں طے شدہ منافع کی ضمانت سے یقینی اضافہ چاہتا ہے اور جس سے زر پرستی، سنگ دلی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ جنم لیتے ہیں۔
واللہ اعلم
 
Last edited:

فلک شیر

رکن
شمولیت
ستمبر 24، 2013
پیغامات
186
ری ایکشن اسکور
100
پوائنٹ
81
سب سے پہلے یہ محض ایک فتویٰ ہے اور دین نہیں ہے ۔ خیر اصل دیکھنے کی چیز دلیل ہے جوشیخ صاحب نے درج کی ہے ۔ سب سے پہلے پوری حدیث پڑھتے ہیں تاکہ آئندہ کی بات سمجھ آ سکے ۔
حدثنا إسماعيل، ‏‏‏‏‏‏حدثنا مالك، ‏‏‏‏‏‏عن هشام بن عروة، ‏‏‏‏‏‏عن ابيه، ‏‏‏‏‏‏عن عائشة، ‏‏‏‏‏‏قالت:‏‏‏‏ جاءتني بريرة، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ كاتبت اهلي على تسع اواق في كل عام اوقية، ‏‏‏‏‏‏فاعينيني، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ إن احبوا ان اعدها لهم ويكون ولاؤك لي، ‏‏‏‏‏‏فعلت، ‏‏‏‏‏‏فذهبت بريرة إلى اهلها، ‏‏‏‏‏‏فقالت لهم، ‏‏‏‏‏‏فابوا عليها، ‏‏‏‏‏‏فجاءت من عندهم ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس، ‏‏‏‏‏‏فقالت:‏‏‏‏ إني قد عرضت ذلك عليهم، ‏‏‏‏‏‏فابوا إلا ان يكون الولاء لهم، ‏‏‏‏‏‏فسمع النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فاخبرت عائشة النبي صلى الله عليه وسلم، ‏‏‏‏‏‏فقال:‏‏‏‏ خذيها واشترطي لهم الولاء، ‏‏‏‏‏‏فإنما الولاء لمن اعتق، ‏‏‏‏‏‏ففعلت عائشة، ‏‏‏‏‏‏ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم في الناس، ‏‏‏‏‏‏فحمد الله واثنى عليه، ‏‏‏‏‏‏ثم قال:‏‏‏‏ "ما بال رجال يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، ‏‏‏‏‏‏ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل، ‏‏‏‏‏‏وإن كان مائة شرط قضاء الله احق وشرط الله اوثق، ‏‏‏‏‏‏وإنما الولاء لمن اعتق".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے ہشام بن عروہ سے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے پاس بریرہ رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں کہ میں نے اپنے مالک سے نو اوقیہ چاندی پر مکاتبت کر لی ہے، ہر سال ایک اوقیہ دینا ہو گا۔ آپ بھی میری مدد کیجئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہارے مالک چاہیں تو میں ایک دم انہیں اتنی قیمت ادا کر سکتی ہوں۔ لیکن تمہاری ولاء میری ہو گی۔ بریرہ رضی اللہ عنہا اپنے مالکوں کے یہاں گئیں اور ان سے اس صورت کا ذکر کیا لیکن انہوں نے ولاء کے لیے انکار کیا۔ جب وہ ان کے یہاں سے واپس ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں کے سامنے یہ صورت رکھی تھی، لیکن وہ کہتے تھے کہ ولاء انہیں کی ہو گی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات سنی اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو انہیں خرید لے اور انہیں ولاء کی شرط لگانے دے۔ ولاء تو اسی کے ساتھ قائم ہو سکتی ہے جو آزاد کرے۔ چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ میں گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ کچھ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں لگاتے ہیں جن کا کوئی پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہیں ہے ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔ اللہ کا فیصلہ ہی حق ہے اور اللہ کی شرطیں ہی پائیدار ہیں اور ولاء تو اسی کو ملے گی جو آزاد کرے گا۔

صحيح بخاري ،كتاب الشروط، بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْوَلاَءِ ،
حدیث نمبر:2729

اس حدیث سے ایک اور بات پتا چلی کہ "ما كان من شرط ليس في كتاب الله فهو باطل
یعنی

ایسی کوئی بھی شرط جس کا پتہ (سند، دلیل) کتاب اللہ میں نہ ہو باطل ہے خواہ سو شرطیں کیوں نہ لگالی جائیں۔
تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ بیع میں مدت کا مقرر کرنا صحیح ہے یعنی دوسرے الفاظ میں بیع کو قسطوں پر کرنا جائز ہے لیکن اس سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ قسطوں کی وجہ سے قیمت بڑھا لی جائے گی ۔
اَلَّذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا يَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِيْ يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِكَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ۭ فَمَنْ جَاۗءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَ ۭ وَاَمْرُهٗٓ اِلَى اللّٰهِ ۭ وَمَنْ عَادَ فَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ
جو لوگ سود کھاتے ہیں۔ وہ یوں کھڑے ہوں گے۔ جیسے شیطان نے کسی شخص کو چھو کر اسے مخبوط الحواس بنا دیا ہو۔ اس کی وجہ ان کا یہ قول (نظریہ) ہے کہ تجارت بھی تو آخر سود ہی کی طرح ہے۔ حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ اب جس شخص کو اس کے پروردگار سے یہ نصیحت پہنچ گئی اور وہ سود سے رک گیا تو پہلے جو سود وہ کھاچکا سو کھاچکا، اس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔ مگر جو پھر بھی سود کھائے تو یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
سورت البقرہ 275
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی بھی ایسا قرض جس میں اضافے کے ساتھ واپسی ہو تو وہ بغیر کسی اختلاف کے حرام ہے"
اسی طرح ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"سب اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر قرض خواہ مقروض سے اضافی رقم یا تحفے کی شرط لگائے اور قرض خواہ اسی شرط پر اسے قرضہ دے دے تو اضافی رقم کی وصولی عین سود ہو گی، نیز ابی بن کعب، ابن عباس اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے منقول ہے کہ: انہوں نے ہر ایسے قرض سے روکا ہے جو منافع سپر موقوف ہو" انتہی
"المغنی" (6/436)
اب ایک مسلمان کا کام تو یہی ہونا چاہئے کہ جب اللہ نے سود کو حرام کردیا تو اس کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ خواہ اسے سود اور تجارت کا فرق اور ان کی حکمت سمجھ آئے یا نہ آئے تاہم جو لوگ یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ تجارت بھی سود ہی کی طرح ہے۔ اللہ نے انہیں انتہائی بدھو اور مخبوط الحواس قرار دیا ہے۔ جنہیں کسی جن نے آسیب زدہ بنا دیا ہو اور وہ اپنی خود غرضی اور زر پرستی کی ہوس میں خبطی ہوگئے ہوں کہ انہیں تجارت اور سود کا فرق نظر ہی نہیں آرہا، چونکہ وہ اس زندگی میں باؤلے ہو رہے ہیں۔ لہذا وہ قیامت کے دن بھی اسی حالت میں اپنی قبروں سے اٹھیں گے۔
جہاں تک باہمی رضا مندی کا تعلق ہے تو یہ شرط صرف حلال معاملات میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حلال اور جائز معاملات میں بھی اگر فریقین میں سے کوئی ایک راضی نہ ہو تو وہ معاملہ حرام اور ناجائز ہوگا۔ جیسے تجارت میں مال بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کی رضا مندی ضروری ہے ورنہ بیع فاسد اور ناجائز ہوگی۔ اسی طرح نکاح میں بھی فریقین کی رضا مندی ضروری ہے۔ لیکن یہ رضا مندی حرام کاموں کو حلال نہیں بناسکتی۔ اگر ایک مرد اور ایک عورت باہمی رضا مندی سے زنا کریں تو وہ جائز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی باہمی رضا مندی سے جوا جائز ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سود بھی باہمی رضا مندی سے حلال اور جائز نہیں بن سکتا۔
سود لینے والا کبھی سود دینے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ خواہ شرح سود کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ بلکہ یہ اس کی مجبوری ہوتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر اسے کہیں سے قرض حسنہ مل جائے تو وہ کبھی سود پر رقم یا لینے کو تیار نہ تھا۔
رہی یہ بات کہ تجارتی سود میں کسی فریق پر ظلم نہیں ہوتا۔ گویا یہ حضرات سود کی حرمت کی علت یا بنیادی سبب ظلم قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ تصور ہی غلط ہے۔ آیت کے سیاق و سباق سے واضح ہے کہ یہ الفاظ سودی معاملات اور معاہدات کو ختم کرنے کی ایک احسن صورت پیش کرتے ہیں یعنی نہ تو مقروض قرض خواہ کی اصل رقم بھی دبا کر اس پر ظلم کرے اور نہ قرض خواہ مقروض پر اصل کے علاوہ سود کا بوجھ بھی لاد دے۔ ان الفاظ کا اطلاق ہمارے ہاں اس وقت ہوگا جب ہم اپنے معاشرہ کو سود سے کلیتاً پاک کرنا چاہیں گے، یا نجی طور پر قرضہ کے فریقین سود کی لعنت سے اپنے آپ کو بچانے پر آمادہ ہوں گے۔ سود کی حرمت کا بنیادی سبب ظلم نہیں بلکہ بیٹھے بٹھائے اپنے مال میں اضافہ کی وہ ہوس ہے جس سے ایک سرمایہ دار اپنی فاضل دولت میں طے شدہ منافع کی ضمانت سے یقینی اضافہ چاہتا ہے اور جس سے زر پرستی، سنگ دلی اور بخل جیسے اخلاق رذیلہ جنم لیتے ہیں۔
واللہ اعلم
کس کی بات دلیل ہے اور کس کی نہیں !
کس کا فتوا دین ہے اور کس کے لیے ؟
کوئی آخر کسی کے فہم دین کو مانے اور کس کے فہم دین کو نہ مانے !
شیخ ابن باز کا فہم دین قابل اعتماد ہے یا آپ کا ؟ (توہین و تضحیک مقصود نہیں اس سے)
اس سب میں ایک عامی کہاں جائے اور کس کی مانے!
اللہ تعالیٰ ہی رحمت فرمائے
 
Top