• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قسطوں پر کاروبار کا حکم

رانا ابوبکر

رکن نگران سیکشن
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 24، 2011
پیغامات
2,075
ری ایکشن اسکور
3,040
پوائنٹ
432
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آپ کا مضمون نما مکمل اور مدلل جواب مارچ ۹۷ کے مجلہ میں پڑھا جو کہ اسٹیٹ لائف انشورنش کمپنی کے بارے میں تھا ۔ آج سے کوئی سات آٹھ سال قبل میں بھی اسی طرح کے دلائل اور کئی ایک مولانا کے بیانات سے بھرا ہوا کتابچہ پڑھ کر اور متاثر ہو کر بیمہ کرا کر پھنس گیا تھا مگر گذشتہ سال ۱۹۹۶ء کے مجلہ میں سے ایک مجلہ میں سوال وجواب کے کالم میں بیمہ کے بارے میں جواب ملا پھر اس کے بعد میں نے اس کمپنی کو چھوڑ دیا اور الحمد ﷲ کافی سے زیادہ مطمئن ہوں۔
جناب حافظ صاحب آپ بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں اللہ آپ کو مزید توفیق دے (آمین) ایک اسی نوعیت کے مسئلہ کے حل کے بارے میں آپ کو زحمت دینی تھی میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس طرح کا مکمل جواب عنایت فرما کر مزید زیادہ شاکر ہونے کا موقع دیں گے۔ (1) ہمارے علاقہ کے آڑھتی صاحب اور بڑے زمیندار لوگ چھوٹے اور غریب کسانوں کو کھاد اور زرعی ادویات فصل کے قرضہ پر دیتے ہیں ان کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہوتا ہے ہے کہ مثلاً اگر ایک گٹو کھاد کا نقد روپے دے کر خریدا جائے تو اس کے وہ /۳۰۰ روپے وصول کریں گے اور اگر ادھار یعنی موجودہ فصل کاٹ کر آپ کو رقم لوٹا دیں گے جوکہ پانچ چھ ماہ کا عرصہ ہوتا ہے تو وہ اس کسان کے کھاتہ میں /۳۵۰ روپے وصول کرتے ہیں اسی طرح زرعی ادویہ کا ہے کہ اگر ایک لیٹر کی دوا /۵۰۰ روپے نقد ہے تو ادھار میں وہی دوا /۶۵۰ روپے کی ملتی ہے آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ آیا کہ یہ جو اضافی رقم ادھار کے ساتھ وصول کرتے ہیں کیا یہ مجبوری سے فائدہ اٹھا کر (سود) میں شامل نہیں ہو جاتی ۔ جبکہ ان سے بحث کرنے پر وہ کہتے ہیں کہ (سود) پیسے کے لین دین میں ہوتا ہے اس میں ایک طرف جنس ہے اور دوسری طرف روپے۔ اس کی مثال وہ ایک پلاٹ کی دیتے ہیں کہ آپ نے ایک پلاٹ لاکھ میں خریدا ایک سال بعد آپ کا وہی پلاٹ سوا لاکھ میں فروخت ہوتا ہے آیا وہ اوپر والی رقم کیا سود ہو گی۔ جو یقینا نہیں ہے اس طرح وہ اس کو کاروباری منافع سمجھتے ہیں اور جائز قرار دیتے ہیں ہمارے امام مسجد صاحب سے معلوم کیا انہوں نے اس کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ زیادتی منافع ہے سود نہیں ہے اسلام میں بیع جائز ہے نہ کہ سود ۔ آپ سے گذارش ہے کہ آپ اس معاملہ میں میری ضرور رہنمائی فرمائیں گے ؟ اللہ آپ کو جزائے خیر کثیر عطا فرمائے (آمین) (2) قسطوں والے کاروبار کی اسلام میں کیا نوعیت ہے وہ بھی اسی طرح ایک ہزار کی چیز قسط وار کچھ عرصہ بعد چودہ سو میں واپسی ہوتی ہے؟
 
Top