قسطوں کے کارو بار کے جواز کے دلائل کا تجزیہ
مقالہ نگار: حافظ عبد المنان نور پوری حفظہ اللہ تعالى
از حافظ عبد المنان نورپوری بطرف جناب بشیر أحمد سیالکوٹی
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ:
أمابعد!میں نے آپ کے مجلہ '' نداء الإسلام '' کے سال چہارم کے پہلے شمارہ کامطالعہ کیا،اس میں مَیں نے جناب دکتور حسین مطاوع الترتوری-حَفِظَہُ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ، وَبَارَکَ فِیْ عِلْمِہِ وَعَمَلِہٖ ، وَ وَفَّقَنَا وَإِیَّاہُ لِمَا یُحِبُّہ، وَیَرْضَاہُ-کامضمون''قسطوں کی بیع''پڑھا ،جس میں انہوں نے قسطوں کی بیع کوجائزقراردیاہے۔چنانچہ اس مضمون کی فصل ''مُنَاقَشَۃُ الْأَدِلَّۃِ وَ بَیَانُ الرَّاجِحِ''(دلائل کامناقشہ اورراجح چیز کابیان)میں فرماتے ہیں:
راجح- واللہ أعلم -یہی ہے کہ قسطوں کی بیع جائزہے خواہ اُس میں قیمت زیادہ ہی دینی پڑے؛بشرطیکہ خریدوفروخت کے وقت شروع میں ہی یہ بات ہوجائے (کہ پیسے تاخیرسے دینے ہیں اوراتنی مقدارمیں دینے ہیں)۔ترتوری صاحب مضمون کے آخر میں فرماتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ قسطوںکی بیع جائزہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صاحبِ مضمون کے دلائل :
صاحبِ مضمون نے اپنے دعوٰی کے اِثبات کے لئے مندرجہ ذیل چند دلائل بھی پیش کئے ہیں:
١-اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:(وَ أَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ ).(اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت حلال کی ہے۔ ) (البقرۃ:٢٧٥)کے تحت قسطوں کی بیع بھی داخل ہے۔
٢-اللہ تعالیٰ کے فرمان:(یَآ أَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَینَکُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ).(اے ایمان والو!اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے نہ کھاؤ،مگریہ کہ باہم رضامندی سے تجارت ہو۔)(النساء: ٢٩)کے تحت بھی داخل ہے۔
٣-نبیﷺ کی حدیث:((لَایَحِلُّ مَالُ امْرِیئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا عَنْ طِیْبِ نَفْسٍ)).(کسی مسلمان کامال جائزنہیں مگر اُس کی خوشنودی سے [مستدرک علی الصحیحین للحاکم کتاب العلم(٣١٨) سنن دارقطنی کتاب البیوع (٩٢) ]سے بھی قسطوں کی بیع کی اجازت ہے۔
٤-اصل میں تمام معاملات،لین دین جائزہیں جب تک کوئی منع کی دلیل واردنہ ہو،اورجوآدمی کہتاہے کہ قسطوں کی بیع جائزنہیں اُس کے پاس کوئی ایسی دلیل موجودنہیں جس سے قسطوں کی بیع کی ممانعت نکلتی ہو۔
٥-لوگوں کوایک چیزکی ضرورت ہواورنقدپیسے نہ ہوں توآسان قسطوں پرچیزکواس کے ریٹ سے مہنگاخریدلینے میں ان کوکوئی دشواری نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے:(وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ ).(اللہ تعالیٰ نے دین میں تم پرکوئی تنگی نہیں ڈالی۔)[الحج :٧٨]اورفرماتاہے:(یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ).(اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتاہے اورتمہارے ساتھ تنگی نہیں چاہتا۔)[ البقرۃ :١٨٥]
٦-اس وقت ایسے محسنوں کی کمی ہے جواپنے ضرورت مندبھائیوں کوقرضِ حسنہ دے سکیں۔
٧-اس سے ُسود کا دروازہ بندہوگا؛کیونکہ ایک آدمی کوجب ایک چیزکی ضرورت ہواوراس کے پاس اسے خریدنے کے لئے پیسے نہ ہوں،نہ ہی کوئی قسطوں پربیچنے کے لئے تیارہوتواُسے وہ چیزخریدنے کے لئے سود پرپیسے لینے پڑیں گے۔
٨-قیمت میں اضافہ کاجوازتاخیرکابدل ومعاوضہ ہے۔
دلائل کاتجزیہ:
ان آٹھ دلائل میں کوئی دلیل بھی ایسی نہیں،نہ ہی کوئی اوردلیل ایسی ہے جوصاحبِ مضمون کے دعوٰی''قسطوں کی بیع کے جواز''کوثابت کرسکے۔
''١،٢،٣''(پہلے تین دلائل تواس لئے دلیل نہیں بنتے کہ غیرشرعی خریدوفروخت اورتجارتیں سرے سے ان تینوں دلائل کے عموم میں داخل ہی نہیں،اوراگرداخل ہیں توشریعت نے ان عمومی دلائل سے نکال کران کابطورِخاص الگ حکم بتایاہے؛ورنہ لازم آئے گاکہ ان کے ساتھ:
(ا)شراب اورخنزیرکی خریدوفروخت۔
(ب)گندم کی خریدوفروخت برابروزن سے ،ایک جانب سے نقداوردوسری جانب سے ادھار۔
(ج)دونوں جانب سے گندم نقدہولیکن ایک فریق زیادہ لے۔
(د)ایک فریق کم لے اوردوسرازائدلے جبکہ ایک اُدھارکرے۔
تویہ اوراس طرح دوسری بیوع اورتجارتیں اگررضامندی سے ہوجائیں توجائزہونی چاہئیں؟لیکن ظاہرہے کہ سودہیں،توقسطوں کی بیع بھی صرف رضامندی کی وجہ سے کیسے جائزہوگئی؟
صاحبِ مضمون بھی اس طرح کی خریدوفروخت اور تجارت کواِس بنا پرجائز قرار نہیں دیتے کہ یہ اِن دلائل کے عموم کے تحت داخل ہیں؛ اس لئے کہ شریعت نے اِن کواوراس طرح کی دوسری بیوع اورتجارات کوحرام قراردیاہے۔اورقسطوں کی بیع بھی انہی بیوع میں سے ہے جنہیں شریعت نے حرام کیاہے کیونکہ اس میں زیادہ منافع صرف تاخیر کی وجہ سے لیاجاتاہے۔اورصرف تاخیرِوقت کامنافع شریعت میں جائزنہیں،جس طرح سود (قرض کے سود اوربیع کے سود)کی حرمت کے بہت سے دلائل سے سمجھ آتاہے۔پھرقسطوں کی بیع ان بیوع سے ہے جن پرنبی ﷺ کایہ فرمان صادق آتاہے:
( یہ مسئلہ آگے آرہا ہے ، إِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی).(( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہ، أَوْکَسُھُمَا أَوِالرِّبَا)).
(جس نے ایک بیع(چیزِ فروخت)کے دو بھاؤ لگائے تواس کےلئے کم ریٹ اور بھاؤ لینا جائز ہے اور اگر زیادہ لیا تو سود ہوگا ۔)
لہٰذا ان تین اور ان کے علاوہ دوسرے دلائل سے قسطوں کی بیع کے جواز پر استدلال کرنا درست نہیں ۔
٤-چو تھی دلیل اس لئے نہیں بنتی کہ یہاں قسطوں کی بیع کی ممانعت کی مضبوط دلیل موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ قسطوں کی بیع کا انحصار اس پر ہے کہ اس میں صرف تاخیر اور دیر سے ادائیگی کرنے پر منافع لیا جاتا ہے اور یہ ایسی بیوع سے ہے جن پر نبیؐ کا یہ قول: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) .صادق آتا ہے
٥-پانچویں پیش کردہ دلیل اس لئے صحیح نہیں کہ اس سے شریعت میں ہر حرام کردہ چیزاس وجہ سے جائز اور حلال ٹھہرے گی کہ لوگوں کو اس کی ضرورت ہے مثلاً:
کسی آدمی کو ایک چیز کی ضرورت ہو لیکن خریدنے کیلئے پیسے نقد موجود نہیں ،وہ کسی آدمی سے پیسے لے کر چیز خرید لے اور بعد میں اسے پیسے واپس کرے تو اضافی رقم بھی ادا کرے اور یہ معاملہ اورلین دین سود کے باوجود حلال ٹھہرے گا ؟''نہیں'' ''ہر گز نہیں''۔لہٰذا اصل یہی ہے کہ جو چیز شریعت نے حرام کی ہے وہ حرام ہی ہے لوگوں کو اس کی ضرورت پڑے یا نہ پڑے ، چیز خریدنے کےلئے نقد قیمت ملے یا نہ ملے ۔اور قسطوں کی بیع حرام بیوع سے ہے ، یہ رفع حرج اور ارادهء یُسرکے قاعدہ(کہ شریعت میں تنگی نہیں آسانی ہے)کے زمرے میں نہیں آتی۔جن کے پاس نقد قیمت موجود ہے اور جن کے پاس موجود نہیں سب پر لازم ہے کہ حلال کو لازم پکڑیں اور حرام سے اجتناب کریں ،جوآدمی حلال لیناچاہے وہ حرام سے بچ جاتا ہے نبیﷺنے فرمایا:
اور اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:((وَمَنْ یَّسْتَعِفَّ یُعِفَّہُ اللّٰہُ ، وَمَنْ یَّسْتَغْنِ یُغْنِہُ اللّٰہُ))
(جو پاکدامنی اختیار کرنا چاہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے پاکدامن بنا دیتا ہے اور جو حرام سے بچنا چاہے اللہ سبحانہ وتعالیٰ اسے حرام سے بچا لیتا ہے۔) [بخاری کتاب الزکاۃباب لا صدقۃ إلاعن ظہر غنا(١٤٢٨) مسلم کتاب الزکاۃ باب فضل التعفف والصبر(١٠٥٣)]
لہٰذا اللہ تعالیٰ کے یہ فرامین: (وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِیْ الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ)[الحج :٧٨]۔ اور (یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ)۔[ البقرۃ :١٨٥] اللہ اوراس کے رسول کی حرام کردہ چیزوں کودفعِ حرج اور رفعِ عُسر(تنگی اوراٹھانااوردورکرنا)کے دعوٰ ی سے حلال نہیں کرتے،ورنہ لازم آئے گاکہ ہرحرام حلال ہوجائے اوریہ ٹھیک نہیں۔(وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہ، مَخْرَجاً . وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہ، إِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ أَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْراً)۔
(جو اللہ تعالیٰ سے ڈر ے وہ اس کےلئے کوئی نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں سے اسے امید بھی نہیں ہوتی اور جو اللہ پر بھروسہ کر لے تو وہ اُسے کافی ہو جاتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ اپنے کام کو پورا کرتا ہے ، اور اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ لگا رکھا ہے۔)[الطلاق :٣]
٦-چھٹی دلیل بھی صحیح نہیں؛کیونکہ اسے صحیح ماننے سے شریعت کی ہرحرام کردہ چیزاس علت اوروجہ سے حلال ٹھہرے گی کہ جی!ایسے محسنین کی کمی ہے جولوگوں کواپنے مال بطورقرض حسنہ دیں۔اوریہ علت بھی کمزورہے۔
٧-ساتویں دلیل سے بھی ''قسطوںکی بیع کاجواز''ثابت نہیں ہوتا؛اس لئے کہ:
(ا)- ''قسطوں کی بیع''سودی بیع ہے جس میں زائدمنافع ادائیگی کی تاخیرکی وجہ سے ہوتاہے جوکہ شریعت میں سودکہلاتاہے۔
(ب)-نبی ﷺ نے فرمایا:
((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔
دراصل قسطوں کی بیع میں تھوڑے درہم یا دینار کی زیادہ کے بدلے بیع (خرید و فروخت)ہوتی ہے اور سودا توواضح طور پرحیلہ ہے ۔ (یہ مسئلہ إِنْ شَآ ءَ اللّٰہ تَعَالٰی آگے آرہا ہے)
لہٰذا پتہ چلاکہ قسطوں کی بیع سے سود کا راستہ بند نہیں ہوتا بلکہ یہ سود کا بہت بڑا دروازہ خوب کھول دیتی ہے۔
٨-آٹھویں دلیل سے صاحب مقال کا دعوٰی اسلئے ثابت نہیں ہوتا کہ ذکر کردہ دلیل : '' قیمت میں تاخیرکے عوض اضافہ کا جواز ''
نہ قرآن سے ثابت ہے نہ نبی ﷺ کی کسی حدیث سے بلکہ یہ صرف دعوٰی ہے ۔ہاں! یہ ضرور ثابت ہے کہ قیمت مؤجل ہونے کی بناء پر نفع لینا (اور اس میں زائد قیمت بھی آگئی)جائز نہیں ۔ اورسود کی حرمت کے بہت سارے دلائل اس پر دلالت کرتے ہیں۔
ادائیگی کی تاخیر، وجہ سودنہیں
جو لوگ ''قسطوں کی بیع'' کو اس وجہ سے سودی بیع کہتے ہیں کہ اس میں صرف ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے پیسے زیادہ لئے جاتے ہیں ۔ اس کا جواب دیتے ہوئے صاحبِ مضمون کہتے ہیں:
یہ استدلال صحیح نہیں ،اسلئے کہ بیع شروع سے ہی معین قیمت پر ہوئی ہے کہ اتنے عرصے میں ادائیگی ہوگی اور اتنا ریٹ ہے۔ دوسرے ریٹ کی بات کی ہی نہیں ہوئی۔اور ایسا جب فریقین کی رضا مندی سے طے ہو جائے تو جائز ہے۔
جواب
اس کے کئی جواب ہیں:
١-صاحبِ مضمون پہلے خود ''قسطوں کی بیع''کی اہم خصوصیات میں بیان کر چکے ہیں کہ
(ا) ١-سامان (قابل فروخت) فوری دیا جائے گا۔ ٢-قیمت مؤجل ہوگی اور قسطوں میں دی جائیگی۔ ٣-قیمت میں اضافہ تاخیرکاعوض ہے۔
(ب)پھر یہ بھی کہہ کر آئے ہیں کہ تیسری بات (قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیرہے)میں اختلاف ہے۔
(ج) پھر کہتے ہیں کہ ''قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیر ہے'' کو جائزقرار دینے والوں کی دلیل یہی ہے کہ قیمت میں اضافہ تاخیر کی نظیرہے۔
آپکو یہ معلوم ہو چکا ہے کہ صاحبِ مضمون نے اپنے ان تینوں اقوال میں''قسطوں کی بیع میں'' قیمت میں اضافہ کو تاخیرِ ادائیگی کاعوض وبدل ٹھہرایا ہے لیکن اب کہہ رہے ہیں کہ
''قیمت جو طے ہو رہی ہے وہ سامان (قابل فروخت)کی پوری قیمت ہے''
ان کے پچھلے تین اقوال اور اس قول میں واضح تضاد ہے،کیونکہ جب قیمت سامان کی پوری قیمت بن رہی ہو تو پھر '' قیمت میں اضافہ تاخیر کاعوض وبدل ہے''باقی نہیں رہتا ۔اور جب''قیمت میں اضافہ تاخیرکاعوض وبدل ہو''سامان فروخت کی قیمت اس کی پوری قیمت نہیں ہو سکتی۔یہ بالکل واضح بات ہے جسے ذہین اورکند ذہن سبھی جانتے ہيں۔
٢-دوسرا جواب یہ ہے کہ جب ساری قیمت جو قسطوںمیں قابل ادا ہے سامان کی کل قیمت ہے اور ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا تو پھر تو یہ بیع ''قسطوں کی بیع'' رہتی ہی نہیں (کیونکہ قسطوں کی بیع میں تاخیر ادائیگی کی وجہ سے پیسے زیادہ دینے پڑتے ہیں)اور جب یہ صورت ''قسطوں کی بیع'' والی بنتی ہی نہیں تو صاحب مضمون کا یہ جواب اسے سود کہنے والوں کےلئے جواب نہیں بنتا۔
٣-اگر قسطوں میں ادا ہونے والی رقم سامان ِ فروخت کی کل قیمت ہے اور تاخیر ادائیگی کی وجہ سے ریٹ نہیں بڑھایا گیا تو اگر یکبارگی ساری رقم ادا کر دی جائے تو ریٹ کم نہیں ہونا چاہئے!جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔
٤-''قیمت(قابل ادا)کو سامان کی مکمل اور پوری قیمت کہنا''اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ'' شروع سے ایک معین ریٹ ہی طے پایا تھا لیکن ابتدامیں ایساہو جانے سے وہ بیع صحیح نہیں ہو جاتی! دیکھئے:
ایک آدمی دوسرے سے کہتا ہے:میں تجھے یہ''درھم'' ''ایک درھم اور چوتھا ئی درھم ''کے عوض ادھار بیچتا ہوں (جبکہ قیمت میں دونوں برابر ہوں)۔
یا کہتا ہے:میں تمہیں یہ سودا دو درھم میں ادھار بیچتا ہوں (جبکہ نقداً اس سودے کی قیمت دو درھم سے کم ہو)اور دوسرا آدمی کہہ دے:
'' مجھے یہ بیع اور سود اقبول ہے'' اس سے ''درہم اور چوتھائی درہم''ایک درہم کی پوری قیمت نہیں بنتی۔نہ ہی دو درہم سامان کی پوری قیمت بنتے ہیں(بالکل قیمت زیادہ ہے) یہ اضافی ریٹ ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے ہے ۔تو اب یہ بیع اس دلیل سے جائز نہیں ہو جائیگی کہ''بیع ابتداء ہی سے معین ریٹ پر ہوئی تو کل قیمت سامان کی پوری قیمت ہی ہے''۔
٥-شریعت جو ''نقد درھم کی ادھار درھم سے بیع''کو سود قرار دیتی ہے ''قسطوں کی بیع'' کو بالأولیٰ سود قرار دیتی ہے کیونکہ اس میں تو ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت زیادہ لی جاتی ہے جبکہ ''نقد درھم کی ادھار درھم سے بیع'' میں قیمت بھی زیادہ نہیں لی جاتی اور پھر بھی سود ٹھہرتا ہے۔اسی طرح جب شریعت میں ''نقد گندم کی ادھار جو سے بیع'' سود ہے تو قسطوں کی بیع بالأولیٰ سود ہے ۔لہٰذا واضح ہو گیا کہ قسطوں کی بیع سودکی ایک شکل ہی ہے ۔(وَأَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبَا).اور اللہ نے بیع کو حلال اور سود کو حرام کیا ہے۔
٦-صاحبِ مضمون کی یہ بات :''یہ جائزہے جب بیع(فریقین کی )رضامندی سے ہوئی ہو''کوئی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ ''قسطوں کی بیع''سودی بیع ہے (جیساکہ پہلے گزرچکاہے اورآگے بھی یہ بات إِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی آرہی ہے)اورسود جب قرآن وحدیث کی نصوص سے ناجائزاورحرام ہے توفریقین کی رضامندی سوداورسودی بیوع (جن میں قسطوں کی بیع بھی شامل ہے)کوجائزاورحلال نہیں کرسکتی۔
حدیثِ ''مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ ''الخ کے تین معانی
صاحبِ مضمون کہتے ہیں:''اس طرح ان (قسطوں کی بیع کوحرام کہنے والوں)کااس حدیث:
((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔
سے استدلال قسطوں کی بیع-جس میں اضافی رقم دیناپڑتی ہے- پرمنطبق نہیں ہوتاکیونکہ حدیث سے مندرجہ ذیل تین معانی میں سے ایک معنی مرادہے اورتین میں قسطوں کی بیع شامل نہیں۔
(١)ایک بیع میں دوبیعوں سے مراد''بیع عِینہ ''ہے جس کامطلب ہے کہ ایک آدمی دوسرے کو کوئی چیزفروخت کرتاہے اورادائیگی کاوقت معینہ مدت تک طے ہوجاتاہے،پھروہ چیزخریدنے والے سے نقدرقم پرکم قیمت میں خریدلیتاہے۔
(٢)بعض نے کہاہے:اس کامطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیزدومرتبہ فروخت ہوتی ہے جیسے:ایک آدمی ایک مہینہ ادھارپرکوئی چیزبیچتاہے،جب ادائیگی کاوقت آتاہے، خریدارکے پاس قیمت موجودنہیں ہوتی،فروخت کنندہ اس پراورپیسے چڑھادیتاہے،اسے دوبارہ نئے سرے سے نئی قیمت پربیچتاہے اورادئیگی کی پہلی رقم اس کے ذمہ بدستورقائم رہتی ہے۔
(٣)بعض کہتے ہیں:حدیث کامعنی یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کوکوئی چیزفروخت کرے اورساتھ شرط لگائے کہ خریداربھی اسے کوئی دوسری چیز فروخت کرے۔
جواب
میں کہتاہوں اس کے کئی جواب ہیں:
جواب نمبر١-یہ حدیث:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔صرف ایک،دو،تین یاچار،پانچ کوشامل نہیں بلکہ ہراس بیع کوشامل ہے جس میں دوبیعیں کی جائیں۔اوریہ بالکل واضح بات ہے جوکسی اہل علم سے مخفی نہیں؛لہٰذا صاحبِ مضمون کایہ کہناکہ یہ حدیث''قسطوں کی بیع(جس میں اضافی رقم دیناپڑتی ہے)پرمنطبق نہیں ہوتی''صحیح نہیں،کیونکہ اس بات کی بنیاداِس نظریہ اورفکرپرہے کہ حدیث صرف مذکورہ تین معانی پرہی منحصرہے،حالانکہ حدیث میں کوئی قصرہے نہ حصر،جیساکہ آپ معلوم کرچکے ہیں۔
جواب نمبر٢-صاحبِ مضمون نے حدیث کوتین معانی میں بندکرکے رکھ دیاہے،یہ بات کسی اہلِ علم سے ثابت نہیں،ہاں!بعض نے اس سے صرف ''بیع عِینہ''مرادلی ہے جیسا کہ آگے إِنْ شَآءَ اللّٰہُ تَعَالٰی آرہاہے؛بلکہ کئی علماء نے ''کوئی چیزنقدکم قیمت پراورادھارزیادہ قیمت پربیچنے ''کوہی ایک بیع میں دوبیعیں قراردیاہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب جامع ترمذی میں فرماتے ہیں:
''وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَھْلِ الْعِلْمِ قَالُوْا:بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ أَنْ یَّقُوْلَ:أَبِیْعُکَ ھٰذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ ، وَ بِنَسِیْئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ.وَلَایُفَارِقُہ، عَلٰی أَحَدِ الْبَیْعَیْنِ ، فَاِذَا فَارَقَہ، عَلٰی أَحَدِھِمَا فَلَا بَأْسَ إِذَا کَانَتِ الْعُقْدَۃُ عَلٰی وَاحِدٍ مِّنْھُمَا''.اھـ[أبواب البیوع عن رسول اللہ باب ماجاء فی النہی عن بیعتین فی بیعۃ]
محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں:وَقَدْ مَضٰی قَرِیْباً تَفْسِیْرُہ، بِمَا ذُکِرَ عَنْ سِمَاکٍ.وَکَذَا فَسَّرَہ، عَبْدُالْوَھَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، فَقَالَ:یَعْنِیْ یَقُوْلُ:ھُوَ لَکَ بِنَقْدٍ بِعَشْرَۃٍ، وَبِنَسِیْئَۃٍ بِعِشْرِیْنَ.اھـ(٥/١٥١)''بعض اہل علم نے وضاحت کی ہے کہ ایک بیع میں دوبیعیں یہ ہیں کہ آدمی ایک ہی مجلس میں کہے:میں یہ کپڑاآپ کونقددس درھم میں دیتاہوں اورادھاربیس درھم میں''لیکن اگرصرف ایک ہی قیمت (دس درھم)یا(بیس درھم)کہے اورسوداہوجائے اوربائع ومشتری جدا جدا ہوجائیں توپھرکوئی حرج نہیں۔
عبدالرزاق رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب ''مصنف ''میں لکھتے ہیں:پیچھے قریب ہی اس کی تفسیرمیں سماک کاقول ذکرہواہے ، اسی طرح عبدالوھاب بن عطاء نے اس کی تشریح کرتے ہوئے کہا:''یعنی آدمی کہے:نقدآپ کے لئے دس میں ہے اورادھاربیس میں''۔
قَالَ الثَوْرِیُّ:إِذَا قُلْتَ:أَبِیْعُکَ بِالْنَقْدِ بِکَذَاوَبِالْنَّسِیْئَۃِ بِکَذَاوَکَذَا۔فَذَھَبَ بِہِ الْمُشْتَرِیُ فَھُوَ بِالْخِیَارِ فِیْ الْبَیْعَیْنِ مَا لَمْ یَکُنْ وَقَعَ بَیْعٌعَلٰی أَحَدِھِمَا،فَإِنْ وَقَعَ الْبَیْعُ ھٰکَذَا فَھٰذَا مَکْرُوْہٌ، وَھُوَ بَیْعَتَانِ فِیْ بَیْعَۃٍ ، وَہُوَمَرْدُوْدٌ وَہُوَ الَّذِیْ یُنْھٰی عَنْہُ ، فَإِذَ وَجَدَتَ مَتَاعَکَ بِعَیْنِہِ أَخَذْتَہُ ، وَإِنْ کَانَ قَدْ اسْتَھْلَکَ فَلَکَ أَوْکَسُ الْثَمَنَیْنِ ، وَأَبْعَدُ الْأَجَلَیْنِ۔ [٨/١٣٨(١٤٦٣٢)]
وَ قَالَ عَبْدُالْرَّزَّاقِ:أَخْبَرَنَا إِسْرَائَیْلُ قَالَ:حَدَّثَنَا سِمَاکُ بْنُ حَرْبٍ عَنْ عَبْدِالْرَّحْمٰنِ ابْنِ عَبْدِاللّٰہِ عَنْ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ:لَا تَصْلُحُ الْصَّفْقَتَانِ فِیْ الْصَّفْقَۃِ أَنْ یَّقُوْلَ: ہُوَ بِالنَّسِیْئَۃِ بِکَذَا وَ کَذَا، وَ بِالنَّقْدِ بِکَذَا وَ کَذَا۔اہـ(٨/١٣٨)امام ثوری رحمہ اللہ نے کہا:جب آپ کہیں کہ ''نقد آپ کو اتنے میں دوں گا اور ادھار اتنے میں ''کوئی ایک صورت طے ہونے کے بغیر گاہک اگر وہ چیز لے جائے تو اسے اختیار ہے دو قیمتوں میں سے جو مرضی ادا کر دے لیکن اگر اس طرح بیع طے ہو جائے تو ایسی بیع مکروہ ہے اور ایک بیع میں دو بیعیں ہیں جو کہ مردود اور ممنوع ہے، اگر آپ کو اپنا سامان بعینہ مل جائے تو اسے لے لو اور اگر خراب ہو چکا ہو تو دو قیمتوں میں جو کم ہے وہ لیں گے اور ادائیگی کے دو اوقات میں سے جو زیادہ تاخیر والا وقت ہے اس وقت وصول کریں گے۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں فرماتے ہیں:عبدالرزاق فرماتے ہیں :ہمیں اسرائیل نے خبر دی ،اس نے کہا ہمیں سماک بن حرب نے بیان کیا از عبدالرحمان بن عبداللہ کہ عبداللہ بن مسعودص نے فرمایا:ایک چیز کے دو سودے کرنا کہ ''ادھار اتنے کی اور نقد اتنے کی ہے '' درست نہیں۔
''قَوْلُہ،:مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ.فَسَّرَہ، سِمَاکٌ بِمَا رَوَاہُ الْمُصَنِّفُ عَنْ أَحْمَدَ عَنْہُ ، وَقَدْ وَافَقَہ، عَلٰی مِثْلِ ذٰلِکَ الشَّافِعِیُّ ، فَقَالَ:بِأَنْ یَّقُوْلَ: بِعْتُکَ بِأَلْفٍ نَقْداً أَوْ أَلْفَیْنِ إِلٰی سَنَۃٍ ، فَخُذْ أَیَّھُمَا شِئْتَ أَنْتَ ، وَشِئْتُ أَنَا ، وَنَقَلُ ابْنُ الرِّفْعَۃَ عَنِ الْقَاضِیْ أَنَّ الْمَسْأَلَۃَ مَفْرُوْضَۃٌ عَلٰی أَنَّہ، قَبِلَ عَلٰی الْإِبْھَامِ.أَمَّا لَوْ قَالَ:قَبِلْتُ بِأَلْفٍ نَقْداً ،أَوْ بِأَلْفِیْنِ بِالنَّسِیْئَۃِ صَحَّ ذٰلِکَ.وَقَدْ فَسَّرَ ذٰلِکَ الشَّافِعِیُّ بِتَفْسِیْرٍ آخَرَ ، فَقَالَ: ھُوَ أَنْ یَّقُوْلَ: بِعْتُکَ ذَا الْعَبْدَ بِأَلْفٍ عَلٰی أَنْ تَبِیْعَنِیْ دَارَکَ بِکَذَا.أَیْ إِذَا وَجَبَ لَکَ عِنْدِیْ وَجَبَ لِیْ عِنْدَکَ ، وَھٰذَا یَصْلُحُ تَفْسِیْرٌ لِلرِّوَایَۃِ الْأُخْرٰی مِنْ حَدِیثِ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ، لَا لِلْأُوْلٰی فَإِنَّ قَوْلَہ،:فَلَہ، أَوْکَسُھُمَا.یَدُلُّ عَلٰی أَنَّہ، بَاعَ الشَّیْیئَ الْوَاحِدَ بَیْعَتَینِ بَیْعَۃً بِأَقَلَّ و َبیْعَۃً بِأَکْثَرَ .وَقِیْلَ فِیْ تَفْسِیْرِ ذٰلِکَ:ھُوَ أَنْ یُّسْلِفَہ، دِیْنَاراً فِیْ قَفِیْزِ حِنْطَۃٍ إِلٰی شَھْرٍ ، فَلَمَّا حَلَّ الْأَجَلُ ، وَطَالَبَہ، بِالْحِنْطَۃِ قَالَ: بِعْنِیْ الْقَفِیْزَ الَّذِیْ لَکَ عَلَیَّ إِلٰی شَھْرَیْنِ بِقَفِیْزَیْنِ. فَصَارَ ذٰلِکَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ ؛ لِأَنَّ الْبَیْعَ الثَّانِیَ قَدْ دَخَلَ عَلٰی الْأَوَّلِ فَیَرُدُّ إِلَیْہِ أَوْکَسَھُمَا ، وَھُوَ الْأَوَّلُ. کَذَا فِیْ شَرْحِ السُّنَنِ لِابْنِ رَسْلَانَ.اھـ [کتاب البیوع باب بیعتین فی بیعۃ ٥/٢٤٩]
حدیث کے الفاظ :''فلَہ، أَوْکَسُھُمَا''کامطلب ہے دونوں قیمتوںمیں کم درجہ کی قیمت۔حدیث(( مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ))کی تفسیر سماک نے اسی طرح کی ہے جس طرح مصنف نے امام احمدکے واسطے سے سماک سے روایت کیا ہے۔ امام شافعی کا قول بھی ان کے موافق ہی ہے،امام شافعی فرماتے ہیں: کہ حدیث کا مطلب ہے کہ آدمی مثال کے طور پر کہےـ:''نقد ہزار کی اور ایک سال تک ادائیگی کر دو تو دو ہزارکی،جو آپ چاہتے ہیں وہ لے لیں اور جو میں چاہوں وہ لے لوں''۔
ابن رفعہ نے قاضی سے نقل کیا ہے کہ اس صورت میں جب بات مبہم اور غیر واضح ہو لیکن اگر وضاحت ہو جائے اور کہہ دے کہ: نقد ہزار کی مجھے منظورہے، یا ادھار دو ہزار کی مجھے قبول ہے تو ایسا کرنا صحیح ہے۔
ا س کی وضاحت امام شوکانی نے اور طرح بھی کی ہے کہ وہ کہے:یہ غلام میں تمہیں ایک ہزار میں فروخت کرتا ہوں بشرطیکہ تو اپنا گھر مجھے اتنی اتنی قیمت پر بیچے۔ یعنی جب غلام تیرا ہو جائے گا تو گھر میرا ہو جائے گا۔
یہ ابو ھریرہ کی دوسری روایت کی تفسیر تو بن سکتا ہے مگر پہلی روایت کی نہیں کیونکہ فَلَہُ أَوکَسُھُمَا(اس کےلئے کم قیمت لینا جائز ہے)کے الفاظ اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ وہ ایک ہی چیز کی دو بیعیں کر رہا ہے:ایک بیع کی قیمت کم ہے جبکہ دوسری کی زیادہ ۔
اس کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ: اس کا مطلب ہے کہ ایک آدمی کسی کو ایک دینار ادھار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ مہینے بعد مجھے اس کے بدلے ایک قفیز گندم دے دینا ، وقت آنے پر وہ اس گندم کا مطالبہ کرتا ہے تو وہ کہتا ہے:آپکا جو ایک قفیز میرے ذمہ ہے وہ مجھے بیچ دو اور دو مہینے بعد دو قفیز مجھ سے لے لےنا۔
یہ ایک بیع میں دو بیعیں ہیں کیونکہ دوسری بیع پہلی بیع پر داخل ہوئی ہے ۔تو خریدار دو قیمتوں میں سے کم قیمت ہی ادا کرے گا اور وہ وہی پہلی (ایک قفیز ہی) ہے، شرح السنن لابن رسلان میں اسی طرح ہے ۔ امام شوکانی کی بات ختم ہوئی۔
علامہ خطابی فرماتے ہیں:
لَا أَعْلَمُ أَحَداً قَالَ بِظَاھِرِ الْحَدِیثِ ، وَصَحَّحَ الْبَیْعَ بِأَوْکَسِ الثَّمَنَیْنِ إِلَّا مَا حُکِیَ عَنِ الأَوْزَاعِیِّ ، وَھُوَ مَذْھَبٌ فَاسِدٌ.اھـ[تحفۃ الأحوذی شرح جامع الترمذی لأبی العلا المبارکفوری أبواب البیوع باب ماجاء فی النہی عن بیعتین فی بیعۃ ٤/٣٥٩]
یہ توواضح ہے کہ امام اوزاعی نے جوفرمایا حدیث کے الفاظ سے ظاہرہے؛کیونکہ ''فَلَہ، أَوْکَسُھُمَا'' کایہی تقاضاہے کہ دوقیمتوںمیں سے کم قیمت لیناجائزہے۔میں کسی کونہیں جانتاجس نے حدیث کے ظاہرالفاظ کوسامنے رکھ کر''دو قیمتوںمیں سے کم قیمت والی بیع ''کوصحیح قراردیامگرامام اوزاعی اسے صحیح کہتے ہیں اورامام اوزاعی کایہ نظریہ فاسدہے۔انتہیٰ
قَوْلُہ،: ((أَوِ الرِّبَا)).یَعْنِیْ أَوْ یَکُوْنُ قَدْ دَخَلَ ھُوَ وَصَاحِبُہ، فِی الرِّبَا الْمُحَرَّمِ إِذَا لَمْ یَأْخُذِ الْأَوْکَسَ ، بَلْ أَخَذَ الْأَکْثَرَ ، وَذٰلِکَ ظَاھِرٌ فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہ، ابْنُ رَسْلَانَ ، وَأَمَّا فِی التَّفْسِیْرِ الَّذِیْ ذَکَرَہ، أَحْمَدُ عَنْ سِمَاکٍ ، وَذَکَرَہ، الشَّافِعِیُّ فَفِیْہِ مُتَمَسَّکٌ لِمَنْ قَالَ:یَحْرُمُ بَیْعُ الشَّیئِ بِأَکْثَرَ مِنْ سِعْرِ یَوْمِہٖ لِأَجْلِ النَّسَأ ِ.اھـ[تحفۃ الأحوذی شرح جامع الترمذی لأبی العلا المبارکفوری أبواب البیوع باب ماجاء فی النہی عن بیعتین فی بیعۃ ٤/٣٥٩].
حدیث کے الفاظ: (( أوِالرِّبَا)) یعنی دوقیمتوںمیں سے ''کم قیمت''کی بجائے اگر''زیادہ قیمت''لے لے توبائع اورمشتری دونوں حرام سودمیں داخل ہوجاتے ہیں۔یہ بات ابن رسلان کی بیان کردہ تفسیرمیں واضح ہے۔رہی وہ تفسیرجوامام احمد نے سماک سے ذکرکی ہے اورامام شافعی نے بھی ذکرکی ہے تواس سے اس آدمی کے قول کوتقویت ملتی ہے جوکہتاہے''کسی چیزکوادھارکی وجہ سے اس کی موجودہ قیمت سے زیادہ پربیچناحرام ہے۔
ہماری ان نقل کردہ عبارات سے معلوم ہوا کہ بیع کی یہ شکل ''نقد دس کی،ادھار پندرہ کی'' نبی ﷺ کی اس حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) .میں شامل ہے۔اور بلاشبہ ''قسطوں کی بیع جس میں تاخیرِ ادائیگی کی وجہ سے قیمت زیادہ کی جاتی ہے ''اسی سے ہے۔ اور صاحب مضمون ان صورتوں میں جن پر حدیث منطبق ہوتی ہے اِس صورت کا ذکر چھوڑ گئے ہیں۔
پھر ان کی یہ بات ''یہ حدیث قسطوں والی بیع پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ حدیث کا ان تینوں معانی -جن میں قسطوں والی بیع جس میں قیمت بڑھائی جاتی ہے شامل نہیں-میں سے ہی کوئی معنیٰ مراد ہے''فقہ و انصاف سے بالکل عاری ہے ۔
جواب نمبر٣-آپ یہ دیکھ چکے ہیں کہ صاحب مضمون نے کہا :بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو کوئی چیز اس شرط پر فروخت کرے کہ خریدار اسے کوئی دوسری چیزفروخت کرے۔
حالانکہ پہلے یہ کہہ کر آئے ہیں کہ: حدیث سے تین معانی میں سے ہی کوئی ایک معنٰی مراد ہے ۔ توتاکیداً لکھ رہے ہیں کہ یہ صورت بھی حدیث :((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . کے تحت داخل ہے ۔
پہلے آپ امام شافعی کی تفسیر جو امام شوکانی نے نقل کی ہے بھی جان چکے ہیں کہ:میں تمہیں یہ غلام ایک ہزار کا اس شرط پر فروخت کرتا ہوں کہ تم مجھے اپنا گھر اتنے میں فروخت کرو ۔ پھرامام شوکانی نے فرمایاکہ یہ ابوھریرہ کی دوسری روایت:نَہَی النَّبِیُّ ؐ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ. (رسول اللہ ﷺ نے ایک بیع میں دوبیعوں سے منع فرمایا ) کی تفسیر بنتی ہے پہلی روایت کی نہیں ۔ کیونکہ یہ الفاظ ''فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا'' اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نے ایک چیز کی دو بیعیں کیں ایک کم قیمت پر، دوسری زیادہ پر -
تو تین صورتوں میں سے آخری تیسری صورت جس پر حدیث : ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . صاحب مضمون کے ہاں منطبق ہوتی ہے لیکن یہ حدیث ان الفاظ سے اس صورت پر منطبق نہیں ہوتی۔
جواب نمبر٤- بیع عینہ-ایک شخص کا دوسرے سے کوئی سامان ادھار خریدنا ،پھر فروخت کنندہ کا خریدار سے نقد اً اُسے کم قیمت پر لے لینا - بھی ان صورتوں سے نہیں جن پر حدیث (( فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)).صادق آتی ہے کیونکہ حدیث میں ربا(سود)اضافی قیمت والی بیع کوکہاگیاہے،کم قیمت والی بیع کونہیں؛جبکہ بیع عینہ میں معاملہ اس کے برعکس ہے ،اس لئے کہ اس میں کم قیمت پرخریدناحرام ہے،زیادہ قیمت پرخریدناحرام نہیں۔اور اس لئے بھی کہ حدیث اس صورت کاذکرکررہی ہے جس میں بائع ایک ہی چیز کی دوبیعیں کرتاہے:ایک کم قیمت والی اوردوسری زیادہ قیمت والی،جبکہ بیع عینہ میں ایسی صورت نہیں۔
جواب نمبر٥-جب دو صورتیں''بیع عینہ اوربیع بشرطِ بیع ''صاحب مضمون کی حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔ کے مصداق میں ذکرکردہ تین صورتوں سے نکل گئیں توتین میں سے ایک صورت باقی رہ گئی جس کوحدیث شامل ہے اوروہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کوکوئی چیزایک مہینہ کے ادھارپرفروخت کرتاہے،جب ادائیگی کاوقت آتاہے خریدارکے پاس قیمت موجودنہیں ہوتی،توبائع مشتری پرمزیدبوجھ اس طرح ڈالتاہے کہ وہی سامان اُسے دوبارہ نئی قیمت اورنئے ادھارپرفروخت کرتاہے جبکہ پہلی قیمت بدستوراُس پرواجب الأداء رہتی ہے۔تواِس صورت میں''دوسری بیع''صاحبِ مضمون کے نزدیک بھی سودہے۔اورجودلیل اِس دوسری بیع کوسود ٹھہراتی ہے وہ بعینہٖ ان دو بیعوںمیں سے پہلی بیع کو سُود ٹھہراتی ہے جب اِس میں نقدکی قیمت سے زیادہ قیمت ہو۔
اسی طرح بعینہٖ یہ دلیل قسطوں کی بیع کوبھی سود ٹھہراتی ہے کیونکہ قسطوں کی بیع دو بیعوںمیں سے پہلی بیع ہے ،جب اس میں نقدکی قیمت سے زیادہ قیمت ہو۔یہ صورت بقیہ ایک صورت جیسی ہی ہے جو حدیث کے منطوق میں آتی ہے۔ہاں!اتنافرق ہے کہ قسطوں کی بیع میں ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت قسطوں کی شکل میں اداکرناہوتی ہے،اورحکماًدونوںصورتیں ایک ہی ہیں۔اس فرق سے حکم میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ توکیاوجہ ہے کہ صاحب مضمون دوسری نئی بیع کوتوحرام اورسود قراردیتے ہیں اورپہلی بیع خواہ نقدقیمت سے مہنگی ہو،اسی طرح قسطوں کی بیع کوسودقرارنہیں دیتے ہیں؟
اگرتووہ کہتے ہیں:قسطوں کی بیع میں ساری قیمت سامان کے مماثل اوراُس کی پوری قیمت ہے اورپہلی بیع دوسری نئی بیع کے علاوہ ہے توہم کہتے ہیں کہ یہ محض دعوٰی ہے ،حالانکہ صورت مذکورہ میں''قسطوںکی بیع ،پہلی بیع اوردوسری نئی بیع کے درمیان کوئی فرق نہیں؛کیونکہ دوسری نئی بیع میں ساری قیمت جب سامانِ فروخت کی مماثل نہیں-کیونکہ تاخیرِ ادائیگی کی وجہ سے قیمت بڑھائی جارہی ہے-توقسطوں کی بیع اورپہلی بیع میں بھی تمام قیمت سامانِ فروخت کے مماثل نہیں کیونکہ ان میں بھی زیادہ قیمت لینے کادارومدارتاخیرِادائیگی پرہے۔
چندفوائد
فائدہ أولیٰ:اکثرعلماء نے ایک بیع میں دوبیعوں کی ممانعت کی وجہ معاملہ کے مبہم اورمجہول ہونے کوٹھہرایاہے۔یہ بات ان اقوال سے ظاہر ہے جوشوکانی نے نیل الأوطارمیں اوردوسرے علماء نے اپنی کتابوںمیں ذکرکئے ہیں۔''ایک بیع میں دوبیعوں''کی بعض صورتوںمیں یہ وجہ ہوسکتی ہے لیکن اس حدیث:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا))۔میں منع کی علت یہ وجہ نہیں بلکہ اس میں ممانعت کی وجہ اس کاسودہوناہے جیساکہ نبی ﷺ نے اس کی وضاحت کی ہے۔
فائدہ ثانیہ:بعض اہلِ علم کہتے ہیں کہ ایک بیع میں دوبیعوں کے منع کی علت کاوہ احتمال ہوسکتاہے جومتنازع فیہ مسئلہ سے خارج ہے،جس طرح ابن رسلان کاقول پیچھے گزراہے کہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ اِس صورت میں واقع ہونے والی بیع ''نقد اتنے کی اوراُدھاراتنے کی''کومنع کہہ سکتے ہیں لیکن اگرشروع میں ایک ہی بات کرے کہ ''ادھاراتنے کی دوں گا''(اوراس کی قیمت اس روز کے ریٹ سے زیادہ ہو)توایسی بیع جائزہے،ویسے اس حدیث کاتمسک کرنے والے(دلیل پکڑنے والے )اِس صورت سے منع کرتے ہیں؛حالانکہ حدیث میں یہ معنٰی موجودنہیں،تودلیل دعوٰ ی سے أخصّ ہے۔(انتہیٰ)
میں کہتاہوں:
١-اس کایہ قول کہ ایک بیع میں دوبیعوں کے منع کی علت کاوہ احتمال ہوسکتاہے جومتنازع فیہ مسئلہ۔۔۔۔۔۔اگرتسلیم کرلیاجائے توبھی متنازع فیہ مسئلہ پرحدیث سے کئے گئے استدلال میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی کیونکہ حدیث عام ہے اوروہ ابن رسلان کی ذکرکردہ صورت اورمتنازع فیہ صورت دونوں کوشامل ہے اورحدیث کے عموم سے متنازع فیہ مسئلہ کوخاص اورمستثنٰی کرنے کی کوئی دلیل موجودنہیں۔
یہ بات بھی ہے کہ ابن رسلان کی ذکر کردہ بیع کی صورت اس طرح بنتی ہے:ایک قفیز گندم کے عوض ،دو قفیز گندم، دو مہینے بعد۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ ایک قفیز گندم کی دو قفیز کے ساتھ بیع منع اور سود ہے خواہ ایک دو دن یا مہینہ دومہینہ تک کی مدت حائل نہ ہوبلکہ تاخیر ادائیگی کا اس میں دخل تک نہ ہواور قیمت کی زیادتی بھی تاخیر کی وجہ سے نہ ہو ۔تو ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت میں دوسری بیع منع اور سود بنتی ہے خواہ شروع سے ہی ایسا طے کیا جا رہاہو ۔ہماری اس بات سے واضح ہو گیا کی ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت اس حدیث: ((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) .کی تشریح میں داخل نہیں ہوتی۔لہٰذا ان کا یہ کہناکہ: ایک بیع میں دوبیعوں کے منع کی علت کاوہ احتمال ہوسکتاہے جومتنازع فیہ مسئلہ ہے درست نہیں،کیونکہ حدیث میں ابن رسلان کی تفسیر والا احتمال بالکل نہیں پایا جاتا۔ابن رسلان کا احتمال پیچھے حدیث کی تفسیر میں میں نے صرف بطورِ نقل وحکایت ذکرکیا ہے۔
ہماری اس ساری بات چیت سے واضح ہو گیا کہ نبی ﷺ کی حدیث:((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . کامصداق ایک صورت ہو یا کئی صورتیں ،انہیں ان چیزوں پر مشتمل ہونا چاہئے۔
١-وہ صورت ایسی ہو کہ اس میں ایک چیز کی دو بیعیں ہوں۔ ٢
-وہ دونوں بیعیں ایک بیع میں ہوں ۔ ٣
-ان دو نوں میں سے ایک بیع کم قیمت پر ہو ۔ ٤
-ان میں سے ایک کم قیمت و الی بیع حلال ہو، سود نہ ہو
٥-دونوںمیں سے ایک بیع زیادہ قیمت والی ہو۔
٦-دونوں میں سے زیادہ قیمت والی بیع حرام اور سود ہو۔
٧-دونون بیعوں میں بائع (بیچنے والا)ایک ہو۔
٨-دونوں بیعوںمیں سے اکژاور زیادہ قیمت والی بیع کی حرمت کا سبب سود ہو ۔
٩-دونوں بیعوں میں سے جس چیز کو فروخت کیا جا رہا ہو وہ ایک ہی چیز ہو۔
١٠-ایسی بیع کی حرمت -جس کا ذکر کیا جا رہا ہے -اس میں مندرجہ بالا نوچیزیں جمع ہوں ۔
اور ابن رسلان کی ذکر کردہ صورت میں بائع(فروخت کنندہ)بدل گیا ہے ،کیو نکہ پہلی بیع میں جو بائع ہے،دوسری بیع میں وہ مشتری (خریدار )ہوتا ہے۔اور پہلی بیع میں جو مشتری ہوتا تھا، دوسری بیع میں وہ بائع بنتا ہے۔لہٰذا واضح ہو گیا کہ ابن رسلان نے جو صورت ذکر کی ہے وہ ان صورتوں سے نہیں جن پر بنی ﷺ کی حدیث :((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . صادق آتی ہے۔
٢-بائع جب شروع سے صرف یہی کہے کہ''ادھار اتنے کی ''اوریہ نہ کہے کہ''نقد اتنے کی '' اور ادائیگی میں تاخیر کیوجہ سے قیمت زیادہ لگائے توتحقیقاًتویہ ایک بیع ہے اورتقدیراً یہ دوبیعیں ہیں ؛اس لئے کہ وہ زیادہ پیسے ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے لے رہا ہے۔او رنبی ﷺ کا فرمان :((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . دو بیعوں کو مشتمل ہے، خواہ وہ حقیقی ہوں ، یا ان میں سے ایک حقیقی ہو
اوردوسری مخفی اور تقدیری۔ تو دلیل دعوٰی سے أخص نہیں۔
٣-ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اگر شرو ع سے ہی کہا جائے کہ '' ادھار اتنے کی'' اور ادھار کی وجہ سے پیسے بھی زیادہ لگا لے ۔تو یہ حدیث کے منطوق میں داخل نہیں ہوتالیکن ہم کہتے ہیں : ''حدیث کے مفہوم میں یہ چیز داخل ہے،کیونکہ دوسری بیع یعنی''ادھار اتنے کی ''اور ادائیگی کی تاخیر کی وجہ سے قیمت بھی زیادہ لگا لے تو یہ سودی بیع ہے(جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے)خواہ''نقد اتنے کی''کہہ کر کہے اورخواہ اس کے بغیر صرف یہی کہے کہ''ادھار اتنے کی''مفہوم سے جو بات سمجھ میں آتی ہے اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے-
(وَلَاتَقُلْ لَھُمَاأُفٍّ).
اورانہیں (والدین کو)اُف نہ کہو ۔
اورنبی ﷺ کا فرمان:
((لَا یَبُوْلَنَّ أَحَدُکُمْ فِیْ الْمَاءِ الدَّائِمِ)).الحدیث
(تم میں سے ہر گز کوئی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے) [صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب النہی عن البول فی الماء الراقد(٢٨٢)]
اس سے استدلال کیا گیاہے کہ جب والدین کو اُف کہنا حرام ہے تو جوتے کے ساتھ مارنا بھی حرام ہے۔اور کھڑے پانی میں پیشاب کرنا حرام ہے تو پاخانہ کرنا بھی حرام ہے ۔تو کیا یہ کہا جائے گا کہ آیت اور حدیث میں تو یہ بات نہیں آئی کہ والدین کو جوتے کے ساتھ مارنا حرام ہے ،اور کھڑے پانی میں پاخانہ کرنا حرام ہے ،اسلئے کہ دلیل دعویٰ سے أخص ہے ؟ ''نہیں،ہر گز نہیں ''کیونکہ استدلال مفہوم سے ہی لیا گیا ہے اور یہ صحیح استدلال ہے،اسی طرح جو استدلال ہم کر رہے ہیں وہ بھی مفہوم سے ہی سمجھ آرہا ہے ،لہٰذا ان کا یہ کہنا صحیح نہیں کہ ''حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ دلیل دعوٰی سے أخص ہے ''۔
٤-ان کا استدلال '' علت کے ساتھ استدلال کرنے کی قبیل سے ہے کیونکہ یہ صورت کہ: ''میں نقد تمہیں یہ چیز دس درھم کی دیتا ہوں اور یہی چیز ادھار پندرہ درہم کی دیتا ہوں '' دوسری بیع کی حرمت کی علت'' سود'' کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں۔اور اگرکوئی آدمی کوئی چیز ادھار اس وجہ سے موجود ہ ریٹ سے زیادہ پر بیچتا ہے کہ پیسے تاخیر سے ملنے ہیں تو شروع سے ہی صرف ادھار کی وجہ سے چیز کو زیادہ قیمت پر بیچنا سود ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قسطوں کی بیع میں نقدقیمت سے زیادہ لینااسی قبیل سے ہے،توپھرقسطوں کی بیع کیسے جائز ہوئی جبکہ وہ سود پر مشتمل ہے؟
فائدہ ثالثہ:بعض اہل علم کا خیال ہے کہ ''نبی ﷺ کی حدیث :
((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَاأَوِالرِّبَا)) . ضعیف اور شاذ ہے لہٰذا اس سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا صحیح نہیں''۔لیکن ان کی یہ بات درست نہیں ،اس لئے کہ حدیث حسن اور صحیح ہے ،نہ ضعیف ہے،نہ شاذ اور نہ معلل؛ لہٰذا اس سے حجت پکڑنا اور استدلال کرنا درست ہے ۔
محدث البانی رحمہ اللہ تعالیٰ إرواء الغلیل میں فرماتے ہیں:
١٣٠٧-قَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ((صَفْقَتَانِ فِیْ صَفْقَۃٍرِباً))صحیح ، الخ
ابن مسعود نے فرمایا ''ایک چیز کے دو سودے کرنا سود ہے ''۔
البانی صاحب فرماتے ہیں:کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے شواہد ابو ھریرہ ،عبداللہ بن عمراور عبداللہ بن عمرو ث کی حدیث سے ملتے ہیں۔
ابوھریرہ والی حدیث: ((عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍوعَنْ أَبِیْ سَلَمَۃَ عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَصقَالَ : نہٰی رَسُوْلُ اللّٰہِؐ عَنْ بَیْعَتَیْنِ فَیْ بَیْعَۃٍ )).[النسائی(٢/٢٧٧)الترمذی(١/٢٣٢)،ابن الجارود (٦٠٠)،ابن
حبان(١١٠٩)،البیہقی(٥/٣٤٣) ،أحمد(٢/٤٣٢،٤٧٥،٥٠٣)]
امام ترمذی نے کہا :یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔میں کہتا ہوں :اس کی سند حسن ہے ۔ ایک رو ایت میں یہ لفظ ہیں:
((مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَۃٍ فَلَہُ أَوْکَسُھُمَا أَوِالرِّبَا)).[مصنف ابن أبی شیبۃ(٧/١٩٢/٢)،أبو داود (٣٤٦٠)،ابن حبان (١١١٠)، الحاکم (٢/٤٥)البیہقی (٥/٣٤٣).امام حاکم نے کہا : مسلم کی شرط پر صحیح ہے اور امام ذہبی نے ان کی مو افقت کی، ابن حزم نے بھی المحلی(٩/١٦)میں اسے صحیح کہا ، اسی طرح عبدالحق نے اپنی کتاب''الأحکام''میں اس حدیث کو (پہلے الفاظ کے ساتھ)صحیح کہا۔ میں کہتا یہ صرف ''حسن'' ہے کیونکہ محمد بن عمرو کے حافظے میں تھوڑا سا کلام ہے۔امام بخاری نے باقی راویوں کے ساتھ ملا کر اس سے رو ایت کی ہے ،اور امام مسلم نے متابعت میں۔حافظ ابن حجر تقریب التہذیب میں فرماتے ہیں:صَدُوْقٌ لَہُ أَوْھَامٌ .(صدوق ہے اور اسے بعض دفعہ وہم بھی ہوئے ہیں)البانی رحمہ اللہ کاکلام ختم ہوا
جاری ہے۔۔۔۔