• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصہ اصحاب کہف : ایک مطالعہ (3)

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوبِہِمْ إِذْ قَامُوا فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِہِ إِلَہًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا*
ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ " ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے ۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل خلاف حق بات کریں گے۔(الکہف :۱۴)
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
إِذْ قَامُوا
اس آیت میں قیام یاتو اپنے اصلی معنی ٰ میں استعمال ہوا ہے یعنی یہ لوگ اپنی قوم کے سامنے یا بادشاہ کے سامنے برسر مجلس کھڑے ہوگئے اور اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر توحید کا اعلان کردیا ۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر قوم جن باطل معبودوں کی کو اپنا رب مانتی تھی ان کی ربوبیت سے انکار کردیا ۔ قوم کو چیلنج کردیا کہ جن معبودوں کے سامنے وہ اپنا سرجھکاتے ہیں ان کی ربوبیت اور الوہیت کی کوئی ایک سچی دلیل پیش کر کے دکھائیں۔
یا پھر قیام یہاں عزم، حوصلہ ، ارادہ اور جسارت کے معنی ٰ میں استعمال ہوا ہے ۔ یعنی جب اللہ نے ان کے دلوں کو توحید کے نور سے منور کیا ایمان نے ان کے دل کو ایسا مضبوط کردیا کہ انہوں نے اس بات کو عزم کرلیا کہ توحید کی یہ دعوت اپنی مشرک قوم تک پہنچاکر رہیں گے گرچہ اس کے لیے ان کو اپنی جان ہی کیوں نہ خطرہ میں ڈال دینی پڑے ۔
قرآن مجید میں اس معنی میں قیام اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی استعمال ہوا ۔ جیسا کہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے ۔
یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ *قُمْ فَأَنْذِرْ
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے،اٹھو اور خبردار کرو (المدثر:۱۔۲)
اسی طرح قرآن کی اس آیت میں بھی :
وَأَنَّہُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّہِ یَدْعُوہُ کَادُوا یَکُونُونَ عَلَیْہِ لِبَدًا
اور یہ کہ جب اللہ کا بندہ اس کو پکارنے کے لیے کھڑا ہوا تو لوگ اس پر ٹوٹ پڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ (الجن:۱۹)
صاحب تاج العروس نے بھی اس آیت میں قیام سے عزم کرنا مراد لیا ہے ۔ اور مثال میں عمانی یہ شعر پیش کیا ہے جو اس نے رشید کو اس کے بیٹے قاسم کی ولی عہدی پر ابھارنے کے لیے کہا تھا:
قُلْ لِلإمَامِ المُقْتَدَی بِأَمِّہِ ... مَا قَاسِمٌ دُونَ مَدَی ابنِ أُمِّہِ ... فقد رَضِینَاہ فقُمْ فَسَمِّہِ ... تاج العروس (33/ 317)
آیت میں قاموا کا لفظ خاص طور پر قابل غور ہے کہ کیونکہ اس سے اس واقعہ کی پوری تفصیل سمجھ میں آتی ہے ۔ اس لفظ سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان لے آنے کے بعد اصحاب کہف نے اس ایمان کو اپنے گھروں میں قید نہیں کرلیا ۔ اور ان کا کہف میں چھپ جانا اس لیے نہیں تھا کہ قوم والوں کو اگر ان کے ایمان کی خبر ہوگئی تو وہ انہیں قتل کردیں گے ۔ بلکہ وہ توحید پر ایمان کے بعد اس کی دعوت لے گر کھڑے ہوئے ۔ اپنے ایمان کا اظہار کیا اور اپنی قوم والوں کو اس ایمان کی دعوت دی ۔ اس کے دلائل ان کے سامنے رکھے ۔ توحید کی معقولیت اور شرک کی بے ثباتی ان کے سامنے واضح کی اور جب قوم والوں نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا اور خود ان کو ایمان کا راستہ چھوڑ کر کفر کی غلاظتوں شامل ہونے کے لیے مجبور کرنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اپنا ایمان بچانے کے لیے ان کے پاس سوائے قوم کو چھوڑ کر ہجرت کرجانے کے اور کوئی راستہ نہیں بچا تو آخر کار انہیں وطن کو چھوڑ کر غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوجانا پڑا ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
فَقَالُوا رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ
یعنی ہمارا ،تمہارا اور پوری کائنات کا صرف ایک ہی رب ہے ۔ یہ کائنات مختلف خداوں نے نہیں بنائی نہ ہی مختلف خدا اس کائنات کا انتظام سنبھالے ہوئے ہیں بلکہ اس پوری کائنات میں صرف ایک ہی رب کا فیضان جاری ہے ۔ ساری کائنات اسی کی پیدا کی ہوئی ہے اسی کی حکمرانی زمیں و آسمان میں ہے اور اسی کے فیض سے کائنات کا ذرہ ذرہ مستفید ہورہا ۔
تم جن معبودوں کی عبادت کررہے ہو وہ رب نہیں ہیں ۔ کائنات کو انہوں نے پیدا نہیں کیا۔ نہ اس کائنات کے وہ مالک ہیں ۔ نہ ان کو اس میں تصرف کاذرہ برابر اختیار ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
رب کی معرفت
کائنات کی وہ ساری چیزیں جو ہمارے احساس اور ادارک کے دائرہ میں ہیں ان میں سے کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس میں " رب " کی صفت پائی جاتی ہو۔ ساری چیزیں مخلوق، مملوک ، محکوم اور مرزوق ہیں ۔ یہ ا س بات کی علامت ہے کہ اس کائنات کا رب ہماری ادراک اور احساس کے دائرہ سے باہر ہے ۔ لیکن اس کی ربوبیت کا فیضان ہم کو کائنات کے ایک ایک ذرہ میں دکھائی دے رہا ہے جو اس کے وجود ،وحدانیت، اس کی کمال درجہ کی قدرت ،علم ، حکمت اور اس کی بے شمار عظمتوں کا گواہ ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
رَبُّنَا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی قوم اللہ رب العزت کے نام سے بھی ناواقف تھی اس لیے اللہ رب العزت کا تعارف انہوں نے ان الفاظ میں کرایا کہ ہم اس رب کو اپنا رب مانتے ہیں جو ساری کائنات کا رب ہے ۔ جیسا کہ حضرت موسی ٰ نے فرعون کے سامنے رب کا تعارف کرایا :
فَأْتِیَا فِرْعَوْنَ فَقُولَا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔۔۔۔۔۔ قَالَ فِرْعَوْنُ وَمَا رَبُّ الْعَالَمِینَ *قَالَ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا إِنْ کُنْتُمْ مُوقِنِینَ
فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہو، ہم کو رب العٰلمین کے پیغمبر ہیں۔۔۔۔۔۔فرعون نے کہا "اور یہ رب العالمین کیا چیز ہے ؟"،موسیٰؑ نے جواب دیا "آسمان اور زمین کا رب، اور اُن سب چیزوں کا رب جو آسمان اور زمین کے درمیان ہیں، اگر تم یقین لانے والے ہو" (الشعراء: :۱۶۔۔۔۔۔۔۲۳۔۲۵)
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
لَنْ نَدْعُوَ مِنْ دُونِہِ إِلَہًا لَقَدْ قُلْنَا إِذًا شَطَطًا
توحید ربوبیت کے اثبات کے بعد انہوں نے توحید ربوبیت کو توحید الوہیت کے لیے بطور دلیل پیش کیا ۔ یعنی جب اس کائنات کا رب ایک ہے تو عبادت بھی صرف اسی ایک کا حق ہے ۔
عبادت کیا ہے ۔ عظمتوں کا اعتراف ۔ اور عظمتیں تو ساری اس وحدہ لا شریک لہ کی ہیں۔ وہی اکیلا ساری تعریفوں کا مستحق ہے ۔ مخلوق کو بھی جو عظمتیں ملی ہیں وہ اسی کی عطا کرہ ہیں لہذا ایک اکیلا وہی ہے کہ عبادتوں کے ذریعہ اس کی عظمتوں کا اعتراف کیا جائے ۔
عبادت اپنی عاجزی ، لاچاری، بے بسی ، محتاجگی کا اعتراف ہے ۔ اور کائنات میں صرف ایک رب ہی ہے جو غنی ہے سارے احتیاجات سے مبرا ہے۔باقی ساری موجودات اس کی محتاج ہیں۔ لہذا محتاج بندوں کے زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے ہی جیسےمخلوق ، مرزوق اور محتاج بندوں کے سامنے سر جھکا کر ان کے سامنے اپنی عاجزی کا اعتراف کریں ۔ یہ صرف اللہ کا حق کہ محتاج بندے عبادت کی شکل میں اس واحد غنی اور بے نیاز رب کے سامنے اپنی لاچاری اور بے بسی کا اظہار کریں ۔
عبادت نعمتوں پر شکر گذاری کا نام ہے اور شکریہ کا بھی حقیقی مستحق وہی اکیلا رب ہے کیونکہ ساری نعمتیں اس کی عطا کی ہوئی ہیں ۔ عبادت دعا ہے اور دعا کا مستحق بھی صرف رب کائنات ہی ہے کیونکہ وہی نعمتوں کا باٹنے اور مصیبتوں کا ٹالنے والا ہے ۔

جن معبودوں کی تم عبادت کرتے ہو وہ عبادت کی مستحق نہیں کیونکہ وہ رب نہیں مربوب ہیں، خالق نہیں مخلوق ہے ، مالک نہیں مملوک ہیں ، حاکم نہیں محکوم ہیں ، رازق نہیں مرزوق ہیں ، غنی نہیں محتاج ، بے بس اور لاچار ہیں ۔ بلکہ جن معبودوں کو تم نے اپنا رب سمجھ لیا وہ بھی رب السماوات والارض ہی کی مخلوق ہیں، مملوک ہیں ، اسی کے محتاج ہیں ، اسی کے حکم کے پابند ہیں ، اس کے دی ہوئی زندگی سے جیتے اور اس کی دی ہوئی موت سے مرجاتے ہیں ۔
لہذا اس ایک اکیلے رب کو چھوڑ کر ان مربوب ہستیوں کو رب سمجھنا اور ان کی عبادت کرنا انتہا درجہ کا ظلم اور گمراہی ہے ۔ اور ہم اس حماقت کے لیے قطعا تیار نہیں ۔
شطط کا مطلب حد سے تجاوز کرنا ۔ زیادتی کرنا ۔ ظلم کرنا ۔ حق سے دور ہوجانا۔
قرآن مجید میں یہ لفظ حق کی ضد کے طور پر استعمال ہوا ہے :
فَاحْکُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ
آپ ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کردیں اور زیادتی نہ کریں ۔ (ص:۲۲)
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اصحاب کہف کی دعوت کا خلاصہ

ان دو آیتوں کے اندر اللہ نے اصحاب کہف کی دعوت کا خلاصہ پیش کیا ہے جو انہوں نے اپنی قوم والوں کے سامنے توحید کے اثبات کے لیے پیش کی۔ اپنی دعوت کی ابتداء انہوں نے توحید ربوبیت کے اثبات سے کی ۔ کیونکہ ان کی قوم سرے سے اللہ کی ربوبیت ہی کی انکاری تھی ۔ پھر توحید ربوبیت کو توحید الوہیت کے لیے بطور دلیل پیش کیا۔
قرآن مجید میں توحید الوہیت کے اثبات کا یہ معروف طریقہ ہے جس کی بہت ساری مثالیں آپ کو قرآن مجید میں مل جائیں گی ۔ یہاں کچھ نظائر ہم پیش کرتے ہیں ۔
قُلْ أَرَأَیْتُمْ شُرَکَاءَ کُمُ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمَاوَاتِ أَمْ آتَیْنَاہُمْ کِتَابًا فَہُمْ عَلَی بَیِّنَتٍ مِنْہُ بَلْ إِنْ یَعِدُ الظَّالِمُونَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا إِلَّا غُرُورًا
(اے نبیﷺ) ان سے کہو، "کبھی تم نے دیکھا بھی ہے اپنے اُن شریکوں کو جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ مجھے بتاؤ، انہوں نے زمین میں کیا پیدا کیا ہے؟ یا آسمانوں میں ان کی کیا شرکت ہے "؟ (اگر یہ نہیں بتا سکتے تو ان سے پوچھو) کیا ہم نے انہیں کوئی تحریر لکھ کر دی ہے جس کی بنا پر یہ (اپنے اس شرک کے لیے)کوئی صاف سند رکھتے ہوں؟ نہیں، بلکہ یہ ظالم ایک دوسرے کو محض فریب کے جھانسے دیے جا رہے ہیں (فاطر:۴۰۔۱۴)
قُلْ أَرَأَیْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَرُونِی مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَہُمْ شِرْکٌ فِی السَّمَاوَاتِ اءْتُونِی بِکِتَابٍ مِنْ قَبْلِ ہَذَا أَوْ أَثَارَۃٍ مِنْ عِلْمٍ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ
اے نبیﷺ، اِن سے کہو، "کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا بھی کہ وہ ہستیاں ہیں کیا جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پکارتے ہو؟ ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ زمین میں انہوں نے کیا پیدا کیا ہے، یا آسمانوں کی تخلیق و تدبیر میں ان کا کیا حصہ ہے اِس سے پہلے آئی ہوئی کتاب یا علم کا کوئی بقیہ (اِن عقائد کے ثبوت میں)تمہارے پاس ہو تو وہی لے آؤ اگر تم سچے ہو" (الأحقاف:۴)
خَلَقَ السَّمَاوَاتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا وَأَلْقَی فِی الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَنْ تَمِیدَ بِکُمْ وَبَثَّ فِیہَا مِنْ کُلِّ دَابَّۃٍ وَأَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا فِیہَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیمٍ *ہَذَا خَلْقُ اللَّہِ فَأَرُونِی مَاذَا خَلَقَ الَّذِینَ مِنْ دُونِہِ بَلِ الظَّالِمُونَ فِی ضَلَالٍ مُبِین
اس نے آسمانوں کو پیدا کیا بغیر ستونوں کے جو تم کو نظر آئیں اُس نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ تمہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اس نے ہر طرح کے جانور زمین میں پھیلا دیے اور آسمان سے پانی برسایا اور زمین میں قسم قسم کی عمدہ چیزیں اگا دیں،یہ تو ہے اللہ کی تخلیق، اب ذرا مجھے دکھاؤ، ان دوسروں نے کیا پیدا کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں (لقمان:۱۰۔۱۱)
أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ لَکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِہِ حَدَاءِقَ ذَاتَ بَہْجَۃٍ مَا کَانَ لَکُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَہَا أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ بَلْ ہُمْ قَوْمٌ یَعْدِلُونَ
بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اگائے جن کے درختوں کا اگانا تمہارے بس میں نہ تھا؟ کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟ (نہیں)، بلکہ یہی لوگ راہِ راست سے ہٹ کر چلے جا رہے ہیں(النمل:۶۰)
أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَہَا أَنْہَارًا وَجَعَلَ لَہَا رَوَاسِیَ وَجَعَلَ بَیْنَ الْبَحْرَیْنِ حَاجِزًا أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ بَلْ أَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُونَ
اور وہ کون ہے جس نے زمین کو جائے قرار بنایا اور اس کے اندر دریا رواں کیے اور اس میں (پہاڑوں کی) میخیں گاڑ دیں اور پانی کے دو ذخیروں کے درمیان پردے حائل کر دیے؟ کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟نہیں، بلکہ اِن میں سے اکثر لوگ نادان ہیں(النمل:۶۱)
أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوءَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ قَلِیلًا مَا تَذَکَّرُونَ
کون ہے جو بے قرار کی دعا سنتا ہے جبکہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟ اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ اور کوئی معبود بھی ہے؟تم لوگ کم ہی سوچتے ہو (النمل:۶۲)
أَمَّنْ یَہْدِیکُمْ فِی ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ یُرْسِلُ الرِّیَاحَ بُشْرًا بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہِ أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ تَعَالَی اللَّہُ عَمَّا یُشْرِکُونَ
اور وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں تم کو راستہ دکھاتا ہے اور کون اپنی رحمت کے آگے ہواؤں کو خوشخبری لے کر بھیجتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ دوسرا بھی کوئی معبود ہے ۔ بہت بالا و برتر ہے اللہ اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (النمل:۶۳)
أَمَّنْ یَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُہُ وَمَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ قُلْ ہَاتُوا بُرْہَانَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ
اور کون ہے جو خلق کی ابتدا کرتا اور پھر اس کا اعادہ کرتا ہے؟ اور کون تم کو آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہو کہ لاؤ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو (النمل:۶۴)
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
شرک کے دروازے

تین اہم حقیقتیں ہے جن سے نا واقفیت کسی بندے کو شرک تک لے جاتی ہیں ۔یا تو بندہ اپنے رب سے بیگانہ ہوتا ہے اور اس کو اپنے رب کا صحیح تعارف حاصل نہیں ہوتا ۔ یا پھر رب کا تعارف تو ہوتا ہے لیکن اس کی عظمتوں کی قدر اور اس کی قدرتوں کا احساس نہیں ہوتا ۔ یا پھر وہ عبادت کی حقیقت سے ناواقف ہوتا ہے ۔
توحید ربوبیت کا بیان بندے کو اس کے رب سے متعارف کراتا ہے ۔
توحید اسماء صفات کا بیان اس کو رب کی عظمتوں کا احساس دلاتا ہے۔
اور توحید الوہیت اس کو عبادت کی حقیقت سمجھاتی ہے ۔
جس شخص کو یہ تینوں چیزیں حاصل ہوجائے اس کا سر کبھی غیراللہ کی بارگاہ میں نہیں جھک سکتا۔
ربوبیت اور الوہیت کا بیان بندے کے دل میں توحید کا نور روشن کرتے ہیں ۔ اور رب کے اسماء و صفات کا بیان اس نور کا پھیلاتا چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ بندہ توحید میں کمال کے درجہ تک پہنچ جاتا ہے ۔( جاری)
 
Top