• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصہ اصحاب کہف : ایک مطالعہ

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
قصہ اصحابہ کہف: ایک مطالعہ
{أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا (9) إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ فَقَالُوا رَبَّنَا آتِنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (10) فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (11) ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا (12)}
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غار اور رقیم والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے؟ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ’’ اے پروردگار ! ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نواز ! اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔ تو ہم نے اس غار میں ان کے کانوں پر سالہا سال تک (نیند کا) پردہ ڈال رکھا۔پھر ہم نے انہیں اٹھایا تاکہ معلوم کریں کہ دونوں فریق میں سے کون اپنی مدت قیام کا ٹھیک حساب رکھتا ہے۔

[الكهف: 9 - 12]
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
قرآن مجید کتاب ہدایت ہے۔ ہدایت ہی اس کتاب کا ، اس کی ایک ایک آیت کا ،اس میں بیان کیے گئےتمام قصوں اور واقعات کا،اس میں بتائے گئے احکام کا مرکزی اور بنیادی موضوع ہے ۔ قرآن مجید تاریخ کی کتاب نہیں ، اس میں بیان کیے گئے قصے اس لیے نہیں کہ آپ کی تاریخ کے علم میں اضافہ کا سبب بنیں ، نہ قرآن مجید کوئی ناول ہے جو آپ کو entertain کرنے کے لیے اتاری گیا ہے۔ لہذا قرآن مجید میں بیان کیے گئے قصوں کا مطالعہ اس بنیادی سبب کو پیش نظر رکھ ہی کیاجانا چاہیے جس کےلیے اس کا نزول ہوا ہے ۔ اور وہ مقصد ہے ہدایت ۔
اصحاب کہف کی قصہ کے تفصیلی بیان سے پہلے اللہ رب العزت نے چار آیتوں میں اس قصہ کا اجمالی بیان کیا ۔ اور اس تمہید میں خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ ان چند نوجوانوں کا قصہ ہے جن کے دلوں نے ایمان کی حلاوت کوپالیا تھا۔اور ان کے خلوص نے ان ہدایت کی اس منزل پر پہنچا دیا تھا جہاں پہنچ کر بندہ کے سامنے دنیا کی ساری نعمتیں ، ساری آسائشیں ہیچ ہوجاتی ہے ۔بندے کا دل جب ایمان کی لذت کو چکھ لیتا ہے تو دنیا کی ساری لذتیں اس کے سامنے پھیکی پڑجاتی ہیں ۔ یہ اللہ کے وہ بندے تھے جنہوں اپنے ایمان کی حفاظت لے لیے اپنے پر تعش محلات کو تیاگ دیا اور ایک غار میں پناہ گزیں ہوگئے ۔ رب پر توکل تھا کہ وہ ان کی آسانی کے لیے راستہ نکال ہی دے گا۔ اور رب نے ان کی دعاوں کو سن لیا اور ان کو تین سو سال کی گہری نیند سلا دیا ۔ تاکہ وہ اپنی آنکھوں سے زمانہ کے انقلابات دیکھ سکیں۔ اور جان لیں کہ اللہ اپنے دین کو بلند کرنے اور اپنے اولیاء کی حفاظت کے لیے کیسے بندوبست کرتا ہے ۔
اللہ نے ان بندوں کے ایمان کا تذکرہ تمہید میں خاص طور پر اس لیے کیا کہ سامع اور قاری ابتداء ہی میں اپنا ذہن درست کرلیں ۔ یہ کوئی طلسماتی کہانی نہیں جس کو آدمی اپنی تفریح کا ذریعہ بنائے یہ چند نوجوانوں کے ایمانی ولولوں کی داستان ، ایمان کے راستوں میں ان کی قربانیوں کا بیان ہے ۔
یہی اس واقعہ کا اصل پہلو ہے جس کو قرآن مجید اجاگر کرتا ہے ۔ یہی وجہ کہ قرآن اس قصہ کی ان تفصیلات میں نہیں جاتا جن کا تعلق عبرت ، نصیحت اور ہدایت سے نہیں۔ جیسے کہ اصحاب کہف کہاں کے رہنے والے تھے ؟ کس غار میں انہوں نے پناہ لی تھی ، کون سا بادشاہ ہے جس کے دور میں وہ غار میں داخل ہوئے ؟ کس بادشاہ کے دورمیں وہ غار سے باہر آئے ؟ وغیرہ وغیرہ ۔
بلکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اللہ رب العالمین نے اس قسم کی بحثوں میں بہت زیادہ الجھنے سے منع کردیا جن سے اس واقعہ ہدایتی پہلو کا کوئی تعلق نہیں ۔ اللہ کے نبی سے اللہ رب العزت نے فرمایا:
{سَيَقُولُونَ ثَلَاثَةٌ رَابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًا بِالْغَيْبِ وَيَقُولُونَ سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ قُلْ رَبِّي أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِمْ مَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ فَلَا تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَاءً ظَاهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِمْ مِنْهُمْ أَحَدًا }
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ نوجوان تین تھے، چوتھا ان کا کتا تھا، اور کچھ یہ کہتے ہیں کہ وہ پانچ تھے، چھٹا ان کا کتا تھا۔ یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ وہ سات تھے اور آٹھواں ان کا کتا تھا۔ آپ ان سے کہئے کہ میرا پروردگار ہی ان کی ٹھیک تعداد جانتا ہے جسے چند لوگوں کے سوا دوسرے نہیں جانتے۔ لہذا آپ سرسری سی بات کے علاوہ ان سے بحث میں نہ پڑئیے اور ان کے بارے میں کسی سے کچھ پوچھئے نہیں۔​

[الكهف: 22]
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ
جوانی انسان کی کی زندگی کا سب سے حسین دور ہوتا ہے ۔ زندگی کے اس پڑاو پرانسان زندگی کی لذتوں سے مستفید ہونے کے لیے سب زیادہ تیار ہوتا ہے ۔ ایسا دور جس میں زندگی کی بے شمار رنگیناں ہاتھ پھیلائے استقبال لیے کھڑی ہوتی ہے ۔ شہوتوں اور خواہشات کا سیلاب انسان کو غرق کردینے کے لیے تیارہوتا ہے ۔ جوانی کی دیوانگی انسان کو اس بات کی مہلت نہیں دینا چاہتی کی وہ اس کی لذتوں کو تیاگ کر صحیح اور غلط ، حق اور باطل ،سچ اور جھوٹ کی تفریق کے چکر میں پڑے ۔اپنی شہوتوں کو ٹھکرا کر کسی اصلاحی تحریک کا حصہ بنے ۔
لیکن یہ چند انہوں نے یہی کارنامہ انجام دیا۔ اپنی زندگی کے اس حسین دور کو انہوں نے اللہ کے دین کے غلبہ کے لیے قربان کردیا ۔ ایمان کی دولت بچانے لیے شہوتوں کو ٹھوکر ماردی۔ اور قیامت تک نوجوانوں کے لیے اسوہ بن گئے ۔یہی وجہ کہ قرآن بطور خاص تمہید ہی میں اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ نوجوان لوگ تھے ۔{إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } جب چند نوجوانوں نے غار میں آکر پناہ لی ۔ [الكهف: 10] اور تیرہویں آیت جہاں سے قصہ کا تفصیلی بیان شروع کیا گیا وہاں بھی سب سے پہلے یہی بات ذہن نشین کرائی گئی ۔ فرمایا:
{نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى }
ہم آپ کو ان کی سچی داستان سناتے ہیں۔ وہ چند نوجوان لوگ تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے ۔ اور ہم ان کو اور زیادہ ہدایت سے نواز دیا۔
[الكهف: 13]
واضح رہے کہ یہ عربی میں فتیۃ کا لفظ جمع قلت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس کا اطلاق دس سے کم کی تعداد پرہوتاہے ۔
قرآن مجید میں دین کے لیے ابتلا اور آزمائش کے اکثر واقعات کا تعلق انبیاءکرام سے ہے ۔ کیونکہ انبیاء انسان کی ہدایت کےلیے مبعوث کیے جاتے ہیں وہ اس زمین پر اللہ کے نمائندہ ہوتے ہیں ۔ ان کی حیثیت قائد کی ہوتی ہے اس لیے ان کی زندگی عام انسان کے لیے اسوہ اور نمونہ ہوتی ہے۔ لہذا دین کے لیے ان کی قربانیاں امت کے جذبہ کو بلند کرنے کام کرتی ہیں۔
لیکن اصحابہ کہف کا یہ قصہ انبیاء کا قصہ نہیں یہ تو عام لوگ تھے ۔ کوئی بڑے عالم بھی نہیں تھے ۔ سیاق کلام سے یہی بات سمجھ میں آتی ہےکہ نیا نیا ایمان لائے تھے ۔ لیکن ان کے خلوص کی وجہ سے اللہ نے ان کو ہدایت کے اس مقام پر پہنچا دیا تھاکہ موحدین کی یہ مختصر سی جماعت اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر پوری مشرک قوم کے سامنے توحید کی دعوت لے کر کھڑی ہوگئی۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
أَمْ حَسِبْتَ أَنَّ أَصْحَابَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ كَانُوا مِنْ آيَاتِنَا عَجَبًا
انسان کی فطرت ہے کہ وہ خارق عادت امور سے دلچسپی رکھتا ہے ، کرشموں سے اس کو خاص شغف ہوتا ہے ، کرامتیں اس کو متاثر کرتی ہیں۔ بلاشبہ اصحاب کہف کا ایک لمبی مدت تک غار میں سوتے رہ جانا اور اس بعد صحت اور توانائی کے ساتھ جاگ جانا اللہ کی قدرت کا ایک عجیب کرشمہ ہے ۔ لیکن کیا یہ اللہ کی اکلوتی نشانی ہے جس پر تعجب کیا جائے ۔ انسان بصیرت کی آنکھیں کھول کر تو دیکھے۔ اس وسیع آفاق اور خود اس کے اپنے جسم و جان میں ایسے ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب ہزاروں ، کروڑوں ، اربوں بلکہ بے شمار کرشمے موجود ہیں ۔ جو اللہ کی قدرت ، حکمت اور علم کی وسعت کے غماز ہیں۔
اصحاب کہف کا لمبی نیند سوجانا ایک خلاف عادت واقعہ ہے ۔ انسان عادت اور فطرت کے خلاف کسی واقعہ کے ظہور پر تعجب کرتا ہے ۔ یقینا ایسا واقعہ تعجب میں ڈال دینے والا ہے بھی ۔ لیکن فطرت اپنے جلو میں اس بھی زیادہ حیرت انگیز کرشمے سمیٹے ہوئے ہے ۔ جو صبح شام انسان کی نگاہوں کے سامنے سے گذرتے ہیں لیکن انسان ان پر تعجب نہیں کرتا حالانکہ یہ تعجب کیے جانے کے زیادہ مستحق ہیں۔ خود پانی کے حقیر سے قطرہ سے انسان کا پیدا کیا جا کیا اس بات سے کم تعجب خیز ہے کہ اللہ کے پیدا کیے گئے بندے تین سو نو سال سونے کے بعد جاگ گئے ؟
اور پھر انسان کا پیدا کرنا بھی زمیں و آسمان کے پیدا کرنے کے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی بات ہے۔ قرآن مجید میں اس مفہوم کی بہت ساری آیات موجود ہیں۔
لَخَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسان کو پیدا کرنے کی بہ نسبت یقینا زیادہ بڑا کام ہے ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ [غافر: 57]
أَأَنْتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ بَنَاهَا
کیا تمہیں پیدا کرنا مشکل کام ہے یا آسمان کو؟ جسے اس اللہ نے بنایا۔۔۔۔۔۔۔
[النازعات: 27-33]
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
الکہف اور الرقیم
الکہف عربی میں ایسے غار کو کہا جاتا ہے جس کا دہانہ وسیع ہو، ایسا غار جس کا دہانہ تنگ ہو اسے عربی میں الغار کہا جاتا ہے ۔
الرقیم کی تفسیر میں علماء کے اقوال مختلف ہیں ۔:
الرقیم یہاں مرقوم کے معنیٰ ہے ، اس سے مراد وہ تختی ہے جس پر ان اصحاب کہف کے نام مرقوم تھے ۔
الرقیم اس بستی کا نام ہے جس کے یہ لوگ رہنے والے تھے۔
الرقیم کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ اس آیت میں اصحاب الرقیم سے مراد وہ تین لوگ ہیں جنہوں بارش سے بچنے کے لیے ایک غار میں پناہ لی اور غار کا دہانہ اوپر بھاری پتھر کے گرجانے سے بند ہوگیا ۔ پھر ان تینوں نے اپنے اپنے نیک اعمال کے وسیلہ سے دعا کی اور اللہ نے ان کی دعاوں کو قبول کیا اور غار کا دہانہ ان کے لیے کھول دیا گیا ۔ الرقیم کے اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امام بخاری نے باب {أم حسبت أن أصحاب الكهف والرقيم} کے بعد باب حديث الغارکے تحت ان تین لوگوں کا قصہ نقل فرمایا ہے ۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت بھی امام بخاری کی اس رائے کی تائید کرتی ہے ۔
عَنْ النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَذْكُرُ الرَّقِيمَ فَقَالَ: " إِنَّ ثَلَاثَةً نَفَرٍ كَانُوا فِي كَهْفٍ، فَوَقَعَ الْجَبَلُ عَلَى بَابِ الْكَهْفِ، فَأُوصِدَ عَلَيْهِمْ،(مسند احمد ، حدیث نمبر:18335)
اس حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رقیم کا ذکر کرتے ہوئے ان تین لوگوں کا قصہ بیان فرمایا۔اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ الرقیم اس پہاڑ کا نام تھا جس میں اصحاب کہف نے پناہ لی تھی ، یا اس کتے کا نام تھا جو اصحاب کہف کے ساتھ غار میں موجود تھا۔ پہلا قول لغت کے اعتبار سے اور تیسرا قول حدیث کی وجہ سے دیگر اقوال سے زیادہ قول ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ
قرآن مجید کے نزول کے وقت اصحاب کہف کا قصہ کسی نا کسی شکل میں اہل عرب میں مشہور تھا ۔ ان کے متعلق بہت کی صحیح غلط باتیں بھی لوگوں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ اصحاب کہف کی تعداد کے بارے میں جو آیت اللہ رب العزت نے نازل فرمائی اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ ان کے بارے تھوڑا بہت صحیح یا غلط مشرکین مکہ نے سن رکھا تھا۔ اس لیے قصہ کے بیان کی شروعات میں اللہ رب العزت نے یہ واضح کردیا کہ جو کچھ ہم اصحاب کہف کے بارے میں بیان کرنے جارہے ہیں یہ کھری حقیقت ہے ۔ لہذا ان اس حقیقت کے سامنے ان افواہوں کی کوئی حیثیت نہیں جو لوگوں کے درمیان اصحاب کہف کے متعلق گردش کررہی ہیں۔
 
Top