• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصہ ایک عالم ِدین کا کہ جس نے بادشاہ نیلام کئے

شمولیت
اپریل 30، 2012
پیغامات
39
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
52
حکمرانوں کیلئے دُعائے خیر کرنا ایک نیک عمل ہے مگر حکمرانوں کو راہِ راست پر لے آنے کیلئے ہیبتِ علم کو بروئے کار لانا ایک خاص مقام ہے جو کہ علمائے سنت کا تاریخی امتیاز رہا ہے۔ آئیے ایک عالم دین کی سیرت کا مطالعہ کریں۔ مقالہ کے مصنف ہیں شیخ سلمان العودۃ اور مقالہ کا عنوان ہے ''سلطان العلماء''۔ اُمید ہے دو یا تین قسطوں میں ہم اس کا اُردو استفادہ مکمل کر پائیں گے۔

حق کے معاملہ میں عز بن عبدالسلام کی جراءت و بے باکی:
اس امام کی شخصیت کا نمایاں ترین پہلو شاید یہی ہے کہ آپ کو ایک خاص جراءت اور بے باکی عطا ہوئی تھی جو کہ حق کے معاملہ میں اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے موضوع پر کبھی مخفی نہ رہ پاتی۔
امام عز بن عبدالسلام نے علمائے حق کے اس منہج کی ازسرنو تجدید کی جو سلاطین وامراء کو بالفعل بُرائی سے باز کردینے سے متعلق ہے۔ بسا اوقات آپ سلاطین کو برسرعام دُرست فرماتے، خصوصاً ان منکرات کے معاملہ میں جن کا ارتکاب برسرعام ہوتا ہو۔ اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والی کی ملامت کا خوف نہ رکھتے۔
حق کے معاملہ میں جراءت و بے باکی ایک ایسی روایت اور ایک ایسی پہچان ہے جس سے کہ سب سے پہلے صحابہ اور تابعین متصف تھے۔ مثلاً جس وقت مروان بن عبدالحکم نے سنت کے اندر کچھ تصرفات کئے، عید کا خطبہ نماز سے پہلے کردیا اور منبر کو مسجد سے باہرعید کے میدان میں لا دھرا، تب اس کو روکنے کیلئے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اُٹھے۔ بلکہ آپ مروان کو روک کر کھڑے ہو گئے اور اُسے اس کو لبادہ پکڑ کر جھنجھوڑا۔ چنانچہ یہ روایت صحیحین میں آتی ہے: کہا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے: میں مروان بن الحکم کے ہمراہ اضحی یا فطر کی عید کیلئے نکلا۔ جب عیدگاہ میں پہنچے تو کیا دیکھتا ہوں کثیر بن الصلت نے ایک منبر بنا رکھا ہے اور مروان اس پر چڑھا چاہتا ہے۔ میں نے اسے لبادے سے پکڑ کر کھینچا۔ اُس نے مجھ سے اپنا آپ چھڑوایا اور منبر پر چڑھ گیا۔ تب میں نے اسے مخاطب کیا: بخدا تم نے (سنت کو) بدل ڈالا۔ وہ کہنے لگا۔ اے ابو سعید وہ چیز جس سے تم واقف ہو اب باقی نہیں۔ میں نے کہا: وہ چیز جس سے میں واقف ہوں بخدا اس سے کہیں بہتر ہے جس سے میں واقف نہیں۔ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں: ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جس چیز سے میں واقف ہوں تم اس سے بہتر کوئی چیز نہیں لا سکتے۔ تب مروان نے (وضاحتاً) کہا: بات یہ تھی کہ نماز ہو چکنے کے بعد لوگ ہمارے لئے بیٹھتے ہی نہ تھے تب ہم نے یہ (خطبہ) نماز سے پہلے کردیا''۔
اسی طرح ایک اور آدمی اس امیر کو ٹوکنے کیلئے اُٹھا اور ابو سعید رضی اللہ عنہ نے اس کے اس عمل کی توثیق فرمائی۔ چنانچہ طارق بن شہاب سے مروی ہے، کہا: وہ پہلا شخص جس نے خطبہ عیدنماز سے پہلے کیاوہ شخص مروان تھا۔ تب ایک آدمی کھڑا ہوا اور مروان سے کہنے لگا: تم سنت کی خلاف ورزی کرتے ہو۔ مروان کہنے لگا ارے او فلاں اس سے سروکار نہ رکھ۔ تب ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرمانے لگے۔ اس آدمی نے یقینا اپنا فرض ادا کردیا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں عز بن عبدالسلام اسلام کی اسی روایت اور اسی پہچان کو ازسرنو زندہ کرنے کیلئے آگے بڑھتے ہیں جو کہ صحابہ وتابعین اور ائمہء ہدایت کے ہاں معروف چلی آئی ہے۔ چنانچہ وہ برسراقتدار طبقے اور سلاطین کو علی الاعلان ڈانٹ ڈپٹ کرتے۔ یہ اعتقاد نہ رکھتے کہ اس عمل سے 'نقصان' اور 'فتنہ' لاحق ہو جائے گا! آپ یہ ادراک رکھتے کہ حکمرانوں کو برسرعام ٹوک دینے میں اور کلمہ حق کو علی الاعلان کہنے میں، اور سچائی کو بے باک بیان کر دینے میں بے شمار فوائد پوشیدہ ہیں۔
یہاں ذرا ہم اس بات کے کچھ فوائد بیان کریں گے جو بُرائی کو برسرعام روکنے سے حاصل ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔
اولاً: عالم خدا کے ہاں اپنا عذر لے جانے کے قابل ہوتا ہے: لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ عالم بولا ہے اور امر بالمعروف ونہی المنکر کا فریضہ عالم نے انجام دیا ہے۔ اس کی بات نہیں بھی مانی گئی اس کا عذر تو خدا کے ہاں قائم ہوا۔ لوگ کسی حیص بیص میں نہیں رہتے کہ یہ عالم مداہنت کرتا ہے یا منافقت سے کام لیتا ہے یا حق کے بیان سے سکوت اختیار کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے میں ملکوں کے ملک گھوم چکا ہوں۔ دور دراز کے ملکوں میں بلکہ دیار کفر میں پائے جانے والے مسلمانوں تک سے مجھے بکثرت یہ سننے کو ملتا رہا کہ علمائے اُمت آخر بولتے کیوں نہیں۔ اُمت میں یہ ہوا اُمت میں وہ بُرائی ہوئی مگر اس کے بالمقابل ہم نے اہل علم سے کلمہء حق نہیں سنا۔
چنانچہ جب عالم صراحت کے ساتھ اور دو ٹوک ایک بات کہتا ہے تو وہ اللہ کے ہاں ہی نہیں لوگوں کے ہاں بھی معذور گنا جاتا ہے۔

ثانیا: لوگ اس عالم کے گرد مجتمع ہونے لگتے ہیں: لوگ جب ایک عالم کو جراءت و بے باکی کے ساتھ کلمہء حق کہتا دیکھتے ہیں جو امر بالمعروف کرتا ہے اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا ہے تب وہ اس کے گرد اکٹھے ہوتے ہیں۔لوگ ایسے عالم کے گرد فصیل بن جاتے ہیں۔ وہ اِن کے دِل جیت لیتا ہے اور وہ اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ وہ عالم ہے جو اللہ اور یوم آخرت کا طلبگار ہے نہ کہ دینوی مقاصد وفوائد کا اور یہ کہ یہ عالم اپنے آپ کو خدا کی راہ میں لٹانے جا رہا ہے۔
یہ تب ہی ہوگا جب وہ اپنے انکار علی المنکر پر مبنی مؤقف کو منظر عام پر لے کر آئے۔ یہ خود لوگوں کے اپنے حق میں ہے۔ البتہ اگر انہیں معلوم ہی نہ ہو کہ عالم جراءت کا مالک ہے تو امکان ہے وہ اس عالم کو متہم ٹھہراتے رہیں اور اس سے سوء ظن اختیار کر رکھیں۔ نہ عالم کومددگار ملیں جو اس کے علم سے واقعی مستفید ہوں اور نہ مددگاروں کو کوئی راہبر۔

ثالثاً: دوسرے لوگ اس سے انکار علی المنکر پر جراءت پائیں گے: کیونکہ بہت سے لوگ یوں سوچتے ہیں کہ اگر عالم ہی خاموش ہے تو دوسروں کو تو پھر بالاولی چپ رہنا چاہیے۔ اسی طرح اگر ایک طالب علم خاموش رہتا ہے تو دوسرے تو بالاولی خاموش رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ عز بن عبدالسلام پورے زور وشور اور پوری گرج کے ساتھ کلمہء حق بلند کرتے تاکہ دوسروں کیلئے راستہ صاف کر دیں اور ان کو امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی راہ دکھائیں۔

رابعاً: حق گوئی کو قبول عام حاصل ہوتا ہے: چنانچہ حق جب علی الاعلان بیان کیا جائے گا اور ایک ثقہ معروف عالم دین کی جانب سے معروف کا حکم دیا اور منکر سے روکا جائے گا جو کہ صدق و اخلاص سے یہ کام کرتا ہے۔ نہ اس عمل سے دُنیا کی شہرت ومقبولیت کا طلبگار ہے اور نہ یہاں کی زینت وآرائش کا اور نہ دُنیا میں سربلندی یا فتنہ وفساد اس کا مطمح نظر ہے۔۔۔۔۔۔ تب اس سے حق مقبولیت پاتا ہے اور سرحق کے آگے جھکنے لگتے ہیں۔

خامساً: اس میں اُمت کی تعظیم ہے: اور وہ اس طرح کہ عالم جب کھل کھلا کر حق بیان کرتا اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتا ہے تب گویا وہ اُمت سے کہتا ہے: اب میرے اور میرے مخالف کے مابین حَکَم تم ہو۔ یوں وہ اپنا کیس اُمت میں لے آتا ہے جس سے اُمت کی بلند حیثیت تسلیم ہوتی ہے۔ اُمت کا مؤثر ہونا پھر ایک سوال بنتا ہے۔ اُمت کے ہر فرد کی ایک حیثیت اور وقعت بنتی ہے۔ ہر فرد کی رائے اہم بنتی ہے اور ہر شخص اپنی بات کہتا ہے یوں ایک اہم مسئلہ سب لوگوں کا موضوع بنتا ہے۔ لوگ ایک بصیرت پاتے ہیں اور خالی 'پیروکار' نہیں رہتے جو صرف دُعاؤں پر آمین کہنا جانتے ہوں اور ہر بات پر سعادت مندی سے سر ہلا دینا، جو کھرے اور کھوٹے میں تمیز کی صلاحیت رکھتے ہوں اور نہ مثبت رائے اور مشورہ کے ذریعے امور اجتماعی پر اثر انداز ہونے کا شعور۔ ایسا عالم دراصل ایک ایسی اُمت کی تیاری میں ممد ہوتا ہے جو آخرکار اپنا وزن منواتی ہے اور اپنی حیثیت تسلیم کرواتی ہے۔ یہ تب ہی ہوتا ہے جب علماء لوگوں کو اپنے معاملات میں شریک کار کر لینے میں کامیاب ہو جائیں اور جب وہ اُن کو امر ونہی اور کلمہء حق کے فریضہ میں شریکِ عمل کرلیں۔ یوں وہ اُمت کے حقیقی مسائل کو اپنے عوام سے روپوش نہ رہنے دیں، اس حجت کے تحت کہ جناب عوام تو کالانعام ہوتے ہیں اور عوام تو ہوتے ہی بے شعور ہیں ان کو معاملاتِ حق و باطل میں کیا اہمیت !

بہت سے علماء یہ منہج اختیار کئے رہتے ہیں کہ وہ لوگوں کے سامنے حقیقت کھول کر اور بیانگ دہل بیان کر دیں اور لوگوں کو اس مقام پر لے آئیں کہ وہ عالم کے منہ سے نکلی ہوئی ایک بات کا دفاع اور حمایت کرنے میں آخری حد تک چلے جائیں۔

ایسے ہی علماء میں سے ایک عالم عز بن عبدالسلام تھے جو اسی منہج پر کاربند رہے اور اسے اختیار کرنے میں ہرگز کوئی شے مانع نہ پاتے۔

عز بن عبدالسلام ایک بہت مضبوط بنیاد سے بولتے اور ایک واضح مؤقف اختیار کرتے۔ جیسا کہ وہ اپنے ایک قول میں فرماتے ہیں: ''ہم اپنے آپ کو من جملہ اللہ کے حزب شمار کرتے ہیں اس کے دین کے مددگار اور اس کی سپاہ۔ سپاہی اگر اپنے آپ کو کسی خطرہ میں ڈالنے کا روادار ہی نہ ہو تو وہ سپاہی تو نہ ہوا''۔
پس یہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے کہ کوئی آدمی دعویٰ تو کرے اللہ کے حزب اور جنود میں شامل ہونے کا اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا پھر وہ کوئی ذرہ بھر خطرہ پاس نہ آنے دے؟ جس کو ہر قیمت پر سلامتی ہی چاہیے اس کو دعوائے جاں نثاری زیبا نہیں۔ اسے چاہیے وہ گھر میں بیٹھے اور جان و بدن کی سلامتی کو ہی مطمح نظر جانے۔
یہ ہے منہج عز بن عبدالسلام کا۔۔۔۔۔۔ رحمہ اﷲ!
**********
عز بن عبدالسلام کے کچھ عظیم مواقف:
اس عظیم امام کے کچھ ایسے مواقف رہے جو آدمی کو حیران کر جاتے ہیں۔ اگر یہ مستند کتب کے اندر باقاعدہ رقم نہ ہوتے تو ہم کہتے یہ محض خیالاتی باتیں ہیں۔ مگر یہ کتب میں باقاعدہ درج ہیں اور ان کو کتب کے اندر درج کرنے والے باقاعدہ علماء ہیں جو کہ آپ کے دور میں پائے گئے اور جنہوں نے آپ کے ساتھ اور آس پاس وقت گزارا۔
اب یہاں ہم ان میں سے چند مواقف بیان کریں گے:
٭ الملک الصالح اسماعیل کے ساتھ عز بن عبدالسلام کا موقف :
عز بن عبدالسلام دمشق میں تھے تو وہاں الملک الصالح اسماعیل کی فرماں روائی تھی جو کہ ایوبی خانوادہ سے تھا۔ (خاندان ایوبی کے عہد آخر کے فرماں رواؤں میں سے ایک) اس بادشاہ نے امام عز الدین کو دمشق کی مرکزی مسجد جامع اموی کی خطابت پر فائز کیا مگر کچھ عرصہ بعد یہ بادشاہ صلیبی عیسائیوں کا حلیف بن گیا اور ان کو کچھ قلعے اور قصبے بھی دے ڈالے جن میں سے شقیف اور صفد قلعے بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ وہ ایوبی خانوادہ کے ہی ایک دوسرے بادشاہ الملک الصالح ایوب، جو کہ مصر کا فرماں روا تھا کے خلاف جنگ میں صلیبیوں کی مدد سے اپنی سلطنت مضبوط کر سکے۔
عز بن عبدالسلام نے یہ غدارانہ حرکت دیکھی کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ یوں موالات رکھی جا رہی ہے تو اس پر خاموش نہ رہے۔ منبر پر کھڑے ہو کر بادشاہ اسماعیل کے صلیبیوں کے ساتھ اس تحالف کی خوب مذمت فرمائی اور بہت صراحت کے ساتھ اس کی مخالفت کی۔ اس کیلئے دُعا موقوف کر دی جو کہ اس سے پہلے خطبے کے اندر آپ اس کیلئے فرمایا کرتے تھے۔ البتہ اس بار لوگوں نے آپ کو اِس دُعا پر اپنا خطبہ ختم کرتے ہوئے سنا:
اللہم ابرم لہذہ الامۃ امر رشدٍ یُعز فیہ ولیک، ویذلّ فیہ عدوک، ویؤمر فیہ بالمعروف وینہی عن المنکر۔
''خدایا! اس اُمت کیلئے بھلائی کی کوئی ایسی صورت سامنے لا جہاں تیرا دوست سربلند ہو اور تیرا دشمن ذلیل وپست۔ جہاں معروف کا حکم ہو اور منکر پر پابندی''۔
یہ دُعا فرمائی اور منبر سے اتر گئے۔
شاہ اسماعیل کو سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئی کہ عز بن عبدالسلام کی اِس دُعا کا اشارہ اسی کی جانب ہے۔ خوب آگ بگولہ ہوا۔ اس عالمِ حق کی خطابت سے معزولی پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ قید کا بھی حکم صادر کردیا۔ مگر لوگوں کا ردعمل حد سے بڑھا دیکھا تو قید سے رہا کردیا البتہ خطابت سے بدستور معزول رکھا۔
اب عز بن عبدالسلام نے دمشق چھوڑا اور بیت المقدس کی راہ لی۔ اتفاق یہ کہ شاہ اسماعیل کا رخ بھی کسی طرح اِدھر ہی کو ہوا جہاںکسی جگہ اُسے نصرانی امراء سے مذاکرات کرنا تھے۔ یہ جان کر کہ عز بن عبدالسلام اس سے کچھ ہی فاصلہ پر ہیں بادشاہ نے آپ کی طرف اپنا ایک درباری روانہ کیا اور حکم دیا: عز بن عبدالسلام کو خوب قریب کرنا اور نہایت لطف و کرم سے پیش آنا، بس کسی طرح اسے تیار کرلو کہ وہ میرے پاس آئے اور ایک بار معذرت کرلے تو سب مناصب اسے واپس ملیں۔ درباری عز بن عبدالسلام کے پاس گیا اور تمہید وآداب کے بعد کہنے لگا: حضرت آپ کے اور آپ کے سابقہ منصب کے بحال ہونے بلکہ اس سے بڑھ کر بہت کچھ پانے کے مابین سوائے اس اتنی سی بات کے کچھ بھی حائل نہیں کہ آپ تشریف لائیں اور سلطان کی دست بوسی کریں۔ عز بن عبدالسلام نے خندہء استہزاء سے جواب دیا: ''ابے او مسکین! بخدا میں تو اس بات کا روادار نہیں کہ بادشاہ یہاں آکر میرے ہاتھ پر بوسہ دے کجا یہ کہ میں جا کر اس کے ہاتھ پر بوسہ دوں! ابے او درباریو! میں کسی اور دُنیا کا رہنے والا ہوں اور تم کسی اور دُنیا کے باشندے۔ الحمدﷲ الذی عافانی مما ابتلاکم بہ : ''شکر اس خدا کا جس نے مجھے اس مصیبت سے عافیت میں رکھا جس میں تمہیں مبتلا کر رکھا ہے!''
درباری بولا: تو پھر ہمیں آپ کو قید کرنا پڑے گا۔ فرمایا: بسر وچشم ! شہر سے دور موقعہ پا کر آپ کو پھر گرفتار کرلیا گیا اور ایک خیمہ میں قید رکھا گیا۔ جہاں آپ کے قرآن پڑھنے اور عبادت وذکرو اذکار کرنے کی آواز ساتھ کے خیموں میں، جہاں بادشاہ مقیم تھا، صاف سنی جاتی تھی۔
بادشاہ کے صلیبی قیادتوں کے ساتھ مذاکرات کے کئی دور چلے۔ جہاں وقتاً فوقتاً عز بن عبدالسلام کے قرآن پڑھنے کی آواز بھی آجاتی تھی۔ ایک موقعہ پر بادشاہ داد طلب نگاہوں کے ساتھ صلیبی قائدین کو مخاطب کرکے کہنے لگا: پتہ ہے یہ قرآن پڑھنے کی آواز کس کی ہے ؟ صلیبیوں نے جواب دیا: ہمیں معلوم ہے۔ بادشاہ فخر سے بولا: جس طرح تمہارے ہاں پادری ہوتے ہیں سمجھو یہ ہمارا سب سے بڑا پادری ہے جسے ہم نے قید کر رکھا ہے کیونکہ یہ ہمارے تمہارے ساتھ حلیف ہونے اور اپنے بعض قلعے اور قصبے تمہیں دینے پر معترض ہوتا رہا ہے اور مصری لشکر کے خلاف تمہارے ساتھ مل کر ہمارے جنگ کرنے پر تو بہت ہی شور مچاتا رہا ہے۔ اس پر کچھ نصرانی بادشاہ مسلم بادشاہ سے گویا ہوئے: ''بخدا یہ 'پادری' اگر ہمارے ہاں ہوتا تو ہم اس کے پیر دھو دھو کر پیتے''۔

کچھ ہی عرصے میں شاہ اسماعیل کو ذلت و پستی کا سامنا ہوا۔ مصر کا لشکر اس پر غالب آیا۔ اسے اور اس کے حلیفوں کو بھی مصر کی فاتح مسلم سپاہ کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ تب امام عز الدین بن عبدالاسلام کی رہائی ہوئی۔
علی الاعلان انکار علی المنکر۔ عز بن عبدالسلام نے اس موقعہ پر یہی مؤقف اپنانا ضروری سمجھا اور اپنے لئے اسی بات کی گنجائش پائی جبکہ راستے آپ کے سامنے اور بھی ہو سکتے تھے۔ کیونکہ یہ منکر علی الاعلان ہو رہا تھا۔ شاہ اسماعیل کے صلیبی حلیف دمشق کی گلیوں میں چلتے پھرتے اور وہاں کے بازاروں میں خریداری کرتے دیکھے گئے تھے۔ یہاں تک کہ وہ مسلمانوں سے ہتھیاروں کے سودے کرتے پھر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے پاس فتویٰ لایا گیا: کیا ہم نصرانیوں کو اسلحہ فروخت کر سکتے ہیں ؟
آپ نے فتویٰ صادر فرمایا: ان کو اسلحہ بیچنا ہرگزجائز نہیں۔ جو ان کو اسلحہ بیچتا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ اس کے بیچے ہوئے یہ ہتھیار اس کے اپنے مسلم بھائیوں کے سینوں میں گھونپے جائیں گے۔
٭ الملک الصالح ایوب کے ساتھ عز بن عبدالسلام کا مؤقف :
اس کے بعد امام عز بن عبدالسلام مصر روانہ ہوئے جہاں بادشاہ نجم الدین ایوب نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا اور مملکت کے نہایت بلند عہدے تفویض کئے۔
توقع کی جا سکتی تھی کہ عز بن عبدالسلام کہتے کہ یہ عہدے جو مجھے تفویض ہوئے ہیں اُمت کی مصلحت اسی میں پوشیدہ ہے کہ ان عہدوں کو میں اپنے پاس بچا رکھوں اور مصری حاکم کے ساتھ تعلقات خراب کرکے ان سے ہاتھ نہ دھو بیٹھوں۔ جبکہ یہ بات بھی نگاہ میں رہے کہ شاہ ایوب گو ایک دیانتدار اور بلند وضع انسان تھا مگر وہ ایک شدید جابر اور قہری انسان تھا۔ کوئی اس کے سامنے دم نہ مارتا تھا۔ یہاں تک کہ دربار میں اس کے حضور کوئی شخص بات کرتا ہی نہ تھا۔ نہ کوئی کسی کی سفارش کر سکتا تھا۔ کسی سوال کے جواب میں ہی آدمی اس کے دربار میں بولے تو بولے ورنہ خاموش، صرف بادشاہ کو سنے۔ حتی کہ اس کے بعض امراء کا یہ قول منقول ہے: الملک الصالح ایوب کی مجلس میں ہمیشہ ہمیں یہ ڈر رہتا کہ اس مجلس سے نکلیں تو شاید جیل ہی پہنچیں۔ شاہ ایوب نہایت ہیبت رکھتا تھا۔ ایک بار کسی کو قید کر دیتا تو اس کو بھول ہی جاتا۔ کسی کی ہمت نہ تھی کہ اسے یاد ہی کرا دے کہ کوئی شخص کتنی دیر سے اس کی قید میں گل سڑ رہا ہے۔ یہ تو درباریوں کا حال تھا۔ عوام کی تو اس کے ذکر سے ہی سانس خشک ہوتی تھی۔
عز بن عبدالسلام اس رعب ودبدبہ کے مالک حکمران کے ساتھ کیا سلوک اختیار کرتے ہیں ؟
عید کے روز بادشاہ کا پرشکوہ جلوس بچو! ہٹو! کی صداؤں میں قاہرہ کی سڑکوں پر جلوہ افروز ہوتا ہے۔ سپاہِ مصر دو رویہ ساکت وجامد کھڑی ہے۔ ننگی تلواریں ستی ہوئی ہیں۔ بڑے بڑے کروفر کے مالک امراء جگہ جگہ بادشاہ کے حضور زمیں بوسی کر رہے ہیں ___یہ زمیں بوسی ایک گندی روایت تھی جو اس دور کے ملوک اور امراء میں عام ہو گئی تھی___ جلوس چلا جا رہا ہے اور ایک جگہ عز بن عبدالسلام سامنے آجاتے ہیں۔
''ایوب'' !
کوئی سابقہ نہ کوئی لاحقہ۔ نہ کوئی لقب نہ تعریف۔ بس خالی نام: ''ایوب''
بادشاہ نے چونک کر دیکھا۔ مجرد یک لفظی نام سے اس کو مخاطب کرنے والا دُنیا میں آخر ہے کون ؟ ابھی بادشاہ محو تعجب ہے کہ عز بن عبدالسلام کی جانب سے سوال آتا ہے: ''خدائے ذوالجلال کے ہاں کل قیامت کے روز تمہارا کیا جواب ہوگا اگر وہ تمہیں پوچھے: کیا میں نے تجھے مصر کی بادشاہت نہیں دی تھی جہاں تو نے شرابیں چلتی رہنے دیں ؟''
''کیا مصر میں ایسا ہوتا ہے؟'' بادشاہ نے سوال کیا۔
عز بن عبدالسلام فرماتے ہیں: جی ہاں فلاں فلاں جگہ شراب خانہ ہے جہاں شراب کی فروخت اور کچھ دیگر منکرات بھی ہوتے ہیں اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم خدا کی بخشی ہوئی بادشاہت کا حظ اٹھاتے ہو ؟
''میرے آقا، یہ حکم میرے ہاتھوں جاری نہیں ہوا'' بادشاہ نے صفائی پیش کی ''یہ سلسلہ والدِ معظم کے دور سے چلتا آرہا ہے''۔
عز بن عبدالسلام نے سر جھٹکا اور فرمایا: اچھا تو تم ان لوگوں میں سے ہو جو یہ کہتے ہیں انّا وجدنا آباء نا علی امۃ ''ہم تو اپنے باپ دادا کو ایک راستے پر پاتے آئے ہیں''۔
بادشاہ بولا ''توبہ نعوذ باﷲ!'' اس کے ساتھ ہی اس بُرائی کے خاتمہ کا حکم صادر کیا اور پورے مصر کے اندر شراب کی فروخت ممنوع قرار دی۔
عز بن عبدالسلام نے واپس اپنی مسند علم کا رخ کیا جہاں وہ اپنے شاگردوں کو جس طرح حلال وحرام اور مسائل و احکام پڑھاتے، اسی طرح ان کو جراءت و بسالت کے درس دیتے اور دین کے معاملہ میں غیرت اور حمیت کے اسباق پڑھاتے۔ آخر ایک طالب علم کی وقعت اِس صورت میں کیارہ جاتی ہے جو قرآن اور صحیحین اور سنن کے متون تو یاد کئے بیٹھا ہو اور فقہ اور حدیث کی کتب ازبر کئے ہوئے ہو مگر اسلام کیلئے غیرت نام کو نہ ہو۔ نہ اللہ اور رسولؐ کیلئے کبھی غصہ میں آیا ہو اور نہ باطل کو دیکھ کر اس کا کبھی چہرہ بگڑا ہو جبکہ وہ اپنے علم اور حفظ کے بل بوتے پر صدیقین وشہدا کی منزلیں پانے کا امیدوار ہو ! ؟ ایسے علم کا مصرف ۔۔۔۔۔۔ ؟
اس کے بعد عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ جب اپنی مسند درس پر بیٹھے تو آپ کے ایک شادگرد آئے جو الباجی رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ شاگرد نے آپ کا حال احوال دریافت کیا۔ طبیعت کی بابت اطمینان کیا۔ پھر سوال کیا: اُستاد گرامی ! اس سلطان کے ساتھ آپ نے یہ معاملہ کر کیسے لیاتھا ؟ عزبن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: برخوردار ! میں نے سلطان کو اس شان وشوکت کے ساتھ دیکھا تو مجھے ڈر پیدا ہواکہ کہیں اس کی نفس میں اتنا کبراور گھمنڈ نہ آجائے کہ اس کیلئے مصیبت بن جائے۔ تب میں نے ارادہ کیا ذرا اسے نیچا لے آیا جائے۔
چنانچہ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ نے لوگوں کے سامنے اور برسرعام یہ اقدام کیا کیونکہ وہ سلطان کی تربیت کرنا چاہتے تھے اور ہر دو منکرات کا بیک اقدام خاتمہ کرنا چاہتے تھے، ایک یہ کہ وہ شراب خانہ ختم ہو جس میں شراب فروخت ہوتی تھی دوسرا وہ غرور اور وہ بڑائی اور کبریائی جو سلطان کے نفس کو لاحق ہو رہی تھی، آپ نے اس کو اس کی اوقات میں لانے کیلئے یہ اقدام فرمایا وگرنہ نری نصیحت تو نجی محفل میں بھی ہو سکتی تھی۔ تبھی تو وہ اپنے ہر دل عزیز شاگرد کو بتاتے ہیں کہ سلطان کو بر سر عام نصیحت انھوں نے اس لیے کی تھی کہ وہ فرماتے ہیں : ''مجھے ڈر پیدا ہوا، کہیں اس کی نفس میں کبر نہ آجائے کہ اس کیلئے مصیبت بن جائے''۔
الباجی نے اگلا سوال کیا: سیدی! کیا آپ بادشاہ سے ڈرے نہیں؟ فرمایا: واللہ نہیں: برخوردار! میں نے اس وقت خدا کی عظمت اور کبریائی کا تصور اپنے اوپر طاری کر لیا تھا تب بادشاہ مجھے یوں لگا جیسے میرے سامنے کوئی بلی ہے !''
البتہ آج آپ ایسے طلبئہ شریعت کو بھی دیکھیں گے جو بلی سے ہی ڈرا کرتے ہیں! کیا یہ لوگ شریعت کی بنیاد پر امر ونہی کریں گے ؟
برسرعام ایسا موقف اپنا کر عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ شاید پوری اُمت کے اندر وہ روح پھونک دینا چاہتے تھے جو اُسے جراءت اور بے باکی سے آشنا کردے۔
٭ امراءِ ممالیک کے ساتھ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کا موقف:
یہ البتہ ایک ایسا زبردست اور عجیب حیران کن موقف ہے کہ عام آدمی کو ناقابل یقین لگتا ہے۔۔۔۔۔۔
ممالیک غلاموں کو کہا جاتا ہے۔ بہت سے ممالیک اونچے اونچے عہدوں پہ فائز تھے جبکہ ان میں سے اکثر کی بابت یہ تک پتہ نہ تھا کہ ان کا مالک ہے کون۔ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے دور تک آتے آتے یہ اقتدار میں بہت اوپر تک پہنچ چکے تھے بلکہ حقیقی اقتدار تو تھا ہی ممالیک کے پاس۔ خود نائب سلطان ایک مملوک تھا۔ ملٹری کمانڈر سب کے سب مملوک تھے۔ بیورو کریسی مملوکوں سے بھری ہوئی تھی کچھ تو ایسے تھے جنہیں ان کے اصل مالکوں نے کسی نہ کسی مرحلے پر آزاد کر دیا تھا مگر کئی ایک ایسے تھے جن کا آزاد ہونا پایہء ثبوت ہی کو نہ پہنچتا تھا۔
عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ مصر کے قاضی القضاۃ تھے۔ غیر آزاد شدہ ممالیک افسروں کی جانب سے کوئی پروانہ آتا، خرید وفروخت یا نکاح یا جائیداد سے متعلق احکامات آتے توآپ انہیں یہ کہہ کر لوٹا دیتے کہ یہ ایک غلام کے احکامات ہیں۔ وہ کوئی بڑے سے بڑا امیر کبیر اور وزیر کیوں نہ ہو آپ اس کے احکامات مسترد کردیتے۔ پوچھنے پر واضح کرتے: اس غلام کو بیچا جائے گا۔ پھر آزاد کیا جائے گا اس کے بعد اس کے معاملات از قسم خرید وفروخت اور اس کے جاری کردہ احکامات وتصرفات معتبر ہوں گے۔ اس وقت البتہ یہ غلام ہی ہے جو آزادانہ خرید و فروخت نہیں کر سکتا۔
ممالیک جو اقتدار کے نشے میں چور تھے، یہ سن کر بے حد سیخ پا ہوئے۔ ان کے لوگ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آئے اور کہنے گے: یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا: ہم نے تمہارے تصرفات کالعدم قرار دیے ہیں۔ اس پر وہ اور بھی بگڑے اور مسئلہ سلطان کے پاس لے کر پہنچے جس پر سلطان کہہ بیٹھا کہ یہ مسئلہ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ سے متعلقہ نہیں۔ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ نے سلطان کی یہ بات سنی تو اعلان کیا: میںآج سے اپنے آپ کو عہدہء قضاء سے معزول کرتا ہوں۔
عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کی قوت کا ایک بڑا راز یہ تھا کہ آپ سرکاری عہدوں سے بلند تھے عہدے اور القاب ان کا کچھ گھٹا سکتے تھے اور نہ بڑھا سکتے تھے۔ عہدہ آپ کی ذات سے جڑ کر مضبوط ہوتا تھا آپ عہدے سے جڑ کر بڑے نہ ہوتے تھے۔ آپ کی قوت کا راز آپ کا اللہ پر ایمان تھا اور آپ کا امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا اور بے باکی سے معاشرے کے اندر حق بیان کرنا۔ مزید برآں آپ کی قوت کا راز اُمت تھی جس کا اعتماد آپ کو حاصل ہو گیا تھا اور جو آپ کی حق گوئی کے عمل میں آپ کی مددگار بن جاتی تھی۔
عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کے دِلوں میں رہتے تھے اور نفوس پر حکومت کرتے تھے۔ اس بات نے آپ کو معاشرے کے اندر ایک منفرد ترین حیثیت دے ڈالی تھی اور آپ اپنے دور میں عالم اسلام کے عظیم ترین داعی، امام اور عالم کے طور پر دیکھے جاتے تھے۔ چنانچہ وہ آپ ہی اپنے آپ کو قضا سے معزول کرلیتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور اقدام بھی کیا اور وہ یہ کہ اپنا سب مال اسباب جمع کیا اور دو گدھے خریدے۔ ایک پر آپ کا سب سامان لادا گیا۔ دوسرے پر آپ کی زوجہ اور بچہ سوار کرایا گیا۔ یہ چھوٹا سا قافلہ مصر سے روانہ ہو گیا۔ آپ اپنے اصل وطن شام واپس جا رہے تھے۔
مگر ہوا یوں کہ جس جس کو پتہ چلتا گیا کہ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ نے مصر چھوڑ دیا ہے وہ آپ کے ساتھ ہو لیا۔ پوری اُمت آپ کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے وہاں کے علماء ہو لئے۔ وہاں کے صالحین، عبادت گزار، مرد، عورتیں، بچے سب آپ کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یہاں تک کہ نچلے طبقے پیچھے نہ رہے۔ روایت کے لفظ ہیں: مصر کے بڑھئی، رنگ ساز، خاکروب، سب عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہو لئے۔ ہر طبقے اور ہر پیشے کے لوگ قاہرہ سے کوچ کر جانے لگے۔ یوں عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے ایک بڑی دُنیا مصر سے کوچ کر کے جا رہی تھی۔
تب کچھ لوگ سلطان کے پاس گئے اور اس سے کہا: یہاں آپ کی حکمرانی کیلئے بچے گا کون ؟ دیکھیے تو سہی سب دُنیا تو عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ہی مصر کی مملکت چھوڑ ے جارہی ہے۔
تب مصر کا بادشاہ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے آیا۔ انبوہعظیم کو چیرتا ہوا عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچا اور آپ کو راضی کرنے لگا: ''حضرت قاہرہ واپس تشریف لے آئیے۔ آپ جو کہیں گے ہو جائے گا''۔ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: میں تب تک واپس آنے کا نہیں جب تک تمہارے ان مملوک حکمرانوں کی بولی نہیں لگتی۔ بادشاہ کہنے لگا: آپ جو فرمائیں گے ویسا ہی ہوگا۔
عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ قاہرہ واپس آگئے۔ اب ممالیک نے اپنے طور پر کوشش کی کہ کسی طرح حضرت کو راضی کرلیں اور وہ اپنے ارادے سے باز رہیں۔ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے بڑے بڑے امراء اور عہدیدار ہوتے ہوئے وہ کھلی بولی میں فروخت ہوں۔ نائب سلطان نے جو کہ خود ایک غیر آزاد مملوک تھا آپ کو ایک نہایت نرم وگداز پیغام بھیجا مگر آپ اپنے ارادے پر قائم رہے۔ اب انہیں تدبیر سوجھی کہ حضرت کو قتل ہی کردیا جائے اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا۔ نائب سلطان خود اپنے حاشیہ برداروں کے ساتھ آیا اور آپ کے دروازے پر دستک دلوائی۔ حاشیہ برداروں نے ننگی تلواریں تھام رکھی تھیں۔ دروازے پر عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند آئے جن کا نام عبداللطیف تھا، اس نے یہ خوفناک منظر دیکھا تو الٹے پیروں واپس ہوا اور والد بزرگ وارسے کہنے لگا: ابا جان موت ! نکلنے کی کوئی صورت ہو تو بچ نکلئے۔ اوراِس کے ساتھ ہی سارا معاملہ بیان کردیا۔ عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بیٹا تمہارا باپ اس سے کہیں کمتر اور حقیر ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں قتل کردیا جائے۔ یہ کہہ کر آپ باہر آئے اور نائب سلطان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ نائب سلطان پر کچھ ایسا رعب پڑا کہ وہ وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔ ہاتھ پیر ساتھ نہ دے رہے تھے۔ خود اپنی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑی۔ چہرے کا رنگ فق ہو گیا تھا کچھ دیر وہ یونہی خاموش رہا پھر بڑی لجاجت سے بولا: میرے آقا آخر آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ فرمایا: میں تمہاری بولی لگواؤں گا اور تمہیں فروخت کروں گا۔ کہنے لگا: اس کی قیمت آپ وصول کریں گے ؟ فرمایا: ہاں۔ کہا اس کا کیا کریں گے ؟ فرمایا: بیت المال میں جمع کرائی جائے گی اور مسلمانوں کے مصالح میں برتی جائے گی۔ نائب سلطان کی آنکھیں بھر آئیں۔ آپ سے دُعا کی درخواست کی اور رخصت ہو گیا۔
تب واقعتا یوں ہوا کہ مملکت کے بڑے بڑے سرکش افسر اور وزیر اور کرّوفرّ کے مالک حکمران ایک ایک کرکے عز بن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ کے پاس لائے جا رہے تھے۔ آپ ایک ایک کی بولی لگواتے۔ آپ نے اسے محض کوئی قسم توڑنے کی کارروائی بھی نہ رہنے دیا۔ بار بار منادی کراتے اور خوب خوب قیمت بڑھواتے۔ جب تک قیمت بہت اوپر نہ چلی جاتی بولی نہ رکواتے۔ یہ سب آپ اس لئے کر رہے تھے کہ ان کا گھمنڈ خاک میں مل جائے اور ان کی تنی ہوئی گردنیں ذرا تواضع سیکھ لیں۔ یوں مصر کے بازار میں حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد نیلام کر دی گئی۔
علماء اور حکمرانوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ ایسا واقعہ انسانی تاریخ میں کبھی ہوا ہی نہیں۔
یہ ہیں ہمارے ائمہ۔ اقوام عالم اپنے فخر کیلئے جو کچھ بھی ان کے پاس ہے لے آئیں ہم اپنے ائمہ اور ان بزرگان دین کو لے آئیں گے اور فیصلہ انہی پر چھوڑ دیں گے۔ ابن عبدالسلام رحمۃ اللہ علیہ جیسی شخصیت کسی قوم کے پاس ہو تو ذرا سامنے لائے۔
اس عظیم ترین واقعہ کو کئی ایک نے بڑی خوبصورتی سے رقم کیا ہے۔ عربی ادب کے عظیم نابغہ مصطفی صادق الرافعی نے اپنی تالیف ''وحی القلم'' میں ''اُمَراءٌ لِلْبَیْعِ''۔ ( امراء برائے نیلام عام) کے عنوان کے تحت بیان کرتے ہوئے اس حقیقی واقعہ کو ادب کا ایک شہ پارہ بنا دیا ہے۔مصطفی صادق الرافعی کی یہ تخلیق پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

قصہ ایک عالم ِدین کا کہ جس نے بادشاہ نیلام ک&#
 
Top