- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
قطع رحمی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(( أَبْغَضُ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ الْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ، ثُمَّ قَطِیْعَۃِ الرَّحِمِ۔))1
’’ اللہ کے ہاں سب سے برا عمل رب کائنات کے ساتھ شرک کرنا، پھر رشتہ داری توڑنا ہے۔ ‘‘
شرح…: رحم سے مراد ایسے قریبی رشتہ دار ہیں جن سے نسبی تعلق ہو خواہ وارث ہوں یا نہ ہوں اور خواہ محرم ہوں یا نہ ہوں، بعض لوگ صرف محرم ہی مراد لیتے ہیں۔ پہلی بات ہی راجح ہے کیونکہ دوسرے معنی کے اعتبار سے چچا اور ماموں کی اولاد رشتہ داری سے نکل جائے گی حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ اللَّہَ خَلَقَ الْخَلْقَ حَتَّی إِذَا فَرَغَ مِنْ خَلْقِہِ قَالَتِ الرَّحِمُ: ہَذَا مَقَامُ الْعَائِذِ بِکَ مِنَ الْقَطِیْعَۃِ، قَالَ: نَعَمْ، أَمَا تَرْضِیْنَ أَنْ أَصِلَ مَنْ وَصَلَکِ وَأَقْطَعَ مَنْ قَطَعَکِ؟ قَالَتْ: بَلَی یَا رَبِّ۔ قَالَ: فَہُوَ لَکِ۔)) قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم : (( فَاقْرَئُوْا إِنْ شِئْتُمْ {فَہَلْ عَسَیْتُمْ إِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَکُمْ}۔))2
اللہ تعالیٰ نے مخلوق پیدا کی، جب اس سے فراغت ہوئی تو رشتہ داری اور صلہ رحمی کھڑی ہوئی اور کہنے لگی: ہاں! یہ اس کا مقام ہے جو توڑنے سے تیری پناہ چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تو اس بات پر راضی نہیں ہے کہ جو کوئی تجھ کو ملائے ا سے میں بھی ملوں گا اور جو کوئی تجھے توڑے میں بھی اس سے قطع کروں گا؟ صلہ رحمی نے عرض کی: میں اس پر راضی ہوں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے یہ مقام تجھ کو دے دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو اس کی تصدیق میں پڑھ لو: {فَہَلْ عَسَیْتُمْ اِِنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَرْحَامَکُمْ o} [محمد:۲۲] … ’’ اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تمہیں حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کردو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ نے جب صلہ رحمی کو پیدا کیا تو اس کا نام رحم اپنے نام رحمان سے مشتق کیا اور رحم (رشتہ داری) کو ملانے کا حکم دیا اور توڑنے سے منع فرمایا۔ چنانچہ یہ حرکت شرک کے بعد اللہ تعالیٰ کو سب سے بری لگتی ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۶۶۔
2- أخرجہ البخاري في کتاب الأدب، باب: من وصل وصلہ اللہ۔ رقم : ۵۹۸۷۔