• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قلمناک یادیں از ابو نثر

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
عمِ محترم مولاناابوالجلال ندوی ؒ کا قاعدہ تھا کہ اگرکوئی بچہ بھی کوئی بے سند بات کہہ دے تو خواہ وہ کتنے ہی ضروری کام میں مصروف ہوں، فی الفوراُس کی اِصلاح فرماتے۔اِس کالم نگار کا اوّلین کالم ''نوشتۂ دیوارپڑھ لیجیے'' اُن کی زندگی ہی میں(27جون1974ء کو)شائع ہواتھا۔ اُنھوں نے اس حادثۂ فاجعہ کی خبر سنی تو حکم دیا:
''اخبارلاؤ اور اپنالکھا ہوا کالم خودسُناؤ''

کسی کالم نگار کو دی جانے والی اس سے زیادہ قرار واقعی سزا ہماری نظر سے اب تک نہیں گزری۔ مولاناہماری خواندگی کی سماعت کے دوران میں جابجاتلفظ کی اِصلاح بھی کرتے جاتے تھے۔تلفظ تو گیا ٹی وی چینلوں کے بھاڑ میں، اب تو ذرایع ابلاغ میں کوئی املا کی اصلاح کرنے والا بھی نہیں پایا جاتا۔ مولانا نے جب 'وال چاکنگ' کے متعلق ہمارے کالم کا یہ فقرہ سُنا کہ:
''یہ رسمِ کہن قیسِ عامری کے دور سے دیواربہ دیوار چلتی چلی آرہی ہے۔۔۔کہ مجنوں لام الف لکھتاتھا دیوارِ دبستاں پر''۔
تومسکرا کر اِس فقرے سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرمایا:
''یہ رسم اس سے بھی پہلے سے چلی آرہی ہے۔۔۔ خیر آگے پڑھو!''
یہ جملۂ معترضہ فقط جملۂ معترضہ ہی بن کر نہیں رہ گیا۔ بعد میں اُنھوں نے دیواروں پر پائے جانے والے قدیم کتبات کی داستانیں سُنائیں جواُن کے متعددمضامین میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ ان میں سے بعض مضامین شعبۂ تصنیف وتالیف وترجمہ (جامعہ کراچی) کے رسالے 'جریدہ'شمارہ (22) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔

مگرایک فکاہیہ کالم کا ایک چلتاہوافقرہ جو صرف ایک 'دیواری' مصرع استعمال کرنے کی خاطر لکھاگیا تھا، ایک بزرگانہ روک ٹوک کی وجہ سے علم میں اضافہ کاسبب بن گیا۔مولانا کا مؤقف یہ تھا کہ مذاق میں بھی اپنے قارئین تک کوئی ناقص، نامکمل اوربے سند بات نہ پہنچاؤ۔نصیحت یہ تھی کہ اپنے جہل کے اعتراف اوراپنی غلطی کی اصلاح کے لیے ہمیشہ آمادہ اور تیاررہو۔ نصیحت گرہ میں باندھ لی۔مگر اسی نصیحت سے ایک مرض بھی پیدا ہوگیا۔ وہی حضرتِ حفیظؔ جالندھری والا مرض کہ۔۔۔'ہر بُری بات بُری بات نظرآتی ہے'۔۔۔تاہم اب اتنی قوتِ برداشت اپنے اندر پیداکرلی ہے کہ غلط اِملا، غلط اشعار اور غلط فقرے سہ سہ کر نظرانداز کرنے لگے ہیں۔بعض اوقات غلط خیالات بھی۔ اپنے آپ ہی کو سمجھا لیتے ہیں کہ۔۔۔ مت کہو گرغلط چلے کوئی۔۔۔چُپ رہو گر بُراکرے کوئی۔ہرچندکہ بعض اوقات۔۔۔کیاکَہیں؟ کچھ کہانہیں جاتا ۔۔۔ بِن کہے بھی رہا نہیں جاتا!

ابھی چند ہی روز پہلے کی بات ہے۔ ایک مدیرِ محترم'تبصرۂ کتب' پر تبصرہ کررہے تھے۔اُن کا خیال تھا کہ کتاب خوانی کے فروغ کے لیے کتابوں کی بہرصورت ستائش ہی کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کو کتاب پڑھنے کی عادت پڑے۔ اِس جاہل کالم نگارکا خیال تھا کہ قارئین کوکتابوں سے بدظن ہونے سے بچانے اور دیانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ کتاب کے 'حسن ' اور کتاب کے 'قُبح' دونوں سے آگاہ کیا جائے۔ انجمن تحسینِ باہمی نہ تشکیل دی جائے۔ عربی زبان میں 'تنقید' کالفظ اصلاً پرندوں (مثلاً مرغی وغیرہ) کے دانہ چگنے کے لیے استعمال ہواہے۔ جس طرح ایک پرندہ خس وخاشاک الگ کرکے اُس میں سے اپنی غذا چن لیتاہے، اسی طرح کتاب وغیرہ کی خوبیاں اورخامیاں بھی چن چن کر الگ الگ کردینا تنقید کہلائے گا۔(تنقید کا مطلب محض تنقیص نہیں ہے، اس میں تحسین بھی شامل ہے)۔پھر رشوت، سفارش یا اقربا پروری کی بنیاد پر انتقاد کرنا یعنی قلم فروشی کرنا تو ایسا جرم ہے، جس کی سزا سنگساری ہونا چاہیے۔
اس بات پرلڑکپن کا ایک اور منظرحافظے کے پردے پر اُبھر آیا، اور ایک نصیحت مزید یاد آگئی۔

سندھ مُسلم سائنس کالج کی سماعت گاہ تھی۔ کالج کی'بزمِ اُردو' کی طرف سے ایک توسیعی خطبہ کا ا نعقاد ہورہا تھا۔شیخ الجامعہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی مہمانِ خصوصی تھے۔ کالج کے پرنسپل محترم حشمت اﷲ لودھی اِس تقریب کے صدرنشین تھے اورمہمانِ خصوصی کے بائیں پہلو میں براجمان تھے۔کالج کی' بزمِ اُردو' کے صدرمحترم پروفیسر اشرف شیر صاحب (جو کالج کے شعبۂ اُردو کے بھی سربراہ تھے) ڈائس پر تعارُفی وخیرمقدمی کلمات اداکررہے تھے۔ 'بزمِ اُردو' کامعتمدعمومی جوسالِ دوم کا طالب علم تھا اور تقریب کی نظامت بھی کررہاتھا، مہمانِ خصوصی کے دائیں جانب اُن کاہم نشیں تھا۔
یکایک ڈاکٹر صاحب کو کچھ نوٹ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اُنھوں نے طالب علم سے کاغذطلب کیا۔ کالج فائل سے کاغذ نکال کر دینے کے ساتھ ساتھ طالب علم نے ڈاکٹرصاحب کی خدمت میں اپنا قلم بھی پیش کردیا۔ ڈاکٹرصاحب مُسکرائے۔اپنے کوٹ کی بائیں جانب واقع اوپری جیب سے اپنا فاؤنٹین پین نکالا اور طالب علم سے کانا پھوسی کی:
''میاں ! ایک بات ہمیشہ یاد رکھو۔اپنی بیوی اور اپنا قلم کبھی دوسرے کو نہیں دیتے!''

کہنے کو تویہ بس ایک شوخ، شگفتہ فقرہ تھا۔مگر ڈاکٹر صاحب نے اس 'صاحبِ قلم'کوقلم کی عصمت سے متعلق، غیرت کا جوسبق اِس مختصر سے شگفتہ فقرے میں دے دیا وہ آج تک ذہن پر نقش ہے۔
تقریب کے بعد ڈاکٹر صاحب کے آگے آٹوگراف بُک پیش کی۔قلم پیش کرتے کرتے یک دَم گھبراکر واپس کھینچ لیا۔ اساتذہ نے اِس بدتمیزی پر گھور کردیکھا۔مگرڈاکٹرصاحب ایک بارپھر مُسکرائے۔اپنے کوٹ کی بائیں جانب واقع اوپری جیب سے اپنا فاؤنٹین پین نکالا اور تحریرکیا:
''اگرکوئی کام اِس لایق ہے کہ کیا جائے، تویقیناًوہ اِس لایق بھی ہے کہ حسن وخوبی اورخوش اُسلوبی سے کیا جائے''۔
ان واقعات کے ایک برس بعد یہ عاجز جامعہ کراچی کا طالب علم ہوگیا ۔مگر اب ڈاکٹر صاحب شیخ الجامعہ نہ تھے۔ اُس وقت تک'صدربھٹو' دیگر 'اسلام پسندوں' کے ساتھ اُن کو بھی 'فکس اَپ' کرچکے تھے۔
اُنھی دنوں، ایک روز ایک تعلیمی مذاکرے میں ڈاکٹر صاحب سے پھر ملاقات ہوگئی۔ برس بھر پہلے کی باتیں یادآگئیں۔اُس تقریب میں نوجوان مقررنے کچھ نئے حالات کا شکوہ کیا،کچھ وسائل کی قلت کوعذرکے طورپر پیش کیا اور کچھ سہولتوں کی عدم دستیابی کارونارویا۔ ڈاکٹرصاحب جب اپنا خطبۂ صدارت دینے آئے تواُنھوں نے نوجوان کو بطورِ خاص مخاطب کیا اور فرمایا:
''ایک جرمن ادیب کا کہنا ہے کہ اِس اندھیروں بھری دُنیا میں جینا اور اِس کی تاریکیوں ہی میں جوکچھ بن سکے کرگزرنا، فلسفۂ زندگی ہے۔ عزیز من!تُمھیں بھی جوکچھ کرنا ہے، وہ انھی حالات میں اور انھی وسائل کی مدد سے کرنا ہے''۔

سو،اُس روزیہ بات بھی ذہن پر نقش ہوگئی۔سادہ صفحاتِ ذہن پر اوربھی کئی باتیں نقش ہوتی رہیں۔ اُن سب کا ذکرکرنے کی یہاں گنجایش نہیں ہے۔ کسی روز یہ گنجایش بھی ضرورنکل آئے گی اوران سب کا ذکر ہوگا۔آج تو مختصراً بس یہ سمجھ لیجیے کہ اُس دور کی ایسی ہی بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں کے نقوش اوراقِ ذہن پر پڑتے اور ثبت ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ ہوتے ہوتے ایک روزیہی مخصوص ذہن بن گیا۔ ایسا بناکہ اب بگڑتاہی نہیں۔
مگر اب ایسے ذہن ساز اساتذہ اور فکر سازاہلِ قلم کہاں؟
 
Top