• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں ، چالیسواں یا چہلم ، عرس و برسی

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85

قل ، تیجا ، ساتا ، دسواں ، چالیسواں یا چہلم ، عرس و برسی ۔
برصغیر میں پائی جانے والی بدعات میں سے ہی چند بدعتیں قل، تیجا، ساتا ، دسواں ، چالیسواں یا چہلم اور عرس و برسی وغیرہ بھی ہیں۔
یہ بدعت اس وقت ہوتی ہے جب کوئی قضائے الہٰی سے فوت ہو جاتا ہے تو اس کے لواحقین پس مرگ قل اور پھر تیسرے دن فاتحہ کرتے ہیں جسے تیجا یا زیارت بھی کہتے ہیں ۔ اس دن مرنے والے کے لیئے قرآن خوانی کے ساتھ ساتھ سوا لاکھ مرتبہ بھی چنے ، کھجور کی گٹھلیوں یا بادام وغیرہ پر پڑھا جاتا ہے۔نیز میت کے لواحقین کی جانب سے سوئم کی فاتحہ میں آنے والوں کیلئے پر تکلف کھانوں کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ سوئم وغیرہ غمی کی رسم کہلاتی ہے لیکن ان رسموں میں آنے والی خواتین کے زرق برق ملبوسات اور بناو سنگھار اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ رسم صرف نام کی حد تک غمی اور حزن کی رسم ہے ۔ اگر یہ لوگ میت کے لواحقین کے شریک غم ہونے کے لیئے آتے ہیں تو بن ٹھن کر آنے اور دعوتیں کھانے کی کیا ضرورت ہے ؟
اور اگر لوحقین نے میت کے غم میں یہ مجلس سوئم بر پا کی ہے تو انہیں اہتمام دعوت کرنے کیا ضرورت ہے ؟
اسلام ایسا حکم کہیں بھی نہیں کہ میت کے لواحقین میت کا قل ، تیجا ، ساتا، دسواں ، چالیسواں یا چہلم اور عرس و برسی وغیرہ نام کی ہندوانہ رسمیں کریں اور نہ ہی یہ میت کےلواحقین پر فرض ہے کہ اقرباء کو ہر موقع پر جمع کر کے کھانا کھلائیں ۔
دراصل یہ بدعت صرف ہندوون کی دیکھا دیکھی محض نام آوری کی غرض سے نکالی گئ ہے۔
اگر مردوں کے لیئے یہ رسومات لازمی ہوتیں تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور اپنی صاحبزادیوں حضرت زینب ، حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نہ صرف ا ن کی وفات کے بعد قل اور تیجہ فرماتے ، بلکہ ساتا ، دسواں ، چالیسواں یا چہلم اور ہر سال عرس و برسی کا بھی اہتمام فرماتے ۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رسمیں انجام نہیں دیں ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام نہیں کیئے تو ہمارے لیئے یہ کام کہاں سے جائز ، لازم اور ثابت ہو گئے ؟
آج عالم یہ ہے کہ اگر کوئی ان جاہلانہ رسوم سے نکلنا چاہے تو خاندان اور برادری والوں کے طعنوں کےڈر سے نہیں نکلتا کہ لوگ برابھلا کہیں گے جیسے کہ ان رسموں کے چھوڑ دینے والوں کو ان کے بدعتی قربت داروں اور برادری والوں کی طرف سے کہا جاتا ہے ﴿ ان میں بفضل اللہ تعالیٰ میں بھی شامل ہوں جو کہ ترک تقلید و شرک و بدعات کے بعد آج بحمداللہ اہل حدیث ور موحد ہوں ﴾ حالا نکہ اس معاملے میں کسی ملامت کےنے والے کی ملامت اور طعنے وغیرہ سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیئے اورنہ ہی حق پر عمل پیرا ہونے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرنا چاہیئے ۔
جب مشرک و بدعتی اللہ کے حضور بدعت کرتے ہوئے نہیں شرماتا تو ہم سنت کے مطابق اللہ کے دین پر عل پیرا ہونے میں شرمندگی کیوں محسوس کریں۔
برادران اسلام ۔ یہ رسمیں اسلام اور احکام اسلام کے سراسر مخالف ہیں اور ہنود کی رسومات کے مشابہ ہیں جنہیں مسلمانان برصغیر نے انکی دیکھا دیکھی میں اختیار کر لیا ہے جو اب مسلہ سمجھ میں آجانے کے بعد چھوڑنے کے قابل ہے ۔
یاد رکھیئے ہم دین میں اپنی جانب سے نہ کمی کرنے کے مجاز ہیں اور نہ ہی زیادتی کے۔ یہ رسومات دین میں اضافہ ہیں اور بدعت ہیں۔ اگر آپ قیامت کےدن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کےطلب گا راور حق تعالیٰ کی رحمت کے خوہاں ہیں تو بدعات سے اپنا دامن آج ہی چھڑا کر توبہ کرلیں اوراپنے عقائد و اعمال کی اصلاح فرما لیں ۔
 
Top